Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

پی ایم- کسان کے تحت اگلی قسط جاری کرنے کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن

پی ایم- کسان کے تحت اگلی قسط جاری کرنے کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن


نئی دہلی:25دسمبر، 2020:ملک بھر سے جڑے میرے کسان بھائی  بہن، اس پروگرام میں ملک میں الگ الگ جگہوں سے جڑے مرکزی حکومت کی کابینہ، ریاستی حکومتوں کے وزراء، پنچایت سے لیکر کے پارلیمنٹ تک منتخب ہوئے سارے عوامی نمائندے اور سب گاؤوں میں جاکر کے کسانوں کے درمیان میں بیٹھے ہیں، میں آپ سب کو اور میرے کسان بھائیوں اور بہنوں کو میری جانب سے نمسکار۔

کسانوں کی زندگی میں خوشی، یہ ہم سبھی کی خوشی بڑھا دیتی ہے اور آج کا دن تو بہت ہی مبارک دن بھی ہے۔ کسانوں کو آج جو سماّن ندھی ملی ہے، اس کے ساتھ ہی آج کا دن کئی مواقع کا سنگم بن کر بھی آیا ہے۔ سبھی ہم وطنوں کو آج کرسمس کی بھی بہت بہت مبارکباد۔ میری تمنا ہے کہ کرسمس کا یہ تیوہار، دنیا میں پیار، امن اور بھائی چارے کو پھیلائے۔

ساتھیو،

آج موکشدا اکادشی ہے، گیتا جینتی ہے۔ آج ہی بھارت رتن مہامنا مدن موہن مالویہ جی کی جینتی بھی ہے۔ ملک کے مہان کرم یوگی، ہمیں تحریک دینے والے شخص آنجہانی اٹل بہاری واجپئی جی کا بھی آج یوم پیدائش ہے۔ ان کی یاد میں آج ملک گڈ گورننس ڈے بھی منارہا ہے۔

ساتھیو،

اٹل جی نے گیتا کے پیغاموں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی لگاتار کوشش کی۔ گیتا میں کہا گیا ہے کہ سوے سوے  کرمنی ابھیرت: سنسدھم، لبھتے نر:۔ یعنی جو اپنے فطری کاموں کو اچھی طرح سے کرتا ہے، اسے کامیابی مل جاتی ہے۔ اٹل جی نے بھی اپنی پوری زندگی قوم کے تئیں اپنے کام کو پوری لگن سے کرنے کیلئے وقف کردیا۔ بہتر حکمرانی کو، گڈ گورننس کو اٹل جی نے بھارت کے سیاسی اور سماجی گفتگو کا ایک حصہ بنایا۔ اٹل جی نے گاؤں اور غریبوں کی ترقی کو اولین ترجیح دی۔ پردھان منتری گرام سڑک یوجنا ہو یا پھر سورنم چتربھج یوجنا ہو، انتودے انّ یوجنا ہو یا پھر سرو سکشا ابھیان ہو، قوم کی زندگی میں معنی خیز تبدیلیاں لانے کیلئے اٹل جی نے بہت سے اقدامات کیے۔ آج پوری قوم اٹل جی کے سامنے جھکتے ہوئے انہیں یاد کررہی ہے، آج جن زرعی اصلاحات کو ملک نے زمین پر اتارا ہے ان کے معمار بھی   ایک طرح سے اٹل بہاری واجپئی بھی تھے۔

ساتھیو،

اٹل جی غریب کے حق میں، کسان کے حق میں بننے والی سبھی اسکیموں میں ہونے والی بدعنوانی کو قومی بیماری مانتے تھے۔ آپ سب کو یاد ہوگا، انہوں نے ایک بار پہلے کی حکومتوں پر طنز کرتے ہوئے ایک سابق وزیراعظم کی بات یاد دلائی تھی اور ان کو یاد دلاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا۔ روپیہ چلتا ہے تو گھستا ہے، روپیہ گھستا ہے، ہاتھ میں لگتا ہے اور دھیرے سے جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ مجھے اطمینان ہے کہ آج نہ روپیہ گھستا ہے اور نہ ہی کسی غلط ہاتھ میں لگتا ہے۔ دہلی سے جس غریب کے لئے روپیہ نکلتا ہے وہ اس کے بینک کھاتے میں سیدھا پہنچتا ہے۔ ابھی ہمارے وزیر زراعت نریندر تومر جی نے اس موضوع پر تفصیل سے ہمارے سامنے بیان کیا۔ پی ایم کسان سماّن ندھی اس کی ہی ایک بہترین مثال ہے۔

آج ملک کے 9 کروڑ سے زائد کسان کنبوں کے بینک کھاتے میں سیدھے، ایک کمپیوٹر کے کلک سے 18 ہزار کروڑ روپئے سے بھی زیادہ رقم ان کسانوں کے بینک کے کھاتے میں جمع ہوگئے ہیں۔ جب سے یہ اسکیم شروع ہوئی ہے، تب سے ایک لاکھ دس ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ کسانوں کے کھاتے میں پہنچ چکے ہیں اور یہی تو گڈ گورننس ہے۔ یہی تو گڈ گورننس ٹیکنالوجی کے ذریعے استعمال کیا گیا ہے۔ 18 ہزار کروڑ سے زیادہ روپئے پل بھر میں، کچھ ہی پل میں سیدھے کسانوں کے بینک کھاتوں میں جمع ہوگئے ہیں۔ کوئی کمیشن نہیں، کوئی کٹ نہیں، کوئی ہیراپھیری نہیں۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے پی ایم کسان سماّن ندھی یوجنا میں یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ لیکیج نہ ہو۔ ریاستی حکومتوں کے ذریعے کسانوں کا آن لائن رجسٹریشن ہونے کے بعد، ان کے آدھار نمبر اور بینک کھاتوں کا ویری فکیشن ہونے کے بعد اس سہولت کو اپنایا گیا ہے۔ لیکن، مجھے آج اس بات کا افسوس بھی ہے کہ پورے ہندوستان کے کسانوں کو اس اسکیم کا فائدہ مل رہا ہے، سبھی نظریات کی سرکاریں اس سے جڑی ہیں۔ لیکن، صرف مغربی بنگال حکومت وہاں کے 70 لاکھ سے زیادہ کسان، میرے کسان بھائی۔ بہن بنگال کے، اس اسکیم کا وہ فائدہ نہیں اٹھا پارہے ہیں۔ ان کو یہ پیسے نہیں مل پارہے ہیں کیوں بنگال کی حکومت اپنے سیاسی وجوہات سے ان کے ریاست کے کسانوں کو حکومت ہند کی جانب سے پیسہ جانے والا ہے، ریاستی حکومت کو ایک کوڑی کا خرچ نہیں ہے پھر بھی وہ پیسے ان کو نہیں مل رہے ہیں۔ کئی کسانوں نے حکومت ہند کو براہ راست خط بھی لکھا ہے، اس کو بھی وہ منظوری نہیں دیتے ہیں یعنی آپ تصور کرسکتے ہیں کہ کتنے لاکھوں کسانوں نے فائدہ لینے کیلئے ، یوجنا کے لئے عرضی کی آن لائن درخواست کرچکے ہیں لیکن وہاں کی ریاستی حکومت اس کو بھی روک کرکے بیٹھ گئی ہے۔

بھائیو—بہنو،

میں حیران ہوں اور یہ بات آج میں ملک کے لوگوں کے سامنے بڑے درد کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں، جو لوگ 30-30 سال تک بنگال میں راج کرتے ہیں، ایک ایسے سیاسی نظریے کو لیکر کے بنگال کو کہاں سے کہاں لا کر کے انہیں نے ایسی حالت کرکے رکھی ہے، پورا ملک جانتا ہے اور ممتا جی کی 15 سال پرانی تقریر سنیں گے تو پتہ چلے گا کہ اس سیاسی نظریے نے بنگال کو کتنا بربار کردیا تھا۔ اب یہ کیسے لوگ ہیں، بنگال میں ان کی پارٹی ہے، ان کی تنظیم ہے، 30 سال سرکار چلائی ہے، کتنے لوگ ہوں گے ان کے پاس؟ ایک بار بھی ان لوگوں نے کسانوں کو یہ 2 ہزار روپیے ملنے والا پروگرام ہے بنگال کے اندر کوئی آندولن نہیں چلایا، اگر آپ کے دل میں کسانوں کے لئے اتنا پیار تھا، بنگال میں آپ کی دھرتی ہے، تو آپ نے بنگال میں کسانوں کو انصاف دلانے کیلئے وزیراعظم کسان سماّن یوجنا کے پیسے کسانوں کو ملے اس کے لئے کیوں آندولن نہیں کیے؟ کیوں آپ نے کبھی آواز نہیں اٹھائی؟ اور آپ وہاں سے اٹھ کر پنجاب پہنچ گئے،  تب سوال اٹھتا ہے اور مغربی بنگال کی حکومت بھی دیکھئے اپنی ریاست میں اتنا بڑا کسانوں کو فائدہ 70 لاکھ کسانوں کو اتنی رقم ملے، ہزاروں کروڑ روپئے ملے، وہ دینے میں ان کو سیاست آڑے آتی ہے لیکن وہیں پنجاب جاکر کے جو لوگ کے ساتھ وہ بنگال میں لڑائی لڑتے ہیں، یہاں آکر کے ان سے گپ چپ کرتے ہیں۔ کیا ملک کے عوام اس کھیل  کو نہیں جانتے ہیں؟ کیا ملک کے عوام کو اس کھیل کا پتہ نہیں ہے؟ جو آج اپوزیشن میں ہیں، ان کی اس پر زبان کیوں بند ہوگئی ہے؟ کیوں چپ ہیں؟

ساتھیو،

آج جن سیاسی پارٹیوں کے لوگ اپنے آپ کو اس سیاسی تناظر میں  جب ملک کے عوام نے  انہیں نکار دیا ہے تو کچھ نہ کچھ ایسے ایوینٹ کررہے ہیں، ایوینٹ مینجمنٹ ہورہا ہے تاکہ کوئی سیلفی لے لے، کوئی فوٹو چھپ جائے، کہیں ٹی وی پر دکھائی دیں اور ان کی سیاست چلتی رہے، اب ملک نے ان لوگوں کو بھی دیکھ لیا ہے، یہ ملک کے سامنے ایکسپوز ہوگئے ہیں۔مفاد پرستی کی سیاست کی ایک بھدی مثال ہم بہت باریکی سے دیکھ رہے ہیں۔ جو پارٹی مغربی بنگال میں کسانوں کی پریشانی پر کچھ نہیں بولتے، وہ یہاں دہلی کے شہریوں کو پریشان کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ملک کی اقتصادی پالیسی کو برباد کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور وہ بھی کسان کے نام پر، ان پارٹیوں کو آپ نے سنا ہوگا، منڈیاں- منڈیاں بول رہے ہیں، اے پی ایم سی  کی بات کررہے ہیں اور بڑی بڑی ہیڈلائن لینے کے لئے تقریریں کررہے ہیں، لیکن یہ پارٹی، وہی پارٹی، وہی جھنڈے والے، وہی نظریہ رکھنے والے جنہوں نے بنگال کو برباد کیا۔ کیرل کے اندر ان کی حکومت ہے، اس کے پہلے جو 50 سال 60 سال تک ملک پر حکومت کرتے تھےان کی حکومت تھی۔ کیرل میں اے پی ایم سی نہیں ہیں، منڈیاں نہیں ہیں، میں ذرا ان کو پوچھتا ہوں یہاں فوٹو نکالنے کے پروگرام کرتے ہیں ارے کیرل میں آندولن کرکے وہاں تو اے پی ایم سی چالو کرواؤ۔ پنجاب کے کسانوں کو گمراہ کرنے کیلئے آپ کے پاس وقت ہے، کیرل کے اندر یہ نظام نہیں ہے، اگر یہ نظام اچھا ہے تو کیرل میں کیوں نہیں ہے؟ کیوں آپ دوگلی پالیسی لیکر کے چل رہے ہو؟ یہ کس طرح کی سیاست کررہے ہیں جس کا کوئی مطلب نہیں ہے، کوئی سچائی نہیں ہے۔ صرف جھوٹے الزام لگاؤ، صرف افواہیں پھیلاؤ، کسانوں کو ڈرا دو اور بھولے بھالے کسان کبھی کبھی آپ کی باتوں میں گمراہ ہوجاتے ہیں۔

بھائیو—بہنو،

یہ لوگ جمہوریت کے کسی پیمانے کو، کسی پیرامیٹر کو ماننے کو تیار نہیں ہیں۔  انہیں صرف اپنا فائدہ، اپنا مفاد نظر آرہا ہے اور میں جتنی باتیں بتارہا ہوں، کسانوں کے لئے نہیں بول رہا ہوں، کسانوں کے نام پر اپنے جھنڈے لیکر کے جو کھیل کھیل رہے ہیں اب ان کو یہ سچ سننا پڑے گا اور ہر بات کو کاسنوں کو گالی دی، کسانوں کو بے عزت کیا، ایسے کرکے بچ نہیں سکتے ہو آپ لوگ۔ یہ لوگ اخباروں اور میڈیا میں جگہ بناکر سیاسی میدان میں خود کے زندہ رہنے کی جڑی بوٹی کھوج رہے ہیں۔ لیکن ملک کا کسان اس کو پہچان گیا ہے اب ملک کا کسان ان کو یہ جڑی بوٹی کبھی دینے والا ن ہیں ہے۔ کوئی بھی سیاست، جمہوریت میں سیاست کرنے کا ان کا حق ہے، ہم اس کی مخالفت نہیں کررہے ہیں۔ لیکن معصوم کسانوں کی زندگی کے سا تھ نہ کھیلیں، ان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں، انہیں گمراہ نہ کریں، خوفزدہ نہیں کریں۔

ساتھیو،

یہ وہی لوگ ہیں، جو برسوں تک اقتدار میں رہے۔ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی زراعت اور کسان کی اتنی ترقی نہیں ہوپائی، جتنی صلاحیت اس میں تھی۔ پہلے کی حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ برباد وہ کسان ہوا جس کے پاس نہ تو زیادہ زمین تھی نہ زیادہ وسائل۔ اس چھوٹے کسان کو بینکوں سے پیسہ نہیں ملتا تھا، کیوں کہ اس کے پاس تو بینک کھاتہ تک نہیں تھا۔ پہلے کے وقت میں جو فصل بیمہ یوجنا تھی، اس کا فائدہ بھی  ان چھوٹے کسانوں کے لئے تو کہیں نام اور نشان ہی نہیں تھا، کوئی اکاّ دکاّ کہیں مل جاتا تھا تو الگ بات ہے۔ ایک چھوٹے کسان کو کھیت سینچنے  کے لئے نہ پانی ملتا تھا نہ بجلی ملتی تھی۔ وہ ہمارا بیچارا غریب کسان اپنا خون پسینہ لگاکر وہ کھیت میں جو پیدا بھی کرتا تھا، اسے بیچنے میں بھی اس کی حالت خراب ہوجاتی تھی۔ اس چھوٹے کسان کی خبرگیری کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اورآج میں ملک کے باشندوں کو پھر سے یاد دلانا چاہتا ہوں، ملک میں ان کسانوں کی تعداد چھوٹی ن ہیں ہے، جن کے ساتھ یہ ناانصافی کی گئی ہے نا یہ تعداد 80فیصد سے زیادہ کسان اس ملک میں ہیں، قریب قریب 10 کروڑ سے بھی زیادہ۔ جو اتنے برسوں تک اقتدار میں رہے، انہوں نے ان کسانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ چناؤ ہوتے رہے، سرکاریں بنتی رہیں، رپورٹس آتی رہیں، آیوگ بنتے رہے، وعدے کرو، بھلا دو، کرو، بھلا دو، یہی سب ہوا، لیکن کسان کی صورتحال نہیں بدلی۔نتیجہ کیا ہوا؟ غریب کسان اور غریب ہوتا گیا۔ کیا ملک میں اس صورتحال کو بدلنا ضروری نہیں تھا؟

میرے کسان بھائیو اور بہنو،

2014 میں سرکار بننے کے بعد، ہماری سرکار نے نئی ایپروچ کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ ہم نے ملک کے کسان کی چھوٹی- چھوٹی دقتوں اور زراعت کی جدیدکاری، اسے مستقبل کی ضرورتوں کے لئے تیار کرنے، دونوں پر ایک ساتھ دھیان دیا۔ ہم بہت سنتے تھے کہ اس ملک میں کھیتی اتنی ماڈرن ہے، وہاں کا کسان اتنا خوشحال ہے۔ کبھی اسرائیل کی مثال سنتے رہتے تھے، ہم نے دنیا بھر میں زرعی سیکٹر میں کیا انقلاب آیا ہے، کیابدلاؤ آئے ہیں، کیا نئے اقدامات آئے ہیں، کیا معیشت کے ساتھ کیسے جوڑا ہے، ساری چیزوں کو کا گہرا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد ہم نے اپنے الگ الگ اہداف مقرر کیے اور سبھی پر ایک ساتھ کام شروع کیا۔ ہم نے ہدف بناکر کام کیا کہ ملک کے کسانوں کا کھیتی پر ہونے والا خرچ کم ہو۔ اِن پُٹ کوسٹ یہ کم ہو، اس کا خرچ کم ہو۔ سوائل ہیلتھ کارڈ، یوریا کی نیم کوٹنگ، لاکھوں کی تعداد میں سولر پمپ، یہ سب اسکیمیں ان کا اِن پُٹ کوسٹ کم کرنے کیلئے ایک کے بعد ایک اٹھائی۔  ہماری سرکار نے کوشش کی کہ کسان کے پاس ایک بہتر فصل بیمہ کوچ ہو۔ آج ملک کے کروڑوں کسانوں کو پی ایم فصل بیمہ یوجنا کا فائدہ ہورہا ہے۔

اور میرے  پیارے کسان بھائیو اور بہنو،

ابھی جب میں کسان بھائیوں سے بات کررہا تھا تو مجھے مہاراشٹر کے لاتور ضلع کے گنیش جی نے بتایا کہ ڈھائی ہزار روپیہ انہوں نے دیا اور 54 ہزار روپیہ قریب قریب ملا۔ معمولی پریمیم کے بدلے کسانوں کو پچھلے ایک سال میں 87 ہزار کروڑ روپئے دعوے کی رقم ملی ہے، 87 ہزار یعنی قریب قریب 90 ہزار کروڑ۔ معمولی پریمیم دیا کسانوں نے، مصیبت کے وقت یہ فصل بیمہ ان کو کام آیا۔ ہم نے اس ہدف پر بھی کام کیا کہ ملک کے کسان کے پاس کھیت میں سینچائی کی مناسب سہولت ہو۔ ہم دہائیوں پرانی سینچائی اسکیمیں پوری کرانے کے ساتھ ہی ملک بھر میں  ‘پر ڈروپ مور کروپ’ فی بند زیادہ فصل کے منتر کے ساتھ مائیکرو ایریگیشن کو بھی بڑھاوا دے رہے ہیں۔ اور مجھے خوشی ہوئی، ابھی تملناڈو کے ہمارے سبرامنیم جی مجھے بتارہے تھے کہ انہوں نے مائیکرو ایریگیشن سے ڈرپ ایریگیشن سے پہلے ایک ایکڑ کاکام ہوتا تھا، تین ایکڑ کا ہوا اور پہلے سے زیادہ ایک لاکھ روپئے زیادہ کمایا، مائیکرو ایریگیشن سے ۔

ساتھیو،

ہماری حکومت نے کوشش کی کہ ملک کے کسان کو فصل کی مناسب قیمت ملے۔ ہم نے لمبے عرصے سے زیرالتوا سوامی ناتھن کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، لاگت کا ڈیڑھ گنا ایم ایس پی کسانوں کو دیا۔ پہلے کچھ ہی فصلوں پر ایم ایس پی ملتی تھی، ہم نے ان کی بھی تعداد بڑھائی۔ پہلے ایم ایس پی کا اعلان  اخباروں میں چھوٹی سی ذرا جگہ بنانا، خبر کے طور پر چھپتا تھا۔ کسانوں تک فائدہ نہیں پہنچتا تھا، کہیں ترازو ہی نہیں لگتے تھے اور اس لئے کسان کی زندگی میں کوئی بدلاؤ ہی نہیں آتا تھا۔ اب آج ایم ایس پی پر ریکارڈ سرکاری خرید کررہے ہیں، کسانوں کی جیب میں ایم ایس پی کا ریکارڈ پیسہ پہنچ رہا ہے۔ جو آج کسانوں کے نام پر آندولن کررہے ہیں، وہ جب ان کا وقت تھا تو تب چپ ہوکر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ جتنے لوگ آندولن چلارہے ہیں نا یہ وہ حکومت کے حصہ دار تھے، حمایت کرتے تھے اور یہی لوگ سوامی ناتھن کمیٹی کی رپورٹ کے اوپر بیٹھ گئے تھے۔برسوں تک بیٹھ گئے تھے۔ ہم نے آ کے نکالا کیوں کہ ہمارے دل میں کسان کی زندگی کا بھلا کرنا، ان کی فلاح کرنا، یہ ہماری زندگی کا منتر ہے اس لئے کررہے ہیں۔

ساتھیو،

ہم اس سمت میں بھی فصل بیچنے کیلئے کسان کے پاس صرف ایک منڈی ہی جنہیں بلکہ اس کو متبادل ملنا چاہئے، بازار ملنا چاہئے۔ ہم نے ملک کی ایک ہزار سے زیادہ زرعی منڈیوں کو آن لائن جوڑا۔ ان میں بھی ا یک لاکھ کروڑ روپئے سے بھی زیادہ کا کاروبار کسانوں نے کردیا ہے۔ کسانوں نے آن لائن بیچنا شروع کیا ہے۔

ساتھیو،

ہم نے ایک اور ہدف بنایا کہ چھوٹے کسانوں کے گروپ بنیں تاکہ وہ اپنے علاقے میں ایک اجتماعی طاقت بن کر کام کرسکیں۔ آج ملک میں 10 ہزار سے زیادہ کسان پیداوار تنظیم ۔ ایف پی او بنانے کا ابھیان چل رہا ہے، انہیں اقتصادی مدد دی جارہی ہے، ابھی ہم مہاراج گنج کے رام گلاب جی سے سن رہے تھے، 300 کے قریب کسانوں کو اکٹھا کیا ہے انہوں نے اور پہلے کی مقابلے میں ڈیڑھ گنا قیمت سے مال بیچنا شروع ہوا ہے۔ ایف پی او بنایا انہوں نے، سائنسی طریقے سے کھیتی میں مدد ملی اور آج ان کو فائدہ ہورہا ہے۔

ساتھیو،

ہمارے زرعی سیکٹر کی سب سے بڑی ضرورت ہے گاؤں کے پاس ہی ذخیرہ کرنا، کولڈ اسٹوریج اس کی جدید ترین سہولت کم قیمت پر ہمارے کسانوں کو دستیاب ہو۔ ہماری حکومت نے اسے بھی ترجیح دی۔ آج ملک بھر میں کولڈ اسٹوریج کا نیٹ ورک تیار کرنے کیلئے سرکار کروڑوں روپئے کی سرمایہ کاری کررہی ہے۔ ہماری پالیسیوں میں اس پر بھی زور دیا گیا کہ کھیتی کے ساتھ ہی کسان کے پاس آمدنی بڑھانے کے دوسرے متبادل بھی ہوں۔ ہماری سرکار ماہی پروری، مویشی پالن، ڈیری صنعت، شہد کی مکھی کا پالن، سبھی کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ ہماری حکومت نے یہ بھی یقینی بنایا کہ ملک کے بینکوں کا پیسہ ملک کے کسانوں کے کام آئے۔ 2014 میں جب ہم پہلی بار سرکار میں آئے اور شروعات تھی ہماری، 2014 میں جہاں 7 لاکھ کروڑ روپئے کی رقم اس کے لئے تھی سرمایہ کیلئے وہی اسے اب قریب 14 لاکھ کروڑ روپئے، یعنی دوگنا کیا گیا ہے تاکہ کسان کو قرض مل سکے۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے تقریباً ڈھائی کروڑ چھوٹے کسانوں کو کسان کریڈٹ کارڈ سے جوڑا گیا ہے اور ابھیان تیزی سے چل رہا ہے۔ ہم مچھلی پالنے والوں، مویشی پروروں ان کو بھی کسان کریڈٹ کارڈ دے رہے ہیں، یہ فائدہ ان کو بھی اب دیا جارہا ہے۔

ساتھیو،

ہم نے اس ہدف پر بھی کام کیا، کھیتی کی دنیا میں کیا چل رہا ہے، اس کے لئے ملک میں جدید ترین زرعی وسائل ہوں۔ گزشتہ برسوں میں ملک میں متعدد نئے زرعی وسائل تیار ہوئے ہیں، زراعت کی پڑھائی کی سیٹیں بڑھی ہیں۔

اور ساتھیو،

کھیتی سے منسلک ان ساری کوششوں کے ساتھ ہی ہم نے ایک اور بڑے ہدف پر کام کیا۔ یہ ہدف ہے۔ گاؤں میں رہنے والے کسان کی زندگی آسان ہو۔

ساتھیو،

آج جو کسانوں کیلئے اتنے آنسو بہا رہے ہیں، اتنے بڑے۔ بڑے بیان دے رہے ہیں، بڑا دُکھ دکھارہے ہیں، جب وہ سرکار میں تھے تب انہوں نے کسانوں کا دُکھ، ان کی تکلیف دور کرنے کیلئے کیا کیا، یہ ملک کا کسان، اچھی طرح جانتا ہے۔ آج صرف کھیتی ہی نہیں بلکہ اس کی زندگی کو آسان بنانے کیلئے ہماری حکومت اس کے دروازے تک خود پہنچ گئی ہے، کھیت کے میڑھ تک پہنچی ہے۔ آج ملک کے چھوٹے اور حاشیہ پر رہنے والے کسان کو اپنا پکاّ گھر مل رہا ہے، بیت الخلا مل رہا ہے،صاف پانی کا نل مل رہا ہے۔ یہی کسان ہے جسے بجلی کے مفت کنکشن، گیس کے مفت کنکشن یہ بہت بڑا فائدہ ہوا ہے۔ ہر سال آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت 5 لاکھ روپئے تک کے مفت علاج کی سہولت نے آج میرے چھوٹے کسان  کی زندگی کی بہت بڑی فکر کم کی ہے۔ 90  پیسے یومیہ یعنی ایک چائے سے بھی کم قیمت اور ایک روپیہ مہینہ کے پریمیم پر بیمہ، یہ میرے کسانوں کی زندگی میں بہت بڑی طاقت ہے۔ 60 برس کی عمر کے بعد 3 ہزار روپئے ماہانہ پنشن، یہ سرکشا کوچ بھی آج کسان کے پاس ہے۔

ساتھیو،

آج کل کچھ لوگ کسان کی زمین کی فکر کرنے کا دکھاوا کررہے ہیں۔ کسانوں کی زمین ہڑپنے میں کیسے کیسے نام  لوگوں کے نام اخبار میں چمکتے رہے ہیں، ہم جانتے ہیں۔ یہ لوگ تب کہاں تھے، جب مالکانہ دستاویز کے نہ رہنے کی وجہ سے کسانوں کے گھر اور زمین پر ناجائز قبضے ہوجاتے تھے؟ گاؤں کے چھوٹے اور حاشیہ پر رہنے والے کسانوں کو، کھیت  مزدوروں کو، اس حق سے اتنے برسوں تک محروم کسنے رکھا، اس کا جواب ان لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ گاؤں میں رہنے والے ہمارے بھائی، بہنوں کیلئے یہ کام آج ہورہا ہے۔ اب گاؤں میں کسانوں کو، ان کے مکان کا، زمین کا نقشہ اور قانونی دستاویز دیا جارہا ہے۔ ٹیکنالوجی کی مدد سے سوامتو یوجنا کے بعد اب گاؤں کے کسان کو بھی زمین اور گھر کے نام پر بینک سے قرض ملناآسان ہوا ہے۔

ساتھیو،

بدلتے وقت کے ساتھ اپنی ایپروچ کی توسیع کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمیں 21ویں صدی میں بھارت کی زراعت کو جدیدتر بنانا ہی ہوگا اور اسی کا بیڑا ملک کے کروڑوں کسانوں نے بھی اٹھایا ہے اور سرکار بھی ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر آگے بڑھنے کیلئے عہد بند ہے۔ آج ہر کسان کو یہ پتہ ہے کہ اس کی فصل کا سب سے اچھا  دام کہاں مل سکتا ہے۔ پہلے کیا ہوتا تھا کہ اگر منڈی میں بہتر قیمت نہیں ملتی تھی یا پھر اس کی فصل کو دوئم درجے کا بتا کر خریدنے سے انکار کردیا جاتا تھا تو کسان مجبوری میں اونے پونے قیمتوں پر اپنی فصل بیچنے کو مجبور رہتا تھا۔ ان زرعی اصلاحات کے ذریعے ہم نے کسانوں کو بہتر متبادل دیے ہیں۔ ان قانونوں کے بعد آپ جہاں چاہیں جسے چاہیں اپنی فصل بیچ سکتے ہیں۔

میرے کسان بھائیو اور بہنو،

میرے ان الفاظ کودھیان سے سنیے، میں پھر سے کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنی فصل کو جہاں چاہیں آپ فیصلہ کرکے فروخت کرسکتے ہیں۔ آپ کو جہاں صحیح قیمت ملے آپ وہاں پر اپنی فصل بیچ سکتے ہیں۔ آپ کم از کم امدادی قیمت یعنی ایم ایس پی پر اپنی فصل بیچنا چاہتے ہیں ؟ آپ اسے بیچ سکتے ہیں۔ آپ منڈی میں اپنی فصل بیچنا چاہتے ہیں؟ آپ بیچ سکتے ہیں۔ آپ اپنی فصل کو برآمد کرنا چاہتے ہیں؟ آپ برآمد کرسکتے ہیں۔ آپ اسے تاجروں کو بیچنا چاہتے ہیں؟ آپ بیچ سکتے ہیں۔ آپ اپنی فصل دوسری ریاست میں بیچنا چاہتے ہیں؟ آپ بیچ سکتے ہیں۔ آپ پورے گاؤں کے کسانوں کو ایف پی او کے توسط سے اکٹھا کر اپنی پوری فصل کو ایک ساتھ بیچنا چاہتے ہیں؟ آپ بیچ سکتے ہیں۔ آپ بسکٹ، چپس، جیم، دوسرے کنزیومر پروڈکٹوں کی ویلو چین کا حصہ بننا چاہتے ہیں؟ آپ یہ بھی کرسکتے ہیں۔ ملک کے کسان کو اتنے حقوق مل رہے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟ اس میں غلط کیا ہے کہ اگر کسانوں کو اپنی فصل بیچنے کا متبادل آن لائن طریقے سے پورے سال اور کہیں بھی مل رہاہے؟

ساتھیو،

آج نئے زرعی اصلاحات کے بارے میں لاتعداد جھوٹ پھیلائے جارہے ہیں۔ کچھ لوگ کسانوں کے درمیان بھرم پھیلا رہے ہیں کہ ایم ایس پی ختم کی جارہی ہے۔ تو کچھ لوگ افواہیں پھیلارہے ہیں کہ منڈیوں کو بند کردیا جائیگا۔ میں آپ کو پھر دھیان دلانا چاہتا ہوں کہ ان قوانین کو نافذ ہوئے کئی مہینے گزر گئے ہیں۔ کیا آپ نے ملک کے کسی ایک کونے میں ایک بھی منڈی کے بند ہونے کی خبر سنی ہے۔ جہاں تک ایم ایس پی کا سوال ہے حال کے دنوں میں سرکار نے بہت سی فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت بھی بڑھا دی ہے۔ یہ زرعی اصلاحات کے بعد بھی ہوا ہے۔ نئے زرعی قوانین کے بعد بھی ہوا ہے۔ اتنا ہی نہیں، جو لوگ کسانوں کے نام پر بات کرتے ہیں نا یہ جو آندولن چل رہا ہے، اس میں کئی لوگ سچے اور بے قصور کسان بھی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سب وہ سیاسی نظریہ والے لوگ تو صرف نیتا ہیں باقی تو بھولے- بھالے کسان ہیں۔ ان کو جاکے سیکریٹ پوچھوگے کہ بھائی آپ کی کتنی زمین ہے؟ کیا پیدا کرتے ہو؟ اس بار بیچا کہ نہیں بیچا؟ تو وہ بھی بتائیگا کہ وہ ایم ایس پی پر بیچ کر کے آیا اور جب ایم ایس پی خریداری چل رہی تھی نا تب وہ آندولن کو انہوں نے ٹھنڈا کردیا تھا کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ ابھی ذرا کسان منڈی میں جاکر کے مال بیچ رہا ہے۔ وہ سب فروخت ہوگئی، کام ہوگیا، پھر انہوں نے آندولن شروع کیا۔

ساتھیو،

حقیقت تو یہ ہے کہ بڑھے ہوئے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) پر سرکار نے کسانوں کی فصل کی ریکارڈ سطح پر خریدی ہے اور وہ بھی نئے قانون بننے کے بعد۔ اور ایک اہم بات، ان زرعی سدھاروں سے سرکار نے اپنی ذمہ داری بڑھائی ہی ہے! مثال کے طور پر ایگریمنٹ فارمنگ کی بات ہی لے لیجئے۔ کچھ ریاستوں میں یہ قانون، یہ سہولت کئی سالوں سے ہے، پنجاب میں بھی ہے۔ وہاں تو پرائیویٹ کمپنیاں ایگریمنٹ کرکے کھیتی کررہی ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں پہلے کے قانونوں میں سمجھوتہ توڑنے پر کسانوں پر پنلٹی لگتی تھی! میرے کسان بھائیوں کو یہ کسی نے سمجھایا نہیں ہوگا۔ لیکن ہماری سرکار نے یہ سدھار کیا اور یہ یقینی بنایا کہ میرے کسان بھائیوں پر پنلٹی یا کسی طرح کا جرمانہ نہیں لگے گا۔

ساتھیو،

آپ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ پہلے اگر کسی وجہ سے کسان منڈی نہیں بھی جا پاتا تھا، تو وہ کیا کرتا تھا؟ وہ کسی ٹریڈر کو اپنا مال بیچ دیتا تھا۔ ایسے میں وہ شخص کسان کا فائدہ نہ اٹھا پائے، اس کے لئے بھی ہماری سرکار نے قانونی حل نکالا ہے۔  خریدار وقت سے آپ کی ادائیگی کرنے کے لئے اب قانون طور پر پابندعہد ہے۔ اس سے رسید بھی کاٹنی ہوگی اور تین دن کے اندر ادائیگی بھی کرنا ہوگا نہیں تو یہ قانون کسان کو طاقت دیتا ہے، طاقت دیتا ہے کہ وہ افسران کے پاس جاکر قانون کا سہارا لیکر اپنا پیسہ حاصل کرسکے۔ یہ ساری چیزیں ہوچکی ہیں، ہورہی ہیں، خبریں آرہی ہیں کہ کیسے ایک ایک کرکے ہمارے ملک کے کسان بھائی ان قوانین کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سرکار کسان کے ساتھ ہر قدم پر کھڑی ہے۔  کسان چاہے جسے اپنی فصل بیچنا چاہے، سرکار نے ایسے انتظام کیے ہیں کہ ایک مضبوط قانون اور قانونی نظام کسانوں کے حق میں کھڑا رہے۔

ساتھیو،

زرعی اصلاحات کا ایک اور اہم پہلو سبھی کے لئے سمجھنا ضروری ہے۔ اب جب کوئی کسان کے ساتھ معاہدہ کریگا تو وہ یہ بھی چاہے گاکہ فصل اچھی سے اچھی ہو۔ اس کے لئے معاہدہ کرنے والا کسانوں کو اچھے بیج، جدید ترین تکنیک، جدید ترین آلات، مہارت حاصل کرنے میں مدد کریگا ہی کریگا کیوں کہ اس کی تو روزی روٹی اس میں ہے۔ اچھی پیداوار کیلئے سہولتیں کسانوں کے دروازے پر دستیاب کرائیگا، معاہدہ کرنے والا شخص بازار کے رجحان سے پوری طرح واقف رہے  گا اور اسی کے مطابق ہمارے کسانوں کو بازار کی مانگ کے حساب سے کام کرنے میں مدد کریگا۔ اب آپ کو میں ایک اور حالت بتاتا ہوں، اگر کسی وجہ سے کسی پریشانی کی وجہ سے کسان کی پیداوار اچھی نہیں ہوتی یا پھر برباد ہوجاتی ہے تو بھی یہ یاد رکھئے کہ جس نے معاہدہ کیا ہے اس کو کسان کو پیداوار کا جو دام طے ہوا تھا وہ اس کو دینا ہی پڑیگا۔ معاہدہ کرنے والا اپنے معاہدے کو اپنی مرضی سے ختم نہیں کرسکتا ہے۔ لیکن دوسری طرف اگر کسان معاہدے کو کسی بھی وجہ سے ختم کرنا چاہتا ہے تو کسان کرسکتا ہے، سامنے والا نہیں کرسکتا ہے۔ کیا یہ صورتال کسانوں کیلئے فائدہ مند ہے کہ نہیں ہے۔ سب سے زیادہ ایشورینس کسان کو ہے کہ نہیں ہے؟ کسان کو فائدہ ہونے والی گارنٹی اس میں ہے کہ نہیں ہے؟ ایک اور سوال لوگوں نے اچھال کرکے رکھا ہوا ہے۔ آپ کے من میں بھی آتا ہوگا۔ اگر کسی صورت میں پیداوار اچھی ہوئی ہے، مارکٹ بہت شاندار ہوگیا، جو معاہدے میں تھا اس سے بھی زیادہ منافع معاہدے والے کو مل رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو معاہدے کا جتنا پیسہ ہے وہ تو دینا ہی دینا ہے لیکن اگر زیادہ منافع ہوا ہے تو اس میں سے کچھ بونس بھی کسان کو دینا پڑیگا۔ اس سے بڑا کسان کی حفاظت کون کرسکتا ہے۔ ایسے حالات میں کسان معاہدے میں طے کی قیمت کے علاوہ جیسا میں نے کہا، بونس کا بھی وہ حقدار ہوگا۔ پہلے کیا ہوتا تھا یا ہے نا؟ سارا رسک کسان کا ہوتا تھا اور ریٹرن کسی اور کا ہوتا تھا۔ اب نئے زرعی قوانین اور اصلاحات کے بعد حالات پوری طرح  کسانوں کے حق میں ہوگئے ہیں۔ اب سارا رسک معاہدہ کرنے والے شخص یا کمپنی کا ہوگا اور ریٹرن کسان کو ہوگا!

ساتھیو،

ملک کے کئی حصوں میں ایگریمنٹ فارمنگ کو پہلے بھی پرکھا گیا ہے، اسے کسوٹی پر کسا گیا ہے۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ دنیا میں آج سب سے زیادہ دودھ کی پیداوار کرنے والا ملک کون سا ہے؟ یہ ملک کوئی اور نہیں ہمارا ہندوستان ہے۔ ہمارے مویشی پرور، ہمارے کسان کی محنت ہے۔ آج ڈیری سیکٹر میں بہت سی کوآپریٹیو اور نجی کمپنیاں کسانوں سے دودھ پیداوار کرنے والوں سے دودھ خریدتی ہیں اور اسے بازار میں فروخت کرتی ہیں۔ یہ ماڈل کتنے برسوں سے چلا آرہا ہے۔  کیا آپ نے کبھی سنا کہ کسی ایک کمپنی یا کوآپریٹو ادارے نے بازار پر اپنا قبضہ جمالیا، اپنی اجارہ داری قائم کرلی۔ کیا آپ ان کسانوں اور اُن دودھ پیداوار کرنے والوں کی کامیابی سے واقف نہیں ہیں؟ جنہیں ڈیری سیکٹر کے اس کام سے فائدہ ہوا ہے۔ ایک اور سیکٹر ہے، یہاں پر ہمارا ملک بہت آگے ہے۔ وہ ہے پولٹری یعنی مرغی پالن، آج بھارت میں سب سے زیادہ انڈوں کی پیداوار ہوتی ہے، پورے پولٹری سیکٹر میں بہت سی بڑی کمپنیاں کام کررہی ہیں، کچھ چھوٹی کمپنیاں بھی ہیں تو کچھ مقامی خریدار بھی، اس تجارت سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس سیکٹر سے جڑے لوگ اپنا پروڈکٹ کسی کو بھی ، کہیں بھی بیچنے کیلئے آزاد ہیں۔ جہاں بھی انہیں سب سے زیادہ قیمت ملتی ہے، وہ انڈے بیچ سکتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے کسانوں کو زرعی سیکٹر کو اسی طرح ترقی کرنے کا موقع ملے، جیسے پالٹری اور ڈیری سیکٹر کو ملا ہے۔ ہمارے کسانوں کی خدمت کیلئے جب بہت سی کمپنیاں، کاروبار کے کئی طرح کےمتبادل رہیں گے تو انہیں اپنی پیداوار کی زیادہ قیمت بھی ملے گی اور بازار تک ان کی بہتر رسائی بھی ممکن ہوسکے گی۔

ساتھیو،

نئے زرعی اصلاحات کے ذریعے ہندوستانی زراعت میں نئی ٹیکنالوجی کو بھی داخلہ ملےگا۔ جدید ترین تکنیک کے ذریعے ہمارے کسان اپنی پیداوار کو بڑھا سکیں گے، اپنی پیداوار کو تنوع دے سکیں گے، اپنی پیداوار کی بہتر ڈھنگ سے پیکیجنگ کرسکیں گے، اپنی پیداوار میں ویلو ایڈیشن کرسکیں گے۔ ایک بار ایسا ہوگیا تو ہمارے کسانوں کی پیداوار کی پوری دنیا میں  مانگ ہوگی اور یہ مانگ اور لگاتار بڑھے گی۔ ہمارے کسان صرف پیداوار کرنے والے نہیں بلکہ خود برآمدکار بن سکیں گے۔ دنیا میں کوئی بھی اگر زرعی پیداواروں کے ذریعے بازاروں میں اپنی دھاک جمانا چاہے گا تو اسے بھارت آنا پڑیگا۔  اگر دنیا میں کہیں بھی کوالٹی اور مقدار دونوں کی ضرورت ہوگی تو انہیں بھارت کے کسانوں کے ساتھ ساجھیداری کرنی پڑیگی۔ جب ہم نے دوسرے سیکٹر میں انویسٹمنٹ اور انّوویشن بڑھایا تو ہم نے آمدنی بڑھانے کے ساتھ ہی اس سیکٹر میں برانڈ انڈیا کو بھی قائم کیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ برانڈ انڈیا دنیا کے زرعی بازاروں میں بھی خود کو اتنی ہی عزت اور احترام کے ساتھ قائم کرے۔

ساتھیو،

کچھ سیاسی پارٹیوں، جنہیں ملک کی عوام نے جمہوری طریقے سے مسترد کردیا ہے، وہ آج کچھ کسانوں کو گمراہ کرکے جو کچھ بھی کررہے ہیں ان سب کو بار بار حکومت کی طرف سے متعدد کوششوں کے باوجود بھی، کسی نہ کسی سیاسی وجہ سے، کسی نے بندھی بندھی سیاسی نظریہ کے سبب یہ بحث نہیں ہونے دے رہے ہیں۔ زرعی قوانین کے سلسلے میں، یہ جو سیاسی پارٹی کےنظریہ والے جو کچھ لوگ ہیں، جو کسانوں کے کندھے پر بندوق پھوڑ رہے ہیں، زرعی قوانین کے سلسلے میں ان کے پاس ٹھوس دلیل نہ ہونے کے سبب، وہ طرح طرح کے مدوں کو کسانوں کے نام پر اچھال رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا، جب شروع ہوا تھا، تو ان کی اتنی مانگ تھی کہ ایم ایس پی کی گارنٹی دو، ان کے من میں جینون تھا کیوں کہ وہ کسان تھے، ان کو لگا کہ کہیں ایسا تو نہ ہو۔ لیکن اس کا ماحول دکھاکر کے یہ سیاسی نظریہ والے  چڑھ بیٹھے اور اب ایم ایس پی وغیرہ بازو میں، کیا چل رہا ہے یہ لوگ تشدد کے ملزم، ایسے لوگوں کو جیل سے چھڑانے کی مانگ کررہے ہیں۔ملک میں جدیدترین ہائی ویز بنے، تعمیر ہو، جو پچھلی سب سرکاروں نے کیا تھا، یہ لوگ بھی سرکاروں کی حمایت کرتے تھے، شراکت دار تھے۔ اب کہتے ہیں ٹول ٹیکس نہیں ہوگا، ٹول خالی کردو۔ بھئی کسانوں کا موضوع چھوڑ کر نئی جگہ پر کیوں جانا پڑ رہا ہے؟ جو پالیسیاں پہلے کے وقت سے چلی آرہی ہیں، اب یہ کسان آندولن کی آڑ میں ان کی بھی مخالفت کررہے ہیں، ٹول ناکوں کی مخالفت کررہے ہیں۔

ساتھیو،

ایسے حالات میں بھی ملک بھر کے کسانوں نے زرعی اصلاحات کی بھرپور حمایت کی ہے، بھرپور استقبال کیا ہے۔ میں سھبی کسانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، میں سر جھکاکرکے ان کو سلام کرتا ہوں کہ ملک کو آگے لے جانے کیلئے ملک کے کسان آج اس فیصلے کے ساتھ اس ہمت سے کھڑے ہوئے ہیں اور میں اپنے کسان بھائیوں اور بہنوں کوبھروسہ دلاتا ہوں کہ آپ کے اعتماد پر ہم کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ پچھلے دنوں کئی ریاست اور یہ بات سمجھنی ہوگی کیا ریاست، چاہے آسام ہو یا ادھر راجستھان ہو، جموں وکشمیر ہو، ایسی کئی جگہوں پر پنچایتوں کے چناؤ ہوئے، ان میں دیہی علاقوں کے لوگوں کو ہی ووٹ دینا ہوتا ہے، ایک طرح سے کسان کو ہی ووٹ دینا ہوتا ہے، اتنا گمراہ کرنے والا کا کھیل چلتا تھا، اتنا بڑا آندولن کا نام دیا جارہا تھا، ہو ہلّا کیا جاتا تھا، لیکن اسی کے اگل بغل میں جہاں جہاں چناؤ ہوئے ہیں، ان گاؤں کے کسانوں نے یہ آندولن چلانے والے جتنے لوگ تھے ان کو نکار دیا ہے۔ ہرادیا ہے۔ یہ بھی ایک طرح سے انہوں نے بیلٹ باکس کے ذریعے نئے قوانین کی کھلی حمایت کی ہے۔

ساتھیو،

دلیل اور حقیقت کی بنیاد پر، ہر کسوٹی پر ہمارے یہ فیصلے کسے جاسکتےہیں۔ اس میں کوئی کمی ہے تو اس کی نشاندہی کی جانی چاہئے۔ جمہویت ہے، ہمیں سبھی قسم کا بھگوان نے علم دیا ہے ایسا دعویٰ ہمارا نہیں ہے لیکن بات تو ہو! ان باتوں کے باوجود بھی، جمہوریت میں مضبوط آستھا ہونے کے سبب، کسانوں کے تئیں ہمارا وقف  ہونے کے سبب ہر وقت کسانوں کے ہر مدے پر بحث کے لئے سرکار تیار ہے۔ حل کے لئے ہم کھلامن لے کر کے چل رہے ہیں۔کئی پارٹی ایسے بھی ہیں جو انہیں زرعی اصلاحات کے حق میں رہے ہیں، ان کے تحریری بیان بھی ہم نے دیکھے ہیں، وہ آج اپنی کہی بات سے ہی مکر گئے ہیں، ان کی زبان بدل گئی ہے۔ وہ سیاسی رہنما جو کسانوں کو خوفزدہ کرنے میں جٹے ہوئے ہیں، جن کی جمہوریت میں ذرّہ برابر بھی یقینی نہیں ہے وہ یقین ہی نہیں کرتے ڈیموکریسی میں، دنیا کے کئی ملکوں میں ان کا تعارف ہے لوگوں کو، ایسے لوگوں کے جو بھی انہوں نے کہا ہے کہ پچھلے دنوں جس قسم کے ارل گرَل الزامات لگائے ہیں، جس زبان کا استعمال کیا ہے، پتہ نہیں کیسی کیسی خواہشات ظاہر کیے ہیں، میں بول بھی نہیں سکتا ہوں۔ یہ سب کرنے کے باوجود بھی ان سب چیزوں کو برداشت کرنے کے باوجودبھی اس کو پیٹ میں اتار کرکے،من ٹھنڈا رکھ کرکے ان سب کو برداشت کرتے ہوئے میں آج پھر ایک بار عاجزی کے ساتھ ان لوگوں کو بھی جو ہماری سخت مخالفت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ان کو بھی کہتا ہوں، میں عاجزی کے ساتھ کہتا ہوں، ہماری سرکار کسان کے مفاد میں ان سے بھی بات کرنے کیلئے تیار ہے لیکن بات دلائل اور حقائق پر ہوگی۔

ساتھیو،

ہم ملک کے انّ داتا کو ترقی کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ جب آپ کی ترقی ہوگی، تو پورے ملک کی ترقی طے ہے۔ صرف آتم نربھر کسان ہی آتم نربھر بھارت کی بنیاد ڈال سکتا ہے۔ میرا ملک کے کسانوں سے اپیل ہے، کسی کے بہکاوے  میں نہ آئیں، کسی کے جھوٹ کو نہ قبول کریں، دلائل اور حقائق کو بنیاد بناکر ہی سوچیں، غور وفکر کریں اور پھر ایک بار ملک بھر کے کسانوں نے کھل کر کے جو حمایت دی ہے یہ میرے لیے بے پناہ اطمینان اور فخر کا موضوع ہے۔ میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں۔ ایک بار پھر سے کروڑوں کسان کنبوں کو پی ایم کسان سماّن ندھی کیلئے میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں اور میں آپ سے لگاتار دعا کرتا ہوں، آپ کے لئے بھی دعا کرتا ہوں، آپ صحتمند رہیں،  آپ کا خاندان صحتمند رہے، اسی التجا کے ساتھ آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ!

شکریہ۔

———————–

م ن۔م ع۔ ع ن

U No: 8426