Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

من کی بات کے 87 ویں ایپیسوڈ میں  وزیر اعظم  کے خطاب کا متن ( 27 مارچ ، 2022 ء )  


میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار ۔ پچھلے ہفتے ہم نے ایک ایسی کامیابی حاصل کی ہے  ،  جس  پر ہم سب کو فخر  ہے ۔ آپ نے سنا ہوگا کہ بھارت نے گزشتہ ہفتے 400 بلین ڈالر یعنی 30 لاکھ کروڑ روپئے کا برآمدات  کا  ہدف حاصل کیا ہے۔ پہلی بار  سننے میں لگتا ہے کہ یہ معاملہ معیشت سے جڑا ہوا ہے لیکن یہ معیشت سے زیادہ بھارت کی صلاحیت، بھارت کی اہلیت  سے متعلق معاملہ ہے۔  ایک وقت تھا  کہ بھارت  کی برآمدات کبھی 100 بلین ، کبھی 150  بلین ، کبھی 200  بلین تک ہوا کرتی تھی ، اب  آج بھارت 400  بلین ڈالر تک پہنچ  گیا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ بھارت میں بنی چیزوں کی مانگ پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے، دوسرا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی سپلائی چین روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہے اور اس کا ایک بہت بڑا پیغام بھی ہے۔  ملک اس وقت بڑے قدم اٹھاتا ہے  ، جب  عز م خوابوں سے بھی بڑے ہوں۔ جب  ان عزم کو پورا کرنے کے لئے دن رات ایمانداری سے کوشش  کی جاتی ہے تو وہ  عزم پورے بھی ہوتے ہیں اور آپ دیکھیئے ، کسی شخص کی زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔  جب کسی کا عزم، اس کی کوشش ، اس کے خوابوں سے  بھی بڑے  ہو جاتے ہیں تو کامیابی ، اُس کے پاس خود  چل کر آتی ہے۔

         ساتھیو ،  ملک کے کونے کونے سے نئی اشیاء نئی اشیا بیرونی ممالک جا رہی ہیں   ۔ آسام کے ہیلا کانڈی کی  چمڑے کی مصنوعات ہوں یا عثمان آباد کی ہینڈلوم کی مصنوعات، بیجاپور کے پھل اور سبزیاں ہوں یا چندولی کے کالے چاول، سب کی برآمدات بڑھ رہی ہے ۔ اب، آپ کو دوبئی میں لداخ کی دنیا کی مشہور خوبانی بھی ملے گی اور سعودی عرب میں، آپ کو تمل ناڈو سے بھیجے گئے کیلے ملیں گے۔ اب سب سے بڑی بات یہ ہے کہ نئی مصنوعات نئے ممالک کو بھیجی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، ہماچل، اتراکھنڈ میں پیدا ہونے والے باجرے (موٹے اناج) کی پہلی کھیپ ڈنمارک کو برآمد کی گئی۔ آندھرا پردیش کے کرشنا اور چتور اضلاع سے بنگن پلیّ اور  سورن رِکھا  آم جنوبی کوریا کو برآمد کئے گئے ۔ تری پورہ سے تازہ  کٹہل  ہوائی جہاز کے ذریعے لندن برآمد کئے گئے اور پہلی بار ناگالینڈ کی  راجہ مرچ  لندن بھیجی گئی ۔ اسی طرح بھالیا گیہوں کی پہلی کھیپ گجرات سے کینیا اور سری لنکا کو برآمد کی گئی یعنی اب اگر آپ دوسرے ممالک میں جائیں تو میڈ ان انڈیا  مصنوعات پہلے  کے مقابلے کہیں زیادہ نظر آئیں گی۔

         ساتھیو ، یہ فہرست بہت لمبی ہے اور یہ فہرست جتنی لمبی ہوگی، میک ان انڈیا کی طاقت اتنی ہی زیادہ ہوگی، اتنی ہی بھارت کی  وسیع صلاحیت ہے اور اس صلاحیت کی بنیاد ہیں  – ہمارے کسان، ہمارے کاریگر، ہمارے بُنکر، ہمارے انجینئر ،  ہمارے چھوٹے کاروباری، ہمارا ایم ایس ایم ای سیکٹر، بہت سے مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ، یہ سب اس کی حقیقی طاقت ہیں۔ ان کی محنت کی بدولت 400 بلین ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کیا گیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ بھارتی عوام کی یہ طاقت اب دنیا کے کونے کونے میں نئی ​​منڈیوں تک پہنچ رہی ہے۔ جب ایک ایک ہندوستانی لوکل کے ووکل ہوتا ہے ، تب لوکل کو گلوبل ہوتے دیر نہیں لگتی ہے ۔  آئیے  لوکل کو گلوبل بنائیں اور  اپنی مصنوعات کی  ساکھ کو اور بڑھائیں ۔

ساتھیو ، ’ من کی بات ‘ کے سننے والوں کو یہ جان کر اچھا لگے گا کہ گھریلو سطح پر بھی ہمارے چھوٹے پیمانے کے کاروباریوں کی کامیابی ہمارے لئے باعث فخر ہے۔ آج ہمارے چھوٹے کاروباری افراد گورنمنٹ ای-مارکیٹ پلیس یعنی جی ای ایم کے ذریعے سرکاری خریداری میں بڑا تعاون کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے انتہائی شفاف نظام وضع کیا گیا ہے۔ جی ای ایم پورٹل کے ذریعے پچھلے ایک سال میں حکومت نے ایک لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کی چیزیں خریدی ہیں۔ ملک کے کونے کونے سے تقریباً 1.25 لاکھ چھوٹے کاروباریوں، چھوٹے دکانداروں نے اپنا سامان براہ راست حکومت کو فروخت کیا ہے۔ ایک وقت تھا ، جب صرف بڑی کمپنیاں ہی حکومت کو سامان فروخت کر سکتی تھیں لیکن اب ملک بدل رہا ہے، پرانے نظام بھی بدل رہے ہیں۔ اب چھوٹے دکاندار بھی جی ای ایم پورٹل پر حکومت کو اپنا سامان بیچ سکتے ہیں  ۔  یہی تو  نیا بھارت ہے۔ وہ نہ صرف بڑے خواب دیکھتا ہے بلکہ اس مقصد تک پہنچنے کی ہمت بھی دکھاتا ہے، جہاں پہلے کوئی نہیں پہنچا۔ اس حوصلے کے بل پر ہم سبھی بھارتی مل کر  آتم نربھر بھارت کا خواب ضرور پورا کریں گے۔

         میرے پیارے ہم وطنو، آپ نے بابا شیوانند جی کو حال ہی میں منعقد پدم  اعزاز کی تقریب میں ضرور دیکھا ہوگا۔ 126 سال کے بزرگ کی پھرتی دیکھ کر میری طرح ہر کوئی حیران رہ گیا ہو گا اور میں نے دیکھا  کہ پلک جھپکتے ہی وہ نندی مدرا میں  پرنام کرنے لگے ۔ میں نے  بھی بابا شیوانند جی  بار بار جھک کر پرنام کیا ۔ 126 سال کی عمر اور بابا شیوانند  جی کی فٹنس دونوں آج ملک میں بحث کا موضوع ہیں۔ میں نے سوشل میڈیا پر کئی لوگوں کے کمنٹ دیکھے کہ بابا شیوانند اپنی عمر سے چار گنا  کم عمر کے لوگوں بھی زیادہ فٹ ہیں۔ واقعی، بابا شیوانند کی زندگی ہم سب کے لئے ایک تحریک ہے۔ میں ان  کی لمبی عمر  کی دعا کرتا ہوں۔ ان میں یوگ کے تئیں ایک جذبہ ہے اور وہ بہت ہیلتھی لائف اسٹائل جیتے ہیں ۔

जीवेम शरदः शतम्।

ہماری ثقافت میں ہر ایک کو سو سال کی صحت مند زندگی کی  دعا دی جاتی ہے۔ ہم 7 اپریل کو ’ صحت کا عالمی دن ‘ منائیں گے۔ آج پوری دنیا میں صحت سے متعلق بھارت کے موقف پر چاہے وہ یوگا ہو یا آیوروید  ، اس کے تئیں رجحان بڑھتا جا رہا ہے ۔ ابھی آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ گزشتہ ہفتے قطر میں یوگا پروگرام کا انعقاد کیا گیا ،  جس میں 114 ممالک کے شہریوں نے حصہ  لے کر  ایک نیا عالمی ریکارڈ بنایا۔ اسی طرح آیوش انڈسٹری کا بازار بھی لگاتار بڑھ رہا ہے۔ 6 سال پہلے آیوروید سے متعلق ادویات کا بازار تقریباً 22 ہزار کروڑ کا تھا۔ آج آیوش مینوفیکچرنگ انڈسٹری تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار کروڑ روپئے تک پہنچ رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس شعبے میں امکانات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ اسٹارٹ اپ کی دنیا میں بھی آیوش کشش کا موضوع بنتا جا رہا ہے۔

ساتھیو ،  میں نے صحت کے شعبے کے دوسرے اسٹارٹ اپس پر پہلے بھی کئی بار بات کی ہے لیکن اس بار میں آپ سے خاص طور پر آیوش اسٹارٹ اپس پر بات کروں گا۔ ایک اسٹارٹ  ہے ، کپیوا ! ۔ اس کے نام میں  ہی اس کا مطلب پوشیدہ  ہے ۔ اس میں ’ کا ‘ کا مطلب ہے – کف ، ’ پی ‘ کا مطلب ہے – پت اور ’ وا ‘ کا مطلب ہے – ’ وات ‘ ۔  یہ اسٹارٹ اپ ہماری روایات کے مطابق صحت مند کھانے کی عادات پر مبنی ہے۔ ایک اور اسٹارٹ اپ، نیروگ اسٹریٹ بھی ہے ،  آیوروید  حفظان صحت نظام میں ایک انوکھا تصور ہے ۔ اس کا ٹیکنالوجی پر مبنی پلیٹ فارم دنیا بھر کے آیوروید ڈاکٹروں کو براہ راست لوگوں سے جوڑتا ہے۔ 50 ہزار سے زیادہ پریکٹیشنرز اس سے وابستہ ہیں۔ اسی طرح، صحت کی دیکھ بھال کی ٹیکنالوجی کا ایک اسٹارٹ اپ اَتریا  اننو  ویشن ہے ، جو مجموعی تندرستی کے شعبے میں کام کر رہا ہے ۔ ایکسوریل نے نہ صرف اشوگندھا کے استعمال کے بارے میں بیداری  پیدا کی ہے بلکہ اعلیٰ معیار کی پیداوار کے عمل پر بھی بڑی رقم کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کَیور ویدا نے جدید جڑی بوٹیوں کی تحقیق اور روایتی علم کو ملا کر مکمل زندگی کے لئے غذائی سپلیمنٹس بنائے ہیں۔

ساتھیو ، میں نے ابھی تک صرف چند نام گنوائے ہیں، یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ یہ بھارت کے نوجوان صنعت کاروں اور بھارت میں پیدا ہونے والے نئے امکانات کی علامت ہے۔ میری صحت کے شعبے کے اسٹارٹ اپس اور خاص طور پر آیوش اسٹارٹ اپس سے بھی ایک درخواست ہے۔ آپ جو بھی پورٹل آن لائن بناتے ہیں، جو بھی مواد بناتے ہیں، اسے اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ تمام زبانوں میں بنانے کی کوشش کریں۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں ، جہاں انگریزی نہ تو اتنی بولی جاتی ہے اور نہ ہی سمجھی جاتی ہے۔ ایسے ممالک کو بھی ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی معلومات  کی تشہیر کریں۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت کے آیوش اسٹارٹ اپ اعلیٰ معیار کی مصنوعات کے ساتھ جلد ہی پوری دنیا میں  چھا جائیں گے۔

ساتھیو ، صحت کا  براہ راست تعلق صفائی سے ہے۔  ’من کی بات‘ میں ہم ہمیشہ صفائی کے حامیوں کی کوششوں کا ذکر کرتے ہیں۔  ایک ایسے ہی سووچھ گرہی  ہیں – چندرکشور پاٹل جی ۔ وہ مہاراشٹر کے ناسک میں رہتے ہیں۔ صفائی کے حوالے سے چندرکشور جی کا عزم بہت  پختہ ہے۔ وہ گوداوری  دریا کے پاس کھڑے رہتے ہیں اور لوگوں کو لگاتار  دریا میں کوڑا کرکٹ نہ پھینکنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں ۔ اگر  انہیں  کوئی  ایسا کرتے ہوئے نظر آتا ہے تو اُسے فوراً منع کرتے ہیں ۔ چندرکشور جی اپنا کافی وقت اس کام میں صرف کرتے ہیں۔ شام تک ان کے پاس ایسی چیزوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے، جسے لوگ دریا میں پھینکنے کے لئے لائے ہوتے ہیں۔ چندرکشور جی کی یہ کوشش بیداری میں بھی اضافہ کرتی ہے اور تحریک بھی دیتی ہے۔ اسی طرح ایک اور سووچھ گرہی ہیں  – اڑیسہ میں پوری کے راہل مہارانا۔ راہل ہر اتوار کو صبح سویرے پوری میں مقدس مقامات پر جاتے ہیں اور وہاں پلاسٹک کے کچرے کو صاف کرتے ہیں۔ وہ اب تک سینکڑوں کلو پلاسٹک کا کچرا اور گندگی صاف کر چکے ہیں۔ پوری کے راہل ہوں یا ناسک کے چندرکشور،  یہ ہم سب کو بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ شہری ہونے کے ناطے ہم اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں، چاہے وہ صفائی ہو، غذائیت ہو یا ویکسینیشن،  ان سب کوششوں سے صحت مند رہنے میں بھی مدد ملتی ہے ۔

میرے پیارے ہم وطنو، آئیے بات کرتے ہیں ، کیرالہ کے موپٹم سری نارائنن جی کی ۔  انہوں نے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے  ، جس کا نام ہے – ’ پوٹس فار واٹر آف لائف ‘۔آپ  جب اِس  پروجیکٹ کے بارے میں  جانیں گے تو سوچیں گے کہ یہ کیا کمال کام ہے ۔

ساتھیو ، موپٹم  سری نارائنن جی مٹی کے برتن تقسیم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں تاکہ گرمیوں میں جانوروں اور پرندوں کو پانی کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ گرمیوں میں وہ خود بھی جانوروں اور پرندوں کی یہ پریشانی دیکھ کر پریشان ہو جاتے تھے۔ پھر  انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ مٹی کے برتن خود ہی بانٹنا شروع کردوں تاکہ دوسروں کا کام صرف ان برتنوں میں پانی بھرنا ہو۔ آپ حیران ہوں گے کہ نارائنن جی کی طرف سے تقسیم کئے گئے برتنوں کی تعداد ایک لاکھ کو پار کرنے جا رہی ہے۔ اپنی مہم میں وہ گاندھی جی کے قائم کردہ سابرمتی آشرم کو ایک لاکھواں برتن عطیہ کریں گے۔ آج جب گرمیوں کے موسم نے دستک دی ہے، نارائنن جی کا یہ کام یقیناً ہم سب کو متاثر کرے گا اور ہم اس گرمی میں اپنے دوست جانوروں اور پرندوں کے لئے پانی کا بھی بندوبست کریں گے۔

ساتھیو ، میں ’من کی بات ‘ کے سامعین سے بھی  اپیل کروں گا کہ  ہم اپنے عزائم کو پھر سے دوہرائیں ۔ پانی کے ہر قطرے کو بچانے کے لئے ہم جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، ہمیں وہ کرنا چاہیئے ۔ اس کے علاوہ  ، ہمیں پانی کی ری سائیکلنگ پر برابر زور  دیتے رہنا چاہیئے ۔ گھر میں استعمال ہونے والا پانی گملوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے، باغبانی میں استعمال کیا جا سکتا ہے، اسے ضرور دوبارہ استعمال کرنا چاہیئے ۔ تھوڑی سی کوشش سے آپ اپنے گھر میں اس طرح کے انتظامات کر سکتے ہیں۔ رحیم داس جی صدیوں پہلے کسی مقصد کے لئے کہہ گئے تھے کہ ’رحیمن پانی راکھئے، بن پانی سب سون‘۔  اور پانی بچانے کے اس کام میں  مجھے بچوں سے بہت امید ہے ۔  سووچھتا کو جیسے بچوں نے  ایک مہم بنایا ہے ، ویسے ہی وہ واٹر واریئر بن کر پانی بچانے میں مدد کر سکتے ہیں ۔

ساتھیو ،  ہمارے ملک میں پانی کا تحفظ، آبی ذرائع کا تحفظ، صدیوں سے معاشرے کی فطرت کا حصہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگوں نے پانی کے تحفظ کو زندگی کا مشن بنا لیا ہے ،  جیسے  چنئی کے ایک ساتھی ہیں ، ارون کرشنامورتی  جی! ارون جی اپنے علاقے میں تالابوں اور جھیلوں کی صفائی کی مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے 150 سے زائد تالابوں اور جھیلوں کی صفائی کی ذمہ داری اٹھائی اور اسے کامیابی کے ساتھ مکمل کیا۔ اسی طرح مہاراشٹر کے ایک ساتھی روہن کالے ہیں۔ روہن پیشے کے لحاظ سے ایچ آر پروفیشنل ہیں۔ وہ مہاراشٹر  کے سینکڑوں اسٹیپ ویل یعنی سیڑھی والے پرانے کنوؤں کے تحفظ کی مہم چلا رہے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے کنویں سینکڑوں سال پرانے ہیں اور ہمارے ورثے کا حصہ ہیں۔ سکندرآباد میں بنسی لال-پیٹ کنواں  ایک ایسا ہی اسٹیپ ویل ہے ۔ برسوں کی نظر اندازی کی وجہ سے یہ  اسٹیپ ویل مٹی اور کچرے سے ڈھک گیا تھا  لیکن اب اس  اسٹیپ ویل کو بحال کرنے کی مہم عوامی شرکت  کے ساتھ شروع  کی گئی ہے۔

ساتھیو ، میں ایک ایسی ریاست سے آیا ہوں ، جہاں ہمیشہ پانی کی قلت رہی ہے۔ گجرات میں ان سٹیپ ویلوں کو واؤ کہتے ہیں۔ گجرات جیسی ریاست میں واؤ کا بڑا  رول رہا ہے۔  ان کنوؤں یا باولیوں کے تحفظ کے لئے ’ جل مندر یوجنا ‘ نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ پورے گجرات میں کئی باولیوں کو بحال کیا گیا ہے ۔ اس سے ان علاقوں میں پانی کی سطح کو بڑھانے میں بھی کافی مدد ملی ہے ۔ آپ مقامی سطح پر بھی اسی طرح کی مہم چلا سکتے ہیں۔ اگر چیک ڈیم بنانے ہوں تو بارش کے پانی کی ہار ویسٹنگ ہونی چاہیئے  ۔  اس میں انفرادی کوشش بھی  اہم ہے اور اجتماعی کوششیں بھی ضروری ہیں۔  جیسے آزادی کے امرت  مہوتسو میں ہمارے ملک کے ہر ضلع میں کم از کم 75 امرت سروور بنائے جا سکتے ہیں۔ کچھ پرانے سرووروں کو سدھارا جا سکتا ہے، کچھ  نئے سروور بنائے جا سکتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس سمت میں کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کریں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات ‘ کی ایک خوبی یہ ہے کہ مجھے آپ کے پیغامات کئی زبانوں، کئی بولیوں میں ملتے ہیں۔ بہت سے لوگ مائی گوو پر آڈیو  میسیج بھی بھیجتے ہیں۔ بھارت کی ثقافت، ہماری زبانیں، ہماری بولیاں، ہمارا طرز زندگی، کھانے پینے کا تنوع ، یہ تمام تنوع ہماری بڑی طاقت ہیں۔ مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک، یہ تنوع بھارت کو  متحد رکھتے ہے، جو ایک بھارت  شریشٹھ بھارت بناتا ہے۔ اس میں بھی ہمارے تاریخی مقامات اور اساطیر دونوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اب آپ سے یہ کیوں کہہ رہا ہوں۔ اس کی وجہ ’’مادھو پور میلہ‘‘ ہے۔ من کی بات کے سامعین کو یہ جاننا بہت دلچسپ لگے گا کہ مادھو پور میلہ کہاں منعقد ہوتا ہے، کیوں منعقد ہوتا ہے، اس کا بھارت کے تنوع سے کیا تعلق ہے۔

ساتھیو ،  مادھو پور میلہ گجرات کے پوربندر میں سمندر کے  پاس مادھو پور  گاؤں میں لگتا ہے لیکن  اس  کا  بھارت کے مغربی کنارے سے بھی ناطا جڑا ہوا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ  ایسا کیسے ممکن ہے؟ تو اس کا جواب بھی ایک  اساطیری کہانی سے ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے بھگوان کرشن کی شادی شمال مشرق کی ایک شہزادی رکمنی سے ہوئی تھی۔ یہ شادی پوربندر کے مادھو پور میں ہوئی تھی اور اسی شادی کی علامت کے طور پر آج بھی وہاں مادھو پور میلہ لگتا ہے۔ مشرق اور مغرب کا یہ گہرا رشتہ ہمارا ورثہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب لوگوں کی کوششوں سے مادھو پور میلے میں نئی ​​چیزیں بھی شامل ہو رہی ہیں۔ ہمارے یہاں لڑکی والوں کو گھراتی کہا جاتا ہے اور اس میلے میں اب شمال مشرق سے بہت  گھراتی بھی آنے لگے ہیں۔ ایک ہفتہ تک  چلنے والے مادھو پور میلے میں شمال مشرق کی تمام ریاستوں سے فنکار پہنچتے ہیں،  ہنڈی کرافٹ ( دستکاری  ) سے جڑے فنکار  جرٹے ہیں اور اس میلے کی رونق کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ایک ہفتے تک بھارت کے مشرق اور مغربی  کی ثقافت کا یہ ملن ،  یہ مادھو پور میلہ، ایک بھارت – شریسٹھا بھارت کی  بہت خوبصورت مثال بن رہا ہے۔ میری آپ سے  درخواست ہے کہ آپ بھی اس میلے کو  بارے میں پڑھیں اور  معلومات حاصل کریں ۔

میرے پیارے ہم وطنو، ملک میں آزادی کا امرت  مہوتسو ، اب عوامی شرکت کی نئی مثال بن رہا ہے۔ چند روز قبل 23 مارچ کو شہید دِوس پر ملک کے  الگ الگ کونوں میں  الگ الگ تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔ ملک  میں اپنے آزادی کے ہیرو اور ہیرئنوں  کو یاد کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا ۔ اسی دن مجھے کولکاتہ کے وکٹوریہ میموریل میں  پَبلوبی بھارت گیلری کے  افتتاح کا  بھی موقع ملا۔ بھارت کے بہادر انقلابیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ، یہ اپنے آپ میں ایک بہت ہی منفرد گیلری ہے۔ اگر آپ کو موقع ملے تو آپ اسے دیکھنے ضرور جائیں ۔  ساتھیو ، اپریل کے مہینے میں ہم دو عظیم ہستیوں کا یوم پیدائش بھی منائیں گے۔ ان دونوں نے بھارتی سماج پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ یہ عظیم ہستیاں مہاتما پھولے اور بابا صاحب امبیڈکر ہیں۔ مہاتما پھولے کا یوم پیدائش 11 اپریل کو ہے اور ہم 14 اپریل کو بابا صاحب کا یوم پیدائش منائیں گے۔ ان دونوں عظیم انسانوں نے امتیازی سلوک اور عدم مساوات کے خلاف زبردست جنگ لڑی۔ مہاتما پھولے نے  ، اس دور میں بیٹیوں کے لئے اسکول کھولے، بچیوں کے قتل کے خلاف آواز اٹھائی۔ انہوں نے پانی کے بحران سے نجات کے لئے بڑی مہم بھی چلائیں ۔

ساتھیو ، مہاتما پھولے کے اس ذکر میں ساوتری بائی پھولے جی کا ذکر بھی اتنا ہی  ضروری ہے۔ ساوتری بائی پھولے نے بہت سے سماجی اداروں کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ ایک استاد اور سماجی مصلح کے طور پر  انہوں نے معاشرے کو بیدار بھی کیا اور اس کی حوصلہ افزائی  بھی کی۔ دونوں ساتھ مل کر ستیہ شودھک سماج  قائم کیا ۔ عوام کو بااختیار بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ بابا صاحب امبیڈکر کے کاموں میں ہم مہاتما پھولے کا اثر واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اندازہ اس معاشرے میں خواتین کی حیثیت کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ مہاتما پھولے، ساوتری بائی پھولے، بابا صاحب امبیڈکر کی زندگی سے تحریک لیتے ہوئے، میں تمام والدین اور سرپرستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم ضرور دلائیں۔ بیٹیوں کا اسکول میں داخلے  بڑھانے کے لئے کچھ دن پہلے ہی کنیا شکشا پرویش اتسو بھی شروع کیا گیا ہے، جن بیٹیوں کی کسی وجہ سے پڑھائی چھوٹ گئی ہے، انہیں اسکول واپس لانے پر توجہ دی جارہی ہے۔

ساتھیو ، یہ ہم سب کے لئے خوش قسمتی کی بات ہے کہ ہمیں بابا صاحب سے جڑے پنچ تیرتھ کے لئے کام کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ مہو میں ان کی پیدائش کا مقام ہو، ممبئی میں چیتیا بھومی ہو، لندن میں ان کا گھر ہو، ناگپور کی ابتدائی سرزمین ہو، یا  دلّی میں بابا صاحب کا مہا پری نروان اِستھل ، مجھے سبھی مقامات پر ، سبھی تیرتھوں پر جانے کا  موقع ملا ہے ۔ میں ’من کی بات ‘ کے  سامعین سے  اپیل کروں گا کہ وہ مہاتما پھولے، ساوتری بائی پھولے اور بابا صاحب امبیڈکر سے  جڑے مقامات  کو دیکھنے کے لئے ضرور جائیں ۔ آپ کو  وہاں سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا ۔

میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات ‘ میں ، اس مرتبہ بھی ہم نے کئی موضوعات پر بات کی۔ اگلے مہینے بہت سے تہوار آرہے ہیں۔ کچھ ہی دن بعد ہی نوراترے ہیں ۔ نو راترے میں ، ہم وَرت – اُپواس ، شکتی کی پوجا کرتے ہیں  یعنی ہماری روایتیں  ہمیں خوشیاں منانا بھی سکھاتی ہیں اور تحمل  اور ریاض کا درس بھی دیتی ہیں  ۔ تحمل اور استقامت بھی ہمارے لئے ایک تہوار ہے، اس لئے نوراترے ہمیشہ ہم سب کے لئے بہت خاص رہے ہیں ۔ نوراترے  کے پہلے ہی دن گڈی پروا  کا تہوار بھی ہے۔  اپریل میں ہی ایسٹر بھی آتا ہے اور رمضان کے مقدس  دن بھی شروع ہو رہے ہیں۔  آیئے ، ہم سب کو ساتھ لے کر اپنے تہوار منائیں ، بھارت کے تنوع کو مضبوط کریں ، سب کی یہی آرزو ہے ۔ اس بار  ’ من کی بات ‘ میں اتنا ہی ۔ اگلے مہینے آپ سے نئے موضوعات کے ساتھ پھر ملاقات ہو گی ۔ بہت بہت شکریہ  !

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔

( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا   ) 

U. No. 3291