Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

نئی دہلی میں 29جولائی 2019کو شیروں کی گنتی کی رپورٹ2018کے اجراء پر وزیراعظم کی تقریر


 

نئی دہلی،29؍جولائی،

مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی جناب پرکاش جاؤڈیکر جی، جناب بابل سپریو جی ،یہاں موجود دیگر سبھی  معزز شخصیات ، سب سے پہلے آپ سبھی کو گلوبل ٹائیگر ڈے  (شیروں کا عالمی دن)  کی بہت بہت مبارک باد۔

اس سال  گلوبل ٹائیگر ڈے  اس لئے بھی خاص ہے کیونکہ بھارت نے ایک  تاریخی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کامیابی کے لئے میں آپ سبھی  کو ، دنیا بھر کے  جنگلی حیات  کے چاہنے والوں کو ، اس مشن سے جڑے ہر عہدیدار ، ہر ورکر  اور خاص طور سے  جنگلوں میں رہنے والے ہمارے  آدی واسی  بھائی بہنوں کو  دل سے بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔

دوستو!

آج گلوبل ٹائیگر ڈے کے موقع پر  ہم  شہروں کے تحفظ کے لئے اپنے عہد  کا  اعادہ کرتے ہیں۔ ابھی شیروں کی گنتی  کے نتائج  کے بارے میں کئے گئے اعلان سے  تمام  بھارتی  اور  فطرت کے  چاہنے والے کو خوش ہوجائیں گے۔ 9 سال پہلے  سینٹ پیٹرس برگ میں  یہ فیصلہ کیا گیا تھا  کہ 2022 تک  شیروں کی آبادی  کو دوگنا گیا جائے۔ ہم نے بھارت میں  یہ ہدف  چار سال  پہلے  ہی مکمل  کرلیا ہے۔ اس رفتار اور پختہ ارادے کے ساتھ  مختلف فریقوں نے  اس  قابل قدر  ہدف کو حاصل کرنے کے لئے کام کیا ہے۔ یہ  سنکلپ سے سدھی  کی ایک بہترین مثال ہے۔ ایک مرتبہ  بھارت کے لوگ  اگر کچھ  کرنے کا فیصلہ کرلیں تو  کوئی بھی طاقت  انہیں  مقررہ نتائج  کو حاصل کرنے سے  روک نہیں سکتی۔

ساتھیوں مجھے یاد ہے کہ 15-14 سال پہلے  جب  یہ اعداد وشمار سامنے آئے تھے کہ ملک میں  صرف1400  ٹائیگر رہ گئے ہیں تو یہ بحث کا ایک بڑا موضوع بن گیا تھا، تشویش کا باعث بن گیا تھا، ٹائیگر پروجیکٹ سے جڑے  ہر شخص کے لئے یہ ایک  بڑا چیلنج تھا۔ ٹائیگر کے لئے مناسب ماحول سے لے کر انسانی آبادی کے ساتھ  توازن قائم کرنے کا ایک بڑا مشکل کام سامنے تھا، لیکن  جس طرح  صبر و تحمل کے ساتھ ، جدید تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اس مہم کو آگے بڑھایا ، وہ اپنے آپ میں  بہت  قابل ستائش ہے۔

آج ہم  فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ بھارت تقریبا 3000  شیروں کے ساتھ  دنیا کے سب سے بڑے  اور سب سے  محفوظ  ہیبی ٹیٹس (بستیوں)  میں سے ایک ہے۔ دنیا بھر میں  شیروں کی تقریبا  تین چوتھائی آبادی  کا بسیرہ ہمارے ہندوستان میں ہے۔

یہاں موجود آپ میں سے کئی لوگ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنگلی حیات کے ماحولیاتی نظام  کو  بہتر بنانے کی یہ مہم  صرف شیروں تک ہی محدود نہیں ہے۔ گجرات کے  گیر کے جنگلوں میں پائے جانے والے ایشیائی  ببرشیر  اور  برف میں رہنے والے تیندوے کے تحفظ کی اسکیم پر  بھی تیزی سے کام ہورہا ہے۔ بلکہ گیر میں تو  جو پہلے  سے چل رہا ہے اس کے  بہتر نتائج آج صاف صاف نظر آرہے ہیں۔ وہاں کے شیروں کی تعداد  میں 27 فیصد  تک کا اضافہ ہوا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ بھارت کی بیسٹ پریکٹس (بہترین طریقہ کار)  کا فائدہ  ٹائیگری رینج کے دوسرے دوست ملکوں کو بھی مل رہا ہے۔

آج  شیروں کے تحفظ کی قومی اتھارٹی  چین  اور روس سمیت  پانچ ملکوں سے سمجھوتہ کرچکی ہے اور جلد ہی دوسرے ملکوں کے ساتھ  سمجھوتہ بھی  طے ہے۔ گوٹے مالا بھی اپنے یہاں  جیگوار کنزرویشن کے لئے بھی ہم سے  تکنیکی مدد لے رہا ہے۔ ویسے یہ بھی دلچسپ ہے کہ شیر  صرف بھارت ہی نہیں کئی اور ملکوں میں  بھی عقیدے کی  علامت ہے۔ بھارت کے علاوہ ملیشیا اور بنگلہ دیش  کا قومی  جانور  شیر ہی ہے۔ چینی تہذیب میں تو  شہروں کا سال منایا جاتا ہے۔ یعنی ایک طرح سے دیکھیں تو ٹائیگر سے جڑی  کوئی بھی پہل  ، کئی ملکوں کو، وہاں کے لوگوں کو ، کئی طرح سے متاثر کرتی ہے۔

دوستو!

بہتر ماحولیات کے بغیر انسانی ترقی نا مکمل ہے۔ اس لئے  آگے کا راستہ انتخابیت میں نہیں بلکہ اجتماعیت میں ہے۔ ہمیں ماحولیات کے تحفظ کے لئے  ایک وسیع البنیاد اور جامع  جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

یہاں ایسے بہت سے پیڑ پودے اور جانور ہیں جنہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ وہ کیا ہے جو ہم ٹیکنالوجی کے ذریعے یا انسانی عمل کے ذریعے  انہیں ایک تازہ زندگی بخشنے کے لئے کرسکتے ہیں تاکہ وہ  ہمارے کرہ ارض کی خوبصورتی اور گوناگونیت میں اضافہ کریں۔  اس کے ساتھ ہی ایک بڑی پرانی بحث بھی ہے –  ترقی یا ماحولیات  اور دونوں  طرف سے ہی  ایسے خیالات پیش کئے جاتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر ایک  بہت اہم ہے۔

لیکن ہمیں  بقائے باہم کو بھی قبول کرنا ہوگا اور  باہم سفر  کی اہمیت کو بھی سمجھنا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ  ترقی اور ماحولیات کے درمیان ایک صحت مند توازن قائم کرنا ممکن ہے اور ہمارا ملک تو ایسا  ہے  کہ جہاں ہمیں ہزاروں سال سے  بقائے باہم کی تعلیم دی گئی ہے۔ ہمارے  بزرگوں نے  جو بھگوان  کا تصور کیا تھا  اور  بقائے باہم  کی مثال  اس میں محسوس ہوتی ہے ۔ یہ ساون کا مہینہ ہے ، سوموار  ہے، شیو جی کے گلے میں سانپ ہے  اور اسی پریوار کے گنیش جی کا  آسن چوہا ہے، سانپ چوہے کو کھانے کی عادت رکھتا ہے لیکن شیو جی اپنے  کنبے میں  بقائے باہم کا پیغام دیتے ہیں، یہ اپنے آپ میں  اہم ہے کہ ہمارے یہاں کسی  پرتما کا تصور  جانور ، پرندے  اور پودوں کے بنا نہیں کی گئی ، اس کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔

اپنی پالیسیوں میں ، اپنی معیشتوں میں  ہمیں تحفظ کے بارے میں  بحث کو تبدیل کرنا ہے۔ ہمیں  اسمارٹ اور حساس  ہونا ہے اور  ماحولیاتی پائیداری  اور اقتصادی ترقی  کا ایک صحت مند توازن قائم کرنا ہے۔

بھارت اقتصادی طور پر  اور ماحولیاتی طور پر ، دونوں طرح پھولے پھلے گا  ۔ بھارت  زیادہ سڑکیں تعمیر کرے گا اور بھارت میں  زیادہ صاف دریا ہوں گے۔ بھارت میں  ٹرینوں کی  کنکٹی ویٹی  بہتر ہوگی  اور  پیڑوں کی تعداد بھی زیادہ ہوگی ۔ بھارت اپنے شہریوں کے لئے  زیادہ مکان بنائے گا  اور  اس کے ساتھ ہی جانوروں کے لئے بھی معیاری بستیاں  قائم کرے گا۔ بھارت  میں بحری معیشت تابناک ہوگی اور صحت مند بحری ماحول ہوگا۔ یہ توازن  وہ ہے جو  ایک مضبوط  اور شمولیت والے بھارت  کی تشکیل کرے گا۔

ساتھیوں! گزرے پانچ برسوں میں جہاں ملک میں  جدید  بنیادی ڈھانچے  کے لئے تیزی سے کام ہوا ہے، وہی بھارت میں جنگلات کے احاطے میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں  محفوظ کردہ علاقوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ 2014 میں  بھارت میں  محفوظ شدہ علاقوں کی تعداد  692  تھی جو  2019 میں بڑھ کر 860 سے زیادہ ہوگئی ہے۔ ساتھ ہی  کمیونٹی ریزرو کی تعداد  2014 کی 43 سے بڑھ کر اب تقریبا 100 کو پار کر گئی ہے۔

ٹائیگروں کی تعداد بڑھنا  ، محفوظ شدہ علاقوں کی تعداد بڑھنا بھی صرف اعداد  وشمار تک ہی محدود نہیں ہے، اس کا بہت بڑا اثر  سیاحت اور روز گار کے  وسائل پر بھی پڑتا ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ  رنتھمبور میں  جو مشہور  شیرنی ’’مچھلی‘‘ صرف اسے دیکھنے  کے لئے لاکھوں ملکی – غیر ملکی سیاح ڈیرہ ڈالے رہتے تھے۔  اس لئے شیروں کے تحفظ کے ساتھ ہی ہم  ماحولیاتی طور پر پائیدار  سیاحتی ماحول کے بنیادی ڈھانچے  کی تشکیل  کے معاملے میں بھی بدل رہے ہیں۔

ساتھیوں، ماحولیات کے تحفظ کے لئے اٹھائے گئے بھارت کے  تمام اقدامات میں ہمیں  کلائیمیٹ ایکشن کا  عالمی فرنٹ رنر بنادیا ہے۔ سال 2020 سے پہلے  جی ڈی پی کے لحاظ سے اخراج کی شرح کے لئے بھی جو  نشانے رکھے  گئے تھے، وہ بھارت پہلے ہی حاصل کرچکا ہے۔ بھارت آج دنیا کے ان  اعلیٰ ترین دیشوں میں شامل ہے جو اپنی معیشت کو  صاف ایندھن پر مبنی  اور قابل تجدید توانائی  پر مبنی بنانے میں مصروف ہے۔ ہم  کچرے اور  بائیو ماس کو  اپنی  توانائی کی کفالت  کا ایک اہم حصہ بنارہے ہیں۔

 اس کے علاوہ اب جو  الیکٹر موبیلٹی پر کام ہورہا ہے، بائیو فیول  پر کام ہورہا ہے، اسمارٹ سٹی پر کام ہورہا ہے ، اس سے بھی  ماحولیات کی حمایت میں جڑے ہوئے ہیں۔ قابل تجدید توانائی کے معاملے میں تو ہم بڑی تیزی سے  اپنے ہدف کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ 2022 تک ہم نے جو  175  گیگاواٹ قابل تجدید توانائی  پیدا کرنے کا ہدف رکھا ہے ، اسے حاصل کرنے کے لئے  پوری  محنت سے کام کیا جارہا ہے۔

وہیں بین الاقوامی شمسی اتحاد  ، یعنی آئی ایس اے کے ذریعے ہم دنیا کے بہت سے ملکوں کو شمسی توانائی سے جوڑنے کا اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ اب ہمارا  ہدف ہونا چاہئے ’’ ایک دنیا ، ایک سورج ، ایک گرڈ،‘‘۔

اجولا اور اجالا جیسی اسکیمیں ملک کی عام زندگی کو تو آسان بناہی رہی ہیں، اس سے ماحولیات کی بھی  خدمت ہورہی ہے۔ ملک کے ہر کنبے کو ایل پی جی کنکشن دینے سے ہی  ہم بڑی تعداد میں پیڑوں کے کاٹنے ، انہیں نقصان سے بچانے  میں کامیاب ہورہے ہیں۔ ملک کے ہر گھر ، ہر بلڈنگ ، ہر سڑک، ہر گلی کو  ایل ای ڈی بلب سے لیس کرنے کی جو  مہم چل رہی ہے،  اس سے بجلی  تو بچ ہی رہی ہے ، کاربن پیدا ہوانے میں بھی بہت کمی آرہی ہے اور ساتھ  ہی ساتھ  متوسط طبقے کے کنبوں میں  بجلی کا بل بھی کم ہوا ہے ، ان کو اقتصادی طور سے فائدہ  ہی ہوا ہے۔

ساتھیوں،  آج بھارت کی پہچان  دنیا کے ان ملکوں میں ہے جو اپنی اور دنیا کے مفاد میں  جو بھی عہد کرتا ہے ، اس کو وقت پر پورا کرتا ہے۔ غریبی کے خاتمے   اور پائیدار ترقیاتی اہداف  کے  حصول میں بھی  بھارت دنیا میں  سب سے آگے رہے گا ، اس کا مجھے پورا یقین ہے۔ ساتھیوں، ایسی کوششوں کی وجہ سے آج بھارت کی پہچان  دنیا کے ان ملکوں میں ہے جو اپنے اور دنیا کے مفاد میں  جو بھی عہد کرتے ہیں انہیں وقت پر پورا کرتے ہیں۔

آج جبکہ ہم  تعداد  کا جشن منارہے ہیں، ہمیں اس بات کو  سمجھنا چاہئے کہ یہ  شاہی جانور  مستقل کم ہوتے ہوئے اور  گڑ بڑ والے مسکنوں کے سخت چیلنج کا سامنا کررہے ہیں اور انہیں غیر قانونی تجارت اور اسمگلنگ کا خطرہ ہے، بھارت  اس  جانور کے تحفظ  میں اضافے کے لئے  جو بھی کچھ کرسکتا ہے، اس کے لئے عہد بستہ ہے۔

میں ٹائیگر رینج والے ملکوں کی حکومتوں کے سربراہان سے درخواست کروں گا  اور انہیں ایشیا میں  ان جانوروں کے غیر قانونی شکار  اور تجارت  کو سختی سے روکنے  اور ان کی مانگ  کو  پوری طرح ختم کرنے کے لئے  عالمی لیڈروں کا ایک اتحاد  قائم کرنے کے لئے یکجا کروں گا۔ میں آپ کو ایک بار پھر  شیروں کے عالمی دن پر مبارک باد دیتا ہوں۔

آیئے ہم سب  ایک سرسبز اور  ماحولیاتی  طور پر پائیدار ملک  قائم کرنے کا عہد کریں۔ آیئے ہم ٹائیگر کو اس پائیدار  ماحول کی علامت بنائیں۔

اس شعبے سے جڑے سبھی لوگوں سے یہی کہوں گا کہ  جو کہانی  ’’ایک تھا ٹائیگر‘‘ کے ساتھ شروع ہوکر  ’’ٹائیگر زندہ ہے‘‘ تک پہنچی ہے ، وہ وہیں نہ رکے، صرف ٹائیگر زندہ ہے ، اس سے کام نہیں چلے گا اور کبھی سنیما والے گاتے تھے ’’باغوں میں بہار ہے، اب سپریو جی  گائیں گے ’’باگھوں میں بہار ہے‘‘۔

شیر کے تحفظ سے جڑی جو کوششیں ہیں ان میں توسیع ہونی چاہئے ، ان کی رفتار میں تیزی آنی چاہئے ، اسی امید  اور اسی  یقین کے ساتھ ایک بار پھر آپ سبھی کو  بہت بہت مبارک باد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

شکریہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۰۰۰۰۰۰۰۰

(م ن-و ا- ق ر)

U-3484