نئی دہلی،29؍جون / وزیراعظم نے ،صوفی اور شاعر سنت کبیر کے 500ویں یوم وفات کے موقع پر مگہر، اترپردیش میں مجمع سے خطاب کیا۔ انہوں نے حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے کہا :
نمسکار! صاحب بندگی! آج ہم اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھ رہے ہیں کہ عظیم صوفی، سنت کبیر داس جی کی یاد میں ہورہی اس تقریب میں اس مقدس سرزمین کو چھو رہے ہیں۔آج ہم کو یہا ں آکر بہت نیک لگتا ہے۔ ہم اس مقدس سرزمین کو سلام کرتے ہوئے باڑی اور آپ سب لوگوں کے پاؤں چھوتے ہیں۔
ریاست کے مقبول اور مشہور وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی ، مرکز میں کابینہ میں میرے ساتھی جناب مہیش شرما جی، مرکز میں کابینہ میں میرے ساتھی جناب شیو پرتاپ شکلا جی ، ریاستی سرکار میں وزیر ڈاکٹر ریتا بہوگنا جی ، ریاستی سرکارمیں وزیر جناب لکشمی نارائن چودھری جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی اور اترپردیش بھارتی جنتا پارٹی کے صدر میرے دوست ڈاکٹر مہیندر ناتھ جی، ہماری پارلیمنٹ میں ایک نوجوان ، جوجھارو ، سرگرم اور نرم اور ویویک سے بھرپور ، اسی سرزمین کی اولاد ، ہمارے رکن پارلیمنٹ جناب شرت ترپاٹھی جی، اترپردیش کے چیف سکریٹری جناب راجیو کمار، یہاں موجود سبھی تجربہ کار اشخاص اور ملک کےکونے سے آئے میرے پیارے بھائیو اور بہنو! آج مجھے مگہر کی اس مقدس سرزمین پر آنے کا موقع ملا ، دل کو ایک مخصوص سکون کا احساس ہوا۔
بھائیو بہنو! ہر کسی کے دل میں یہ خواہش رہتی ہے کہ ایسے تیرتھ استھلوں پر جائیں، آج میری بھی وہ خواہش پوری ہوئی ہے۔ تھوڑی دیر پہلے مجھے سنت کبیر داس جی کی سمادھی پر پھول چڑھانے، ان کے مزار پر چادر چڑھانے کا موقع ملا۔ میں اس گپھا کو بھی دیکھ پایا، جہاں کبیر داس جی سادھنا کیا کرتے تھے۔ سماج کی صدیوں سے رہنمائی کر رہے ، رہنما ، سمدھا اور سمتا کی علامت مہاتما کبیر کوان کی نِروان بھومی میں ایک بار پھر میں کوٹی کوٹی نمن کرتا ہوں۔
ایسا کہتے ہیں کہ سنت کبیر، گرو نانک دیو اور بابا گورکھ ناتھ جی نے ایک ساتھ بیٹھ کر روحانی باتیں کی تھیں۔ مگہر آ کر میں یکسوئی محسوس کرتا ہوں۔ آج جیشٹھ شُکل پورنیما ہے۔ آج ہی سے بھگوان بھولے ناتھ کی یاترا بھی شروع ہو رہی ہے۔ میں تیرتھ یاتریوں کو محفوظ سفر کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
کبیر داس کی 500ویں یوم وفات کے موقع پر یہاں سال بھر کی تقاریب کی شروعات ہوئی ہے۔ مکمل انسانیت کے لئے سنت کبیرداس جی، جو عمدہ اثاثے چھوڑ گئے ہیں، ان کا فائدہ اب ہم سبھی کو ملنے والا ہے۔خود کبیر جی نے کہا ہے۔۔۔۔۔
تیرتھ گئے تو ایک پھل، سنت ملے پھل چار
سدگرو ملے انیک پھل، کہے کبیر وِچار
یعنی تیرتھ جانے سے ایک نیکی ملتی ہے، تو سنت کی سنگت میں چار نیکیاں حاصل ہو سکتی ہیں۔
مگہر کے اس سرزمین پر کبیر مہواتسو میں ، یہ کبیر مہواتسو ایسی ہی نیکی دینے والا ہے۔
بھائیواور بہنو! تھوڑی دیر پہلے ہی سنت کبیر اکادمی کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ تقریباً 24 کروڑ روپے خرچ کر کے یہاں مہاتما کبیر سے جڑی ہوئی یادگاروں کو سنجونے والے اداروں کی تعمیر کی جائے گی۔ کبیر نے جو سماجی بیداری جگانے کے لئے زندگی بھر کام کیا، کبیر کے گاین، تربیتی عمارت، کبیر نرتیہ تربیتی بھون، ریسرچ سنٹر، لائبریری، آڈیٹوریم، ہاسٹل، آرٹ گیلری ان سب کو تعمیر کرنے کا اس میں منصوبہ ہے۔
سنت کبیر اکادمی اترپردیش کی آنچلک زبانوں اور لوک آرٹس کے فروغ اور تحفظ کے لئے بھی کام کرے گی۔ بھائیو اور بہنو!کبیر کی ساری زندگی سچ کی تلاش میں اورجھوٹ کی مذمت میں گزری ہے۔ کبیر کی سادھنا ماننے سے نہیں ، جاننے سے شروع ہوتی ہے۔ سرسے پیر تک مست مولا، مزاج کے پھکڑ، عادت کے اکھڑ، بھگت کے سامنے سیوک، بادشاہ کے سامنے بہت دلیر، دل کے صاف، دماغ کے درست، اندر سے نرم ، باہر سے سخت تھے۔ وہ اپنے پیدائش سے ہی نہیں، بلکہ اپنے کاموں سے مشہور ہو گئے۔
مہاتما کبیر داس، وہ دھول کے اٹھے ہوئے تھے ، لیکن ماتھے کا چندن بن گئے۔ مہاتما کبیر داس شخص سے شخصیت میں تبدیل ہو گئے اور اس سے بھی آگے وہ لفظ سے لفظ برہم ہو گئے۔ وہ سوؤچھ بن کر آئے اور برتاؤ بن کر امر ہو گئے۔ سنت کبیر داس جی نے سماج کو صرف نظریہ دینے کا ہی کام نہیں کیا، بلکہ سماج کی فکر کو بیدار کرنے کا بھی اور اسے سماج کی بیداری کے لئے کانسی سے مگہر آئے۔ مگہر کو انہوں نے علامت کے طور پر اختیار کیا۔
کبیر صاحب نے کہا تھا کہ اگر ہمارے دل میں رام بستے ہیں، تو مگہر بھی سب سے مقدس ہے اور انہوں نے کہا۔۔۔
کیا کاسی ، کیا اوسر مگہر، رام ہردے بسومورا۔
وہ کسی کے شاگرد نہیں، رامانند کے ذریعے چیتائے ہوئے چیلے تھے۔سنت کبیر داس جی کہتے تھے۔۔۔
ہم کاسی میں پرکٹ بھئے ہیں، راما نند چیتائے۔ کاسی نے کبیر کو روحانی بیداری دی اور گرو سے ملایا تھا۔
بھائیو اور بہنو!کبیر بھارت کی آتما کا گیت، رَس اور سار کہے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے عام دیہی ہندوستان کے دل میں بات کو اس کی بول چال کی زبان میں پِرویا تھا۔ گروراما نند کے شاگرد تھے، اس لئے ذاتی کیسے مانتے۔ انہوں نے ذات پات کے بھید کو توڑا۔
سب مانس کی ایک ذاتی، یہ اعلان کیا اور اپنے اندر کے غرور کو ختم کرکے ا س میں بیٹھے ایشور کا درشن کرنے کا کبیرداس جی نے راستہ دکھایا۔وہ سب کے تھے، اس لئے سب ان کے ہو گئے ۔ انہوں نے کہا تھا۔۔۔
کبیرا کھڑا بازار میں مانگے سب کی خیر
نہ کاہو سے دوستی نہ کاہو سے بیر
ان دوہوں کو سمجھنے کے لئے کسی لغت کی ضرورت نہیں ہے۔ عام بول چال کی ہماری آپ کی زبان، ہوا کی سرلتا اور سہجتا۔
کے زندگی کے گہرے رازوں کو انہوں نے جن جن کو سمجھا دیا۔ اپنے بھیتر بیٹھے رام کو دیکھو، ہری تو من میں ہیں، باہر کے آڈمبرو پر کیوں وقت بیکار کرتے ہو، اپنے کو سدھارو، تو ہری مل جائیں گے۔۔۔
جب میں تھا، تب ہری نہیں، جب ہری ہیں، میں نہیں ۔
سب اندھیارا مٹ گیا، دیپک دیکھا ماہی۔
جب میں اپنے غرو ڈوبا تھا، جب پربھو کو نہیں دیکھ پاتا تھا، لیکن گرو نے علم کا دیپک اندر جلایا، تب جہالت کا سب اندھیرا مٹ گیا۔
ساتھیو، یہ ہمارے ملک کی عظیم سرزمین کی تپسیہ ہے ، اس کا تقدس ہے کہ وقت کے ساتھ سماج میں آنے والی اندرونی برائیوں کو ختم کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً رِشی مُنی ، آچاریوں نے، بھگونتوں نے، سنتوں نے رہنمائی کی ہے۔ سینکڑوں سال کے غلامی کے کالے حصے میں اگر ملک کی روح بچی رہی، ملک کا مزاج، ہم آہنگی اور یکجہتی قائم رہی، تو ایسے عظیم تیجسوی، تپسوی سنتوں کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔
***
سماج کو راستہ دکھانے کے لئے بھگوان بدھ پیدا ہوئے، مہاویر آئے، سنت کبیر، سنت سداس، سنت نانک جیسے سنتوں کا سلسلہ ہماری رہنمائی کرتا رہا۔ شمال ہو یا جنوب، مشرق ہو یا مغرب- برائیوں کے خلاف ملک کے ہر علاقے میں ایسی عظیم ہستیوں نے جنم لیا ، جس نے ملک کے شعور کو بچانے کا، اس کے تحفظ کا کام کیا۔
جنوب میں مادھوآچاریہ، نمباگاراآچاریہ، وللبھ آچاریہ، سنت بسیسور، سنت تروگل، تروولور، رامانجن آچاریہ۔ اگر ہم مغربی بھارت کی جانب دیکھیں تو مہرشی دیانند، ميرابائی، سنت ایک ناتھ، سنت تکارام، سنت رام داس، سنت گیانیشور، نرسي مہتا۔ اگر شمال کی طرف نظر کریں تو رامانند، كبيرداس، گوسوامی تلسی داس، سورداس، گرو نانک دیو، سنت رےداس۔ اگر مشرق کی طرف دیکھیں تو رام کرشن پرم ہنس، چیتنیہ مہاپربھو اور آچاریہ شنكرےدیو جیسے سنتوں کے خیالات نے اس راستے کو روشنی دی۔
انہیں سنتوں، انہیں عظیم لوگوں کا اثر تھا کہ ہندوستان اس دور میں بھی تمام مشکلات کو سہتے ہوئے آگے بڑھ پایا اور خود کو بحرانوں سے باہر نکال پایا۔
اعمال اور چمڑی کے نام پر تفریق کے بجائے خداکی عبادت کا جو راستہ رامانجن آچاریہ نے دکھایا، اسی راستے پر چلتے ہوئے سنت رامانند نے تمام ذاتوں اور فرقوں کے لوگوں کو اپنا شاگرد بنا کر ذات پات پر سخت حملہ کیا ہے۔ سنت رامانند نے سنت کبیر کو رام نام کی راہ دکھائی۔ کبیر اس رام نام کے سہارے نسل درنسل لوگوں میں شعور بیدار کر رہے ہیں۔
بھائیو اور بہنو! طویل عرصے کے بعد، سنت کبیر کے بعدرے داس آئے تھے۔ سینکڑوں سال کے بعد مہاتما پھولے آئے، مہاتما گاندھی آئے، بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر آئے۔ معاشرے میں عدم مساوات کے خاتمے پر قابو پانے کے لئے، ہر ایک نے معاشرے کو اپنا راستہ دکھایا ہے۔
بابا صاحب نے ہمیں ملک کا آئین دیا۔ ایک شہری کے طور پر، سب کو مساوات کا حق دیا ہے۔ بدقسمتی سے آج ان عظیم لوگوں کے نام پر سیاسی مفاد کی ایک ایسی دھارا چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو معاشرے کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کچھ سیاسی پارٹیوں کو معاشرے میں امن اور ترقی نہیں، لیکن انہیں چاہئے اختلاف، انہیں چاہئے بدامنی. وہ اتنا محسوس کرتے ہیں کہ وہ ناپسندیدہ اور بدقسمتی کا ماحول پیدا کرتے ہیں، وہ سیاسی فائدہ اٹھائیں گے. لیکن سچ یہ ہے – ایسے لوگ زمین سے کٹ چکے ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ سنت کبیر، مہاتما گاندھی، بابا صاحب کو ماننے والے ہمارے ملک کا اصل مزاج کیا ہے۔
کبیر کہتے تھے-
اپنے اندر جھاكو تو سچ ملے گا، پر انہوں نے کبھی کبیر کو سنجیدگی سے پڑھا ہی نہیں. سنت کبیرداس جی نے کہا تھا
پوتھی پڑھی-پڑھی جگ موا، پنڈت بھیا نہ کوئے،
ڈھائی آکھر پریم کا پڑھے سو پنڈت ہوئے۔
عوام سے، ملک سے، اپنے معاشرے کے تئیں، اس کی ترقی سے ذہن لگاؤ، تو ترقی کے لئے ترقی کا جو ہری ہے، وہ ترقی کا ہری مل جائے گا، لیکن ان لوگوں کا دماغ لگا ہوا ہے، ان کےعالیشان بنگلوں میں۔ مجھے یاد ہے جب غریب اور درمیانے طبقے کے لوگوں کو گھر دینے کے لئے پردھان منتری آواس یوجنا شروع ہوئی، تو یہاں جو پہلے والی حکومت تھی، ان کا رویہ کیا تھا۔
ہماری حکومت نے خط پر خط لکھے، کئی بار فون پر بات کی گئی، اس وقت کی یوپی حکومت آگے آئے، غریبوں کے لئے بنائے جانے والے گھروں کی کم از کم تعداد تو بتائے، لیکن وہ ایسی حکومت تھی، جو اپنے بنگلے میں دلچسپی رکھتی تھی، لیکن وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے اور جب سے يوگی جی کی حکومت آئی، اس کے بعد اتر پردیش میں غریبوں کے لئے ریکارڈ، ریکارڈ گھروں کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
ساتھیو، کبیر نے زندگی کے تمام اصولوں پر توجہ دی۔ دنیا کے اصولوں کو نہیں، اپنے اصول خود بنائیں اورصحیح سمجھیں اصولوں پر ، یہ مگہر آنے کی وجہ تھی۔ انہوں نے نجات کا موہ نہیں پالا، لیکن غریبوں کو جھوٹا دلاسہ دینے والے، سماج وادیوں اور بہوجن کی باتیں کرنے والوں میں اقتدار کی لالچ بھی آج ہم بخوبی دیکھ رہے ہیں۔
صرف دو دن قبل ہی ملک میں ایمرجنسی کے 43 سال پورے ہوئے ہیں۔ اقتدار کا لالچ ایسا ہے کہ ایمرجنسی لگانے والے اور اس وقت ایمرجنسی کی مخالفت کرنے والے، آج شانہ بہ شانہ کرسی جھپٹنے کی فراق میں گھوم رہے ہیں۔ یہ ملک نہیں، سماج نہیں، صرف اپنے اور اپنے خاندان کے مفادات کے بارے میں فکر مند ہیں۔ غریبوں، دلتوں، پسماندہ، محروم، استحصال شدہ لوگوں کو دھوکہ دے کر اپنے لئے کروڑوں کے بنگلے بنانے والے ہیں۔ آپ کے بھائی، آپ کے رشتہ داروں کو کروڑوں، اربوں کی جائیداد کا مالک بنانے والے ہیں۔ اتر پردیش اور ملک کے لوگوں کو ایسے لوگوں کے ساتھ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
ساتھیو، آپ نے تین طلاقوں کے معاملے میں ان لوگوں کا رویہ دیکھا ہے۔ ملک بھر میں مسلم معاشرے کی بہنیں آج تمام دھمکیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تین طلاق ہٹانے، اس برائی سے سماج کو نجات دلانے کے لئے مسلسل مطالبہ کر رہی ہیں۔ لیکن یہ سیاسی پارٹیاں، یہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے ووٹ بینک کا کھیل کھیلنے والے لوگ، تین طلاق کے بل کے پارلیمنٹ میں پاس ہونے پر روڑے اٹکا رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ معاشرہ ہمیشہ کمزور رکھنا چاہتے ہیں، اسے برائی سے آزاد نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔
ساتھیوں، کبیر کا وجود جس وقت ہوا تھا، تب بھارت، بھارت کے اوپر ایک شدید حملے کا تاج تھا۔ ملک کا عام شہری پریشان تھا۔ سنت کبیرہ جی نے پھر شہنشاہ کو چیلنج کیا اور کبیرداس کی چیلنج تھی۔۔۔
در کی بات کہو دَرویسا بادشاہ ہے کون بھیسا
کبیر نے کہا تھا مثالی حکمران وہی ہے، جو عوام کے مصائب کو سمجھتا ہو اور اسے دور کرنے کی کوشش کرتا ہو۔ انہوں نے مثالی بادشاہ رام کو حکمران تصور کیا تھا۔ ان کی تخیل کی حالت جمہوریت اور مذہب سے بے بنیاد تھی، لیکن افسوس آج بہت خاندان خود کو عوام کی قسمت کا ودھاتا سمجھ کر سنت كبيرداس جی کی کہی باتوں کو مکمل طور مسترد کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ ہماری جدوجہد اور نظریات کی بنیاد کبیر جیسے عظیم لوگ تھے۔
کبیر جی نےبغیرکسی شرم لحاظ کے دقیانوسی باتوں پر براہ راست وار کیا تھا۔ انسان اور انسان کے درمیان فرق کرنے والے ہر نظام کو چیلنج کیا تھا۔ جو دبا کچلا تھا، جو محروم تھا، جو استحصال کا شکار تھا، کبیر اسے بااختیار بنانا چاہتے تھے۔
سنت کبیرداس نے کہتے تھے کہ
مانگن مرن سمان ہے، مت کوئی مانگو بھیک
مانگن تے مرنا بھلا، یہ ست گرو کی سیکھ
کبیرداس خود ایک محنت کش تھے۔ انہوں نے محنت کی اہمیت کو سمجھا، لیکن آزادی کے اتنے سالوں بعد ہمارے پالیسی سازوں نے کبیر کے اس فلسفہ کو نہیں سمجھا۔ غربت کے خاتمے کے نام پر، وہ غریبوں کو ووٹ بینک کی سیاست پر منحصر کرتے رہے۔
ساتھیو، گزشتہ چار سالوں میں، ہم نے اس پالیسی کو تبدیل کرنے کی ہر کوشش کی ہے۔ ہماری حکومت غریب، دلت، استحصال، محروم، خواتین، نوجوانوں کو، بااختیار بنانے کی راہ پر چل رہی ہے۔ جن دھن یوجنا کے تحت اتر پردیش میں تقریبا پانچ کروڑ غریبوں کے بینک اکاؤنٹ کھول کر، 80 لاکھ سے زیادہ خواتین کو اُجّولا منصوبہ کے تحت مفت گیس کنکشن دے کر، تقریبا ایک کروڑ 70 لاکھ غریبوں کو صرف ایک روپیہ مہینہ اور دن میں 90 پیسے کے پریمیم پر سیکورٹی انشورنس کوچ دے کر، یوپی کے دیہات میں سوا کروڑ بیت الخلاء بنا کر، لوگوں کے بینک اکاؤنٹ میں براہ راست پیسے ٹرانسفر کرکے غریبوں کو بااختیار بنانے کا کام کیا۔ آیوش مان نے اپنے غریب خاندانوں کو سستی، قابل رسائی اور بہترین صحت کی دیکھ بھال کیلئے ایک بہت بڑا بیڑہ اٹھایا ہے۔ حکومت نے غریب کی عزت اور اس کی زندگی کو آسان بنانے کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔
ساتھیو، کبیر ایک محنت کش تھے، وہ کرم یوگی تھے، کبیر نے کہا تھا ۔۔۔
کال کرو ، سو آج کر
کبیر نے کام میں یقین کیا،وہ رام میں یقین رکھتے تھے۔ آج تیزی سے پورے ہوتے ہوئے منصوبوں، دوگنی رفتار سے بنتی سڑکیں، نئے ہائی وے، دو گنی رفتار سے ہوتا ریلوے لائنوں کی برق کاری، تیزی سے بن رہے نئے ایئرپورٹ، دوگنی سے بھی زیادہ تیزی سے بن رہے گھر، ہر پنچایت تک بچھائی جا رہی آپٹيكل فائبر نیٹ ورک، تمام کام کی رفتار کبیر مارگ کا عکاسی کرتی ہے۔ یہ ‘سب کا ساتھ-سب کا وکاس’ منتر، ہماری حکومت کی روح ہے۔
ساتھیو، جس طرح کبیر کے زمانے میں مگہر کو بنجر اور لعنت زدہ سمجھا گیا تھا، ٹھیک اسی طرح آزادی کے اتنے سالوں تک ملک کے صرف چند حصوں تک ترقی کی روشنی پہنچ پائی تھی۔ بھارت کا ایک بڑا حصہ خود کو الگ الگ محسوس کر رہا تھا۔ مشرقی اترپردیش سے لے کر مشرقی اورشمالی، شمال- مشرقی بھارت ترقی کے لئے ترس گیا تھا، جس طرح کبیر نے مگہر کو لعنت سے آزاد کیا ، اسی طرح ہماری حکومت کی کوشش ہے کہ بھارت کی سرزمین کو ترقی کے راستے پر گامزن کیا جائے۔
بھائیو اور بہنو! پوری دنیا مگہر کو سنت کبیر کے نِروان بھومی کے طور پر جانتی ہے، لیکن آزادی کے بہت سے سالوں بعد، یہاں بھی صورت حال ویسی نہیں تھی، جیسی ہونی چاہئے۔ 14-15 سال پہلے جب سابق صدر عبدالکلام جی یہاں آئے تھے، تو انہوں نے اس جگہ کے لئے خواب دیکھا تھا، ان کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے مگہر کو یبن الاقوامی نقشے میں بھائی چارہ، ہم آہنگی کے مرکز کے طور پر تیار کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔
حکومت نے سودیش درشن اسکیم کے تحت ملک بھر میں مگہر کی طرح ہی عقیدت اور روحانیت کے مرکز کو فروغ دینے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ رامین سرکٹ ہو، بدھ سرکٹ ہو، صوفی سرکٹ ہو، جیسے متعدد سرکٹ بناکر الگ الگ جگہوں کو فروغ دینے کا کام کیا جا رہا ہے۔ ساتھیو! انسانیت کی سلامتی، عالمی بھائی چارے اور باہمی محبت کے لئےکبیر کی وانی ایک بہت بڑا آسان ذریعہ ہے۔ ان کی آواز پر جوش اور سماجی ہم آہنگی سے لبریز ہے۔
ضرورت کبیر صاحب کی وانی کوجَن –جَن تک پہنچایا جائے، اس کے مطابق چلا جائے۔ مجھے امید ہے کہ کبیر اکیڈمی اس میں ایک اہم کردار ادا کرے گی۔ ایک بار پھر باہر سے آئے ہوئے عقیدتمندوں کو سنت کبیر کی اس مقدس سرزمین پر آنے کے لئے ان کا بہت احسان مند ہوں، زندگی میں سنت کبیر کے امرت وَچنوں کوزندگی میں ڈھال کرنیو انڈیا کےعزم کو حاصل کر پائیں گے۔
اسی یقین کے ساتھ ، اب میں اپنی بات ختم کرتا ہوں، آپ کا بہت بہت شکریہ!
صاحب بندگی، صاحب بندگی، صاحب بندگی۔
U. No. 3385
आज मेरी बरसों की कामना पूरी हुई है..
— PMO India (@PMOIndia) June 28, 2018
संत कबीर दास जी की समाधि पर फूल चढ़ाने का,
उनकी मजार पर चादर चढ़ाने का, सौभाग्य प्राप्त हुआ।
मैं उस गुफा में भी गया, जहां कबीर दास जी साधना करते थे: PM
आज ज्येष्ठ शुक्ल पूर्णिमा है..
— PMO India (@PMOIndia) June 28, 2018
आज ही से भगवान भोलेनाथ की यात्रा शुरु हो रही है।
मैं तीर्थयात्रियों को सुखद यात्रा के लिए शुभकामनाएं भी देता हूं।
कबीर दास जी की 500वीं पुण्यतिथि के अवसर पर आज से ही यहां कबीर महोत्सव की शुरूआत हुई है: PM
थोड़ी देर पहले यहां संत कबीर अकादमी का शिलान्यास किया गया है।
— PMO India (@PMOIndia) June 28, 2018
यहां महात्मा कबीर से जुड़ी स्मृतियों को संजोने वाली संस्थाओं का निर्माण किया जाएगा।
कबीर गायन प्रशिक्षण भवन, कबीर नृत्य प्रशिक्षण भवन, रीसर्च सेंटर,
लाइब्रेरी,
ऑडिटोरियम,
हॉस्टल,
आर्ट गैलरी विकसित किया जाएगा: PM
कबीर की साधना ‘मानने’ से नहीं, ‘जानने’ से आरम्भ होती है..
— PMO India (@PMOIndia) June 28, 2018
वो सिर से पैर तक मस्तमौला, स्वभाव के फक्कड़
आदत में अक्खड़
भक्त के सामने सेवक
बादशाह के सामने प्रचंड दिलेर
दिल के साफ
दिमाग के दुरुस्त
भीतर से कोमल
बाहर से कठोर थे।
वो जन्म के धन्य से नहीं, कर्म से वंदनीय हो गए: PM
वो धूल से उठे थे लेकिन माथे का चन्दन बन गए।
— PMO India (@PMOIndia) June 28, 2018
वो व्यक्ति से अभिव्यक्ति और इससे आगे बढ़कर शब्द से शब्दब्रह्म हो गए।
वो विचार बनकर आए और व्यवहार बनकर अमर हुए।
संत कबीर दास जी ने समाज को सिर्फ दृष्टि देने का काम ही नहीं किया बल्कि समाज को जागृत किया: PM
कबीर ने जाति-पाति के भेद तोड़े,
— PMO India (@PMOIndia) June 28, 2018
“सब मानुस की एक जाति” घोषित किया,
और अपने भीतर के अहंकार को ख़त्म कर उसमें विराजे
ईश्वर का दर्शन करने का रास्ता दिखाया।
वे सबके थे, इसीलिए सब उनके हो गए: PM
ये हमारे देश की महान धरती का तप है, उसकी पुण्यता है कि समय के साथ, समाज में आने वाली आंतरिक बुराइयों को समाप्त करने के लिए समय-समय पर ऋषियों, मुनियों, संतों का मार्गदर्शन मिला।
— PMO India (@PMOIndia) June 28, 2018
सैकड़ों वर्षों की गुलामी के कालखंड में अगर देश की आत्मा बची रही, तो वो ऐसे संतों की वजह से ही हुआ: PM
कुछ दलों को शांति और विकास नहीं, कलह और अशांति चाहिए
— PMO India (@PMOIndia) June 28, 2018
उनको लगता है जितना असंतोष और अशांति का वातावरण बनाएंगे
उतना राजनीतिक लाभ होगा।
सच्चाई ये है ऐसे लोग जमीन से कट चुके हैं
इन्हें अंदाजा नहीं कि संत कबीर, महात्मा गांधी, बाबा साहेब को मानने वाले हमारे देश का स्वभाव क्या है: PM
समाजवाद और बहुजन की बात करने वालों का सत्ता के प्रति लालच आप देख रहे हैं
— PMO India (@PMOIndia) June 28, 2018
2 दिन पहले देश में आपातकाल को 43 साल हुए हैं। सत्ता का लालच ऐसा है कि आपातकाल लगाने वाले और उस समय आपातकाल का विरोध करने वाले एक साथ आ गए हैं।
ये समाज नहीं, सिर्फ अपने और अपने परिवार का हित देखते हैं: PM
जनधन योजना के तहत उत्तर प्रदेश में लगभग 5 करोड़ गरीबों के बैंक खाते खोलकर,
— PMO India (@PMOIndia) June 28, 2018
80 लाख से ज्यादा महिलाओं को मुफ्त गैस कनेक्शन देकर,
करीब 1.7 करोड़ गरीबों को बीमा कवच देकर,
1.25 करोड़ शौचालय बनाकर,
गरीबों को सशक्त करने का काम किया है: PM
14-15 वर्ष पहले जब पूर्व राष्ट्रपति अब्दुल कलाम जी यहां आए थे, तब उन्होंने इस जगह के लिए एक सपना देखा था।
— PMO India (@PMOIndia) June 28, 2018
उनके सपने को साकार करने के लिए,
मगहर को अंतरराष्ट्रीय मानचित्र में सद्भाव-समरसता के मुख्य केंद्र के तौर पर विकसित करने का काम अब किया जा रहा है: PM