Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

کولیشن فار ڈیزاسٹر ریزیلینٹ انفراسٹرکچر (سی ڈی آر آئی) کی سالانہ کانفرنس  کے تیسرے ایڈیشن سے وزیر اعظم کے خطاب کا متن

کولیشن فار ڈیزاسٹر ریزیلینٹ انفراسٹرکچر (سی ڈی آر آئی) کی سالانہ کانفرنس  کے تیسرے ایڈیشن سے وزیر اعظم کے خطاب کا متن


 

وزیر اعظم فیجی ،

وزیر اعظم اٹلی،

وزیر اعظم برطانیہ،

مہمان حضرات

قومی حکومتوں کے شر کت کرنے والے،

بین الاقوامی تنظیموں کے ماہرین،

تعلیمی ادارے اور پرائیویٹ سیکٹر۔

کولیشن فار ڈیزاسٹر ریزیلینٹ انفراسٹرکچر یا (سی ڈی آر آئی) کی سالانہ کانفرنس  کا تیسرا ایڈیشن ایک ایسے وقت منعقد ہو رہا ہے جس  کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ہم اس پروگرام  کو ایک ایسا پروگرام کہہ سکتے ہیں جو 100 سال میں منعقد ہوتا ہے۔ وبائی بیماری کووڈ-19 نے ہمیں یہ سکھا دیا ہے کہ  ایک دوسرے پر منحصر اورآپس میں جڑی ہوئی دنیا میں کوئی ملک خواہ وہ غریب ہو یا امیر، مشرق میں ہو یا مغرب میں، شمال میں ہو یا جنوب میں  وہ عالم بحرانوں کے اثر سے غیر متاثر نہیں رہ سکتا۔ دوسری صدی عیسوی میں بھارت کے اسکالر ناگ ارجن نے لکھا تھا ’’دوسروں پر انحصار کے اشعار کہے جارہے ہیں‘‘प्रतीत्यसमुत्पाद۔ انھوں نے ا نسانوں سمیت تمام چیزوں کے آپس میں جڑے ہوئے سلسلے کو دکھایا تھا۔اس کارنامہ سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح  فطری اور سماجی دنیاؤں انسانی زندگی کس طرح کے رویے اظہار کرتی ہے۔اگر ہم اس قدیم دانشمندی کو سمجھ لیں تو ہم ا پنے موجودہ سسٹم کی کمزوری کو کم کرسکتے ہیں۔ ایک طرف تو وبائی بیماری نے ہمیں یہ دکھایا ہے کہ کس طرح اثرات تیزی کے ساتھ پوری دنیامیں پھیلتے ہیں۔ دوسری طرف اس بیماری نے یہ دکھایا ہے کہ کس طرح دنیا ایک ساتھ مل کر ایک مشترکہ خطرے کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح انسانی سنسکاری انتہائی مشکل مسائل کو بھی حل کرسکتی ہے۔ ہم نے ریکارڈ وقت میں ٹیکے تیار کئے ہیں۔ ا س وبائی بیماری نے ہمیں یہ دکھا دیا ہے کہ کس طرح عالمی چیلنجوں کے مقابلے کے لیے جدت طرازی کسی بھی جگہ سے  آسکتی ہے۔ ہمیں عالمی ایکوسسٹم کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو دنیا کے تمام حصوں میں جدت طرازی کی حمایت کرتی  اور اس کی ان جگہوں پر منتقلی کی ضرورت ہے جہاں اس کی زیادہ شدید ضرورت ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001KMKX.jpg

سال 2021 اس وبائی بیماری پر  آسانی سے قابو پانے کا سال ہوگا۔ لیکن اس وبائی بیماری سے جو سبق ملے ہیں ا نھیں بھولنا نہیں چاہیے۔ ان کا اطلاق  نہ صرف عوامی  صحت کے  خراب حالات پر ہوتا ہے  بلکہ دوسرے بحرانوں پر بھی ہوتا ہے۔ہمیں آب وہوا کے بحران کا سامنا ہے۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کے ماحولیات کے سربراہ نے حال ہی میں کہا تھا کہ ’’ آب وہوا کے بحران کے لیے کوئی ٹیکہ نہیں ہوتا‘‘۔ آب وہوا کی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مسلسل اور دیرپا کوششوں کی ضرورت ہوگی۔ہمیں بھی ایسی تبدیلیوں کو ا پنانا ہوگا جو پہلے ہی اپنائی جارہی  ہیں اور جن کے پوری دنیا کے طبقوں پر اثرات مرتب  ہو رہے ہیں۔اس سلسلےمیں  اس اتحاد(کولیشن) کی اہمیت اور بھی زیادہ  واضح ہو گئی ہے۔اگر ہم لچکدار بنیادی ڈھانچے میں  زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہیں تو یہ کوششوں کو اپنانے کا بڑا کام ہوگا۔ بھارت جیسے ملک جو بنیادی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں انھیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ  یہ   ابھرنے کی قوت کے سلسلے میں سرمایہ کاری ہے اور اس میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن جیسا کہ حالیہ ہفتوں کے واقعات نے  ظاہر کردیا ہے کہ یہ صرف کسی ایک ترقی پذیر ملک کا مسئلہ نہیں ہے۔پچھلے مہینے ہی موسم سرما کے طوفان اڑی میں ٹیکساس، امریکہ میں بجلی پیدا کرنے کی تقریباً ایک تہائی صلاحیت کو درہم برہم کردیا تھا۔ تقریباً تین ملین لوگ بجلی سے محروم ہوگئے تھے۔ اس طرح کے واقعات کہیں بھی ہوسکتے ہیں۔بجلی جانے کی پیچیدہ وجوہات کو  ا بھی تک سمجھا جارہا ہے۔ ہمیں سبق  لینا چاہیے کہ  اور اس طرح کے واقعات نہ ہونے دینے کی تیاری کرنی چاہیے۔

بنیادی ڈھانچے کے بہت سے سسٹم- ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچہ، جہازراں کمپنیاں اور ہوا بازی کا نیٹ ورک  پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ دنیا کے ایک حصےمیں ہونے والے بحران کا اثر بہت تیزی کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل سکتاہے۔عالمی سسٹم  کی دوبارہ ابھرنے کی قوت کو یقینی بنانے کے لیے تعاون ضروری ہے۔ بنیادی ڈھانچے کو طویل مدت کے لیے ترقی دی جاتی ہے۔ اگر ہم دوبارہ ابھرنے کی قوت کو مستحکم بناتے ہیں تو ہم نہ صرف اپنے لیے بلکہ مستحکم کی بہت سی نسلوں کے لیے بھی بحرانوں کی روک تھام کرسکیں گے۔جب کوئی پل گرتا ہے، کوئی ٹیلی کام ٹاؤور گرتا ہے، بجلی کا نظام فیل ہوتا ہے یا جب ایک اسکول کو نقصان پہنچتا ہے تویہ نقصان صرف براہ راست نقصان نہیں ہوتا۔ ہمیں  ان نقصانات پر اچھی طرح غور کرنا چاہیے۔ چھوٹے کاروباروں میں رکاوٹ  یا بچوں کی اسکول کی پڑھائی میں رکاوٹ کے براہ راست نقصان کئی گنا ہوسکتے ہیں۔اگر ہم اپنے بنیادی ڈھانچے کو دوبارہ ابھرنے والا بناتے ہیں توہم براہ راست اور بالواسطہ نقصانات کو کم کرسکتے ہیں اور لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی کا تحفظ کرسکتے ہیں۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002FQ8C.jpg

سی ڈی آر ا ٓئی کے تشکیلی برسوں میں ہم بھارت کے ساتھ برطانیہ کی قیادت کے بھی شکر گزار ہیں۔ 2021 کا سال خاص طور پر ایک اہم سال ہے۔ ہم  دیرپا ترقیاتی مقاصدپیرس سمجھوتے اور سیندائی فریم ورک  کے وسط تک پہنچ رہے ہیں۔ سی او پی -26 جس کی میزبانی برطانیہ اور اس سال کے بعد میں اٹلی کرے گا،  اس سے توقعات بہت زیادہ ہیں۔

لچکدار بنیادی ڈھانچے کے تعلق سے اس شراکت داری کو ان میں سے کچھ توقعات کے پورا کرنے میں مدد کرنے کے سلسلے میں اہم رول ادا کرنا ہوگا۔ میں کچھ ایسے شعبوں کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جنھیں ترجیح دینی چاہیے۔  پہلی بات تو یہ کہ سی ڈی آر آئی کو دیرپا ترقیاتی مقاصد کے مرکزی وعدے کو اپنانا چاہیے۔ یعنی کہ ’’کسی کو پیچھے مت چھوڑیئے‘‘ ا س کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں انتہائی کمزور ملکوں ا ور طبقوں  کے بارے میں دلچسپی کو سب سے آگے رکھنا چاہیے۔اس سلسلےمیں  چھوٹے جزیرہ جاتی ترقی پذیر قوموں کو جو  حالات خراب کرنے والے بحرانوں کا  پہلے ہی تجربہ کر  رہے ہیں انھیں ہر  طرح کی ٹیکنالوجی، علم  اور امداد تک رسائی حاصل ہونی چاہیے جنھیں وہ ضروری سمجھتے ہیں۔ہمیں مقامی  معاملات میں عالمی حل اپنانے کی صلاحیت اور مدد  کو رجحان پیدا کرنا چاہیے۔  دوسرے یہ کہ ہمیں بنیادی ڈھانچے کے بعض اہم سیکٹروں مثلاً صحت کے بنیادی ڈھانچے اور ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے کی کارکردگی کا جائزہ لیناچاہیے جنھوں نے  وبائی بیماری کے دوران مرکزی رول ادا کیا ہے۔  ان سیکٹروں سے کیا سبق حاصل ہوئے؟ اور ہم انھیں مستقبل کے لیے کس طرح زیادہ لچکدار بنا سکتے ہیں؟قومی اور ذیلی قومی  سطح پر  ہمیں مربوط منصوبہ بندی ڈھانچہ جاتی ڈیزائن، جدید میٹیریل کی فراہمی اور تمام بنیادی ڈھانچے کے سیکٹروں میں بڑے پیمانے  پر ہنرمند افراد کے تعلق سے صلاحیتوں میں سرمایہ لگانا چاہیے۔ تمام شعبوں میں تحقیق وترقی کی ضرورت ہے۔ تیسری بات یہ کہ لچکدار بنیادی ڈھانچے کی  ہماری کوشش میں کسی ٹیکنالوجیکل سسٹم کو بہت بنیادی یا بہت زیادہ ترقی یافتہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔سی ڈی ا ٓر آئی کو ٹیکنالوجی کے استعمال کے اثر کو زیادہ سے زیادہ ظاہر کرنا چاہیے۔ گجرات میں ہم نے بھارت کا پہلا اسپتال قائم کیاجس میں بیس آئیسولیشن تکنیکوں کا استعمال کیا گیا۔ اب زلزلوں سے حفاظت کے لیے بیس آئیسولیٹرس خود بھارت میں تیار کیے جارہے ہیں۔ موجودہ  صورت حال کے تعلق سے ہمارے پاس بہت سے مواقع ہیں۔ ہمیں    آراضی سے متعلق ٹیکنالوجیوں ، خلاء پر مبنی صلاحیتوں، ڈاٹا سائنس، مصنوعی ذہانت اور میٹیریل سائنس کے امکانات کو پوری طرح بروئے کار لانا چاہیے اور انھیں مقامی مہارت کے ساتھ جوڑ دینا چاہیے تاکہ  دوبارہ ابھرنے کی قوت کو اپنا یا جاسکے۔ اور آخری بات یہ کہ ’’لچکدار بنیادی ڈھانچے‘‘ کا معاملہ ایک عوامی تحریک بن جانا چاہیے جس میں نہ صرف ماہرین  اور باضابطہ اداروں کی توانائیوں کا استعمال کیا جائے بلکہ طبقوں خاص طور پر نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بھی کام لیا جائے۔ لچکدار بنیادی ڈھانچے کے سلسلے میں سماجی مانگ معیارات کی پابندی کو بہتر  بنانے کے لیے  بڑھتی جائے گی۔ عوامی آگاہی اور تعلیم پر توجہ دینا اس عمل کا ایک اہم پہلو ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کو مقامی طور پر رونما ہونے والے بحرانوں کے بارے میں آگاہی کو اور بنیادی ڈھانچے پر پڑنے والے ان کے امکانی اثرات کے بارے میں آگاہی کو آگے بڑھانا چاہیے۔

آخر میں میں کہنا چاہتا ہوں کہ سی ڈی آر آئی نے اپنے لیے ایک چیلنجنگ اور فوری ایجنڈا  مرتب کیا ہے۔امید ہےکہ اس کے نتائج بہت جلد برآمد ہوں گے۔ اگلے سمندری طوفان ، اگلے سیلاب، اگلے زلزلےکے تعلق سے ہم یہ کہہ سکیں گے کہ ہمارے بنیادی ڈھانچے کا نظام  زیادہ بہتر طور پر تیار تھا اور ہم نقصانات کو کم کرسکے۔ اگر نقصان ہوتا ہے تو  ہمیں خدمات کو فوری طو رپر بحال کرناچاہیے اور جلد ہی بہتر طور پر اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔ ابھرنے کی قوت  کی تلاش میں ہم ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں۔ جیسا کہ وبائی بیماری نے ہمیں یاد دلایا ہےاس وقت تک کوئی شخص محفوظ نہیں ہے جب تک ہر شخص محفوظ نہیں ہے۔ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہےکہ کوئی طبقہ ،کوئی جگہ،کوئی ایکوسسٹم اور کوئی معیشت پیچھے نہ رہ جائے۔ جیسا کہ وبائی بیماری کے خلاف  پوری دنیا کے سات ارب لوگوں کی توانائیاں بروئے کار لائی گئیں، دوبارہ ابھرنے کی قوت کے لیے ہماری تلاش اس کرۂ ارض کے  ایک ایک شخص کی کوشش اور اس کے  تصور پر مبنی ہونی چاہیے۔

شکریہ !

 

*****

 

ش ح ۔اج۔را

U.No.2657