Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

وزیر اعظم کا الاتحاد کو انٹرویو


ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعرات کے روز الاتحاد کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ہندوستان پر امید ہے کہ متحدہ عرب امارات کی میزبانی میں ہونے والی سی او پی 28 موثر موسمیاتی کاروائی کو نئی رفتار عطا کرے گی۔

وزیر اعظم مودی نے کہا کہ اس اہم شعبے میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ ملک کی شراکت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے، جو کہ مستقبل کے وژن سے چلتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان اور متحدہ عرب امارات، جن کے مابین مضبوط اور پائیدار تعلقات ہیں، ایک مشترکہ گرڈ قائم کرنے، توانائی تحفظ کو بڑھانے، توانائی کے شعبے میں ایک دوسرے کی طاقتوں کا فائدہ اٹھانے، اور بین الاقوامی سمسی اتحاد کی عالمی شمسی سہولت کو مدد فراہم کرنے کے لیے ایک ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔

وزیر اعظم نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے یو اے ای کے اپنے چھٹویں دورے کے دوران کہا کہ “ہندوستان اور متحدہ عرب امارات ایک سرسبز اور زیادہ خوشحال مستقبل کی تشکیل میں شراکت دار کے طور پر ساتھ کھڑے ہیں، اور ہم آب و ہوا کی کاروائی پر عالمی گفتگو کو متاثر کرنے کے لیے اپنی مشترکہ کوششوں میں ثابت قدم ہیں۔”

وزیر اعظم مودی نے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں موسمیاتی کاروائی کے لیے متحدہ عرب امارات کے غیر متزلزل عزم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایسے ممالک کے طور پر جو پائیداری اور قابل احیاء توانائی کو فروغ دینے کی تصوریت ساجھا کرتے ہیں، ہندوستان اور متحدہ عرب امارات قابل احیاء توانائی کی عالمی کوششوں میں قائدین کے طور پر ابھرے ہیں،

مطلوبہ موسمیاتی مالیات کو یقینی بنانا

موسمیاتی مالیات کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ یہ بات کہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ایک اجتماعی چنوتی ہے جو متحد عالمی ردعمل کا متقاضی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ’’یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ ترقی پذیر ممالک نے اس مسئلے کی تخلیق میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔ اس کے باوجود ترقی پذیر ممالک اس حل کا حصہ بننے کے لیے تیار ہیں‘‘۔

’’لیکن، وہ ضروری فنانسنگ اور ٹیکنالوجی تک رسائی کے بغیر اپنا تعاون نہیں دے سکتے… اس لیے میں نے ماحولیاتی فنانسنگ اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے عالمی تعاون کی پرزور وکالت کی ہے،” انہوں نے یہ بات اس امر کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور ڈالتے ہوئے کہی کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی فائننسنگ ، عملی اور یقین دہانی کے طریقہ سے جاری رہے۔

وزیر اعظم نے مزید کہا ’’ایک ایسا راستہ تیار سکتے ہیں جو کسی کو پیچھے نہ چھوڑے ‘‘۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جیسا کہ قومیں آب و ہوا کے حوالے سے کارروائی کر رہی ہیں، “ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ گلوبل ساؤتھ کی ترقی کی ترجیحات سے سمجھوتہ نہ کیا جائے”۔ وزیر اعظم مودی نے کہا”مجھے خوشی ہے کہ حالیہ نئی دہلی جی 20 سربراہ اجلاس کے دوران، اس پہلو کو مناسب طریقے سے حل کیا گیا ہے، جس میں سرمایہ کاری اور موسمیاتی فائنینس کو تیزی سے اور کافی حد تک بڑھانے کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے اور تمام ذرائع سے عالمی سطح پر اربوں سے ٹریلین ڈالر تک”۔ ترقی پذیر ممالک کو تکنیکی اور مالی مدد فراہم کرنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کے وعدوں پر عمل درآمد کو سی او پی 28 کے ایجنڈے میں سرفہرست ہونے کی ضرورت ہے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ موسمیاتی کارروائی سے متعلق بڑھتے ہوئے عزائم کو موسمیاتی فنانس پر مماثل پیش رفت دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، “سی او پی 28 میں، ہمیں امید ہے کہ موسمیاتی مالیات کے نئے اجتماعی کوانٹیفائیڈ گول (این سی جی کیو) پر قابل اعتبار پیش رفت ہوگی۔”

سرگرم تعاون

مودی کے مطابق، دونوں ممالک کے درمیان تعاون توانائی کے پورے دائرے پر محیط ہے، جس میں پائیداری پر بھرپور توجہ دی گئی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا “ہمارے پائیدار تعلقات کی بنیاد متعدد ستونوں پر قائم ہے، اور ہمارے تعلقات کی فعالیت کا اظہار ہماری جامع کلیدی شراکت داری سے ہوتا ہے… ہمیں خاص طور پر خوشی ہے کہ متحدہ عرب امارات سی پی 28 کی میزبانی کر رہا ہے، اور میں اس خاص موقع پر متحدہ عرب امارات کی حکومت اور عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں”۔ انہوں نے کہا کہ “مجھے اس سال جولائی میں متحدہ عرب امارات کا دورہ کرنے کا موقع ملا، جس کے دوران میرے بھائی، صدر عزت مآب شیخ محمد بن زاید، اور میں نے وسیع پیمانے پر بات چیت کی جس میں موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ نمایاں طور پر سامنے آیا”۔

انہوں نے کہا “ہمارے دونوں ممالک ماحولیاتی تبدیلی کی اہم عالمی چنوتیوں سے نمٹنے کے لیے فعال طور پر تعاون کر رہی ہیں۔ میرے جولائی کے دورے کے دوران، ہم نے موسمیاتی تبدیلی پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جو اس مقصد کے لیے ہماری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے ‘‘۔

عزت مآب ماہ ستمبر میں جی 20 سربراہ اجلاس کے لیے نئی دہلی میں تھے، جہاں انہوں نے کہا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی بات چیت اور نتائج کا ایک اہم مرکز ہے۔

مودی نے امید ظاہر کی کہ سی او پی 28 مؤثر آب و ہوا کی کاروائی اور یو این ایف سی سی سی اور پیرس معاہدے کے اہداف کو آگے بڑھانے میں بین الاقوامی تعاون کے لیے نئی تحریک لائے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ “ہندوستان اور متحدہ عرب امارات ایک سرسبز اور زیادہ خوشحال مستقبل کی تشکیل میں شراکت دار کے طور پر کھڑے ہیں، اور ہم آب و ہوا کی کارروائی پر عالمی گفتگو کو متاثر کرنے کے لیے اپنی مشترکہ کوششوں میں ثابت قدم ہیں۔”

مستقبل کی تصوریت

موسمیاتی شعبے میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہندوستان کی شراکت داری کو آگے بڑھاتے ہوئے “مستقبل کے وژن” پر روشنی ڈالتے ہوئے، وزیر اعظم مودی نے کہا: “ہم نے 2014 سے قابل تجدید ذرائع کے شعبے میں مضبوط تعاون دیا ہے، اور اس سال جولائی میں میرے یو اے ای کے دورے کے دوران، ہم نے گرین ہائیڈروجن، شمسی توانائی اور گرڈ کنیکٹیویٹی میں ہمارے تعاون کو آگے بڑھانے کا عزم کیا۔ مودی نے کہا”آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ پچھلے سال صدر عزت مآب شیخ محمد بن زاید اور میں نے آنے والی دہائی کے لیے ہماری اسٹریٹجک شراکت داری کو آگے بڑھانے کے لیے ایک فریم ورک کی نقاب کشائی کی تھی، جس میں موسمیاتی عمل اور قابل تجدید ذرائع پر زور دیا گیا تھا،” ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ “ہم ان اہم سرمایہ کاری کی تعریف کرتے ہیں جو متحدہ عرب امارات نے ہندوستان کے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں کی ہے، خاص طور پر شمسی اور ہوا کے شعبوں میں”۔ وزیر اعظم مودی نے تکنالوجی کی ترقی، باہمی طور پر فائدہ مند پالیسی فریم ورک اور ضوابط کی تشکیل، قابل تجدید بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری، اور گرین ہائیڈروجن اور گرین امونیا کے شعبوں میں صلاحیت کی تعمیر پر دونوں ممالک کے لیے مل کر کام کرنے کے کافی مواقع پر روشنی ڈالی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ شمسی توانائی ممکنہ تعاون کا ایک اور اہم شعبہ ہے، جہاں ہندوستان اور متحدہ عرب امارات مشترکہ طور پر دونوں ممالک میں سرمایہ کاری کے ماحول کو بڑھانے کے لیے کام کر سکتے ہیں، شمسی ٹیکنالوجی کو اپنانے اور تیز رفتار تعیناتی کو فروغ دے سکتے ہیں۔

وزیر اعظم نے زور دیتے ہوئے کہا کہ “میرے خیال میں، اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے برسوں میں، یہ شراکت داری ہمیں اس وقت اس شعبے میں درپیش چیلنجوں کا عالمی حل تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی”۔

صاف ستھری توانائی کی علمبرداری

وزیر اعظم مودی نے قابل احیاء توانائی شعبے میں آب و ہوا کی کارروائی کے لیے متحدہ عرب امارات کے غیر متزلزل عزم کی ستائش کی، جس کی مثال بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی (آئی آر ای این اے ) کے میزبان ملک کے طور پر اس کے کردار میں ملتی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا “میں سمجھتا ہوں کہ متحدہ عرب امارات کے قابل تجدید توانائی کے پورٹ فولیو میں پچھلی دہائی کے دوران نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے بڑے سولر پارکس، نجی شعبے کی تعمیر کے لیے ‘گرین بلڈنگ ریگولیشنز’، توانائی کی استعداد کار میں اضافے کے لیے پروگرام، سمارٹ شہروں کی ترقی، اور دیگر کی شکل میں پائیدار ترقی کے لیے متعدد ترقی پسند اقدامات کیے ہیں۔ مودی نے کہا۔ “ہم نے ہندوستان میں اسی طرح کے جوش کا مظاہرہ کیا ہے، اور متعدد اقدامات پر عمل درآمد کیا ہے جس نے بے مثال پیمانے پر اہم اثرات مرتب کیے ہیں، خواہ وہ ہماری قابل تجدید توانائی کی پیداوار ہو یا گھرانوں کے ذریعہ توانائی کے موثر لائٹنگ کو اپنانا، یا ہمارے شہری بنیادی ڈھانچے میں توانائی کے تحفظ کا محرک، صرف چند ایک کے نام بتانا”۔ ہندوستان کی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت فی الحال 186 جی ڈبلیو ہے، اور یہ 2030 تک 500 جی ڈبلیو کی قابل احیاء توانائی سے نصب شدہ صلاحیت کو ہدف بنا رہا ہے۔ وزیر اعظم کے مطابق، ملک 2030 تک غیر حجری بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو 50 فیصد تک پہنچانے کا ہدف بھی بنا رہا ہے۔

وزیر اعظم مودی نے کہا کہ “پائیدار ترقی اور قابل تجدید توانائی کے حل کو آگے بڑھانے میں ہماری قوموں کے درمیان نہ صرف حوصلہ افزا ہے، بلکہ صاف ستھرے اور زیادہ پائیدار مستقبل کے لیے ہماری مشترکہ لگن کا بھی اشارہ ہے۔”

کرۂ ارض دوست طرز حیات کو فروغ

انڈیا کا مشن لائف اسٹائل برائے ماحولیات (مشن لائف)، دنیا کو ماحول دوست طرز زندگی اپنانے کی ترغیب دینے کی ایک پہل ہے۔

وزیر اعظم مودی نے کہا “ہم نے پائیدار طرز زندگی پر ایک عالمی مشن شروع کیا ہے – ‘لائف، طرز زندگی برائے ماحولیات’ – جو پائیدار کھپت کے طرز زندگی میں تبدیلیوں اور سرکلر معیشت کے اصولوں کو فروغ دیتا ہے”۔

انہوں نے مزید کہا، “مشن لائف کے لیے میری کال اس یقین پر مبنی ہے کہ سیاروں کے حامی طرز زندگی اور انتخاب کی ایک بڑی تحریک عالمی موسمیاتی کارروائی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔”
اس سلسلے میں، ہندوستان نے رضاکارانہ کرہ ارض دوست اقدامات کی ترغیب دینے کے لیے ایک طریقہ کار کا تصور پیش کیا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کا مؤثر جواب دے سکتا ہے، جسے “گرین کریڈٹ پہل قدمی ” کہا جاتا ہے۔

یہ پروگرام بنجر یا تنزلی زدہ زمینوں اور دریا ئی علاقوں پر شجرکاری کے لیے “گرین کریڈٹ” کے موضوع کا تصور پیش کرتا ہے۔ بڑے پیمانے پر ہریالی کی اس طرح کی کاروائیاں دریا کے طاسوں کو زندہ کرنے، مٹی کو افزودہ کرنے، ہوا کو صاف کرنے اور اس طرح قدرتی ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے کے قابل ہو گی۔

اکتوبر میں، ہندوستان کی ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت نے اس اقدام کی تعریف “مارکیٹ پر مبنی میکانزم کے طور پر کی ہے جو مختلف شعبوں میں مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ذریعے رضاکارانہ ماحولیاتی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تیار کیا گیا ہے”۔

وزیر اعظم مودی نے کہا، ’’ دنیا کو ایسے آلات کی ضرورت ہے جو سادہ اور قابل عمل ہوں اور جو بڑے پیمانے پر شرکت داری کی حوصلہ افزائی کریں۔ ‘‘

وزیر اعظم نے کہا “ہم نے اپنی جی 20 صدارت کے دوران اس مثبت سوچ کو فروغ دیا۔ ہم گرین کریڈٹس جیسے پروگراموں اور میکانزم کے ذریعے منصوبہ بندی، عمل درآمد، اور ماحولیاتی مثبت اقدامات کی نگرانی میں علم، تجربات اور بہترین طریقوں کے تبادلے کے ذریعے عالمی تعاون، تعاون اور شراکت داری چاہتے ہیں”۔

ہندوستان سی او پی 28 کے دوران ایک اعلیٰ سطحی تقریب کے دوران متحدہ عرب امارات کے ساتھ گرین کریڈٹ انیشی ایٹو کو باضابطہ طور پر شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔

وزیر اعظم نے کہا “مجھے خوشی ہے کہ متحدہ عرب امارات عالمی تعاون کے لیے اس ‘گرین کریڈٹ پہل قدمی’ کا افتتاح کرنے کے لیے ہمارے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی تقریب کی میزبانی کر رہا ہے۔

ہم اس اقدام کے آغاز کے منتظر ہیں جو ماحول دوست اقدامات کی ترغیب دیتا ہے۔ ہم تمام ممالک کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ تجربات کو بانٹنے اور ایک دوسرے کے بہترین طریقوں سے سیکھنے کے لیے اس رضاکارانہ، باہمی تعاون کی کوشش کا حصہ بنیں ‘‘۔

سبز ہائیڈروجن، سرمایہ کاریاں

ہندوستان نے اپنے سبز توانائی کے منصوبوں میں کافی ترقی کی ہے، ملک کی پائیداری کی کوششوں کو آگے بڑھایا ہے۔ جنوری 2023 میں، ہندوستان نے اپنے نیشنل گرین ہائیڈروجن مشن کا اعلان کیا، جس کا مقصد گرین ہائیڈروجن اور اس کے مشتقات کی پیداوار، استعمال اور برآمد کے لیے ایک عالمی مرکز بننا ہے۔ وزیر اعظم کے مطابق، ملک نے 2030 تک گرین ہائیڈروجن کی 5 ایم ایم ٹی پی اے کی پیداوار کا ہدف رکھا ہے۔ حال ہی میں، بھارت نے گرین ہائیڈروجن کی پیداوار پر خصوصی توجہ دینے کے ساتھ ٹیکنالوجیز کو بڑھانے میں مدد کے لیے ایک مشترکہ ہائیڈروجن ٹاسک فورس کے قیام پر بھی اتفاق کیا۔

نیشنل گرین ہائیڈروجن مشن کو 80 گیگا واٹ الیکٹرولائزر صلاحیت اور 125 گیگا واٹ قابل تجدید توانائی کی ضرورت ہے، جس میں تقریباً 100 بلین ڈالر کی کل سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا ہے، وزیر اعظم نے کہا، “متحدہ عرب امارات کے دوستوں پر زور دیا، جو پہلے ہی ہندوستان کے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں کافی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ ہندوستان میں گرین ہائیڈروجن سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنا۔

ہندوستانی وزیر اعظم نے گرین ہائیڈروجن اور گرین امونیا پروجیکٹوں کو دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ مستقبل کے تعاون کے کلیدی شعبے کے طور پر شناخت کیا، اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات، بحیرہ روم اور اس سے آگے ہندوستان سے منڈیوں کو جوڑنے کے لیے گرین ہائیڈروجن کوریڈورز کے قیام کے لیے۔

بھارت کی کلیدی جی 20 کوششیں

بھارت کی جی 20 صدارت کے دوران، ملک نے اس امر کو یقینی بنایا کہ موسمیاتی تبدییل اور موسمیاتی اقدامات پر خصوصی توجہ دی جائے، جس کا ذکر جی 20 نئی دہلی قائدین کے اعلانیے میں کیا گیا تھا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ان میں سبز ترقیاتی معاہدہ، ایس ڈی جی کے پیش رفت کو مہمیز کرنے کے سلسلے میں جی 20 ، 2023 کا لائحہ عمل ہمہ گیر ترقی کے لیے طرز حیات کے اعلیٰ سطحی اصول، ہائیڈروجن پر اعلیٰ سطحی رضاکارانہ اصول، اور ڈیزاسٹر ریلیف ورکنگ گروپ کو ادارہ جاتی شکل دینا ، شامل ہیں۔

پی ایم مودی نے کہا کہ موجودہ اہداف اور پالیسیوں کے ذریعے عالمی سطح پر قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو تین گنا کرنے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، نیز 2030 تک قومی حالات کے مطابق دیگر صفر اور کم اخراج والی ٹیکنالوجیز بشمول تخفیف اور اخراج کی ٹیکنالوجیز کے حوالے سے اسی طرح کے عزائم کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ہم ان کامیابیوں کو آگے بڑھانے کے لیے سی او پی 28 کے منتظر ہیں۔ ہم سی او پی 28 کے دوران دیگر اقدامات کو بھی فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں، جیسے کہ گرین کریڈٹ انیشیٹو، یا لیڈ آئی ٹی پہل جسے ہم نے 2019 میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ شروع کیا تھا ‘‘۔

پنچامرت

گذشتہ 9 برسوں میں، ہندوستان نے مثال کے طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ ملک موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے میں سب سے آگے ہے۔ وزیر اعظم نے کہا، “سی او پی 26 میں، میں نے عالمی ماحولیاتی کارروائی میں ہمارے تعاون کے طور پر ‘پنچامرت’- ہندوستان کے پانچ مہتواکانکشی وعدے – پیش کیے۔

پانچ مہتواکانکشی وعدوں میں درج ذیل شامل ہیں: 2030 تک 500 جی ڈبلیو غیر حجری توانائی کی صلاحیت تک پہنچنا؛ اس بات کو یقینی بنانا کہ اس کی توانائی کی ضروریات کا 50 فیصد 2030 تک قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے پورا ہو۔ اب اور 2030 کے درمیان کل متوقع کاربن کے اخراج کو ایک بلین ٹن کم کرنا؛ 2005 کی سطح کے مقابلے میں 2030 تک معیشت کی کاربن کی شدت کو 45 فیصد کم کرنا؛ اور 2070 تک خالص صفر اخراج کا ہدف حاصل کرنا۔

وزیر اعظم کے مطابق، اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے، ہندوستان نے سی او پی 27 سے پہلے اپنی تازہ ترین قومی سطح پر طے شدہ شراکتیں (این ڈی سی) جمع کرائیں، اور طویل مدتی کم اخراج کی ترقی کی حکمت عملی (ایل ٹی ۔ ایل ای ڈی ایس) جمع کرائی، جس نے سی او پی 27 کے دوران اپنے نیٹ زیرو راستے کو آگے بڑھایا۔

انہوں نے کہا، ’’ہمارا ملک واحد ایسا جی 20 ملک ہے جو اپنی این ڈی سیز کی حصولیابی کے راستے پر گامزن ہے۔ ‘‘

انہوں نے سی او پی 28 کے دوران تصور کیے گئے پہلے گلوبل اسٹاک ٹیک کی طرف بھی توجہ دلائی، اسے عالمی کوششوں کے درمیانی نکاتی جائزہ لینے کے ایک اہم موقع کے طور پر اجاگر کیا۔

وزیر اعظم مودی نے کہا ’’ مجھے امید ہے کہ یہ تقریب عالمی برادری کو کورس کی اصلاح کرنے اور 2030 کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ٹریک پر واپس آنے کو یقینی بنانے کے لیے کوششوں کو دوگنا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرے گی۔‘‘