نئی دلّی ،30 اکتوبر / سرکاری ترجمان جناب ارندم باگچی : خواتین و حضرات گُڈ ایوننگ ۔ کافی دیر گئے آپ سب لوگوں کا ہمارے ساتھ شریک ہونے پر آپ کا بہت شکریہ اور اُن لوگوں کا بھی شکریہ ، جو بھارت میں ہمارے ساتھ براہِ راست ویڈیو کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں ، اُن کے لئے نمسکار اور ویلکم ۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی روم میں ہیں اور یہ اُن کے دورے کا پہلا دن ہے ۔ آپ کو یہ بتائیں کہ یہاں کیا ہو رہا ہے اور ہم نے کیا منصوبہ بندی کی ہے ، اس کے لئے حقیقی طور پر ہمیں یہاں پہنچ کر بہت خوشی ہوئی ہے ، بھارت کے خارجہ سکریٹری جناب ہرش وردھن شرنگلا ، وہ آپ کو اِس بارے میں تفصیل سے بتائیں گے ۔ سر ، مزید تاخیر کئے بغیر میں آپ کو دعوت دیتا ہوں ۔
خارجہ سکریٹری جناب ہرش وردھن شرنگلا : نمسکار اور گُڈ ایوننگ ۔ میڈیا کے دوستوں کے ساتھ یہ پھر سے ایک اچھی ملاقات ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ وزیر اعظم آج صبح روم پہنچے ہیں ۔ اس دورے کا بنیادی مقصد جی 20 کی 16 ویں سربراہ میٹنگ میں شرکت کرنا ہے لیکن وہ اس موقع کو حکومتوں کے سربراہوں کے کئی سربراہوں کے ساتھ باہمی میٹنگوں کے لئے بھی استعمال کر رہے ہیں ۔ یہاں پہنچنے کے بعد وزیر اعظم نے یوروپی کونسل کے صدر عزت مآب جناب چارلس مائیکل اور یوروپی کمیشن کی صدر محترمہ اُرسولا وون ڈَر لیین کے ساتھ ملاقات کی ۔ اس پس منظر کے بارے میں ، آپ جانتے ہوں گے کہ وزیر اعظم عالمی اقتصادی صورتِ حال ، عالمی وباء سے صحت کی بحالی ، پائیدار ترقی اور آب و ہوا میں تبدیلی جیسے مختلف امور پر تبادلۂ خیال کے لئے کل جی 20 کے لیڈروں کے ساتھ ملاقات کریں گے ۔
جی 20 کے ہمارے شیرپا ، ہمارے کامرس و صنعت کے وزیر نے ، آپ کو کچھ تفصیلات بتائی ہیں ۔ اس لئے میں ، آج وزیر اعظم کی مصروفیات کے بارے میں تفصیلات پر توجہ دوں گا ۔ یوروپی کمیشن اور کونسل کے صدور کے ساتھ میٹنگ میں اور اس کے علاوہ ، اٹلی کے وزیر اعظم محترم ماریو ڈراگی کے ساتھ ابھی ابھی میٹنگ ہوئی ہے ۔ ان کے ساتھ ، جن امور پر تبادلۂ خیال ہوا ہے ، اگر آپ دیکھیں ، تو وہ معاملات جی 20 کانفرنس سے تعلق رکھتے ہیں اور صحت کی بحالی ، کووڈ سے بحالی اور عالمی سطح پر اقتصادی بحالی پر تبادلۂ خیال ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ ، آب و ہوا میں تبدیلی کے معاملات اور افغانستان کی صورتِ حال ، بھارت بحر الکاہل کے معاملے سمیت باہمی دلچسپی کے علاقائی اور عالمی معاملات پر تبادلۂ خیال کیا گیا ۔
اب ، جہاں تک یوروپی یونین کا تعلق ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ لیڈروں نے اس سال مئی میں منعقد یوروپی یونین + 27 کی شکل میں اور جولائی 2020 ء میں 15 ویں بھارت – یوروپی یونین کانفرنس میں لیڈروں کی میٹنگ کو یاد کیا ۔ یوروپی یونین ، بھارت کے اہم ساجھیداروں میں سے ایک ہے اور آج کی میٹنگوں میں لیڈروں نے بھارت – یوروپی یونین تعاون کا جائزہ لیا ، جس میں سیاسی و سکیورٹی تعلقات ، تجارت و سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ پچھلی بھارت – یوروپی یونین سربراہ کانفرنس میں منظور کردہ روڈ میپ 2025 کا احاطہ کیا گیا ۔ جیسا کہ میں نے کہا ہے ، انہوں نے آب و ہوا میں تبدیلی ، کووڈ – 19 وباء اور باہمی دلچسپی کے ہم عصر عالمی اور علاقائی واقعات اور پیش رفت پر بھی تبادلۂ خیال کیا ۔
وزیر اعظم نے آب و ہوا میں تبدیلی ، افغانستان اور بھارت بحرالکاہل سے متعلق بھارت کے موقف کو اجاگر کیا ۔ یوروپی یونین کے لیڈروں کے ساتھ ساتھ اٹلی کے وزیر اعظم نے ہمارے ملک میں کی گئی ٹیکہ کاری کی تعداد اور لوگوں کو پہلا ٹیکہ لگانے سے متعلق پرسنٹیج کے معاملے میں بھارت کی شاندار کار کردگی پر وزیر اعظم کو مبارکباد دی ۔ سہ پہر میں وزیر اعظم نے پیازا گاندھی پر مہاتما گاندھی کو گلہائے عقیدت نذر کئے ۔ اس موقع پر بھارتی برادری کے لوگ بڑی تعداد میں مدعو تھے ، جو وزیر اعظم کے خیر مقدم کے لئے وہاں پہنچے تھے اور انہوں نے بہت جوش و خروش کے ساتھ وزیر اعظم کا خیر مقدم کیا ۔
جیسا کہ ہم کہہ رہے ہیں ، وزیر اعظم اٹلی میں بھارتی نژاد برادری کے لوگوں کے ساتھ ، مختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والے بھارت کے دوستوں ، اٹلی کی ہندو یونین کے نمائندوں ، اٹلی کے کرشنا اجتماع کے لوگوں کے ساتھ ، سِکھ برادری ، عالمی جنگ کے دوران اٹلی میں لڑنے والے بھارتی سپاہیوں کو یاد کرنے والے اداروں کے نمائندوں سے علیحدہ علیحدہ میٹنگیں کیں ۔ وہ میٹنگ کے دوران بھارت سے متعلق ماہرین اور سنسکرت کے دانشوروں کے ساتھ بھی گفتگو کر رہے ہیں ۔ وزیر اعظم نے بھارت اور اٹلی کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کے لئے بھارتی برادری کے ارکان کے رول کی ستائش کی ۔
جہاں تک اٹلی کے وزیر اعظم کے ساتھ میٹنگ کا تعلق ہے ، جو اٹلی کے وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر ہوئی ہے ، یہ اُن کی پہلی بالمشافہ میٹنگ تھی ۔ وزیر اعظم نے 27 اگست کو اٹلی کے وزیر اعظم ڈراگی کے ساتھ افغانستان کے معاملے پر تبادلۂ خیال کیا تھا اور وہ کئی مرتبہ ، اُن سے بات چیت کر چکے ہیں ، وزیر اعظم ڈراگی نے ، انہیں افغانستان پر بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لئے مدعو کیا تھا اور جس میں وزیر اعظم نے شرکت کی تھی اور اُس وقت بھی ، اِس معاملے پر کچھ بات چیت ہوئی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے نومبر ، 2020 ء میں منعقد بھارت – اٹلی ورچوئل میٹنگ کے بعد سے ہوئی پیش رفت کا جائزہ لیا اور ظاہر ہے ، انہوں نے تعاون کے دوسرے شعبوں کا بھی جائزہ لیا ۔
قابلِ تجدید اور صاف توانائی میں باہمی تعاون کو نئی جہت فراہم کرنے کی خاطر بھارت اور اٹلی نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے ، جس میں توانائی کی منتقلی پر قریبی ساجھیداری کا اعلان کیا گیا اور بڑے سائز والے گرین کاریڈور پروجیکٹوں ، اسمارٹ گرڈ ، توانائی کا ذخیرہ کرنے کے حل ، گیس کی نقل و حمل ، کچرے کا مربوط بندوبست ، گرین ہائیڈروجن کی تیاری اور استعمال اور بایو فیول کے فروغ جیسے شعبوں میں ساجھیداری کے امکانات تلاش کرنے سے اتفاق کیا ۔ بھارت اور اٹلی نے میٹنگ کے دوران ٹیکسٹائل میں تعاون میں دلچسپی سے متعلق ایک معاہدے پر بھی دستخط کئے ۔ دو طرفہ سرمایہ کاری ، خاص طور پر صاف توانائی اور قابلِ تجدید توانائی کے سیکٹر میں سرمایہ کاری پر بہت اچھا تبادلۂ خیال ہوا ، جس میں اٹلی کو وسیع مہارت حاصل ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اِس معاملے پر دونوں وزرائے اعظم نے اتفاق کیا ہے کہ ہم اس کو ، کس طرح آگے بڑھا سکتے ہیں ۔
جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ روم میں یہ پہلا دن بہت مصروفیت کا ہے ۔ کل وزیر اعظم عزت مآب پوپ فرانسز سے ویٹیکن سِٹی میں ملاقات کریں گے ، جس کے بعد وہ جی 20 کے اجلاس میں شرکت کریں گے ، جہاں وہ مزید باہمی میٹنگیں کریں گے اور ہم مسلسل آپ کو اِس کے بارے میں مطلع کرتے رہیں گے ۔
سرکاری ترجمان جناب ارندم باگچی : سر آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ ہم چند سوالات کرنا چاہیں گے ۔ وقت کی بہت کمی ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ خارجہ سکریٹری کو دیگر مصروفیات کے لئے جانا ہے ۔ اس لئے اب میں آپ کو مدعو کرتا ہوں ، سدھانت ۔
سدھانت : ہائے ، میں ڈبلیو آئی او این سے سدھانت ہوں ۔ میرا سوال یہ ہے کہ آج صبح یوروپی یونین کے لیڈروں کے ساتھ میٹنگ کے دوران ، جب ویکسین کے سرٹیفکیٹ کو باہمی طور پر تسلیم کرنے کے معاملے پر توجہ دی گئی تو اُس وقت بھارت کی ویکسین اور بھارت کے ویکسین سرٹیفکیٹ کو تسلیم کرنے پر کیا بات ہوئی ؟ اس کے علاوہ ، جب سیاحت کا معاملہ سامنے آیا ، بھارت کی جانب سے کس بات پر زور دیا گیا ۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں ۔
منیش چند : انڈیا رائٹس نیٹ ورک سے میں ہوں منیش چند ۔ میرا سوال یہ ہے کہ پچھلی سربراہ کانفرنس میں ایک تجویز تھی کہ بھارت اور اٹلی افریقہ جیسے خطوں میں تیسرے ملکوں میں مل کر کام کرنے کے امکانات تلاش کریں گے اور اب جیسا کہ بھارت – بحرالکاہل کا معاملہ ہے ، اُس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے ۔ کیا بھارت – بحرالکاہل اور تیسرے ملکوں کے بارے میں تعاون کے لئے کیا کسی ٹھوس منصوبے پر تبادلۂ خیال کیا گیا ہے ؟
اسپیکر 1 : بلوم برگ نیوز ۔ وزیر موصوف ، کیا آپ ہمیں مزید تفصیل سے بتائیں گے کہ کووڈ – 19 کے خلاف ویکسین کو باہمی طور پر تسلیم کرنے کے لئے بھارت کی جانب سے جی 20 ارکان کے لئے کیا درست پیشکش کی جائے گی تاکہ بین الاقوامی سفر کو آسان بنانے کو یقینی بنایا جا سکے ؟ کیا آپ ہمیں اس بات کی تفصیل بتائیں گے کہ وزیر اعظم کی کل پوپ سے ہونے والی ملاقات کا ایجنڈا کیا ہے ۔ میرا مطلب ہے کہ کیا معاملات اٹھانے کا منصوبہ ہے ، خاص طور پر بھارت میں عیسائیوں کے بارے میں یا اور کچھ ؟ دوسری بات یہ ہے کہ ….
سرکاری ترجمان جناب ارندم باگچی : ہمارے پاس وقت کی بہت کمی ہے ۔ اس لئے …
اسپیکر 1 : اور کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ سی او پی 26 کانفرنس سے پہلے فنڈ اور تکنیک کی منتقلی کے بارے میں آپ کی کیا توقعات ہیں؟ خاص طور پر امریکہ کے ساتھ ساجھیداری کے بارے میں ، جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ نے فنڈ اور ٹیکنا لوجی کے ساتھ بھارت کی مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا اور آب و ہوا میں تعاون طلب کیا تھا ۔ شکریہ ۔
خارجہ سکریٹری جناب ہرش وردھن شرنگلا : آئیے ، ہم پہلے ٹیکہ کاری کے سرٹیفکیٹ سے شروع کرتے ہیں کیونکہ مجھ سے سدھانت اور بلوم برگ دونوں نے اِس کے بارے میں پوچھا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ٹیکہ کاری کے سرٹیفکیٹ کے معاملے پر یوروپی یونین کے نمائندوں کے ساتھ ، خاص طور پر تبادلۂ خیال کیا گیا اور میں سمجھتا ہوں کہ آسان رسائی ، معمول کے مطابق سفر کے معاملے پر زیادہ توجہ دی گئی کیونکہ کووڈ وباء سے بحال ہونے والے ملکوں نے یقیناً اِس پر تبادلۂ خیال کیا ۔ ویکسین کو باہمی طور پر تسلیم کرنے پر بھی بات چیت ہوئی ۔ میرے خیال میں ، جیسا کہ ہر کوئی سمجھتا ہے ، ایک قابلِ عمل میکانزم کی ضرورت ہے ، جس کےذریعے ہم آسان بین الاقوامی سفر میں سہولت پیدا کر سکیں ۔ اس کی تفصیلات باہمی طور پر طے کرنی ہوں گی ۔ میرے خیال میں یوروپی یونین ، یوروپی کونسل صرف عمومی رہنما خطوط فراہم کر سکتے ہیں ۔ میرے خیال میں یوروپی یونین کے کچھ ملکوں نے پہلے ہی ہماری تجویز کا جواب دیا ہے اور ہم اس سلسلے میں پہلے ہی پیش رفت کر رہے ہیں اور یہ سوال جی 20 میں بھی اٹھا ہے۔ ہم نے جی 20 میں ٹیکہ کاری کے سرٹیفکیٹ کو باہمی طور پر تسلیم کرنے کی تجویز پیش کی ہے لیکن جیسا کہ تبادلۂ خیال ابھی جاری ہے اور ابھی نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں ۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ زیادہ تر ممالک بلا رکاوٹ بین الاقوامی سفر میں سہولت پیدا کرنے کے نظریے سے خوش ہیں ۔ البتہ ، اس کی تفصیلات ، جب سامنے آئیں گی ، انہیں دیکھا جائے گا لیکن حقیقی معاملہ یہ ہے کہ زیادہ تر ممالک محسوس کرتے ہیں کہ آسان رسائی اور آسان سفر ایک ایسی چیز ہے ، جس کے لئے ہمیں مشترکہ طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہی وہ نکتہ ہے ، جو وزیر اعظم نے پیش کیا ہے اور میرے خیال میں اِسے قبول کیا گیا ہے اور نوٹ کیا گیا ہے ۔
منیش کا سوال تیسرے ملکوں میں کام کرنے کے بارے میں تھا ، آپ نے افریقہ کا ذکر کیا ، آسیان ملکوں وغیرہ کا ذکر کیا ۔ میرے خیال میں، ایک بار پھر ، یوروپی یونین کی سطح پر ، یہ وہ بات ہے ، جو پہلے کہی جا چکی ہے ۔ اس بات کو تسلیم کیا جا چکا ہے کہ یوروپی یونین نے بھارت بحر الکاہل پر ایک کلیدی پیپر پیش کیا ہے ، جس میں دونوں صدور ، ارسولا وون ڈر لیین اور چارلس مائیکل نے بھارت – بحر الکاہل سے متعلق اہمیت اور بھارت کے ساتھ کام کرنے کی اہمیت کا خاص طور پر ذکر کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ لیڈروں نے ، اِس بات کو محسوس کیا کہ اِس بات پر مزید تبادلۂ خیال کی ضرورت ہے ، جس کی وزیر اعظم نے پیشکش کی کہ وہ اعلیٰ سطحی وفد بھارت بھیج سکتے ہیں اور نوٹس اور تجربات میں ساجھیداری کر سکتے ہیں اور اس کے بعد شاید ایک ٹاسک فورس قائم کی جا سکتی ہے ، جو بھارت – بحرالکاہل پر یوروپی یونین کے ساتھ تعاون کو آگے بڑھائے گی ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کئی یوروپی یونین کے ممالک جیسے فرانس ، جرمنی ، نیدر لینڈ پہلے ہی بھارت – بحر الکاہل سے متعلق اسٹریٹیجی کے پیپرس متعارف کرا چکے ہیں، جس میں بھارت – بحر الکاہل پر ، اُن کی پالیسی واضح ہے ۔ اس کے علاوہ ، بھارت – بحر الکاہل کے تعاون کے لئے یکساں ذہنیت والے ملکوں کے اشتراک کی ضرورت ہے اور جیسا کہ میرا خیال ہے ، وزیر اعظم کی آج لیڈروں کے ساتھ بات چیت میں ، اِس سلسلے میں اسی طرح کا عندیہ دیئے جانے کا امکان ہے ۔
عزت مآب پوپ کے ساتھ کل ہونے والی میٹنگ کے بارے میں ، میں جانتا ہوں ، وزیر اعظم علیحدہ سے ملاقات کریں گے ۔ وہ عزت مآب پوپ کے ساتھ بالمشافہ ملاقات کریں گے اور مختصر وقت کے بعد وفود کی سطح پر بات چیت ہو گی ۔ ویٹیکن نے کوئی ایجنڈا طے نہیں کیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب عزت مآب پوپ کے ساتھ آپ بات چیت کرتے ہیں تو کسی ایجنڈے کی روایت نہیں ہے اور میرے خیال میں ، ہمیں اِس بات کا احترام کرنا چاہیئے ۔ مجھے یقین ہے کہ تبادلۂ خیال کے دوران عام عالمی منظر نامے کے معاملات پر اور ایسے معاملات پر ، جو ہم سب کے لئے اہم ہیں ، جیسے کووڈ – 19 ، صحت کے معاملات ، ہم کس طرح مل کر کام کر سکتے ہیں ، ہم کس طرح امن و آتشی کو بر قرار رکھنے کے لئے مل کر کام کر سکتے ہیں ، یہ وہ چیزیں ہیں ، جن پر میرے خیال میں تبادلۂ خیال ہونے کی امید ہے ۔
اور اب ، آپ نے جو فنڈنگ کا ذکر کیا ، سی او پی 26 میں ٹیکنا لوجی کی منتقلی کے معاملے کا ذکر کیا ، میرے خیال میں ، وزیر اعظم نے ، ان میں کچھ کی وضاحت کی ہے ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ وسیع عہد سے متعلق ترقی پذیر ملکوں کی تشویشات ، ایسے ملکوں کی تشویش ، جو پیرس میں ہوئے معاہدے کے اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، میرے خیال میں ہم پہلے ہی اِس میں کچھ تبدیلی دیکھ رہے ہیں ، مزید اہداف مقرر کئے جا رہے ہیں ۔ وزیر اعظم نے خود ہماری مثال دی ہے اور کہا ہے کہ بھارت نہ صرف حقیقی طور پر پیرس میں این ڈی سی کو حاصل کرنے کے قریب ہے بلکہ اُن میں سے زیادہ تر سے تجاوز کرنے والا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات پر زیادہ جوابدہی ہونی چاہیے کہ ہم کس طرح ترقی پذیر ملکوں کو ، اُن کے مقاصد حاصل کرنے ، خاص طور سے آب وہوا سے متعلق فنڈنگ ، گرین فائنانسنگ اور گرین ٹیکنا لوجی میں مدد کر رہے ہیں ، اس کی انہیں صرف ایک وعدے کو پورا کرنے سے زیادہ ضرورت ہے اور میرے خیال میں ٹھوس اقدامات کے لئے اور ترقی پذیر ملکوں ، اُن کے اہداف حاصل کرنے میں مدد کے لئے ، اُن کی امداد کی جانی چاہیئے ۔ میرے خیال میں معاہدے میں آب و ہوا میں تبدیلی سے متعلق معاملات کو حل کرنے کے لئے بہت جلد اقدامات کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا اور اس سلسلے میں کافی تبادلۂ خیال کیا جا چکا ہے ، جو بھارت آب و ہوا میں تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لئے اقدامات کر رہا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ان مذاکرات کو جاری رکھنا ہو گا اور دیکھنا ہو گا کہ ان سے کیا نتائج حاصل ہوتے ہیں لیکن میرے خیال میں ، وزیر اعظم نے اس نکتے کو بہت واضح کیا ہے کہ بہت کچھ کیا جانا ہے اور نہ صرف اہداف کو پورا کرنے کے لئے وسیع کوششیں کی جانی چاہئیں ، کیونکہ کئی ممالک حقیقی طور پر اِن پر عمل نہیں کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ آپ کو دوسرے پہلوؤں کو بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ، مثال کے طور پر طرز زندگی میں تبدیلیاں ۔ بھارت ہمیشہ سے ہی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رہا ہے ، ہم فی کس کے حساب سے سب سے کم مضر گیسوں کے اخراج والے ملکوں میں شامل ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ، ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس مسئلے کو دیکھنے کے لئے ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم کس طرح عالمی بنیاد پر پائیدار طرز زندگی کو اپنا سکتے ہیں ، جس سے آب و ہوا سے متعلق درجۂ حرارت میں خود بخود کمی آ سکے ۔ اس لئے آب و ہوا میں تبدیلی سے متعلق ہمارے اہداف میں طرز زندگی میں تبدیلی کی ایک بڑی شرط ہے ۔
دہشت گردی ، میرے خیال میں ، اِس معاملے پر یہاں ہوئے تبادلۂ خیال میں ، خاص طور پر افغانستان پر تبادلۂ خیال میں ، خاص زور دیا گیا ہے ۔ دونوں لیڈروں کے ساتھ بات چیت میں آب و ہوا میں تبدیلی اور افغانستان ، دو موضوعات پر زیادہ تر بات چیت کی گئی اور افغانستان کے معاملے پر ، میرے خیال میں وزیر اعظم کا موقف بہت واضح تھا کہ افغانستان کی صورتِ حال کو علیحدہ سے نہیں دیکھا جا سکتا ، اچھی حکمرانی کی فراہمی میں ناکامی ، صورتِ حال سے خوش اسلوبی سے نمٹنے میں نا کامی پر بھی اس موضوع کے ساتھ محاسبہ کرنا چاہیئے ، جس سے افغانستان سے کسی قسم کی اشتعال انگیزی کا خطرہ نکل سکتا ہو ، میں سمجھتا ہوں ، یہ ایک ایسی چیز ہے کہ بین الاقوامی برادری کو ، اِس پر بہت احتیاط کے ساتھ نظر ڈالنی چاہیئے ۔ انہوں نے ، اِس بات کو اجاگر کیا کہ افغانستان میں مسائل کی اصل وجہ کا سرگرمی سے جائزہ لیا جانا چاہیئے ، جو کٹر پسندی ، انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے اور اس کے مضمرات کا بہت احتیاط کے ساتھ جائزہ لیا جانا چاہیئے ۔ اس لئے میرے خیال میں ، اِ س طرح کا احساس پایا جاتا ہے کہ ہمارے دونوں ساجھیداروں ، یوروپی یونین اور اٹلی نے ہمیں پوری طرح سمجھا ہے ۔ دونوں نے ہمارے جیسے ہی احساسات کا اظہار کیا ہے اور اس بات کو سمجھا ہے کہ یہ ایسی چیز ہے ، جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ وزیر اعظم ڈراگی نے ، خاص طور پر جی 20 کانفرنس میں افغانستان میں کوششوں کے لئے حمایت حاصل کرنے پر زور دیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ افغانستان کے عوام ، موجودہ صورتِ حال کے مضمرات سے متاثر نہ ہوں۔ وزیر اعظم نے اِس بات کو بھی اجاگر کیا کہ جو حکمراں ہیں ، ان کے درمیان اور اُس ملک کے عوام کے درمیان ایک فرق ہونا چاہیئے اور عوام کی مدد کی جانی چاہیئے ۔ ہم نے انسانی بنیاد پر مدد کی پیشکش کی ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا ، قابل قدر امداد دی گئی ہے لیکن ہمیں اِسے پورے افغانستان تک پہنچانے کی ضرورت ہے اور ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کام کر رہے ہیں کہ افغانستان کو انسانی ہمدردری کی بنیاد پر بلا رکاوٹ امداد حاصل ہو ۔
میں ، اِس بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ باہمی تعلقات کے بارے میں اٹلی کے ساتھ خاص تعلقات کا احساس موجود ہے ، جن میں حالیہ برسوں میں اضافہ ہوا ہے ، وزیر اعظم نے کہا ہے کہ باہمی تعلقات پُر جوش اور بھر پور ہیں ، خاص طور پر سرمایہ کاری ، تجارت اور عوام سے عوام کے رابطے میں جوش و خروش ہے اور وزیر اعظم ڈراگی نے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا ہے اور وزیر اعظم نے ، انہیں بھارت کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے ۔ انہوں نے دونوں صدور ، چارلس مائیکل اور ارسولا وون ڈی لیین دونوں کو بھارت کا دورہ کرنے کی دعوت دی ۔ اس لئے میرے خیال میں کووڈ کی وجہ سے بہت کم تبادلے ہوئے ہیں ، ہم تعلقات کو جاری رکھنا چاہتے ہیں ، ہم اپنے سفارتی تعلقات میں تیزی لانا چاہتے ہیں اور آپ نے دیکھا ہے کہ وزیر اعظم کی دعوت اسی سلسلے کی ایک کوشش ہے ۔
سرکاری ترجمان جناب ارندم باگچی : شکریہ سر ، صرف چند سوال اور ۔ پرانائے ۔
پرانائے اپادھیائے : میں اے بی پی نیوز سے پرانائے اپادھیائے ۔ عالمی سپلائی چین کو متنوع بنانا ایک اہم موضوع رہا ہے ، جس کو بھارت بھی اٹھاتا رہا ہے ۔ یوروپی یونین کے ساتھ ، جو ملاقات تھی ، ای یو صدر کے ساتھ میں اور اٹلی کے ساتھ باہمی ملاقات میں بھی کیا اس معاملے پر بات ہوئی ہے ۔ اور کس طریقے سے اس پر آگے کے روڈ میپ کو بھارت بڑھانا چاہتا ہے ؟
اسپیکر 2 : کیا آپ ہمیں بھارت – اٹلی میٹنگ کے بارے میں ، خاص طور پر اقتصادی تعاون کے نئے محاذ کے بارے میں اور کچھ بتا سکتے ہیں ؟
سرکاری ترجمان جناب ارندم باگچی : آپ کا شکریہ ۔
خارجہ سکریٹری جناب ہرش وردھن شرنگلا : ٹھیک ہے ، آئیے میں پہلے آپ کو جواب دوں ۔ میرے خیال میں دونوں وزرائے اعظم نے ، جیسا کہ میں نے کہا ہے ، اس بات کو محسوس کیا کہ تجارت و سرمایہ کاری بہت اہم ہے ۔ اٹلی کے وزیر اعظم نے کہا کہ اٹلی کی بہت سی کمپنیاں ایسی ہیں ، جو بھارت میں سرمایہ کاری کرنے ، کاروبار کرنے کی خواہش مند ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وقت کی کمی کی وجہ سے وہ اُن کی تفصیل نہیں بتا سکتے ۔ لیکن وزیر اعظم مودی نے کہا کہ وہ بھی بھارتی اور اٹلی کی کمپنیوں کے درمیان اشتراک کو بڑھانے ، بھارت میں اٹلی کی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے خواہش مند ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ قابل تجدید توانائی کے شعبے اور آٹو موبائل سیکٹر جیسے شعبے ، جس میں ای ٹرانسپورٹیشن کی تجدید شامل ہے ، ایسے ہیں ، جن میں اٹلی کی کچھ کمپنیاں بہت اچھے دو پہیہ ، تین پہیہ گاڑیاں ، الیکٹرک وہیکل بنا رہی ہیں ۔ اس لئے میرے خیال میں ، اُن میں بہت سی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے کا امکان ہے ۔ میرے خیال میں تجارت و سرمایہ کاری ، بھارت اور اٹلی کے درمیان اقتصادی تبادلوں کے بارے میں دونوں لیڈروں کے ساتھ میٹنگوں میں کافی زور دیا گیا ہے ۔
پرانائے جی آپ کو ، جو سوال تھا ، سپلائی چین کے بارے میں ، بحال ہونے والی لچک دار سپلائی چین کی بات ضرور ہوئی ۔ یہ تبادلۂ خیال ای یو اور اٹلی کے وزیر اعظم کے ساتھ کیا گیا ، پر اس میں تفصیل سے نہیں جا پائے لیکن یہ ضرور ہے کہ دونوں فریق چاہتے ہیں کہ اس پر اور کام ہو اور اس پر دونوں فریق مل کر کام کریں اور محفوظ سپلائی چین ، جو ہم بنانا چاہتے ہیں ، مستقبل میں ، اِن دونوں ساجھیداروں کے ساتھ مل جل کر ہم کریں گے ۔
خارجہ سکریٹری جناب ہرش وردھن شرنگلا : خاص طور پر بھارت بحر الکاہل کے ضمن میں ۔
سرکاری ترجمان جناب ارندم باگچی : اس کے ساتھ ہی ہم خصوصی میڈیا بریفنگ کا اختتام کرتے ہیں ۔ آپ سب کا یہاں شریک ہونے پر بہت بہت شکریہ ۔ سر ، میں یہاں آنے پر آپ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتے ہیں کہ ہم مزید معلومات آپ کو پہنچاتے رہیں گے ۔ مہربانی کرکے ہمارے سوشل میڈیا اور ہمارے ویب سائٹ چینل سے جڑے رہیں ۔ آپ کا شکریہ ۔ نمسکار ۔
خارجہ سکریٹری جناب ہرش وردھن شرنگلا : آپ سب کا شکریہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا )
U. No. 12386