نئیدہلی،08مئی ۔نیپال کی راجدھانی کاٹھمنڈو کے راشٹریہ سبھا گرہ میں منعقد ،شہری استقبالیہ کی تقریب میں وزیر اعظم نے جو تقریر کی تھی اس کا متن حسب ذیل ہے :
شاکیہ جی !
آپ اور آپ کے ساتھیوں نے کاٹھمنڈو کے میونسپل کارپوریشن میں میرے لئے جو استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا ہے ، میں اس کے لئے آپ سب کا انتہائی ممنون ہوں ۔ یہ صرف میرا نہیں بلکہ پورے ہندوستان کا اعزاز ہے ۔اس کے لئے میں ہی نہیں ہندوستان کے سوا سو کروڑ شہری بھی ممنون ہیں ۔ کاٹھمنڈو اور نیپال سے ہر ہندوستانی کا ایک اپنے پن کا رشتہ ہے اور یہ خوش نصیبی مجھے بھی حاصل ہے ۔میں جب بھی نیپال آتا ہوں تو مجھے انتہائی سکون اور قربت کا احساس ہوتا ہے اور اس سب سے بھی بڑی وجہ آپ کا پیار ، آپ کی محبت ، آپ کا گرم جوش استقبال ، مہماں نوازی اور اعزاز ہے ۔
میں کل جنک پور میں تھا ۔جنک پور آج کے عہد کو ایک بہت بڑا پیغام دیتا ہے ۔ راجہ جنک کی کیا خصوصیت تھی ۔انہوں نے ہتھیاروں سے تعلق ختم کرکے محبت سے جوڑدیا ۔ یہ ایسی سرزمین ہے جو ہتھیار سے تعلق ختم کرکے محبت سے جوڑدیتی ہے ۔
ساتھیو!
میں جب بھی کاٹھمنڈو کے بارے میں سوچتا ہوں تو وہ صرف ایک شہر کی تصویر نہیں ہے ، ایک جغرافیائی وادی کی تصویر نہیں ہے بلکہ ہمارے پڑوسی اور گہرے ملک دوست نیپال کی راجدھانی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ مہاتما بودھ کی جائے پیدائش بھی یہی ہے ۔ایوریسٹ کی چوٹی کے ملک کی للی بُراج کی راجدھانی ہی نہیں بلکہ کاٹھمنڈو اپنے آپ میں پوری ایک دنیا ہے اور اس دنیا کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے ، اتنی ہی شاندار ہے اور اتنی ہی عظیم ہے جتنا کہ کوہ ہمالیہ ہے ۔
مجھے کاٹھمنڈو نے ،نیپال نے ہمیشہ اپنی طرف راغب کیا ہے ۔ کیونکہ یہ شہر جتنا گھنا ہے ،اتنا ہی تیز رفتار بھی ہے ۔ یہ ہمالیہ کی گود میں بسا ایک انمول رتن ہے ۔ کاٹھمنڈو صرف لکڑی کا منڈپ نہیں ہے ۔ یہ ہماری مشترکہ تہذیب اور وراثت کا ایک منوّر محل ہے ۔ اس شہر کی ہمہ جہت نوعیت میں نیپال کی عظیم وراثت اور اس کے بڑے دل کی جھلک محسوس ہوتی ہے ۔ناگارجن کے جنگل ہوں یا شیو پوری کی پہاڑیاں سیکڑوں جھرنوں اور دریاؤں کی پُرسکون رفتار ہو یا پھر ہزاروں مندروں ، منجو شری کی گپھائیں ہو ں ، بودھ وہاروںکا یہ شہر پوری دنیا میں اپنی منفرد خصوصیت کا حامل ہے ۔ یہاں کی عمارتوں کی چھت سے ایک طرف دھولہ گری اور ان پورنا اور دوسری جانب ساگر ماتھا اور کنچن جنگھا کی چوٹیاں ۔ یہ وہی ساگر ماتھا ہے جسے دنیا ایوریسٹ کے نام سے جانتی ہے ۔ ان سب کے درشن کا اعزاز کاٹھمنڈو میں ہی ممکن ہے ۔ وسنگ کنج کی بانگی ، پاٹن کا اقبال ، بھرت پور کی شاندار عظمت ، کیرت پور کی کلا اور للت پور کا حسن کاٹھمنڈو نے اپنے آپ میں جیسے قوس وقزح کے سبھی رنگوں کو سمیٹ رکھا ہے ۔ یہاں کی آب وہوا میں روایات ایسی گھل مل گئی ہیں جیسے چندن میں رولی ۔ پشوپتی ناتھ میں پرارتھنا اور بھگتوںکی بھیڑ سوئم بھو کی سیڑھیوں پر روحانیت کی چہل قدمی ، بودھا میں پری کرما کررہے عقیدت مندوں کے ہرقدم پر ’ اوم منی پدمیہم ‘کی گونج ۔ ایسا لگتا ہے جیسے تاروں پر سرگم کے سارے سُر گلے مل رہے ہوں ۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں نیواری طبقے کے تہواروں سمیت کچھ تہوار ایسے بھی ہیں جس میں بودھ اورہندوقدروں اور روایات کا غیر معمولی خوبصورت سنگم موجود ہے ۔ روایت اور تہذیب نے کاٹھمنڈو کی دستکاری اور فنکاروں کو منفرد بنادیا ہے ۔ خواہ وہ دستی کاغذ ہو یا تارہ اور بودھ جیسے مجسمے ، بھرت پور کی مٹی سے بنے برتن ہوں یا پاٹن میں پتھر ، لکڑی اور دھات کا کام ہو ۔ نیپال کا منفرد فن اور فنکاری کا یہ عظیم میلہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ یہاں کی نئی نسل اس روایت کی بخوبی پاسداری کررہی ہے اور اس میں جوانی سے مطابقت رکھتے ہوئے کچھ تبدیلیاں کرکے نیا فن پیدا کررہی ہے ۔
ساتھیو !
مجھے اب تک دو بار نیپال کا سفر کرنے کو موقع ملا اور دونوں بار ہی مجھے پشوپتھ ناتھ کے درشن کی خوش نصیبی حاصل ہوئی ۔ یہ مقامات محض تیرتھ استھل ہی نہیں ہیں بلکہ ہندوستان اور نیپال کے محکم اور اٹوٹ رشتوں کے ہمالیہ پہاڑ کی حثیت رکھتے ہیں ۔مجھے آئندہ جب بھی نیپال کا سفر کرنے کا موقع ملے گا میں وقت نکال کر بھگوان بودھ کی جائے پیدائش لوبینی جانے کا پروگرام ضرور بناؤں گا ۔
ساتھیو!
امن اور قدرت کے ساتھ توازن اور روحانی زندگی کی قدروں سے مالا مال ہمارے دونوں ملکوں کی قدروں کا نظام بنی نوع انسان اور پوری دنیا کی ایک انمول وراثت ہے ۔ اسلئے یہ بات اپنے آپ میں حیرت ناک نہیں کہ پوری دنیا کے لوگ سکون اور امن کی تلاش میں ہندوستان اور نیپال کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں ۔
کوئی بنارس جاتا ہے تو کوئی بودھ گیا ، کوئی جاکر ہمالیہ کی گود میں رہتا ہے تو کوئی بودھ کے وہاروں میں سادھنا کرتا ہے ۔موجودہ زندگی کی بے چینیوں کی سد باب ہندوستان اور نیپال کی مشترکہ قدروں میں ہی مل سکتا ہے ۔
ساتھیو!
باگھمتی کے ساحل پر ، کاٹھمنڈو میں پشوپتی ناتھ اورگنگا کے ساحل پر کاشی وشو ناتھ ، بودھ کی جائے پیدائش لومبنی اور مقام ریاضت بودھ گیا اور علاقۂ پیغام سارناتھ ۔ یہ سب اپنے آپ میں انتہائی منفرد مذہبی تقدیس کے مقامات ہیں ۔ہم سبھی ہزاروں برسوں کی مشترکہ وراثت کے مالک ہیں ۔ ہماری یہ مشترکہ وراثت ہمارے دونوں ملکوں کی نئی نسل کی میراث ہے ۔ اس میں ان کے ماضی کی جڑیں ، حال کے بیج اورمستقبل کے انکر موجود ہیں ۔ پوری دنیا میں آج متعد د اقسام کی تبدیلیوں کا دور جاری ہے ۔عالمگیریت کی فضا عدم استحکام اور غیر یقینی کی صورتحال سے بری طرح متاثر ہے ۔ ایسے حالات میں ہمارے دونوں ملکو ں کے یہ مقدس مقامات ہی امن وسکون کا مصدر ومنبع ہیں ۔
ساتھیو !
ہزاروں برسوں سے وسودھیو کٹمبکم یعنی ساری دنیا ایک کنبہ ہے ۔ یہ ہندوستان کا فلسفہ رہا ہے ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس ۔ ہم اپنے غیر ملکی تعاون پر بھی اتنی ہی پاکیزگی سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ہندوستان کے شاستروں میں پرارتھنا ہے : ’’سروے بھونتو سکھنہ ۔سروے سنتو نرامیہ ۔ سروے بھدرانڑی پشینتو ماکشرتھ ۔دکھ بھاگ بھویت یعنی سب خوش رہیں ،سب تندرست رہیں ۔سب کی فلاح ہواور کسی کو دکھ یا تکلیف نہ ہو۔ ہندوستان کے منیوں نے ہمیشہ یہی خواب دیکھا ہے ۔اس آدرش کے اصول کے لئے ہماری خارجہ پالیسی سب کو ساتھ لے کر چلنے پر مبنی ہے ۔خاص طور پر پڑوس میں ہندوستان کے تجربات اور ہندوستان کے مواقع کی شراکتداری کی جاتی ہے۔ ہماری تہذیب میں ،’’ نیبر ہُڈ فرسٹ ‘‘یعنی پڑوسی پہلے کی ہماری تہذیب میں صرف خارجہ پالیسی ہی نہیں زندگی کا اسلوب بھی شامل ہے ۔ متعددایسی مثالیں موجود ہیں جہاں ہندوستان ترقی پذیر ہوتے ہوئے بھی 50 سال سے بھی زائد مدت سے انڈین ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کارپوریشن کے پروگرام کے تحت 160 سے زائد ملکوں می اہلیت سازی کے لئے نہ صرف تعاون کررہا ہے بلکہ ان ملکوں کی ضرورت کے مطابق ہمارا تعاون مسلسل جاری ہے ۔
گزشتہ برس ہندوستان نے ایک ساؤتھ ایشیا سیٹلائٹ خلا میں بھیجا تھا ۔اس سے ہماری خلائی اہلیت کے خوش گوار نتائج ہمارے پڑوسی ملکوں کو خوبصورت سوغات کی صورت میں حاصل ہورہے ہیں ۔ میں جب اسی ایوان میں سارک سمٹ کے لئے آیاتھا تو میں نے اسی اسٹیج سے یہ اعلان کیا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی ہم اس بات پر بھی توجہ دے رہے ہیں کہ آج پوری دنیا کو جو چیلنج درپیش ہیں ، جن کا سامنا کوئی ایک اکیلا ملک تنہا نہیں کرسکتا ۔ ہم ان چیلنجوںکا سامنا کرنے کے لئے کس طرح بین الاقوامی شراکتداریوں کو فروغ دیں اس پر کام کررہے ہیں ۔ مثال کے طور پر 2016 میں ہندوستان اور فرانس نے مل کر تبدیلی ماحولیات کے حوالے سے ایک نئی بین الاقوامی تنظیم ،’’ ٹریٹی بیسڈ آر گنائیزیشن ‘‘ کا تصور پیش کیا تھا ۔ یہ انقلائی قدم اب ایک کامیاب تجربے کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔
اسی سال مارچ کے مہینے میں فرانس کے صدر محترم جناب میکرو اور تقریباََ 50 دیگر ملکوں کے لیڈروں نے دلی میں انٹر نیشنل سولر الائنس کے پہلے اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کی ۔ایسی کوششوں سے کلائمیٹ چینج یعنی تبدیلی ماحولیات جیسے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے ٹکنالوجیکل اور اقتصادی شراکتداریوں کو فروغ دینے میں چھوٹے ترقی پذیر ملکوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں بہت بڑ ی مدد ملے گی۔
ساتھیو!
جب ہندوستانی نیپال کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں نیپال کے ماحول کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے ۔ نیپال کے ماحول میں امید کا ، روشن مستقبل کے خواب کا ، جمہوریت کی مضبوطی کا ، آسودہ حال نیپال کا اور خوشحال نیپالی کا تصور سامنے آتا ہے ۔اس فضا کو بنانے میں آپ سبھی کی بہت بڑی خدمات شامل ہیں ۔
2015 کے زلزلے کے خوفناک سانحے کے بعد نیپال اور خاص طورسے کاٹھمنڈو کے لوگوں نے جس تحمل اور غیر معمولی بہادری کا ثبوت دیا، وہ آپ کے سماج کی مضبوط قوت ارادی کا ثبت ہے کہ اتنے کم وقت میں اتنی خوفناک قدرتی آفت سے نمٹنے ہوئے نیپال میں ایک نیا نظام تشکیل پاگیا ہے ۔زلزلے کے بعد عمارتوں کی ہی نہیں بلکہ ملک اور سماج کی بھی تعمیر نو ہوئی ہے ۔ آج نیپال میں فیڈرل ، پرووینشیئل اور لوکل تینوں سطح پر جمہوری سرکاریں ہیں اور ان تینوں سطحوں کے انتخابات ایک سال کی مدت کے اندر کامیابی کے ساتھ کرائے گئے ہیں ۔یہ زبردست طاقت آپ کے داخل میں موجود ہے ۔اسی لئے میں آپ سب کی دل کی گہرائیوں سے ستائش کرتا ہوں ۔
ساتھیو!
نیپال نے جنگ سے بودھ تک کا ایک طویل سفر طے کیا ہے ۔ وہ وقت تھا جب بُلٹ کا بول بالا تھا لیکن یہاں بلٹ کو چھوڑ کو بیلٹ کے راستے کو چُنا گیا ہے ۔جنگ سے بودھ تک کا یہ سفر معمولی نہیں ہے ۔ لیکن منزل ابھی دور ہے ۔ ہمیں بہت آگے تک جانا ہے ۔ اگر ایک طرح سے کا جائے تو اب ہم ماؤنٹ ایوریسٹ کے بیس کیمپ تک پہنچ گئے ہیں لیکن ا بھی بلندیوں کا طویل سفر طے کرنا ہے اور جس طرح کوہ پیماؤں کو نیپال کے شیر پاؤں کا مضبوط ساتھ اور مدد ملتی ہے ، نیپال کے اس سفرترقی میں ہندوستان ایک شیر پا کی خدمات دینے کے لئے تیار ہے ۔
پچھلے مہینے وزیر اعظم نیپال جناب اولی کے سفر ہندمیں اور کل اور آج میرے سفر نیپال میں میرا یہی پیغام ہے اور میں نے اپنے اسی جذبے کا اظہار الگ الگ الفاظ میں کیا ہے کہ نیپال اپنی ضرورتوں اور اپنی ترجیحات کے مطابق آگے بڑھے ۔ یہ میں بہت ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں۔ نیپال اپنی ضرورتوں اورترجیحات کے مطابق آگے بڑھے ۔آپ کی کامیابی کے لئے ہندوستان ہمیشہ نیپال کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلے گا۔ آپ کی کامیابی میں ہندوستان کی کامیابی موجود ہے ۔ نیپال کی خوشی میں ہی ہندوستان کی خوشی ہے ۔
ساتھیو !
میرے اس سفر کے دوران ہی آپ میرے بہت سے اقدامات سےواقف ہوئے ہوں گے ۔مجھے بتایا گیا ہے کہ پہلی بار نیپال کا ایک نوجوان کھلاڑی سندیپ لمی چھانے ہندوستان میں آئی پی ایل میں حصہ لے رہا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ آنے والے وقتوں میں کرکٹ ہی نہیں بلکہ دیگر کھیلو ں کے ذریعہ ہی ہمارے عوام سے عوام کے رابطے مضبوط ہوں گے ۔
ساتھیو!
انہی الفاظ کے ساتھ میں ایک بار پھر کاٹھمنڈو کے مئیر عزت مآب شاکیہ صاحب ، کاٹھمنڈو ایڈمنسٹریشن ،نیپال کی سرکار عزت مآب وزیر اعلیٰ ،وزیر خارجہ اور آپ سبھی کا دل کی گہرائیوں سے ممنون ہوں اور میرے دل کا وہی جذبہ ہے جو آپ کے دلوں میں موجود ہے ، جو ہر نیپالی کے دل میں ہے ،وہی ہر ہندوستانی کے دل میں ہے اور وہ یہی ہے :
ہند- نیپال دوستی امر رہے۔
ہند- نیپال دوستی امر رہے ۔
ہند- نیپال دوستی امر رہے ۔
شکریہ !
**********
م ن ۔س ش ۔رم
U-2553
I thank the people of Kathmandu for the memorable civic reception. Kathmandu is a unique city. It is an ideal mix of the old and the new. Kathmandu is a great manifestation of the culture of Nepal. Sharing my speech at the reception. https://t.co/DE0l5UiDkR pic.twitter.com/jtmta6mYIn
— Narendra Modi (@narendramodi) May 12, 2018
At the programme in Kathmandu, I reiterated India’s strong support to Nepal as they pursue their development agenda. Highlighted instances of India-Nepal cooperation and elaborated on steps such as the Solar Alliance, which are being taken by India for the welfare of humanity. pic.twitter.com/eM0sBRg3y2
— Narendra Modi (@narendramodi) May 12, 2018