Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

نیا بھارت بازار کی طاقت میں یقین رکھتا ہے، سرمایہ کاری کے لئے سب سے پسندیدہ مقام بنے گا: وزیر اعظم مودی


1۔ بھارت میں مارچ میں اولین لاک ڈاؤن کے ذریعہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ شروع کیے سات مہینے گزر چکے ہیں۔ آپ کا تجزیہ کیا ہے؟ ہماری کارکردگی کیسی رہی؟

مجھے یقین ہے کہ ہم سبھی اس بات سے متفق ہیں کہ اس وائرس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔ ماضی میں پہلے ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ اس لیے اس نئے انجان دشمن سے نمٹنے کے دوران ہمارے ردعمل میں بھی تبدیلی واقع ہوئی۔
میں کوئی ماہر صحت نہیں ہوں تاہم میرا تجزیہ اعدادو شمار پر مبنی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اپنی کورونا وائرس جنگ کا جائزہ اس بات سے کرنا چاہئے کہ ہم نے کتنی زندگیاں بچائی ہیں۔
وائرس بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ایک وقت ایسا محسوس ہوا کہ جیسے گجرات کے چند مقامات ہاٹ اسپاٹ ہیں اور کیرالا، کرناٹک وغیرہ میں صورتحال قابو میں ہے۔ تاہم چند مہینوں کے بعد گجرات میں حالات بہتر ہوئے اور کیرالا میں حالت بدتر ہوگئے۔
یہی وجہ ہے کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ غفلت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں نے حال ہی میں 20 اکتوبر کو قوم کو دیے اپنے پیغام میں اس بات پر زور دیا کہ آگے بڑھنا کا واحد طریقہ ماسک پہننا، ہاتھ دھونا اور سماجی فاصلہ بنائے رکھنا جیسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے، کیونکہ ’جب تک دوائی نہیں، تب تک ڈھلائی نہیں۔‘

2۔ لیکن کیا اس نے جامع طور پر آپ کی امیدوں کے مطابق کام کیا ہے یا آپ کو مسلسل بہتری لانے کے لئے جدت طرازی پر مبنی طریقہ کار اپنانے کی ضرورت پیش آئی؟

ہم نے آگے بڑھ کر فعال انداز میں کام کرنے کا فیصلہ کیا اور بروقت ملک گیر لاک ڈاؤن شروع کیا۔ ہم نے لاک ڈاؤن کی شروعات اس وقت کی، جب بیماری کے کل معاملات کی تعداد محض سینکڑوں میں تھی، جبکہ دیگر ممالک میں ہزاروں معاملات سامنے آنے کے بعد لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا۔ ہم نے وبائی مرض کے اضافے کے ایک نازک دور میں لاک ڈاؤن نافذ کیا۔

ہمیں لاک ڈاؤن کے مختلف مراحل کے لئے نہ صرف خاصا وقت ملا، بلکہ ہم نے صحیح حکمت عملی بھی اپنائی۔ یہی وجہ رہی کہ ہماری معیشت کا بیشتر حصہ بھی پٹری پر آرہا ہے۔ اگست اور ستمبر میں جاری اعداد و شمار بھی یہی اشارہ دے رہے ہیں۔

بھارت نے ملک میں کووِڈ۔19 وبائی مرض سے نمٹنے میں سائنس پر مبنی طریقہ کار اپنایا ہے۔ ہمارا یہ طریقہ کار فائدہ مند ثابت ہوا۔

اب مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس ردعمل سے ہمیں ایک ایسی صورتحال سے بچنے میں مدد ملی، جس کی وجہ سے اموات کی تعداد بڑھ سکتی تھی اور وائرس مزید تیزی سے پھیل سکتا تھا۔ بروقت لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے علاوہ بھارت ماسک پہننے کو لازمی قرار دینے، کانٹیکٹ ٹریسنگ ایپ کا استعمال کرنے اور ریپڈ انجن ٹیسٹ کا انتظام کرنے والے اولین ممالک میں سے ایک تھا۔

اس نوعیت کے وبائی مرض سے نمٹنے میں اگر ملک ایک جٹ نہیں ہوتا، تو اس کا انتظام کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس وائرس سے لڑنے کے لئے پورا ملک ایک ساتھ کھڑا ہوگیا۔ کورونا واریئرس، جو ہمارے صف اول کے صحتی کارکنان ہیں، نے اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر، اس ملک کے لئے جنگ لڑی۔

3۔ آپ کو سب سے بڑا سبق کیا حاصل ہوا؟

گذشتہ چند مہینوں کے دوران ایک مثبت سیکھ ملی، وہ تھی ڈلیوری انتظام کی اہمیت، جو آخری سرے تک پہنچتی ہے۔ اس ڈلیوری نظام کا بیشتر حصہ ہماری حکومت کی پہلی مدت کار کے دوران بنایا گیا تھا اور اس نے ہمیں صدی میں ایک مرتبہ رونما ہونے والے وبائی مرض کا سامنا کرنے میں ہماری کافی مدد کی۔

میں صرف دو مثالیں دوں گا۔ سب سے پہلے، براہِ راست فائدہ منتقلی نظام کے توسط سے ہم لاکھوں لوگوں کے بینک کھاتوں میں سیدھے نقدی منتقل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ پورا بنیادی ڈھانچہ گذشہ چھ برسوں میں تیار کیا گیا تھا اس لیے یہ ممکن ہوا۔ اس سے قبل، امید کے مطابق مقابلتاً چھوٹی قدرتی آفات میں بھی راحت غریبوں تک نہیں پہنچ پاتی تھی اور بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوتی تھی۔

تاہم ہم بدعنوانی کی کسی بھی شکایت کے بغیر، بہت کم وقت میں لوگوں کو بڑے پیمانے پر راحت بہم پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ حکمرانی میں تکنالوجی کی طاقت ہے۔ اس کے برعکس شاید آپ اپنے قارئین کو یہ بتا سکیں کہ 1970 کی دہائی میں چیچک کی مہاماری کے دوران بھارت نے کس طرح کا مظاہرہ کیا تھا۔
اور دوسرا ، اتنے کم وقت میں ایک بلین سے زائد لوگوں کے اتنے کم وقت میں رویہ میں تبدیلی یعنی ماسک پہننا اور سماجی فاصلہ بنائے رکھنا۔ بغیر کسی زور زبردستی کے عوامی شراکت داری کا یہ ایک عالمی ماڈل ہے۔
مرکز اور ریاستی حکومتیں ایک ٹیم کی مانند مل جل کر کام کر رہی ہیں، عوامی اور نجی شعبے ایک ساتھ آئے ہیں، سبھی وزارتیں کندھے سے کندھا ملاکر مختلف ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف ہیں اور لوگوں کی حصہ داری نے ایک جٹ ہوکر اور مؤثر انداز میں جنگ لڑنے کو یقینی بنایا ہے۔

4۔ بھارت میں کووِڈ۔19 کے پھیلاؤ کی صورتحال کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے؟

وائرس کے شروعاتی دور میں کی گئیں سرگرم تدابیر سے ہمیں وبائی مرض کے خلاف اپنے بچاؤ کی تیاری کرنے میں مدد حاصل ہوئی۔ حالانکہ، ایک بھی ناگہانی موت انتہائی دردناک ہے، تاہم ہمارے جتنے بڑے، کھلے پن والے اور کنکٹیوٹی والے ملک کے لئے یہ انتہائی اہم ہے کہ ہمارے یہاں دنیا میں سب سے کم کووِڈ۔19 شرح اموات ہے۔ ہماری صحتیابی کی شرح مسلسل زیادہ بنی ہوئی ہے اور ہمارے یہاں ایکٹیو کیس کافی کم ہوگئے ہیں۔
ستمبر کے وسط میں تقریباً 97894 یومیہ معاملات کی بڑی تعداد سے ہم اکتوبر کے آخر تک میں 50000 نئے معاملات کی رپورٹ کر رہے ہیں۔ یہ ممکن ہوا کیونکہ پورا بھارت ایک ساتھ آیا اور اس نے ٹیم انڈیا کے طور پر کام کیا۔

5۔ حال کے رجحانات، ایکٹیو معاملات اور شرح اموات دونوں میں تخفیف دیکھی جا رہی ہے۔امید ہے کہ سب سے خراب حالات کا وقت گزر گیا ہے۔ کیا آپ بھی حکومت کے پاس موجود اعداد و شمار کی بنیاد پر اس بات سے متفق ہیں؟

یہ ایک نیا وائرس ہے۔ جن ممالک نے شروع میں اس کے پھیلاؤ کو قابو میں کیا تھا، وہ اب اس کے دوبارہ بڑھنے کی رپورٹ کر رہے ہیں۔
بھارت کے جغرافیائی پھیلاؤ، گھنی آبادی اور یہاں کی باقاعدہ سماجی تقریبات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ان اعداد کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری کئی ریاستیں متعدد ممالک سے بڑی ہیں۔
ہمارے ملک کے اندر ہی اس کے اثرات میں کافی فرق ہے، کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں یہ بہت کم ہے، جبکہ کچھ ایسی ریاستیں بھی ہیں جہاں اس کے اثرات زیادہ ہیں اور مسلسل بنے ہوئے ہیں۔ پھر بھی یہ ذہن میں رکھا جانا چاہئے کہ 700 اضلاع والے ملک میں، کچھ ریاستوں کے کچھ اضلاع میں ہی اس کا اثر نظر آتا ہے۔
نئے معاملات، شرح اموات اور سرگرم معاملات کی مجموعی تعداد سے متعلق ہمارے نئے اعداد شمار میں چند مہینوں کے مقابلے میں تخفیف نظر آتی ہے تاہم پھر بھی ہمیں اطمینان سے نہیں بیٹھنا ہے۔ وائرس ابھی بھی پھیلا ہوا ہے اور ہماری ڈھلائی سے پروان چڑھتا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اپنی اہلیت کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے، لوگوں میں مزید بیداری پیدا کرنی چاہئے اور زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنی چاہئیں۔ ہمیں اس اصول کے مطابق چلنا چاہئے کہ ’سب سے بہتر کی امید رکھیں، تاہم سب سے برے کے لئے بھی تیار رہیں۔‘

6۔ کووِڈ۔19 وبائی مرض نے معیشت کو کمزور کیا ہے۔ آپ نے زندگی اور روزی روٹی کمانے کے درمیان ایک توازن قائم کرکے اس سے نمٹنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کے خیال سے حکومت اس کوشش میں کس حد تک کامیاب رہی ہے؟

ہمیں آزادی حاصل ہوئے سات دہائی سے زیادہ کا وقت ہو چکا ہے، تاہم ابھی بھی کچھ لوگ نوآبادیاتی دور کی اس سوچ کہ -لوگ اور حکومتیں دو الگ الگ ادارے ہیں – کے ساتھ جی رہے ہیں۔ یہ مصیبت حکومت پر آئی ہے، یہ تصور اسی سوچ سے پیدا ہوتا ہے۔ وبائی مرض نے 130 کروڑ لوگوں کو متاثر کیا ہے اور حکومت اور عوام دونوں، مل کر اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔
جب سے کووِڈ۔19 شروع ہوا، تب سے دنیا بھر میں مختلف ممالک میں اس مرض سے ہلاک ہونے والے لوگوں کی تعداد دیکھ کر خوف کا احساس ہوتا تھا۔ مریضوں کی تعداد اچانک بڑھ جانے سے ان ممالک کا صحتی نظام بکھر رہا تھا۔ ضعیف اور نوجوان بڑی تعداد میں ہلاک ہو رہے تھے۔ اس وقت، ہمارا مقصد بھارت میں ویسی صورتحال سے بچنا اور لوگوں کی بچانا تھا۔ یہ وائرس ایک انجان دشمن کی طرح تھا۔ یہ ایک غیر معمولی خطرہ تھا۔
جب کوئی نظر نہ آنے والے دشمن سے لڑ رہا ہوتا ہے، تو اسے سمجھنے میں وقت لگتا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک مؤثر حکمت عملی تیار کرتا ہے۔ ہمیں 130 کروڑ ہندوستانیوں تک پہنچنا تھا اور انہیں وائرس کے خطروں سے خبردار کرنا تھا، جسے اپناکر ہم خود کو اور اپنے کنبوں کے اراکین کو بچا سکتے ہیں۔
یہ ایک چنوتی بھرا کام تھا۔ عوام کے درمیان بیداری پیدا کرنا اہم تھا۔ عوامی بیداری عوامی شراکت داری سے ہی ممکن ہو پاتی ہے۔ جنتا کرفیو کے ذریعہ، تھالیاں بجاکر یا بڑے پیمانے پر دیپ روشن کرکے عوامی قومی عہد بندگی کا اشارہ دیتے ہوئے، ہم نے سبھی بھارتیوں کو ایک اسٹیج پر لانے کے لئے عوامی شراکت داری کا استعمال کیا۔ اتنے کم وقت میں عوامی بیداری کی یہ ایک ناقابل یقین مثال ہے۔

7۔ اور اقتصادی پالیسی کیاتھی؟

زندگی بچانا محض کووِڈ۔19 سے حفاظت تک محدود نہیں تھا۔ یہ غریبوں کو معقول مقدار میں کھانا اور لازمی اشیاء فراہم کرانے سے متعلق بھی تھا۔ یہاں تک کہ جب بیشتر ماہرین اور اخبارات حکومت سے کارپوریٹ شعبے کے لئے اقتصادی پیکج جاری کرنے کے لئے کہہ رہے تھے، تب ہماری توجہ کمزور آبادی کے درمیان زندگی کو بچانے پر مرکوز تھی۔ غریب لوگوں، مہاجرین، کاشتکاروں کے درد کو کم کرنے کے لئے ہم نے پی ایم غریب کلیان پیکج کا اعلان کیا۔
ایک خاص دروں بینی اور سمجھ جو ہمیں جلد حاصل ہوئی، وہ یہ تھی کہ زراعت ایک ایسا شعبہ ہے، جہاں پیداواریت پر سمجھوتہ کیے بغیر، سماجی فاصلہ بنائے رکھنے کے اصول کو زیادہ فطری انداز میں اپنایا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہم نے شروع سے ہی زرعی سرگرمیوں کو شروع کرنے کی اجازت دی اور ہم سبھی نے اس کے نتائج دیکھے ہیں کہ اتنے مہینوں کے دوران رکاؤٹوں کے باوجود یہ شعبہ غیر معمولی طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
عوا م کی فوری وسط مدتی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اناج کی ریکارڈ تعداد میں تقسیم، مزدوروں کے لئے خصوصی ریل گاڑیوں کو چلانے اور سرگرم طریقے سے خریداری کرنے جیسے کام کیے گئے۔
لوگوں کو پیش آرہی مصیبتوں کو دور کرنے کے لئے ہم ایک آتم نربھر بھارت پیکج لے کر آئے۔ اس پیکج نے سماج کے تمام طبقات اور معیشت کے تمام شعبوں کو درپیش مسائل کو حل کیا۔
اس سے ہمیں ان اصلاحات کو متعارف کرانے کا موقع حاصل ہوا جو دہائیوں سے زیر التوا تھیں اور کسی نے بھی اس سلسلے میں پہل قدمی نہیں کی۔ کوئلہ، زراعت، مزدور، دفاع، شہری ہوابازی وغیرہ جیسے شعبوں میں اصلاحات کی گئی ہیں، جو ہمیں ترقی کے اس راستے پرواپس لانے میں مدد کریں گے جس پر ہم بحران شروع ہونے سے قبل تھے۔
ہماری کوششوں کے نتائج سامنے آرہے ہیں کیونکہ بھارتی معیشت پہلے سے، امید سے زیادہ تیزرفتاری کے ساتھ پٹری پر لوٹ رہی ہے۔

8۔ آپ کی سرکار نے دوسری پیڑھی کی دو اہم اصلاحات کی شروعات کی ہے – زرعی اور مزدور اصلاحات- مطلوبہ فوائد دینے والی ان پہل قدمیوں کے تئیں اپ کتنے پرامید ہیں، خاص طور سے مجموعی اقتصادی مندی اور سیاسی مخالفت کی روشنی میں؟

ماہرین طویل عرصے سے اصلاحات کی وکالت کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ سیاسی جماعتیں بھی ان اصلاحات کے نام پر ووٹ مانگتی رہی ہیں۔ سبھی کی خواہش تھی کہ یہ اصلاحات نافذ ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مخالف جماعتیں یہ نہیں چاہتیں کہ ہمیں اس کا کریڈٹ ملے۔
ہم کریڈٹ بھی نہیں چاہتے ہیں۔ ہم نے کاشتکاروں اور مزدوروں کی فلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اصلاحات کی ہیں۔ وہ ہمارے ریکارڈ کی وجہ سے ہمارے ارادوں کو سمجھتے ہیں اور ان پر بھروسہ کرتے ہیں۔
ہم نے گذشتہ چھ برسوں میں قدم قدم پر اصلاحات کی ہیں۔ اس لیے ہم نے آج جو کچھ کیا ہے، وہ 2014 میں شروع کیے گئے کاموں کے سلسلے کا ایک حصہ ہے۔ ہم نے کئی مرتبہ ایم ایس پ میں اضافہ کیا اور درحقیقت ہم نے سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں ایم ایس پی پر کاشتکاروں سے کئی گنا زیادہ خرید کی۔ سینچائی اور بیمہ دونوں میں زبردست اصلاحات کی گئیں۔ کاشتکاروں کے لئے براہِ راست آمدنی تعاون یقینی بنایا گیا۔
بھارتی زراعت میں جو کمی رہی ہے، اس کے تحت ہمارے کاشتکاروں کے خون پسینے کی محنت کے مطابق پوری قیمت نہیں ملتی ہے۔ ان اصلاحات کے ذریعہ لایا گیا نیا ڈھانچہ ہمارے کاشتکاروں کو حاصل ہونے والے منافع میں اضافہ کرے گا۔ جیسے دیگر صنعتوں میں ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ منافع حاصل ہونے کےبعد، زیادہ پیداواریت کے لئے اس شعبے میں دوبارہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ منافع اور از سرنو سرمایہ کاری کا ایک گول گھیرا بنتا ہے۔ زراعت کے شعبے میں بھی، یہ گول گھیرازیادہ سرمایہ کاری، جدت طرازی اور نئی تکنالوجی کے لئے دروازے کھولے گا۔ اس طرح، یہ اصلاحات نہ صرف زرعی شعبے بلکہ مکمل دیہی معیشت کو تبدیل کرنے کی زبردست اہلیت کی حامل ہیں۔
ایم ایس پی پر نظر ڈالیں تو صرف پورے خریف مارکیٹنگ سیزن میں مرکزی حکومت نے 389.9 لاکھ میٹرک ٹن گیہوں کی خریداری کی، جو کہ اب تک کا ریکارڈ ہے، جس میں 75055 کروڑ ایم ایس پی کے طورپر کاشتکاروں کو دیے گئے۔
جاری خریف مارکیٹنگ سیزن میں 159.5 لاکھ میٹرک ٹن دھان کی خریداری کی گئی ہے، جبکہ گذشتہ برس اسی مدت کے دوران 134.5 لاکھ میٹرک ٹن خریداری کی گئی تھی۔ یہ 18.62 فیصد کا اضافہ ہے۔ یہ سب اس وقت ہوا جب ہم تین آرڈیننس لے کر آئے، جنہیں اب پارلیمنٹ نے منظوری دے دی ہے۔
یو پی اے ۔2 (2009۔10 سے 2013۔14) کے پانچ برسوں کے مقابلے میں دھان کے لئے کاشتکاروں کو ایم ایس پی کی ادائیگی1.5 گنا، گیہوں کی 1.3 گنا، دالوں کی 75 گنا اور تلہن کی 10 گنا کی گئی۔ یہ ان لوگوں کے جھوٹ اور فریب کو ثابت کرتا ہے جو ایم ایس پی کے بارے میں افواہ پھیلا رہے ہیں۔

9۔ اور مزدور اصلاحات کے بارے میں کیا کہیں گے؟

یہ مزدور دوست اصلاحات ہیں۔ اب وہ سبھی منافع اور سماجی تحفظ کے حقدار ہیں، بھلے ہی انہیں طے شدہ مدت کے لئے کام پر رکھا گیا ہو۔ مزدور اصلاحات روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ کم ازکم اجرت میں بہتری کو یقینی بنائیں گی، غیر روایتی شعبے میں مزدوروں کے لئے سماجی تحفظ فراہم کریں گی اور سرکاری مداخلت کو کم کرکے مزدوروں کی مزدوری کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنائیں گی اور مزدوروں کے پیشہ وارانہ تحفظ کو ترجیح دیں گی۔ اس طرح بہتر کام کا ماحول بنانے میں تعاون ہوگا۔
گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ، ہم نے وہ سب کر دیا ہے جو ہم نے کرنے کے لئے طے کیا تھا۔ 1200 سے زائد سیکشنوں والے 44 مرکزی مزدور قوانین کو محض چار کوڈس میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اب صرف ایک رجسٹریشن، ایک اسیسمنٹ اور ایک ریٹرن داخل کرنی ہوگی۔ آسان تعمیل کے ساتھ، اس سے کاروباری اداروں کو سرمایہ کاری کرنے کے لئےبہتر ماحول فراہم کرنے اور ملازم اور آجر کے لئے منافع بخش نظام قائم ہو سکے گا۔
مینوفیکچرنگ شعبے کو دیکھیں تو گذشتہ چھ برسوں میں، ہم نے نئی مینوفیکچرنگ اکائیوں کے لئے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح میں 15 فیصد کی تخفیف سے لے کر ایف ڈی آئی کی حد میں اضافہ اور خلاء و دفاع جیسے کلیدی شعبوں میں نجی سرمایہ کاری کی اجازت دی ہے۔ ہم نے پیداواری شعبے کے لئے کئی اصلاحاتی تدابیر کیں، مزدور اصلاحات کو چھوڑ کر۔ یہ اکثر مذاق میں کہا جاتا تھا کہ روایتی شعبے میں بھارت میں مزدوروں سے زیادہ مزدور قوانین ہیں۔ مزدور قوانین نے اکثر مزدوروں کو چھوڑ کر سب کی مدد کی ہے۔ مجموعی ترقی تب تک نہیں ہو سکتی جب تک بھارت کے ورک فورس کو ان قوانین سے فائدہ نہیں حاصل ہوتا۔
مجھے یقین ہے کہ گذشتہ چند مہینوں میں کی گئیں یہ اصلاحات مینوفیکچرنگ اور زراعت دونوں شعبوں میں شرح نمو اور ریٹرن کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ اس کے علاوہ، یہ دنیا کو یہ اشارہ بھی دیں گی کہ یہ ایک نیا بھارت ہے جو بازار اور بازار کی طاقت میں یقین رکھتا ہے۔

10۔ ایک تنقید یہ کی جاتی ہےکہ ملازمین کو ہٹانے میں لچیلے پن کو 300 ملازمین کے حامل کارخانوں تک بڑھایا گیا ہے لیکن الیکٹرنکس، کپڑوں اور دیگر شعبوں میں بڑے کارخانے ان سے بھی زیادہ کو روزگار دیتے ہیں۔ سبھی فیکٹریوں میں اس لچیلے پن کی توسیع کیوں نہیں کی گئی ہے؟ اس کے علاوہ، ہڑتال کے حقوق کو لے کر تنقید کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟

بھارت ایک دوہرے مسئلے سے دوچار تھا۔ ہمارے مزدور قوانین ایسے تھے کہ زیادہ تر مزدوروں کے پاس کوئی سماجی تحفظ نہیں تھا۔ کمپنیاں مزدور قوانین کے ڈر سے زیادہ مزدوروں کو کام پر رکھنا نہیں چاہتی تھیں، جس سے لیبر انٹینسیو پروڈکشن میں کمی واقع ہوتی تھی۔ انسپکٹر راج نظام اور پیچیدہ مزدور قوانین کا آجروں پر منفی اثر مرتب ہوتا تھا۔
ہمیں اس سوچ سے باہر آنے کی ضرورت ہے کہ صنعت اور مزدور ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراؤ میں مصروف رہتے ہیں، ایسا نظام کیوں نہیں ہے جہاں دونوں کو یکساں طورپر فائدہ ہو؟ چونکہ مزدور قوانین ایک بیک وقت درپیش آنے والا مسئلہ ہے، اس لیے وہ ریاستی حکومتوں کو ان کی خصوصی پوزیشن اور ضرورتوں کے مطابق اس میں ترمیم کرنے کے لئے لچیلاپن دیتا ہے۔
ہڑتال کے حق پر بالکل بھی پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔ حقیقت میں، ٹریڈ یونینوں کو ایک نے حق کے ساتھ مضبوط کیا گیا ہے، جس سے انہیں قانونی منظوری حاصل ہو سکے گی۔
ہم نے آجر ۔ ملازم رشتوں کو مزید منظم بنادیا ہے۔ نوٹس کی مدت کا پرووِزن ملازمین اور آجروں کے مابین کسی بھی شکایات کے دوستانہ طریقے سے حل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

11۔ جی ایس ٹی نظام کووِڈ۔19 سے کافی تناؤ میں آگیا ہے۔ مرکز نے اب پیسہ قرض لینے اور منتقلی پر اتفاق ظاہر کیا ہے۔ تاہم آگے کے حالات کو دیکھتے ہوئے، آپ ریاستی حکومتوں کی پوزیشن کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

گذشتہ چھ برسوں میں ہمارے سبھی کاموں میں مسابقت اور کوآپریٹیو وفاقیت کا جذبہ دیکھا گیا ہے۔ ہمارے جیسا بڑا ملک صرف مرکز کے ایک ستون پر ترقی نہیں کر سکتا، اسے ریاستوں کے دوسرے ستونوں کی بھی ضرورت ہے۔ اس نظریہ کی وجہ سے کووِڈ۔19 کے خلاف جنگ بھی مضبوط ہوئی۔ بڑے پیمانے پر فیصلے لیے گئے۔ مجھے ان کے سجھاؤ اور اِن پٹس کو سننے کے لئے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ متعدد مرتبہ ویڈیو کانفرنسنگ کرنی پڑی، جن کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
جی ایس ٹی پر بات کریں تو یہ ہر معنوں میں ایک غیر معمولی سال ہے۔ بیشتر مفروضوں اور قیاس آرائیوں کو صدی میں کبھی آنے والی مہاماری کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھا۔ پھر بھی، ہم نے آگے بڑھنے کے لئے متبادل پیش کیے ہیں اور بیشتر ریاستیں ان سے متفق ہیں۔ ایک عام اتفاق رائے پیدا ہو رہاہے۔

12۔ آپ کئی برسوں تک وزیر اعلیٰ رہے۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر اقتصادی پہلو پر آپ ریاستوں کے ساتھ کس طرح کے تعاون کی تجویز پیش کرتے ہیں؟

یہ یاد رکھنا اہم ہے کہ مرکز اور ریاست تعلقات جی ایس ٹی تک محدود نہیں ہے۔ وبائی مرض اور مجموعی ٹیکس آمدنی میں تخفیف کے باوجود ہم نے ریاستوں کو بہتر وسائل منتقل کیے ہیں۔ اپریل سے جولائی کے درمیان ریاستوں کے لئے ٹیکس میں مدد کے گرانٹ کی کل رقم جس میں مرکز کی حمایت یافتہ اسکیمیں بھی شامل ہیں، گذشتہ برسوں کی اسی مدت میں 3.42 لاکھ کروڑ سے 19 فیصد بڑھ کر 4.06 لاکھ کروڑ ہوگئی۔ قصہ مختصر یہ کہ جب ہماری آمدنی میں کمی آگئی تب بھی ہم نے ریاستوں کو پیسہ فراہم کرنا جاری رکھا۔
کووِڈ۔19 وبائی مرض کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے سال 2020۔21 کے لئے مجموعی ریاستی گھریلو پیداوار (جی ایس ڈی پی) کے 2 فیصد تک کی اضافی قرض حد کی ابھی اجازت دی ہے۔ یہ 4.27 لاکھ کروڑ کی رقم ریاستوں کو فراہم کرائی جا رہی ہے۔ مرکز نے جون 2020 میں ریاستوں کو پہلے ہی 0.5 فیصد جمعہ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اس سے ریاستوں کو 106830 کروڑ کی اضافی رقم حاصل ہوئی ہے۔ ریاستوں کے گذارش پر، اسٹیٹ ڈیزاسٹر رسپانس فنڈ (ایس ڈی آر ایف) کا استعمال کرنے کی حد 35 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دی گئی ہے۔ یہ کورونا سے لڑنے کے لئے ریاستوں کے ساتھ زیادہ مالی معاملات یقینی بنانے کے لئے کیا گیا ہے۔

13۔ کئی لوگ دلیل دیتے ہیں کہ مرکز نے اپنی پریشانیوں کو ریاستوں کے سر ڈال دیا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

میں آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ پہلے کیا ہوا کرتا تھا۔ جب یو پی اے حکومت کے وقت ویٹ (وی اے ٹی) کو سی ایس ٹی (سی ایس ٹی) میں تبدیل کیا گیا تب انہوں نے ریاستوں کو کسی بھی ریوینیو میں تخفیف کے لئے نقصان کی بھرپائی کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ یو پی اے نے کیا کیا ؟ انہوں نے وعدے کے باوجود ریاستوں کو نقصان کی بھرپائی کے لئے منع کر دیا۔ صرف ایک سال کے لئے نہیں بلکہ پانچ برسوں تک۔ یہ ایک وجہ تھی کہ یوپی اے کے تحت جی ایس ٹی نظام کے لئے ریاستیں متفق نہیں تھیں۔جب ہم نے 2014 میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تب اس کے باوجود کہ وعدہ سابقہ حکومت نے کیا تھا، ہم نے ان بقایہ کو ادا کرنے کی ذمہ داری اپنے اوپر لی۔ یہ وفاقیت کے تئیں ہماری سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔

14۔ حکومت پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بھارت، بیماری کے پھیلاؤ میں تیزی اور اقتصادی بدحالی کے معاملے میں سرفہرست رہا۔ آپ اس طرح کی تنقید کا جواب کیسے دیتے ہیں؟

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اتنے ذہین ہوتے ہیں کہ وہ ہمارے ملک کا موازنہ دوسرے ممالک کے ساتھ کرتے ہیں جن کی آبادی ہماری ریاستوں کی آبادی کے برابر ہے اور اس موازنے کے لئے بالکل وہی اعداد وشمار استعمال کرتے ہیں۔
حالانکہ میں امید کرتا ہوں کہ دی اکنامک ٹائمز بہتر تحقیق کرے گا اور اس طرح کے دلائل میں نہیں پھنسے گا۔ ہمارے موجودہ اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ مارچ میں ماہرین نے کس طرح کی بڑی تعداد کا اندازہ لگایا تھا۔

15۔ وہ پانچ اقتصادی معیارات کیا جنہیں آپ واپسی کے واضح اشاروں کے طور پر پیش کریں گے؟ خاص طور سے، آپ آئندہ برس کس طرح کی بحالی کی امید کرتے ہیں۔

ہم اقصادی اصلاحات کے راستے پر ہیں۔ اشاروں سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔ سب سے پہلے، زراعت میں، جیسا ہ میں نے پہلے کہا، ہمارے کاشتکاروں نے سبھی ریکارڈتوڑ دیے ہیں اور ہم نے ایم ایس پی کی اعلیٰ ترین سطح پر ریکارڈ خریداری بھی کی ہے۔ یہ دو عوامل – ریکارڈ پیداوار اور ریکارڈ خرید – دیہی معیشت میں اہم آمدنی کو شامل کرنے جا رہے ہیں جو کہ مطالبات کا اپنا گول گھیرا ہوگا۔
دوسرا، ریکارڈ اعلیٰ سرمایہ کاری آمد، بھارت کو سرمایہ کار دوست ملک کے طور پر شناخت دلاتی ہے۔ اس سال وبائی مرض کے باوجود، ہم نے اپریل ۔ اگست کے لئے 35.73 بلین ڈالر کی زبردست ایف ڈی آئی حاصل کی۔ یہ گذشتہ برس اسی مدت کے مقابلے میں 13 فیصد زائد ہے، جو کہ ایک ریکارڈ سال بھی تھا۔
تیسرا، ٹریکٹر کی فروخت کے ساتھ ساتھ آٹو فروخت گذشتہ سال کی سطح تک پہنچ چکی ہے یا اس سے تجاوز کر رہی ہے۔ اس مطالبات میں مضبوط اضافے کا اشارہ ملتا ہے۔ چوتھا، مینوفیکچرنگ کے شعبے میں مسلسل بہتری نے بھارت کو ستمبر میں چین اور برازیل کے بعد اہم ابھرتے ہوئے بازاروں میں دو مقامات اوپر جاکر تیسرے مقام پر لانے میں مدد کی ہے۔ مینوفیکچرنگ میں سات برس کے سال بہ سال کی بنیاد پر پہلی مرتبہ اضافہ نظر آیا ہے۔ ای وے بل اور جی ایس ٹی کلکشن میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
آخر میں، ای پی ایف او کے نئے خالص سبسکرائبروں کے معاملے میں، اگست 2020 کے مہینے نے جولائی 2020 کے مقابلے میں ایک لاکھ سے زیادہ نئے گاہکوں کے ساتھ 34 فیصد کی جست لگائی ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ جاب مارکیٹ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
اس کے علاوہ، غیر ملکی زرمبادلہ ذخیرہ نے ریکارڈ بلندی کو سر کر لیا ہے۔ ریلوے مال ڈوھلائی جیسی اصلاحات کے اہم اشاروں میں 15 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے اور گذشتہ برس اسی مہینے ستمبر میں بجلی کے مطالبے میں 4 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بحالی کا یہ عمل جامع ہے۔ ساتھ ہی آتم نربھر بھارت سے متعلق اعلانات معیشت کے لئے ایک بڑی ترغیب کا باعث ہیں، خاص طور سے چھوٹے کاروباروں اور غیر روایتی شعبے کے لئے۔

16۔ مستقبل میں ترغیب کے لئے آپ کی کیا اسکیم ہے؟

ہم جامع میکرو ۔ اقتصادی استحکام کو یقینی بناتے ہوئے معیشت کو مسلسل وقت پر صحیح طریقے سے اوپر اٹھانے کے لئے تمام ضروری تدابیر کریں گے۔ یاد رکھیں کہ ابھی ہم وبائی مرض کے خطرے سے باہر نہیں ہیں۔ پھر بھی ہماری معیشت نے ہمارے لوگوں کے ذریعہ دکھائی گئی مدافعت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بحالی کی غیر معمولی اہلیت دکھائی ہے۔ یہ کچھ ایسا ہی ہے جو ان اعداد و شمار میں نظر آتا، تاہم ان اعداد و شمار کے پس پشت وجوہات ہیں۔ دوکان مالک، کاروباری، ایم ایس ایم ای چلانے والا شخص، کارخانے میں کام کرنے والا شخص، صنعت کار، یہ سبھی مضبوط بازار کے جذبے اور معیشت کی ازسرنو بحالی کے لئے ذمہ دار ہیں۔

17۔ آپ کو لگتا ہے کہ بھارت ابھی بھی مینوفیکچرنگ کے لئے ایک اہم عالمی مرکز کے طور پر ابھر سکتا ہے، خاص طور سے ایسے وقت میں گلوبل سپلائی چین کا حصہ بن کر، جب کمپنیاں چین کے رابطے میں آنے کا خطرہ لے رہی ہیں؟ اس سلسلے میں کیا پیش رفت ہے؟ کیا بھارت، عالمی سپلائی چینوں کے معاملے میں چین کے معتبر متبادل کے طور پر ابھر سکتا ہے؟

بھارت نے صرف وبائی مرض کے بعد مینوفیکچرنگ کے بارے میں بات شروع نہیں کی ہے، ہم کچھ وقت سے مینوفیکچرنگ بڑھانے پر کام کر رہے ہیں۔ بھارت، بالآخر، ایک باصلاحیت افرادی قوت کا حامل ملک ہے۔ تاہم بھارت دوسروں کے نقصان سے فائدہ حاصل کرنے میں یقین نہیں رکھتا ہے۔ بھارت اپنی طاقت کے بلبوتے پر عالمی پیداواریت کا مرکز بنے گا۔ ہماری کوشش کسی ملک کا متبادل بننا نہیں ہے بلکہ ایک ایسا ملک بننا ہے جو خاص مواقع فراہم کرتا ہے۔ ہم سبھی کی ترقی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر بھارت ترقی کرتا ہے تو انسانیت کا 6/1 واں حصہ ترقی کرے گا۔
ہم نے دیکھا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک نئے ورلڈر آرڈر کی تشکیل کیسے ہوئی۔ کووِڈ۔19 کے بعد بھی کچھ ایسا ہی ہوگا۔ اس مرتبہ بھارت عالمی سپلائی چینوں میں مینوفیکچرنگ اور یکجہتی کی ’بس ‘ کی سواری کرے گا۔ ہمارے پاس جمہوریت ، آبادی اور مطالبے کی شکل میں خاص فوائد ہیں۔

18۔ بھارت کی اس زبردست جست کو یقینی بنانے کے لئے آپ کون سے پالیسی اقدامات کی تجویر پیش کرتے ہیں ؟

گذشتہ چند مہینوں کے دوران، بھارت کا ادویہ کا شعبہ پہلے ہی مستقبل کا راستہ دکھا چکا ہے۔ بھارت عالمی فارما سپلائی چین میں ایک ملک کے طور پر ابھرا ہے۔ ہم بہت کم وقت میں پی پی اے کٹ تیار کرنے والے دوسرے سب سے ملک بن گئے ہیں۔ بھارت جدید تکنالوجی کے حامل سازو سامان جیسے وینٹی لیٹر تیار کرنے میں بھی ایک اثر چھوڑ چکا ہے اور پہلے کی معمولی اہلیت سے آگے بڑھ کر ہم مختصر مدت میں ہزاروں وینٹی لیٹر تیار کررہے ہیں۔
آزادی سے لے کر وبائی مرض کے آغاز تک تمام بھارت میں سرکاری ہسپتالوں میں تقریباً 16۔15 ہزار وینٹی لیٹر کام کر رہے تھے۔ اب ہم ان ہسپتالوں میں 50000 مزید وینٹی لیٹر شامل کرنے کی سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
اب، ہم نے اس ماڈل کو کامیابی کے ساتھ قائم کیا ہے۔ ہم مختلف شعبوں میں اس عمل کی تقلید کر سکتے ہیں۔ موبائل مینوفیکچرنگ، دوا اور طبی سازو سامان کے لئے حال ہی میں شروع کی گئی ہماری پیداواری سے مربوط ترغیباتی (پی ایل آئی) اسکیمیں مسابقت کے ساتھ ساتھ اہلیت سازی کے لئے بین الاقوامی سطح پر سرکردہ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی اچھی مثالی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی وہ بھارت کو ان کا برآمداتی مرکز بناتی ہیں۔ تنہا موبائل فون شعبے میں یہ امید کی جا رہی ہے کہ ان کی 10 لاکھ کروڑ سے زیادہ کی پیداوار آئندہ پانچ برسوں میں ہوگی، جس میں سے 60 فیصد حصہ برآمدات کا ہوگا۔
موڈیز کے مطابق امریکہ سے 2020 گرین فیلڈ کے 145 پروجیکٹ بھارت میں آئے ہیں، جبکہ چین میں 86، ویتنام میں 12 اور ملیشیا میں 15 ہیں۔ یہ بھارت کی ترقی کی کہانی میں عالمی بھروسے کا ایک واضح اشارہ ہے۔ ہم نے بھارت کو سرکردہ مینوفیکچرنگ مقام بنانے کے لئے مضبوط بنیاد رکھی ہے۔
کارپوریٹ ٹیکس میں تخفیف، کوئلہ کے شعبے میں کمرشل کانکنی کا تعارف، نجی سرمایہ کاری کے لئے خلائی شعبے کو کھولنا، شہری ہوابازی کے استعمال کے لئے ہوائی راستوں پر حفاظتی انتظامات کرنا، یہ کچھ ایسے اقدامات ہیں جو ترقی کو فروغ دینے میں لمبا راستہ طے کریں گے۔
لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ بھارت اتنی ہی تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے جتنا تیز کام ہماری ریاستیں کرتی ہیں۔ سرمایہ کاری راغب کرنے کے لئے ریاستوں کے درمیان صحت مند مقابلہ ہونا چاہئے۔ ریاستیں ایز آف ڈوئنگ بزنس درجہ بندی میں مسابقت کر رہی ہیں۔ صرف ترغیب فراہم کرنا، سرمایہ کاری کے لئے کافی نہیں ہو سکتی۔ ریاستوں کو بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کرنے اور ترقی سے وابستہ پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہوگی۔

19۔ کچھ شعبوں میں اس بات کا ڈر ہے کہ آتم نربھر بھارت سے خودمختاری کے دنوں کی واپسی ہوتی ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ بھارت کا عالمی سپلائی چین کا حصہ بننے کی کوشش اور درآمدات پر پابندی عائد کرنے میں تضاد ہے۔ اس سلسلے میں آپ کے خیالات کیا ہیں؟

یہ بھارت اور اور بھارتیوں کی فطرت نہیں ہے کہ وہ اندر کی جانب دیکھیں اور صرف خود پر توجہ دیں۔ ہم ایک دور اندیشی پر مبنی ثقافت اور ایک متحرک جمہوریت ہیں جو ایک بہتر دنیا کی تشکیل کے لئے دیگر ممالک کے ساتھ رابطہ قائم کرتی ہے۔ آتم نربھر بھارت صرف مسابقت کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ اہلیت کے بارے میں بھی ہے۔ یہ تسلط قائم کرنے کے لئے نہیں بلکہ خودکفالت کے بارے میں ہے، یہ خود کو دیکھنے کے بارے میں نہیں بلکہ دنیا کو باہر سے دیکھنے کے بارے میں ہے۔
اس لیے جب ہم آتم نربھر بھارت کہتے ہیں تو ہمارا مطلب ایک ایسے بھارت سے ہے جو سب سے پہلے آتم نربھر ہو۔ ایک آتم نربھربھارت دنیا کے لئے ایک قابل بھروسہ دوست بھی ہے۔ ایک آتم نربھر بھارت کا مطلب ایسے بھارت سے نہیں ہے جو خود پر مرتکز ہو۔ جب کوئی بچہ 18 برس کی عمر کو پہنچتا ہے تو ماں باپ بھی اسے آتم نربھر بننے کے لئے کہتے ہیں۔ یہ فطری بات ہے۔
آج ہم میڈیکل کے شعبے میں دنیا کی مدد کرنے کے لئے اپنی خودکفالت کا استعمال کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم لاگت میں اضافہ کرکے یا پابندی عائد کیے بغیر ٹیکوں اور ادویہ کی پیداوار کر رہے ہیں۔ ہمارے جیسا نسبتاً غریب ملک ڈاکٹروں کو تعلیم دلانے کے لئے ایک بڑی رقم خرچ کرتا ہے جو آج دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہم نے انہیں نقل مکانی کرنے سے کبھی نہیں روکا۔
جب بھارت ایک خاص شعبے میں خود کفیل ہو جائے گا تو وہ ہمیشہ دنیا کی مدد کرے گا۔ اگر کوئی بھارت کی اخلاقیات اور جذبے کو نہیں سمجھتا ہے تو وہ اس تصور کو نہیں سمجھ پائے گا۔

20۔ تو کوئی تضاد نہیں ہے؟

یہ ضروری نہیں ہے کہ ماہرین کے درمیان کوئی الجھن ہے تو ہمارے طریقہ کار میں بھی تضاد ہے۔ ہم نے زراعت، مزدور اور کوئلے جیسے شعبوں میں اصلاحات کے توسط سے ایف ڈی آئی کے لئے پابندیوں کو کم کیا ہے۔ صرف وہی ملک، دنیا کے ساتھ کام کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ راستے کھولنے کی اجازت دے گا جو بین الاقوامی کاروبار اور تجارت کی طاقت میں یقین رکھتا ہے۔ ساتھ ہی، یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت ان شعبوں میں اپنی طاقت کا احساس کرنے میں ناکام رہا ہے جہاں اس کو تقابلی فائدے ہیں۔
مثال کے طور پر کوئلے کے شعبے کو ہی لیں۔ دنیا کے سب سے بڑے ذخیروں میں سے ایک ہونے کے باوجود 2019۔20 میں بھارت نے تقریباً 1.5 لاکھ کروڑ روپئے کا کوئلہ درآمد کیا۔ دفاع، ہمارے لیے درآمداتی انحصار کا ایک اور شعبہ ہے۔ ہم نے ایف ڈی آئی حد 49 سے بڑھا کر 74 فیصد کر دی تو اگلے پانچ برسوں میں 3.5 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر کے 101 ساز و سامان کی گھریلو پیداوار کا بھی اعلان کیا ہے۔
ماضی میں اپنے بازار کھولنے کے دوران، ہم نے 10 آزاد کاروباری سمجھوتوں (ایف ٹی اے) اور 6 ترجیحی سمجھوتوں (پی ٹی اے) پر بھی دستخط کیے۔ موجودہ ایف ٹی اے کا تجزیہ اس بنیاد پر ہونا چاہئے کہ وہ بھارت کے لئے کیسے فائدہ مند ثابت ہوا ہے، نہ کہ نظریاتی طور سے کھڑے ہونے کی بنیاد پر۔
بھارت گلوبل ویلیو چین کا حصہ بننا چاہتا ہے اور کاروباری سودے کرنا چاہتا ہے، تاہم انہیں غیر جانبدار اور غیر امتیازی سلوک پر مبنی ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ چونکہ بھارت ایک بڑے بازار تک رسائی فراہم کر رہا ہے، اس لیے سمجھوتے باہمی اور متوازن ہونے چاہئیں۔
ہم نے اپنے ایف ٹی اے کے تحت اپنے بڑے بازار کو رسائی فراہم کی۔ حالانہ ہمارے تجارتی شراکت داروں نے ہمارے ساتھ ہمیشہ جواب میں ویسا ہی رویہ نہیں اپنایا۔ ہمارے برآمدکاروں کو اکثر غیر ارادتاً غیر ٹیرف رکاؤٹوں کا سامان کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، جبکہ ہمارے تجارتی شراکت دار بھارت کو اسٹیل برآمد کر سکتے ہیں، کچھ کاروباری شراکت دار بھارتی اسٹیل درآمدات کی اجات نہیں دیتے ہیں۔ اسی طرح، بھارتی ٹائر پروڈیوسر تکنیکی رکاؤٹوں کی وجہ سے برآمد نہیں کرپاتے ہیں۔
جبکہ بھارت کاروبار میں کھلے پن اور شفافیت کے لئے عہدبستہ ہے۔ یہ اپنے برآمدکاروں کے لئے آزاد اور غیر جانبدار رسائی کو یقینی بنانے کے لئے اپنی تدابیر اور سازو سامان کا استعمال کرے گا۔
آر سی ای پی کے معاملے میں بھارت نے آخری نتیجہ کے لئے اپنی سب سے بہتر کوشش کی۔ ہم غیر جانبدار کاروباری طریقوں اور شفافیت کی بنیاد پر سب کے لئے برابرمواقع فراہم کرنے خواہش ظاہر کی۔ بھارت نے آر سی ای پ میں شامل ہونے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر لیا۔ ہم نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ موجودہ آر سی ای پی ڈھانچہ اس کے رہنما اصولوں کی عکاسی نہیں کرتا اور نہ بقیہ مسائل پر غورکرتا ہے۔

21۔ سرکاری تجزیہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایف ٹی اے نے بھارت کی حمایت میں کام نہیں کیا ہے۔ ہم بھی آر سی پی ای سے باہر چلے گئے۔ آپ کی سوچ میں اس بارے میں کسی طرح تبدیلی رونما ہوئی ہے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہمیں ایف ٹی اے کو ہدف کے دائرے میں رکھنا چاہئے۔

بین الاقوامی کاروباری کے پس پشت رہنما اصول تمام ممالک کے لئے فائدہ مند حل نکالنا ہے۔ مجھے ماہرین نے بتایا کہ عالمی کاروباری ادارے کے توسط سے مثالی طور پر کاروباری سودے عالمی اور کثیر جہتی ہونے چاہئیں۔ بھارت نے ہمیشہ عالمی کاروباری قوائد کی تعمیل کی ہے اور وہ ایک آزاد، غیر جانبدار، مساوی اور قوائد پر مبنی بین الاقوامی کاروباری ادارے کے ساتھ کھڑا ہے، جسے ڈبلیو ٹی او کے تحت تصور کردہ ترقی کے مقاصد اور ترقی پذیر ممالک کی آرزوؤں کو پورا کرنا چاہئے۔

22۔ بھارت پی پی ای اور ماسک کے ایک اہم مینوفیکچرر کے طور پر ابھرا ہے۔ اسی طرح فارمیسی ایک کلیدی شعبے کے طور پر ابھر اہے۔ آگے بڑھتے ہوئے،، آپ اس شعبے میں ہمارے ایڈوانٹیج کو کیسے مضبوط کریں گے؟

ہم نے وبائی مرض کی شروعات میں محسوس کیا کہ ہم پی پی ای کے لئے درآمدات پر منحصر ہیں۔ دنیا کے ممالک کے ذریعہ لاک ڈاؤن لگائے جانے کےبعد مسئلہ بڑھ گیا، جس سے پیداواریت متاثر ہوئی، جس کے نتیجے میں گلوبل سپلائی چینوں میں رخنہ پیدا ہوا۔ اس کا لازمی طور پر مطلب تھا کہ ملک کو خطرے کے وقت آتم نربھر بننے کے طریقوں کے بارے میں جلدی سے سوچنا تھا۔
ہم نے اس مقصد کے لئے ہرایک کچے مال کی شناخت اور وسائل کے لئے بہت ہی یکسوئی کے سا تھ کام شروع کیا۔ ہم نے پی پی ای کٹ، این۔95 ماسک، وینٹی لیٹر، ڈائیگناسٹک کٹ وغیرہ بنانے اور خریدنے کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے صنعت اور ریاستی حکومتوں کے ساتھ چوبیس گھنٹے کام کیا۔ ان مسائل کو حل کر لینے کے بعد اندرونِ ملک پیداواریت کا عمل شروع ہوگیا اور خرید کے لئے گھریلو مینوفیکچررس کے ذریعہ حکم جاری کیے گئے۔ بھارت اب ایک ایسی حالت میں ہے جہاں ہم نہ صرف اپنی گھریلو مانگ کو پورا کر رہے ہیں بلکہ دیگر ممالک کی مانگ کو پورا کرنے کے بھی اہل ہیں۔
بھارت نے گذشتہ کچھ مہینوں میں ’دنیا کی فارمیسی‘ کے اپنے نام کو ثابت کرتے ہوئے تقریباً 150 ممالک کو ادویہ اور طبی سازو سامان فراہم کیا۔ بھارتی ادویہ کا شعبہ 38 بلین ڈالر کے بقدر ہے۔ اس فائدے کو مضبوط کرنے کے لئے، سرکار نے طبی سازو سامان اور فعال ادویہ عناصر کی پیداواریت کے لئے 14000 کروڑ کے خرچ کو منظوری دے دی ہے۔ عالمی قیادت کے حصول کے لئے تھوک ادویہ پارک اور طبی سازو سامان تیار کیے جا رہے ہیں۔

23۔ اگلے برس تک ٹیکہ دستیاب ہونے کی امید ہے۔ اس کی تقسیم اور ٹیکہ کاری کی ترجیحات پر جو کیا جائے گا اس بارے میں کیا خیال ہے؟

سب سے پہلے، میں ملک کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ کورونا کی ویکسین جب بھی تیار ہوگی، ہر کسی کی ٹیکہ کاری کی جائے گی۔ کسی کو محروم نہیں رکھا جائے گا۔ ہاں، اس ٹیکہ کاری مہم کے آغاز میں کورونا کے سب سے نزدیک موجود لوگوں کو شامل کیا جائے گا۔ اس کورونا سے نبرد آزما ہراول دستے کے کارکنان شامل ہوں گے۔ کووِڈ۔19 ویکسین کے لئے ویکسین ایڈمنسٹریشن پر ایک نیشنل ایکسپرٹس گروپ تشکیل دیا گیا ہے۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ ویکسین کی تیاری کا کام ابھی جاری ہے۔ تجربات کیے جا رہے ہیں۔ ماہرین یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ویکسین کیا ہوگی، اس کی فی کس خوراک وقت وقت پر یا کسی دیگر طریقے سے کیسے دی جائے گی، وغیرہ۔ اس سب پر جب ماہرین کے ذریعہ آخری شکل دی جائے گی، تب شہریوں کو ویکسین دینے کے بارے میں ہمارے طریقہ کار کو بھی رہنمائی حاصل ہوگی۔
لاجسٹکس پر 28000 سے زائد کولڈ چین پوائنٹ کووِڈ۔19 کی ذخیرہ اندوزی کریں گے اور تقسیم کریں گے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ آخری سرے تک پہنچے۔ ریاست، ضلع اور مقامی سطح پر اس کام کے لئے وقف ٹیمیں یہ دیکھیں گی کہ ویکسین تقسیم کاری اور ایڈمنسٹریشن بہتر انتظام اور جوابدہ طریقے سے کیا جائے۔ استفادہ کنندگان کو بھرتی کرنے، ٹریک کرنے اور ان تک پہنچنے کے لئے ایک ڈجیٹل پلیٹ فارم بھی تیار کیا جا رہا ہے۔

24۔ کووِڈ۔19 دھچکے کو دیکھتے ہوئے ہم 2024 تک 5 کھرب ڈالر کے بقدر کی معیشت بننے کے ہدف کے تعلق سے کہاں کھڑے ہیں؟

بیشتر افراد جن کی سوچ ناامیدی پر مبنی ہے وہ شکوک و شبہات میں مبتلا رہتے ہیں۔ اگر آپ ان کے درمیان بیٹھتے ہیں، تو آپ کو مایوسی اور ناامیدی کی باتیں ہی سننے کو ملیں گی۔
حالانکہ، اگر آپ پرامید لوگوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں، تو آپ کو بہتری کے بارے میں خیالات اور سجھاؤ سننے کو ملیں گے۔ آج ہمارے ملک کا مستقبل امید پر مبنی ہے، یہ 5 کھرب ڈالر کے ہدف تک پہنچنے کے لئے پر امید ہے اور یہ پرامیدی ہمیں اعتماد بخشتی ہے۔ آج، اگر ہمارے کورونا کے سورما حضرات مریضوں کی خدمت کرنے کے لئے 20۔18 گھنٹے کام کر رہے ہیں، تو یہ ہمیں اور زیادہ سخت محنت کے لئے حوصلہ فراہم کرتا ہے۔
تو کیا ہوا، اگر ہم وبائی مرض کی وجہ سے اس سال تیزی رفتاری سے آگے نہیں بڑھ سکے! ہم آئندہ برس نقصان کی بھرپائی کے لئے اور تیزی سے کوششیں کریں گے۔ اگر ہم اپنے راستہ میں رکاؤٹوں سے گھر جاتے ہیں تو کچھ بھی بڑا نہیں کر پاتے۔ امید نہ رکھ کر، ہم ناکامی کی گارنٹی دیتے ہیں۔ قوت خریداری کی برابری کے معاملے میں بھارت دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت موجودہ امریکی ڈالر کی قیمتوں کے ساتھ ہی تیسرا سب سے بڑا ملک بن جائے۔ پانچ کھرب ڈالر کا ہدف ہمیں یہ حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔
ساتھ ہی، ہماری حکومت کے پاس اہداف کو پورا کرنے کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے۔ ہم نے طے شدہ وقت سے قبل دیہی صفائی ستھرائی کے ہدف کو پورا کیا۔ ہم نے طے شدہ وقت سے قبل گاؤں کی برق کاری کا ہدف حاصل کیا۔ ہم نے 8 کروڑ اُجووَلا کنکشن کا ہدف طے شدہ مدت سے قبل حاصل کیا۔ اس لیے ہمارے ٹریک ریکارڈ اور مسلسل اصلاحات کو دیکھتے ہوئے، لوگوں کو ہدف تک پہنچنے کی ہماری اہلیت پر بھی یقین ہے۔
ہم نے ان لوگوں کو صحیح موقع فراہم کیا ہے جنہوں نے بھارت میں سرمایہ کاری ہے، اپنی اہلیت کو بڑھانے اور عالمی سطح پر مسابقت کے لئے اپنا یقین ظاہر کیا ہے۔آتم نربھر بھارت پہل قدمی، بھارت کی طاقت کو اَن لاک کرنے کے بارے میں ہے، تاکہ ہماری کمپنیاں نہ صرف گھریلو بازاروں، بلکہ عالمی بازاروں کو بھی اپنی خدمات بہم پہنچا سکیں۔