Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

نیتاجی کے 125 ویں یوم پیدائش کے موقع پر کولکاتا میں منعقدہ پراکرم دیوس تقریبات کے دوران وزیر اعظم کے خطاب کا متن

نیتاجی کے 125 ویں یوم پیدائش کے موقع پر کولکاتا میں منعقدہ پراکرم دیوس تقریبات کے دوران وزیر اعظم کے خطاب کا متن


جے ہند!

جے ہند!

جے ہند!

اسٹیج پر تشریف فرمامغربی بنگال کے گورنر جناب جگدیپ دھن کھڑ جی، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ بہن ممتا بنرجی جی، وزراء کی کابینہ میں میرے ساتھی جناب پرہلاد پٹیل جی، جناب بابل سپریو جی، نیتا جی سبھاش چندر بوس کے قریبی رشتہ دار، بھارت کے فخر میں اضافہ کرنے والی آزاد ہند فوج کے جانباز اراکین، ان کے رشتہ دار، یہاں موجود ادب و فن کی دنیا کی جید ہستیاں اور بنگال کی اس عظیم سرزمین کے میرے بھائیو اور بہنو،

آج کولکاتا میں آنا میرے لیے بہت ہی جذباتی لمحہ ہے۔ بچپن سے جب بھی یہ نام سنا، نیتا جی سبھاش چندر بوس، میں کسی بھی حالت میں رہا، یہ نام میرے کان میں پڑتے ہی ایک نئی توانائی سے بھر گیا۔ اتنی عظیم شخصیت کہ اس کو بیان کرنے کے لئے الفاظ کم پڑ جائیں۔ اتنی دور بینی کہ وہاں تک دیکھنے کے لئے متعدد جنم لینے پڑجائیں۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اتنا حوصلہ، اتنی بہادری کہ دنیا کی بڑی سے بڑی چنوتی ٹھہر نہ پائے۔ میں آج نیتاجی سبھاش چندر بوس کے قدموں میں اپنا سر جھکاتا ہوں، انہیں جھک کر سلام کرتا ہوں۔ اور اس ماں ، پربھادیوی جی کو بھی جھک کر سلام کرتا ہوں جنہوں نے نیتاجی کو جنم دیا۔ آج اس مقدس دن کو 125 برس ہو رہے ہیں۔ 125 برس قبل، آج کے ہی دن ماں بھارتی کی گود میں اس بہادر سپوت نے جنم لیا تھا، جس نے آزاد بھارت کے خواب کو نئی سمت عطا کی تھی۔ آج کے ہی دن غلامی کے اندھیرے میں وہ شعور کی روشنی پھوٹی تھی، جس نے دنیا کی سب سے بڑی حکومت کے سامنے کھڑے ہوکر کہا تھا، میں تم سے آزادی مانگوں گا نہیں، آزادی چھین لوں گا۔ آج کے دن صرف نیتاجی سبھاش کا جنم ہی نہیں ہوا تھا، بلکہ آج بھارت کی نئی عزت نفس کا جنم ہوا تھا، بھار ت کی نئی فوجی صلاحیت کا جنم ہوا تھا۔ میں آج نیتا جی کے 125ویں یوم پیدائش پران کی مشکور قوم کی جانب سے اس عظیم انسان کو  کروڑوں سلام پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

میں آج ننھے سبھاش کو نیتاجی بنانے والی، ان کی زندگی کو ثابت قدمی، قربانی اور علم سے تیار کرنے والی بنگال کی اس پاک سرزمین کو بھی سلام عقیدت پیش کرتا ہوں ۔ گورو دیو شری رابندر ناتھ ٹیگور، بنکم چندر چٹوپادھیائے، شرد چندر جیسی عظیم شخصیات نے اس مقدس سرزمین کو راشٹر بھکتی کے احساس سے بھرا ہے۔ سوامی رام کرشن پرم ہنس، چیتنیا مہاپربھو، شری آروبندو، ماں شاردا، ماں آنندمئی، سوامی وویکانند، شری شری ٹھاکر انوکول چندر جیسے سنتوں نے اس مقدس سرزمین کو امن، خدمت اور روحانیت سے غیر معمولی بنایا ہے۔

ایشور چندر ودیا ساگر، راجا رام موہن رائے، گورو چند ٹھاکر، ہری چند ٹھاکر جیسے متعدد سماجی اصلاح کار ، سماجی اصلاح کے علمبرداروں نے اس مقدس سرزمین سے ملک میں نئی اصلاحات کی بنیاد رکھی ہے۔ جگدیش چندر بوس، پی سی رائے، ایس این بوس اور میگھناد ساہا متعدد سائنسدانوں نے اس مقدس سرزمین کو علم و سائنس سے سینچا ہے۔ یہ وہی مقدس سرزمین ہے جس نے ملک کو اس کا قومی  نغمہ بھی دیا ہے اور قومی ترانہ بھی دیا ہے۔ اسی سرزمین نے ہمیں دیش بندھو چترنجن داس، ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی اور ہم سبھی کے عزیز بھارت رتن پرنب مکھرجی سے ملایا۔ میں اس سرزمین کی ایسی لاکھوں عظیم شخصیات کے قدموں میں بھی آج اس مقدس دن کے موقع پر سلام عقیدت پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

یہاں سے پہلے میں ابھی نیشنل لائبریری گیا تھا، جہاں نیتا جی کی وراثت پر ایک بین الاقوامی کانفرنس اور آرٹسٹ۔کیمپ منعقد ہو رہا ہے۔ میں نے محسوس کیا، نیتاجی کا نام سنتے ہی ہر کوئی کتنی توانائی سے بھر جاتا ہے۔ نیتا جی کی زندگی کی یہ توانائی جیسے ان کے باطل سے جڑ گئی ہے! ان کی یہ توانائی، یہی اصول، ان کی کڑی محنت، ان کی قربانی ملک کے ہر نوجوان کے لئے بہت بڑی ترغیب کا باعث ہے۔آج جب بھارت نیتا جی کی ترغیب سے آگے بڑھ رہا ہے، تو ہم سب کا فرض ہے کہ ان کے تعاون کو بار بار یاد کیا جائے۔ نسل در نسل یاد کیا جائے۔ اس لیے، ملک نے طے کیا ہے کہ نیتا جی کے 125ویں یوم پیدائش کے برس کو تاریخی ، غیرمعمولی شان و شوکت کی حامل تقریبات کے ساتھ منائیں۔ آج صبح سے ملک بھر میں اس سے متعلق پروگرام ہر کونے میں ہو رہے ہیں۔ آج اسی سلسلے کے تحت نیتاجی کی یاد میں ایک یادگاری سکہ اور ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ نیتاجی کے مراسلوں پر ایک کتاب کا اجراء بھی ہوا ہے۔

کولکاتا اور بنگال، جو ان کا میدانِ عمل رہا ہے، یہاں نیتاجی کی زندگی پر ایک نمائش اور پروجیکشن میپنگ شو بھی آج سے شروع ہو رہا ہے۔ ہاوڑا سے چلنے والی ریل گاڑی ’ہاوڑا۔کالکا میل‘ کا بھی نام تبدیل کرکے ’نیتاجی ایکسپریس‘ کر دیا گیا ہے۔ ملک نے یہ بھی طے کیا ہے کہ اب ہر سال ہم نیتا جی کے یوم پیدائش یعنی 23 جنوری کو ’پراکرم دیوس‘ کے طور پر منائیں  گے۔ ہمارے نیتاجی بھارت کی طاقت کی نمائندگی بھی کرتے ہیں اور اس کے لئے ترغیب بھی فراہم کرتے ہیں۔آج جب اس برس ملک اپنی آزادی کے 75ویں برس میں داخل ہونے والا ہے، جب ملک آتم نربھر بھارت کے عہد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، تب نیتا جی کی زندگی، ان کا ہر قدم، ان کا ہر فیصلہ، ہم سبھی کے لئے بہت بڑی ترغیب کا باعث ہے۔ ان کے جیسے فولادی ارادوں کی حامل شخصیت کے لئے ناممکن کچھ بھی نہیں تھا۔ انہوں نے غیر ممالک میں جاکر ملک سے باہر رہنے والے ہندوستانیوں کے شعور کو بیدار کیا، انہوں نے آزادی کے لیے آزاد ہند فوج کو مضبوط کیا۔

انہوں نے پورے ملک سے ہر ذات، فرقہ، ہر علاقے کے لوگوں کو ملک کا سپاہی بنایا۔ اس دور میں جب دنیا خواتین کے مساوی حقوق پر ہی بحث کر رہی تھی، نیتاجی نے ’رانی جھانسی ریجیمنٹ‘ بناکر خواتین کو اپنے ساتھ جوڑا۔ انہوں نے فوج کے سپاہیوں کو جدید جنگ کے لئے تربیت دی، انہیں ملک کے لئے جینے کا جذبہ دیا، ملک کے لئے مرنے کا مقصد دیا۔ نیتا جی نے کہا تھا، ’’بھاروت ڈاک چھے۔ روکتو ڈاک دیے چھے روکتو کے۔ اوٹھو، داڑاؤں آمودیر نوشٹو کرار متو سوموئے نوئے۔‘‘ یعنی، بھارت بلا رہا ہے۔ لہو، لہو کو آواز دے رہا ہے۔ اٹھو، ہمارے پاس اب گنوانے کے لئے وقت نہیں ہے۔

ساتھیو،

ایسی حوصلہ بھری ہنکار صرف اور صرف نیتاجی ہی دے سکتے تھے۔ اور آخر، انہوں نے یہ دکھا بھی دیا کہ جس حکومت کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا، بھارت کے بہادر سپوت میدان جنگ میں اسے بھی شکست دے سکتے ہیں۔ انہوں نے عزم کیا تھا، بھارت کی زمین پر آزاد بھارت کی آزاد حکومت کی بنیاد رکھیں گے۔ نیتاجی نے اپنا یہ وعدہ بھی پورا کرکے دکھایا۔ انہوں نے انڈمان میں اپنے فوجیوں کے ساتھ آکر ترنگا لہرایا۔ جس جگہ انگریز ملک کی آزادی کے سپاہیوں کو اذیتیں پہنچاتے تھے، کالا پانی کی سزا دیتے تھے، اس جگہ جاکر انہوں نے ان فوجیوں کو اپنی خراج عقیدت پیش کی۔

وہ حکومت، متحدہ بھارت کی پہلی آزاد حکومت تھی۔ نیتاجی متحدہ بھارت کی آزاد ہند حکومت کے پہلے سربراہ تھے۔ اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ آزادی کی اس پہلی جھلک کو محفوظ رکھنے کے لئے، 2018 میں ہم نے انڈمان کے اس جزیرے کا نام نیتاجی سبھاش چندر بوس دیپ رکھا۔ ملک کے جذبات کو سمجھتے ہوئے، نیتا جی سے جڑی فائلیں بھی ہماری ہی حکومت نے عام کیں۔ یہ ہماری ہی حکومت کی خوش نصیبی رہی جو 26 جنوری کی پریڈ کے دوران آئی این اے کے معمر فوجی پریڈ میں شامل ہوئے۔ آج یہاں اس پروگرام میں آزاد ہند فوج میں رہے ملک کے بہادر بیٹے اور بیٹی بھی موجود ہیں۔ میں آپ کو پھر سے سلام پیش کرتا ہوں اور سلام کرتے ہوئے یہی کہوں گا کہ ملک ہمیشہ آپ کا شکر گزار رہے گا، شکر گزار ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

ساتھیو،

2018 میں ہی ملک نے آزاد ہند حکومت کے 75 برس کو بھی اتنے ہی دھوم دھام سے منایا تھا۔ ملک نے اسی سال سبھاش چندر بوس تباہ کاری انتظام ایوارڈ بھی شروع کیے۔ نیتا جی نے دہلی دور نہیں کا نعرہ دے کر لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے کا جو خواب دیکھا تھا، ان کا وہ خواب ملک نے لال قلعہ پر جھنڈا لہرا کر مکمل  کیا۔

بھائیو اور بہنو،

جب آزاد ہند فوج کی ٹوپی میں، میں نے لال قلعہ پر پرچم لہرایا تھا، اسے میں نے اپنے سر پر لگایا تھا۔ اس وقت میرے ذہن میں بہت کچھ چل رہا تھا۔ بہت سے سوال تھے، بہت سی باتیں تھیں، ایک الگ احساس تھا۔ میں نیتاجی کے بارے میں سوچ رہا تھا، اہل وطن کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ کس کے لیے زندگی بھر اتنا خطرہ اٹھاتے رہے، جواب یہی ہے، ہمارے اور آپ کے لئے۔ وہ کئی کئی دنوں تک بھوک ہڑتال کس کے لئے کرتے رہے، آپ کے اور ہمارے لیے۔ وہ مہینوں تک کس کے لئے جیل کی کوٹھری میں سزا جھیلتے رہے، آپ کے اور ہمارے لیے۔

کون ایسا ہوگا جس کی جان کے پیچھے اتنی بڑی انگریزی حکومت لگی ہو، وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر فرار ہو جائے۔ ہفتوں ہفتوں تک وہ کابل کی سڑکوں پر اپنی زندگی داؤں پر لگاکر ایک سفارتخانے سے دوسرے کے چکر لگاتے رہے، کس کے لئے؟ ہمارے اور آپ کے لیے۔ عالم جنگ کے اس ماحول میں مختلف ممالک کے درمیان لمحہ لمحہ بدلتے رشتے، اور اس درمیان کیوں وہ ہر ملک میں جاکر بھارت کے لئے حمایت مانگ رہے تھے؟ تاکہ بھارت آزاد ہو سکے، ہم اور آپ آزاد بھارت میں سانس لے سکیں۔ہندوستان کا ایک ایک شخص نیتاجی سبھاش بابو کا مقروض ہے۔ 130 کروڑ سے زیادہ ہندوستانیوں کے جسم میں دوڑتے لہو کا ایک ایک قطرہ نیتاجی سبھاش کا مقروض ہے۔ یہ قرض ہم کیسے ادا کر پائیں گے؟ یہ قرض کیا ہم کبھی ادا بھی کر پائیں گے؟

ساتھیو،

جب نیتاجی سبھاش یہاں کولکاتا میں اپنے اڑتیس بٹا دو، ایلگن روڈ کے گھر میں قید تھے، جب انہوں نے بھارت سے نکلنے کا ارادہ کر لیا تھا، تو انہوں نے اپنے بھتیجے ششر کو بلاکر کہا تھا۔ امار ایکٹا کاج کورتے پاربے؟ امار ایکٹا کاج کورتے پاربے؟ کیا میرا ایک کام کر سکتے ہو؟ اس کے بعد ششر جی نے وہ کیا، جو بھارت کی آزادی کی سب سے بڑی وجوہات میں سے یک ثابت ہوا۔ نیتاجی یہ دیکھ رہے تھے کہ عالمی جنگ کے ماحول میں انگریزی حکومت کو اگر باہر سے چوٹ پہنچائی جائے، تو اسے درد سب سے زیادہ ہوگا۔

وہ مستقبل دیکھ رہے تھے کہ جیسے جیسے عالم جنگ آگے بڑھے گی، ویسے ویسے انگریزوں کی طاقت کم پڑتی جائےگی، بھارت پر ان کی گرفت کمزور ہوتی جائے گی۔ یہ تھا ان کا ویژن، اتنی دور دیکھ رہے تھے وہ۔ میں کہیں پڑھ رہا تھا کہ اسی وقت انہوں نے اپنی بھتیجی اِلا کو دکشنیشور مندر بھی بھیجا تھا کہ ماں کا آشیرواد لے آؤ۔ وہ ملک سے فوراً باہر نکلنا چاہتے تھے، ملک کے باہر جو بھارت کی حلیف طاقتیں ہیں انہیں متحد کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے نوجوان ششر سے کہا تھا۔ امار ایکٹا کاج کورتے پاربے؟ کیا میرا ایک کام کر سکتے ہو؟

ساتھیو،

آج ہر بھارتی اپنے دل پر ہاتھ رکھے، نیتاجی سبھاش کو محسوس کرے، تو اسے پھر سے یہ سوال سنائی دے گا۔ امار ایکٹا کاج کورتے پاربے؟ کیا میرا ایک کام کر سکتے ہو؟ یہ کام، یہ کاج، یہ مقصد آج بھارت کو آتم نربھر بھارت بنانے کا ہے۔ ملک کا ہر علاقہ، ملک کا ہر شہری اس سے جڑا ہے۔نیتاجی نے کہا تھا۔ پوروش، اورتھو ایوم اپوکرن نجے روئی بجوئے با سدھنتا آنتے پارے نا۔ آمودیر ابوشوئی سیئی اُدیشیو شوکتی تھاکتے ہوبے جا آمودر ساہوسک کاج ایوم بیرت پورنا شوسنے اُدبدھو کوربے۔ یعنی ہمارے پاس وہ مقصد اور طاقت ہونی چاہئے، جو ہمیں ہمت اور بہادری سے حکومت کرنے کے لئے ترغیب فراہم کرے۔ آج ہمارے پاس مقصد بھی ہے، طاقت بھی ہے۔

آتم نربھر بھارت کا ہمارا ہدف ہماری قوت ارادی، ہمارے عزم سے پوری ہوگا۔ نیتاجی نے کہا تھا۔ ’’آج آمودر کیبول ایکٹی اِچھا تھاکا اُچت ۔ بھاروتے ایچھک جاتے، بھاروتے بانچتے پارے۔ یعنی، آج ہماری ایک ہی خواہش ہونی چاہئے کہ ہمارا بھارت محفوظ رہے، بھارت آگے بڑھے۔ ہمارا بھی ایک ہی مقصد ہے۔ اپنا خون ۔ پسینہ بہاکر ملک کے لئے جئیں، اپنی محنت سے، اپنی اختراع سے ملک کو آتم نربھر بنائیں۔نیتا جی کہتے تھے۔ ’’نجیر پروتی شات ہولے سارے بسیر پروتی کیو اسوت ہوتے پاربے نا‘‘ مطلب، اگر آپ خود کے لئے سچے ہیں، تو آپ دنیا کے لئے غلط نہیں ہو سکتے۔ ہمیں دنیا کے لئے بہترین کوالٹی کی مصنوعات بنانی ہوں گی، کچھ بھی کمتر نہیں، زیرو ڈفیکٹ ۔ زیرو افیکٹ والی مصنوعات۔نیتا جی نے ہمیں کہا تھا۔ ’’سوادھین بھاروتیر سووپنے کونو دن آستھا ہاریو نا۔ بسے اےمن کونو شوکتی نیئی جے بھاروت کے پرادھینانتار شرنکھلائے بیدھے راکھتے سمورتھو ہوبے‘‘ یعنی، آزاد بھارت کے خواب میں کبھی بھروسہ مت کھونے دو۔ دنیا میں ایسی کوئی طاقت نہیں ہے جو بھارت کو باندھ کر رکھ سکے۔ واقعی، دنیا میں ایسی کوئی طاقت نہیں ہے جو 130 کروڑ اہل وطن کو، اپنے بھارت کو آتم نربھر بھارت بنانے سے روک سکے۔

ساتھیو،

نیتا جی سبھاش چندر بوس، غریبی کو، ناخواندگی کو، بیماری کو، ملک کی سب سے بڑی پریشانیوں میں شمار کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے۔ ’آمودیر شابدے بورو جاتیو سمسیا ہولو، دارِدرو، اشک کھا، روگ، بیگیانک اُتپادون۔ جے سمسیار سمادھان ہوبے، کیبل ماترو سماجک بھابنا۔ چنتا دارا‘‘ مطلب، ہماری سب سے بڑی پریشانی غریبی، ناخواندگی، بیماری اور سائنسی مصنوعات کی کمی ہے۔ان پریشانیوں کے حل کے لئے سماج کو مل کر محنت کرنی ہوگی، مل کر کوشش کرنی ہوگی۔ مجھے اطمینان ہے کہ آج ملک مظلوم، ستم رسیدہ ، محرومین کو، اپنے کسانوں کو، ملک کی خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے دن رات ایک کر رہا ہے۔ آج ہر ایک غریب کو مفت علاج کی سہولت کے لئے صحتی سہولیات مل رہی  ہیں۔ ملک کے کاشتکاروں کو بیج سے بازار تک جدید سہولتیں دی جا رہی ہیں۔ کھیتی پر ہونے والا ان کا خرچ کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ہر ایک نوجوان کو جدید اور معیاری تعلیم حاصل ہو، اس کے لئے ملک کے تعلیمی ڈھانچے کو جدید بنایا جا رہا ہے۔ بڑی تعداد میں ملک بھر میں ایمس، آئی آئی ٹی ادارے اور آئی آئی ایم جیسے بڑے ادارے کھولے گئے ہیں۔ آج ملک، 21ویں صدی کی ضرورتوں کے حساب سے نئی قومی تعلیمی پالیسی بھی نافذ کر رہا ہے۔

ساتھیو،

میں کئی مرتبہ سوچتا ہوں کہ آج ملک میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جو نیا بھارت وجود میں آرہا ہے، اسے دیکھ کر نیتاجی کو کتنا اطمینان حاصل ہوتا۔ انہیں کیسا لگتا، جب وہ دنیا کی سب سے جدید تکنالوجیوں میں اپنے ملک کو آتم نربھر بنتے دیکھتے؟ انہیں کیسا لگتا، جب وہ پوری دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں میں، تعلیم میں، طبی شعبے میں بھارتیوں کا ڈنکا بجتے دیکھتے؟ آج رافیل جیسے جدید طیارے بھی بھارت کی فوج کے پاس ہیں، اور تیجس جیسے جدید طیارے بھارت خود بھی بنا رہا ہے۔

جب وہ دیکھتے ہیں کہ آج ان کے ملک کی فوج اتنی طاقتور ہے، اسے ویسے ہی جدید ہتھیار مل رہے ہیں، جو وہ چاہتے تھے، تو انہیں کیسا لگتا؟ آج اگر نیتاجی یہ دیکھتے کہ ان کا بھارت اتنے بڑے وبائی مرض سے اتنی طاقت سے لڑا ہے، آج ان کا بھارت ٹیکہ جیسے جدید سائنسی حل خود تیار کر رہا ہے تو وہ کیا سوچتے؟ جب وہ دیکھتے کہ بھارت ٹیکہ دے کر دنیا کے دوسرے ممالک کی مدد بھی کر رہا ہے، تو انہیں کتنا فخر محسوس ہوتا۔ نیتاجی جس شکل میں بھی ہمیں دیکھ رہے ہیں، ہمیں آشیرواد دے رہے ہیں، اپنی محبت ہمیں دے رہے ہیں۔جس مضبوط بھارت کا انہوں نے تصور کیا تھا، آج ایل اے سی سے لے کر ایل او سی تک، بھارت کا یہی روپ دنیا دیکھ رہی ہے۔ جہاں کہیں سے بھی بھارت کی خودمختاری کو چنوتی دینے کی کوشش کی گئی، بھارت آج منھ توڑ جواب دے رہا ہے۔

ساتھیو،

نیتاجی کے بارے میں بولنے کے لئے اتنا کچھ ہے کہ بات کرتے کرتے راتوں کی راتیں گزر جائیں۔ نیتاجی جیسی عظیم شخصیات کی زندگی سے ہم سب کو اور خاص طور سے نوجوانوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن ایک اور بات جو مجھے بہت متاثر کرتی ہے، وہ ہے اپنے مقصد کے لئے مسلسل کوشش۔ عالمی جنگ کے دوران جب ساتھی ممالک شکست کا سامنا کر چکے تھے، ہتھیار ڈال چکے، تب نیتاجی نے اپنے معاونین کو جو بات کہی تھی، اس کا مطلب یہی تھا کہ، دوسرے ممالک نے ہتھیار ڈالے ہوں گے، ہم نے نہیں۔ اپنے عزم کو پورا کرنے کے لئے ان کی صلاحیت لاثانی تھی۔

وہ اپنے ساتھ بھگوت گیتا رکھتے تھے،ان سے ترغیب حاصل کرتے تھے۔ اگر وہ کسی کام کے لئے ایک مرتبہ قائل ہوجاتے تھے تو اسے پورا کرنے کے لئے کسی بھی حد تک کوشش کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیں یہ بات سکھائی ہے کہ اگر کوئی خیال بہت آسان نہیں ہے، معمولی نہیں ہے، اگر اس میں مشکلات بھی ہیں، تو بھی کچھ نیا کرنے سے ڈرنا نہیں چاہئے۔ اگر آپ کسی چیز میں بھروسہ کرتے ہیں، تو آپ کو اسے شروع کرنے کی ہمت دکھانی ہی چاہئے۔ایک مرتبہ یہ محسوس ہو سکتا ہے کہ آپ موج کی مخالف سمت میں بہہ رہے ہیں، تاہم اگرآپ کا مقصد نیک ہے تو اس میں جھجھکنا نہیں چاہئے۔ انہوں نے یہ کرکے دکھایا کہ آپ اگر اپنے دور رَس مقصد کی حصولیابی کے لئے سخت محنت کر رہے ہیں تو کامیابی آپ کو ملنی ہی ہے۔

ساتھیو،

نیتاجی سبھاش، آتم نربھر بھارت کے خواب کے ساتھ ہی سونار بنگلہ کی بھی سب سے بڑی ترغیب ہیں۔ جو کردار نیتاجی نے ملک کی آزادی میں ادا کیا تھا، آج وہی کردار مغربی بنگال کو آتم نربھر بھارت ابھیان میں ادا کرنا ہے۔ آتم نربھر بھارت ابھیان کی قیادت آتم نربھر بنگال اور سونار بنگلہ کو بھی کرنی ہے۔ بنگال آگے آئے، اپنے فخر میں اضافہ کرے، ملک کے فخر میں بھی مزید اضافہ کرے۔ نیتاجی کی طرح ہی، ہمیں بھی اپنے مقاصد کی تکمیل تک اب ٹھہرنا نہیں ہے۔ آپ سبھی اپنی کوششوںمیں،مقاصد میں کامیاب ہوں، انہیں نیک خواہشات کے ساتھ آج کے اس مقدس دن کے موقع پر، اس مقدس سرزمین پر آکر، آپ سب کے آشیرواد لے کر نیتاجی کے خوابوں کو پورا کرنے کا ہم عزم کرکے آگے بڑھیں، اسی ایک احساس کے ساتھ میں آپ سب کابہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں! جے ہند، جے ہند، جے ہند!

بہت بہت شکریہ!

****

ش ح ۔اب ن

U-750