Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

گلاسگو میں سی او پی -26 سربراہ کانفرنس میں وزیر اعظم جناب نریندر مودی کا قومی بیان

گلاسگو میں سی او پی -26 سربراہ کانفرنس میں وزیر اعظم جناب نریندر مودی کا قومی بیان


 

آج میں آپ کے درمیان اس سرزمین کی نمائندگی کر رہا ہوں جس نے ہزاروں سال پہلے یہ منتر دیا تھا۔

सम्गच्छध्वम्,

सम्दद्वम् ,

सम् वो मानसि जानताम्।

آج 21ویں صدی میں یہ منتر زیادہ اہم ہو گیا ہے، زیادہ متعلقہ ہو گیا ہے۔

सम्-गच्छ-ध्वम् کا مطلب ہے کہ سب کو ساتھ مل کر  چلنا چاہیے؛ सम्-व-दद्वम् کا مطلب ہے کہ سب کو ایک  دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے اور सम् वो मनानसि जानताम् کا مطلب ہے کہ سب کے ذہنوں  کے مابین  ایک تال میل ہونا چاہیے۔

دوستو!

جب میں پہلی بار موسمیاتی سربراہی اجلاس کے لیے پیرس آیا تھا تو میرا مقصد دنیا میں کیے جانے والے بہت سے وعدوں میں ایک وعدہ کا اضافہ کرنا نہیں تھا۔میں پوری انسانیت کی فکر لے کر آیا ہوں، میں اس ثقافت کے نمائندے کے طور پر آیا ہوں جس نے ‘سروے بھونتو سکھن:’ کا پیغام دیا ہے، یعنی سب خوش رہیں۔

اور اسی طرح، میرے لیے پیرس میں ہونے والی تقریب ایک سربراہ کانفرنس نہیں بلکہ یہ ایک جذبہ تھا، یہ ایک عزم تھا۔اور وہ وعدے ہندوستان دنیا سے نہیں کر رہا تھا، بلکہ وہ وعدے 125 کروڑ ہندوستانی، اپنے آپ سے کر رہے تھے۔

اور مجھے خوشی ہے کہ ہندوستان جیسا ترقی پذیر ملک، جو کروڑوں لوگوں کو غربت سے نجا ت دلانے کا  کام کر رہا ہے، جو آج دنیا کی آبادی کا 17 فیصد ہونے کے باوجود کروڑوں لوگوں کے لیے زندگی کو آسان بنانے کے لیے دن رات کام کر رہا ہے۔ جس کی اخراج میں ذمہ داری صرف 5 فیصد رہی ہے،اس  کے باوجود ہندوستان نے اپنا فرض نبھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

آج پوری دنیا تسلیم کرتی  ہے کہ ہندوستان واحد ایسی  بڑی معیشت ہے، جس نے پیرس کمٹمنٹ کو مکمل طور پر پورا کیا ہے۔

دوستو

آج جب میں آپ کے مابین آیا ہوں تو ہندوستان کا ٹریک ریکارڈ بھی آپ کے ساتھ لایا ہوں، میرے الفاظ صرف الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ آنے والی نسل کے روشن مستقبل کی پکار ہیں۔ آج، ہندوستان قابل تجدید توانائی کی تنصیب کی صلاحیت میں دنیا میں چوتھے مقام  پر ہے۔ ہندوستان کی غیر معدنی ایندھن توانائی میں پچھلے 7 برسوں میں 25فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اور اب یہ ہماری توانائی کے مرکب کے 40فیصد تک پہنچ گیا ہے۔

دوستو

دنیا کی پوری آبادی سے زیادہ مسافر، ہر سال ہندوستانی ریلوے سے سفر کرتے ہیں۔ ریلوے کے اس بڑے نظام نے 2030 تک خود کو ‘نیٹ زیرو’ بنانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ صرف یہ اقدام سالانہ 60 ملین ٹن اخراج میں کمی کا باعث بنے گا۔اسی طرح ہماری بڑی ایل ای ڈی بلب مہم سالانہ 40 ملین ٹن اخراج کو کم کر رہی ہے۔آج ہندوستان مصمم ارادے کے ساتھ اس طرح کے بہت سے اقدامات  پر تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان نے بین الاقوامی سطح پر دنیا کے ساتھ تعاون کے لیے ادارہ جاتی حل بھی دیے ہیں۔ شمسی توانائی میں ایک انقلابی قدم کے طور پر ،ہم نے بین الاقوامی شمسی اتحاد کی شروعات کی۔ہم نے موسمیاتی موافقت کے لیے تباہی سے بچنے والے بنیادی ڈھانچے کے لیے ایک اتحاد بنایا ہے۔ کروڑوں جانوں کو بچانے کے لیے یہ ایک حساس اور اہم اقدام ہے۔

دوستو

میں آپ کی توجہ ایک اور اہم موضوع پر مرکوز کرنا چاہتا ہوں۔آج دنیا تسلیم کر رہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی میں طرز زندگی کا بہت بڑا کردار ہے۔ میں آج آپ کے سامنے، ‘ایک لفظ کی تحریک ’پیش کرتا ہوں۔یہ ایک لفظ ، آب و ہوا کے تناظر میں، ‘ایک دنیا ’ کی بنیاد بن سکتا  ہے، یہ ایک لفظ ہے- LIFE…L, I, F, E, یعنی طرز زندگی برائے ماحولیات ۔آج ایک مہم کے طور پر ،طرززندگی برائے ماحولیات (LIFE) کو آگے بڑھانے کے لئے  ہم سب کو اجتماعی شرکت کے ساتھ یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔

یہ‘ ماحولیاتی شعور کے ساتھ  طرز زندگی ’کی ایک عوامی تحریک بن سکتی ہے۔آج  بلاسوچے سمجھے اور تباہ کن استعمال  کرنے کے بجائے ،ذہن سازی اور درست طورپر  استعمال کرنے کی ضرورت  ہے۔یہ تحریکیں  مل کر مختلف شعبوں کے لئے اہداف کا تعین کر سکتی اور بہت سے شعبوں میں انقلابی تبدیلی لا سکتی ہیں جیسے  کہ ماہی گیری، زراعت، تندرستی، غذائی انتخاب، پیکیجنگ، ہاؤسنگ، مہمان نوازی، سیاحت، ملبوسات، فیشن، پانی کے انتظام اور ۔ توانائی  کے شعبے  ۔

یہ ایسے مضامین ہیں جہاں ہم میں سے ہر ایک کو روزانہ شعوری طور پر انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر کے اربوں لوگوں کے یہ روزمرہ کے انتخابات ، موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ کو ہر روز اربوں قدم آگے لے جائیں گے۔

اورمیں اسے ہرشعبے سے متعلق  ایک  تحریک سمجھتا  ہوں۔چاہے وہ اقتصادی  بنیادوں پر ہو، سائنسی بنیادوں پر ہو ،  گزشتہ صدی کے تجربات  پر مبنی  ہوں ، یہ ہرکسوٹی پر پورا اترتا ہے ۔ یہ  خود کو مضبوط کرنے کا طریقہ ہے۔ یہ  فائدہ اٹھانے کا واحد طریقہ ہے۔

دوستو

موسمیاتی تبدیلی پر اس عالمی تخلیقی سوچ کو  آگے بڑھانے کے عمل  کے درمیان، میں اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے پانچ امرت عناصر، پنچامرت پیش کرنا چاہتا ہوں۔

پہلا- ہندوستان 2030 تک اپنی غیر معدنی  توانائی کی صلاحیت 500 گیگا واٹ تک پہنچ جائے گا۔

دوسرا- ہندوستان اپنی توانائی کی ضروریات کا 50 فیصد 2030 تک قابل تجدید توانائی سے پورا کرے گا۔

تیسرا- ہندوستان اب  کے بعد سے 2030 تک، مجموعی  متوقع کاربن کے اخراج کو ایک بلین ٹن تک کم کرے گا۔

چوتھا- 2030 تک، ہندوستان اپنی معیشت کی کاربن کی شدت کو 45 فیصد سے کم کر دے گا۔

اور پانچویں- سال 2070 تک ہندوستان نیٹ زیرو کا ہدف حاصل کر لے گا۔ یہ پنچامرت، آب و ہوا کی کارروائی میں ہندوستان کی بے مثال حصہ رسدی  ہو گی۔

دوستو

ہم سب اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ آب وہوا سے متعلق مالیہ  کے حوالے سے آج تک کیے گئے وعدے کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں۔اب جبکہ ہم سب آب وہوا سے متعلق کارروائی کے تئیں  اپنے عزائم کواستحکام دے رہے ہیں،تو وہیں آب وہوا سے متعلق مالیہ  پر دنیا کے عزائم ،پیرس معاہدے کی طرح نہیں رہ سکتے۔

آج، جب ہندوستان نے ایک نئے عزم اور نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھنے کا عزم کیا ہے،  توایسے وقت میں آب وہوا سے متعلق مالیہ  اور کم لاگت والی آب و ہوا کی ٹیکنالوجیوں  کی منتقلی زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔

ہندوستان توقع کرتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک ، ایک  ٹریلین  ڈالر مالیت کا موسمیاتی فنانس  جلد از جلدفراہم کریں گے۔ آج یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم آب وہوا میں تخفیف کی پیش رفت  پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ  ہمیں آب وہوا سے متعلق  مالیات کا بھی ٹریک رکھنا چاہئے۔

 درست  انصاف یہ ہوگا کہ جو ممالک، موسمیاتی مالیات سے متعلق اپنے وعدوں پر عمل نہیں کرتے، ان پر دباؤ ڈالا جائے۔

دوستو

آج ہندوستان آب و ہوا کے موضوع پر بڑی ہمت اور عظیم عزائم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ہندوستان، دیگر تمام ترقی پذیر ممالک کے دکھ کو سمجھتا ہے، ان کے دکھ میں شریک ہے اور ان کی توقعات کا اظہار کرتا رہے گا۔

 بہت سے ترقی پذیر ممالک کے لیے، آب و ہوا کی تبدیلی ان کے وجود پر بہت زیادہ بھاری پڑ رہی ہے۔دنیا کو بچانے کے لیے آج ہمیں بڑے قدم اٹھانے ہوں گے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے اور اس سے اس فورم کی مطابقت بھی ثابت ہو تی ہے ۔مجھے یقین ہے کہ گلاسگو میں لیے گئے فیصلے، ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ کریں گے، انہیں ایک محفوظ اور خوشحال زندگی کا تحفہ دیں گے۔

اسپیکر صاحب، زیادہ وقت لینے پر معذرت خواہ ہوں، لیکن ترقی پذیر ممالک کی آواز اٹھانا  بھی  میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ اس لیے میں نے اس پر بھی زور دیا ہے۔ میں ایک بار پھر آپ کا بہت بہت شکریہ اد ا کرتا ہوں !

 

 

*************

ش ح۔ ا ع ۔رم

U-12450