Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

کویت میں انڈین کمیونٹی کی’ھلا مودی‘تقریب میں وزیر اعظم کے خطاب کا ترجمہ

کویت میں انڈین کمیونٹی کی’ھلا مودی‘تقریب میں وزیر اعظم کے خطاب کا ترجمہ


بھارت ماتا کی جئے!

بھارت ماتا کی جئے!

بھارت ماتا کی جئے!

نمسکار!

 

میں ابھی دو ڈھائی گھنٹے پہلے کویت پہنچا ہوں۔ اور جب سے میں نے یہاں قدم رکھا ہے، میں نے چاروں طرف سے تعلق اور گرمجوشی کا ایک انوکھا احساس کیا ہے۔ آپ سبھی بھارت کی مختلف ریاستوں سے آئے ہیں لیکن آپ سب کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میرے سامنے کوئی چھوٹابھارت زندہ ہو گیا ہو۔ یہاں میں شمال، جنوب، مشرق اور مغرب کے لوگوں کو مختلف زبانیں اور بولیاں بولتے دیکھتا ہوں۔ پھر بھی، سب کے دلوں میں ایک ہی گونج ہے، سب کے دلوں میں ایک گونجنے والا نعرہ ہے – بھارت ماتا کی جئے، بھارت ماتا کی جئے۔

یہاں ثقافت کا تہوار کا ماحول ہے۔ ابھی، آپ کرسمس اور نئے سال کی تیاری کر رہے ہیں۔ جلد ہی پونگل آئے گا۔ چاہے مکر سنکرانتی ہو، لوہڑی ہو، بیہو ہو، یا اس طرح کے بہت سے تہوار، وہ زیادہ دور نہیں ہیں۔ میں آپ سب کو کرسمس، نئے سال اور ملک کے کونے کونے میں منائے جانے والے تمام تہواروں کے لیے اپنی دلی خواہشات پیش کرتا ہوں۔

دوستو

آج یہ لمحہ ذاتی طور پر میرے لیے بہت خاص ہے۔ 43 سال یعنی چار دہائیوں سے زیادہ کے بعد بھارت کا کوئی وزیر اعظم کویت آیا ہے۔ آپ کو بھارت سے کویت کا سفر کرنے میں صرف چار گھنٹے لگتے ہیں، لیکن ایک وزیر اعظم کو یہ سفر طے کرنے میں چار دہائیاں لگیں۔ آپ میں سے کئی نسلوں سے کویت میں رہ رہے ہیں۔ آپ میں سے کچھ یہاں  پیدا ہوئے ے۔ اور ہر سال سینکڑوںبھارتیہ آپ کی کمیونٹی میں شامل ہوتے ہیں۔ آپ نے کویتی معاشرے میں بھارتیہ ذائقے کو شامل کیا ہے، کویت کے کینوس کو بھارتی مہارتوں کے رنگوں سے پینٹ کیا ہے، اور بھارت کے ہنر، ٹیکنالوجی اور روایت کو کویت کے تانے بانے میں ملایا ہے۔ اسی لیے میں آج یہاں  نہ صرف آپ سے ملنے، بلکہ آپ کی کامیابیوں کا جشن منانے کے لیےموجود ہوں۔

دوستو

تھوڑی دیر پہلے، میں نے یہاں کام کرنے والےبھارتیہ کارکنوں اور پیشہ ور افراد سے ملاقات کی۔ یہ دوست تعمیراتی کاموں سے وابستہ ہیں اور کئی دوسرے شعبوں میں بھی اپنی محنت کا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکس کے طور پر بھارت کمیونٹی کے ارکان کویت کے طبی بنیادی ڈھانچے کی ایک اہم طاقت ہیں۔ آپ میں سے جو اساتذہ ہیں وہ کویت کی اگلی نسل کو مضبوط بنانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ آپ میں سے جو انجینئرز اور آرکیٹیکٹس ہیں وہ کویت میں انفراسٹرکچر کی اگلی نسل بنا رہے ہیں۔

 

اور دوستو

میں جب بھی کویت کی قیادت سے بات کرتا ہوں، وہ ہمیشہ آپ سب کی بے حد تعریف کرتے ہیں۔ کویت کے شہری بھی آپ کی محنت، دیانت اور مہارت کی وجہ سے آپ کا بہت احترام کرتے ہیں۔ آج، بھارت ترسیلات زر میں عالمی رہنما ہے، اور اس کامیابی کے کریڈٹ کا ایک اہم حصہ آپ تمام محنتی دوستوں کو جاتا ہے۔ وطن واپسی پر آپ کے ہم وطنوں کی طرف سے آپ کے تعاون کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔

دوستو

بھارت اور کویت کا رشتہ تہذیبوں میں سے ایک ، سمندر کا، پیار کا اور تجارت کاہے۔ بھارت اور کویت بحیرہ عرب کے مخالف کنارے پر واقع ہیں۔ یہ صرف سفارت کاری ہی نہیں جو ہمیں باندھتی ہے بلکہ دلوں کا ربط بھی ہے۔ ہمارے موجودہ تعلقات ہماری مشترکہ تاریخ کی طرح مضبوط ہیں۔ ایک وقت تھا جب کویت سے موتی، کھجور اور شاندار نسل کے گھوڑوں کو بھارت بھیجا جاتا تھا، جب کہ بھارت سے بہت سے سامان یہاں آتے تھے۔ بھارتی چاول، چائے، مصالحے، کپڑے اور لکڑی باقاعدگی سے کویت لایا جاتا تھا۔ بھارت کی ساگوان کی لکڑی بحری جہاز بنانے کے لیے استعمال کی جاتی تھی جس پر کویتی ملاح طویل سفر کرتے تھے۔ کویت کے موتی بھارت کے لیے ہیروں کی طرح قیمتی رہے ہیں۔ آج، بھارت  کےزیورات دنیا بھر میں مشہور ہیں، اور کویتی موتیوں نے اس میراث میں حصہ ڈالا ہے۔ گجرات میں، ہم اکثر اپنے بزرگوں سے کہانیاں سنتے ہیں کہ کس طرح، گزشتہ صدیوں میں، کویت اور بھارت کے درمیان مسلسل سفر اور تجارت ہوتی تھی۔ خاص طور پر 19ویں صدی میں کویتی تاجر سورت آنے لگے۔ اس وقت سورت کویتی موتیوں کی بین الاقوامی منڈی تھی۔ گجرات میں سورت، پوربندر اور ویراول جیسی بندرگاہیں ان تاریخی رابطوں کے گواہ ہیں۔

کویتی تاجروں نے گجراتی زبان میں بھی بے شمار کتابیں شائع کی ہیں۔ گجرات کے بعد کویتی تاجروں نے ممبئی اور دیگر بازاروں میں بھی اپنی الگ موجودگی قائم کی۔ اس کی ایک قابل ذکر مثال معروف کویتی تاجر عبداللطیف العبدالرزاق ہیں، جن کی کتاب ‘ہاؤ ٹو کیلکولیٹ پرل ویٹ’ ممبئی میں شائع ہوئی۔ بہت سے کویتی تاجروں نے اپنے برآمدی اور درآمدی کاروبار کے لیے ممبئی، کولکتہ، پوربندر، ویراول اور گوا میں دفاتر کھولے۔ آج بھی کئی کویتی خاندان ممبئی کی محمد علی اسٹریٹ میں رہائش پذیر ہیں۔ یہ جان کر بہت سے لوگوں کو حیرت ہو سکتی ہے کہ 60-65 سال پہلے، بھارتی روپیہ کویت میں اسی طرح استعمال کیا جاتا تھا جیسا کہ بھارت میں استعمال ہوتاہے۔ اس وقت، اگر کوئی کویت میں کسی دکان سے کچھ خریدتا تھا، تو بھارتیہ روپے کو بطور کرنسی قبول کیا جاتا تھا۔ “روپیہ،” “پیسہ،” اور “آنا” جیسی اصطلاحات جو ہندوستانی کرنسی کے الفاظ کا حصہ تھیں، کویت کے لوگوں کے لیے بہت واقف تھیں۔

دوستو

بھارت دنیا کے پہلے ممالک میں سے ایک تھا جس نے کویت کی آزادی کے بعد اسے تسلیم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ایسے ملک اور معاشرے کا دورہ کرنا جس کے ساتھ ہم اپنے ماضی اور حال دونوں میں بہت سی یادیں اور اتنے گہرے تعلق کا اشتراک کرتے ہیں میرے لیے واقعی یادگار ہے۔ میں کویت کے عوام اور اس کی حکومت کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔ میں خاص طور پر عزت مآب امیر کا  ان کی  دعوت پرشکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔

 

دوستو

ماضی میں ثقافت اور تجارت کے ذریعے رشتہ اب اس نئی صدی میں نئی ​​بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ آج، کویت بھارت کے لیے ایک بہت اہم توانائی اور تجارتی شراکت دار ہے، اور بھارت کویتی کمپنیوں کے لیے سرمایہ کاری کی ایک بڑی منزل بھی ہے۔ مجھے نیویارک میں ہماری ملاقات کے دوران کویت کے ولی عہد کی طرف سے بیان کردہ ایک قول واضح طور پر یاد ہے۔ انہوں نے کہا، ’’جب آپ کو ضرورت ہو تو بھارت آپ کی منزل ہے۔‘‘ بھارت اور کویت کے شہری مشکل وقت اور بحرانوں میں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ کورونا وبا کے دوران دونوں ممالک نے ہر سطح پر ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ جب بھارت کو سب سے زیادہ مدد کی ضرورت تھی، کویت نے ہمیں مائع آکسیجن فراہم کی۔عزت مآب، ولی عہد شہزادہ، ذاتی طور پر سب کو تیزی سے کام کرنے کی ترغیب دینے کے لیے آگے بڑھے۔ مجھے اطمینان ہے کہ بھارت نے بھی کویت کو بحران سے لڑنے میں مدد کرنے کے لیے ویکسین اور طبی ٹیمیں بھیج کر اپنی مدد کی ہے۔ بھارت نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنی بندرگاہوں کو کھلا رکھا کہ کویت اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے لیے ضروری اشیائے خوردونوش کی کوئی کمی نہ ہو۔ اس سال جون میں، یہاں کویت میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔منقفمیں آتشزدگی کا سانحہ جس نے کئی بھارتیوں کی جان لی۔ جب میں نے یہ خبر سنی تو مجھے شدید تشویش ہوئی۔ تاہم اس دوران کویتی حکومت نے جس طرح مدد کی وہ سچے بھائی کی طرح تھا۔ میں کویت کے جذبے اور ہمدردی کو سلام پیش کرتا ہوں۔

 

دوستو

خوشی اور غم دونوں میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی یہ روایت ہمارے باہمی رشتے اور اعتماد کی بنیاد بنتی ہے۔ آنے والی دہائیوں میں ہم خوشحالی میں اور زیادہ شراکت دار بن جائیں گے۔ ہمارے مقاصد بہت مختلف نہیں ہیں۔ کویت کے لوگ نئے کویت کی تعمیر کے لیے کام کر رہے ہیں، اور بھارت کے لوگ بھی 2047 تک ملک کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے وقف ہیں۔ کویت کا مقصد تجارت اور اختراع کے ذریعے ایک متحرک معیشت بننا ہے، اور بھارت بھی اختراع پر توجہ دے رہا ہے۔ اور اپنی معیشت کو مسلسل مضبوط کر رہا ہے۔ یہ دونوں مقاصد ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ نئے کویت کی تخلیق کے لیے درکار اختراعات، ہنر، ٹیکنالوجی اور افرادی قوت سب کچھ بھارت میں دستیاب ہے۔ بھارت کے سٹارٹ اپس، فنٹیک سے لے کر ہیلتھ کیئر تک، سمارٹ سٹیز سے لے کر گرین ٹیکنالوجیز تک، کویت کی ہر ضرورت کے لیے جدید حل فراہم کر سکتے ہیں۔ بھارت کے ہنر مند نوجوان کویت کے مستقبل کے سفر میں نئی ​​طاقت بھی شامل کر سکتے ہیں۔

دوستو

بھارت دنیا کا ہنر مندانہ سرمایہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت آنے والی کئی دہائیوں تک دنیا کا سب سے کم عمر ملک رہے گا۔ اس تناظر میں، بھارت مہارتوں کی عالمی مانگ کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے بھارت عالمی ضروریات کے مطابق اپنے نوجوانوں کے لیے ہنر مندی کی ترقی اور اسکل اپ گریڈنگ پر توجہ دے رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں، بھارت نے خلیجی ممالک، جاپان، آسٹریلیا، فرانس، جرمنی، ماریشس، برطانیہ اور اٹلی سمیت تقریباً دو درجن ممالک کے ساتھ ہجرت اور روزگار کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک بھی بھارت کی ہنر مند افرادی قوت کے لیے اپنے دروازے کھول رہے ہیں۔

دوستو

بیرون ملک کام کرنے والےبھارتیوں کی بہبود اور سہولیات کو یقینی بنانے کے لیے مختلف ممالک کے ساتھ کئی معاہدے کیے جا رہے ہیں۔ آپ ای مائیگریٹ پورٹل سے واقف ہو سکتے ہیں۔ اس پورٹل کے ذریعے غیر ملکی کمپنیوں اور رجسٹرڈ ایجنٹوں کو ایک پلیٹ فارم پر لایا گیا ہے۔ اس سے یہ شناخت کرنا آسان ہوجاتا ہے کہ افرادی قوت کی طلب کہاں ہے، کس قسم کی افرادی قوت کی ضرورت ہے، اور کس کمپنی کو اس کی ضرورت ہے۔ اس پورٹل کی بدولت پچھلے 4-5 سالوں میں لاکھوں کارکن خلیجی ممالک میں آ چکے ہیں۔ اس طرح کے ہر اقدام کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے – اس بات کو یقینی بنانا کہ بھارت کا ہنر دنیا کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالے اور جو لوگ کام کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں انہیں ہمیشہ ضروری تعاون حاصل ہو۔ کویت میں آپ سب کو بھی اس سلسلے میں بھارت کی کوششوں سے بہت فائدہ ہوگا۔

 

دوستو

ہم دنیا میں کہیں بھی رہتے ہیں، ہم جس ملک میں ہیں اس کا احترام کرتے ہیں، اور بھارت کو نئی بلندیوں پر پہنچتے ہوئے ہمیں بے حد خوشی محسوس ہوتی ہے۔آپ سب بھارت سے آئے ہیں، یہاں رہتے ہیں، پھر بھی آپ نے اپنی بھارتیہ شناخت کو اپنے دلوں میں محفوظ رکھا ہے۔ اب بتائیں، کون سابھارتیہ منگل یان کی کامیابی پر فخر محسوس نہیں کرے گا؟ چاند پر چندریان کے اترنے سے کون سابھارتی خوش نہیں ہوا ہوگا؟ کیا میں ٹھیک نہیں ہوں؟ آج بھارت ایک نئے جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ بھارت اب دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ یہ دنیا کے نمبر ایک فنٹیک ماحولیاتی نظام کا گھر ہے۔ بھارت دنیا کے تیسرے سب سے بڑے سٹارٹ اپ ایکو سسٹم پر بھی فخر کرتا ہے اور دنیا میں موبائل فون بنانے والا دوسرا سب سے بڑا ادارہ ہے۔

مجھے آپ کے ساتھ ایک اعداد و شمار کا اشتراک کرنے دیں، اور مجھے یقین ہے کہ آپ اسے سن کر خوش ہوں گے۔ پچھلے 10 سالوں میں، پورے بھارت میں بچھائے گئے آپٹیکل فائبر کی لمبائی زمین اور چاند کے درمیان فاصلے سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔ آج، بھارت دنیا کے سب سے زیادہ ڈیجیٹل طور پر جڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ ہربھارتی چھوٹے شہروں سے لے کر گاؤں تک ڈیجیٹل ٹولز کا استعمال کر رہا ہے۔ بھارت میں سمارٹ ڈیجیٹل سسٹم اب عیش و آرام کی بات نہیں ہے۔ وہ اب عام آدمی کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہیں۔ چاہے ایک کپ چائے کا لطف اٹھانا ہو، سڑک پر پھل خریدنا ہو، یا ڈیجیٹل ادائیگی کرنا ہو، بھارت نے ڈیجیٹل سہولت کو اپنا لیا ہے۔ گروسری، کھانا، پھل، سبزیاں، یا روزمرہ کی گھریلو اشیاء کا آرڈر دینا اب لمحوں میں ہو جاتا ہے، اور ادائیگی موبائل فون کے ذریعے کی جاتی ہے۔ لوگوں کے پاس دستاویزات کو ذخیرہ کرنے کے لیےڈیجی لوکر، ہوائی اڈوں پر بغیر کسی رکاوٹ کے سفر کے لیے ڈیجی یاترا، اور ٹول بوتھ پر وقت بچانے کے لیےفاسٹ ٹیگ ہے۔ بھارت تیزی سے ڈیجیٹل طور پر سمارٹ ہوتا جا رہا ہے، اور یہ صرف شروعات ہے۔ بھارت کا مستقبل ان اختراعات میں پنہاں ہے جو پوری دنیا کی سمت متعین کرے گی۔ مستقبل کا بھارت عالمی ترقی کا مرکز  اور دنیا کی ترقی کا انجن ہوگا۔ وہ وقت دور نہیں جب بھارت گرین انرجی، فارما، الیکٹرانکس، آٹوموبائل، سیمی کنڈکٹرز، قانونی، بیمہ، معاہدہ اور تجارتی شعبوں کا مرکز بن جائے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ دنیا کے بڑے اقتصادی مراکز بھارت میں خود کو قائم کرتے ہیں۔ بھارت عالمی قابلیت کے مراکز، عالمی ٹیکنالوجی مراکز اور عالمی انجینئرنگ مراکز کے لیے ایک بڑے مرکز کے طور پر ابھرے گا۔

 

دوستو

ہم پوری دنیا کو ایک خاندان سمجھتے ہیں۔ بھارت ایک ’وشوا بندھو‘ (عالمی دوست) کے طور پر دنیا کی فلاح کا سوچ کر آگے بڑھ رہا ہے۔ دنیا بھی بھارت کے اس جذبے کو تسلیم کر رہی ہے۔ آج، 21 دسمبر، 2024 کو، دنیا اپنا پہلا عالمی یوم مراقبہ منا رہی ہے، جو بھارت کی ہزاروں سال پرانی مراقبہ کی روایت کے لیے وقف ہے۔ 2015 سے، دنیا 21 جون کو بین الاقوامی یوگا ڈے منا رہی ہے، جو بھارت کی یوگا روایت کو بھی وقف ہے۔ 2023 میں، دنیا نے جوار کا بین الاقوامی سال منایا، جو بھارت کی کوششوں اور تجویز سے ممکن ہوا۔ آج بھارت کا یوگا دنیا کے ہر خطے کو متحد کر رہا ہے۔ بھارت کی روایتی ادویات، ہماری آیوروید، اور ہماری آیوش مصنوعات عالمی تندرستی کو فروغ دے رہی ہیں۔ ہمارے سپر فوڈز، باجرا اور شری انا غذائیت اور صحت مند طرز زندگی کے لیے ایک اہم بنیاد بن رہے ہیں۔ نالندہ سے آئی آئی ٹی تک، بھارت کا علمی نظام عالمی علمی ماحولیاتی نظام کو مضبوط کر رہا ہے۔ آج بھارت عالمی رابطے میں بھی ایک اہم کڑی بن رہا ہے۔ گزشتہ سال بھارت میں منعقدہ جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران بھارت،مشرق وسطی یورپ کوریڈور کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ راہداری دنیا کے مستقبل کو ایک نئی سمت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔

دوستو

’’وکست بھارت‘‘ (ترقی یافتہ بھارت) کا سفر آپ کے تعاون اور بھارتیہتارکین وطن کی شرکت کے بغیر ادھورا ہے۔ میں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ’وکست بھارت‘ کے عزم میں شامل ہوں۔ نئے سال کا پہلا مہینہ، جنوری 2025، بہت سی قومی تقریبات کا مہینہ ہوگا۔ اس سال 8 سے 10 جنوری تک بھونیشور میں پرواسی بھارتیہ دیوس کا انعقاد کیا جائے گا، جس میں دنیا بھر سے لوگ اکٹھے ہوں گے۔ میں آپ سب کو اس تقریب کا حصہ بننے کی دعوت دیتا ہوں۔ اس سفر پر، آپ پوری میں بھگوان جگن ناتھ سے آشیرواد لے سکتے ہیں۔ اس کے بعد، مہا کمبھ میلہ میں حصہ لینے کے لیے پریاگ راج کا دورہ کریں، جو 13 جنوری سے 26 فروری تک منعقد ہوگا، جو تقریباً ڈیڑھ ماہ تک جاری رہے گا۔ 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کی تقریبات دیکھنے کے بعد واپس آنا یقینی بنائیں۔ اور ہاں، اپنے کویتی دوستوں کو بھارت لائیں، انہیں آس پاس دکھائیں، اور انہیں بھارت کا تجربہ کرنے دیں۔ ایک وقت تھا جب دلیپ کمار صاحب نے یہاں پہلے انڈین ریسٹورنٹ کا افتتاح کیا تھا۔ بھارت کا حقیقی ذائقہ وہیں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لہذا، اپنے کویتی دوستوں کو اس تجربے کے لیے تیار کرنا یقینی بنائیں۔

 

دوستو

میں جانتا ہوں کہ آپ سب آج سے شروع ہونے والے عربین گلف کپ کے لیے بہت پرجوش ہیں۔ آپ کویت کی ٹیم کو خوش کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ افتتاحی تقریب کے لیے مجھے مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کرنے پر میں عزت مآب، امیر کا شکر گزار ہوں۔ یہ اس بے پناہ احترام کی عکاسی کرتا ہے جو شاہی خاندان، حکومت کویت، آپ سب اور بھارت کے لیے رکھتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ اسی طرح سے بھارت-کویت تعلقات کو مضبوط کرتے رہیں گے۔ اس خواہش کے ساتھ، ایک بار پھر، آپ سب کا تہہ دل سے شکریہ!

 

بھارت ماتا کی جئے!

بھارت ماتا کی جئے!

بھارت ماتا کی جئے!

آپ کا بہت بہت شکریہ۔

***

(ش ح۔اص)

UR No 4423