Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ای ٹی نو گلوبل بزنس سمٹ2025 سے خطاب کیا

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ای ٹی نو گلوبل بزنس سمٹ2025 سے خطاب کیا


آج، وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے نئی دہلی میں ای ٹی نو گلوبل بزنس سمٹ 2025 میں خطاب کرتے ہوئے یاد دہانی کرائی کہ پچھلے ایڈیشن میں انہوں نے عاجزی کے ساتھ کہا تھا کہ بھارت اپنی تیسری مدت میں ایک نئی رفتار سے کام کرے گا۔ انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا کہ آج یہ رفتار واضح طور پر نظر آ رہی ہے اور ملک بھر سے اس کو بھرپور حمایت مل رہی ہے۔ انہوں نے اڈیشہ، مہاراشٹر، ہریانہ اور نئی دہلی کے عوام کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے وکست بھارت کے عزم کے لیے زبردست حمایت کا مظاہرہ کیا۔ وزیر اعظم نے اسے ملک کے شہریوں کی طرف سے ایک تسلیم شدہ حقیقت قرار دیا کہ وہ ایک ترقی یافتہ بھارت کے ہدف کے حصول میں کندھے سے کندھا ملا کر چل رہے ہیں۔

وزیر اعظم مودی، جو کل ہی فرانس اور امریکہ کے دورے سے واپس لوٹے، نے کہا، ’’آج، چاہے بڑے ممالک ہوں یا عالمی پلیٹ فارمز، بھارت پر اعتماد پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ جذبات پیرس میں منعقدہ اے آئی  ایکشن سمٹ میں بھی دیکھنے کو ملے۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’آج، بھارت عالمی مستقبل کی بحثوں کے مرکز میں ہے اور کئی معاملات میں قیادت بھی کر رہا ہے۔‘‘ انہوں نے اس کا سہرا 2014 کے بعد بھارت میں اصلاحات کے ایک نئے انقلاب کو دیا۔

وزیر اعظم مودی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ بھارت نے گزشتہ دہائی میں دنیا کی 5 بڑی معیشتوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا، جو وکست بھارت کی ترقی کی رفتار کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگ جلد ہی دیکھیں گے کہ بھارت چند سالوں میں دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔ انہوں نے اس رفتار کو بھارت جیسے نوجوان ملک کے لیے ضروری قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ بھارت اسی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے اصلاحات سے گریز کیا، کیونکہ وہ سخت محنت کرنے سے کتراتی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج بھارت میں جو اصلاحات کی جا رہی ہیں وہ پوری یقین دہانی کے ساتھ کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ شاید ہی کبھی اس پر بحث ہوئی ہو کہ بڑی اصلاحات ملک میں نمایاں تبدیلیاں کیسے لا سکتی ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ نوآبادیاتی حکمرانی کے بوجھ تلے جینا بھارت میں ایک عادت بن چکی تھی۔ آزادی کے بعد بھی، برطانوی دور کی باقیات کو آگے بڑھایا جاتا رہا۔

انہوں نے ایک مثال دی کہ ’’انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار کے مترادف ہے‘‘ جیسے جملے طویل عرصے سے سنے جا رہے تھے، لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ لوگ ان چیزوں کے اتنے عادی ہو گئے کہ انہیں تبدیلی کی ضرورت کا احساس تک نہ ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک ایسا نظام موجود تھا جو اچھے کاموں پر بحث کی اجازت نہیں دیتا اور ان مباحث کو روکنے میں توانائی صرف کرتا تھا۔

جناب مودی نے زور دیا کہ جمہوریت میں مثبت چیزوں پر بحث اور مباحثہ ضروری ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا تھا جس میں منفی باتیں کہنا یا منفی سوچ کو فروغ دینا جمہوری سمجھا جاتا تھا، جبکہ اگر مثبت باتوں پر بحث کی جائے تو جمہوریت کو کمزور قرار دیا جاتا تھا۔ انہوں نے اس ذہنیت سے باہر نکلنے کی ضرورت پر زور دیا۔

وزیر اعظم نے اس بات کو اجاگر کیا کہ بھارت میں جو تعزیری قوانین حال تک نافذ تھے، وہ 1860 کے دور کے تھے، جن کا مقصد نوآبادیاتی حکمرانی کو مستحکم کرنا اور بھارتی شہریوں کو سزا دینا تھا۔ جناب مودی نے کہا کہ ایک ایسا نظام جو سزا پر مبنی ہو، وہ انصاف فراہم نہیں کر سکتا، جس کے نتیجے میں فیصلے غیر ضروری طور پر تاخیر کا شکار ہوتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ 7-8 ماہ قبل جب سے نیا بھارتی عدالتی کوڈ نافذ ہوا ہے، نمایاں تبدیلیاں دیکھی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک تہرے قتل معاملے کی سماعت صرف 14 دن میں مکمل ہو گئی اور ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اسی طرح، ایک کم عمر بچے کے قتل کا مقدمہ 20 دن کے اندر مکمل ہوا۔ وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ گجرات میں 9 اکتوبر 2024 کو درج کیے گئے اجتماعی زیادتی کے کیس میں 26 اکتوبر تک چارج شیٹ داخل کر دی گئی، اور آج عدالت نے مجرموں کو سزا سنا دی ہے۔

انہوں نے آندھرا پردیش کی ایک اور مثال دی، جہاں ایک 5 ماہ کے بچے سے متعلق جرم میں عدالت نے مجرم کو 25 سال کی سزا سنائی، جس میں ڈیجیٹل ثبوت اہم ثابت ہوئے۔ ایک اور معاملے میں، ای-جیل ماڈیول کی مدد سے ایک ایسے ملزم کو گرفتار کیا گیا جس نے پہلے کسی دوسری ریاست میں جرم کیا تھا اور سزا کاٹ چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب کئی ایسے معاملات سامنے آ رہے ہیں جہاں لوگوں کو بروقت انصاف مل رہا ہے۔

ایک بڑے اصلاحاتی اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو جائیداد کے حقوق سے متعلق ہے، جناب مودی نے اقوام متحدہ کی ایک تحقیق کا حوالہ دیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ کسی بھی ملک میں جائیداد کے حقوق کی عدم دستیابی ایک بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کے پاس قانونی جائیداد کے دستاویزات نہیں ہیں، جبکہ جائیداد کے حقوق حاصل ہونے سے غربت میں کمی آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومتیں ان پیچیدگیوں سے واقف تھیں، لیکن ایسے مشکل کاموں سے گریز کرتی رہیں۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی سوچ سے نہ تو کوئی ملک تعمیر ہوتا ہے اور نہ ہی صحیح طریقے سے چلایا جا سکتا ہے۔ جناب مودی نے بتایا کہ سوامتوا یوجنا کے تحت ملک کے 3 لاکھ سے زائد دیہات میں ڈرون سروے کیے گئے اور 2.25 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو جائیداد کے کارڈ دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ سوامتوا یوجنا کی بدولت دیہی علاقوں میں 100 لاکھ کروڑ روپے مالیت کی جائیداد کو معاشی ترقی کے لیے کھولا گیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ جائیداد پہلے بھی موجود تھی، لیکن جائیداد کے حقوق کی عدم دستیابی کے باعث اسے معیشت میں شامل نہیں کیا جا سکتا تھا۔

جناب مودی نے نشاندہی کی کہ جائیداد کے حقوق نہ ہونے کی وجہ سے دیہاتیوں کو بینکوں سے قرض حاصل کرنے میں دشواری ہوتی تھی۔ لیکن اب یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو چکا ہے، اور آج ملک بھر سے ایسی بے شمار خبریں آ رہی ہیں کہ لوگ سوامتوا یوجنا کے جائیداد کارڈ سے کس طرح فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے حالیہ دنوں میں راجستھان کی ایک خاتون سے ہونے والی گفتگو کا ذکر کیا، جنہیں اس اسکیم کے تحت جائیداد کا کارڈ ملا۔ ان کا خاندان 20 سال سے ایک چھوٹے سے مکان میں رہ رہا تھا، اور جب انہیں جائیداد کا کارڈ ملا تو انہوں نے بینک سے تقریباً 8لاکھ روپے کا قرض حاصل کیا۔ اس رقم سے انہوں نے ایک دکان کھولی، اور اب اس کی آمدنی سے ان کے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات پورے ہو رہے ہیں۔

ایک اور ریاست کی مثال دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ایک دیہاتی نے اپنے جائیداد کارڈ کی مدد سے بینک سے 4.5 لاکھ روپے کا قرض لیا اور ایک گاڑی خرید کر ٹرانسپورٹ کا کاروبار شروع کیا۔ اسی طرح، ایک اور گاؤں میں ایک کسان نے اپنے جائیداد کارڈ کے ذریعے قرض لے کر اپنی زمین پر جدید آبپاشی کا نظام قائم کیا۔

وزیر اعظم نے بے شمار ایسی مثالیں پیش کیں جہاں دیہات اور غریب عوام کو ان اصلاحات کے ذریعے نئے ذرائع آمدنی ملے ہیں۔ انہوں نے ان کو حقیقی کہانیاں قرار دیا جو اصلاحات، کارکردگی، اور تبدیلی کی عکاسی کرتی ہیں، لیکن عام طور پر اخبارات اور ٹی وی چینلز میں شہ سرخیوں میں نظر نہیں آتیں۔

آزادی کے بعد ملک کے متعدد اضلاع کو ناقص حکمرانی کی وجہ سے ترقی سے محروم چھوڑ دیا گیا، اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے جناب مودی نے کہا کہ ان اضلاع پر توجہ دینے کے بجائے انہیں پسماندہ قرار دے کر ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ان کے مسائل حل کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، اور سرکاری افسران کو وہاں سزا کے تبادلے کے طور پر بھیجا جاتا تھا۔وزیر اعظم نے کہا، ’’ہم نے اس نقطۂ نظر کو بدل دیا اور 100 سے زیادہ اضلاع کو ’ایسپائریشنل ڈسٹرکٹس‘ (امنگوں والے اضلاع) قرار دیا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ نوجوان افسران کو ان اضلاع میں تعینات کیا گیا تاکہ نچلی سطح پر حکمرانی کو بہتر بنایا جا سکے۔ ان افسران نے ان شعبوں پر کام کیا جہاں یہ اضلاع پیچھے تھے اور سرکاری فلیگ شپ اسکیموں کو مشن موڈ میں نافذ کیا۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’آج، ان میں سے کئی امید افزا اضلاع، ترغیب بخش اضلاع بن چکے ہیں۔‘‘ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2018 میں آسام کے ضلع برپیٹا میں صرف 26فیصد پرائمری اسکولوں میں طلبہ اور اساتذہ کا تناسب درست تھا، جو اب 100 فیصد ہو چکا ہے۔ اسی طرح، بگوسرائے (بہار) میں 2018 میں صرف 21 فیصد حاملہ خواتین کو اضافی غذائیت فراہم کی جاتی تھی، جبکہ چندولی (اتر پردیش) میں یہ شرح 14 فیصد تھی، لیکن آج دونوں اضلاع نے 100 فیصد ہدف حاصل کر لیا ہے۔ وزیر اعظم نے بچوں کی ٹیکاکاری مہم میں ہونے والی غیر معمولی بہتری پر بھی روشنی ڈالی۔ شراوستی (اتر پردیش) میں بچوں کی ویکسینیشن کی شرح 49 فیصد سے بڑھ کر 86 فیصد ہو گئی، جبکہ رامناتھا پورم (تمل ناڈو) میں یہ 67فیصد سے 93 فیصد تک پہنچ گئی۔ انہوں نے کہا کہ ان کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے ملک کے 500 بلاکس کو اب ’ایسپائریشنل بلاکس‘ (امنگیاتی بلاکس) قرار دیا گیا ہے اور ان علاقوں میں تیزی سے کام جاری ہے۔

سمٹ میں موجود صنعت کے رہنماؤں کے کاروباری تجربے کے عشروں کو تسلیم کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ کس طرح بھارت میں کاروباری ماحول کسی وقت ان کے خواہشات کی فہرست میں شامل ہوتا تھا اور گزشتہ 10 سالوں میں ہونے والی پیش رفت کو اجاگر کیا۔انہوں نے بتایا کہ ایک دہائی پہلے، بھارتی بینک شدید بحران کا شکار تھے، بینکنگ سسٹم کمزور تھا، اور لاکھوں بھارتی شہری بینکنگ نظام سے باہر تھے۔ انہوں نے کہا،’’بھارت ان ممالک میں شامل تھا جہاں قرضوں تک رسائی سب سے زیادہ مشکل تھی۔‘‘ وزیر اعظم نے حکومت کی بینکاری کو مضبوط کرنے کی حکمت عملی کو تین نکات میں بیان کیا:
 
بے بینک افراد کو بینکنگ نظام میں شامل کرنا، غیر محفوظ لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا اوربغیر سرمایہ والے لوگوں کو مالی امداد دینا

انہوں نے نشاندہی کی کہ مالیاتی شمولیت میں نمایاں بہتری آئی ہے، اور آج تقریباً ہر گاؤں میں 5 کلومیٹر کے دائرے میں یا تو کوئی بینک برانچ موجود ہے یا کوئی بینکنگ نمائندہ خدمات فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے مدرا یوجنا کی مثال دی، جس کے ذریعے 32 لاکھ کروڑ روپے ان افراد کو فراہم کیے گئے جو پرانے بینکنگ نظام کے تحت قرض حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایم ایس ایم ای  سیکٹر کے لیے قرضے لینا اب پہلے سے زیادہ آسان ہو گیا ہے، سڑکوں پر کاروبار کرنے والے چھوٹے دکانداروں کو بھی آسان قرضوں سے جوڑا گیا ہے، جبکہ کسانوں کو دیے جانے والے قرضوں میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت ایک بڑی تعداد میں قرضے فراہم کر رہی ہے، لیکن اس کے باوجود بینکوں کے منافع میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس، 10 سال پہلے بینکوں کے بھاری نقصانات اور این پی ایز پر اخبارات میں شائع ہونے والی فکر مند تحریریں عام تھیں۔ انہوں نے کہا، ’’آج اپریل سے دسمبر تک، پبلک سیکٹر بینکوں نے 1.25 لاکھ کروڑ روپے  سے زیادہ کا منافع حاصل کیا ہے۔‘‘جناب مودی نے اس بات پر زور دیا کہ یہ صرف شہ سرخیوں کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک نظامی تبدیلی ہے، جو بینکاری اصلاحات پر مبنی ہے اور معیشت کے مضبوط ہوتے ستونوں کو ظاہر کرتی ہے۔

وزیر اعظم نے زور دیتے ہوئے کہا ’’گزشتہ دہائی میں، ہماری حکومت نے ‘کاروبار کے خوف’ کو ‘کاروبار میں آسانی’ میں تبدیل کر دیا ہے‘‘ ۔انہوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ جی ایس ٹی کے ذریعے ایک متحدہ بڑی مارکیٹ کے قیام سے صنعتوں کو بے پناہ فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 10 سالوں میں انفراسٹرکچر کی بے مثال ترقی ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں لاجسٹکس کے اخراجات میں کمی اور کارکردگی میں اضافہ ہوا ہے۔ مودی نے نشاندہی کی کہ حکومت نے سیکڑوں غیر ضروری ضوابط ختم کر دیے ہیں اور اب ’جن وشواس 2.0 ‘کے ذریعے مزید آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوسائٹی میں حکومتی مداخلت کم کرنے کے لیے ’ڈی ریگولیشن کمیشن‘ بھی قائم کیا جا رہا ہے۔

وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ بھارت مستقبل کی تیاریوں کے لحاظ سے ایک بڑی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے صنعتی انقلاب کے دوران، بھارت نوآبادیاتی حکمرانی کے شکنجے میں تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوسرے صنعتی انقلاب کے وقت، جب دنیا میں نئی ایجادات اور فیکٹریاں قائم ہو رہی تھیں، تب بھارت میں مقامی صنعتوں کو تباہ کیا جا رہا تھا اور خام مال ملک سے باہر لے جایا جا رہا تھا۔ وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ آزادی کے بعد بھی حالات زیادہ نہیں بدلے۔ جب دنیا کمپیوٹر انقلاب کی طرف بڑھ رہی تھی، تو بھارت میں کمپیوٹر خریدنے کے لیے بھی لائسنس لینا پڑتا تھا۔ انہوں نے زور دے کر کہا، ’’بھارت پہلے تین صنعتی انقلابات سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکا، لیکن اب ملک چوتھے صنعتی انقلاب میں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔‘‘

وزیر اعظم نے زور دے کر کہا ’’ہماری حکومت نجی شعبے کو وکست بھارت کے سفر کا ایک اہم شراکت دار سمجھتی ہے‘‘انہوں نے نشاندہی کی کہ حکومت نے کئی نئے شعبے نجی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیے ہیں، جیسے کہ خلائی (اسپیس) سیکٹر، جہاں نوجوان اور اسٹارٹ اپس نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈرون انڈسٹری، جو پہلے عام عوام کے لیے بند تھی، اب نوجوانوں کے لیے بے شمار مواقع فراہم کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ تجارتی کوئلہ کانکنی کے شعبے کو نجی کمپنیوں کے لیے کھولا گیا ہے اور نیلامی کے عمل کو مزید آسان بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی قابل تجدید توانائی کی کامیابیوں میں نجی شعبہ اہم کردار ادا کر رہا ہے، اور حکومت بجلی کی تقسیم کے نظام میں نجی شراکت داری کو فروغ دے رہی ہے تاکہ کارکردگی میں بہتری آئے۔ وزیر اعظم نے بجٹ میں ہونے والی ایک بڑی تبدیلی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اب نیوکلیا ئی سیکٹر کو بھی نجی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آج کی سیاست کارکردگی پر مبنی ہو چکی ہے اور بھارتی عوام نے واضح کر دیا ہے کہ وہی رہنما کامیاب ہوں گے جو زمینی سطح سے جڑے ہوں اور نتائج فراہم کریں۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومت کو عوام کے مسائل کے تئیں حساس ہونا چاہیے، جبکہ ماضی میں پالیسی سازوں میں نہ حساسیت تھی اور نہ ہی مضبوط ارادے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی حکومت نے عوامی مسائل کو حساسیت کے ساتھ سمجھا اور جوش و جذبے کے ساتھ ان کے حل کے لیے ضروری اقدامات کیے۔ مودی نے عالمی مطالعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دہائی میں بنیادی سہولیات کی فراہمی اور عوام کو بااختیار بنانے سے 25 کروڑ بھارتی غربت سے باہر نکلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بڑی آبادی اب نئو-مڈل کلاس کا حصہ بن چکی ہے، جو اپنی پہلی بائیک، پہلی کار، اور پہلا گھر خریدنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ مڈل کلاس کو سہارا دینے کے لیے حالیہ بجٹ میں صفر ٹیکس حد 7 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے کر دی گئی ہے، جس سے نہ صرف مڈل کلاس مضبوط ہوگی بلکہ اقتصادی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ وزیر اعظم نے جوش و خروش سے کہا ’’یہ کامیابیاں ایک متحرک اور حساس حکومت کی بدولت ممکن ہوئی ہیں‘‘

وزیر اعظم نریندر مودی نے زور دے کر کہا ’’وکست بھارت (ترقی یافتہ بھارت) کی حقیقی بنیاد ’بھروسہ ‘ہے، اور یہ عنصر ہر شہری، ہر حکومت، اور ہر کاروباری رہنما کے لیے ضروری ہے‘‘۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ حکومت پوری طاقت کے ساتھ عوام میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوجوان موجدوں  کو ایسا ماحول فراہم کیا جا رہا ہے جہاں وہ اپنے خیالات کو پروان چڑھا سکیں، جبکہ کاروباری طبقے کو مستحکم اور معاون پالیسیوں کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب کے اختتام پر امید ظاہر کی کہ ای ٹی سمٹ اس اعتماد کو مزید مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

******

ش ح۔ ش ا ر۔ ول

Uno-7166