Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

31 جولائی ، 2022 ء کو ’ من کی بات ‘ کی 91 ویں کڑی میں وزیر اعظم کا خطاب


میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار !

یہ ’من کی بات ‘کی 91ویں کڑی ہے۔ ہم  لوگوں نے پہلے اتنی ساری باتیں کی ہیں، الگ الگ موضوعات پر اپنی باتوں کو ساجھا کیا ہے  لیکن اس مرتبہ ’ من کی بات ‘ بہت خاص ہے۔ اس کی وجہ ہے ، اس مرتبہ  کا یوم آزادی  ، جب  بھارت اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کرے گا۔  ہم سبھی بہت ہی شاندار اور تاریخی لمحے کے گواہ بنیں گے ۔ ایشور نے ہمارے لئے بہت بڑی خوش قسمتی رکھی ہے۔ آپ بھی سوچیئے  ، اگر ہم غلامی کے دور میں پیدا ہوئے  ہوتے تو اس دن کا تصور ہمارے لئے کیسا ہوتا ؟ غلامی سے  نجات کی وہ تڑپ،غلامی کی زنجیروں سے آزادی کی وہ بے چینی- کتنی زیادہ رہی ہوگی۔ وہ دن ، جب ہم ہر دن لاکھوں ہم وطنوں کو آزادی کے لئے لڑتے ، جوجھتے ، قربانی دیتے دیکھ رہے  ہوتے ۔ اب ہم ہر صبح  اس خواب کے ساتھ جاگتے کہ میرا بھارت کب آزاد ہوگا اور  ہو سکتا ہے ، ہماری زندگی میں وہ دن بھی آتا ، جب بندے ماترم اور بھارت ماتا کی جے بولتے ہوئے ، ہم آنے والی نسلوں کے لئے اپنی زندگی قربان کر دیتے ، زندگی کھپا دیتے  ۔

ساتھیو ، 31 جولائی یعنی  آ ج ہی کے دن ، ہم تمام اہل وطن، شہید اودھم سنگھ جی کی شہادت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ میں ، ایسے دیگر تمام عظیم انقلابیوں کو  اپنا خراج عقیدت پیش کرتا ہوں  ، جنہوں نے ملک کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ۔

ساتھیو ،  مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے کہ آزادی کا امرت مہوتسو ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ اس سے متعلق مختلف پروگراموں میں زندگی کے تمام شعبوں اور معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ شرکت کر رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک پروگرام اس ماہ کے شروع میں میگھالیہ میں  منعقد ہوا ۔ میگھالیہ کے بہادر مجاہد  ، یو  تیروت سنگھ  جی کی برسی پر لوگوں نے انہیں یاد کیا ۔ تروت سنگھ جی نے خاصی ہلس پر کنٹرول کرنے اور وہاں کی ثقافت پر حملہ کرنے کی برطانوی سازش کی شدید مخالفت کی تھی ۔ اس پروگرام میں بہت سے  فن کاروں نے  خوبصورت فن کا مظاہرہ کیا ۔ انہوں نے تاریخ کو زندہ کر دیا ۔ اس میں ایک کارنیوال کا بھی اہتمام کیا گیا تھا  ، جس میں میگھالیہ کی عظیم ثقافت کو بہت خوبصورت انداز میں دکھایا گیا تھا۔ اب سے کچھ ہفتے پہلے کرناٹک میں امرتا بھارتی کناڈارتھی کے نام سے ایک انوکھی مہم بھی چلائی گئی تھی۔ اس میں ریاست کے 75 مقامات پر آزادی کے امرت مہوتسو سے متعلق عظیم الشان پروگراموں کا انعقاد کیا گیا تھا ۔ ان میں کرناٹک کے عظیم آزادی پسندوں کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی ادبی کارناموں کو بھی منظر عام پر لانے کی کوشش کی گئی تھی۔

ساتھیو  ، اسی جولائی میں ایک بہت ہی دلچسپ کوشش کی گئی ہے، جس کا نام  ہے ، آزادی کی ریل گاڑی اور ریلوے اسٹیشن ۔ اس کوشش کا مقصد جدوجہد آزادی میں بھارتی ریلوے کے کردار سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ ملک میں ایسے کئی ریلوے اسٹیشن ہیں، جو تحریک آزادی کی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان ریلوے اسٹیشنوں کے بارے میں جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔ جھارکھنڈ میں گومو جنکشن کو اب سرکاری طور پر نیتا جی سبھاش چندر بوس جنکشن گومو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پتہ ہے کیوں؟ دراصل اس اسٹیشن پر نیتا جی سبھاش کالکا میل میں سوار ہو کر انگریز افسروں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ آپ سب نے لکھنؤ کے قریب کاکوری ریلوے اسٹیشن کا نام بھی سنا ہوگا۔ اس اسٹیشن سے رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خان جیسے بہادر لوگوں کا نام جڑا ہے۔ بہادر انقلابیوں نے یہاں ٹرین کے ذریعے جانے والے انگریزوں کے خزانے کو لوٹ کر انگریزوں کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ جب بھی آپ تمل ناڈو کے لوگوں سے بات کریں گے، آپ کو تھوتھکوڈی ضلع کے وانچی مانیاچی جنکشن کے بارے میں سننے کو ملے گا ۔ اس اسٹیشن کا نام تمل مجاہد آزادی وانچی ناتھن  جی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہ وہی جگہ ہے ، جہاں 25 سالہ نوجوان وانچی نے برطانوی کلکٹر کو اس کے کئے کی سزا دی تھی۔

ساتھیو ،  یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ ملک بھر کی 24 ریاستوں میں پھیلے ہوئے ایسے 75 ریلوے اسٹیشنوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان 75 اسٹیشنوں کو بہت خوبصورتی سے سجایا جا رہا ہے۔ ان میں کئی طرح کے پروگرام بھی منعقد کئے جا رہے ہیں۔ آپ کو اپنے قریب کے ایسے تاریخی اسٹیشن پر جانے کے لئے بھی وقت نکالنا چاہیئے۔ آپ کو تحریک آزادی کی  ایسی تاریخ کے بارے میں تفصیل سے معلوم ہو جائے گا ، جس سے آپ انجان رہے ہیں ۔ میں آس پاس کے اسکولوں کے طلباء سے گزارش کروں گا، اساتذہ سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنے اسکول کے چھوٹے بچوں کو اسٹیشن لے جائیں اور ان بچوں کو سارا واقعہ سنائیں اور سمجھائیں ۔

میرے پیارے ہم وطنو، آزادی کے امرت مہوتسو کے تحت 13 سے 15 اگست تک ایک خصوصی تحریک ’’ ہر گھر ترنگا، ہر گھر ترنگا ‘‘  کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس تحریک کا حصہ بن کر 13 سے 15 اگست تک، آپ اپنے گھر پر ترنگا ضرور لہرائیں یا اسے اپنے گھر  پر لگائیں ۔ ترنگا ہمیں متحد کرتا ہے، ہمیں ملک کے لئے کچھ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ میرا یہ بھی مشورہ ہے کہ 2 اگست سے 15 اگست تک ہم سب اپنی سوشل میڈیا پروفائل تصویروں میں ترنگا لگا سکتے ہیں۔ ویسے کیا آپ جانتے ہیں کہ 2 اگست کا ہمارے ترنگے سے بھی خاص تعلق ہے۔ یہ دن پنگلی وینکیا جی کا یوم پیدائش ہے ، جنہوں نے ہمارے قومی پرچم کو ڈیزائن کیا تھا۔ میں ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ہمارے قومی پرچم کی بات کرتے ہوئے ، مجھے عظیم انقلابی میڈم کاما بھی یاد  آ رہی ہیں ۔ ترنگے کو شکل دینے میں  ، ان کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔

ساتھیو ، آزادی کے نام پر منعقد ہونے والی ان تمام تقریبات کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ ہم تمام اہل وطن اپنی ذمہ داری پوری لگن کے ساتھ ادا کریں۔ تب ہی ہم ان لاتعداد آزادی پسندوں کے خواب کو پورا کر سکیں گے۔ ہم ان کے خوابوں کا بھارت بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ اس لئے ہمارے اگلے 25 سالوں کا یہ امرت کال ہر اہل وطن کے لئے فرائض  کی انجام دہی کے عہد کی طرح ہے۔ ملک کو آزاد کرانے کے لئے ہمارے بہادر جنگجوؤں نے ہمیں یہ ذمہ داری سونپی ہے اور ہمیں اسے پوری طرح نبھانا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ہم وطنوں کی کورونا کے خلاف جنگ ابھی بھی جاری ہے۔ پوری دنیا آج بھی جدوجہد کر رہی ہے۔ مجموعی حفظانِ صحت میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی نے ، اس میں سب کی بہت مدد کی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بھارتی روایتی طریقے اس میں کتنے کارآمد  ہیں۔ کورونا کے خلاف جنگ میں آیوش نے  تو ، عالمی سطح پر اہم کردار ادا کیا ہے۔ پوری دنیا میں آیوروید اور بھارتی ادویات میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے ، جس کی وجہ سے آیوش بر آمدات میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہ بھی بہت خوشگوار ہے کہ اس شعبے میں بہت سے نئے اسٹارٹ اپس بھی ابھر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک گلوبل آیوش انویسٹمنٹ اینڈ انوویشن سمٹ کا انعقاد کیا گیاتھا ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس میں تقریباً دس ہزار کروڑ روپئے  کی سرمایہ کاری کی تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ ایک اور بہت اہم بات یہ ہوئی ہے کہ کورونا کے دور میں ادویاتی پودوں پر تحقیق میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس بارے میں کئی تحقیقی مطالعات شائع ہو رہے ہیں۔ یقیناً یہ ایک اچھی شروعات ہے۔

ساتھیو ، ملک میں مختلف قسم کے ادویاتی پودوں اور جڑی بوٹیوں کے حوالے سے ایک اور شاندار کوشش کی گئی ہے۔ انڈین ورچوئل ہربیریم جولائی کے مہینے میں ہی لانچ کیا گیا تھا۔ یہ اس بات کی بھی ایک مثال ہے کہ ہم ڈیجیٹل دنیا کو اپنی جڑوں سے جوڑنے کے لئے کس طرح استعمال کر سکتے ہیں۔ انڈین ورچوئل ہربیریم محفوظ پودوں یا پودوں کے حصوں کی ڈیجیٹل تصاویر کا ایک دلچسپ مجموعہ ہے، جو ویب پر مفت دستیاب ہیں۔ اس ورچوئل ہربیریم پر ایک لاکھ سے زیادہ نمونے اور ان سے متعلق سائنسی معلومات دستیاب ہیں۔ ورچوئل ہربیریم میں بھارت کے نباتاتی تنوع کی بھرپور تصویر بھی نظر آتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بھارتی ورچوئل ہربیریم بھارتی نباتات پر تحقیق کے لئے ایک اہم وسیلہ بن جائے گا۔

میرے پیارے ہم وطنو،’من کی بات ‘میں ، ہم ہر مرتبہ ہم وطنوں کی ایسی کامیابیوں پر گفتگو کرتے ہیں ، جو ہمارے چہروں پر میٹھی مسکراہٹ لاتی ہیں۔ اگر کامیابی کی کہانی میٹھی مسکراہٹیں پھیلاتی ہے اور ذائقہ بھی میٹھا ہے، تو آپ اسے یقینی طور پر سون پر سہاگا کہیں گے۔ ان دنوں ہمارے کسان شہد کی پیداوار میں ایسا معجزہ کر رہے ہیں۔ شہد کی مٹھاس بھی ہمارے کسانوں کی زندگی بدل رہی ہے، ان کی آمدنی میں اضافہ کر رہی ہے۔ ہریانہ میں، یمنا نگر میں، شہد کی مکھیاں پالنے والے ایک ساتھی رہتے ہیں – سبھاش کمبوج جی۔ سبھاش جی نے سائنسی طریقے سے شہد کی مکھیاں پالنے کی تربیت لی۔ اس کے بعد  انہوں نے صرف چھ ڈبوں سے اپنا کام شروع کیا۔ آج وہ تقریباً دو ہزار  ڈبوں میں شہد کی مکھیاں پال رہا ہے۔ ان کا شہد کئی ریاستوں میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ ونود کمار جی جموں کے پلّی گاؤں میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ کالونیوں میں شہد کی مکھیاں پال رہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال رانی مکھی پالنے کی تربیت لی ہے۔ اس کام سے وہ سالانہ 15 سے 20 لاکھ روپئے کما رہے ہیں۔ کرناٹک کے ایک اور کسان ہیں – مدھوکیشور ہیگڈے جی۔ مدھوکیشور جی نے بتایا کہ انہوں نے مکھیوں کی 50 کالونیوں کے لئے حکومت ہند سے سبسڈی لی تھی ۔ آج ان کے پاس 800 سے زیادہ کالونیاں ہیں اور وہ  کئی ٹن شہد فروخت کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کام میں جدت پیدا کی ہے اور وہ جامن شہد، تلسی شہد، آملہ شہد جیسے نباتاتی شہد بھی بنا رہے ہیں۔ مدھوکیشور جی، شہد کی پیداوار میں آپ کی اختراع اور کامیابی بھی آپ کے نام کو معنی خیز بناتی ہے۔

ساتھیو ، آپ سب جانتے ہیں کہ ہماری روایتی صحت سائنس میں شہد کو کتنی اہمیت دی گئی ہے۔ آیوروید  کی کتابوں میں شہد کو امرت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ شہد نہ صرف ہمیں ذائقہ دیتا ہے بلکہ صحت بھی دیتا ہے۔ آج شہد کی پیداوار میں اتنی صلاحیت ہے کہ پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اسے اپنا روزگار بنا رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک نوجوان ہیں – یو پی میں گورکھپور کے نیمت سنگھ  جی۔ نمت جی نے بی ٹیک کیا ہے۔ ان کے والد بھی ڈاکٹر ہیں لیکن تعلیم کے بعد نمت جی نے نوکری کے بجائے خود روزگار کا فیصلہ کیا۔  انہوں نے شہد کی پیداوار شروع کی۔ انہوں نے معیار کی جانچ کے لئے لکھنؤ میں اپنی لیب بھی بنوائی۔ نمت جی اب شہد اور مکھی کے موم سے اچھی کمائی کر رہے ہیں اور مختلف ریاستوں میں جا کر کسانوں کو تربیت بھی دے رہے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کی محنت کی وجہ سے آج ملک اتنا بڑا شہد پیدا کرنے والا ملک بن رہا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ملک سے شہد کی برآمد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ملک نے شہد کی مکھیوں کو پالنے اور شہد کے مشن جیسی مہم شروع کی، کسانوں نے محنت کی اور ہمارے شہد کی مٹھاس پوری دنیا تک پہنچنے لگی۔ اس میدان میں اب بھی بہت زیادہ امکانات موجود ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے نوجوان ، ان مواقع میں شامل ہوں اور ان سے فائدہ اٹھائیں اور نئے امکانات   کو حقیقت شکل دیں ۔

میرے پیارے ہم وطنو، مجھے ’من کی بات ‘ کے سننے والے جناب آشیش بہل جی کا ہماچل پردیش سے ایک خط موصول ہوا ہے ۔ انہوں نے اپنے خط  میں  چمبا ک ’ منجر میلہ ‘کا ذکر کیا ہے۔  در اصل  منجر مکا کے پھولوں کو کہتے ہیں ، جب مکا میں پھول آتے ہیں ، تو منجر میلہ بھیا منایا جاتا ہے اور اس میلے میں ملک بھر سے سیاح شرکت کے لئے دور دور سے آتے ہیں۔ اتفاق سے اس وقت منجر کا میلہ بھی چل رہا ہے، اگر آپ ہماچل کی سیر کرنے گئے ہیں تو اس میلے کو دیکھنے کے لئے چمبہ جا سکتے ہیں۔چمبا تو اتنا خوبصورت ہے کہ یہاں لوک گیتوں میں بار بار کہا جاتا ہے –

’’ چمبے ایک دن اونا کنے مہینا رینا ‘‘

یعنی جو لوگ ایک دن کے لئے چمبہ آتے ہیں، وہ اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر  مہینے بھر کے لئے یہاں رک جاتے ہیں۔

ساتھیو ، ہمارے ملک میں میلوں کی بھی بڑی ثقافتی اہمیت رہی ہے، میلے  انسانوں اور دلوں کو جوڑتے ہیں۔  ہماچل میں بارش کے بعد ، جب خریف کی فصلیں پکتی ہیں ، تب ستمبر میں شملہ ، منڈی ، کلو اور سولن میں سیری یا سیر منایا جاتا ہے  ۔ ستمبر میں جاگرا بھی آنے والا ہے  ۔ جاگرا کے میلوں میں مہاسو دیوتا  کا آہوان کرکے بیسو گیت گائے جاتے ہیں۔ مہاسو دیوتا کا یہ جاگر ہماچل  میں شملہ، کنور اور  سرمور کے ساتھ ساتھ اتراکھنڈ میں  بھی ہوتا ہے۔

ساتھیو ، ہمارے ملک میں مختلف ریاستوں میں قبائلی سماج کے بھی کئی روایتی میلے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ میلے قبائلی ثقافت سے جڑے ہیں، تو کچھ کا انعقاد آدی واسی تاریخ اور وراثت سے جڑا ہے ، جیسا کہ  ، اگر آپ کو موقع ملے تو آپ کو تلنگانہ کے میڈارم میں چار روزہ سمکا-سرلمہ جاترا میلہ ضرور دیکھنا چاہیئے۔ اس میلے کو تلنگانہ کا مہا کمبھ کہا جاتا ہے۔ سرلمہ جاترا میلہ دو قبائلی خواتین ہیروئنوں – سمکا اور سرلمہ کے  احترام میں منایا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف تلنگانہ بلکہ چھتیس گڑھ، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش کی کویا قبائلی برادری کے لئے بھی عقیدے کا ایک بڑا مرکز ہے۔ آندھرا پردیش میں ماری دماّ کا میلہ بھی قبائلی سماج کے عقائد سے جڑا ایک بڑا میلہ ہے۔ ماریدماّ  میلہ جیشٹھ اماوسیہ سے اساڑھ اماوسیہ تک چلتا ہے اور یہاں کا قبائلی معاشرہ اسے شکتی پوجا کے ساتھ جوڑتا ہے۔ یہاں، مشرقی گوداوری کے پیدھاپورم میں، ماریدماّ  مندر بھی ہے۔ اسی طرح راجستھان میں گراسیا قبائل کے لوگ  ویساکھ  شکل چتر دشی کو ’ سیاوا کا میلا ‘ ، یا ’ منکھارو میلہ ‘ کا انعقاد کرتے ہیں ۔

چھتیس گڑھ میں بستر کے نارائن پور کا ’ماولی میلہ ‘ بھی بہت خاص  ہوتا ہے۔ اس کے قریب ہی مدھیہ پردیش کا بھگوریا میلہ بھی بہت مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھگوریا میلہ راجہ بھوج کے زمانے میں شروع ہوا تھا۔ پھر بھیل بادشاہوں، کسومار اور بلون نے پہلی بار اپنے اپنے دارالحکومتوں میں ان تقریبات کا اہتمام کیا۔ اس کے بعد سے آج تک یہ میلے یکساں جوش و خروش سے منائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح  گجرات میں ترنیتر اور مادھوپور جیسے کئی میلے بہت مشہور ہیں۔ میلے اپنے آپ میں ہمارے معاشرے، زندگی کے لئے توانائی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ آپ کے آس پاس بھی ایسے کئی میلے ضرور ہوں گے۔ جدید دور میں، ’ایک بھارت- شریشٹھ بھارت ‘ کے جذبے کو مضبوط کرنے کے لئے سماج کے یہ پرانے روابط بہت اہم ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو ان سے ضرور جڑنا چاہیئے اور جب بھی آپ ایسے میلوں میں جائیں تو وہاں کی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی شیئر کریں۔ اگر آپ چاہیں تو ایک مخصوص ہیش ٹیگ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس سے دوسرے لوگ بھی ان میلوں کے بارے میں جان جائیں گے۔ آپ وزارت ثقافت کی ویب سائٹ پر بھی تصاویر اپ لوڈ کر سکتے ہیں۔ آئندہ چند روز میں وزارت ثقافت ایک مقابلہ بھی شروع کرنے جا رہی ہے، جہاں میلوں کی بہترین تصاویر بھیجنے والوں کو انعامات سے بھی نوازا جائے گا ۔  اس لئے دیر نہ کریں، میلوں کا دورہ کریں، ان کی تصاویر شیئر کریں، اور شاید آپ انعام بھی حاصل کر سکیں ۔

میرے پیارے ہم وطنو، آپ کو یاد ہو گا ، ’من کی بات ‘ کے ایک ایپی سوڈ میں میں نے کہا تھا کہ بھارت میں کھلونوں کی برآمدات میں پاور ہاؤس بننے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔ میں نے خاص طور پر کھیلوں میں بھارت کے  شاندار  وراثت پر بات کی تھی ۔ بھارت کے مقامی کھلونے ماحول دوست ہیں، روایت اور فطرت دونوں کے مطابق ہیں۔ آج میں آپ کے ساتھ انڈین ٹوائز کی کامیابیاں بانٹنا چاہتا ہوں۔ ہماری کھلونا صنعت نے ، جو کامیابی ہمارے نوجوانوں، اسٹارٹ اپس اور کاروباری افراد کی وجہ سے حاصل کی ہے ، اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ آج جب بھارتی کھلونوں کی بات آتی ہے تو ہر طرف ووکل فار لوکل کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ آپ یہ بھی جاننا پسند کریں گے کہ اب بھارت میں بیرون ملک سے آنے والے کھلونوں کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ پہلے جہاں 3 ہزار کروڑ روپئے  سے زیادہ کے کھلونے باہر سے آتے تھے، اب ان کی درآمد میں 70 فی صد کمی آئی ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ اس عرصے کے دوران بھارت نے  2 ہزار 600  کروڑ روپئے سے زیادہ کے کھلونے  بیرونی ملکوں میں برآمد کئے ہیں ،  جب کہ پہلے بھارت سے باہر صرف 300-400 کروڑ روپئے  کے کھلونے جاتے تھے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ کورونا کے دور میں ہوا تھا۔ بھارت کے کھلونا سیکٹر نے خود کو بدل کر دکھایا ہے۔ بھارتی صنعت کار اب بھارتی افسانوں، تاریخ اور ثقافت پر مبنی کھلونے بنا رہے ہیں۔ ملک میں ہر جگہ کھلونوں کے جھرمٹ ہیں، چھوٹے کاروباری جو کھلونے بناتے ہیں، انہیں اس سے کافی فائدہ ہو رہا ہے۔ ان چھوٹے کاروباریوں کے بنائے ہوئے کھلونے اب پوری دنیا میں جا رہے ہیں۔ بھارت کے کھلونا بنانے والے بھی دنیا کے معروف عالمی کھلونا برانڈز کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ مجھے یہ بھی  بہت اچھا لگا کہ ہمارا اسٹارٹ اپ سیکٹر بھی کھلونوں کی دنیا پر پوری توجہ دے رہا ہے۔ وہ اس شعبے میں بہت مزے کی چیزیں بھی کر رہے ہیں۔ بنگلور میں شمّی ٹوئیز نام کا ایک سٹارٹ اپ ماحول دوست کھلونوں پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ گجرات میں آر کڈ زو کمپنی اے آر پر مبنی فلیش کارڈز اور اے آر پر مبنی اسٹوری بکس بنا رہی ہے۔ پونے کی کمپنی فن وینشن  آموزش  ، کھلونے اور ایکٹیویٹی پزل کے ذریعے سائنس، ٹیکنالوجی اور ریاضی میں بچوں کی دلچسپی بڑھانے میں مصروف ہے۔ میں اسٹارٹ اپس کو مبارکباد دینا چاہوں گا، ایسے تمام مینوفیکچررز ، جو کھلونوں کی دنیا میں شاندار کام کر رہے ہیں۔ آئیے ، ہم سب مل کر بھارتی کھلونوں کو پوری دنیا میں مزید مقبول بنائیں۔ اس کے ساتھ، میں والدین سے یہ بھی گزارش کرنا چاہوں گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ بھارتی کھلونے، پہیلیاں اور گیمز خریدیں۔

ساتھیو ، کلاس روم ہو یا کھیل کا میدان، آج ہمارے نوجوان ہر میدان میں ملک کا سر فخر سے بلند کر رہے ہیں۔ اس ماہ پی وی سندھو نے سنگاپور اوپن کا اپنا پہلا خطاب جیتا ہے۔ نیرج چوپڑا نے بھی اپنی شاندار کارکردگی کو جاری رکھتے ہوئے عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں ملک کے لئے چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔ آئرلینڈ پیرا بیڈمنٹن انٹرنیشنل میں بھی ہمارے کھلاڑیوں نے 11 میڈلز جیت کر ملک کا نام روشن کیا ہے۔ روم میں منعقدہ ورلڈ کیڈٹ ریسلنگ چیمپئن شپ میں بھی بھارتی کھلاڑیوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ہمارے کھلاڑی سورج نے گریکو رومن ایونٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے 32 سال کے طویل وقفے کے بعد اس ایونٹ میں ریسلنگ کا گولڈ میڈل جیتا ہے۔ کھلاڑیوں کے لئے یہ پورا مہینہ ایکشن سے بھرپور رہا۔ چنئی میں 44ویں شطرنج اولمپیاڈ کی میزبانی کرنا بھارت کے لئے بھی ایک بڑا اعزاز ہے۔ یہ ٹورنامنٹ 28 جولائی کو شروع ہوا ہے اور مجھے اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ اسی دن برطانیہ میں کامن ویلتھ گیمز کا آغاز بھی ہوا۔ نوجوانوں کے جوش سے بھرپور بھارتی ٹیم وہاں ملک کی نمائندگی کر رہی ہے۔ میں ہم وطنوں کی طرف سے تمام کھلاڑیوں کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ بھارت فیفا  کے 17 سال سے کم عمر کی خواتین کے عالمی کپ  کی بھی میزبانی کرنے جا رہا ہے۔ یہ ٹورنامنٹ اکتوبر کے آس پاس منعقد ہوگا ، جس سے ملک کی بیٹیوں کا کھیلوں کے تئیں جوش و جذبہ بڑھے گا۔

ساتھیو ، ابھی کچھ دن پہلے ہی ملک بھر میں دسویں اور بارہویں جماعت کے نتائج کا اعلان کیا گیا ہے۔ میں ان تمام طلباء کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے اپنی سخت محنت اور لگن سے کامیابی حاصل کی ہے۔ پچھلے دو سال، وبائی امراض کی وجہ سے، انتہائی چیلنجنگ رہے ہیں۔ ان حالات میں ہمارے نوجوانوں نے ، جس ہمت اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ قابل تعریف ہے۔ میں سب کے روشن مستقبل کی نیک خواہشات رکھتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو، آج ہم نے آزادی کے 75 سال پر اپنی گفتگو کا آغاز ملک کے دورے سے کیا۔ اگلی بار جب ہم ملیں گے تو ہمارا اگلے 25 سالوں کا سفر شروع ہو چکا ہوگا۔ ہم سب کو اپنے پیارے ترنگے کو اپنے گھروں اور اپنے پیاروں کے گھروں پر لہرانے کے لئے جمع ہونا ہے۔ اس بار آپ نے یوم آزادی کیسے منایا، کیا آپ نے کوئی خاص کام کیا، وہ بھی میرے ساتھ شیئر کریں۔ اگلی بار، ہم اپنے اس امرت کے تہوار کے مختلف رنگوں کے بارے میں دوبارہ بات کریں گے، تب تک مجھے اجازت دیں۔ بہت شکریہ ۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔

( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا   )

U. No. 8436