Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے گجرات کے لوتھل میں نیشنل میری ٹائم ہیریٹیج کمپلیکس سائٹ کے کام کی پیش رفت کاجائزہ لینے کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن

ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے گجرات کے لوتھل میں نیشنل میری ٹائم ہیریٹیج کمپلیکس سائٹ کے کام کی پیش رفت کاجائزہ لینے کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن


 نمسکار،

تاریخی اور عالمی ورثہ لوتھل میں آپ سب براہ راست موجود ہیں۔ میں ٹیکنالوجی کے ذریعے بہت دور دہلی سے آپ سے جڑا ہوا ہوں، لیکن میرے ذہن میں ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے میں آپ سب کے درمیان ہوں۔ حال ہی میں، میں نے نیشنل میری ٹائم ہیریٹیج کمپلیکس سے متعلق ڈرون کے کام دیکھے، ان کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا۔ میں مطمئن ہوں کہ اس پروجیکٹ سے متعلق کام بہت تیزی سے جاری ہے۔

ساتھیو،

اس سال لال قلعہ سے پنچ پران کے بارے میں بات کرتے ہوئے میں نے اپنے ورثے پر فخر کی بات کی۔ اور اب ہمارے وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ ہمارا سمندری ورثہ ایک ایسا ہی عظیم ورثہ ہے جو ہمارے آباؤ اجداد نے ہمارے سپرد کیا تھا۔ کسی بھی جگہ یا زمانے کی تاریخ آنے والی نسل کو متاثر بھی کرتی ہے اور مستقبل کے لیے بھی خبردار کرتی ہے۔ ہماری تاریخ کی ایسی بہت سی کہانیاں ہیں، جنہیں فراموش کر دیا گیا ہے، انہیں محفوظ کرنے اور آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے طریقے تلاش نہیں کیے گئے۔ ہم تاریخ کے ان واقعات سے کتنا  کچھ سیکھ سکتے  تھے ۔

ہندوستان کا سمندری ورثہ بھی ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کم بات ہوئی ہے۔ صدیوں پہلے ہندوستان کی تجارت اور کاروبار دنیا کے ایک بڑے حصے پر محیط تھا۔ ہمارے تعلقات دنیا کی ہر تہذیب کے ساتھ تھے تو اس کے پیچھے ہندوستان کی سمندری طاقت کا بڑا ہاتھ تھا۔ لیکن غلامی کے طویل دور نے نہ صرف ہندوستان کی اس صلاحیت کو توڑا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم ہندوستانی بھی  اپنی اس صلاحیت سے لاتعلق ہوگئے۔

ہم بھول گئے کہ ہمارے پاس لوتھل اور دھولاویرا جیسا عظیم ورثہ ہے جو ہزاروں سال پہلے بھی سمندری تجارت کے لیے مشہور تھا۔ ہمارے جنوب میں چولا سلطنت، چیرا خاندان، پانڈیا خاندان بھی آئے جنہوں نے سمندری وسائل کی طاقت کو سمجھا اور اسے بے مثال عروج دیا۔ انہوں نے نہ صرف اپنی سمندری طاقت کو بڑھایا بلکہ اس کی مدد سے وہ تجارت کو دور دراز کے ممالک تک لے جانے میں بھی کامیاب رہے۔ چھترپتی شیواجی مہاراج نے بھی ایک مضبوط بحریہ تشکیل دی اور غیر ملکی حملہ آوروں کو چیلنج کیا۔

یہ سب ہندوستان کی تاریخ کا ایک ایسا قابل فخر باب ہے جسے نظر انداز کر دیا گیا۔ آپ سوچ سکتے ہیں، ہزاروں سال پہلے کَچھ میں بڑے جہاز بنانے کی پوری صنعت چلتی تھی۔ ہندوستان میں بنائے گئے بڑے جہاز پوری دنیا میں فروخت کئے جاتے تھے۔ وراثت کے تئیں اس بے حسی نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس صورتحال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے ہم نے ہندوستان کے فخر کے ان مراکز کو، دھولاویرا اور لوتھل کو واپس  اسی شکل میں لے کر آنے کا  فیصلہ کیا جس شکل میں وہ کبھی مشہور تھے۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس مشن کو بہت تیزی سے پورا کیا جا رہا ہے۔

ساتھیو،

آج جب میں لوتھل پر بحث کر رہا ہوں تو میری توجہ ان روایات کی طرف بھی  مبذول  ہو رہی ہے جو ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہیں۔ آج گجرات کے کئی علاقوں میں سکوتر ماتا کی پوجا کی جاتی ہے۔ اسے سمندر کی دیوی کے طور پر پوجا جاتا ہے۔ ہزاروں سال پہلے لوتھل پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت بھی سکوتر ماتا کی پوجا کسی نہ کسی شکل میں ہوتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سمندر میں آنے سے پہلے سکوتر دیوی کی پوجا کی جاتی تھی، تاکہ وہ اپنے سفر میں ان کی حفاظت کریں۔ مورخین کے مطابق سکوتر ماتا کا تعلق سوکوترا کے جزیرے سے ہے جو آج خلیج عدن میں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے بھی خلیج کھمبات سے سمندری تجارتی راستے دور دور تک کھلے تھے۔

ساتھیو،

حال ہی میں وڈ نگر کے قریب کھدائی کے دوران سکوتر ماتا کے مندر کا پتہ چلا ہے۔ کچھ ایسے شواہد بھی ملے ہیں جن سے قدیم زمانے میں یہاں سے سمندری تجارت کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔ اسی طرح سریندر نگر کے جھنجھواڑہ گاؤں میں لائٹ ہاؤس ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ رات کو جہازوں کو راستہ دکھانے کے لیے لائٹ ہاؤس بنائے گئے تھے۔ اور ملک کے لوگ یہ سن کر حیران رہ جائیں گے کہ جھنجھواڑہ گاؤں سے سمندر تقریباً سو کلومیٹر دور ہے۔ لیکن اس گاؤں میں ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں پہلے اس گاؤں میں بہت مصروف بندرگاہ ہوا کرتی تھی۔ اس سے اس پورے خطے میں زمانہ قدیم سے سمندری تجارت کے پھلنے پھولنے کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔

ساتھیو،

لوتھل نہ صرف وادی سندھ کی تہذیب کا ایک بڑا تجارتی مرکز تھا بلکہ یہ ہندوستان کی سمندری طاقت اور خوشحالی کی علامت بھی تھا۔ لوتھل کو جس طرح سے ہزاروں سال پہلے ایک بندرگاہی شہر کے طور پر  تعمیر  کیا گیا تھا، وہ آج بھی بڑے بڑے ماہرین کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ لوتھل کی کھدائی میں پائے جانے والے شہر، بازار اور بندرگاہ کی باقیات اُس دور سے تعلق رکھنے والی  شہری منصوبہ بندی اور فن تعمیر کے حیرت انگیز نظارے پیش کرتی ہیں۔ قدرتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جس قسم کا نظام یہاں تھا،  اس میں آج کی منصوبہ بندی کے ماہرین کے لیے بھی بہت کچھ سیکھنے کو  موجودہے۔

ساتھیو،

ایک طرح سے، اس خطے کو دیوی لکشمی اور دیوی سرسوتی دونوں نے نوازا تھا۔ کئی ممالک سے تجارتی تعلقات کی وجہ سے یہاں پیسے کی ریل پیل بھی رہتی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت لوتھل کی بندرگاہ پر 84 ممالک کے جھنڈے لہرائے جاتے تھے۔ اسی طرح قریبی علاقے میں موجوود ولّبھی یونیورسٹی دنیا کے 80 سے زیادہ ممالک کے طلباء کو وہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنی طرف  راغب کرتی تھی۔ ساتویں صدی میں اس علاقے میں آنے والے چینی فلاسفروں نے بھی لکھا ہے کہ ولّبھی یونیورسٹی میں اس وقت 6 ہزار سے زیادہ طلبہ تھے۔ یعنی سرسوتی دیوی کا کرم بھی اس علاقہ پر اپنا سایہ کیا ہوا تھا۔

ساتھیو،

لوتھل میں جو ہیریٹیج کمپلیکس بنایا جا رہا ہے اسے اس طرح بنایا جا رہا ہے کہ ہندوستان کے عام سے عام  لوگ بھی اس تاریخ کو آسانی سے  جان سکیں  اور سمجھ سکیں۔ اس میں انتہائی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اسی دور کو زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہزاروں سال پہلے کی وہی شان و شوکت، وہی طاقت، اس زمین پر دوبارہ زندہ ہو رہی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ یہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کشش کا ایک بہت بڑا مرکز بن جائے گا۔ یہ کمپلیکس روزانہ ہزاروں سیاحوں کے استقبال کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ جس طرح ایکتا نگر میں واقع اسٹیچو آف یونٹی ہر روز سیاحوں کے آنے کا ریکارڈ بنا رہا ہے، اسی طرح وہ دن دور نہیں جب ملک کے کونے کونے سے لوگ لوتھل کے اس ہیریٹیج کمپلیکس کو دیکھنے آئیں گے۔ اس سے یہاں ہزاروں نئے روزگار اور خود روزگار ی کے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس علاقے کو اس بات کا بھی فائدہ ہوگا کہ یہ احمد آباد سے زیادہ دور نہیں ہے۔ مستقبل میں شہروں سے زیادہ سے زیادہ لوگ یہاں آئیں گے،  جس سے یہاں کی سیاحت میں اضافہ ہوگا۔

ساتھیو،

اس خطے نے جو مشکل بھرے دن دیکھے ہیں میں اُنہیں  کبھی نہیں بھولوں گا۔ ایک زمانے میں سمندر بھی پھیلا ہوا تھا، اس لیے بہت بڑے علاقے میں کوئی فصل پیدا کرنا مشکل تھا۔ آج سے 20-25 سال پہلے لوگوں نے یہاں کے وہ دن دیکھے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر سینکڑوں ایکڑ زمین کے لیے بھی کوئی قرض نہیں دیتا تھا۔ قرض دینے والا بھی کہتا تھا کہ زمین کا کیا کروں گا، زمین سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس دور سے آج ہم نے لوتھل اور اس پورے خطے کو باہر نکالا ہے۔

اور ساتھیو،

لوتھل اور خطے کو اس کی ماضی کی شان  و شوکت  والے دور میں واپس لانے کے لیے ہماری توجہ صرف ورثے کے احاطے تک محدود نہیں ہے۔ آج گجرات کے ساحلی علاقوں میں جدید بنیادی ڈھانچے  سے متعلق  بے شمار کام ہورہے ہیں ، ساحلی علاقوں میں مختلف صنعتیں لگ رہی ہیں۔ ان منصوبوں پر  لاکھوں کروڑ روپے خرچ ہو رہے ہیں۔

اب سیمی کنڈکٹر پلانٹ بھی یہاں کے افتخار میں مزید اضافہ کرے گا۔ ہماری حکومت اس علاقے کو دوبارہ اسی طرح ترقی یافتہ بنانے کے لیے پوری قوت سے کام کر رہی ہے جس طرح ہزاروں سال پہلے یہاں  ترقی کی گئی تھی۔ جو لوتھل اپنی تاریخ کی وجہ سے ہمارے اندر فخر  کے احساس کو اُبھارتا ہے ، وہی لوتھل اب آنے والی نسلوں کا مستقبل سنوارے گا۔

ساتھیو،

میوزیم صرف چیزوں یا دستاویزات کو ذخیرہ کرنے اور ڈسپلے کرنے کا ایک ذریعہ نہیں ہے۔ جب ہم اپنے ورثے کی قدر کرتے ہیں تو اس کے  ساتھ ساتھ اس سے جڑے جذبات کو بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ جب ہم ملک بھر میں بنائے جانے والے ٹرائبل فریڈم فائٹر میوزیم کو دیکھتے ہیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے  قبائلی بہادر مردو خواتین  نے ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں کتنے بڑے پیمانے پر  حصہ لیا ہے ۔ جب ہم نیشنل وار میموریل اور نیشنل پولیس میموریل دیکھتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کس طرح ہمارے بہادر بیٹے اور بیٹیاں ملک کی حفاظت کرتے ہوئے، ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں۔ جب ہم پرائم منسٹر میوزیم جاتے ہیں تو ہمیں جمہوریت کی طاقت کا پتہ چلتا ہے، ہمارے ملک کے 75 سال کے سفر کی جھلک ملتی ہے۔ کیوڑیہ، ایکتا نگر میں مجسمہ اتحاد ہمیں ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کے لیے کوششوں، سخت کوشی اور تپسیا کی یاد دلاتا ہے۔

اور آپ سب جانتے ہیں کہ ایک بہت بڑا تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ اب کیوڑیا میں سردار پٹیل کا مجسمہ بنایا جا رہا ہے، کیونکہ سردار صاحب نے تمام بادشاہوں اور شہزادوں کو اکٹھا کرنے کا کام کیا، تو اسی طرح        ملک کے بادشاہوں اور شہزادوں کو جنہوں نے ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کے لیے   تخت  حکومت  قربان کردیئے، ان کے لئے بھی  ہم ایک میوزیم بنا رہے ہیں۔ ابھی اس کی ڈیزائننگ کا کام جاری ہے، تحقیقی کام جاری ہے۔ جس کی وجہ سے شہزادے اور شہزادے کیسے ہوتے تھے، کیا کرتے تھے، انہوں نے ملک اور معاشرے کی بھلائی کے لیے کتنا کام کیا تھا، اور سردار صاحب کی قیادت میں ملک کی یکجہتی کے لیے کتنا کام کیا تھا؟ یعنی  پورا ایک دور تھا  جو ایکتا نگر میں  دکھائی دیتا تھا۔ کوئی شہر میں جائے تو راجے-رجواڑوں سے  لے کر سردار صاحب تک کے سفر میں ہندوستان کو کیسے متحد کیا گیا ، ان ساری معلومات کی فراہمی کے لئے  کام وہاں ہو رہا ہے اور ساتھ ہی تحقیقی کام بھی  ہو رہا ہے، مستقبل قریب میں تعمیراتی کام بھی  شروع کیا جائے گا۔

گزشتہ 8 سالوں میں ہم نے ملک میں جن  وراثتوں کو ترقی دی ہے اُن سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ورثے کی وسعت کتنی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ لوتھل میں تعمیر ہونے والا نیشنل میری ٹائم میوزیم بھی تمام ہندوستانیوں کو اپنے سمندری ورثے کے بارے میں فخر کے احساس  سے سرشار کردے گا۔ لوتھل اپنی پرانی شان وشوکت کے ساتھ پھر سے دنیا کے سامنے آئے گا، اس یقین کے ساتھ، آپ سب کا بہت بہت شکریہ! آپ سب کے لیے بہت بہت  نیک خواہشات۔

اور اس وقت  جب کہ یہ تمام بھائی اور بہنیں یہاں لوتھل میں یکجا ہوئے ہیں ، تو دیپاولی  نزدیک آ تی جارہی ہے، اس لیے آپ سب کو بہت بہت مبارک اور خوشحال دیوالی اور گجرات میں نیا سال آنے کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، اس لیے آپ کو بھی نیا سال بہت بہت مبارک ہو۔ سب کا  بہت بہت شکریہ۔

وضاحت: وزیر اعظم کی تقریر کا کچھ حصہ گجراتی زبان میں بھی ہے، جس کا یہاں ترجمہ کیا گیا ہے۔

*************

ش ح۔ س ب ۔ رض

U. No.11580