Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

27نومبر،2022 ء کو مَن کی بات کے 95ویں ایپیسوڈ میں وزیر اعظم کا خطاب


میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔

میں ایک بار پھر ’ من کی بات ‘ میں آپ سب کا پرتپاک استقبال کرتا ہوں۔ یہ پروگرام کا 95واں ایپیسوڈ  ہے۔ ہم تیزی سے 100 ویں ’ من کی بات ‘ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ پروگرام میرے لئے 130 کروڑ ہم وطنوں سے جڑنے کا ایک اور ذریعہ ہے۔ ہر ایپیسوڈ سے پہلے گاؤں اور شہروں کے خطوط پڑھنا ؛ بچوں سے لے کر بڑوں تک آڈیو پیغامات سننا؛ یہ میرے لئے ایک روحانی تجربے جیسا ہے۔

دوستو، میں آج کا پروگرام ایک منفرد تحفہ کے حوالے کے ساتھ شروع کرنا چاہتا ہوں۔ تلنگانہ کے راجنا سرسیلا ضلع میں ایک بنکر بھائی ہیں – یلدھی ہری پرساد گارو۔ انہوں نے مجھے یہ جی – 20 کا لوگو اپنے ہاتھوں سے بن کر بھیجا ہے۔ میں یہ شاندار تحفہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ہری پرساد جی اپنے فن میں ایسے ماہر ہیں کہ وہ سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ ہری پرساد جی نے ہاتھ سے بنے اس جی – 20 لوگو کے ساتھ مجھے ایک خط بھی بھیجا ہے۔ اس میں ، انہوں نے لکھا ہے کہ بھارت کے لئے اگلے سال جی -20 سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنا بڑے فخر کی بات ہے۔ ملک کی ، اس کامیابی کی خوشی میں ، انہوں نے جی – 20 کا یہ لوگو اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ہے۔ بُنائی کا یہ شاندار ہنر ، انہیں اپنے والد سے وراثت میں ملا ہے اور آج وہ پورے جذبے کے ساتھ اس میں مصروف ہیں۔

دوستو، کچھ دن پہلے مجھے جی – 20  لوگو اور بھارت کی صدارت کی ویب سائٹ لانچ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس لوگو کا انتخاب ایک عوامی مقابلے کے ذریعے کیا گیا تھا۔ جب مجھے ہری پرساد گارو کا یہ تحفہ ملا تو میرے ذہن میں ایک اور خیال آیا۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ تلنگانہ کے ایک ضلع میں بیٹھا ایک شخص بھی جی – 20  جیسے سمٹ سے کتنا جڑا ہوا محسوس کر سکتا ہے۔ آج، ہری پرساد گارو جیسے بہت سے لوگوں نے مجھے خطوط بھیجے ہیں کہ ان کے دل اتنے بڑے سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والے ملک پر فخر سے بھر گئے ہیں۔ میں آپ کو پونے سے سبا راؤ چلّرا جی اور کولکاتہ سے تشار جگموہن کے پیغام کا بھی ذکر کروں گا۔ انہوں نے جی – 20  کے حوالے سے بھارت کی فعال کوششوں کی بہت تعریف کی ہے۔

دوستو، جی – 20  کی شراکت داری دنیا کی دو تہائی آبادی، عالمی تجارت کا تین چوتھائی حصہ اور عالمی جی ڈی پی کا 85 فی صد حصہ پر مشتمل ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں – بھارت اب سے 3 دن بعد یعنی یکم دسمبر سے اتنے بڑے گروپ، اتنے طاقتور گروپ کی صدارت کرنے جا رہا ہے۔ بھارت کے لئے، ہر بھارتی کے لئے کتنا بڑا موقع آیا ہے! یہ اور بھی خاص ہو جاتا ہے کیونکہ آزادی کا امرت کال کے دوران بھارت کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے ۔

دوستو، جی – 20  کی صدارت ہمارے لئے ایک بڑے موقع کے طور پر آئی ہے۔ ہمیں اس موقع سے بھرپور استفادہ کرنا ہوگا اور عالمی بھلائی، عالمی بہبود پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ چاہے امن ہو یا اتحاد، ماحولیات کے تئیں حساسیت، یا پائیدار ترقی، بھارت کے پاس ان سے متعلق چیلنجوں کا حل موجود ہے۔ ہم نے ، جو موضوع دیا ہے ، ’’ ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل ‘‘، وہ ہمارے واسو دیوا کٹمبکم کے عہد کا اظہار کرتا ہے  ۔ ہم ہمیشہ کہتے ہیں :

اوم سرویشم سواستیربھواتو

سرویشم شانتی بھواتو

سرویشم پورنم بھواتو

سرویشم منگلم بھواتو

اوم شانتی: شانتی: شانتی:

یعنی سب کی بھلائی ہو، سب کے لئے امن ہو، سب کی تکمیل ہو اور سب کی بھلائی ہو۔ آنے والے دنوں میں ملک کے مختلف حصوں میں جی – 20  سے متعلق بہت سے پروگرام منعقد کئے جائیں گے۔ اس عرصے کے دوران دنیا کے مختلف حصوں سے لوگوں کو آپ کی ریاستوں کا دورہ کرنے کا موقع ملے گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی ثقافت کے متنوع اور مخصوص رنگوں کو دنیا کے سامنے پیش کریں گے اور آپ کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ جی – 20  میں آنے والے لوگ، چاہے وہ اب بطور مندوبین ہی کیوں نہ آئیں، مستقبل کے سیاح ہیں۔ میں آپ سب سے، خاص کر اپنے نوجوان دوستوں سے ایک اور بات کی درخواست کرتا ہوں۔ ہری پرساد گارو کی طرح، آپ کو بھی کسی نہ کسی طریقے سے جی – 20  میں شامل ہونا چاہیئے۔ جی – 20  کے بھارتی لوگو بہت خوبصورت انداز میں، بہت اسٹائلش انداز میں، کپڑوں پر پرنٹ کیا جا سکتا ہے۔ میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر بھی زور دوں گا کہ وہ اپنے اپنے مقامات پر جی – 20  سے متعلق مباحثوں اور مقابلوں وغیرہ کا انعقاد کریں ۔ اگر آپ  G20.inویب سائٹ پر جائیں گے تو وہاں آپ کو اپنی دلچسپی کے مطابق بہت سی چیزیں ملیں گی۔

میرے پیارے ہم وطنو، 18 نومبر کو پورے ملک نے خلائی شعبے میں نئی ​​تاریخ رقم ہونے کا مشاہدہ کیا ۔ اس دن بھارت نے اپنا پہلا ایسا راکٹ خلا میں بھیجا، جسے بھارت کے نجی شعبے نے ڈیزائن اور تیار کیا تھا۔ اس راکٹ کا نام ’ وکرم-ایس ‘ہے۔ جیسے ہی دیسی خلائی اسٹارٹ اَپ کے اس پہلے راکٹ نے سری ہری کوٹا سے تاریخی اڑان بھری، ہر بھارتی کا سینا فخر پھول گیا۔

دوستو، ’ وکرم-ایس ‘ راکٹ بہت سی خصوصیات سے لیس ہے۔ یہ دوسرے راکٹوں سے ہلکا بھی ہے اور سستا بھی ہے ۔ اس کو بنانے کی لاگت خلائی مشنوں میں شامل دیگر ممالک کے خرچ سے بہت کم ہے۔ خلائی ٹیکنالوجی میں، کم قیمت پر عالمی درجے کا معیار، اب بھارت کی پہچان بن گیا ہے۔ اس راکٹ کو بنانے میں ایک اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس راکٹ کے کچھ اہم حصے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے بنائے گئے ہیں۔ یقینی طور پر، ’ وکرم-ایس ‘ کے لانچنگ مشن کو جو نام ’ پرارمبھ ‘ دیا گیا ہے، وہ پوری طرح اس سے میل کھاتا ہے۔ یہ بھارت میں نجی خلائی شعبے کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ یہ ملک کے لئے خود اعتمادی سے بھرے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں ، وہ بچے جو کبھی کاغذ کے ہوائی جہاز بناتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے اڑاتے تھے ، اب انہیں بھارت میں ہی ہوائی جہاز بنانے کا موقع مل رہا ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ بچے ، جو کبھی آسمان پر چاند اور ستاروں کو دیکھ کر شکلیں بناتے تھے، اب انہیں بھارت میں ہی راکٹ بنانے کا موقع مل رہا ہے۔ نجی شعبے کے لئے مواقع کھولنے کے بعد نوجوانوں کے یہ خواب بھی پورے ہونے لگے ہیں۔ گویا راکٹ بنانے والے یہ نوجوان کہہ رہے ہیں، آسمان کی حد نہیں ہے۔

دوستو، بھارت خلائی شعبے میں اپنی کامیابی اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی بانٹ رہا ہے۔ ابھی کل ہی بھارت نے ایک سیٹلائٹ لانچ کیا ہے ، جسے بھارت اور بھوٹان نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے۔ یہ سیٹلائٹ بہت اچھی ریزولوشن کی تصاویر بھیجے گا ، جس سے بھوٹان کو اس کے قدرتی وسائل کے انتظام میں مدد ملے گی۔ اس سیٹلائٹ کی لانچنگ بھارت -بھوٹان کے مضبوط تعلقات کی عکاس ہے۔

دوستو، آپ نے یہ محسوس کیا ہوگا کہ ’ من کی بات ‘ کی پچھلی چند قسطوں میں، ہم نے خلاء ، ٹیکنالوجی اور  اختراع پر کافی بات کی ہے۔ اس کی دو خاص وجوہات ہیں ایک یہ کہ ہمارے نوجوان اس میدان میں شاندار کام کر رہے ہیں۔ وہ بڑا سوچ رہے ہیں اور بڑا حاصل کر رہے ہیں۔ اب وہ چھوٹی چھوٹی کامیابیوں سے مطمئن ہونے والے نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جدت اور قدر پیدا کرنے کے اس دلچسپ سفر میں ، وہ اپنے دوسرے نوجوان ساتھیوں اور اسٹارٹ اپس کی بھی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

دوستو، جب ہم ٹیکنالوجی سے متعلق ایجادات کی بات کر رہے ہیں تو ہم ڈرون کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ بھارت ڈرون کے میدان میں بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ کچھ دن پہلے ہم نے دیکھا کہ کس طرح ہماچل پردیش کے کنور میں ڈرون کے ذریعے سیب لے جائے گئے ۔ کنور ہماچل کا ایک دور افتادہ ضلع ہے اور اس موسم میں بھاری برف باری ہوتی ہے۔ اتنی زیادہ برف باری کے ساتھ، کنور کا ریاست کے باقی حصوں سے رابطہ ہفتوں تک بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں وہاں سے سیب کی نقل و حمل بھی اتنی ہی مشکل ہو جاتی ہے۔ اب ڈرون ٹیکنالوجی کی مدد سے ہماچل کے مزیدار کنوری سیب لوگوں تک تیزی سے پہنچنے شروع ہو جائیں گے۔ اس سے ہمارے کسان بھائیوں اور بہنوں کے اخراجات میں کمی آئے گی – سیب وقت پر منڈی پہنچیں گے، سیب کا زیاں  بھی کم ہوگا۔

دوستو، آج ہمارے ہم وطن اپنی اختراعات سے وہ کام ممکن بنا رہے ہیں ، جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ دیکھ کر کون خوش نہیں ہوگا؟ حالیہ برسوں میں ہمارے ملک نے کامیابیوں کا ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہم بھارتی اور خاص طور پر ہماری نوجوان نسل اب رکنے والی نہیں ہے۔

پیارے ہم وطنو، میں آپ کے لئے ایک چھوٹا سا کلپ چلانے جا رہا ہوں…..

 

##(Song)##

 

آپ سب نے کبھی نہ کبھی یہ گانا ضرور سنا ہوگا۔ بہر حال، یہ باپو کا پسندیدہ گانا ہے، لیکن اگر میں آپ کو بتاؤں کہ جن گلوکاروں نے اسے گایا ہے ، وہ یونان سے ہیں، تو آپ یقیناً حیران ہوں گے! اور یہ آپ کو بھی فخر سے بھر دے گا۔ یہ گانا یونان سے تعلق رکھنے والے گلوکار – ’ کونسٹنٹائنس کلیٹزس ‘ نے گایا ہے۔ انہوں نے اسے گاندھی جی کے 150ویں یوم پیدائش کی تقریبات کے دوران گایا تھا لیکن آج میں ، اس پر کسی اور وجہ سے بات کر رہا ہوں۔ انہیں بھارت اور بھارتی موسیقی سے بڑا لگاؤ ہے۔ انہیں بھارت سے اس قدر لگاؤ ​​ہے کہ پچھلے 42 سالوں میں وہ تقریباً ہر سال بھارت آئے ہیں۔ انہوں نے بھارتی موسیقی کی ابتداء، مختلف بھارتی موسیقی کے نظاموں، مختلف قسم کے راگوں، تالوں اور راسوں کے ساتھ ساتھ مختلف گھرانوں کے بارے میں بھی مطالعہ کیا ہے۔ انہوں نے بھارتی موسیقی کی بہت سی عظیم شخصیات کے تعاون کا مطالعہ کیا ہے۔  انہوں نے بھارت کے کلاسیکی رقص کے مختلف پہلوؤں کو بھی قریب سے سمجھا ہے۔ اب انہوں نے بھارت سے متعلق ان تمام تجربات کو ایک کتاب میں بہت خوبصورتی سے جمع کیا ہے۔ ان کی انڈین میوزک نامی کتاب میں تقریباً 760 تصویریں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تصاویر ، انہوں نے خود لی ہیں۔ دوسرے ممالک میں بھارتی ثقافت کے لئے ، اس طرح کا جوش و جذبہ واقعی دل کو خوش کرنے والا ہے۔

دوستو، چند ہفتے پہلے ایک اور خبر آئی ، جو ہمارا سر فخر سے اونچا کرنے والی ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ گزشتہ 8 سالوں میں بھارت سے موسیقی کے آلات کی برآمدات میں ساڑھے تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ برقی موسیقی کے آلات کے بارے میں بات کریں تو ان کی برآمدات میں 60 گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں بھارتی ثقافت اور موسیقی کا جنون بڑھ رہا ہے۔ بھارتی موسیقی کے آلات کے سب سے بڑے خریدار امریکہ، جرمنی، فرانس، جاپان اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ یہ ہم سب کے لئے خوش قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں موسیقی، رقص اور فن کا اتنا بھرپور ورثہ موجود ہے۔

دوستو، ہم سب عظیم بابا شاعر بھرتری ہری کو ان کے ’ نیتی شتک ‘ کے لئے جانتے ہیں۔ ایک شعر میں وہ کہتے ہیں کہ فن، موسیقی اور ادب سے لگاؤ ​​ہی انسانیت کی اصل پہچان ہے۔ درحقیقت ہماری ثقافت اسے انسانیت سے اوپر، الوہیت تک لے جاتی ہے۔ ویدوں میں ساموید کو ہماری متنوع موسیقی کا ماخذ کہا گیا ہے۔ ماں سرسوتی کی وینا ہو، بھگوان کرشن کی بانسری ہو یا بھولے ناتھ کا ڈمرو، ہمارے دیوی دیوتاؤں کو بھی موسیقی سے لگاؤ ​​ہے۔ ہم بھارتی ہر چیز میں موسیقی تلاش کرتے ہیں۔ دریا کی گنگناہٹ ہو، بارش کی بوندیں، پرندوں کی چہچہاہٹ ہو یا ہوا کی گونجتی ہوئی آواز، موسیقی ہماری تہذیب میں ہر جگہ موجود ہے۔ یہ موسیقی نہ صرف جسم کو سکون دیتی ہے بلکہ دماغ کو بھی خوشی دیتی ہے۔ موسیقی ہمارے معاشرے کو بھی جوڑتی ہے۔ اگر بھنگڑا اور لاوانی میں جوش اور مسرت کا احساس ہے تو رابندر سنگیت ہماری روح کو بلند کر دیتا ہے۔ ملک بھر کے قبائلیوں کی موسیقی کی مختلف روایات ہیں۔ وہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

دوستو، ہماری موسیقی کی شکلوں نے نہ صرف ہماری ثقافت کو تقویت بخشی ہے بلکہ دنیا کی موسیقی پر بھی نہ مٹنے والے نقوش چھوڑے ہیں۔ بھارتی موسیقی کی شہرت دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے۔ مجھے آپ ایک اور آڈیو کلپ چلانے دیں۔

 

##(Song)##

 

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پڑوس کے کسی مندر میں بھجن کیرتن ہو رہا ہے لیکن یہ دُھن بھارت سے ہزاروں میل دور جنوبی امریکی ملک گیانا سے آپ تک پہنچی ہے ۔ 19ویں اور 20ویں صدی میں یہاں سے بڑی تعداد میں لوگ گیانا گئے۔ وہ یہاں سے بھارت کی بہت سی روایات بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ مثال کے طور پر، جیسا کہ ہم بھارت میں ہولی مناتے ہیں، گیانا میں بھی ہولی کے رنگ جوش و خروش کے ساتھ زندہ ہوتے ہیں۔ جہاں ہولی کے رنگ ہیں وہیں پھگوا کی موسیقی بھی ہے ، جو پھگوا ہے۔ گیانا کے پھگوا میں بھگوان رام اور بھگوان کرشن سے منسلک شادی کے گیت گانے کی ایک خاص روایت ہے۔ ان گیتوں کو چوتل کہتے ہیں۔ انہیں اسی قسم کی دھن پر اور اونچی آواز پر گایا جاتا ہے جیسا کہ ہم یہاں کرتے ہیں۔ یہی نہیں گیانا میں چوتل مقابلے بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے بھارتی، خاص طور پر مشرقی اتر پردیش اور بہار کے لوگ بھی فجی گئے تھے۔ وہ روایتی بھجن کیرتن گاتے تھے، خاص طور پر رام چرتر مانس کے دوہے ۔ انہوں نے فجی میں بھجن کیرتن سے وابستہ کئی منڈلیاں بھی بنائیں۔ آج بھی فجی میں رامائن منڈلی کے نام سے دو ہزار سے زیادہ بھجن کیرتن منڈلیا ں ہیں۔ آج وہ ہر گاؤں اور محلے میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

میں نے یہاں صرف چند مثالیں دی ہیں۔ اگر آپ پوری دنیا کو دیکھیں تو بھارتی موسیقی سے محبت کرنے والوں کی یہ فہرست بہت طویل ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہم سب ہمیشہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارا ملک دنیا کی قدیم ترین روایات کا گھر ہے۔ لہٰذا یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی روایات اور روایتی علم کو محفوظ رکھیں، اسے فروغ دیں اور اسے زیادہ سے زیادہ آگے لے جائیں۔ ایسی ہی ایک قابل تحسین کوشش ہماری شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ کے کچھ دوست کر رہے ہیں۔ مجھے یہ کاوش بہت پسند آئی، اس لئے میں نے سوچا، اسے ’ من کی بات ‘ کے سننے والوں کے ساتھ شیئر کروں۔

دوستو، ناگا لینڈ میں ناگا کمیونٹی کا طرز زندگی، ان کا فن ثقافت اور موسیقی سب کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہ ہمارے ملک کے شاندار ورثے کا ایک اہم حصہ ہے۔ ناگالینڈ کے لوگوں کی زندگی اور ان کی مہارتیں بھی پائیدار طرز زندگی کے لئے بہت اہم ہیں۔ ان روایات اور ہنر کو بچانے اور اگلی نسلوں تک پہنچانے کے لئے وہاں کے لوگوں نے ایک تنظیم بنائی ہے، جس کا نام ’ لِڈی – کرو –  یو ‘ ہے۔ تنظیم نے ناگا ثقافت کے ، ان خوبصورت پہلوؤں کو زندہ کرنے کا کام شروع کیا ہے ، جو ختم جانے کے دہانے پر تھے۔ مثال کے طور پر، ناگا لوک موسیقی اپنے آپ میں ایک بہت مالا مال صنف ہے۔ اس تنظیم نے ناگا میوزک البمز لانچ کرنے کا کام شروع کیا ہے۔ اب تک ایسے تین البم لانچ ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ لوک موسیقی اور لوک رقص سے متعلق ورک شاپس کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ ان سب کے لئے نوجوانوں کو تربیت بھی دی جاتی ہے۔ یہی نہیں، نوجوانوں کو ناگالینڈ کے روایتی انداز میں ملبوسات سازی، سلائی اور بُنائی کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ شمال مشرق میں بانس سے کئی قسم کی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔ نئی نسل کے نوجوانوں کو بانس کی مصنوعات بنانا بھی سکھایا جاتا ہے۔ اس سے یہ نوجوان نہ صرف اپنی ثقافت سے جڑتے ہیں بلکہ ان کے لئے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔  لڈی – کرو – یو کے لوگ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ناگا لوک ثقافت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

دوستو، آپ کے علاقے میں بھی ایسے ثقافتی انداز اور روایات ہوں گی۔ آپ بھی اپنے اپنے علاقوں میں ایسی کوششیں کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کو معلوم ہے کہ ایسی کوئی انوکھی کوشش کہیں کی جا رہی ہے تو آپ وہ معلومات میرے ساتھ ضرور شیئر کریں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہم نے یہاں کہا ہے

ودیا دھانم سروا دھانم پردھانم

یعنی اگر کوئی علم عطیہ کر رہا ہے تو وہ معاشرے کے مفاد میں بہترین کام کر رہا ہے۔ تعلیم کے میدان میں جلنے والا ایک چھوٹا سا چراغ بھی پورے معاشرے کو روشن کر سکتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ آج ملک بھر میں ایسی بہت سی کوششیں ہو رہی ہیں۔ بنسا یوپی کے دارالحکومت لکھنؤ سے 70-80 کلومیٹر دور ہردوئی کا ایک گاؤں ہے۔ مجھے اس گاؤں کے جتن للت سنگھ جی کے بارے میں معلوم ہوا ہے، جو تعلیم کا شعلہ جلانے میں مصروف ہیں۔ جتن جی نے دو سال پہلے یہاں ایک ’کمیونٹی لائبریری اینڈ ریسورس سنٹر ‘ شروع کیا تھا۔

ان کے سینٹر میں ہندی اور انگریزی ادب، کمپیوٹر، قانون اور کئی سرکاری امتحانات کی تیاری سے متعلق 3000 سے زیادہ کتابیں موجود ہیں۔ اس لائبریری میں بچوں کی پسند کا بھی پورا خیال رکھا گیا ہے۔ یہاں موجود مزاحیہ کتابیں ہوں یا تعلیمی کھلونے، بچے انہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ چھوٹے بچے یہاں کھیلتے ہوئے نئی چیزیں سیکھنے آتے ہیں۔ آف لائن ہو یا آن لائن تعلیم، اس مرکز میں تقریباً 40 رضاکار طلباء رہنمائی میں مصروف ہیں۔ اس لائبریری میں روزانہ گاؤں کے تقریباً 80 طلباء پڑھنے آتے ہیں۔

دوستو، جھارکھنڈ کے سنجے کشیپ جی بھی غریب بچوں کے خوابوں کو نئے پنکھ دے رہے ہیں۔ طالب علمی کی زندگی میں سنجے جی کو اچھی کتابوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ کتابوں کی کمی کے باعث اپنے علاقے کے بچوں کا مستقبل تاریک نہیں ہونے دیں گے۔ اس مشن کی وجہ سے آج وہ جھارکھنڈ کے کئی اضلاع میں بچوں کے لئے ’لائبریری مین‘ بن چکے ہیں۔ جب سنجے جی نے کام کرنا شروع کیا تھا تو انہوں نے اپنے آبائی مقام پر پہلی لائبریری بنوائی تھی۔ ملازمت کے دوران ، جہاں بھی ان کا تبادلہ ہوتا وہ غریب اور قبائلی بچوں کی تعلیم کے لئے لائبریری کھولنے کے مشن میں لگ جاتے۔ یہ کرتے ہوئے ، انہوں نے جھارکھنڈ کے کئی اضلاع میں بچوں کے لئے لائبریریاں کھولی ہیں۔ لائبریری کھولنے کا ان کا مشن آج ایک سماجی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ سنجے جی ہوں یا جتن جی، میں خاص طور پر ان کی بے شمار کوششوں کے لئے ، ان کی تعریف کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو، طبی سائنس کی دنیا نے تحقیق اور اختراع کے ساتھ ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی اور آلات کی مدد سے بہت ترقی کی ہے لیکن کچھ بیماریاں آج بھی ہمارے لئے ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ ایسی ہی ایک بیماری ہے – مسکولر ڈسٹرافی ! یہ بنیادی طور پر ایک جینیاتی بیماری ہے ، جو کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے ، جس میں جسم کے پٹھے کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ مریض کے لئے روزمرہ کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے کام بھی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے مریضوں کے علاج اور دیکھ بھال کے لئے خدمت کے جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماچل پردیش کے سولن میں ہمارا ایسا مرکز ہے، جو مسکولر ڈسٹرافی کے مریضوں کے لئے امید کی نئی کرن بن گیا ہے۔ اس مرکز کا نام ’ مانو مندر ‘ ہے۔ اسے انڈین ایسوسی ایشن آف مسکولر ڈسٹرافی کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ مانو مندر اپنے نام کے مطابق انسانی خدمت کی ایک شاندار مثال ہے۔ مریضوں کے لئے او پی ڈی اور داخلے کی خدمات یہاں تین چار سال قبل شروع ہوئی تھیں۔ مانو مندر میں تقریباً 50 مریضوں کے لئے بستروں کی سہولت بھی موجود ہے۔ فیزیو تھیراپی، الیکٹرو تھیراپی اور ہائیڈرو تھیراپی کے ساتھ ساتھ یہاں یوگا-پرانایام کی مدد سے بھی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔

دوستو، ہر قسم کی ہائی ٹیک سہولیات کے ذریعے یہ سنٹر مریضوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ مسکولر ڈسٹرافی  سے جڑا ایک چیلنج ، اس کے بارے میں آگاہی کی کمی بھی ہے۔ اسی لئے، یہ مرکز نہ صرف ہماچل پردیش بلکہ پورے ملک میں مریضوں کے لئے بیداری کیمپوں کا اہتمام کرتا ہے۔ سب سے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اس تنظیم کا انتظام بنیادی طور پر اس بیماری میں مبتلا لوگ کرتے ہیں، جیسے سماجی کارکن ارمیلا بالدی جی، انڈین ایسوسی ایشن آف مسکولر ڈسٹرافی کی صدر سسٹر سنجنا گوئل جی اور اس ایسوسی ایشن کے دیگر ممبران۔ شریمان وپل گوئل جی، جنہوں نے اس کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے ، اس ادارے کے لئے بہت اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ مانو مندر کو ایک ہسپتال اور تحقیقی مرکز کے طور پر تیار کرنے کی بھی کوششیں جاری ہیں۔ اس سے یہاں مریض بہتر علاج کر سکیں گے۔ میں اس سمت میں کوشش کرنے والے تمام لوگوں کی تہہ دل سے تعریف کرتا ہوں اور ساتھ ہی مسکولر ڈسٹرافی میں مبتلا تمام لوگوں کی صحت یابی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہم نے آج’ من کی بات ‘ میں اپنے ہم وطنوں کی ، جن تخلیقی اور سماجی کوششوں کی بات کی، وہ ہمارے ملک کی توانائی اور جوش و خروش کی مثالیں ہیں۔ آج ہر ہم وطن کسی نہ کسی میدان میں، ہر سطح پر ملک کے لئے کچھ مختلف کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آج کی گفتگو میں ہی ہم نے دیکھا کہ جی – 20  جیسے بین الاقوامی ایونٹ میں ہمارے ایک بنکر ساتھی نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور اسے نبھانے کے لئے آگے آئے۔ اسی طرح کچھ ماحولیات کے لئے کوششیں کر رہے ہیں، کچھ پانی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ تعلیم، طب اور سائنس ٹیکنالوجی سے لے کر ثقافت روایات تک غیر معمولی کام انجام دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج ہمارا ہر شہری اپنے فرائض کا احساس کر رہا ہے۔ جب کسی قوم کے شہریوں کے اندر فرض شناسی کا احساس پیدا ہوتا ہے تو اس کا سنہرا مستقبل خود بخود یقینی ہو جاتا ہے اور خود اس ملک کے سنہرے مستقبل میں ہم سب کا سنہرا مستقبل بھی مضمر ہے۔

میں ایک بار پھر ہم وطنوں کو ، ان کی کوششوں کے لئے سلام کرتا ہوں۔ ہم اگلے ماہ دوبارہ ملیں گے اور اس طرح کے بہت سے حوصلہ افزا موضوعات پر ضرور بات کریں گے۔ اپنی تجاویز اور خیالات بھیجتے رہیں۔ آپ سب کا بہت شکریہ!

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا )

U. No.  13012