میرے پیارے دیس واسیو ! نمسکار، ’من کی بات‘ کا مطلب ہے ملک کی اجتماعی کوششوں، ملک کی کامیابیوں، لوگوں کی صلاحیتوں کی بات، ’من کی بات‘ کا مطلب ہے ملک کے نوجوانوں کے خوابوں اور ملک کے شہریوں کی امنگوں کی بات۔ میں پورا مہینہ ‘من کی بات’ کا انتظار کرتا رہتا ہوں تاکہ میں آپ سے براہ راست بات کر سکوں۔ بہت سارے پیغامات، بہت سارے میسیجز! میں اپنی جانب سے پوری کوشش کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ پیغامات کو پڑھوں اور آپ کی تجاویز پر غور و خوض کروں۔
دوستو، آج کا دن بہت خاص ہے – آج این سی سی ڈے ہے۔ این سی سی کا نام آتے ہی ہمیں اپنے اسکول اور کالج کے دن یاد آجاتے ہیں۔ میں خود ایک این سی سی کیڈٹ رہا ہوں، اس لیے میں پورے اعتماد و یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس سے حاصل ہونے والا تجربہ میرے لیے انمول ہے۔ ‘این سی سی’ نوجوانوں میں نظم و ضبط، ڈسپلن ،قیادت اور خدمت کا جذبہ ابھارتا ہے۔ آپ نے اپنے آس پاس دیکھا ہوگا، جب بھی کوئی مصیبت وآفات آتی ہے، سیلاب کی صورتحال ہو، زلزلہ ہو، کوئی بھی حادثہ ہو، این سی سی کیڈٹس مدد کے لیے ضرور موجود ہوتے ہیں۔ آج ملک میں این سی سی کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے مسلسل کام کیا جا رہا ہے۔ 2014 میں تقریباً 14 (چودہ) لاکھ نوجوانوں نے این سی سی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اب 2024 میں 20 لاکھ سے زیادہ نوجوان این سی سی میں شامل ہو چکے ہیں۔ پہلے کے مقابلے اب پانچ ہزار نئے اسکولوں اور کالجوں میں این سی سی کی سہولت موجود ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پہلے این سی سی میں گرلز کیڈٹس کی تعداد صرف 25 فیصد کے قریب تھی۔ اب این سی سی میں لڑکیوں کی کیڈٹس کی تعداد تقریباً 40 فیصد ہو گئی ہے۔ سرحد پر رہنے والے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو این سی سی سے جوڑنے کی مہم بھی مسلسل جاری ہے۔ میں نوجوانوں سے درخواست کروں گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں این سی سی میں شامل ہوں۔ آپ دیکھیں اور محسوس کریں گے کہ آپ جس بھی کریئر میں جائیں گے، این سی سی آپ کی شخصیت کی تعمیر میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔
دوستو، ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر میں نوجوانوں کا رول بہت بڑا ہے۔ جب نوجوان ذہن اکٹھے ہوتے ہیں اور ملک کے مستقبل کے سفر کے بارے میں سوچتے ہیں تو ٹھوس راستے ضرور سامنے آتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ملک سوامی وویکانند کی یوم پیدائش 12 جنوری کو ‘یوتھ ڈے’ مناتا ہے۔ اگلے سال سوامی وویکانند کا 162 واں یوم پیدائش ہے۔ اس بار اسے بہت ہی خاص انداز میں منایا جائے گا۔ اس موقع پر 11-12 جنوری کو دہلی کے بھارت منڈپم میں نوجوانوں کے خیالات کا ایک مہاکمبھ منعقد ہونے جا رہا ہے، اور اس اقدام کا نام ‘ترقی یافتہ انڈیا ینگ لیڈرز ڈائیلاگ’ ہے۔ اس میں ہندوستان بھر سے کروڑوں نوجوان حصہ لیں گے۔ گاؤں، بلاک، ضلع، ریاست اور وہاں سے منتخب کیے گئے ایسے دو ہزار نوجوان ‘ترقی یافتہ انڈیا ینگ لیڈرز ڈائیلاگ’ کے لیے ہندوستان منڈپم میں جمع ہوں گے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ لال قلعہ کی فصیل سے میں نے ایسے نوجوانوں کو سیاست میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی، جن کا کوئی بھی خاندان یا پورا خاندان سیاسی پس منظر نہیں رکھتا، ایسے لاکھوں نئے نوجوانوں کو سیاست سے جوڑتا ہوں اوراس کے لیے ملک بھر میں خصوصی مہم چلائی جائے گی۔ ‘ترقی یافتہ انڈیا ینگ لیڈرز ڈائیلاگ’بھی ایسی ہی ایک کوشش ہے۔ اس میں ہندوستان اور بیرون ملک سے ماہرین آئیں گے۔ کئی ملکی اور بین الاقوامی نامور شخصیات بھی شرکت کریں گی۔ میں بھی اس میں ہر ممکن حد تک حاضر رہوں گا۔ نوجوانوں کو اپنے خیالات آئیڈیاز براہ راست ہمارے سامنے پیش کرنے کا موقع ملے گا۔ ملک ان خیالات کو کیسے آگے لے جا سکتا ہے؟ ایک ٹھوس روڈ میپ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اس کے لیے ایک بلیو پرنٹ تیار کیا جائے گا، تو تیار ہو جائیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے بڑا موقع ہے جو ہندوستان کا مستقبل بنانے جا رہے ہیں، جو ملک کی آنے والی نسل ہیں۔ ان کے لئے ایک بڑا موقع ہے۔ آئیں مل کر ملک بنائیں اور ملک کو ترقی یافتہ بنائیں۔
میرے پیارے دیس واسیو، ’من کی بات‘ میں ہم اکثر ایسے نوجوانوں پر بات کرتے ہیں۔ ایسے بہت سے نوجوان ہیں جو معاشرے کے لیے بے لوث کام کر رہے ہیں اور لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سے لوگ نظر آتے ہیں جنہیں کسی نہ کسی طرح کی مدد یا معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ کچھ نوجوانوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے گروپ بنائے ہیں، جیسے کہ لکھنؤ کے رہنے والے ویرندر، جو ڈجیٹل لائف سرٹیفکیٹ کے کام میں بزرگوں کی مدد کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ قاعدے کے مطابق تمام پنشنرز کو سال میں ایک بار لائف سرٹیفکیٹ جمع کروانا پڑتا ہے۔ 2014 تک اس کا عمل یہ تھا کہ بزرگوں کو خود بینکوں میں جا کر جمع کروانا پڑتا تھا، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس سے ہمارے بزرگوں کو کتنی تکلیف اور پریشانی ہوتی تھی۔ اب یہ نظام بدل چکا ہے۔ اب ڈجیٹل لائف سرٹیفکیٹ دینے سے چیزیں بہت آسان ہو گئی ہیں۔بزرگوں کواب بینک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویرندر جیسے نوجوانوں کا اس بات کو یقینی بنانے میں بڑا کردار ہے کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے بزرگوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وہ اپنے علاقے کے بزرگوں کو اس بارے میں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ یہی نہیں، وہ بزرگوں کو بھی ‘ٹیک سیوی’بھی بنا رہے ہیں، اس طرح کی کوششوں کی وجہ سے آج ڈجیٹل لائف سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والوں کی تعداد 80 (اسی)لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان میں سے دو لاکھ سے زیادہ ایسے بزرگ ہیں جو 80 (اسی) سال کی عمر کو عبور کر چکے ہیں۔
دوستو، کئی شہروں میں ‘نوجوان’ بھی ڈجیٹل انقلاب میں بزرگوں کو شراکت دار بنانے کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ بھوپال کے مہیش نے اپنے علاقے کے کئی بزرگوں کو موبائل کے ذریعے ادائیگی کرنا سکھایا ہے۔ ان بزرگوں کے پاس اسمارٹ فون تھا لیکن اس کا صحیح استعمال بتانے والا کوئی نہیں تھا۔ بزرگوں کو ڈجیٹل اریسٹ کے خطرے سے بچانے کے لیے نوجوان بھی آگے آئے ہیں۔ احمد آباد سے راجیو نے لوگوں کو ڈجیٹل اریسٹ کے خطرے سے خبردار کیا۔ میں نے ’من کی بات‘ کے گزشتہ ایپی سوڈ میں ڈجیٹل اریسٹ پر بات کی تھی۔ اس قسم کے جرائم کا سب سے بڑا شکار بوڑھے اور بزرگ ہی بنتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں آگاہ کریں اور سائبر فراڈ سے بچنے میں ان کی مدد کریں۔ ہمیں بار بار لوگوں کو سمجھانا پڑتا ہے کہ حکومت میں ڈجیٹل اریسٹ نام کی کوئی گنجائش نہیں ہے – یہ ایک کھلا جھوٹ ہے، لوگوں کو پھنسانے کی سازش ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے نوجوان دوست اس کام میں پوری سنجیدگی اور انتہائی پانمردی کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی تحریک دے رہے ہیں۔
میرے پیارے دیس واسیو، ان دنوں بچوں کی تعلیم کے حوالے سے طرح طرح کے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں بڑھیں اور کتابوں سے ان کی محبت میں اضافہ ہو- یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ‘کتابیں’ انسان کی بہترین دوست ہوتی ہیں۔ اور اب اس دوستی کو مضبوط کرنے کے لیے لائبریری سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔ میں آپ کے ساتھ چنئی کی ایک مثال شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں بچوں کے لیے ایک لائبریری تیار کی گئی ہے جو تخلیقی صلاحیتوں اور سیکھنے کا مرکز بن چکی ہے۔ اسے ‘پرکرت اریوگم’کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس لائبریری کی بنیاد جناب رام گوپالن جی نے رکھا ہے، جو ٹیکنالوجی کی دنیا سے وابستہ ہیں۔ بیرون ملک کام کے دوران وہ جدید ٹیکنالوجی کی دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن، وہ بچوں میں پڑھنے اور سیکھنے کی عادت پیدا کرنے کے بارے میں بھی غور و فکر کرتے رہے ہیں۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد انہوں نے ‘پرکرت اریوگم’ تیار کیا۔ اس میں تین ہزار سے زائد کتابیں ہیں، جنہیں پڑھنے کے لیے بچے مقابلہ آرائی کرتے رہتے ہیں۔ اس لائبریری میں کتابوں کے علاوہ کئی طرح کی سرگرمیاں بھی بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ کہانی سنانے کے سیشنز ہوں، آرٹ ورکشاپس ہوں، میموری ٹریننگ کلاسز ہوں، روبوٹکس کے اسباق ہوں یا پبلک اسپیکنگ- ہر ایک کے لیے لطف اندوز ہونے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہے، جو بچوں کو پسند آتا ہے۔
دوستو، ’فوڈ فار تھاٹ‘ فاؤنڈیشن نامی تنظیم نے حیدرآباد میں کئی شاندار لائبریریاں بنائی ہیں۔ ان کی کوشش یہ بھی ہے کہ بچوں کو زیادہ سے زیادہ موضوعات پر ٹھوس معلومات کے ساتھ کتابیں پڑھنے کو ملیں۔ بہار کے ضلع گوپال گنج کی ‘پریوگ لائبریری’ آس پاس کے کئی شہروں میں زیر بحث آنے لگی ہے۔ اس لائبریری سے تقریباً 12 دیہی علاقوں کے نوجوانوں کو کتابیں پڑھنے کی سہولت ملنا شروع ہو گئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ لائبریری مطالعہ میں مدد کے لیے دیگر ضروری سہولیات بھی فراہم کر رہی ہے۔ کچھ لائبریریاں ایسی ہیں جو طلبا و طالبات کے لیے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری میں بہت مفید و فائدہ مند ہیں۔ یہ دیکھ کر واقعی بہت خوشی ہوئی کہ آج لائبریری معاشرے کو بااختیار بنانے میں بہت اچھے طریقے سے استعمال ہو رہی ہے۔ آپ بھی کتابوں سے دوستی پیدا کریں، اور دیکھیں کہ آپ کی زندگی کیسے بدلتی ہے۔
میرے پیارے دیس واسیو، میں کل رات جنوبی امریکہ کے ملک گیانا سے واپس آیا ہوں۔ ہندوستان سے ہزاروں کلومیٹر دور گیانا میں ایک ‘منی انڈیا’ بھی آبادہے۔ تقریباً 180 (ایک سو اسی) سال پہلے ہندوستان سے لوگوں کو کھیتوں میں اور دیگر کاموں کے لیے گیانا لے جایا گیا تھا۔ آج گیانا میں ہندوستانی نژاد لوگ سیاست، کاروبار، تعلیم اور ثقافت کے ہر میدان میں گیانا کی قیادت کر رہے ہیں۔ گیانا کے صدر ڈاکٹر عرفان علی بھی ہندوستانی نژاد ہیں اور انہیں اپنے ہندوستانی ورثے پر فخر ہے۔ جب میں گیانا میں تھا تو میرے ذہن میں ایک خیال آیا جسے میں آپ کے ساتھ ’من کی بات‘ میں شیئر کر رہا ہوں۔ گیانا کی طرح دنیا کے درجنوں ممالک میں لاکھوں ہندوستانی آباد ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد کی دہائیوں سے یعنی 200-300 سال پہلے کی اپنی کہانیاں ہیں۔ کیا آپ ان کی کہانیاں تلاش کر سکتے ہیں کہ ہندوستانی تارکین وطن نے مختلف ممالک میں اپنی شناخت کیسے بنائی! وہاں انہوں نے آزادی کی جدوجہد میں کیسے حصہ لیا! انہوں نے اپنے ہندوستانی ورثے کو کیسے زندہ رکھا؟ میں چاہتا ہوں کہ آپ ایسی سچی کہانیاں تلاش کریں، اور انہیں میرے ساتھ شیئر کریں۔ آپ ان کہانیوں کو نمو ایپ یامائی گو پر #IndianDiasporaStories کے ساتھ بھی شیئر کر سکتے ہیں۔
دوستو، آپ کو عمان میں جاری ایک غیر معمولی پروجیکٹ بھی بہت دلچسپ لگے گا۔ کئی ہندوستانی خاندان صدیوں سے عمان میں رہ رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر گجرات کے ضلع کچھ سے جاکر آباد ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے تجارت کے اہم روابط بنائے تھے۔ آج بھی ان کے پاس عمانی شہریت ہے، لیکن ہندوستانیت ان کی رگوں میں ہے۔ عمان میں ہندوستانی سفارت خانہ اور ہندوستان کے نیشنل آرکائیوز کے تعاون سے ایک ٹیم نے ان خاندانوں کی تاریخ کو محفوظ کرنے کا کام شروع کیا ہے۔ اس مہم کے تحت اب تک ہزاروں دستاویزات جمع کی جا چکی ہیں۔ ان میں ڈائری، اکاؤنٹ بک، لیجر، خطوط اور ٹیلی گرام شامل ہیں۔ ان دستاویزات میں سے کچھ سن 1838 کے بھی ہیں۔ یہ دستاویزات جذبات سے بھری ہوئی ہیں۔ برسوں پہلے جب وہ عمان پہنچے تو انہوں نے کس قسم کی زندگی گزاری، کس طرح کی خوشیوں اور غموں کا سامنا کیا اور عمان کے لوگوں کے ساتھ ان کے تعلقات کیسے پروان چڑھے، یہ سب ان دستاویزات کا حصہ ہے۔ ’اورل ہسٹری پروجیکٹ‘ بھی اس مشن کی ایک اہم بنیاد ہے۔ وہاں کے سینئر لوگوں نے اس مشن میں اپنے تجربات شیئر کیے ہیں۔ لوگوں نے اپنے وہاں رہنے سے متعلق باتیں تفصیل سے بیان کی ہیں۔
دوستو، اسی طرح کا ‘اورل ہسٹری پروجیکٹ’ ہندوستان میں بھی چل رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت تاریخ سے محبت کرنے والے ملک کی تقسیم کے دوران متاثرین کے تجربات کو اکٹھا کر رہے ہیں۔ اب ملک میں بہت کم لوگ رہ گئے ہیں جنہوں نے تقسیم کی ہولناکی دیکھی ہے۔ ایسے میں یہ کوشش مزید اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
دوستو، جو ملک، جومقام، اورجو اپنی تاریخ کو سنوارتا ہے، اس کا مستقبل بھی محفوظ رہتا ہے۔ اسی سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک کوشش کی گئی ہے جس میں دیہات کی تاریخ کو محفوظ کرنے والی ایک ڈائرکٹری بنائی گئی ہے۔ ہندوستان کی سمندری سفر کی قدیم صلاحیت سے متعلق شواہد کو بچانے کی مہم بھی ملک میں چل رہی ہے۔ اس سلسلے میں لوتھل میں ایک بہت بڑا عجائب گھر-میوزیم بھی بنایا جا رہا ہے، اگر آپ کے پاس کوئی مخطوطہ، کوئی تاریخی دستاویز، کوئی ہاتھ سے لکھا ہوا نسخہ ہے تو آپ اسے نیشنل آرکائیوز آف انڈیا(این اے آئی) کی مدد سے محفوظ کر سکتے ہیں۔
دوستو، مجھے سلوواکیہ میں ہونے والی ایسی ہی ایک اور کوشش کے بارے میں معلوم ہوا ہے جس کا تعلق ہماری ثقافت کے تحفظ اور فروغ سے ہے۔ یہاں پہلی بار ہمارے اپنشدوں کا سلوواک زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہ کوششیں ہندوستانی ثقافت کے عالمی اثرات کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ یہ ہم سب ہندوستانیوں کے لیے فخر کی بات ہے کہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ ہیں جن کے دلوں میں ہندوستان بستا ہے۔
میرے پیارے دیس واسیو، اب میں آپ کے ساتھ ملک کا ایک ایسا کارنامہ شیئر کرنا چاہتا ہوں جسے سن کر آپ خوشی اور فخرو انبساط محسوس کریں گے اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو شاید آپ کو پچھتا نا بھی پڑے۔ کچھ مہینے پہلے ہم نے ‘ایک پیڑ ماں کے نام’ سے مہم شروع کی تھی۔ اس مہم میں ملک بھر سے لوگوں نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ اس مہم نے 100 کروڑ درخت لگانے کا اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ ایک سو کروڑ درخت، وہ بھی صرف پانچ مہینوں میں – یہ ہمارے ہم وطنوں کی انتھک جدو جہد اورکوششوں سے ہی ممکن ہوا ہے۔ اس سے متعلق ایک اور بات جان کر آپ کو فخر ہو گاکہ ‘ایک پیڑ ماں کے نام’ مہم اب دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پھیل رہی ہے۔ جب میں گیانا میں تھا تو میں نے وہاں بھی اس مہم کا مشاہدہ کیا تھا۔ وہاں میں گیانا کے صدر ڈاکٹر عرفان علی، ان کی اہلیہ کی والدہ اور باقی خاندان کے ساتھ ‘ایک پیڑ ماں کے نام’ مہم میں شامل ہوا۔
دوستو، یہ مہم ملک کے مختلف حصوں میں مسلسل جاری ہے۔ ‘ایک پیڑ ماں کے نام’ مہم کے تحت مدھیہ پردیش کے اندور میں درخت لگانے کا ریکارڈ بنایا گیا ہے – یہاں 24 گھنٹے میں 12 (بارہ) لاکھ سے زیادہ درخت لگائے گئے۔ اس مہم کی وجہ سے اندور کی ریوتی پہاڑیوں کے بنجر علاقے اب گرین زون میں تبدیل ہو جائیں گے۔ راجستھان کے جیسلمیر میں اس مہم کے ذریعے ایک انوکھا ریکارڈ بنایا گیا- یہاں خواتین کی ٹیم نے ایک گھنٹے میں 25 (پچیس) ہزار درخت لگائے۔ ماؤں نے اپنی ماں کے نام پر درخت لگائے اور دوسروں کو بھی متاثر کیا اور تحریک دی۔ یہاں پانچ ہزار(5000) سے زائد لوگوں نے مل کر ایک جگہ درخت لگائے – یہ بھی اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ ‘ ایک پیڑ ماں کے نام ‘ مہم کے تحت کئی سماجی تنظیمیں مقامی ضروریات کے مطابق درخت لگا رہی ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ جہاں درخت لگائے جائیں وہاں پورا ایکو سسٹم ماحول دوست انداز میں فروغ پاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تنظیمیں کچھ مقامات پر دواؤں کے پودے لگا رہی ہیں اور دوسری جگہ پر پرندوں کے گھونسلے بنانے کے لیے درخت لگا رہی ہیں۔ بہار میں ’جیویکا سیلف ہیلپ گروپ‘ کی خواتین 75 (پچھہتر) لاکھ درخت لگانے کی مہم چلا رہی ہیں۔ ان خواتین کی توجہ پھل دار درختوں پر ہے، تاکہ وہ مستقبل میں آمدنی حاصل کر سکیں۔
دوستو، اس مہم میں شامل ہو کر کوئی بھی شخص اپنی ماں کے نام پر درخت لگا سکتا ہے۔ اگر آپ کی والدہ آپ کے ساتھ ہیں تو آپ انہیں ساتھ لے کر درخت لگا سکتے ہیں، ورنہ آپ ان کی تصویر اپنے ساتھ لے کر اس مہم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ درخت کے ساتھ اپنی سیلفی مائی گو ڈاٹ ان پر بھی پوسٹ کر سکتے ہیں۔ ہم ماں کا قرض کبھی نہیں ادا کرسکتے جو وہ ہمارے لیے کرتی ہیں، لیکن ان کے نام پر درخت لگا کر ہم ان کی یادوں کو ہمیشہ زندہ رکھ سکتے ہیں۔
میرے پیارے دیس واسیو، آپ سب نے بچپن میں اپنے گھر کی چھت پر یا درختوں پر چڑیوں کو چہچہاتے دیکھا ہوگا۔ چڑیا کو تمل اور ملیالم میں ‘کرووی’، تیلگو میں ‘پچوکا’ اور کنڑ میں ‘گوبی’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہر زبان اور ثقافت میں چڑیوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ چڑیاں ہمارے اردگرد حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن آج کل شہروں میں چڑیاں کم ہی نظر آتی ہیں۔ بڑھتی ہوئی شہری کاری کی وجہ سے چڑیا ہم سے دور ہو گئی ہے۔ آج کی نسل کے بہت سے ایسے بچے ہیں جنہوں نے چڑیوں کو صرف تصویروں یا ویڈیوز میں دیکھا ہے۔ ایسے بچوں کی زندگی میں اس خوبصورت پرندے کو واپس لانے کے لیے کچھ انوکھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ چنئی کے کوڈوگل ٹرسٹ نے چڑیوں کی آبادی بڑھانے کے لیے اپنی مہم میں اسکول کے بچوں کو شامل کیا ہے۔ اس ادارے کے لوگ اسکول جا کر بچوں کو بتاتے ہیں کہ چڑیا روزمرہ کی زندگی میں کتنی اہم ہے۔ یہ ادارے بچوں کو چڑیوں کا گھونسلہ بنانے کی تربیت دیتے ہیں۔ اس کے لیے ادارے کے لوگوں نے بچوں کو لکڑی کا چھوٹا سا گھر بنانا سکھایا۔ اس میں چڑیوں کے رہنے اور کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ وہ گھر ہیں جو کسی بھی عمارت کی بیرونی دیوار یا درخت پر نصب کیے جا سکتے ہیں۔ بچوں نے اس مہم میں جوش و خروش سے حصہ لیا اور بڑی تعداد میں چڑیوں کے گھونسلے بنانا شروع کر دیئے۔ گزشتہ چار برسوں میں تنظیم نے چڑیوں کے لیے ایسے دس ہزار گھونسلے تیار کیے ہیں۔ کوڈوگل ٹرسٹ کے اس اقدام کی وجہ سے آس پاس کے علاقوں میں چڑیوں کی آبادی بڑھنے لگی ہے۔ اگر آپ بھی اپنے اردگرد ایسی کوششیں اور اقدام کریں تو چڑیاں ضرور دوبارہ ہماری زندگی کا حصہ بن جائیں گی۔
دوستو، کرناٹک کے میسورمیں ایک تنظیم نے بچوں کے لیے ’ارلی برڈ‘ کے نام سے ایک مہم شروع کی ہے۔ یہ تنظیم بچوں کو پرندوں کے بارے میں بتانے کے لیے ایک خاص قسم کی لائبریری چلاتی ہے۔ یہی نہیں بچوں میں فطرت کے تئیں ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کے لیے ‘نیچر ایجوکیشن کٹ’ تیار کی گئی ہے۔ اس کٹ میں بچوں کے لیے کہانی کی کتاب، گیمز، ایکٹی وٹی شیٹس اور جگ-سا- پزلز(پہیلیاں) شامل ہیں۔ یہ تنظیم شہر کے بچوں کو دیہات میں لے جاتی ہے اور انہیں پرندوں کے بارے میں بتاتی ہے۔ اس تنظیم کی کوششوں سے بچوں نے پرندوں کی کئی اقسام کو پہچاننا شروع کر دیا ہے۔ اس طرح کی کوششوں کے ذریعے ’من کی بات‘ کے سننے والے بچوں میں اپنے اردگرد کو دیکھنے اور سمجھنے کا ایک مختلف انداز بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
میرے پیارے دیس واسیو، آپ نے دیکھا ہو گا کہ جیسے ہی کوئی ‘سرکاری دفتر’ کہتا ہے، آپ کے ذہن میں فائلوں کے ڈھیر کی تصویر ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ آپ نے فلموں میں بھی ایسا ہی کچھ دیکھا ہوگا۔ سرکاری دفاتر میں ان فائلوں کے ڈھیروں پر بہت سے لطیفے گڑھے گئے اور کتنی ہی کہانیاں لکھی گئیں۔ برسوں سے یہ فائلیں دفتر میں پڑی تھیں اور دھول سے اٹی ہوئی تھیں، وہیں گندی ہونے لگیں- ایسی دہائیوں پرانی فائلوں اور اسکریپ کو ہٹانے کے لیے خصوصی صفائی مہم چلائی گئی۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اس مہم کے سرکاری محکموں میں حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ صفائی کی وجہ سے دفاتر میں کافی جگہ خالی ہو گئی ہے۔ اس سے دفتر میں کام کرنے والوں میں ملکیت کا احساس بھی پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے کام کی جگہ کو صاف ستھرا رکھنے کی سنجیدگی بھی پیدا کی ہے۔
دوستو، آپ نے اکثر بزرگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ جہاں صفائی ہوتی ہے، وہاں لکشمی دیوی رہتی ہے۔ یہاں ‘کچرے سے کچن’ کا خیال بہت پرانا ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں ‘نوجوان’ فضول سمجھی جانے والی چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے کچرے سے ‘کنچن’ بنا رہے ہیں۔ طرح طرح کی اختراعات کی جا رہی ہیں۔ اس سے وہ پیسہ کما رہے ہیں اور روزگار کے ذرائع تیار کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان اپنی کوششوں سے پائیدار طرز زندگی کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ ممبئی کی دو بیٹیوں کی یہ کوشش واقعی بہت متاثر کن ہے۔ اکشرا اور پرکرتی نام کی یہ دونوں بیٹیاں کلپنگ سے فیشن آئٹمز بنا رہی ہیں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ کپڑوں کی کٹائی اور سلائی کے دوران جو تراشیں نکلتی ہیں وہ بیکار سمجھ کر پھینک دی جاتی ہیں۔ اکشرا اور پرکرتی کی ٹیم اسی لباس کے فضلے کو فیشن کی مصنوعات میں تبدیل کرتی ہے۔ تراشوں سے بنی ٹوپیاں اور تھیلے بھی فروخت ہو رہے ہیں۔
دوستو، اترپردیش کے کانپور میں بھی صفائی کے حوالے سے اچھے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ یہاں کچھ لوگ ہر صبح مارننگ واک پر نکلتے ہیں اور گنگا کے گھاٹوں پر پھیلا ہوا پلاسٹک اور دیگر فضلہ جمع کرتے ہیں۔ اس گروپ کا نام ‘کانپور پلاگرس گروپ’ رکھا گیا ہے۔ یہ مہم کچھ دوستوں نے مل کر شروع کی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ عوامی شرکت کی ایک بڑی مہم بن گئی ہے اور شہر کے بہت سے لوگ اس میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس کے ارکان نے اب دکانوں اور گھروں سے بھی کچرا اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ اس کچرے سے ری سائیکل پلانٹ میں ٹری گارڈز تیار کیے جاتے ہیں، یعنی اس گروپ کے لوگ کچرے سے بنائے گئے ٹری گارڈز سے پودوں کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔
دوستو، آسام کی اتیشا اس بات کی ایک مثال ہے کہ چھوٹی چھوٹی کوششوں سے کتنی بڑی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اتیشا کی تعلیم دہلی اور پونے میں ہوئی تھی۔ اتیشا نے کارپوریٹ دنیا کی چمک دمک اور گلیمر کو خیر باد کہہ دیا اور اروناچل پردیش کی سانگتی وادی کی صفائی میں مصروف ہوگئی ۔ سیاحوں کی وجہ سے وہاں پلاسٹک کا بہت سا کچرا جمع ہونے لگاتھا۔ وہاں کا دریا جو کبھی بہت صاف ستھرا تھا پلاسٹک کے کچرے کی وجہ سے آلودہ ہو چکا تھا۔ اتیشا مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر اسے صاف کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان کے گروپ کے لوگ وہاں آنے والے سیاحوں کو آگاہ کرتے ہیں اور پوری وادی میں پلاسٹک کا کچرا جمع کرنے کے لیے بانس سے بنے ڈسٹ بن لگاتے ہیں۔
دوستو، ایسی کوششوں سے ہندوستان کی صفائی مہم کو تقویت ملتی ہے۔ یہ ایک جاری رہنے والی مہم ہے۔ یہ آپ کے ارد گرد بھی ہو رہا ہوگا۔ آپ مجھے ایسی کوششوں کے بارے میں لکھتے رہیں۔
دوستو، ‘من کی بات’ کے اس ایپی سوڈ میں ابھی کے لیے اتنا ہی ہے۔ میں پورے مہینے آپ کے جوابات، خطوط اور تجاویز کا منتظر رہتاہوں۔ ہر ماہ آنے والے آپ کے پیغامات مجھے بہتر کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہم اگلے ماہ ‘من کی بات’ کے ایک اور شمارے میں دوبارہ ملیں گے – ملک اور ہم وطنوں کی نئی کامیابیوں کے ساتھ، تب تک آپ تمام ہم وطنوں کے لیے میری نیک خواہشات۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔
*****
ش ح۔ ظ ا
UR No.2865
#MannKiBaat has begun. Join LIVE. https://t.co/3EINfTBXaF
— PMO India (@PMOIndia) November 24, 2024
NCC instills a spirit of discipline, leadership and service in the youth. #MannKiBaat pic.twitter.com/DTvJx4lpfu
— PMO India (@PMOIndia) November 24, 2024
On 12th January next year, we will mark Swami Vivekananda's 162nd Jayanti. This time it will be celebrated in a very special way. #MannKiBaat pic.twitter.com/TbumRi0Ta6
— PMO India (@PMOIndia) November 24, 2024
The compassion and energy of our Yuva Shakti in helping senior citizens is commendable. #MannKiBaat pic.twitter.com/UNBPi9mrnt
— PMO India (@PMOIndia) November 24, 2024
Innovative efforts from Chennai, Hyderabad and Bihar's Gopalganj to enhance children’s education. #MannKiBaat pic.twitter.com/RSy1HVbyv4
— PMO India (@PMOIndia) November 24, 2024
Let's celebrate the inspiring stories of Indian diaspora who made their mark globally, contributed to freedom struggles and preserved our heritage. Share such stories on the NaMo App or MyGov using #IndianDiasporaStories.#MannKiBaat pic.twitter.com/SHUXii9ln6
— PMO India (@PMOIndia) November 24, 2024
Numerous Indian families have been living in Oman for many centuries. Most of them who have settled there are from Kutch in Gujarat.
— PMO India (@PMOIndia) November 24, 2024
With the support of the Indian Embassy in Oman and the National Archives of India, a team has started the work of preserving the history of these… pic.twitter.com/EoaXuCVe2h
A special effort in Slovakia which is related to conserving and promoting our culture. #MannKiBaat pic.twitter.com/qWfm9iZsTH
— PMO India (@PMOIndia) November 24, 2024
A few months ago, we started the 'Ek Ped Maa Ke Naam' campaign. People from all over the country participated in this campaign with great enthusiasm.
— PMO India (@PMOIndia) November 24, 2024
Now this initiative is reaching other countries of the world as well. During my recent visit to Guyana, President Dr. Irfaan Ali,… pic.twitter.com/g47I055ASN
Commendable efforts across the country towards 'Ek Ped Maa Ke Naam' campaign. #MannKiBaat pic.twitter.com/rnWYZ3oryU
— PMO India (@PMOIndia) November 24, 2024
Unique efforts are being made to revive the sparrows. #MannKiBaat pic.twitter.com/7KII9kB5Kb
— PMO India (@PMOIndia) November 24, 2024
Innovative efforts from Mumbai, Kanpur and Arunachal Pradesh towards cleanliness. #MannKiBaat pic.twitter.com/fDGsH2Uqyd
— PMO India (@PMOIndia) November 24, 2024
NCC दिवस पर देशभर के अपने युवा साथियों से मेरा यह विशेष आग्रह... #MannKiBaat pic.twitter.com/sTyvscIb4D
— Narendra Modi (@narendramodi) November 24, 2024
बिना Political Background के 1 लाख युवाओं को राजनीति में लाने से जुड़े 'Viksit Bharat Young Leaders Dialogue’ के बारे में हमारी युवाशक्ति को जरूर जानना चाहिए। #MannKiBaat pic.twitter.com/KLLzGHBC1H
— Narendra Modi (@narendramodi) November 24, 2024
मेरे लिए यह अत्यंत संतोष की बात है कि हमारे युवा साथी वरिष्ठ नागरिकों को Digital क्रांति से जोड़ने के लिए पूरी संवेदनशीलता से आगे आ रहे हैं। इससे उनका जीवन बहुत ही आसान बन रहा है। #MannKiBaat pic.twitter.com/44JTBV5qkj
— Narendra Modi (@narendramodi) November 24, 2024
मुझे यह बताते हुए बहुत खुशी हो रही है कि ‘एक पेड़ माँ के नाम’ अभियान ने सिर्फ 5 महीनों में सौ करोड़ पेड़ लगाने का अहम पड़ाव पार कर लिया है। ये हमारे देशवासियों के अथक प्रयासों से ही संभव हुआ है। #MannKiBaat pic.twitter.com/moWh9rGZJX
— Narendra Modi (@narendramodi) November 24, 2024
हमारे आसपास Biodiversity को बनाए रखने वाले कई प्रकार के पक्षी आज मुश्किल से ही दिखते हैं। इन्हें हमारे जीवन में वापस लाने के लिए हो रहे इन प्रयासों की जितनी भी प्रशंसा की जाए, वो कम है… #MannKiBaat pic.twitter.com/Zu0zRhHc5n
— Narendra Modi (@narendramodi) November 24, 2024
देश के कई हिस्सों में हमारे युवा आज कचरे से कंचन बना कर Sustainable Lifestyle को बढ़ावा दे रहे हैं। इससे ना सिर्फ उनकी आमदनी बढ़ी है, बल्कि यह रोजगार के नए-नए साधन विकसित करने में भी मददगार है। #MannKiBaat pic.twitter.com/6MFi7pzetN
— Narendra Modi (@narendramodi) November 24, 2024