Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

کیتھولک بشپس کانفرنس آف انڈیا کے زیر اہتمام کرسمس کی تقریبات میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

کیتھولک بشپس کانفرنس آف انڈیا کے زیر اہتمام کرسمس کی تقریبات میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن


معززشخصیات… !

آپ سب کو ، تمام ہم وطنوں کو اور خاص طور پر پوری دنیا کی عیسائی برادری کو کرسمس کی بہت بہت مبارکباد‘ میری کرسمس’! ! !

ابھی تین چار دن پہلے ہی میں اپنے ساتھی حکومت ہند میں وزیر جارج کورین جی کے کرسمس کے جشن میں گیا تھا ۔ اب آج آپ کے درمیان آکر خوشی ہو رہی ہے ۔ کیتھولک بشپس کانفرنس آف انڈیا-سی بی سی آئی کی یہ تقریب کرسمس کی خوشی میں آپ کے ساتھ شامل ہونے کا موقع ہے ، یہ دن ہم سب کے لیے یادگار بننے والا ہے ۔ یہ موقع اس لیے بھی خاص ہے کیونکہ اس سال سی بی سی آئی کے قیام کی 80 ویں سالگرہ ہے ۔ میں اس موقع پر سی بی سی آئی اور اس سے وابستہ تمام لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں ۔

ساتھیو ،

پچھلی بار مجھے آپ سب کے ساتھ وزیر اعظم کے رہائش گاہ پر کرسمس منانے کا موقع ملا تھا۔ آج ہم سب سی بی سی آئی کے احاطے میں جمع ہوئے ہیں۔ میں پہلے بھی ایسٹر کے دوران یہاں Sacred Heart Cathedral Church آ چکا ہوں۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے آپ سب سے اتنی محبت اور اپنائیت ملی ہے۔ اتنی ہی محبت مجھے His Holiness Pope Francis سے بھی ملتی ہے۔ اسی سال اٹلی میں جی7 سمٹ کے دوران مجھے His Holiness Pope Francis سے ملنے کا موقع ملا تھا۔ گزشتہ3 برسوں میں یہ ہماری دوسری ملاقات تھی۔ میں نے انہیں بھارت آنے کی دعوت بھی دی ہے۔ اسی طرح، ستمبر میں نیو یارک کے دورے پر کارڈینل پیٹرو پیرولن سے بھی میری ملاقات ہوئی تھی۔ یہ روحانی ملاقاتیں،یہ spiritual talks، ان سے جو توانائی ملتی ہے، وہ خدمت کے ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔

ساتھیو ،

مجھے ابھی His Eminence Cardinal جارج کواکڈ سے ملنے اور ان  کی عزت افزائی کا موقع ملا ہے۔ چند ہی ہفتے پہلے، His Eminence Cardinal جارج کواکڈ کو His Holiness Pope Francis نے کارڈینل کے عہدے سے نوازا تھا۔ اس تقریب میں حکومت ہند نے مرکزی وزیر جارج کورین کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد بھیجا تھا۔ جب بھارت کا کوئی بیٹا اس کامیابی کی بلند ترین سطح پر پہنچتا ہے، تو پورے ملک کو فخر ہونا فطری بات ہے۔ میں Cardinal جارج کواکاڈ کو دوبارہ مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

ساتھیو ،

آج جب میں آپ کے درمیان آیا ہوں تو بہت ساری یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔ میرے لئے وہ بہت اطمینان کے لمحے تھے، جب ہم ایک دہائی قبل فادر الیکسس پریم کمار کو جنگ زدہ افغانستان سے محفوظ طریقے سے واپس لائے تھے۔ وہ 8 مہینوں تک وہاں شدید مشکلات میں پھنسے ہوئے تھے اور یرغمال بنے ہوئے تھے۔ ہماری حکومت نے انہیں وہاں سے نکالنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ افغانستان کی ان حالات میں یہ کتنا مشکل رہا ہوگا، آپ اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں, لیکن ہمیں اس میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس وقت میں نے ان سے اور ان کے خاندان کے اراکین سے بات بھی کی تھی۔ ان کی باتوں کو، ان کی اس خوشی کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ اسی طرح، ہمارے فادر ٹام, یمن میں یرغمال بنا لیے گئے تھے۔ ہماری حکومت نے وہاں بھی پوری طاقت لگائی اور ہم انہیں واپس گھر لے آئے۔ میں نے انہیں بھی اپنے گھر پر مدعو کیا تھا, جب خلیج کے ممالک میں ہماری نرس بہنیں بحران میں پھنس گئی تھیں، تو پورا ملک ان کی فکرکررہا تھا۔ انہیں بھی گھر واپس لانے کا ہماری اَنتھک کوشش کامیاب ہوئی۔ ہمارے لئے یہ کوششیں صرف سفارتی مشن نہیں تھیں۔ یہ ہمارے لئے ایک جذباتی عزم تھا، یہ اپنے خاندان کے کسی فرد کو بچا کر لانے کا مشن تھا۔ بھارت کی سنتان، دنیا میں کہیں بھی ہو، کسی بھی مصیبت میں ہو، آج کا بھارت انہیں ہر بحران سے بچا کر لاتا ہے، اسے اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔

ساتھیو،

بھارت اپنی خارجہ پالیسی میں بھی قومی مفاد کے ساتھ ساتھ انسانی مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔ کورونا کے دوران دنیا نے اسے دیکھا اور محسوس بھی کیا۔ کورونا جیسی اتنی بڑی وبا آئی، دنیا کے کئی ممالک، جو انسانی حقوق اور انسانیت کی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، جو ان باتوں کو سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، ضرورت پڑنے پر وہ غریب اور چھوٹے ممالک کی مدد سے پیچھے ہٹ گئے۔ اس وقت انہوں نے صرف اپنے مفادات کی فکر کی,لیکن بھارت نے  اخلاقی جذبے اور بساط سے بھی آگے جا کر کتنے ہی ممالک کی مدد کی۔ ہم نے دنیا کے 150 سے زیادہ ممالک میں دوائیں پہنچائیں، کئی ممالک کو ویکسین بھی بھیجی۔ اس کا پوری دنیا پر ایک بہت مثبت اثر بھی پڑا۔ حال ہی میں، میں گیانا کے دورے پر گیا تھا، کل میں کویت میں تھا۔ وہاں زیادہ تر لوگ بھارت کی بہت تعریف کر رہے تھے۔ بھارت نے ویکسین دے کر ان کی مدد کی تھی،اور وہ اس کا بہت شکر گزار تھے۔ بھارت کے لئے ایسی جذبات رکھنے والا گیانا واحد ملک نہیں ہے۔ کئی جزیرائی ممالک، بحر الکاہل کے ممالک، کیریبین ممالک ،بھارت کی تعریف کرتے ہیں۔ بھارت کا یہ جذبہ، انسانیت کے لئے ہمارا یہ عزم، یہ ہیومن سینٹرک اپروچ ہی 21ویں صدی کی دنیا کو نئی بلندیوں تک لے جائے گا۔

دوستو ،

حضرت عیسیٰ کی تعلیمات محبت، ہم آہنگی اور بھائی چارے کا جشن مناتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم سب اس جذبے کو مضبوط بنانے کے لیے کام کریں۔ لیکن، میرا دل درد سے بھرا ہوتا ہے جب معاشرے میں تشدد پھیلانے اور بدامنی پیدا کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ بس چند دن پہلے، ہم نے جرمنی میں کرسمس بازار پر ہونے والے حملے کو دیکھا۔ 2019 کے ایسٹر کے دوران، سری لنکا میں گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ میں کولمبو گیا تھا تاکہ ہم ان بم دھماکوں میں اپنی جانیں گنوانے والوں کو خراج عقیدت پیش کر سکیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم سب ایک ساتھ مل کر ایسے چیلنجز کا مقابلہ کریں۔

دوستو ،

یہ کرسمس اور بھی زیادہ خاص ہے کیونکہ آپ سب جبلی سال کا آغاز کر رہے ہیں، جسے آپ سب جانتے ہیں کہ یہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ میں آپ سب کو جبلی سال کے مختلف اقدامات کے لئے دل کی گہرائیوں سے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ اس بار، جوبلی سال کے لیے آپ نے ایک ایسےموضوع کا انتخاب کیا ہے جو امید کے گرد گھومتا ہے۔ مقدس بائبل امید کو طاقت اور سکون کا وسیلہ تصور کرتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے: ‘یقیناً تمہارے لئے ایک مستقبل کی امید ہے، اور تمہاری امید کبھی منقطع نہیں ہو گی۔ ہم بھی امید اور اثبات سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ انسانیت کے لئے امید، بہتر دنیا کے لئے امید اور امن، ترقی اور خوشحالی کے لئے امید۔

ساتھیو،

گزشتہ 10 سالوں میں ہمارے ملک کے 25 کروڑ لوگوں نے غربت کو شکست دی ہے۔ یہ اس لئے ممکن ہوا کیونکہ غریبوں میں ایک امید جاگی کہ ہاں، غربت سے جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ گزشتہ 10 سالوں میں بھارت 10ویں نمبر کی معیشت سے 5ویں نمبر کی معیشت بن گیا۔ یہ اس لئے ہوا کیونکہ ہم نے خود پر بھروسہ کیا، ہم نے امید نہیں ہاری اور اس مقصد کو حاصل کر کے دکھایا۔ بھارت کی 10 سال کی ترقی کی سفر نے ہمیں آنے والے برسوں اور ہمارے مستقبل کے لئے نئی امیداور بے شمار نئی توقعات دی ہیں۔ 10 سالوں میں ہمارے نوجوانوں کو وہ مواقع ملے ہیں، جن کی وجہ سے ان کے لئے کامیابی کا نیا راستہ کھلا ہے۔ اسٹارٹ اپس سے لے کر سائنس تک، کھیلوں سے لے کر انٹرپرینیور شپ تک، خوداعتمادی سے بھرے ہمارے نوجوان ملک کو ترقی کے نئے راستے پر لے جا رہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں نے ہمیں یہ اعتماد دیا ہے، یہ امید دی ہے کہ ترقی یافتہ بھارت کا خواب ضرور پورا ہوکر رہے۔ گزشتہ 10 سالوں میں، ملک کی خواتین نے ایمپاورمنٹ کی نئی کہانیاں لکھی ہیں۔ انٹرپرینیور شپ سے لے کر ڈرونز تک، ہوائی جہاز اُڑانے سے لے کر مسلح افواج کی ذمہ داریوں تک، ایسا کوئی شعبہ نہیں جہاں خواتین نے اپنا پرچم نہ لہرایا ہو۔ دنیا کا کوئی بھی ملک، خواتین کی ترقی کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا اور اس لئے، آج جب ہماری محنت میں، لیبر فورس میں، ورکنگ پروفیشنلز میں خواتین کی شرکت بڑھ رہی ہے، تو اس سے ہمیں ہمارے مستقبل کے بارے میں بھی بہت سی امیدیں ملتی ہیں اور نئی امیدیں پیدا ہوتی ہیں۔

گزشتہ 10 برسوں میں ملک بہت سارے غیر دریافت شدہ یا کم دریافت شدہ شعبوں میں آگے بڑھا ہے۔ موبائل مینوفیکچرنگ ہو یا سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ، بھارت تیزی سے پورے مینوفیکچرنگ لینڈ اسکیپ میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ چاہے ٹیکنالوجی ہو یا فِن ٹیک، بھارت نہ صرف ان سے غریبوں کو نئی طاقت دے رہا ہے، بلکہ خود کو دنیا کے ٹیک ہب کے طور پر بھی قائم کر رہا ہے۔ ہمارا انفراسٹرکچر بلڈنگ کا عمل بھی بے مثال ہے۔ ہم نہ صرف ہزاروں کلومیٹر ایکسپریس ویز بنا رہے ہیں، بلکہ اپنے گاؤں کو بھی دیہی سڑکوں سے جوڑ رہے ہیں۔ اچھے ٹرانسپورٹیشن کے لیے سیکڑوں کلومیٹر کے میٹرو روٹس بن رہے ہیں۔ بھارت کی یہ ساری کامیابیاں ہمیں یہ امید اور یقین دیتی ہیں کہ بھارت اپنے مقاصد کو بہت تیزی سے پورا کر سکتا ہے اور صرف ہم ہی اپنی کامیابیوں میں اس امید اور یقین کو نہیں دیکھ رہے ہیں، بلکہ پوری دنیا بھی بھارت کو اسی امید اور یقین کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔

ساتھیو،

بائبل کہتی ہے: ایک دوسرے کا بوجھ اٹھاؤ’۔ یعنی ہمیں ایک دوسرے کی فکر کرنی چاہیے، ایک دوسرے کے فلاح و بہبود کی فکر رکھنی چاہیے۔ اسی سوچ کے ساتھ ہمارے ادارے اور تنظیمیں سماجی خدمت میں ایک بہت بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ تعلیم کے میدان میں نئے اسکولوں کا قیام ہو، ہر طبقے اور ہر سماج کو تعلیم کے ذریعے آگے بڑھانے کی کوششیں ہوں، صحت کے شعبے میں عام آدمی کی خدمت کا عہد ہو، ہم سب انہیں اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

ساتھیو،

حضرت عیسیٰ نے دنیا کو رحم اور بے لوث خدمت کا راستہ دکھایا ہے۔ ہم کرسمس مناتے ہیں اور حضرت عیسیٰ کو یاد کرتے ہیں تاکہ ہم ان اقدار کو اپنے زندگی میں شامل کر سکیں اور اپنے ذمہ داریوں کو ہمیشہ ترجیح دیں۔ میں مانتا ہوں، یہ ہماری ذاتی ذمہ داری بھی ہے، سماجی فرض بھی ہے اور بطور قوم بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آج ملک اسی جذبے کو ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا پریاس’ کے عزم کے طور پر آگے بڑھا رہا ہے۔ ایسے کتنے ہی موضوعات تھے، جن کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سوچا گیا، لیکن وہ انسانی نقطہ نظر سے سب سے زیادہ ضروری تھے۔ ہم نے انہیں اپنی ترجیح بنایا۔ ہم نے حکومت کو ضوابط اور رسمی کارروائیوں سے باہر نکالا۔ ہم نے حساسیت کو ایک معیار کے طور پر مرتب کیا۔ ہر غریب کو پخت مکان ملے، ہر گاؤں میں بجلی پہنچے، لوگوں کی زندگیوں سے اندھیرا دور ہو، لوگوں کو پینے کے لئے صاف پانی ملے، پیسے کی کمی کی وجہ سے کوئی علاج سے محروم نہ رہے، ہم نے ایک ایسا حساس نظام تیار کیا ہے، جو اس طرح کی خدمات، اس طرح کی حکومت کی ضمانت دے سکے۔

آپ تصور کر سکتے ہیں، جب ایک غریب خاندان کو یہ گارنٹی ملتی ہے تو اس کی کتنی بڑی تشویش دور ہوتی ہے۔پی ایم آواس یوجنا کے تحت جب گھر خاندان کی خاتون کے نام پر بنایا جاتا ہے، تو اس سے خواتین کو کتنی طاقت ملتی ہے۔ ہم نے تو خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ناری شکتی وندن ایکٹ لا کر ایوان میں  بھی ن کی زیادہ شراکتداری کو یقینی بنایا ہے۔ اسی طرح آپ نے دیکھا ہوگا، پہلے ہمارے یہاں معذور افراد کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ انہیں ایسے نام سے پکارا جاتا تھا جو ہر طرح سے انسانی وقار کے خلاف تھا۔ یہ ایک سماج کے طور پر ہمارے لیے افسوس کی بات تھی۔ ہماری حکومت نے اس غلطی کو درست کیا۔ ہم نے انہیں ‘دیوانگ’ یہ شناخت دے کر عزت افزائی کے جذبے کا اظہار۔ آج ملک عوامی انفراسٹرکچر سے لے کر روزگار تک ہر شعبے میں دیوانگوں کو ترجیح دے رہا ہے۔

ساتھیو،

حکومت میں حساسیت ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہوتی ہے۔ جیسے کہ ہمارے ملک میں تقریباً 3 کروڑ  ماہی گیر  ہیں اور مچھلی پالنے والے کسان ہیں، لیکن، ان کروڑوں لوگوں کے بارے میں پہلے کبھی اس طرح سے نہیں سوچا گیا۔ ہم نے ماہی پروری کے شعبے کے لیے ایک علیحدہ وزارت بنائی۔ مچھلی پالنے والوں کو کسان کریڈٹ کارڈ جیسی سہولتیں دینا شروع کیں۔ ہم نے متسیہ سمپدا یوجنا شروع کی۔ سمندر میں ماہی گیروں کے تحفظ کے لیے کئی جدید اقدامات کیے گئے۔ ان اقدامات سے کروڑوں لوگوں کی زندگی بھی بدلی اور ملک کی معیشت کو بھی تقویت ملی۔

دوستو ،

لال قلعہ کی فصیل سے میں نے سب کے پریاس کی بات کہی تھی۔ اس کا مطلب اجتماعی کوشش ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کا ملک کے مستقبل میں اہم کردار ہے، جب لوگ ایک ساتھ آتے ہیں، تو ہم حیرت انگیز چیزیں کر سکتے ہیں۔ آج سماجی طور پر باشعور ہندوستانی کئی عوامی تحریکوں کو طاقت دے رہے ہیں۔ سوچھ بھارت نے صاف ستھرا ہندوستان بنانے میں مدد کی۔ اس نے خواتین اور بچوں کی صحت کے نتائج پر بھی اثر ڈالا ہے۔ ہمارے کسانوں کی طرف سے اگائے گئےموٹے اناج یاشری اَنّ کا ملک اور دنیا بھر میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ لوگ  ووکل فار لوک ہورہے ہیں ، کاریگروں اور صنعتوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ایک پیڑ ماں کے نام  بھی لوگوں میں مقبول ہو گیا ہے۔یہ Mother Nature as well as our Motherکی بھی تکریم کرتا ہے۔ عیسائی کمیونٹی کے بہت سے افراد بھی ان اقدامات میں سرگرم ہیں۔ میں اپنے نوجوانوں، بشمول عیسائی کمیونٹی کے افراد، کو ایسی کوششوں میں قائدانہ کردار ادا کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ایسی اجتماعی کوششیں بھارت کو ترقی یافتہ بھارت بنانے کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہیں۔

ساتھیو!

مجھے یقین ہے، ہمارے سب کے اجتماعی اقدامات ہمارے ملک کو آگے بڑھائیں گے۔ ترقی یافتہ بھارت، ہمارا سب کا مقصد ہے اور ہمیں اسے مل کر حاصل کرنا ہے۔ یہ آنے والی نسلوں کے لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں ایک روشن بھارت دے کر جائیں۔ میں ایک بار پھر آپ سب کو کرسمس اور جبلی ایئر کی بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اپنی نیک خواہشات کا بھی اظہار کرتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ ۔

* * * *

ش ح۔ف ا ۔ص ج

U-NO: 4505