Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

گورکھپور، اترپردیش میں گیتا پریس کے صد سالہ جشن کی اختتامی تقریب کے دوران وزیر اعظم کے خطاب کا متن

گورکھپور، اترپردیش میں گیتا پریس کے صد سالہ جشن کی اختتامی تقریب کے دوران وزیر اعظم کے خطاب کا متن


श्री हरिः। वसुदेव सुतं देवं, कंस चाणूरमर्दनम्।

देवकी परमानन्दं, कृष्णं वंदे जगद्गुरुम्॥

اترپردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل، وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، گیتا پریس کے جناب کیشو رام اگروال جی، جناب وشنو پرساد جی، رکن پارلیمنٹ بھائی روی کشن جی، دیگر معززین، خواتین و حضرات!

ساون کا مقدس مہینہ، اِندر دیو کا آشیرواد، شیو اوتار گرو گورکھ ناتھ کی تپوستھلی، اور متعدد سنتوں کی کرم استھلی یہ گیتا پریس گورکھپور! جب سنتوں کا آشیرواد ملتا ہے، تب اس طرح کے اچھے موقع کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اس مرتبہ میرا گورکھپور کا دورہ، ’ترقی بھی، وراثت بھی‘ اس پالیسی کی ایک بہترین مثال ہے۔  مجھے ابھی بھی شیو پران مع تصاویر اور شیو پران کو نیپالی زبان میں جاری کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ گیتا پریس کے اس پروگرام کے بعد میں گورکھپور ریلوے اسٹیشن جاؤں گا۔ آج سے ہی گورکھپور ریلوے اسٹیشن کی جدیدکاری کے کام کا بھی آغاز ہونے جا رہا ہے۔ اور میں نے جب سے سوشل میڈیا پر اس کی تصاویر ڈالی ہیں، لوگ حیران ہوکر دیکھ رہے ہیں۔ لوگوں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ ریلوے اسٹیشنوں کی بھی ایس صورت تبدیل کی جا سکتی ہے۔اور اسی پروگرام میں، میں گورکھپور سے لکھنؤ کے لیے وندے بھارت ریل گاڑی کو جھنڈی دکھاؤں گا۔ اور اسی وقت جودھ پور سے احمدآباد کے درمیان چلنے والی وندے بھارت ایکسپریس کو بھی روانہ کیا جائے گا۔ وندے بھارت ریل گاڑی نے، ملک کے متوسط طبقے کو سہولتوں کے لیے ایک نئی اُڑان دی ہے۔ ایک وقت تھا جب نیتا لوگ خطوط تحریر کیا کرتے تھے کہ ہمارے علاقے میں اس ریل گاڑی ایک ذرا ہالٹ بنا لے، اس ٹرین کا ہالٹ بنا لے۔ آج ملک کے کونے کونے سے نیتا مجھے خطوط لکھ کر کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے سے بھی وندے بھارت چلایئے۔ یہ وندے بھارت کو لے کر ایک طرح کا جنون ہے۔ ان تمام چیزوں کے اہتمام کے لیے میں گورکھپور کے لوگوں کو، ملک کے لوگوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیو،

گیتا پریس ملک کی واحد پرنٹنگ پریس ہے، جو صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ، ایک زندہ عقیدہ ہے۔ گیتا پریس کا دفتر، کروڑوں افراد کے لیے کسی بھی مندر سے ذرا بھی کم نہیں ہے۔ اس کے نام میں بھی گیتا ہے، اور اس کے کام میں بھی گیتا ہے۔ اور جہاں گیتا ہے- وہاں بذاتِ خود کرشن موجود ہیں۔ اور جہاں کرشن ہیں وہاں ہمدردی بھی ہے، عمل بھی ہے۔ وہاں علم کا ادراک بھی ہے اور سائنس کی تحقیق بھی۔ کیونکہ، گیتا میں لکھا ہے ’واسودیو: سروَم‘۔ سب کچھ واسو دیو مے ہے، سب کچھ واسودیو سے ہی ہے، سب کچھ واسودیو میں ہی ہے۔

بھائیو اور بہنو،

1923 میں گیتا پریس کی شکل میں یہاں جو روحانی روشنی منور ہوئی، آج اس کی شعاعیں تمام بنی نوع انسانیت کی رہنمائی کر رہی ہیں۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم سبھی اس انسانی مشن کی صدی کے گواہ بن رہے ہیں۔ اس تاریخی موقع پر ہی ہماری حکومت نے گیتا پریس کو گاندھی شانتی ایوارڈ بھی دیا ہے۔ گاندھی جی کا گیتا پریس سے جذباتی لگاؤ تھا۔ ایک دور میں گاندھی جی کلیان پتریکا کے توسط سے گیتا پریس کے لیے لکھا کرتے تھے۔ اور مجھے بتایا گیا کہ گاندھی جی نے ہی مشورہ دیا تھا کہ کلیان پتریکا میں اشتہار نہ چھاپے جائیں۔ کلیان پتریکا آج بھی گاندھی جی کے اس مشورے پر صد فیصد عمل کر رہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج یہ ایوارڈ گیتا پریس کو حاصل ہوا ہے۔ یہ ملک کی جانب سے گیتا پریس کے لیے اعزاز ہے، اس کے تعاون کا اعزاز ہے، اور اس کی 100 برسوں کی وراثت کا اعزاز ہے۔ ان 100 برسوں میں گیتا پریس کے ذریعہ کروڑوں کتابیں شائع کی جا چکی ہیں۔ اعدادو شمار کبھی کوئی 70 بتاتا ہے، کوئی 80 بتاتا ہے، کوئی 90 کروڑ بتاتا ہے! یہ تعداد کسی کو بھی حیران کر سکتی ہے۔ اور یہ کتابیں لاگت سے بھی کم قیمت پر فروخت ہوتی ہیں، گھر گھر پہنچائی جاتی ہیں۔ آپ تصور کر سکتے ہیں، علم کے اس وسیلے نے بہت سے لوگوں کو روحانی و فکری اطمینان بخشا ہوگا۔ معاشرے کے لیے وقف متعدد شہری تیار کیے ہوں گے۔ میں ان شخصیات کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، جو اس یگیہ میں بغیر کسی تشہیر کے بے لوث اپنا تعاون دیتے رہے ہیں۔ میں اس موقع پر سیٹھ جی شری جے دیال گوئندکا، اور بھائی جی شری ہنومان پرساد پوددار جیسی شخصیات کے تئیں خراج تحسین بھی پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

گیتا پریس جیسا ادارہ صرف مذہب اور عمل سے ہی نہیں جڑا ہے، بلکہ اس کا ایک قومی کردار بھی ہے۔ گیتا پریس، بھارت کو جوڑتی ہے، بھارت کی یکجہتی کو مضبوط کرتی ہے۔ ملک بھر میں اس کی 20 شاخیں ہیں۔ ملک کے ہر کونے میں ریلوے اسٹیشنوں پر ہمیں گیتا پریس کا اسٹال دیکھنے کو ملتا ہے۔ 15 الگ الگ زبانوں میں یہاں سے تقریباً 1600 اشاعتیں عمل میں آتی ہیں۔ گیتا پریس مختلف زبانوں میں بھارت کی بنیادی فکر کو عوام الناس تک پہنچاتی ہے۔ گیتا پریس ایک طرح سے ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت‘ کے جذبے کی نمائندگی کرتی ہے۔

ساتھیو،

گیتا پریس نے اپنے 100 برسوں کا سفر ایک ایسے وقت میں مکمل کیا ہے، جب ملک اپنی آزادی کے 75 برس منا رہا ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے۔ 1947 سے قبل بھارت نے مسلسل اپنی ازسر نو بیداری کے لیے مختلف میدانوں میں کوشش کی۔ مختلف ادارے بھارت کی روح کو بیدار کرنے کے لیے  وجود میں آئے۔اسی کا نتیجہ تھا کہ 1947 آتے آتے بھارت دل و جان سے غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہوگیا۔گیتا پریس کا قیام بھی اس کی ایک بہت بڑی بنیاد بنی۔ 100 سال پہلے کا ایسا وقت جب صدیوں کی غلامی نے بھارت کے شعور کو داغدار کر دیا تھا۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ اس سے بھی سینکڑوں برس قبل غیر ملکی حملہ آوروں نے، ہمارے کتب خانے جلا دیے تھے۔ انگریزوں کے دور میں گروکل اور گرو پرمپرا تقریباً برباد کر دی گئی تھی۔  ایسے میں فطری بات تھی کہ علم اور وراثت ختم ہونے کی کگار پر تھیں۔ ہماری مقدس کتابیں غائب ہونے لگی تھیں۔ جو پرنٹنگ پریس بھارت میں تھے وہ مہنگی قیمتوں کی وجہ سے عام انسانوں کی دسترس سے دور تھے۔

آپ تصور کیجئے، گیتا اور رامائن کے بغیر ہمارا معاشرہ کیسے چل رہا ہوگا؟ جب اقدار اور اصولوں کے وسیلے ہی سوکھنے لگیں، تو معاشرے کی ترقی خود بخود رُکنے لگتی ہے۔ لیکن ساتھیو، ہمیں ایک بات اور یاد رکھنی ہے۔ ہمارے بھارت کے ابدی سفر میں ایسے کتنے ہی مراحل آئے ہیں، جب ہم اور زیادہ بہتر بن کر باہر آئے ہیں۔ کتنی ہی مرتبہ برائی اور دہشت طاقتور ہوئی ہیں، کتنی ہی مرتبہ حق پر خطرات کے بادل منڈرائے ہیں، تاہم ہمیں شریمد بھاگوت گیتا سے ہی سب سے بڑا اعتماد حاصل ہوتا ہے – यदा यदा हि धर्मस्य ग्लानिर्भवति भारत। अभ्युत्थानमधर्मस्य तदाऽऽत्मानं सृजाम्यहम्॥ ، یعنی جب جب دھرم پر ، حق پر خطرہ منڈراتا ہے، تب تب ایشور اس کی حفاظت کے لیے ظاہر ہوتے ہیں۔ اور گیتا کا دسواں باب بتاتا ہے کہ ایشور کسی بھی ہستی کی شکل میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ کبھی  کوئی سنت آکر معاشرے کو نئی سمت دکھاتے ہیں۔ تو کبھی گیتا پریس جیسے ادارے انسانی اقدار اور اصولوں کو ازسر نو زندہ کرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہی، 1923 میں جب گیتا پریس نے کام کرنا شروع کیا تو بھارت کے لیے بھی اس کے شعور اور فکر کی ترسیل کا عمل تیز ہوگیا۔ گیتا سمیت ہماری مذہبی کتابیں پھر سے گھر گھر پڑھی جانے لگیں۔ مانس پھر سے بھارت کے مانس سے ہل مل گئی۔ ان مذہبی کتابوں سے خاندانی روایات اور نئی نسلیں جڑنے لگیں، ہمارے مقدس صحائف آنے والی نسلوں کے لیے تختیاں بننے لگے۔

ساتھیو،

گیتا پریس اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ جب آپ کے مقاصد نیک ہوتے ہیں، آپ کے اقدار صاف ستھرے ہوتے ہیں تو کامیابی آپ کا مترادف بن جاتی ہے۔ گیتا پریس ایک ایسا ادارہ ہے، جس نے ہمیشہ سماجی اقدار کو مضبوط کیا ہے، لوگوں کو فرض کا راستہ دکھایا ہے۔ گنگا جی کی صفائی ستھرائی کی بات ہو، یوگ سائنس کی بات ہو، پتانجلی یوگ سوتر کی اشاعت ہو، آیوروید سے متعلق آروگیہ اَنک ہو، بھارتی طرز حیات سے لوگوں کو متعارف کروانے کے لیے ’جیون چریہ اَنک‘ ہو، سماج میں خدمت کے اصولوں کو مضبوط کرنے کے لیے ’سیوا انک‘ اور ’دان مہیما‘ ہو، ان سب کوششوں کے پس پشت، ملک کی خدمت سے متعلق ترغیب جڑی رہی ہے، تعمیر ملک کا عزم رہا ہے۔

ساتھیو،

سنتوں کی تپسیا کبھی رائیگاں نہیں جاتی، ان کے عزم کبھی ناکام نہیں ہوتے۔ انہیں عزائم کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا بھارت مسلسل کامیابی کی نئی جہتیں قائم کر رہا ہے۔ میں نے لال قلعہ سے کہا تھا، اور آپ کو یاد ہوگا، میں نے لال قلعہ سے کہا تھا کہ یہ وقت غلامی کی ذہنیت سے آزاد ہوکر اپنے ورثے پر فخر کرنے کا ہے۔ اور اسی لیے، شروعات میں بھی میں نے کہا، آج ملک ترقی اور وراثت دونوں کو ساتھ لے کر چل رہا ہے۔ آج ایک جانب بھارت ڈجیٹل تکنالوجی میں نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے، تو ساتھ ہی، صدیوں بعد کاشی میں وشوناتھ دھام کا دِویہ روپ بھی ملک کے سامنے ظاہر ہوا ہے۔ آج ہم عالمی درجے کا بنیادی ڈھانچہ تیار کر رہے ہیں، تو ساتھ ہی کیدارناتھ اور مہاکال جیسے مذہبی مقامات کی عظمت کے گواہ بھی بن رہے ہیں۔ صدیوں بعد ایودھیا میں ایک عظیم الشان رام مندر کا ہمارا خواب پورا ہونے جا رہا ہے۔ ہم آزادی کے 75 برس بعد بھی اپنی بحریہ کے جھنڈے پر غلامی کے علامتی نشان کو ڈھو رہے تھے۔ ہم راجدھانی دہلی میں، بھارتی پارلیمنٹ کے بغل میں انگریزی روایات پر عمل پیرا تھے۔ ہم نے پوری خوداعتمادی کے ساتھ انہیں تبدیل کرنے کا کام کیا ہے۔ ہم نے اپنی ورثوں کو، بھارتی خیالات کو وہ مقام دیا ہے، جو انہیں ملنا چاہئے تھا۔ اسی لیے، اب بھارت کی بحریہ کے جھنڈے پر چھترپتی شیواجی مہاراج کے وقت کا نشان دکھائی دے رہا ہے۔ اب غلامی کے دور کا راج پتھ، کرتویہ پتھ بن کر فرض کے احساس کی ترغیب فراہم کر رہا ہے۔ آج ملک کی قبائلی روایات کا احترام کرنے کے لیے، ملک بھر میں قبائلی مجاہدین آزادی کے میوزیم بنائے جا رہے ہیں۔ ہماری جو مقدس قدیم مورتیاں چوری کرکے ملک سے باہر بھیج دی گئی  تھیں، وہ بھی اب واپس ہمارے مندروں میں آرہی ہیں۔ جس ترقی یافتہ اور روحانی بھارت کا خیال ہمارے منیشیوں نے ہمیں دیا  ہے، آج ہم اسے پورا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے، ہمارے سنتوں – رشیوں، منیوں ان کی روحانی مشق بھارت کی ہمہ جہت ترقی کو ایسے ہی توانائی فراہم کرتی رہے گی۔ ہم ایک نئے بھارت کی تعمیر کریں گے، اور عالمی فلاح و بہبود کے اپنے جذبے کو کامیاب بنائیں گے۔ اسی کے ساتھ آپ سبھی نے اس مقدس موقع پر مجھے آپ کے درمیان آنے کا موقع دیا اور مجھے اس مقدس کام میں کچھ لمحات آپ کے درمیان گزارنے کا موقع حاصل ہوا، یہ میری زندگی کی خوش نصیبی ہے۔ آپ سب کا میں ایک مرتبہ پھر تہہ دل سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ڈھیر ساری نیک خواہشات دیتا ہوں۔

**********

 (ش ح –ا ب ن۔ م ف)

U.No:6848