Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

مہاراشٹر  کے پونے میں لوک مانیہ تلک ایوارڈ تقریب 2023 میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

مہاراشٹر  کے پونے میں لوک مانیہ تلک ایوارڈ تقریب 2023 میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن


آج لوک مانیہ تلک کی 103 ویں  برسی ہے۔

 ملک کو متعدد عظیم ہیرو دینے والی مہاراشٹر کی سرزمین پر،

میں تہہ دل سے  سلام پیش کرتا ہوں۔

پروگرام میں موجود عزت مآب شرد پوار جی، گورنر جناب رمیش بیس جی، مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ جناب ایکناتھ شندے جی، نائب وزیر اعلیٰ جناب دیویندر فڑنویس جی، نائب وزیر اعلیٰ جناب اجیت پوار جی، ٹرسٹ کے صدر جناب دیپک تلک جی ، سابق وزیر اعلی جناب سشیل کمار شندے جی، تلک خاندان کے تمام معزز ممبران اور حاضر بھائیو اور بہنو !

آج کا یہ دن میرے لیے بہت اہم ہے۔ میں یہاں آکر جتنا پرجوش ہوں، اتنا ہی جذباتی بھی ہوں۔ آج ہمارے سماج کے ہیرو اور ہندوستان کی شان بال گنگادھر تلک جی کی برسی ہے۔ نیز، آج انابھاؤ ساٹھے جی کا یوم پیدائش ہے۔ لوک مانیہ تلک جی ہماری آزادی کی تاریخ کے ماتھے کے تلک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کی بہتری کے لیے انابھاؤ کا تعاون غیر معمولی ہے۔ میں ان دونوں عظیم انسانوں کےقدموں  میں سلام عقیدت پیش کرتا ہوں۔

آج، اس اہم دن پر، میں خوش قسمت ہوں کہ مہاراشٹر کی سرزمین پر واقع پونے کی اس مقدس سرزمین پر آنے کا موقع ملا۔ یہ مقدس سرزمین چھترپتی شیواجی مہاراج کی سرزمین ہے۔ یہ چافیکر برادران کی پوتر دھرتی ہے۔ جیوتی با پھولے، ساوتری بائی پھولے کی تحریک اور نظریات اس دھرتی سے وابستہ ہیں۔ تھوڑی دیر پہلے میں نے بھی دگدو شیٹھ مندر میں گنپتی جی کا آشیرواد لیا تھا۔ یہ بھی پونے ضلع کی تاریخ کا ایک بہت ہی دلچسپ پہلو ہے۔دگدو شیٹھ پہلے شخص تھے جنہوں نے تلک جی کی پکار پر گنیش کی مورتیوں کی عوامی تنصیب میں حصہ لیا۔ میں اس زمین کو سلام کرتے ہوئے ان تمام عظیم وبھوتیوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

آج پونے میں آپ سب کے درمیان مجھے جو عزت ملی ہے وہ میری زندگی کا ناقابل فراموش تجربہ ہے۔جو جگہ، جو ادارہ براہ راست تلک جی سے جڑا  رہا ہو، اس کے ذریعہ  لوک مانیہ تلک نیشنل ایوارڈ ملنا میرے  لئے خوش بختی کی بات ہے۔ میں اس اعزاز کے لیے ہند سوراج سنگھ اور آپ سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ تھوڑا سا اوپر دیکھیں تو یہ ہمارے ملک میں کاشی اور پونے دونوں کی ایک خاص خصوصیت ہے۔ علم یہاں لازوال ہے،  یہاں اسے لافانیت حاصل ہوئی ہے۔ اور  جو پونے نگری علم کی دوسری پہچان ہے، اس سے  زمیں پر  عزت افزائی زندگی کا  اس سے بڑا فخر اور اطمینان کا احساس کرانے والا   واقعہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن ساتھیوں جب ہمیں کوئی ایوارڈ ملتا ہے تو اس کے ساتھ ہماری ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ آج جب تلک جی کا نام اس ایوارڈ کے ساتھ جڑا ہے تو ذمہ داری کا احساس کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ میں لوک مانیہ تلک نیشنل ایوارڈ 140 کروڑ ہم وطنوں کے قدموں میں نچھاور کرتا ہوں۔ میں ہم وطنوں کو بھی یقین دلاتا ہوں کہ میں ان کی امیدوں اور امنگوں کو پورا کرنے میں ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔ میں اس ایوارڈ کے ساتھ جو رقم مجھے دی گئی، وہ بھی گنگا جی کو وقف کررہا ہوں۔ میں نے ایوارڈ کی  رقم نمامی گنگے پروجیکٹ میں عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ساتھیو،

ہندوستان کی آزادی میں لوک مانیہ تلک کا کردار، ان کے تعاون کو چند واقعات اور الفاظ میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ تلک جی کے دور میں اور ان کے بعد بھی، جدوجہد آزادی سے متعلق جو بھی واقعات اور تحریکیں ہوئیں، اس دور میں جو بھی انقلابی اور لیڈر  ہوئے، تلک جی کی چھاپ سب پر تھی، ہر جگہ تھی۔ اسی لیے انگریزوں کو بھی تلک جی کو ‘دی فادر آف دی  انڈین اَن ریسٹ’ یعنی ‘ہندوستان میں بدامنی کانقیب’ کہنا پڑا۔ تلک جی نے ہندوستان کی تحریک آزادی کی پوری سمت بدل دی۔ جب انگریز کہتے تھے کہ ہندوستانی ملک چلانے کے قابل نہیں ہیں، تب لوک مانیہ تلک نے کہا تھا – ‘سوراج ہمارا پیدائشی حق ہے’۔ انگریزوں نے یہ تاثر دیا تھا کہ ہندوستان کی آستھا، ثقافت، عقائد، یہ سب پسماندگی کی علامت ہیں۔ لیکن تلک جی نے اسے بھی غلط ثابت کر دیا۔ اس لیے ہندوستان کے لوگوں نے آگے بڑھ کر نہ صرف تلک جی کو عوامی  قبولیت دی بلکہ انھیں  لوک مانیہ کا خطاب بھی دیا۔ اور جیسا کہ ابھی دیپک جی نے بتایا، خود مہاتما گاندھی نے بھی انہیں ‘جدید ہندوستان کا معمار’ کہا۔ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ تلک جی کی سوچ کتنی وسیع رہی ہو گی، ان کا وژن کتنا دور اندیشانہ رہا ہو گا۔

ساتھیو،

ایک عظیم رہنما وہ ہوتا ہے جو نہ صرف اپنے آپ کو ایک عظیم مقصد کے لیے وقف کرتا ہے بلکہ اس مقصد کے حصول کے لیے ادارے اور نظام بھی تشکیل دیتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں  سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہوتا ہے، سب کے یقین کو آگے  بڑھنا ہوتا ہے۔ ہم یہ تمام خوبیاں لوک مانیہ تلک کی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ انگریزوں نے انہیں جب جیل میں ڈالا تو ان مظالم ڈھائے گئے۔ انہوں نے آزادی کے لیے ایثار و قربانی کی انتہا کردی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ٹیم اسپرٹ، شرکت اور تعاون کی بھی مثالی مثالیں قائم کیں۔ ان کا عقیدہ، لالہ لاجپت رائے اور بپن چندر پال کے ساتھ ان کی وابستگی ہندوستانی جدوجہد آزادی کا سنہری باب ہے۔ آج بھی جب اس کا چرچا ہوتا ہے تو یہ تینوں نام تثلیث کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں، لال بال پال۔ تلک جی نے بھی اس وقت آزادی کی آواز بلند کرنے کے لیے صحافت اور اخبار کی اہمیت کو سمجھا۔ انگریزی میں تلک جی نے ‘دی مراٹھا’ ہفتہ وار شروع کیا جیسا کہ شرد راؤ نے کہا ۔مراٹھی میں  گوپال گنیش اگرکر اور وشنو شاستری چپلونکر جی کے ساتھ مل کر انہوں نے ‘کیسری’  اخبار شروع کیا۔ 140 سال سے زیادہ عرصے سے، کیسری  مسلسل آج بھی  مہاراشٹر میں شائع ہوتا ہے،   لوگوں میں پڑھا جاتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تلک جی نے اداروں کو اتنی مضبوط بنیادوں پر استوار کیا تھا۔

ساتھیو،

اداروں کی طرح  ہی لوک مانیہ تلک نے روایات کو بھی پروان چڑھایا۔ انہوں نے سماج کو متحد کرنے کے لیے عوامی سطح پر  گنپتی مہوتسو کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے سماج کو چھترپتی شیواجی مہاراج کی ہمت اور نظریات کی توانائی سے  سماج کو بھرنے کے لیے شیو جینتی کا اہتمام کرنا شروع کیا۔ یہ تقریبات ہندوستان کو ثقافتی دھاگے میں پرونے کی مہم بھی تھیں اور مکمل سوراج کا مکمل تصور بھی تھا۔ یہ ہندوستان کے سماجی نظام کا خاصہ رہا ہے۔ ہندوستان نے ہمیشہ ایسی قیادت کو جنم دیا ہے، جس نے آزادی جیسے بڑے مقاصد کے لیے بھی جدوجہد کی، اور سماجی برائیوں کے خلاف بھی نئی سمت دکھائی۔ آج کی نوجوان نسل کے لیے یہ بہت بڑا سبق ہے۔

بھائی بہنو،

لوک مانیہ تلک یہ بھی جانتے تھے کہ تحریک آزادی ہو یا قوم کی تعمیر کا مشن، مستقبل کی ذمہ داری ہمیشہ نوجوانوں کے کندھوں پر ہوتی ہے۔ وہ ہندوستان کے مستقبل کے لیے تعلیم یافتہ اور قابل نوجوان پیدا کرنا چاہتے تھے۔ لوک مانیہ میں نوجوانوں کی صلاحیتوں کو پہچاننے کی  نگاہ  تھی ، اس کی ایک مثال ہمیں ہمیں ویر ساورکر سے متعلق واقعہ میں ملتی ہے۔ ساورکر جی اس وقت جوان تھے۔ تلک جی نے اپنی صلاحیت کو پہچان لیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ساورکر بیرون ملک جائیں اور اچھی تعلیم حاصل کریں، اور واپس آکر آزادی کے لیے کام کریں۔ برطانیہ میں، شیام جی کرشن  ورما ایسے نوجوانوں کو مواقع فراہم کرنے کے لیے دو اسکالرشپ چلاتے تھے – ایک اسکالرشپ کا نام تھا چھترپتی شیواجی اسکالرشپ اور دوسری اسکالرشپ کا نام تھا – مہارانا پرتاپ اسکالرشپ! تلک جی نے ویر ساورکر کے لیے شیام جی کرشن ورما سے سفارش کی تھی۔ اس کا فائدہ اٹھا کر وہ لندن میں بیرسٹر بن سکے۔ تلک جی نے ایسے کئی نوجوانوں کو تیار کیا۔ پونے میں نیو انگلش اسکول، دکن ایجوکیشن سوسائٹی اور فرگوسن کالج جیسے اداروں کا قیام ان کے وژن کا حصہ ہے۔ ان اداروں سے ایسے بہت سے نوجوان ابھرے، جنہوں نے تلک جی کے مشن کو آگے بڑھایا، قوم کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کیا۔ نظام کی تعمیر سے ادارے کی تعمیر تک، ادارے کی تعمیر سے فرد کی تعمیر تک اور فرد کی تعمیر سے قوم کی تعمیر تک، یہ وژن قوم کے مستقبل کے لیے ایک روڈ میپ کی طرح ہے۔ آج ملک اس روڈ میپ پر مؤثر طریقے سے عمل پیرا ہے۔

ساتھیو،

یوں تو تلک جی پورے ہندوستان کے مقبول لیڈر ہیں، لیکن جس طرح پونے اور مہاراشٹر کے لوگوں کے لیے ان کا ایک الگ مقام ہے، گجرات کے لوگوں کا بھی ان سے ویسا ہی رشتہ ہے۔ آج اس خاص موقع پر مجھے وہ باتیں بھی یاد آرہی ہیں۔ جدوجہد آزادی کے دوران وہ احمد آباد کی سابرمتی جیل میں تقریباً ڈیڑھ ماہ تک رہے۔ اس کے بعد 1916 میں تلک جی احمد آباد آئے اور آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اس وقت جب انگریزوں کا مکمل ظلم  چلتا تھا، 40 ہزار سے زیادہ لوگ تلک جی کے استقبال اور ان کی باتیں سننے کے لیے احمد آباد آئے تھے۔  اور یہ خوشی کی بات ہے کہ ان کو سننے کے لئے سردار ولبھ بھائی پٹیل بھی  اس وقت حاضرین میں موجود تھے۔ ان کی تقریر نے سردار صاحب کے ذہن پر ایک الگ ہی چھاپ چھوڑی۔

بعد میں سردار پٹیل احمد آباد میونسپلٹی کے صدر بنے، میونسپلٹی کے پریزیڈنٹ  بنے۔ اور آپ نے دیکھئے کہ  اس وقت کی شخصیت کی سوچ کیسی  ہوتی تھی، انہوں نے احمد آباد میں تلک جی کا مجسمہ نصب کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور انہوں نے  نہ صرف مجسمہ  لگانے کا فیصلہ  کیا، ان کے فیصلے میں بھی سردار صاحب کے مرد آہن  کی پہچان ملتی ہے۔ سردار صاحب نے جس جگہ کا انتخاب کیا وہ وکٹوریہ گارڈن تھا! انگریزوں نے احمد آباد میں 1897 میں ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی منانے کے لیے وکٹوریہ گارڈن تعمیر کیا تھا۔ یعنی سردار پٹیل نے برطانوی ملکہ کے نام سے منسوب پارک میں اس کے  سینے پر اتنے عظیم انقلابی لوک مانیہ تلک کا مجسمہ نصب کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور اس وقت سردار صاحب پر اس کے خلاف کتنا ہی دباؤ  پڑا ، انہیں روکنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن سردار، سردار تھے، سردار نے کہا کہ وہ اپنا عہدہ چھوڑنا چاہیں گے، لیکن مجسمہ وہیں نصب کیا جائے گا۔ اور وہ مجسمہ بنا اور اس کا افتتاح 1929 میں مہاتما گاندھی نے کیا۔ احمد آباد میں رہتے ہوئے مجھے کئی بار اس مقدس مقام پر جانے اور تلک جی کے مجسمے کے سامنے سر جھکانے کا موقع ملا ہے۔ یہ ایک شاندار مجسمہ ہے، جس میں تلک جی آرام کی حالت میں بیٹھے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ آزاد ہندوستان کے روشن مستقبل کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ آپ تصور کیجئے کہ غلامی کے دور میں بھی سردار صاحب نے اپنے ملک کے فرزند کی شان میں انگریزوں کی پوری حکومت کو للکارا تھا۔ اور آج کی صورت حال دیکھیں۔ آج اگر ہم کسی ایک سڑک کا نام بھی غیر ملکی حملہ آور کے بجائے ہندوستانی وبھوتی کے نام پر رکھتے ہیں  تو کچھ لوگ اس پر چیخ و پکار شروع کر دیتے ہیں، ان کی نیند خراب ہوجاتی ہیں۔

ساتھیو،

ایسا کتنا ہی کچھ ہے  جو ہم لوک مانیہ تلک کی زندگی سے  سیکھ سکتے ہیں۔ لوک مانیہ تلک گیتا پر یقین رکھنے والے شخص تھے۔ وہ گیتا کے کرم یوگ کو جینے والے  شخص تھے۔ انہیں  روکنے کے لیے انگریزوں نے انہیں ہندوستان کے مشرق بعید میں مانڈلے کی جیل میں ڈال دیا۔ لیکن، وہاں بھی تلک نے گیتا کا مطالعہ جاری رکھا۔ ‘گیتا رہسیہ’ کے ذریعے، انہوں نے ملک کو ہر چیلنج پر قابو پانے کے لیے کرم یوگ کی آسان سمجھ دی، کرم کی طاقت سے متعارف کرایا۔

ساتھیو،

آج میں ملک کی نوجوان نسل کی توجہ بال گنگادھر تلک جی کی شخصیت کے ایک اور پہلو کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ تلک جی کی ایک بڑی خاصیت تھی کہ وہ لوگوں کو اپنے آپ پر یقین  کرنے کے لیے بہت اصرار کرتے تھے، اور انھیں ایسا کرنا سکھاتے تھے، وہ انھیں اعتماد سے بھر دیتے تھے۔ پچھلی صدی میں جب لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بس گئی تھی کہ ہندوستان غلامی کے طوق کو نہیں توڑ سکتا تو تلک جی نے عوام کو آزادی کا اعتماد دلایا۔ وہ ہماری تاریخ پر یقین رکھتے تھے۔ وہ ہماری ثقافت پر یقین رکھتے تھے، انہیں اپنے لوگوں پر یقین تھا۔ انہیں ہمارے کارکنوں، صنعت کاروں پر بھروسہ تھا، انہیں ہندوستان کی صلاحیت پر بھروسہ تھا۔ ہندوستان کی بات آتے ہی کہا  جاتا تھا،  یہاں کے لوگ ایسے ہی  ہیں، ہمارا کچھ نہیں ہو سکتا۔ لیکن تلک جی نے کمتری کے اس افسانے کو توڑنے کی کوشش کی، ملک کو اس کی  صلاحیت کا  یقین دلایا۔

ساتھیو،

عدم اعتماد کے ماحول میں ملک کی ترقی ممکن نہیں۔ کل میں دیکھ رہا تھا، پونے کے ایک شریف آدمی  جناب منوج پوچاٹ جی نے مجھے ایک  ٹویٹ کیا ہے۔ انہوں نے مجھے 10 سال پہلے پونے کا دورہ یاد دلایا۔ اس وقت فرگوسن کالج میں جس کی بنیاد تلک جی نے رکھی تھی، میں نے اس وقت ہندوستان میں اعتماد کی کمی کے بارے میں بات کی تھی۔ اب منوج جی نے مجھ سے ٹرسٹ ڈیفیسیٹ سے ٹرسٹ سرپلس تک کے ملک کے سفر کے بارے میں بات کرنے پر زور دیا ہے! میں منوج جی کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے اس اہم مسئلے کو اٹھایا ہے۔

بھائی بہنو،

آج، ہندوستان میں ٹرسٹ سرپلس، پالیسی میں بھی نظر آتا ہے، اور یہ اہل وطن کی محنت سے بھی ظاہر ہوتا ہے! پچھلے 9 برسوں میں ہندوستان کے لوگوں نے بڑی تبدیلیوں کی بنیاد رکھی ہے، بڑی  بڑی تبدیلیاں کرکے  دکھائیں۔ آخر ہندوستان دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کیسے بن گیا؟ یہ ہندوستان کے لوگ ہی ہیں جنہوں نے  یہ کر کے دکھایا ہے۔ آج ملک ہر میدان میں اپنے آپ پر بھروسہ کر رہا ہے، اور اپنے شہریوں پر بھی بھروسہ کر رہا ہے۔ کورونا کے بحران میں ہندوستان نے اپنے سائنسدانوں پر بھروسہ کیا اور انہوں نے میڈ ان انڈیا ویکسین بنا کر دکھائی اور اس میں پونے کا بھی بڑا کردار تھا۔ ہم خود کفیل ہندوستان کی بات کر رہے ہیں، کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ہندوستان یہ کر سکتا ہے۔

ہم ملک کے عام آدمی کو بغیر کسی ضمانت کے مدرا قرض دے رہے ہیں، کیونکہ ہمیں ان کی ایمانداری اور فرض شناسی پر بھروسہ ہے۔ پہلے عام لوگوں کو چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے پریشان ہونا پڑتا تھا۔ آج زیادہ تر کام موبائل پر ایک کلک پر ہو رہا ہے۔ آج حکومت کاغذات کی تصدیق کے لیے آپ کے اپنے دستخط پر بھروسہ  کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں ایک الگ ماحول بن رہا ہے، مثبت ماحول بن رہا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح یقین سے بھرے ہوئے ملک کے لوگ، خود ملک کی ترقی کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔ سوچھ بھارت تحریک کو اس  عوامی اعتماد نے ہی  عوامی تحریک میں بدل دیا۔ یہی عوامی اعتماد تھا جس نے بیٹی بچاؤ-بیٹی پڑھاؤ مہم کو ایک عوامی تحریک میں بدل دیا۔ لال قلعہ سے میری ایک کال پر کہ جو اہل ہیں وہ گیس سبسڈی چھوڑ دیں، لاکھوں لوگوں نے گیس سبسڈی چھوڑ دی تھی۔ کچھ عرصہ قبل کئی ممالک میں ایک سروے کیا گیا تھا۔ اس سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ جس ملک کے شہریوں کو اپنی حکومت پر سب سے زیادہ اعتماد ہے اس کا نام ہندوستان ہے۔ یہ بدلتا عوامی ذہن، یہ بڑھتا ہوا عوامی اعتماد ہندوستان کے لوگوں کی ترقی کا ذریعہ بن رہا ہے۔

ساتھیو،

آج آزادی کے 75 سال بعد ملک اپنے امرت کال کو کرتویہ کال  کی شکل میں  دیکھ رہا ہے۔ ہم اہل وطن ملک کے خوابوں اور قراردادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی اپنی سطح پر  کام کر رہے ہیں۔ اسی لیے آج دنیا  بھی ہندوستان میں مستقبل دیکھ رہی ہے۔ ہماری کوششیں آج پوری انسانیت کے لیے ایک یقین بن رہی ہیں۔ میرا یقین ہے کہ لوک مانیہ کی روح آج جہاں بھی ہے، وہ ہمیں دیکھ رہی ہے، ہم پر اپنے آشیرواد کی بارش کر رہی ہے۔ ان کے آشیرواد سے، ان کے خیالات کی طاقت سے، ہم ایک مضبوط اور خوشحال ہندوستان کے اپنے خواب کو ضرور پورا کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہند سوراج سنگھ آگے آتا رہے گا اور لوگوں کو تلک کے نظریات سے جوڑنے میں اہم رول ادا کرتا رہے گا۔ میں ایک بار پھر اس اعزاز کے لیے آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس دھرتی کو سلام کرتے ہوئے، اس خیال کو آگے بڑھانے میں شامل ہر فرد کو سلام کرتے ہوئے، میں اپنی بات کوختم کرتا  ہوں۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ م  م۔ ن ا۔

U- 7823