Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے صوفی موسیقی فیسٹیول جہان خسرو 2025 میں شرکت کی

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے صوفی موسیقی فیسٹیول جہان خسرو 2025 میں شرکت کی


 وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی کی سندر نرسری میں صوفی موسیقی کے  فیسٹیول جہان خسرو 2025 میں شرکت کی۔

 جہان خسرو کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ حضرت امیر خسرو کی عظیم میراث کی موجودگی میں خوشی محسوس کرنا فطری ہے۔  انہوں نے کہا کہ موسم بہار کی خوشبو، خسرو کو بہت پسند تھی، وہ صرف موسم ہی نہیں ہے بلکہ آج بھی دہلی میں جہان خسرو کی فضاؤں میں موجود ہے۔

 جناب مودی نے ملک کے فن اور ثقافت کے لیے جہان خسرو جیسے پروگرام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ اہمیت اور سکون دونوں فراہم کرتے ہیں۔  انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اب 25 سال مکمل کرنے والے پروگرام نے لوگوں کے دلوں میں ایک نمایاں مقام حاصل کرلیا ہے اور اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔  وزیر اعظم نے ڈاکٹر کرن سنگھ، مظفر علی، میرا علی اور دیگر ساتھیوں کو ان کے تعاون کے لئے مبارکباد دی۔  انہوں نے رومی فاؤنڈیشن اور جہان خسرو سے وابستہ تمام افراد کی مستقبل میں کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔  اس موقع پر، وزیر اعظم نے مقدس مہینہ قریب آنے پر تمام حاضرین اور ملک کے شہریوں کو رمضان کی مبارکباد بھی دی۔ جناب مودی نے عالی مرتبت پرنس کریم آغا خان کے تعاون کو یاد کیا، جن کی خوبصورت سندر نرسری کو بڑھانے میں کی گئی کوششیں لاکھوں فن کے شائقین کے لیے ایک نعمت رہی ہیں۔

 وزیر اعظم نے گجرات کی صوفی روایت میں سرکھیج روزا کے اہم کردار کے بارے میں بات کی۔  انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ماضی میں یادگار کی حالت ابتر ہو گئی تھی لیکن بطور وزیر اعلیٰ انہوں نے اس کی بحالی اور تزئین کاری پر توجہ دی۔  وزیر اعظم نے اس وقت کو بھی یاد کیا جب سرکھیج روزا نے کرشن اتسو کی عظیم الشان تقریبات کی میزبانی کی تھی جس میں لوگوں نے خوب شرکت کی گئی تھی۔  انہوں نے کہا کہ آج بھی کرشن کی عقیدت کی خوشبو فضاؤں میں موجود ہے۔ جناب مودی نے بتایا کہ “میں سرکھیج روزا میں منعقد ہونے والے سالانہ صوفی میوزک فیسٹیول میں باقاعدگی سے شرکت کرتا تھا”۔ انہوں نے کہا کہ “صوفی موسیقی ایک مشترکہ ورثے کی نمائندگی کرتی ہے جو زندگی کے تمام شعبوں کے لوگوں کو متحد کرتی ہے۔  نذرے کرشنا کی کارکردگی بھی اس مشترکہ ثقافتی وراثت کی عکاسی کرتی ہے”۔

 وزیر اعظم نے کہا کہ جہان خسرو تقریب ہندوستان کی سرزمین کی نمائندگی کرتی ہے، ایک انوکھی خوشبو رکھتی ہے۔  انہوں نے یاد کیا کہ کس طرح حضرت امیر خسرو نے ہندوستان کو جنت سے تشبیہ دیتے ہوئے اس ملک کو تہذیب کا باغ قرار دیا جہاں ثقافت کا ہر پہلو پروان چڑھا ہے۔ 

جناب مودی نے کہا کہ “ہندوستان کی سرزمین ایک منفرد کردار کی حامل ہے، اور جب صوفی روایت یہاں پہنچی، تو اس کا زمین سے تعلق ملا۔  بابا فرید کی روحانی تعلیمات، حضرت نظام الدین کی محفلوں سے بھڑکنے والی محبت اور حضرت امیر خسرو کے نغمات سے پیدا ہونے والے نئے جواہرات، جو کہ ہندوستان کی شاندار ثقافتی میراث کے جوہر کو اجتماعی طور پر مجسم کرتے ہیں”۔

 وزیر اعظم نے ہندوستان میں صوفی روایت کی منفرد شناخت پر زور دیا جہاں صوفی سنتوں نے قرآنی تعلیمات کو ویدک اصولوں اور روحانی موسیقی کے ساتھ ملایا۔  انہوں نے اپنے صوفی گیتوں کے ذریعے کثرت میں وحدت کا اظہار کرنے پر حضرت نظام الدین اولیاء کی تعریف کی۔ جناب مودی نے کہا کہ’’جہان خسرو اب اس بھرپور، جامع روایت کا جدید عکاس بن گیا ہے‘‘۔

 جناب مودی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کسی بھی ملک کی تہذیب اور ثقافت کو اس کی موسیقی اور نغموں سے جلا ملتی ہے۔  انہوں نے کہا کہ “جب صوفی اور کلاسیکی موسیقی کی روایات آپس میں مل گئیں، تو انہوں نے محبت اور عقیدت کے نئے تاثرات کو جنم دیا، جو حضرت خسرو کی قوالیوں، بابا فرید کے نغمات، بُلے شاہ، میر، کبیر، رحیم اور راس خان کی شاعری میں واضح ہے۔  ان سنتوں اور صوفیوں نے عقیدت کو ایک نئی جہت دی”۔

 جناب مودی نے کہا کہ چاہے کوئی سورداس، رحیم، راس خان پڑھے، یا حضرت خسرو کو سنے، یہ تمام اظہار ایک ہی روحانی محبت کی طرف لے جاتے ہیں، جو انسانی حدود سے بالاتر ہوتے ہیں اور انسان اور خدا کے درمیان اتحاد کا احساس ہوتا ہے۔ راس خان، مسلمان ہونے کے باوجود، بھگوان کرشن کا ایک عقیدت مند پیروکار تھا، جو محبت اور عقیدت کی عالمگیر فطرت کی عکاسی کرتا ہے، جیسا کہ ان کی شاعری میں اظہار کیا گیا ہے۔  تقریب میں شاندار کارکردگی بھی روحانی محبت کے اس گہرے احساس کی عکاسی کرتی ہے۔

 وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ صوفی روایت نے نہ صرف انسانوں کے درمیان روحانی فاصلوں کو کم کیا ہے بلکہ قوموں کے درمیان فاصلوں کو بھی کم کیا ہے۔  انہوں نے 2015 میں افغان پارلیمنٹ کے اپنے دورے کو یاد کیا، جہاں انہوں نے رومی کے بارے میں جذباتی بات کی، جو آٹھ صدی قبل افغانستان کے بلخ میں پیدا ہوئے تھے۔ جناب مودی نے رومی کی سوچ کا اشتراک کیا جو جغرافیائی حدود سے ماورا ہے: “میں نہ مشرق سے ہوں نہ مغرب سے، میں نہ سمندر سے پیدا ہوا ہوں اور نہ ہی خشکی سے، میری کوئی جگہ نہیں ہے، میں ہر جگہ ہوں۔”  وزیر اعظم نے اپنی عالمی مصروفیات کے دوران اس طرح کے خیالات سے تقویت حاصل کرتے ہوئے اس فلسفے کو ہندوستان کے قدیم عقیدہ “وسودھیو کٹم بکم” (دنیا ایک خاندان ہے) سے جوڑا۔ جناب مودی نے ایران میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران مرزا غالب کا ایک شعر پڑھ کر یاد کیا جو ہندوستان کی آفاقی اور جامع اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔

جناب مودی نے حضرت امیر خسرو کے بارے میں بات کی، جو ’’طوطئ ہند‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔  انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ خسرو نے اپنی تخلیقات میں ہندوستان کی عظمت اور دلکشی کی تعریف کی ہے، جیسا کہ ان کی کتاب نوح سی پہر میں دیکھا گیا ہے۔  وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ خسرو ہندوستان کو اپنے وقت کی عظیم قوموں سے برتر سمجھتے تھے اور سنسکرت کو دنیا کی بہترین زبان سمجھتے تھے۔  جناب مودی نے کہا کہ خسرو ہندوستانی اسکالرز کو سب سے بڑے اسکالرز سے بڑا تصور کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ خسرو نے اس بات پر بھی فخر کیا کہ ہندوستان کا صفر، ریاضی، سائنس اور فلسفہ کا علم کس طرح باقی دنیا میں پھیلا، خاص طور پر ہندوستانی ریاضی کس طرح عربوں تک پہنچی اور “ہندسا” کے نام سے مشہور ہوئی۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ نوآبادیاتی حکمرانی کے طویل دور اور اس کے بعد ہونے والی تباہی کے باوجود حضرت خسرو کی تخلیقات نے ہندوستان کے شاندار ماضی کو محفوظ رکھنے اور اس کی میراث کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

 وزیر اعظم نے جہان خسرو کی کوششوں پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا، جو 25 سالوں سے ہندوستان کے ثقافتی ورثے کو کامیابی کے ساتھ فروغ دے رہی ہے۔  جناب مودی نے کہا کہ ایک چوتھائی صدی تک اس پہل کو برقرار رکھنا کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں ہے۔  وزیر اعظم جناب مودی نے اپنے خطاب کا اختتام جشن سے لطف اندوز ہونے کے موقع کے لیے شکریہ ادا کرتے ہوئے اور تقریب میں شامل ہر ایک کے لیے دلی تعریف کا اظہار کرتے ہوئے کیا۔

 پس منظر

 وزیر اعظم ملک کے متنوع فن اور ثقافت کو فروغ دینے کے زبردست حامی رہے ہیں۔  اس سلسلے میں، انہوں نے جہان خسرو پروگرام میں شرکت کی جو ایک بین الاقوامی فیسٹیول ہے جو صوفی موسیقی، شاعری اور رقص کے لیے وقف ہے۔  یہ امیر خسرو کی میراث کا جشن منانے کے لیے دنیا بھر سے فنکاروں کو اکٹھا کر رہا ہے۔  رومی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام، معروف فلمساز اور فنکار مظفر علی کی طرف سے 2001 میں شروع ہونے والے فیسٹیول کا انعقاد اس سال اپنی 25 ویں سالگرہ منا رہا ہے اور یہ 28 فروری سے 2 مارچ تک جاری رہے گا۔۔

******

(ش ح –م ع- ر ا)  

U. No.7695