Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار!


نئی دہلی:30  اگست ، 2020:

میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار!

عام طور پر یہ وقت اُتسو کا ہوتا ہے، جگہ جگہ میلے لگتے ہیں، مذہبی پوجا پاٹھ ہوتے ہیں، کورونا کے اس مشکل دور میں لوگوں میں امنگ تو ہے اُتساہ بھی ہے لیکن ہم سب کے من کو چھو جائے ویسا ڈسپلن بھی ہے۔ بہت ایک روپ میں  دیکھا جائے تو شہریوں میں ذمہ داری کا احساس بھی ہے۔ لوگ اپنا دھیان رکھتے ہوئے، دوسروں کا دھیان رکھتے ہوئے اپنے روز مرہ کےکام بھی کررہے ہیں۔ ملک میں ہورہے ہر پروگرام میں جس طرح کی قوت برداشت اور سادگی اس بار دیکھی جارہی ہے وہ غیرمعمولی ہے۔  گنیش اُتسو بھی کہیں آن لائن منایا جارہا ہے تو زیادہ تر جگہوں پر اس بار ایکو فرینڈلی گنیش جی کامجسمہ نصب کیا گیا ہے۔ ساتھیو، ہم بہت باریکی سے اگر دیکھیں گے تو ایک بار ضرور ہمارے ذہن میں آئے گی، ہمارے تہوار اور ماحولیات ان دونوں کے درمیان ایک بہت گہرا ناطہ رہا ہے۔ جہاں ایک طرف ہمارے  تہواروں میں ماحولیات اور فطرت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا پیغام چھپا ہوتا ہے تو دوسری جانب کئی سارے تہوار فطرت کے تحفظ کیلئے ہی منائے جاتے ہیں۔ جیسے بہار کے مغربی چمپارن میں صدیوں سے تھارو آدیواسی سماج کے لوگ 60 گھنٹے کے لاک ڈاؤن یا ان کے ہی الفاظ میں کہیں تو 60 گھنٹے کے برنا کا پالن کرتے ہیں۔ فطرت کے تحفظ کیلئے برنا کو تھارو سماج نے اپنی روایت کاحصہ بنالیا ہے اور صدیوں سے بنایا ہے۔ اس دوران نہ کوئی گاؤں میں آتا ہے اور نہ ہی کوئی اپنے گھروں سے باہر نکلتا ہے اور لوگ مانتے ہیں کہ اگر وہ باہر نکلے یا کوئی باہر سے آیا تو ان کے آنے جانے سے لوگوں کی روز مرہ کی سرگرمیوں سے نئے پیڑ پودوں کو نقصان ہوسکتا ہے۔ برنا کی شروعات میں شاندار طریقے سے ہمارے آدیواسی بھائی بہن  پوجاپاٹھ کرتے ہیں اور اس کے اختتام پر آدیواسی روایت کے گیت، سنگیت، رقص جم کرکے اس کے پروگرام بھی ہوتے ہیں۔

ساتھیو، ان دنوں اونم  کا تہوار بھی دھوم دھام سے منایاجارہا ہے۔ یہ تہوار چن گم مہینے میں آتا ہے، اس دوران لوگ  کچھ نیا خریدتے ہیں، اپنے گھروں کو سجاتے ہیں، کوک کلم بناتے ہیں، اونم – سادیہ کا لطف لیتے ہیں۔ طرح طرح کے کھیل  اور مسابقے بھی ہوتے ہیں۔ اونم کی دھوم تو آج دور دراز ملکوں تک پہنچی ہوئی ہے، امریکہ ہو ، یورپ ہو یا خلیجی ملک ہوں اونم کا جشن آپ کو ہر جگہ مل جائے گا۔ اونم ایک انٹرنیشنل فیسٹول بنتا جارہا ہے۔

ساتھیو، اونم ہماری زراعت سے جڑا ہوا تہوار ہے، یہ ہماری دیہی معیشت کیلئے بھی ایک نئی شروعات کا وقت ہوتا ہے۔ کسانوں کی طاقت سے ہی تو ہماری زندگی، ہمارا سماج چلتا ہے، ہمارے تہوار کسانوں کی محنت سے ہی رنگ برنگے بنتے ہیں۔ ہمارے اَن داتا کو کسانوں کی  زندگی دینے والی طاقت کو تو ویدوں میں بھی بہت فخریہ طور سے سلام کیا گیا ہے۔ رگ وید میں ایک منتر ہے۔

اَنّا نم پتائے نماہ

چھیترا نام پتائے نماہ

جس کا مطلب ہے اَن داتا کو سلام ہے ، کسان کو سلام ہے۔ ہمارے کسانوں نے کورونا کےاس مشکل حالات میں بھی اپنی طاقت کو ثابت کیا ہے۔ ہمارے ملک میں اس بار خریف کی فصل کی بوائی پچھلے سال کے مقابلے سات فیصد زیادہ ہوئی ہے۔

دھان کی روپائی اس بار تقریباً 10فیصد ، دالیں لگ بھگ 5فیصد، موٹے اناج لگ بھگ 3 فیصد، تلہن لگ بھگ 13فیصد، کپاس لگ بھگ 3فیصد زیادہ بوئی گئی ہے۔ میں اس کے لئے ملک کے کسانوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ان کی محنت کو سلام کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنوٍ! کورونا کے اس دور میں ملک کئی مورچے پر ایک ساتھ لڑرہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی بار من میں یہ بھی سوال آتا رہا کہ اتنے لمبے عرصے تک گھروں میں رہنے کے سبب میرے چھوٹے چھوٹے بچے دوستوں کا وقت کیسے گزرتا ہوگا اور اسی سے میں نے گاندھی نگر کی چلڈرن یونیورسٹی جو دنیا میں ایک الگ طرح کا پریوگ ہے۔ حکومت ہند کی خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت، تعلیم کی وزارت ، بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانہ درجے کی صنعتوں کی وزارت ان سبھی کے ساتھ ملکر ہم بچوں کیلئے کیاکرسکتے ہیں، اس پر غور وفکر کیا۔ میرے لیے یہ بہت خوش آئند تھا۔ فائدے مند بھی تھا کیوں کہ ایک طرح سے یہ میرے لیے بھی کچھ نیا جاننے کانیا سیکھنے کا موقع بن گیا۔

ساتھیو، ہمارے غور وفکر کا موضوع تھا کھلونے اور بالخصوص ہندوستانی کھلونے۔ ہم نے اس بات پر غور وفکر کیا کہ ہندوستان کے بچوں کو نئے نئے کھلونے کیسے ملے ، ہندوستان ٹوائے پروڈکشن کابہت بڑا ہب کیسے بنے، ویسے میں، من کی بات سن رہے بچوں کے ماں باپ سے معافی مانگتا ہوں کیوں کہ ہوسکتا ہے انہیں اب یہ من کی بات سننے کے بعد کھلونوں کی نئی نئی مانگ سننے کا شاید ایک نیا کام سامنے آجائیگا۔

ساتھیو، کھلونے جہاں ایکٹیویٹی کو بڑھانے والے ہوتے ہیں تو کھلونے ہماری آرزوؤں کو بھی اُڑان دیتے ہیں۔ کھلونے صرف من ہی نہیں بہلاتے،کھلونے من بناتے بھی ہیں اور مقصد گڑھتے بھی ہیں۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ کھلونوں کے معاملے میں گرو دیورابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا کہ بہترین کھلونا وہ ہوتا ہے جو نامکمل ہو۔ ایسا کھلونا جو ادھورا ہو اور بچے مل کر کھیل کھیل میں اسے پورا کریں۔ گرو دیو ٹیگور نے کہا تھا کہ جب وہ چھوٹے تھے تو خود کے تصور سے گھر میں ملنے والے سامانوں سے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے کھلونے اور کھیل بنایا کرتے تھے لیکن ایک دن بچپن کے ان موج مستی بھرے پلوں میں بڑوں کا دخل ہوگیا۔ ہوایہ تھا کہ ان کا ایک ساتھی ، ایک بڑا اور سندر سا غیرملکی کھلونا لیکر آگیا۔ کھلونے کو لیکر اتراتے ہوئے اب سب ساتھی کا دھیان کھیل سے زیادہ کھلونے پر رہ گیا۔ ہر کسی کے توجہ کا مرکز کھیل نہیں رہا،کھلونا بن گیا۔ جو بچہ کل تک سب کے ساتھ کھیلتا تھا، سب کے ساتھ رہتا تھا، گھل مل جاتا تھا، کھیل میں ڈوب جاتا تھا وہ اب دور رہنے لگا۔ ایک طرح سے باقی بچوں سے بھید کا بھاؤ اس کے من میں بیٹھ گیا۔ مہنگے کھلونے میں بنانے کیلئے بھی کچھ نہیں تھا، سیکھنے کیلئے بھی کچھ نہیں تھا۔ یعنی ایک جاذب نظر کھلونے نے ایک متجسس بچے کو کہیں دبا دیا، چھپادیا، مرجھا دیا۔ اس کھلونے نے دولت کا، جائیداد کا، ذرا برکپن کی نمائش کرلی لیکن اس بچے کے تخلیقی جذبے کو  بڑھنے اور سنورنے  سے روک دیا۔ کھلونا تو آگیا پر کھیل ختم ہوگیا اور بچے کا کھلنا بھی کھوگیا۔ اس لئے گرودیو کہتے تھے کہ کھلونے ایسے ہونے چاہئے جو بچے کے بچپن کو باہر لائے اس کی تخلیقیت کو سامنے لائے۔ بچوں کی زندگی کے  الگ الگ پہلو پر کھلونوں کا جو اثر ہے اس پر قومی تعلیمی پالیسی میں بھی بہت دھیان دیا گیا ہے۔ کھیل کھیل میں سیکھنا، کھلونے بنانا سیکھنا، کھلونے جہاں بنتے ہیں وہاں کی وِزٹ کرنا، ان سب کو تعلیمی نصاب کاحصہ بنایا گیا ہے۔

ساتھیو، ہمارے ملک میں لوکل کھلونوں کی بہت عظیم روایت رہی ہے، کئی ہنرمند اور ماہر کاریگر ہیں جو اچھے کھلونے بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے کچھ علاقے ٹوائے کلسٹر یعنی کھلونوں کے مرکز کے طور پر بھی ترقی پارہے ہیں۔  جیسے کرناٹک کے رام  نگرم میں چنّاپٹنا، آندھرا پردیش کے کرشنا میں کنڈاپلی، تملناڈو میں تنجور، آسام میں ڈھبری، اترپردیش کا وارانسی کئی ایسی جگہ ہیں، کئی نام گنا سکتے ہیں، آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ عالمی کھیلوں کی صنعت 7 لاکھ کروڑ روپئے سے بھی زیادہ کی ہے۔ سات لاکھ کروڑ روپئے کا اتنا بڑا کاروبار لیکن ہندوستان کا حصہ اس میں بہت کم ہے۔

اب آپ سوچئے کہ جس ملک کے پاس اتنی وراثت ہو، روایت ہو، تنوع ہو، نوجوان آبادی ہو، کیا کھلونوں کے بازار میں اس کی حصے داری اتنی کم ہونی، ہمیں اچھا لگے گاکیا، جی نہیں۔ یہ سننے کے بعد آپ کو بھی اچھا نہیں لگے گا۔ دیکھئے ساتھیو، کھیلوں کی صنعت بہت وسیع ہے ۔ گھریلو صنعت ہو، چھوٹے اور بہت چھوٹی صنعت ہو، ایم ایس ایم ای ہو، اس کے ساتھ ساتھ بڑی صنعت اور نجی صنعت بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ اسے آگے بڑھانے کیلئے  ملک کو ملکر محنت کرنی ہوگی۔ اب جیسے آندھرا پردیش کے وشاکھاپٹنم میں سری مان سی وی راجو ہیں، ان کے گاؤں کے اے پی- کوپکا ٹوائس ایک وقت میں بہت مقبول تھے۔ ان کی خاصیت یہ تھی کہ یہ کھلونے لکڑی سے بنتے تھے اور دوسری بات یہ کہ ان کھلونوں میں آپ کو کہیں کوئی اینگل یا کون نہیں ملتا تھا۔ یہ کھلونے ہر طرف سے راؤنڈ ہوتے تھے اس لئے بچوں کو چوٹ کی بھی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔ سی وی راجو نے اے پی کوپکا ٹوائس کیلئے اب اپنے گاؤں کے کاریگروں کے ساتھ ملکر ایک طرح سےنئی تحریک شروع کردی ہے۔ بہترین کوالٹی کے اے پی  کوپکا ٹوائز بناکر سی وی راجو نے مقامی کھلونوں کی کھوئی ہوئی عزت کو واپس لادیا ہے۔ کھلونوں کے ساتھ ہم دو چیزیں کرسکتے ہیں۔ اپنے قابل فخر ماضی کو اپنی زندگی میں پھر سے اتار سکتے ہیں اور اپنے سنہرے مستقبل کو بھی سنوار سکتے ہیں۔ میں اپنے اسٹارٹ اپ دوستوں کو اپنے نئے صنعت کاروں سے کہتاہوں، ٹیم اپ فار ٹوائز، آئیے ملکر کھلونے بنائیں۔ ہم سبھی کیلئے لوکل کھلونوں کیلئے ووکل ہونے کا وقت ہے۔ آئیے ہم اپنے نوجوانوں کیلئے کچھ نئے قسم کے اچھی کوالٹی والے کھلونے بناتے ہیں۔ کھلونا وہ ہو جس کی موجودگی میں بچپن کھلے بھی، کھلکھلائے بھی۔ ہم ایسے کھلونے بنائیں جو ماحولیات کے بھی موافق ہوں۔

ساتھیو، اسی طرح اب کمپیوٹر اور اسمارٹ فون کے اس زمانے میں کمپیوٹر گیمس کا بھی بہت ٹرینڈ ہے۔ یہ گیمس بچے بھی سیکھتے ہیں، بڑے بھی کھیلتے ہیں ، لیکن ان میں بھی جتنے گیمس ہوتے ہیں ان کی تھیم بھی زیادہ تر باہر کی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں اتنے آئیڈیاز ہیں، اتنے تصورات ہیں، بہت مضبوط ہماری تاریخ رہی ہے۔ کیا ہم ان پر گیمس بناسکتے ہیں۔ میں ملک کے نوجوان ٹیلنٹ سے کہتا ہوں آپ بھارت میں بھی گیمس بنائیے اور بھارت کے بھی گیمس بنائیے۔ کہا بھی جاتا ہے لیٹ دی گیمس بیگن ، تو چلو کھیل شروع کرتے ہیں۔

ساتھیو، آتم نربھر بھارت ابھیان میں ورچوول گیمس ہوں، ٹوائز کا سیکٹر ہو، سب کو بہت اہم کردار نبھانی ہے اور یہ موقع بھی ہے۔ جب آج سے 100 برس پہلے عدم تعاون کی تحریک شروع ہوئی تو گاندھی جی نے لکھا تھا کہ ‘‘عدم تعاون کی تحریک ہم وطنوں میں عزت نفس اور اپنی طاقت  بتلانے کی ایک کوشش ہے’’۔

آج جب ہم ملک کو آتم نربھر بنانے کی کوشش کررہے ہیں تو پورے  اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ہر علاقے میں ملک کو آتم نربھر بنانا ہے۔ تحریک عدم تعاون کی شکل میں جو بیج بویا گیا تھا اب آتم نربھر بھارت کے تن آور درخت  میں اضافہ کرنا ہم سب کا فرض ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستانیوں کے انّوویشن اور سولوشن دینے کی صلاحیت کا لوہا ہر کوئی مانتا ہے اور جب مکمل جذبہ ہو، سمویدنا ہو تو یہ طاقت عظیم بن جاتی ہے۔ اس مہینے کی شروعات میں ملک کے نوجوانوں کے سامنے ایک ایپ انّوویشن چیلنج رکھا گیا۔ اس آتم نربھر بھارت ایپ انّوویشن چیلنج میں ہمارے نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ قریب 7 ہزار انٹریز آئی، اس میں بھی قریب قریب دو تہائی ایپس ٹیئرٹو اور ٹیئر تھری شہروں کے نوجوانوں نے بنائے ہیں۔ یہ آتم نربھر بھارت کے لئے ملک کے مستقبل کیلئے بہت ہی خوش آئند ہیں۔ آتم نربھر ایپ انّوویشن چیلنج کے نتائج دیکھ کر آپ ضرور متاثر ہوں گے۔ کافی جانچ پرکھ کے بعد الگ الگ کٹیگری میں لگ بھگ دو درجن ایپس کو ایوارڈ بھی دیے گئے ہیں۔ آپ ضرور ان ایپس کے بارے میں جانیں اور ان سے جڑیں  ہوسکتا ہے آپ بھی ایسا کچھ بنانے کیلئے حوصلہ پاجائیں۔ ان میں ایک ایپ ہے اوٹوکی، کڈس،لرننگ ایپ، یہ چھوٹے بچوں کیلئے ایسا انٹرایکٹیو ایپ ہے جس میں گانوں اور کہانیوں کے ذریعے بات بات میں ہی بچے میتھ سائنس میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اس میں ایکٹیویٹیز بھی ہیں،کھیل بھی ہیں، اسی طرح ایک مائیکروبلاگنگ پلیٹ فارم کا بھی ایپ ہے جس کا نام ہے کو-کے او او کو، اس میں ہم اپنی مادری زبان میں ٹیکس ویڈیو اور آڈیو کے ذریعے اپنی بات رکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح چنگاری ایپ بھی نوجوانوں کے درمیان کافی مقبول ہورہا ہے۔ ایک ایپ ہے آسک سرکار، اس میں چیٹ بورڈ کے ذریعے آپ انٹرایکٹ کرسکتے ہیں اور کسی بھی سرکاری یوجنا کے بارے میں صحیح جانکاری حاصل کرسکتے ہیں۔ وہ بھی ٹیکس آڈیو اور ویڈیو تینوں طریقے سے  یہ آپ کی بڑی مدد کرسکتا ہے۔ ایک اور ایپ ہے اسٹیپ سیٹ گو، یہ فٹنیس ایپ ہے ، آپ کتنا چلے، کتنی کیلوریز برن کی، یہ سارا حساب یہ ایپ رکھتا ہے اور آپ کو فٹ رہنے کیلئے تحریک بھی دیتا ہے۔ میں نے یہ کچھ ہی مثال دیے ہیں ، کئی اور ایپس نے بھی اس چیلنج کو جیتا ہے۔ کئی بزنس ایپس ہیں، گیمس ک ایپ ہیں جیسے اِز ایکول ٹو ،بکس اینڈ اسپینس، زوہو، ورک پلیس، ایف ٹی سی ٹیلنٹ، آپ ان کے بارے میں نیٹ پر سرچ کریئے آپ کو بہت جانکاری ملے گی۔ آپ بھی آگے آئیے، کچھ انّوویٹ کریں، کچھ ایمپلی مینٹ کریں آپ کی کوشش آج کے چھوٹے چھوٹے اسٹارٹ اپس کل بڑی بڑی کمپنیوں میں بدلیں گے اور دنیا میں بھارت کی پہچان بنیں گے اور آپ یہ مت بھولیے کہ آج جو دنیا میں بہت بڑی بڑی کمپنیاں نظرآتی ہیں نا، یہ بھی کبھی  اسٹارٹ اپ ہوا کرتی تھی۔

پیارے ہم وطنو! ہمارے یہاں کے بچے ، ہمارے طلباء اپنی پوری طاقت دکھا پائیں، اپنی قوت دکھا پائیں، اس میں بہت بڑا رول نیوٹریشن کا بھی ہوتا ہے، تغذیہ کا بھی ہوتا ہے ، پورے ملک میں ستمبر مہینے کو تغذیے کا مہینہ نیوٹریشن منتھ کی شکل میں منایا جائیگا، نیشن اور نیوٹریشن کا بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں ایک کہاوت ہے ، یتھا انّم تتھا منّم، یعنی جیسی غذا ہوتی ہے ویسی ہی ہماری ذہنی اور دماغی ترقی بھی ہوتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بچے کو رحم میں اور بچپن میں جتنی اچھی غذا ملتی ہے اتنا اچھا اس کی ذہنی ترقی ہوتی ہے اور صحتمند رہتا ہے۔ بچوں کے تغذیے کےلئے بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ ماں کو بھی پوری غذا ملے اور تغذیہ یا نیوٹریشن کامطلب صرف اتنا ہی نہیں ہوتا کہ آپ کیا کھا رہے ہیں ، کتنا کھا رہے ہیں، کتنی بار کھا رہے ہیں، اس کا مطلب ہے آپ کے جسم کو کتنے ضروری غذائی اجزاء، نیوٹرینس مل رہے ہیں۔ آپ کو آئرن کیلشیم مل رہے ہیں یا نہیں،سوڈیم مل رہا ہے یا نہیں، وٹامنس مل رہے ہیں یا نہیں، یہ سب نیوٹریشن کے بہت اہم پہلو ہیں۔ نیوٹریشن کی اس مہم میں عوامی شراکت داری بھی بہت ضروری ہے۔ عوامی شراکت داری ہی اس کو کامیاب بناتی ہے۔پچھلے کچھ برسوں میں اس سمت میں ملک میں کافی کوششیں کی گئیں۔ خاص کر ہمارے گاؤں میں اسے جن بھاگیداری سے  جن آندولن بنایاجارہا ہے۔ تغذیہ ہفتہ ہو، تغذیہ ماہ ہو، ان کے ذریعے سے زیادہ سے زیادہ بیداری پیدا کی جارہی ہے۔ اسکولوں کو جوڑا گیا ہے۔ بچوں کیلئے  مقابلے ہوں، ان میں بیداری بڑھے، اس کے لئے بھی لگاتار کوشش جاری ہے۔ جیسے کلاس میں ایک کلاس مانیٹر ہوتاہے اسی طرح نیوٹریشن مانیٹر بھی ہو۔ رپورٹ کارڈ کی طرح نیوٹریشن کارڈ بھی بنے اس طرح کی بھی شروعات کی جارہی ہے۔ تغذیہ ماہ نیوٹریشن منتھ کے دوران MyGov پورٹل پر ایک فوڈ ا ور نیوٹریشن کوئز کا بھی انعقاد کیاجائیگا اور ساتھ ہی ایک میم مسابقہ بھی ہوگا، آپ خود شرکت کریں اور دوسروں کو بھی تحریک دیں۔

ساتھیو، اگر آپ کو گجرات میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کے اسٹیچو آف یونٹی،مجسمہ اتحاد جانے کا موقع ملا ہوگا اور کووڈ کے بعد جب وہ کھلے گا اور آپ کو جانے کا موقع ملے گا تو وہاں ایک نادر قسم کا نیوٹریشن پارک بنایا گیا ہے، کھیل کھیل میں ہی نیوٹریشن کی تعلیم لطف کے ساتھ وہاں ضرور دیکھ سکتے ہیں۔

ساتھیو، بھارت ایک عظیم  ملک ہے ، کھان پان میں ڈھیر ساری تنوع ہے ، ہمارے ملک میں چھ الگ الگ موسم ہوتےہیں،الگ الگ علاقوں میں وہاں کے موسم کے لحاظ سے الگ الگ چیزیں پیداہوتی ہیں، اس لئے یہ بہت ہی اہم ہے کہ ہر علاقے کے موسم وہاں کے مقامی کھانے اور وہاں پیدا ہونے والے اناج، پھل، سبزیوں کے مطابق ایک تغذیہ سے بھرپور ڈائٹ پلان بنے۔ اب جیسے ملیٹس موٹے اناج راگی ہے، جوار ہے یہ بہت فائدے مند تغذیاتی غذا ہے۔ ایک بھارتی کرشی کوش تیار کیا جارہا ہے اس میں ہمارے ایک ضلع میں کیا کیا فصل ہوتی ہے ان کی تغذیاتی ویلو کتنی ہے اس کی پوری جانکاری ہوگی۔ یہ آپ سب کیلئے بڑے کام کا کوش ہوسکتا ہے۔ آئیے تغذیہ ماہ میں غذائیت سے بھرپور کھانے اور صحتمند رہنے کیلئے ہم سبھی کو ترغیب دیں۔

پیارے ہم وطنو، بیتے دنوں جب ہم اپنا یوم آزادی منارہے تھے تب ایک دلچسپ خبر پر میرا دھیان گیا۔ یہ خبر ہے ہمارے سیکورٹی فورسز کے دو جانباز کرداروں کی، ایک ہے سوفی اور دوسرا وِدا، سوفی اور وِدا انڈین آرمی کے ڈاگس ہیں اور انہیں چیف آف آرمی اسٹاف کمنڈیشن کارڈس سے نوازا گیا ہے۔ سوفی اور وِدا کو یہ اعزاز اسلئے ملا کیونکہ انہوں نے اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہوئے اپنا فرض بخوبی نبھایا ہے۔ ہماری افواج میں ہمارے سیکورٹی فورسز کے پاس ایسے کتنے ہی بہادر ڈاگس ہیں جو ملک کے لئے جیتے ہیں اور ملک کے اپنی قربانی بھی دیتے ہیں۔ کتنے ہی بم دھماکوں کو، کتنی ہی دہشت گردانہ سازشوں کو روکنے میں ایسے ڈاگس نے بہت اہم رول نبھایا ہے۔ کچھ وقت پہلے مجھے ملک کی سیکورٹی  میں ڈاگس کے رول کے بارے میں نہایت تفصیل سے جاننے کو ملا، کئی قصے بھی سنے، ایک ڈاگ بلرام نے 2006  میں امرناتھ یاترا کے راستے میں بڑی مقدار میں گولہ بارود کھوج نکالا تھا۔ 2002 میں ڈاگ بھاؤنا نے آئی ای ڈی کھوجا تھا، آئی ای ڈی نکالنے کے دوران دہشت گردوں نے دھماکہ کردیا اور ڈاگ شہید ہوگئے۔ دو تین برس پہلے چھتیس گڑھ کے بیجا پور میں سی آر پی ایف کا اسنیفر ڈاگ ‘‘کریکر’’ بھی  آئی ای ڈی بلاسٹ میں شہید ہوگیا تھا۔ کچھ دن پہلے ہی آپ نے شاید ٹی وی پر ایک بڑا جذباتی بنا دینے والا منظر دیکھا ہوگا جس میں بیڈ پولیس اپنے ساتھی ڈاگ راکی کو پورے اعزاز کے ساتھ آخری وداعی دے رہی تھی۔ راکی نے 300 سے زیادہ کیسوں کو سلجھانے میں پولیس کی مدد کی تھی، ڈاگس کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور رسکیو مشن میں بھی بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ بھارت میں تو نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فورس این ڈی آر ایف نے ایسے درجنوں ڈاگس کو خصوصی طور پر ٹرینڈ کیا ہے۔ کہیں زلزلہ آنے پر عمارت گرنے پر  ملبے میں دبے زندہ لوگوں کو کھوج نکالنے میں یہ ڈاگس بہت ایکسپرٹ ہوتے ہیں۔

ساتھیو، مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ انڈین بریڈ کے ڈاگس بھی بہت اچھے ہوتے ہیں، بہت اہل ہوتے ہیں ، انڈین بیڈس میں موگھول ہاؤنڈ ہیں، ہماچلی ہاؤنڈ ہیں،یہ بہت ہی اچھی نسلیں ہیں۔ راجا پلایم، کنّی چپی پرائی اور کومبائی بھی بہت شاندار انڈین بریڈس ہیں۔ ان کو پالنے میں خرچ بھی کافی کم آتا ہے اور یہ ہندوستانی ماحول میں ڈھلے بھی ہوتے ہیں۔ اب ہماری سیکورٹی ایجنسیوں نے انڈین بریڈس کے ڈاگس کو اپنے سیکورٹی دستے میں شامل کررہی ہیں۔ پچھلے کچھ وقت میں آرمی، سی آئی ایس ایف ، این ایس جی نے موگھول ہاؤنڈ ڈاگس کو ٹرینڈ کرکے ڈاگ اسکوارڈ میں شامل کیا ہے۔ سی آر پی ایف نے کومبائی ڈاگس کو شامل کیا ہے۔ انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ بھی بھارتی نسل کے ڈاگس پر ریسرچ کررہی ہے۔ مقصد یہی ہے کہ انڈین بریڈس کو اور بہتر بنایا جاسکے اور سودمند بنایا جاسکے۔ آپ انٹرنیٹ پر ان کے نام سرچ کریے ان کے بارے میں جانیے، آپ ان کی خوبصورتی، ان کی کوالٹیز دیکھ کر حیران ہوجائیں گے۔ اگلی بار جب بھی آپ ڈاگ پالنے کی سوچیں، آپ ضرور ان میں سے ہی کسی انڈین بریڈ کے ڈاگ کو گھر لائیں۔ آتم نربھر بھارت جب جن من کا منتر بن ہی رہا ہے تو کوئی بھی شعبہ اس سے پیچھے کیسے چھوٹ سکتا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، کچھ دنوں بعد 5 ستمبر کو ہم یوم اساتذہ منائیں گے، ہم سب جب  اپنی زندگی کی کامیابیوں کو اپنی زندگی کے سفر کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنے کسی نہ کسی استاذ کی یاد ضرور آتی ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے وقت اور کورونا کے مشکل دور میں ہمارے اساتذہ کے سامنے بھی وقت کے ساتھ بدلاؤ کی ایک چنوتی لگتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے اساتذہ نے اس چنوتی کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے موقع میں بدل بھی دیا ہے۔ پڑھائی میں تکنیک کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیسے ہو، نئے طریقوں کو کیسے اپنائیں، طلباء کو مدد کیسے کریں، یہ ہمارے اساتذہ نے بحسن وخوبی اپنایا ہے اور اپنے طلباء کو بھی سکھایا ہے۔ آج ملک میں ہر جگہ کچھ نہ کچھ انّوویشن ہورہے ہیں، استاذ اور طالب علم ملکر کچھ نیا کررہے ہیں، مجھے یقین ہے کہ جس طرح ملک میں قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے ایک بڑا بدلاؤ ہونے جارہا ہے ہمارے اساتذہ اس کا بھی فائدہ طلباء تک پہنچانے میں اہم رول نبھائیں گے۔

ساتھیو اور بالخصوص میرے اساتذہ ساتھیو، سال 2022 میں ہمارا ملک آزادی کے 75 سال کا جشن منائیگا، آزادی کے پہلے متعدد برسوں تک ہمارے ملک میں آزادی کی جنگ اس کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ اس دوران ملک کا کوئی کونا ایسا نہیں تھا جہاں آزادی کے متوالوں نے اپنی جان نچھاور نہ کی ہوں، اپناسب کچھ قربان نہ کیاہو، یہ بہت ضروری ہے کہ ہماری آج کی نسل ، ہمارے طلباء آزادی کی جنگ، ہمارے ملک کے جانبازوں سے واقف رہیں، اسے اتنا ہی محسوس کریں، اپنے ضلع سے اپنے علاقے میں آزادی کی تحریک کے وقت کیا ہوا، کیسے ہوا، کون شہید ہوا، کون کتنے وقت تک ملک کے لئے جیل میں رہا، یہ باتیں ہمارے طلباء جانیں گے تو ان کی شخصیت میں بھی  اس کا اثر دِکھے گا۔  اس کے لئے بہت سے کام کیے جاسکتے ہیں جس میں ہمارے اساتذہ کی بڑی ذمہ داری ہے۔ جیسے آپ جس ضلع میں ہیں وہاں صدیوں تک جو آزادی کا جنگ چلا ان آزادیوں کے جنگ میں وہاں کوئی واقعات رونما ہوئے ہیں کیا؟ اسے لیکر طلباء سے تحقیق کروائی جاسکتی ہے۔ اسے اسکول کے ہاتھ سے لکھے ہوئے نمبر کے طور پر تیار کیا جاسکتا ہے۔ آپ کے شہر میں آزادی کی تحریک سے جڑا کوئی جگہ ہو تو طلباء اور طالبات کو وہاں لے جاسکتے ہیں۔ کسی اسکول کے طلباء ٹھان سکتے ہیں کہ وہ آزادی کے 75برس میں اپنے علاقے کے 75مجاہدین آزادی پر نظمیں لکھیں گے، ڈرامے لکھیں گے، آپ کی کوشش ملک کے ہزاروں، لاکھوں، نامعلوم جانبازوں کو سامنے لائیں گے جو ملک کیلئے جیے، جو ملک کے لیے کھپ گئے، جن کے نام وقت کے ساتھ کھوگئے۔ ایسی اہم شخصیات کو اگر ہم سامنے لائیں گے، آزادی کے 75برس میں انہیں یاد کریں گے تو ان کو سچا خراج عقیدت ہوگا اور جب 5ستمبر کو یوم اساتذہ منارہے ہیں تب میں اپنے اساتذہ ساتھیوں سے ضرور اپیل کروں گا کہ وہ اس کے لئے ایک ماحول بنائیں ، سب کو جوڑیں اور سب مل کر جٹ جائیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ملک آج جس ترقی کے سفر پر چل رہا ہے، اس کی کامیابی خوش آئند تبھی ہوگی جب  ہرایک ملک کا شہری اس میں شامل ہو، اس سفر کا مسافر ہو، اس منزل کا راہی ہو، اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہر ایک شہری صحتمند رہے، سکھی رہے اور ہم ملکر کے کورونا سے پوری طرح سے ہرائیں۔کورونا تبھی ہارے گا جب آپ محفوظ رہیں گے، جب آپ ‘‘دو گز کی دوری، ماسک ضروری’’ اس عہد کی پوری طرح سے اتباع کریں گے۔ آپ سب صحتمند رہیے، خوش رہیے، ان ہی نیک تمناؤں کے ساتھ اگلی من کی بات میں پھر ملیں گے۔

بہت بہت شکریہ ، نمسکار۔

———————–

م ن۔م ع۔ ع ن

U NO:4927