Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

وی سی کے ذریعہ زراعت کے بنیادی ڈھانچے کے فنڈ کے تحت مالی سہولت کے آغاز کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن


نئی دہلی 9،اگست 2020

آج ہل ششٹی ہے، بھگوان بلرام کی جینتی ہے۔

سبھی ہم وطنوں کو، خاص طور پر کسان ساتھیوں کو ہل چھٹھ کی ، داؤ جنم اتسو کی بہت بہت مبارکباد

اس بے حد مبارکباد موقع پر ملک میں زراعت سے جڑی سہولتیں تیار کرنے کے لئے ایک لاکھ کروڑ روپے کا خصوصی فنڈ لانچ کیاگیا ہے۔ اس سے گاؤں گاؤں میں بہتر ذخیرہ، جدید کولڈ اسٹوریج کی چین تیار کرنے میں مدد ملے گی اور گاؤں میں روزگار کے زبردست موقع تیار ہوں گے۔

اس ے ساتھ ساتھ ساڑھے 8 کروڑ کسانوں کنبوں کے کھاتے میں، پی ایم کسان سمان ندھی کے شکل میں 17 ہزار کروڑ روپے منتقل کرتے ہوئے بھی مجھے بہت اطمینان ہورہا ہے۔ اطمینان اس بات کی ہے کہ اس اسکیم کا جو ہدف تھا، وہ حاصل ہورہا ہے۔

ہر کسان کے کنبہ تک براہ راست  مدد پہنچے اور ضرورت کے وقت پہنچے، اس مقصد میں یہ اسکیم کامیاب رہی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں اس اسکیم کے ذریعہ سے 75 ہزار کروڑ روپے براہ راست کسانوں کے بینک کھاتے میں جمع ہوچکے  ہیں۔  اس میں سے 22 ہزار کروڑ روپے تو کورونا کی وجہ سے لگے لاک ڈاؤن کے دوران کسانوں تک پہنچ گئی ہیں۔

ساتھیو،

دہائیوں سے یہ مانگ اور غور وفکر چل ر ہا تھا کہ گاؤں میں صنعت کیوں نہیں لگتی؟

جیسے صنعتوں کو اپنے پیداوار کا دام طے کرنے میں اور اس کو ملک میں کہیں بھی فروخت کرنے کی آزادی رہتی ہے، ویسی سہولت کسانوں کو کیوں نہیں ملتی؟

اب ایسا تو نہیں ہوتا کہ اگر صابن کی صنعت کسی شہر میں لگی ہے، تو اس کی فروخت صرف اسی شہر میں ہوگی۔ لیکن کھیتی میں اب تک ایسا ہی ہوتا تھا۔ جہاں اناج پیدا ہوتا ہے تو کسان کو مقامی منڈیوں میں ہی اس کو فروخت کرنا پڑتا تھا۔ اسی طرح یہ بھی مانگ اٹھتی تھی کہ اگرباقی صنعتوں میں کوئی بیچولیہ ہیں تو فصلوں کی تجارت میں کیوں ہونی چاہئے۔ اگر صنعتوں کی ترقی کے لئے بنیادی ڈھانچہ تیار ہوتا ہے تو ویسا ہی جدید بنیادی ڈھانچہ زراعت کے لئے ملنا چاہئے۔

ساتھیو،

اب آتم نربھر بھارت ابھیان کے تحت کسان اور کھیتی سے جڑے ان سارے سالوں کے حل ڈھونڈے جارہے ہیں۔ ایک ملک، ایک منڈی کے جس مشن کو لے کر گزشتہ 7 سال سے کام چل رہا تھا، وہ اب پورا ہورہا ہے۔ پہلے ای-نیم کے ذریعہ، ایک ٹکنالوجی پر مبنی ایک بڑا بندوبست تیار کی گئی۔ اب قانون بنا کر کسان کو منڈی کے دائرے سے آزاد کردیاگیا۔ اب کسان کے پاس بہت سے متبادل ہیں۔ اگر وہ اپنے کھیت میں ہی اپنی پیداوار کا سودا کرنا چاہے تو وہ کرسکتا ہے۔یہ پھر سیدھے گودام سے، ای-نیم سے جڑے تاجروں اور اداروں کو، جو بھی اس کو زیادہ دام دیتا ہے، اس کے ساتھ فصل کا سودا کسان کرسکتا ہے۔اسی طرح ایک اور نیا قانون جو بنا ہے اس سے کسان اب صنعتوں سے سیدھے ساجھیداری بھی کرسکتا ہے۔

جب جیسے آلو کا کسان چپ بنانے والوں سے، پھل پیدا کرنے والے یعنی باغبان جوس، مربہ، چٹنی جیسی اشیا بنانے والے صنعتوں سے ساجھیداری کرسکتے ہیں۔

اس سے کسان کو فصل کی بوائی کے وقت طے دام ملیں گے، جس سے اس کو قیمتوں میں ہونے والی گراوٹ سے راحت مل جائے گی۔

ساتھیو،

ہماری کھیتی پیداوار مسائل نہیں ہے، بلکہ پیداورا کے بعد ہونے والی پیداوار کی بربادی بہت بڑا مسئلہ رہی ہے۔ اس سے کسانوں کو بھی نقصان ہوتا ہے اور ملک کو بھی بہت نقصان ہوتا ہے۔ اسی سے نمٹنے کے لئے ایک طرف قانونی اڑچنو ں کو دور کیا جارہا ہے اور دوری طرف کسانوں کو سیدھی مدد دی جارہی ہے۔ اب جیسے ضروری اشیا سے جڑا ایک قانون ہمارے یہاں بنا تھا، جب ملک میں اناج کی بھاری کمی تھی۔ لیکن وہی قانون آج بھی نافذ تھا، جب ہم دنیا کے دوسرے بڑے اناج پیداکرنے والے ملک بن چکے ہیں۔

گاؤں میں اگر اچھے گودام نہیں بن پائے، زراعت پر مبنی صنعتوں کو اگر حوصلہ نہیں مل پایا تو اس کا ایک بڑا سبب یہ قانون ہی تھا۔ اس قانون کا استعمال سے زیادہ استحصال ہوا۔اس سے ملک کے تاجروں کو، سرمایہ کاروں ڈرانے کا کام زیادہ ہوا۔ اب اس ڈر کے جال سے بھی زراعت سے جڑے تاجر کو آزاد کردیاگیا ہے۔ اس کے بعد اب تاجر کاروباری گاؤں میں اسٹوریج بنانے میں اور دوسرے انتظامات تیار کرنے کے لئے آگے آسکتے ہیں۔

ساتھیو،

آج جو زرعی بنیادی ڈھانچہ فنڈ شروع کیاگیا ہے، اس سے کسان اپنے سطح پر بھی گاؤں میں اسٹوریج کی جدید سہولتیں بناپائیں گے ، اس اسکیم سے گاؤں میں کسانوں کے گروپوں کو کسان کمیٹیوں کو ایف پی او ز کو گودام بنانے کے لئے کولڈ اسٹوریج بنانے کے لئے فوڈ پروسیسنگ سے جڑے صنعت لگانے کے لئے ایک لاکھ کروڑ روپے کی مدد ملے گی۔ یہ جو رقم کسانوں کو خود کفیل بنانے کے لئے دستیاب کرائی جائے گی، اس پر 3 فیصد کی چھوٹ بھی ملے گی۔ تھوڑی دیر پہلے ایسے ہی کچھ کسان فیڈریشنوں سے میری گفتگو بھی ہوئی، جو سالوں سے اس کسانوں کی مدد کررہے ہیں۔ اس نئے فنڈ سے ملک بھر میں ایسے فیڈریشن کو بہت مدد ملے گی۔

ساتھیو،

اس جدید بنیادی ڈھانچے سے زراعت پر مبنی صنعت لگانے میں بہت مدد ملے گی۔

آتم نربھر بھارت کے تحت ہر ضلعے میں مشہورپیدوار کو ملک اور دنیا کی مارکیٹ تک پہنچانے کے لئے ایک بڑی اسکیم بنائی گئی ہے۔ اس کے تحت ملک کے الگ الگ ضلعوں میں گاؤں کے پاس ہی زرعی صنعتوں کے کلسٹر بنائے جارہے ہیں۔

ساتھیو،

اب ہم اس صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں، جہاں گاؤں کی زرعی صنعتوں سے فوڈ پر بنی پیداوار شہر جائیں گی اور شہروں سے دوسرا صنعتی سامان بن کر گاؤں پہنچے گا۔ یہی تو آتم نربھر بھارت مہم کا عزم ہے، جس کے لئے ہیں کام کرنا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو زراعت پر مبنی صنعت لگانے والے ہیں، ان کو کون چلائے گا۔  اس سے بھی زیادہ حصے داری ہمارے کسانوں کے بڑے گروپ، جن کو ہم ایف پی او کہہ رہے ہیں یا پھرکھیتی کرنے والا کسانوں کا گروپ کہہ رہی ہیں۔ ان کی ہونے والی ہے۔

اس لئے گزشتہ 7 سال سے ایف پی او- کسان پیداوار گروپ کا ایک بڑا نیٹ ورک چلانے کی مہم چلائی ہے۔ آنے والے سالوں میں ایسے 10ہزار ایف پی او کسان پیدا وار گروپ پورے ملک میں بنے، یہ کام چل رہا ہے۔

ساتھیو،

ایک طرف ایف پی او کے نیٹ ورک پر کام چل رہا ہے تو دوسری طرف کھیتی سے جڑے اسٹارٹ اپ کو حوصلہ دیا جارہا ہے۔ ابھی تک لگ بھگ ساڑھے 3 سو زرعی اسٹارٹ اپ کو مدد دی جارہی ہے۔ ی اسٹارٹ اپ خوراک کو ڈبہ بند کرنےکی صنعت سے جڑے ہیں۔ مصنوعی ذہانت، انٹرنیٹ آف تھنک، کھیتی سے جڑے اسمارٹ آلات کی تیاری اور قابل تجدید توانائی سے جڑے ہیں۔

ساتھیو،

کسانوں سے جڑی یہ جتنی بھی اسکیمیں ہیں، جتنی بھی اصلاحات ہورہی ہیں، ان کے مرکز میں ہمارا چھوٹا کسان ہے۔ یہی چھوٹا کسان ہے جس پر سب سے زیادہ پریشانیاں آتی رہی ہیں اور یہی چھوٹا کسان ہے جس تک سرکاری فائدہ بھی پوری طرح نہیں پہنچ پاتے تھے۔ گزشتہ چھ سات سالوں سے اسی چھوٹے کسان کی حالت کو بدلنے کی کوشش چل رہی ہے، چھوٹے کسان کو ملک کی زراعت کے اختیارات سے بھی جوڑا جارہا ہے اور وہ خود بھی بااختیار ہوں یہ بھی یقینی کیا جارہا ہے۔

ساتھیو،

دو دن پہلے ہی، ملک کے چھوٹے کسانوں سے جڑی ایک بہت بڑی اسکیم  کی شروعات کی گئی ہے، جس کا آنے والے وقت میں پورے ملک کو بہت بڑا فائدہ ہونے والا ہے۔ ملک کی پہلی کسان ریل مہاراشٹر اور بہار کے بیچ میں شروع ہوچکی ہے۔

اب مہاراشٹر سے سنترہ، انگور، پیاز جیسے مناسب پھل سبزیاں لے کر یہ ٹرین نکلے گی اور بہار سے مکھانا، لیچی، پان، تازی سبزیاں، مچھلیاں ایسے دیگر سامان کو لے کر لوٹے گی۔ یعنی بہار کے چھوٹے کسان  ممبئی اور پونے جیسے بڑے شہروں سے سیدھے کنیکٹ ہوگئے ہیں۔ اس پہلی ٹرین کا فائدہ یوپی اور مدھیہ پردیش کے کسانوں کو بھی ہونے والا ہے، کیونکہ وہ یہاں سے ہوکر گزرے گی۔ اس ٹرین کی خاصیت یہ ہے کہ یہ پوری طرح سے ایئرکنڈیشنڈ ہے، یعنی ایک طرح سے یہ پٹری پر دوڑتا کولڈ اسٹوریج ہے۔

اس سے دودھ، پھل، سبزی، ماہی پروری، ایسے ہر طرح کے کسانوں کو بھی فائدہ ہوگا اور شہروں میں ان کا استعمال کرنے والے صارفین کو بھی فائدہ ہوگا۔

کسانوں کو فائدہ یہ ہوگا کہ اس کو اپنی فصل مقامی منڈیوں یا ہاٹ بازاروں میں کم داموں پر بیچنے کی مجبوری نہیں رہے گی۔  ٹرکوں میں پھل سبزی برباد ہوجاتی تھی اس سے چھٹکارا ملک جائے گا اور ٹرکوں کے مقابلے کرایہ بھی کئی گنا کم رہے گا۔

شہروں میں رہنے والے ساتھیوں کو فائدہ یہ ہوگا کہ اب موسم کی وجہ سے یا دوسرے بحران کے وقت تازہ پھل سبزیوں کی کمی نہیں ہوگی اور قیمت بھی کم ہوگی۔

اتنا ہی نہیں، اس سے گاؤں میں چھوٹے کسانوں کی حالت میں ایک اور تبدیلی آئے گی۔

اب جب ملک کے بڑے شہروں تک چھوٹے کسانوں کی پہنچ ہورہی ہے تو وہ تازہ سبزیاں اگانے کی سمت میں آگے بڑھیں گے۔ مویشی پروری اور ماہی پروری کی طرف رغبت ہوگی، اس سے کم زمین سے بھی زیادہ آمدنی کا راستہ کھل جائے گا۔ روزگار اور خود روزگار کے بہت سے نئے موقع کھلیں گے۔

ساتھیو،

یہ جتنے بھی قدم اٹھائے جارہے ہیں، ان سے 21 ویں صدی میں ملک کی دیہی اقتصادی صورتحال کی تصویر بھی بدلے گی۔ زراعت سے آمدنی میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگا۔

حال ہی میں کیا گیا ہر فیصلہ آنے والے وقت میں گاؤں کے نزدیک ہی باقاعدہ روزگار تیار کرنے والے ہیں۔  گاؤں اور کسان آفات میں ملک کو کیسے سنبھال سکتے ہیں، یہ گزشتہ چھ مہینوں سے ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہمارے کسان ہی ہیں جنہوں نے لاک ڈاؤن کے دوران ملک کو کھانے پینے کے ضروری سامان کی قلت نہیں ہونے دی۔ ملک جب لاک ڈاؤن میں تھا تب ہمارا کسان کھیتوں میں فصلوں کی کٹائی کررہا تھا اور بوائی کے نئے ریکارڈ بنا رہا تھا۔

لاک ڈاؤن کے پہلے دن سے لے کر دیوالی اور چھٹھ تک کے 8 مہینوں کے لئے 80کروڑ سے زیادہ شہریوں تک اگر مفت راشن آج ہم پہنچا پارہے ہیں تو اس کے پیچھے بھی ہمارے کسانوں کا ہی ہاتھ ہے۔

ساتھیو،

سرکار نے بھی یقین دہانی کرائی ہےکہ کسان کی پیداوار کی ریکارڈ خرید ہو، جس سے پہلی بار کے مقابلے کے میں قریب 27 ہزار کروڑ روپے زیادہ کسانوں کی جیت میں پہنچا ہے۔ بیج ہو یا کھاد اس بار مشکل حالات میں بھی ریکارڈ پیداوار کی گئی اور مانگ کے مطابق کسان تک پہنچایا گیا۔

یہی وجہ ہےکہ اس مشکل وقت میں بھی ہماری دیہی اقتصادی صورتحال مضبوط ہے۔ گاؤں میں پریشانی کم ہوئی ہے۔

ہمارے گاؤں کی ہ طاقت ملک کی ترقی کی رفتار کو بھی تیز کرنے میں اہم رول نبھائے، اسی یقین کے ساتھ آپ سبھی کسان ساتھیوں کو بہت بہت مبارکباد۔

کورونا کو گاؤں سے باہر رکھنے میں جو قابل تعریف کام آپ نےکیا ہے، اس کو آپ جاری رکھیں۔

دو گزکی دوری اور ماسک ہے ضروری کے منتر پر عمل کرتے رہیں۔

چوکنا رہیں، محفوظ رہیں۔

بہت بہت شکریہ

………………………………………………………

                                                                                                                                                       م ن، ح ا، ع ر

U-4420