نریندر مودی کی سرکاری رہائش گاہ نئی دہلی میں اس جگہ واقع ہے جسے کبھی ریس کورس روڈ کہا جاتا تھا۔ 2016 میں، یہ لوک کلیان مارگ یا “پیپلز ویلفیئر اسٹریٹ” میں تبدیل ہو گئی، جو کہ ایک دو بارہ منتخب ہونے والے لیڈر کے لیے مقبولیت پسند جھکاؤ اور ہندوستان کے نوآبادیاتی ماضی کے پھندے کو ترک کرنے کے لیے ایک خاص نام ہے۔
ہوائی اڈے کی طرز کی سیکیورٹی کے ایک گھیرے کے بعد، حال ہی میں تجدید شدہ کامپلیکس (جسے ان کے عملے نے “سیون ایل کے ایم” کہا ہے) میں موروں اور اندرونی صحنوں میں آرائشی پھولوں کی نمائش ہے۔ اندر، میٹنگ رومز میں سے ایک کی چھت کے فریسکوز پر دنیا کا نقشہ پینٹ کیا گیا ہے، جبکہ کیبنٹ روم میں ہندوستان کے آئین کی تمہید کی سطور لکھی ہوئی ہیں۔
اس پرسکون رہائش گاہ سے ہی مودی نے ہندوستان کے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی اثر و رسوخ کو سنبھالا ہے لیکن ان کے متعدد گھریلو مخالفین کے خیال سے وہ اسی جگہ سے اس آئین کے لیے خطرہ بھی بن سکتے ہیں۔
مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے ایک بڑی میز سے اٹھتے ہوئے، مودی نے اس ایک سال کے اختتام پر اعتماد کا اظہار کیا جب ہندوستان مسلسل عالمی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے۔ اس ملک نے آبادی کے لحاظ سے چین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور عالمی قائدین، کاروباری مشیران اور بینکوں کے ذریعہ بھارت کو دنیا کی ایک متبادل سرمایہ کاری منزل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جبکہ بیجنگ کو لے کر ان کے شکوک شبہات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
بہت سے ہندوستانی اور عالمی رہنما یکساں طور پر اب مودی کےمتوقع آئندہ پانچ برسوں کے لیے تیار ہو رہےہیں ۔ 73 سالہ رہنما آئندہ برس کے اوائل میں ہونے والے انتخابات میں تیسری مدت کار کے لیے عہدے کی حصولیابی کے لیے کوشاں ہوں گے، جس میں ان کی پارٹی کی فتح کی امیدیں زیادہ ہیں۔ وہ زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ “عام آدمی کی زندگی میں ٹھوس تبدیلی” کے ریکارڈ کی بدولت وہ “فتح کو لے کر پراعتماد” ہیں۔
کریم رنگ کے کرتے اور زنگ جیسے رنگ کی آستین والی جیکٹ میں ملبوس، داڑھی ، بال ، اور ناخن نفاست سے تراشے ہوئے ، مودی نے کہا’’آج، بھارت کے لوگوں کی امنگیں 10 برس پہلے کی ان کی امنگوں سے مختلف ہیں ‘‘۔
وہ کہتے ہیں “انہیں احساس ہے کہ ہمارا ملک اڑان بھرنے کے لیے تیار ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس پرواز میں تیزی لائی جائے، اور وہ اس بات کو یقینی بنانے کی اہل بہترین پارٹی کو جانتے ہیں ۔ انہیں یقین ہے کہ یہی وہ پارٹی ہے جس نے انہیں یہاں تک پہنچایا ہے۔”
ایف ٹی نے مودی کا انٹرویو اس وقت کیا جب ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی پانچ میں سے تین ریاستی انتخابات میں سخت مقابلے کے بعد حاصل ہوئی فتح کا جشن منا رہی تھی، جسے اپریل اور مئی 2024 کے درمیان متوقع انتخابات کے لیے ایک مشق کے طور پر دیکھا جارہا تھا، جب بھارت کے 940 ملین سے زیادہ اہل ووٹ دہندگان انتخابات میں حصہ لیں گے۔
تیسری مرتبہ فتح مودی کے حامیوں کے لیے ایک تصدیق ہوگی، جو کہتے ہیں کہ انھوں نے بھارت کی معیشت اور عالمی وقار کو بنایا، کروڑوں لوگوں کی زندگیوں میں بہتری آئی اور اکثریتی ہندو مذہب کو عوامی زندگی کے مرکز میں رکھا گیا ہے۔
ان کی مخالف جماعتیں ، جن کی قیادت انڈین نیشنل کانگریس اور راہل گاندھی سمیت ممبران پارلیمنٹ نے کی ہے، ’انڈیا‘کے مخفف کے تحت ایک اتحاد میں شامل ہو گئی ہیں۔ اس اتحاد کا خیال ہے کہ وہ ملک کے بانیان کے جمہوری اصولوں پر ہو رہے حملہ کے خلاف”جمہوریت اور آئین کی حفاظت” کرے گا۔ اپنے تقریباً 10 سال کے اقتدار کے دوران، ناقدین نے مودی کی حکومت پر حریفوں کے خلاف کاروائی کرنے، سول سوسائٹی پر قدغن لگانے اور ملک کی بڑی مسلم اقلیت کے ساتھ امتیازی سلوک برتنے کا الزام عائد کیا ہے۔
مودی کے مخالفین کو خدشہ ہے کہ وہ تیسری مدت کی فتح کا استعمال ، خاص طور پر اگر بی جے پی بھاری اکثریت حاصل کر لیتی ہے، تو سیکولر اقدار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے لیے، ممکنہ طور پر ہندوستان کو واضح طور پر ہندو جمہوریہ بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کر نے کے لیے کریں گے۔
جمہوری پسپائی کے دعوے – جسے بی جے پی مسترد کرتی ہے – نے ہندوستان اور بیرون ملک کچھ مبصرین کو ایک ایسے وقت میں پریشان کر دیا ہے جب دنیا بھر کے رہنما ایک ارضیاتی سیاسی اور اقتصادی شراکت دار کے طور پر ملک سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔
ایک نادر انٹرویو اور اضافی تحریری جوابات میں، وزیر اعظم نے چند اہم سوالات کے جوابات دیے ، جن میں ہندوستان کی مسلم اقلیت کی حیثیت، ماورائے عدالت قتل کی مبینہ سازشوں کی وجہ سے امریکہ اور کناڈا کے ساتھ تنازعات اور آئینی ترمیم شامل ہیں – حالانکہ انہوں نے اپنی حکومت کے معاشی اور جمہوری ریکارڈ پر تنقید کو خارج کر دیا۔
مودی اور ان کے حامیوں کے لیے اس طرح کی باتیں اور خدشات بے معنی شور و غل ہے جو اس بھارت پر بے اثر ہے جس کی تعمیر وزیر اعظم مودی کر رہے ہیں، جو اکثریتی طبقے کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے جس کے بارے میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسے بھارتی سیاست میں ایک طویل عرصے تک نظر انداز کیا گیا تھا۔
وہ ہندوستانی جمہوریت کی صحت پر تشویش کے بارے میں کہتے ہیں “ہمارے ناقدین کو اپنی رائے اور ان کے اظہار کی آزادی کا حق ہے۔ تاہم، اس طرح کے الزامات کے ساتھ ایک بنیادی مسئلہ ہے، جو اکثر تنقید کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔یہ دعوے نہ صرف ہندوستانی عوام کی ذہانت کی توہین کرتے ہیں بلکہ تنوع اور جمہوریت جیسی اقدار کے تئیں ان کی گہری وابستگی کو بھی کم کرتے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ’’آئین میں ترمیم کی بات بے معنی ہے۔‘‘
مودی کہتے ہیں، ان کی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے “انتہائی تبدیلی کے اقدامات”، “کلین انڈیا” سے لے کر ملک گیر بیت الخلا بنانے کی مہم سے لے کر ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر کے ذریعے تقریباً ایک بلین افراد کو آن لائن لانے تک، “یہ تمام امور آئین میں ترمیم کیے بغیر عوامی شرکت کے ذریعےپورے ہوگئے ۔”
متنوع خارجہ پالیسی
اگست 2023 میں، ہندوستان نے چاند کے قطب جنوبی کے نزدیک اپنا چندریان 3 بغیر پائلٹ کے اتارا۔ کچھ ہی دن بعد، اس نے جی20 سربراہ اجلاس میں دنیا کی سرکردہ معیشتوں کی میزبانی کی جس کا مقصد ملک اور مودی کی حیثیت کو بلند کرنا تھا۔ جب عالمی قائدین نئی دہلی تشریف لا رہے تھے تو اس وقت وزیر اعظم مودی دہلی کے ارد گرد پوسٹروں میں چھائے ہوئے تھے۔
ہندوستان نے اپنی ڈیجیٹل شمولیت کی مہم سے لے کر آب و ہوا کے لیے لچکدار موٹے اناج کی کاشت کو فروغ دینے کے لیے اپنی مہم تک، دنیا کے سامنے ایک وشو گرو، یا استاد عالم کے طور پر خود کو پیش کیا۔
بھارت نے “وائس آف دی گلوبل ساؤتھ” سربراہ اجلاس کی میزبانی بھی کی اور ستمبر میں جی 20 کے مستقل رکن کے طور پر افریقی یونین کے داخلے کو کامیاب بنایا۔ مودی نے روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ بھارت کی دہائیوں پرانی ناوابستگی کی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے قریبی تعلقات کو برقرار رکھا، لیکن جو بائیڈن کے ساتھ پہلے سے زیادہ قریبی تعلقات کو جون کے ریاستہائے متحدہ کے دورہ کے دوران مضبوط کیا جب دونوں ممالک نے جیٹ انجنوں سے لے کر کوانٹم کمپیوٹنگ تک متعدد شعبوں میں معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔
وزیر اعظم مودی نے بھارت کی متنوع خارجہ پالیسی کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ’’دنیا ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے پر منحصر ہے۔‘‘ (ایک اور سینئر سرکاری افسر نے فائننشل ٹائمز سے گمنام طور پر بات کرتے ہوئے کثیر قطبی اور کثیر جہتی دنیا میں بھارت کی موجودہ پوزیشن کو ’’بہتر‘‘ قرار دیا)۔
مودی کہتے ہیں، ’’خارجی امور میں ہمارا اولین رہنما اصول ہمارا قومی مفاد ہے۔ “یہ موقف ہمیں مختلف ممالک کے ساتھ اس انداز میں مربوط ہونے کی اجازت دیتا ہے جو باہمی مفادات کا احترام کرے اور عصری جغرافیائی سیاست کی پیچیدگیوں کو تسلیم کرے۔”
جب ان سے دریافت کیا گیا کہ آیا امریکہ کے ساتھ بھارت کے قریبی تعلقات کو ایک اتحاد کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے، تو مودی نے کہا کہ تعلقات “پروان چڑھ رہے ہیں” ، حالانکہ گزشتہ ماہ وفاقی استغاثہ کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ امریکی سرزمین پر ہندوستانی حکومت کے ایک اہلکار نے ایک ممتاز امریکی سکھ علیحدگی پسند رہنما کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’اس رشتے کو بیان کرنے کے لیے بہترین الفاظ کے انتخاب کی ذمہ داری میں آپ کو دیتا ہوں۔ آج، بھارت – امریکہ تعلقات سرگرمی کے لحاظ سے وسیع تر ہیں، تفہم کے لحاظ سے عمیق ہیں، اور دوستی میں جتنی گرمجوشی اب دیکھی جا رہی ہے، وہ پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔‘‘
مودی نے امریکہ اور چین کے درمیان تناؤ میں حالیہ نرمی کے بارے میں ایک سوال کو درکنار کرتے ہوئے کہا کہ وہ “امریکہ اور چین کے عوام اور حکومت کی طرف سے بہترین طریقے سے حل کیے گئے ہیں”۔
اسرائیل-حماس تنازعہ پر، جہاں ان کی حکومت نے بیشتر بنجامن نتن یاہو – جو کہ ایک اہم شراکت دار ہیں اور جن کے ساتھ وہ ٹیکنالوجی اور دائیں بازو کی قوم پرست عالمی نظریہ کا اشتراک کرتے ہیں- کی حکومت پر تنقید کرنے سے گریز کیا ہے ، مودی نے کہا کہ بھارت نے غزہ کو انسانی امداد کی فراہمی کی حمایت کی ہے، اور دو ریاستی حل کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ ہندوستان، جو طویل عرصے سے فلسطینی کاز کا پرزور حامی رہا ہے، مودی کی قیادت میں اسرائیل کے قریب ہوا ہے، اور مودی اس ملک کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ “میں خطے کے رہنماؤں سے رابطے میں رہتا ہوں”۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر بھارت امن کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے کچھ کر سکتا ہے تو ہم ضرور کریں گے۔‘‘
چین کا ایک متبادل
ایک اقتصادی طور پر ابھرتے ہوئے بھارت کا تصور دنیا کے سب سے بڑے ترقی پذیر ملک کے لیے کوئی نیا نہیں ہے۔ تاہم اس بیانیے کو حالیہ برسوں کے دوران حاصل ہونے والی تقویت کی ایک وجہ یہ کہ مودی نے بھارت کو پانچ کھرب امریکی ڈالر کے بقدر معیشت بنانے اور امرت کال (’’امرت کا دور‘‘ یا سنسکرت میں سنہری دور) میں داخل ہونے، جیسی باتوں کے ذریعہ اسے فروغ دیا ہے۔
اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی نے مغربی جمہوریتوں کو چین کے لیے متبادل تجارتی اور سفارتی شراکت داروں کی تلاش پر اکسایا ہے۔
اگست میں اپنی یوم آزادی کی تقریر میں، بھارتی رہنما نے 2047 تک بھارت کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کا عزم کیا، جب ملک اپنی 100 ویں سالگرہ منائے گا، حالانکہ کچھ ماہرین اقتصادیات نے نشاندہی کی ہے کہ اس کو حاصل کرنے کے لئے ملک کو اپنی موجودہ 6-7 فیصد سالانہ شرح سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے کی ضرورت ہوگی۔جبکہ کچھ ہندوستانی اس تصور کے بارے میں پرجوش ہیں، وہیں دوسری جانب دیگر افراد کو ایک ایسے ملک میں جھوٹی صبح کا خوف ہے جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ وہ اکثر اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتا۔
مودی نے کہا کہ ہندوستان “نازک پانچ” (مورگن اسٹینلے کے ایک محقق نے 2013 ، یعنی ان کے اقتدار سنبھالنے سے ایک برس قبل، میں اس کی نشاندہی کی تھی۔ اس نے ایسی معیشتوں کی جانب اشارہ کیا تھا جو اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری پر حد سے زیادہ انحصار کرتی ہیں)میں سے ایک ہونے سے ترقی کرکے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ان کی مدت کار میں بنیادی ڈھانچہ تعمیرات نے اڑان بھری، اور مودی حکومت نے اعداد و شمار میں زبردست تبدیلی برپا کی، یعنی: ہوائی اڈوں کی تعداد جو ایک دہائی سے بھی کم عرصے قبل محض 74 تھی وہ دوگنے اضافے سے ہمکنار ہوکر 149 ہوگئی؛ میٹرو لائن جو ایک دہائی سے بھی کم عرصے قبل 248 کلومیٹر طویل تھی، اب بڑھ کر 905 کلو میٹر کے بقدر ہوگئی؛ میڈیکل کالج جن کی تعداد پہلے 387 تھی اب بڑھ کر 706 ہوگئی۔
ایپل اور اور اس کی سپلائر فاکس کان جیسے ملٹی نیشنل کمپنیاں، دنیا کے سب سے بڑے مینوفیکچرنگ مرکز سے دور “چائنا پلس ون” تنوع کی مہم کے ایک حصے کے طور پر ہندوستان میں صلاحیت پیدا کر رہی ہیں۔ کچھ تو یہاں تک پیشن گوئی کر چکے ہیں کہ یہ دہائیوں قبل چین کے عروج کو دوہرا سکتا ہے، جہاں تکنیکی ترقی اور مینوفیکچرنگ، تعمیرات اور دیگر شعبوں میں روزگار میں اضافے نے ملک اور اس کے عوام کی زندگی کو بدل دیا تھا۔
مودی کو اپنے ایک قابل انتظام کار ہونے پر فخر ہے ، وہ خود کو ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جو ملک کی وسیع نوکر شاہی کو ختم کر سکتا ہے اور کام کروا سکتا ہے – بڑی اقتصادی اصلاحات سے لے کر ان کروڑوں ہندوستانیوں کے لیے فلاح و بہبود کی فراہمی تک جو نقد کی منتقلی اور مفت خوراک جیسی خدمات پر انحصار کرتے ہیں۔
تاہم بنیادی ڈھانچے کی ایک پہل قدمی اور دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت کے طور پر اس کی حیثیت کے باوجود، بھارت کافی ملازمتیں پیدا نہیں کر رہا ہے، جو کہ بی جے پی ، جو ایک قومی میں داخل ہو رہی ہے، کے لیے ایک کمزور نقطہ پیش کر رہا ہے۔ اگرچہ بہت سے ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ بے روزگاری کے بارے میں ہندوستان کا ڈاٹا ناکافی ہے، لیکن سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے ذریعہ رپورٹ کردہ ایک وسیع پیمانے پر نقل کردہ پیمائش کے مطابق، یہ شرح تقریباً 9 فیصد پر چل رہی ہے۔ کانگریس کی قیادت میں مودی کے مخالفین نے حالیہ ریاستی انتخابات میں اس معاملے پر بی جے پی کو نشانہ بنایا، اور عدم مساوات کے معاملے پر حکمراں پارٹی پر بھی حملہ کیا۔
تاہم ہندوستانی رہنما اس کے بجائے متواتر لیبر فورس سروے کے ذریعہ جمع کردہ بے روزگاری کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہیں، جو ان کے بقول “بے روزگاری کی شرح میں مسلسل کمی” کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مودی کا کہنا ہے کہ “پیداواری اور بنیادی ڈھانچے کی توسیع جیسے کارکردگی کے مختلف پیمانوں کا جائزہ لیتے وقت، یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بھارت ، جو کہ ایک وسیع اور نوجوان ملک ہے، میں روزگار بہم رسانی میں تیزی آئی ہے۔”
بدعنوانی، انتظامی رکاوٹیں، اور نوجوانوں کے درمیان ہنر مندی کا فرق کاروبار کی راہ میں دیگر رکاوٹیں ہیں جن کے بارے میں ہندوستانی اور غیر ملکی کمپنیاں شکایت کرتی ہیں – اور جن کے بارے میں کچھ کا خیال ہے کہ وہ ملک کو چین کی مینوفیکچرنگ کی قیادت میں ہونے ولی معاشی ترقی کو نقل کرنے سے روک سکتا ہے۔
اس بارے میں پوچھے جانے پر مودی نے کہا، ’’آپ چین کے ساتھ موازنہ کرچکے ہو، تاہم بھارت کا موازنہ دیگر جمہوریتوں سے کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ “یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت کا درجہ حاصل نہیں کر پاتا اگر آپ نے جن مسائل کو اجاگر کیا ہے وہ اتنے وسیع ہوتے جتنا بتایا جاتا ہے۔اکثر، یہ خدشات تصورات سے پیدا ہوتے ہیں، اور بعض اوقات تصورات کو تبدیل کرنے میں وقت لگتا ہے۔”
مودی نے مہارت کے فرق کے جوابی ثبوت کے طور پر گوگل اور مائیکرو سافٹ جیسی اعلی کمپنیوں میں بھارت نژاد سی ای او کی موجودگی کی طرف بھی اشارہ کیا – حالانکہ کچھ تجزیہ کاروں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بہت سارے ہنر مند بھارتیوں کا غیر ممالک جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں مواقع بہت کم ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا بھارت کو ان لوگوں کو واپس لانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، مودی نے کہا، ’’بات انہیں واپس لانے کی ضرورت نہیں کی نہیں ہے۔ بلکہ ہمارا مقصد بھارت میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہے کہ لوگ بھارت کی ترقی کا حصہ بننے کے لیے فطری طور پر متوجہ ہوں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ: ’’ ہم ایسے حالات پیدا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جہاں ہر کوئی ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے اور اپنے کاموں کی توسیع کو اہمیت دے۔‘‘
مودی حکومت کے چند عہدیداروں نے وزیر اعظم کے تیسری مرتبہ فتحیاب ہونے کی صورت میں نجی طور پر لیبر قوانین میں نرمی لانے جیسی اصلاحات کے بارے میں بات کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے تصور میں ایک ایسا نظام ہے جہاں دنیا بھر سے کوئی بھی بھارت میں اپنے گھر جیسا محسوس کرے، جہاں ہمارے عمل اور معیارات مانوس اور خوش آئند ہوں۔یہ وہ مبنی بر شمولیت، عالمی معیار کا نظام ہے جسے ہم تعمیر کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔”
جمہوریت کے لیے ایک خطرہ؟
بی جے پی کے اہم سیاسی دشمن – گاندھی کی قیادت میں مودی کے ازحد پر اثر مخالفین نے سوال کیا ہے کہ کیا ہندوستان کی جمہوریت مودی کی تیسری مدت میں زندہ رہے گی۔ مودی کی حکومت نے سول سوسائٹی کے گروپوں پر دباؤ ڈالا ہے، جنہیں ان کی فنڈنگ پر سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔ اور ، رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز جیسے نگراں گروپوں کے مطابق ، دنیا کے سب سے بڑے میڈیا منظرناموں میں سے ایک میں صحافیوں پر سیاسی اور مالی دباؤبڑھ رہا ہے۔
گاندھی ان اراکین پارلیمنٹ میں شامل ہیں جنہوں نے اس سال مودی پر تنقید کی تھی جب ایک شارٹ سیلر کی رپورٹ میں وزیر اعظم کی ریاست گجرات سے سیاسی طور پر جڑے ہوئے اڈانی گروپ کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے تھے۔ اڈانی گروپ سے وابستہ تنازعہ نے چند بڑے خاندانی کاروباری گروپوں کے گرد ہندوستان کی معیشت کے ارتکاز کے بارے میں وسیع تر خدشات کو اجاگر کیا ہے۔
پارٹی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے دور حکومت میں مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر میں اضافہ ہوا ہے، اور بی جے پی میں کوئی موجودہ رکن پارلیمنٹ یا سینئر حکومتی وزیر نہیں ہے جو مسلمان ہوں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ بھارت میں مسلم اقلیت کا کیا مستقبل ہے، مودی نے اس کے بجائے ہندوستان کے پارسیوں کی معاشی کامیابی کی طرف اشارہ کیا، جنہیں وہ “ہندوستان میں رہنے والی مذہبی مائیکرو اقلیت” کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
ایک جواب کے تحت، جس میں ملک کے تقریباً 200 ملین مسلمانوں کا براہ راست حوالہ نہیں دیا گیا، مودی نے کہا کہ “دنیا میں کہیں اور ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے باوجود، انہیں ہندوستان میں ایک محفوظ پناہ گاہ ملی ہے، وہ خوشی کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ ” اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ کسی مذہبی اقلیت کے ساتھ امتیازی سلوک کا احساس نہیں رکھتا ہے۔”
مودی سرکار کے اپنے ناقدین کے خلاف مبینہ کاروائی کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے ایک طویل اور زوردار قہقہہ لگایا۔
مودی کا کہنا ہے کہ ’’ایک پورا ماحولیاتی نظام ہے جو ہمارے ملک میں دستیاب آزادی کا استعمال کرتے ہوئے ہر روز اداریوں، ٹی وی چینلوں، سوشل میڈیا، ویڈیوز، ٹویٹس وغیرہ کے ذریعے ہم پر یہ الزامات لگا رہا ہے۔ انہیں ایسا کرنے کا حق ہے۔ لیکن دوسروں کو بھی حقائق کے ساتھ جواب دینے کا مساوی حق ہے۔‘‘
بھارت کو کمتر سمجھنے کی صدیوں پرانی تاریخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، وزیر اعظم مودی کہتے ہیں باہری لوگ اکثر یہی غلطی کرتے ہیں۔
“1947 میں، جب ہندوستان آزاد ہوا، وہاں سے چلے جانے والے انگریزوں نے ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں بہت سی خوفناک پیشن گوئیاں کیں۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ وہ پیشین گوئیاں اور پیشگی تصورات سب غلط ثابت ہوئے ہیں۔
مودی نے مزید کہا کہ ، اسی طرح وہ لوگ جو ان کی حکومت کو لے کر شکوک و شبہات کھڑے کرتے ہیں، غلط ثابت ہوں گے۔