مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی ڈاکٹر جتیندر سنگھ جی،ڈبلیو ایم او کی سیکریٹری جنرل پروفیسر سیلیستے ساؤلو جی،بیرونی ممالک سے آئے ہمارے معززمہمان،ارضیاتی سائنس کی وزارت کے سیکریٹری ڈاکٹر ایم روی چندرن جی،آئی ایم ڈی کے ڈائرکٹر جنرل ڈاکٹر مرتینجے موہاپاترا جی، دیگر معززین، سائنس اور مختلف محکموں اور اداروں کے سبھی افسران، خواتین و حضرات۔
آج ہم ہندوستانی محکمہ موسمیات ، آئی ایم ڈی کے 150 سال پورے ہونے کا جشن منا رہے ہیں۔ آئی ایم ڈی کے یہ 150 برس، یہ صرف ہندوستانی محکمہ موسمیات کا سفر نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے ہندوستان میں جدید سائنس اور ٹیکنولاجی کابھی ایک فخریہ سفر ہے۔ آئی ایم ڈی نے ان ڈیڑھ سو برسوں میں نہ صرف کروڑوں ہندوستانیوں کی خدمت کی ہے، بلکہ یہ ہندوستان کے سائنس کے سفر کی بھی علامت بنا ہے۔ ان حصولیابوں پر آج ڈاک ٹکٹ اور خصوصی سکہ بھی جاری کیا گیا ہے۔ 2047 میں، جب ملک آزادی کے 100 سال کا جشن منائےگا، تب ہندوستانی محکمہ موسمیات کی شکل کیا ہوگی، اسکے لیے وزن ڈوکومینٹ بھی جاری ہوا ہے۔ میں آپ سبھی کو، اور سبھی ملک کے عوام کو اس فخر کے موقع کے لیے بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ آئی ایم ڈی نے 150 برسوں کے اس سفر سے نوجوانون کو جوڑ نے کے لیے، نیشنل مٹریو لاجکل اولمپیاڈ کا انعقاد بھی کیا تھا۔ اس میں ہزاروں طلبا نے حصہ لیا۔ اس سے موسمیاتی سائنس میں ان کی دلچسپی مزید بڑھےگی۔ مجھے ابھی اس میں سے کچھ نوجوان دوستوں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا، اور آج بھی مجھے بتایا گیا کہ یہاں ملک کی سبھی ریاستوں کے ہمارے نوجوان موجود ہیں۔ اس پروگرام میں دلچسپی لینے کے لیے میں ان کو خصوصی طور پر مبارک باد دیتا ہوں۔اس میں حصہ لینے والے سبھی نوجوانوں اور فاتحین کو بھی بہت بہت مبارکباد۔
ساتھیوں،
1875 میں ہندوستانی محکمہ موسمیات کا قیام مکر سنکرانتی کے موقع پر ہی قریب 15 جنوری کو عمل میں آیا تھا۔ہندوستانی روایت میں مکر سنکرانتی کی کتنی اہمیت ہے ،یہ ہم سب جانتے ہیں اور مین تو گجرات کا رہنے والا ہوں تو میرا پسندیدہ تہوار مکر سنکرانتی ہی ہوا کرتا تھا،کونکہ آج گجرات کے لوگ سب چھت پر ہی ہوتے ہیں اور پورا دن پتنگ اڑانے کا مزہ لیتے ہیں،میں کبھی جب وہاں رہتا تھا،تب مجھے بھی اس کا بہت شوق تھا لیکن آج میں آپ کے درمیان ہوں ۔
ساتھیوں،
آج سوریہ دھنو سے مکر راشی میں پہنچتے ہیں ۔سورج رفتہ رفتہ شمال کی سمت بڑھ جاتا ہے ۔ہمارے یہاں ہندوستانی روایت میں اسے اتراین کہا جاتا ہے۔ناردرن ہیمسپھیر میں ہم رفتہ رفتہ بڑھتی ہوئی سورج کی روشنی کو محسوس کرنے لگتے ہیں۔کھیتی باڑی کےلئے ،زراعت کےلئے تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں اور اس لئے یہ دن بھارتیہ روایت میں اتنا اہم مانا جاتا ہے۔شمال سے جنوب ،مشرق سے مغرب تک مختلف ثقافتوں کا جشن منایا جاتا ہے۔میں اس موقع پر ملک کے عوام کو مکر سنکرانتی کے ساتھ وابستہ متعدد تہواروں کی بھی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیوں،
کسی بھی ملک کے سائنسی اداروں کی ترقی سائنس کے تئیں اس کی بیداری کو ظاہر کرتی ہے۔سائنسی اداروں میں تحقیق اور اختراع نئے ہندوستان کے مزاج کا حصہ ہے۔اسی لئے ،پچھلے دس برسوں میں آئی ایم ڈی کے انفرااسٹرکچر اور ٹیکنولوجی کی بھی غیر معمولی طورپر توسیع ہوئی ہے۔ڈوپلر ویدر راڈار ،آٹومیٹک ویدر اسٹیشنز ،رن وے ویدر مانیٹرنگ سسٹم ،ضلع وار بارش سے متعلق نگرانی کے اسٹیشنز ،ایسے متعدد جدید بنیادی ڈھانچوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے،انہیں اپ گریڈ بھی کیا جاتا ہے اور ابھی ڈاکٹر جتیندر سنگھ جی نے اعداد و شمار میں بھی آپ کو بتایا کہ پہلے کہاں تھے اور آج ہم کہاں پہنچ گئے ہیں۔موسمیاتی سائنس کو ہندوستان کی خلائی ٹیکنولوجی اور ڈیجیٹل ٹیکنولوجی کا بھی پورا فائدہ مل رہا ہے۔آج ملک کے پاس موسمیاتی نگرانی سے متعلق انٹارکٹیکا میں میتری اور بھارتی نام کی دو آبزرویٹری ہیں۔پچھلے سال ارک اور ارونیکا سپر کمپیوٹرس شروع کئے گئے ہیں۔اس سے موسمیات کے محکمے کی معتبریت بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھی ہے۔مستقبل میں ہندوستان ،موسم سے متعلق کسی بھی قسم کےحالات سے نمٹنے کےلئے تیار رہے،ہندوستان ایک کلائمیٹ اسمارٹ ملک بنے،اس کے لئے ہم نے مشن موسم بھی لانچ کیا ہے۔مشن موسم پائیدار مستقبل اور مستقبل کے لئے تیار رہنے کے سلسلے میں ہندوستان کے عزم کی بھی علامت ہے۔
ساتھیوں،
سائنس کی موزونیت صرف نئی بلندیوں کو چھونے میں نہیں ہے بلکہ سائنس تبھی موزوں ہوتا ہے جب وہ عام سے عام انسانی زندگی کا اور اس کی زندگی میں بہتری لانے میں آسانی پیداکرنے کا ذریعہ بنے۔ہندوستان کا محکمہ موسمیات اسی کسوٹی پر آگے ہے۔موسم کی معلومات ایک دم واضح ہو اور وہ ہر شخص تک پہنچے بھی، ہندوستان میں اس کےلئے آئی ایم ڈی نے ‘ارلی وارننگ فار آل’ نام سے ایک خصوصی مہم چلائی ہے۔جس کے تحت آج اس سہولت کی رسائی ملک کی 90فیصد آبادی تک ہو رہی ہے۔کوئی بھی شخص کسی بھی وقت پچھلے دس دن اور آنے والے دس دن کے موسم کی معلومات حاصل کرسکتا ہے۔موسم سے متعلق پیش گوئی براہ راست واٹس ایپ پر بھی پہنچ جاتی ہے۔ہم نے میگھ دوت موبائل ایپ جیسی سروس شروع کی ہے،جہاں ملک کی سبھی علاقائی زبانوں میں معلومات مہیا ہوتی ہے۔آپ اس کا اثر دیکھئے ،دس سال پہلے تک ملک کے صرف دس فیصد کسان اور مویشی پرور موسم سے متعلق مشوروں کو استعمال کرپاتے تھے۔آج یہ تعداد 50فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے۔یہاں تک کہ بجلی گرنے جیسی وارننگ بھی لوگوں کو موبائل پر ملنے لگی ہیں۔ پہلے ملک کے لاکھوں سمندری ماہی گیر جب سمندر میں جاتے تھے تو ان کے گھروالوں کو ہمیشہ ان کی فکر رہتی تھی۔انہونی کا خدشہ بنا رہتا تھا لیکن اب آئی ایم ڈی کے تعاون سے ماہی گیروں کو بھی وقت رہتے وارننگ مل جاتی ہیں ۔ان ریئل ٹائم اپ ڈیٹ سے لوگوں کا تحفظ بھی ہورہا ہے ساتھ ہی زراعت اور سمندر معیشت جیسے شعبوں کو طاقت بھی مل رہی ہے۔
ساتھیوں،
موسمیاتی سائنس ،کسی بھی ملک کی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت کا سب سے ضروری جز ہوتا ہے۔یہاں بہت بڑی تعداد مین آفات سے نمٹنے کے انتظامات سے متعلق لوگ یہاں بیٹھے ہیں۔قدرتی آفات کے اثر کو کم سے کم کرنے کےلئے ،ہمیں موسمیاتی سائنس کی موثر اور بہتر سے بہتر صلاحیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ہندوستان نے ہمیشہ اس کی اہمیت کو سمجھا ہے۔آج ہم ان آفات کا رخ موڑنے میں کامیاب ہورہے ہیں،جنہیں پہلے فطرت کہہ کر چھوڑ دیا جاتا تھا۔آپ کو یاد ہوگا،1998 میں کچھ کے کانڈلا میں گردابی طوفان نے کتنی تباہی مچائی تھی۔اس وقت بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے تھے۔اسی طرح 1999 میں اڈیشہ کے سپر سائکلون کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو جان گنوانی پڑی تھی۔ گزشتہ برسوں میں ملک میں کتنے ہی بڑی بڑی طوفان آئے ،آفات آئیں لیکن زیادہ تر میں ہم انسانی جانی نقصان کو صفر کرنے یا کم سے کم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ان کامیابیوں میں محکمہ موسمیات کا بہت بڑا رول رہا ہے۔سائنس اور تیاریوں کے ایک ساتھ آنے سے لاکھوں کروڑوں روپے کے معاشی نقصان میں بھی کمی آتی ہے ۔اس سے ملک کی معیشت میں ایک استحکام پیدا ہوتا ہے اور سرمایہ کاروں کا بھروسہ بھی بڑھتا ہے اور میرے ملک میں تو بہت فائدہ ہوتا ہے ۔کل میں سون مرگ میں تھا،پہلے وہ پروگرام جلدی بنا تھا،لیکن محکمہ موسمیات کی ساری معلومات سے پتہ چلا کہ میرے لئے وہ وقت مناسب نہیں ہے۔پھر محکمہ موسمیات نے مجھے بتایا کہ صاحب ،13تاریخ ٹھیک رہے گی،تب کل میں وہاں گیا۔درجہ حرارت منفی چھ ڈگری سیلسیس تھا ،لیکن پورا وقت جب میں وہاں رہا ایک بھی بادل نہیں تھا ،ساری دھوپ کھلی ہوئی تھی ۔محکمہ موسمیات کی ان اطلاعات کی وجہ سے اتنی آسانی سے میں پروگرام کرکے لوٹ آیا۔
سائنس کے شعبہ میں ترقی اور اس کے مکمل صلاحیت کا استعمال ،ہی کسی بھی ملک کی عالمی شبیہ کی سب سے بڑی بنیاد ہوتی ہے۔آج آپ دیکھئے ہماری موسمیاتی پیش رفتوں کی وجہ سے آفات سے نمٹنے کی ہماری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔اس کا فائدہ پوری دنیا کو مل رہا ہے۔آج ہمارا فلیش فلد گائڈنس سسٹم نیپال ،بھوٹان ،بنگلہ دیش اور سری لنکا کو بھی موسمیات سے متعلق اطلاعات فراہم کر رہا ہے اچا،ہمارے پڑوس میں کہیں کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو ہندوستان سب سے پہلے مدد کےلئے موجود ہوتا ہے۔اس سے دنیا میں ہندوستان کے تعلق سے بھروسہ بھی بڑھا ہے ۔دنیا میں وشو بندھو کے طورپر ہندوستان کی شبیہ مزید مضبوط ہوئی ہے۔اس کے لئے میں آئی ایم ڈی کے سائنس دانوں کی خاص طورپر ستائش کرتا ہوں۔
ساتھیوں،
آج آئی ایم ڈی ڈیڑھو برس مکمل ہونے کے موقع پر میں محکمہ موسمیات کے تعلق سے ہندوستان کے ہزاروں برسوں کے تجربے ،اس کی خصوصیات کا بھی تذکرہ کروں گا،خاص طورپر میں یہ واضح کروں گا کہ یہ ڈیڑھ سو سال ڈھانچہ جاتی سہولیات کے رہے ہیں،لیکن اس سے پہلے بھی ہمارے پاس علم بھی تھا،اور اس کی روایت بھی تھی ۔خاص طورپر ہمارے جو بین الاقوامی مہمان ہیں ،ان کے لئے اس بارے میں جاننا بہت دلچسپ ہوگا۔آپ جانتے ہیں ہیومن ایولیوشن میں ہم جن عناصر کا سب سے زیادہ اثر دیکھتے ہیں ،ان میں سے موسم بھی ایک اہم عنصر ہے۔دنیا کے ہر حصے میں ،انسانوں نے موسم اور ماحولیات کو جاننے،سمجھنے کی مسلسل کوششیں کی ہیں۔اس سمت میں ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہزاروں برس قبل بھی محکمہ موسمیات کے شعبے میں منظم مطالعات و تحقیق ہوئی ۔ہمارے یہاں روایتی علوم کو تحریری شکل دی گئی،سنوارا گیا،ہمارے یہاں ویدوں ،سنہتاؤں اور سوریہ سدھانت جیسے جیوتشی گرنتھوں میں موسمیاتی سائنس پر بہت کام ہوا ہے۔تمل ناڈو کے سنگم ساہتیہ اور اترپردیش میں گھاگ بھڈاری میں لوک ساہتیہ میں بھی بہت سی معلومات دستیاب ہیں اور یہ موسمیاتی سائنس صرف ایک علحیدہ برانچ نہیں تھی بلکہ ان میں اسٹرونومیکل کیلکولیشن بھی تھی۔آب وہوا کا مطالعہ بھی تھا ،جانوروں سے متعلق معلومات بھی تھی اور سماجی تجربات بھی تھے۔ہمارے یہاں پلینٹری پوزیشن پر جتنا ریاضی کا کام ہوا وہ پوری دنیا جانتی ہے،ہمارے رشیوں نے گرہوں کو سمجھا ،ہم نے راشیوں ،نکشتروں اور موسم سے وابستہ پیش گوئی کیں،کرشی پراشر،پراشر روچی اور ورہت سنہتا جیسے گرنتھوں میں بادلوں کے بننے اور ان کی اقسام پر گہری تحقیق ملتی ہے۔کرشی پراشر میں کہا گیا ہے۔
अतिवातम् च निर्वातम् अति उष्णम् चाति शीतलम् अत्य-भ्रंच निर्भ्रंच षड विधम् मेघ लक्षणम्॥
مطلب اونچے اور نیچے موسمیاتی دباؤ ،زیادہ اور کم درجہ حرارت ،ان بادلوں کی علامات اور بارش متاثر ہوتی ہے ،آپ تصور کرسکتے ہیں کہ سینکڑوں ہزاروں برس پہلے بغیر جدید مشینری کے ان رشیوں نے ان ودوانوں نے کتنی تحقیق کی ہوگی ۔کچھ برس پہلے میں نے اسی موضوع سے متعلق ایک کتاب ‘پری ماڈرن کچھی نیوی گیشن ٹیکنیک اینڈ وویجز’ لانچ کی تھی۔یہ کتاب گجرات کے ملاحوں کے سمندر اور موسم کے متعلق کئی سو سال پرانی معلومات کی ٹرانسکرپٹ ہے۔اس طرح کی معلومات کی ایک بہت خوشحال وراثت ہمارے قبائلی سماج کے پاس بھی ہے۔اس کے پیچھے فطرت کی سمجھ اور جانوروں کے طرز عمل کی بھی بہت باریکی سے تحقیق شامل ہے۔
مجھے یاد ہے قریب پچاس سال سے بھی زیادہ وقت ہوگیا ہوگا،میں اس وقت گر کے جنگلات میں وقت بتانے گیا تھا،تو وہاں حکومت کے لوگ ایک قبائلی بچے کو ہرمہینے 30 روپےمزدوری دیتے تھے، تو میں پوچھا یہ کیا ہے؟ اس بچے کو کیوں یہ پیسا دیا جارہا ہے؟بولے،اس بچے میں ایک خاص طرح کی صلاحیت ہے۔اگر جنگل میں کہیں دور دور بھی کہیں آگ لگی ہو تو اس بچے کو پہلے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ کہیں آگ لگی ہے۔اس میں وہ صلاحیت تھی اور فورن سسٹم کو بتا دیتا تھا، اور اس لئے اس کو ہم 30 روپے دیتے تھے۔یعنی اس قبائلی بچے میں جو بھی اس کی صلاحیت رہی ہوگی ،وہ بتا دیتا تھا کہ صاحب اس سمت میں مجھے بو آرہی ہے ۔
ساتھیوں،
آج وقت ہے کہ ہم اس سمت میں اور زیادہ تحقیق کریں ،جو علم تصدیق شدہ ہو جدید سائنس سے رابطہ قائم کرنے کے وسائل تلاش کرے۔
ساتھیوں،
محکمہ موسمیات کی پیش گوئیاں جتنی زیادہ معتبر ہوتی جائیں گی اس کی اطلاعات فراہم کرنے کی اہمیت بڑھتی جائے گی ۔آنے والے وقت میں آئی ایم ڈی کے ڈیٹا کی مانگ بڑھے گی۔اس لئے ہمیں مستقبل کی ضرورتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کام کرنا ہے۔زلزلے جیسی قدرتی آفات جیسے چیلنجز بھی ہیں،جہاں ہمیں وارننگ سسٹم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔میں چاہوں گا کہ ہمارے سائنس داں ،ریسرچ اسکالرس اورآئی ایم ڈی جیسے ادارے اس سمت میں نئی دریافتوں کو حاصل کرنے کےلئے کام کریں ،ہندوستان دنیا کی خدمت کے ساتھ ساتھ سکیورٹی میں بھی اہم رول ادا کرے گا۔اسی جذبے کے ساتھ مجھے یقین ہے کہ آئندہ وقت میں آئی ایم ڈی نئے بلندیاں سر کرے گا۔میں ایک بار پھر آئی ایم ڈی اور موسمیاتی سائنس سے وابستہ سبھی افراد کو ڈیڑھ سو برسوں کی فخرسے بھرے سفر کےلئے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں اور ان برسوں میں جن جن لوگوں نے اس ترقی کو رفتار دی ہے وہ بھی اسی مبارکباد کے حق دار ہیں ۔جو لوگ یہاں موجود ہیں میں ان کا بھی خیر مقدم کرتا ہوں اور جو ہمارے درمیان نہیں ہیں ان کو بھی یاد کرتا ہوں ۔میں پھر ایک بار آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ش ح۔ا م ۔ن م۔
U-5205
Addressing the 150th Foundation Day celebrations of India Meteorological Department. https://t.co/suEquYtds9
— Narendra Modi (@narendramodi) January 14, 2025
IMD के ये 150 वर्ष… ये केवल भारतीय मौसम विभाग की यात्रा नहीं है।
— PMO India (@PMOIndia) January 14, 2025
ये हमारे भारत में आधुनिक साइन्स और टेक्नालजी की भी एक गौरवशाली यात्रा है।
IMD ने इन 150 वर्षों में न केवल करोड़ों भारतीयों की सेवा की है, बल्कि भारत की वैज्ञानिक यात्रा का भी प्रतीक बना है: PM @narendramodi
वैज्ञानिक संस्थाओं में रिसर्च और इनोवेशन नए भारत के temperament का हिस्सा है।
— PMO India (@PMOIndia) January 14, 2025
इसीलिए, पिछले 10 वर्षों में IMD के इंफ्रास्ट्रक्चर और टेक्नॉलजी का भी अभूतपूर्व विस्तार हुआ है: PM @narendramodi
भारत एक climate-smart राष्ट्र बनें इसके लिए हमने ‘मिशन मौसम’ भी लॉंच किया है।
— PMO India (@PMOIndia) January 14, 2025
मिशन मौसम sustainable future और future readiness को लेकर भारत की प्रतिबद्धता का भी प्रतीक है: PM @narendramodi
हमारी meteorological advancement के चलते हमारी disaster management capacity build हुई है।
— PMO India (@PMOIndia) January 14, 2025
इसका लाभ पूरे विश्व को मिल रहा है।
आज हमारा Flash Flood Guidance system नेपाल, भूटान, बांग्लादेश और श्रीलंका को भी सूचनाएं दे रहा है: PM @narendramodi