Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

من کی بات کی 76ویں قسط میں وزیراعظم کے خطاب کا متن (25.04.2021)


نئی دہلی۔ 25 اپریل         میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار ۔ آج آپ سے ‘من کی بات’، ایک ایسے وقت میں کر رہا ہوں، جب کو رونا، ہم سبھی کے  صبر وتحمل ، ہم سبھی کے دکھ برداشت کرنے کی حد کا امتحان لے رہا ہے ۔ بہت سے اپنے، ہمیں، بے وقت ، چھوڑ کر چلے گئے ہیں ۔ کورونا کی پہلی لہر کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے بعد ملک کا  حوصلہ بلند تھا، ملک خود اعتمادی سے سے لبریز تھا، لیکن اس طوفان نے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔

ساتھیو، پچھلے دنوں اس بحران سے نمٹنے کے لیے، میری، الگ الگ شعبوں کے ایکسپرٹ کے ساتھ، ماہرین کے ساتھ طویل بات چیت ہوئی ہے ۔ ہماری دوا ساز صنعت کے لوگ ہوں، ویکسین بنانے والے  ہوں ، آکسیجن بنانے کے عمل سے منسلک لوگ ہوں یا پھر طبی شعبہ کے جانکار، انہوں نے، اپنے اہم مشورے حکومت کو دیے ہیں۔ اس وقت ، ہمیں اس لڑائی کو جیتنے کے لیے، ماہرین اور سائنسی صلاح کو ترجیح دینی ہے ۔ ریاستی سرکار کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں حکومت ہند پوری طاقت سے مصروف عمل ہے۔ ریاستی حکومتیں بھی اپنے فرائض کی ادائیگی کی بھر پور کوششیں کر رہی ہیں۔

ساتھیو، کو رونا کے خلاف اس  وقت بہت بڑی لڑائی ملک کے ڈاکٹر اور صحت کارکنان لڑ رہے ہیں ۔ پچھلے ایک سال میں انہیں اس بیماری کے بارے میں ہر قسم کے تجربات بھی ہوئے ہیں ۔ ہمارے ساتھ، اس وقت ، ممبیٔ سے مشہور ڈاکٹر ششانک جوشی جی جڑ رہے ہیں ۔

ڈاکٹر ششانک جی کو کو رونا کے علاج اور اس سے متعلق تحقیق کا بہت زمینی تجربہ ہے۔ وہ انڈین کالج آف فیزیسین کے ڈین بھی رہ چکے ہیں ۔ آئیے بات کرتے ہیں ڈاکٹر ششانک سے :-

مودی جی – نمسکار ڈاکٹر ششانک جی

ڈاکٹر ششانک – نمسکار سر ۔

مودی جی – ابھی کچھ دن پہلے ہی آپ سے بات کرنے کا موقع ملا تھا ۔ آپکے خیالات کی توضیح مجھے بہت اچھی لگی تھی ۔ مجھے لگا ملک کے سبھی شہری کو آپ کے خیالات جاننے چاہیئے ۔ جو باتیں سننے میں آتی اسی کو میں ایک سوال کی شکل میں آپکے سامنے پیش کرتا ہوں۔ ڈاکٹر ششانک – آپ لوگ اس وقت دن رات زندگی کی حفاظت کے کام میں لگے ہوئے ہیں، سب سے پہلے تو میں چاہونگا کہ آپ دوسری لہر کے بارے میں لوگوں کو بتائیں۔ طبی طور پر یہ کیسے الگ ہے اور کیا کیا احتیاط ضروری ہے ۔

ڈاکٹر ششانک – شکریہ سر، یہ جو دوسری لہر (wave) آئی ہے ۔ یہ تیزی سے آئی ہے، تو جتنی پہلی لہر (wave) تھی اس سے یہ وائرس زیادہ تیز چل رہا ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اس سے زیادہ رفتار سےصحت یابی  بھی ہو رہی ہے اور اموات کی شرح کافی کم ہے ۔ اس میں دو تین فرق ہے، پہلا تو یہ نوجوانوں میں اور بچوں میں بھی تھوڑا دکھائی دے رہا ہے ۔ اسکی جو علامت ہے، پہلے جیسی علامت تھی سانس چڑھنا، سوکھی کھانسی آنا، بخار آنا یہ تو سب ہے ہی اور اسکے ساتھ تھوڑی بو کا ختم ہو جانا، ذائقہ چلا جانا یہ بھی ہے ۔ اور لوگ تھوڑے خوفزدہ ہیں ۔ خوفزدہ ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے ۔ 80-90 فیصد لوگوں میں اس کی کوئی بھی علامت دکھائی نہیں دیتی ہے، یہ میوٹیشن – میوٹیشن جو بولتے ہیں، گھبرانے کی بات نہیں ہے ۔ یہ میوٹیشن ہوتے رہتے ہیں جیسے ہم کپڑے بدلتے ہیں ویسے وائرس بھی اپنا رنگ بدل رہا ہے اور اسلئے بالکل ڈرنے کی بات نہیں ہے اور یہ لہر ہم پار کر  لیں گے ۔ لہرآتی جاتی ہے، اور یہ وائرس آتاجاتا رہتا ہے تو یہی الگ الگ  علامتیں ہیں ہے اور طبی طور پر ہم کو محتاط رہنا چاہیئے ۔ ایک 14 سے 21 دن کا یہ کووڈ کا ٹائم ٹیبل ہے اس میں ویدیہ (ڈاکٹر) کی صلاح لینی چاہیے ۔

مودی جی – ڈاکٹر ششانک میرے لیے بھی آپ نے جو تجزیہ پیش کیا ، بہت دلچسپ ہے، مجھے کئی خطوط ملے ہیں ، جس میں علاج کے بارے میں بھی لوگوں کو بہت سے شکوک و شبہات ہیں، کچھ دواؤں کی مانگ بہت زیادہ ہے، اسلئے میں چاہتا ہوں کہ کووڈ کے علاج کے بارے میں بھی آپ لوگوں کو ضرور بتائیں ۔

ڈاکٹر ششانک – ہاں سر، کلینکل علاج لوگ بہت  تاخیر سے شروع کرتے ہیں اور اپنے آپ بیماری سے دب جائے گی ، اس بھروسے پر رہتے ہیں، اور، موبائل پر آنے والی باتوں پر بھروسہ رکھتے ہیں، اور اگر حکومتی معلومات پر عمل کریں تو یہ  دشواری پیش نہیں آتی ہے ۔ تو کووڈ میں کلینکل علاج کا پروٹوکول ہے اس میں تین طرح کی شدت ہے ، ہلکا یا معمولی کووڈ، درمیانہ یا متوسط  کووڈ اور  تیز کووڈ جسے severe covid بولتے ہیں، اسکے لیے ہے ۔ تو جو ہلکا کووڈ ہے اسکے لیے تو ہم آکسیجن  کی نگرانی کرتے ہیں ، نبض کی نگرانی کرتے ہیں، بخار کی نگرانی کرتے ، بخار بڑھ جاتا ہے تو کبھی کبھی پیراسیٹامول (Paracetamol) جیسی دواؤں کا استعمال کرتے ہیں اور اپنے ڈاکٹر سےرجوع کرنا بہت ضروری ہے۔ صحیح اور سستی دوائیں دستیاب ہیں۔ اس میں اسٹرائیوڈ، جو ہے ، جان بچا سکتی ہے، ہم  اِن ہیلر دے سکتے ہیں، ہم ٹیبلیٹ دے سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی آکسیجن ہے وہ دینا پڑتا ہے اور اس کے لیے چھوٹے چھوٹے علاج ہیں ۔ لیکن اکثر کیا ہو رہا ہے کہ ایک نئی تجرباتی دوا ہے ، جس کا نام ہے ریمڈیسیویر۔ اس دوا سے ایک چیز ضرور ہوتی کہ اسپتال میں دو–تین دن کم رہنا پڑتا ہے اورکلینکل صحت یابی میں تھوڑی سی اس سے مدد ملتی ہے ۔ یہ بھی دوا کب کام کرتی ہے، جب، پہلے 9-10 دن میں دی جاتی ہے اور یہ پانچ ہی دن دینی پڑتی ہے، تو یہ لوگ جو دوڑ رہے ہیں ریمڈیسیویر کے پیچھے یہ بالکل دوڑنا نہیں چاہیئے ۔ یہ دواکا تھوڑا کام ہے، جن کو آکسیجن لگتی ہے، زندگی بخشنے والی آکسیجن لگتی   ہے، جو اسپتال میں بھرتی ہوتے ہیں اور ڈاکٹر جب بتاتے ہیں تبھی لینا چاہیئے ۔ تو سب لوگوں کو یہ سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ ہم پرانایام کریں گے، ہمارےجسم  میں جو پھیپھڑے ہیں انہیں تھوڑا کشادہ کریں گے اور جو ہمارے خون کو پتلا کرنے والی انجکشن ہے جس کو ہم ہیپارین (heparin) کہتے ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی دوائیں دیں گے تو 98 فیصد لوگ صحت یاب ہو جاتے ہیں، اس لیے  پازیٹو رہنا بہت ضروری ہے ۔علاج کا پروٹوکول ڈاکٹروں کی صلاح سے لینا بہت ضروری ہے ۔ اور یہ جو مہنگی مہنگی دوائیں ہیں ، اسکے پیچھے دوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے سر،  اپنے پاس بہتر علاج ہو رہا ہے ، زندگی بخشنے والی آکسیجن ہے وینٹیلٹر کی بھی سہولت ہے ، سب کچھ ہے سر، اور کبھی کبھی یہ دوائیں اگر مل جاتی ہیں تو اہل لوگوں میں ہی دینی چاہیے ، تو اس کے لیے بھرم پھیلا ہوا ہے اور اس لیے یہ وضاحت دینا چاہتا ہوں سر  کہ اپنے پاس دنیا کا سب سے بہترین علاج دستیاب ہے آپ دیکھیں گے کہ ہندوستان میں سب سے اچھی صحت یابی کی شرح ہے ۔ آپ اگر موازنہ کریں گے  یورپ کے لیے، امریکہ وہیں سے ہمارے یہاں کے علاج کے پروٹوکول سے مریض ٹھیک ہو رہے ہیں سر ۔

مودی جی – ڈاکٹر ششانک آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ ڈاکٹر ششانک نے جو جانکاریاں ہمیں دیں، وہ بہت ضروری ہیں اور ہم سب کے کام آئیں گی۔

ساتھیو، میں آپ سب سے گذارش کرتا ہوں،، آپ کو اگر کوئی بھی جانکاری چاہیئے ہو، کوئی اور ضرورت ہو، تو سہی حوالے سے ہی جانکاری لیں ۔ آپکے جو فیملی ڈاکٹر ہوں ، آس پاس کے جو ڈاکٹرس ہوں، آپ ان سے فون سے رابطہ کرکے صلاح لیجیے ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے بہت سے ڈاکٹر خود بھی یہ ذمہ داری اٹھا رہے ہیں ۔ کئی ڈاکٹر سوشل میڈیا کے ذریعہ لوگوں کو جانکاری دے رہے ہیں۔ فون پر، واٹس اپ پرمشورے دے  رہے ہیں ۔ کئی ہاسپٹل کی ویب سائٹیں ہیں، جہاں جانکاریاں بھی دستیاب ہیں، اور وہاں آپ ڈاکٹروں سے،صلاح و مشورہ بھی لے سکتے ہیں ۔ یہ بہت  قابل تحسین ہے ۔

میرے ساتھ سرینگر سے ڈاکٹر نوید نذیر شاہ جڑ رہے ہیں ۔ ڈاکٹر نوید سرینگر کے ایک گورنمنٹ میڈیکل کالج میں پروفیسر ہیں ۔ نوید  جی اپنی نگہداشت میں متعدد کورونا مریضوں کو ٹھیک کر چکے ہیں اور رمضان کے اس  مقدس مہینے میں ڈاکٹر  نوید  اپنی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں، اور، انہوں نے ہم سے بات چیت کے لیے وقت بھی نکالا ہے ۔ آئیے انہیں سے بات کرتے ہیں ۔

مودی جی – نوید  جی نمسکار ۔

ڈاکٹر نوید  – نمسکار سر ۔

ڈاکٹر نوید  ‘من کی بات’ کے ہمارے سامعین نے اس مشکل گھڑی میں panic management کا سوال اٹھایا ہے ۔ آپ اپنے  تجربہ سے انہیں کیا جواب  دیں گے ؟

ڈاکٹر نوید – دیکھیے جب کو رونا شروع ہوا تو کشمیر میں جو سب سے پہلا hospital designate ہوا کووڈ ہاسپٹل کے طور پر تو وہ ہمارا سٹی ہاسپٹل تھا ۔ جو میڈیکل کالج کے ماتحت ہے تو اس  وقت ایک خوف کا ماحول تھا ۔ لوگو میں تو تھا ہی وہ سمجھتے تھے شاید کووڈ انفیکشن اگر کسی کو ہو جاتا ہے تو سزائے موت مانا جائے گا یہ ، اور ایسے میں ہمارے ہسپتال میں ڈاکٹر صاحبان یا نیم طبی عملے کام کرتے تھے، ان میں بھی ایک خوف کا ماحول تھا کہ ہم ان مریض  کا کیسے سامنا کریں گے ہمیں انفیکشن ہونے کا خطرہ  تو نہیں ہے۔ لیکن جو وقت گذرا ہم نے بھی دیکھا کہ اگر پورے طریقے سے ہم جو protective gear پہنے  احتیاطی تدابیر جو ہے، ان پر عمل کریں تو ہم بھی محفوظ رہ سکتے ہیں اور ہمارا جو باقی عملہ ہے وہ بھی محفوظ رہ سکتا ہے اور آگے آگے ہم دیکھتے گئے مریض یا کچھ لوگ بیمار تھے جو asymptomaticتھے جن میں بیماری کی کوئی  علامت نہیں تھی۔  ہم نے دیکھا تقریبا 90-95 فیصد سے زیادہ جو مریض ہیں وہ بغیر دواؤں کے بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں تو وقت جیسے گزرتا گیا لوگوں میں جو کو رونا کا ایک ڈر تھا وہ بہت کم ہو گیا ۔ آج کی بات جو یہ second wave جو اس ٹائم ہماری آئی ہے اس کو رونا میں اس ٹائم بھی ہمیں panic ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس موقع پر جو بھی احتیاطی تدابیر ہیں ، جو SOPs ہے اگر ان پر ہم عمل کریں گے جیسے ماسک پہننا، hand sanitizer کا استعمال کرنا، اسکے علاوہ جسمانی دوری برقرار رکھنا یا سماجی اجتماع سے اجتناب کریں تو ہم اپنے روزمرہ کا کام بھی بخوبی کر سکتے ہیں اور اس بیماری سے محفوظ بھی رہ سکتے ہیں ۔

مودی جی – ڈاکٹر نوید  ویکسین کے بارے میں بھی لوگوں کے کئی سوال ہیں، جیسے کہ ویکسین سے کتنی حفاظت ملے گی، ویکسین کے بعد کتنا مطمئن رہ سکتے ہیں ؟ آپ کچھ بات اس  کے بارے میں بتائیں سامعین کو بہت فائدہ پہنچے گا ۔

ڈاکٹر نوید  – جب کو رونا کا انفیکشن سامنے آیا تب سے آج تک ہمارے پاس کووڈ 19 کے لیے کوئی مؤثر علاج دستیاب نہیں ہے، تو ہم اس بیماری کا مقابلہ دو ہی چیزوں سے کر سکتے ہیں ایک توحفاظتی تدابیر اور ہم پہلے سے ہی کہہ رہے تھے کہ اگر کوئی مؤثر ویکسین ہمارے پاس آئے تو وہ ہمیں اس بیماری سے نجات  دلا سکتا ہے اور ہمارے ملک میں دو ویکسین اس وقت دستیاب ہے، Covaxin and Covishield ہے جو یہیں  بنی ہوئی ویکسین ہے ۔ اور کمپنیوں نے بھی جو اپنا تجربہ کیا ہے تو اس میں بھی دیکھا گیا ہے کہ اسکی اثر انگیزی 60 فیصد سے زیادہ ہے، اور اگر ہم، جموں کشمیر کی بات کریں تو مرکز کے زیر انتظام ہماری ریاست میں ابھی تک 15 سے 16 لاکھ تک لوگوں نے ابھی یہ ویکسین لگائی ہے ۔ ہاں سوشل میڈیا میں اس کے بارے میں کافی misconception یا myths ہیں، اس کے بارے میں کہا گیا کہ اس کے side effect ہیں، ابھی تک  یہاں جو بھی ویکسین لگے ہیں کوئی side effect میں نہیں پایا گیا ہے ۔ صرف، جو،  عام vaccine کے ساتھ منسلک ہوتا ہے، کسی کو بخار آنا، پورے بدن میں درد یا جہاں پر انجکشن لگتا ہے وہاں پر درد ہونا ایسے ہی side effects ہم نے ہر مریض میں دیکھے ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی adverse effect ہم نے نہیں دیکھا ہے ۔ اور ہاں دوسری بات لوگوں  میں یہ بھی شکوک و شبہات تھے کہ کچھ لوگ ٹیکہ کاری یعنی ویکسین لینے کے بعد پازیٹو ہو گئے اس میں کمپنیوں سے ہی گائیڈ لائن ہے کہ اس میں اگر کسی کو ٹیکہ لگا ہے ،  اسکے بعد اس میں انفیکشن ہو سکتا ہے وہ پازیٹو ہو سکتا ہے ۔ لیکن جو بیماری کی شدت ہے، یعنی بیماری کی شدت جو ہے، ان مریض میں، اتنی نہیں ہوگی یعنی کی وہ پازیٹو ہو سکتے ہیں لیکن جو بیماری ہے وہ ایک جان لیوا بیماری ان میں ثابت نہیں ہو سکتی، اسلئے جو بھی یہ misconception ہیں ویکسین کے بارے میں وہ ہمیں دماغ سے نکال دینا چاہیئے اور جس جس کی باری آئے  کیونکہ یکم  مئی سے ہمارے پورے ملک میں جو بھی 18 سال سے زیادہ کی عمر کا  ہے انکو ویکسین لگانے کا پروگرام شروع ہوگا تو لوگوں سے اپیل یہی کریں گےکہ  آپ ویکسین لگوائیں  اور اپنے آپ کو بھی محفوظ رکھیں کریں اور مجموعی طور پر ہماری سوسائٹی اور ہماری کمیونٹی اس سے محفوظ رہے گی کووڈ 19 کے انفیکشن سے ۔

مودی جی – ڈاکٹر نوید  آپ کا بہت بہت  شکریہ ، اور آپ کو رمضان کے مقدس مہینے کی بہت بہت  مبارکباد ۔

ڈاکٹر نوید  – بہت بہت شکریہ۔

مودی جی : ساتھیو، کو رونا کے اس بحران میں ویکسین کی اہمیت سبھی کو پتہ چل رہی ہے، اسلئے، میری گذارش ہے کہ ویکسین کے بارے میں کسی افواہ پر دھیان نہ دیں ۔ آپ سبھی کو معلوم بھی ہوگا کہ حکومت ہند کی طرف سے تمام ریاستی حکومتوں کو مفت ویکسین بھیجی گئی ہے جس کافائدہ 45 سال کی عمر سے زیادہ کے لوگ اٹھا سکتے ہیں ۔ اب تو یکم  مئی سے ملک میں 18 سال سے زیادہ کی عمر کے ہر فرد کے لیے ویکسین دستیاب ہونے والی ہے ۔ اب ملک کا کارپوریٹ سیکٹر, کمپنیاں بھی اپنے کرمچاریوں کو ویکسین لگانے کی مہم شرکت کر پائیں گی۔ مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت ہند کی طرف سے مفت ویکسین کا جوپروگرام ابھی چل رہا ہے، وہ، آگے بھی چلتا رہیگا ۔ میری ریاستوں سے بھی گذارش ہے، کہ، وہ حکومت ہند کی اس مفت ویکسین مہم کا فائدہ اپنی ریاست کے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایں ۔

ساتھیو، ہم سب جانتے ہیں کہ بیماری میں ہمارے لیے اپنی، اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنا، ذہنی طور پر کتنا مشکل ہوتا ہے، لیکن، ہمارے اسپتالوں کے نرسنگ اسٹاف کو تو، یہی کام، لگاتار، کتنے ہی مریضوں کے لیے ایک ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ یہ خدمت کا جذبہ ہمارے سماج کی بہت بڑی طاقت ہے ۔نرسنگ اسٹاف کے ذریعہ کی جا رہی خدمات اور جانفشانی کے بارے میں، سب سے اچھا تو کوئی نرس ہی بتا سکتی ہے ۔ اسلئے میں نے رائے پور کے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر میڈیکل کالج ہاسپٹل میں اپنی خدمات سر انجام دے رہیں sister بھاونا دھرو جی کو ‘من کی بات’ میں مدعو کیا ہے، وہ،متعدد کو رونا مریضوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں ۔ آئیے ! ان ہی سے بات کرتے ہیں

مودی جی:- نمسکار بھاونا جی !

بھاونا:- معزز وزیر اعظم صاحب ، نمسکار !

مودی جی:- بھاونا جی۔۔۔

بھاونا:-  یس سر

مودی جی:- ‘من کی بات’ سننے والوں کو آپ ضرور یہ بتائیےکہ آپکے کنبے میں اتنی ساری ذمہ داریاں یعنی multitask اور اسکے بعد بھی آپ کو رونا کے مریضوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں ۔ کو رونا کے مریضوں کے ساتھ آپ کا جو تجربہ رہا، وہ ضرور ہم وطن سننا چاہیں گے کیونکہ sister جو ہوتی ہے، نرسیں جو ہوتی ہیں، مریض کے سب سے قریب ہوتی ہیں اور سب سے طویل وقت تک ہوتی ہیں تو وہ ہر چیز کو بڑی باریکی سے سمجھ سکتی ہیں جی بتائیے ۔

بھاونا:- جی سر، میرا total experience  کووڈ میں سر، دو مہینے کا ہے سر ۔ ہم 14 دنوں کی ڈیوٹی کرتے ہیں اور 14 دنوں کے بعد ہمیں rest دیا جاتا ہے ۔ پھر 2 مہینے بعد ہماری یہ کووڈ کی ڈیوٹی دوبارہ ہوتی ہے سر ۔ جب سب سے پہلے میری کووڈ کی ڈیوٹی  لگی تو سب سے پہلے میں اپنےفیملی کے لوگوں کو کووڈ ڈیوٹی کی بات شیئر کی ۔ یہ مئی کی بات ہے اور میں، یہ، جیسے ہی میں نے شیئر کیا سب کے سب ڈر گئے، گھبرا گئے مجھ سے، کہنے لگے کہ بیٹا ٹھیک سے کام کرنا، ایک جذباتی صورتحال تھی سر ۔ درمیان  میں جب، میری بیٹی مجھ سے پوچھی، ممی آپ کووڈ ڈیوٹی پر جا رہی ہیں تو اس وقت بہت ہی زیادہ میرے لیے جذباتی لمحہ تھا، لیکن، جب میں کووڈ کے مریض کے پاس گئی تو میں ایک ذمہ داری گھر میں چھوڑ کر گئی اور جب میں کووڈ کے مریض سے ملی سر، تو وہ ان سے اور زیادہ گھبرایے ہوئے تھے، کووڈ کے نام سے سارے مریض اتنا ڈرے ہوئے تھے سر، کہ، انکو سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ انکے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ہم آگے کیا کریں گے ۔ ہم انکے ڈر کو دور کرنے کے لیے ان کو بہت اچھے سے دوستانہ ماحول دیا ، سر ، انہیں ۔ ہمیں جب یہ کووڈ ڈیوٹی کرنے کو کہا گیا تو سر سب سے پہلے ہم کو پی پی ای کٹ پہننے کے لیے کہا گیا سر، جو کہ بہت ہی مشکل ہے، پی پی ای کٹ پہن  کر ڈیوٹی کرنا ۔ سر یہ بہت ہی مشکل تھا ہمارے لیے، میں نے دو مہینے کی ڈیوٹی میں ہر جگہ 14-14 دن ڈیوٹی کی وارڈ میں، آئی سی یو میں، آئسولیشن میں سر ۔

مودی:- یعنی کل  ملا کر تو آپ ایک سال سے اسی کام کو کر رہی ہیں ۔

بھاونا:  یس سر، وہاں جانے سے پہلے مجھے نہیں پتہ تھا کہ میرے colleagues کون ہے ۔ ہم نے ایک ٹیم ممبر کی طرح کام کیا سر، ان کی  جو بھی مشکلیں تھیں ، انکو شیئر کیا ، ہم نے مریض کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور انکا stigma دور کیاسر، کئی لوگ ایسے تھے سر جو کووڈ کے نام سے ہی ڈرتے تھے ۔ وہ ساری علامتیں ان میں تھیں جب ہم history لیتے تھے ان سے، لیکن وہ ڈر کے باعث اپنا ٹیسٹ نہیں کروا پاتے تھے، تو ہم انکو سمجھاتے تھے، اور سر، جب شدت بڑھ جاتی تھی تب ان کا پھیپھڑا متاثر ہو چکا  ہوتا تھا تب انکو آئی سی یو کی ضرورت  ہوتی تھی تب وہ آتے تھے اور ساتھ میں انکی پوری فیملی آتی تھی ۔ تو ایسا 1-2 معاملہ ہم نے دیکھا سر اور ایسا بھی نہیں کہ ہر ایک age group کے ساتھ کام کیا سر ہم نے ۔جس میں چھوٹے بچے  تھے، خواتین،  مرد ، بزرگ، ہر طرح کے مریض تھے سر ۔ ان سب سے ہم نے بات کی تو سب نے کہا کہ ہم ڈر کی وجہ سے نہیں آ پاے، سب کا یہی جواب  ہمیں ملا سر ۔ تو ہم انکو سمجھائے سر، کہ، ڈر کچھ نہیں ہوتا ہے آپ ہمارا ساتھ دیجیے ہم آپ کا ساتھ دینگے بس آپ جو بھی پروٹول ہے اس پر عمل کیجیے بس ہم اتنا ان سے کر پاے سر ۔

مودی جی:- بھاونا جی، مجھے بہت اچھا لگا آپ سے بات کرکے، آپ نے کافی اچھی جانکاریاں دی ہیں ۔ اپنے خود کے تجربے پیش کئے ہیں ، تو ضرور ہم وطنوں میں اس سے ایک اثباتیت کا پیغام پہنچے گا ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ بھاونا جی!

بھاونا:- Thank you so much sir… Thank you so much… جے ہند سر ۔

مودی جی:- جے ہند

بھاونا جی اور Nursing Staff کے آپ جیسے ہزاروں لاکھوں بھائی بہن بخوبی اپنا  فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ یہ ہم سبھی کے لیے بہت بڑی  ترغیب ہے ۔ آپ اپنی صحت پر بھی خوب دھیان دیجیے ۔ اپنے پریوار کا بھی دھیان رکھیے ۔

ساتھیو، ہمارے ساتھ، اس وقت مینگلورو سے Sister سریکھا جی بھی جڑی ہوئی ہیں ۔ سریکھا جی K.C. General Hospital میں Senior Nursing Officer ہیں ۔ آئیے ! انکے تجربات بھی جانتے ہیں

مودی جی:- نمستے سریکھا جی !  

सुरेखा:- I am really proud and honoured sir to speak to Prime Minister of our country.

 

Modi ji:-Surekha ji, you along with all fellow nurses and hospital staff are doing excellent work. India is thankful to you all. What is your message for the citizens in this fight against COVID-19.

 

Surekha:- Yes sir… Being a responsible citizen I would really like to tell something like please be humble to your neighbors and early testing and proper tracking help us to reduce the mortality rate and moreover please if you find any symptoms isolate yourself and consult nearby doctors and get treated as early as possible. So, community need to know awareness about this disease and be positive, don’t be panic and don’t be stressed out. It worsens the condition of the patient. We are thankful to our Government proud to have a vaccine also and I am already vaccinated with my own experience I wanted to tell the citizens of India, no vaccine provides 100% protection immediately. It takes time to build immunity. Please don’t be scared to get vaccinated. Please vaccinate yourself; there is a minimal side effects and I want to deliver the message like, stay at home, stay healthy, avoid contact with the people who are sick and avoid touching the nose, eyes and mouth unnecessarily. Please practice physically distancing, wear mask properly, wash your hands regularly and home remedies you can practice in the house. Please drink Ayurvedic Kadha (आयुर्वेदिक काढ़ा), take steam inhalation and mouth gargling everyday and breathing exercise also you can do it. And one more thing last and not the least please have a sympathy towards frontline workers and professionals. We need your support and co-operation. We will fight together. We will get through with the pandemic. This is what my message to the people sir.

Modi ji:- Thank you Surekha ji.

Surekha:- Thank you sir.

سریکھا جی، واقعی، آپ بہت  مشکل گھڑی میں مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں ۔ آپ اپنا دھیان رکھیے ! آپکے پریوار کو بھی میری بہت بہت نیک خواہشات ہیں ۔ میں، ملک کے لوگوں سے بھی اپیل کرونگا کہ جیسے بھاونا جی، سریکھا جی نے، اپنے تجربات کا اظہار کیا ہے ۔ کو رونا سے لڑنے کے لیے مثبت جذبہ بہت زیادہ ضرری ہے اور ہم وطنوں کو اسے بنائے رکھنا ہے ۔

ساتھیو، ڈاکٹروں اور نرسنگ اسٹاف کے ساتھ ساتھ اس وقت Lab-Technicians اور Ambulance Drivers جیسے Frontline Workers بھی بھگوان کی طرح ہی کام کر رہے ہیں ۔ جب کوئی Ambulance کسی مریض تک پہنچتی ہے تو انہیں Ambulance Driver دیودوت جیسا ہی لگتا ہے ۔ ان سب کی خدمات کے بارے میں، انکےاحساسات کے بارے میں، ملک کو ضرور جاننا چاہیئے ۔ میرے ساتھ ابھی ایسے ہی ایک شخص ہیں – شریمان پریم ورما جی، جو کہ ایک Ambulance Driver ہیں، جیسا کہ انکے نام سے ہی پتہ چلتا ہے ۔ پریم ورما جی اپنے کام کو، اپنے فرض کو، پورے پریم اور لگن سے کرتے ہیں ۔ آئیے ! ان سے بات کرتے ہیں

مودی جی – نمستے پریم جی ۔

پریم جی – نمستے سر جی ۔

مودی جی – بھائی ! پریم ۔

پریم جی – ہاں جی سر ۔

مودی جی – آپ اپنے کام کے بارے میں ۔

پریم جی – ہاں جی

مودی جی – ذرا تفصیل سے بتائیے ۔ آپ کا جو تجربہ ہے، وہ بھی بتائیے ۔

پریم جی – میں CATS Ambulance میں driver کی post پر ہوں، اور جیسے ہی Control ہمیں ایک tab پر call دیتا ہے ۔ 102 سے جو call آتی ہے ہم move کرتے ہیں patient کے پاس ۔ ہم patient کی طرف جاتے ہیں، انکے پاس، تو دو سال سے ہم مسلسل کر رہے ہیں یہ کام ۔ اپنا کٹ پہن کر، اپنےماسک، دستانہ پہن کرمریض کو، جہاں وہ drop کرنے کے لیے کہتے ہیں، جو بھی ہاسپیٹل میں، ہم جلدی سے جلدی انکو drop کرتے ہیں ۔

مودی جی – آپ کو تو ویکسین کی دونوں dose لگ گئی ہوں گی ۔

پریم جی – بالکل سر ۔

مودی جی – تو دوسرے لوگوں کو ویکسین  vaccine لگوائیں ۔ اسکے لیے آپ کا کیا پیغام ہے ؟

پریم جی – سر بالکل ۔ سبھی کو یہ dose لگوانا چاہیئے اور اچھی ہی ہے family کے لیے بھی ۔ اب مجھے میری ممی کہتی ہیں یہ نوکری چھوڑ دو ۔ میں نے بولا، ممی، اگر میں بھی نوکری چھوڑ کر بیٹھ جاؤنگا تو سب اور patient کو کیسے کون چھوڑنے جائیگا ؟ کیونکہ سب اس کورونا کال میں سب بھاگ رہے ہیں ۔ سب نوکری چھوڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔ ممی بھی مجھے بولتی ہیں کہ بیٹا وہ نوکری چھوڑ دے ۔ میں نے بولا نہیں ممی میں نوکری نہیں چھوڑوں گا ۔

مودی جی – پریم جی ماں کو دکھی مت کرنا ۔ ماں کو سمجھانا ۔

پریم جی – ہاں جی

مودی جی – لیکن یہ جو آپ نے ماں والی بات بتائی نا

پریم جی – ہاں جی ۔

مودی جی – یہ بہت ہی چھونے والی ہے ۔

پریم جی – ہاں جی ۔

مودی جی – آپکی ماتا جی کو بھی ۔

پریم جی – ہاں جی ۔

مودی جی – میرا پرنام کہئے گا ۔

پریم جی – بالکل

مودی جی – ہاں

پریم جی – ہاں جی

مودی جی – اور پریم جی میں آپ کے ذریعہ

پریم جی – ہاں جی

مودی جی – یہ ambulance چلانے والے ہمارے driver بھی

پریم جی – ہاں جی

مودی جی – کتنا بڑا risk لے کر  کام کر رہے ہیں ۔

پریم جی – ہاں جی

مودی جی – اور ہر ایک کی ماں کیا سوچتی ہے ؟

پریم جی – بالکل سر

مودی جی – یہ بات جب  سامعین تک پہنچے گی

پریم جی – ہاں جی

مودی جی – میں ضرور مانتا ہوں، کہ ان کے بھی دل کو چھو جائیگی ۔

پریم جی – ہاں جی

مودی جی – پریم جی بہت بہت شکریہ ۔ آپ ایک  طرح سے پریم کی گنگا بہا رہے ہیں ۔

پریم جی – شکریہ سر جی

مودی جی –  شکریہ بھیا

پریم جی – شکریہ ۔

ساتھیو، پریم ورما جی اور ان جیسے ہزاروں لوگ، آج اپنی زندگی داو پر لگاکر، لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں ۔ کو رونا کے خلاف اس لڑائی میں جتنی  بھی زندگی بچ رہی ہے اس میں Ambulance Drivers کا بھی بہت بڑی خدمت ہے ۔ پریم جی آپ کو اور ملک بھر میں آپ کے سبھی ساتھیوں کو میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، ۔ آپ وقت پر پہنچتے رہیے، زندگی بچاتے رہیے ۔

میرے پیارے ہم وطنو، یہ صحیح ہے کہ، کو رونا سے بہت لوگ متاثر ہو رہے ہیں، لیکن، کو رونا سے ٹھیک ہونے والے لوگوں کی تعداد بھی اتنی ہی زیادہ ہے ۔ گروگرام کی پریتی چترویدی جی نے بھی حال ہی میں کو رونا کو ہرایا ہے۔ پریتی جی ‘من کی بات’ میں ہمارے ساتھ جڑ رہی ہیں۔ انکے تجربات ہم سب کےلیے بہت کام آئیں گی ۔

مودی جی – پریتی جی نمستے

پریتی – نمستے سر ۔ کیسے ہیں  آپ ؟

مودی جی – میں ٹھیک ہوں، جی ۔ سب سے پہلے تو میں آپ کی کووڈ 19 سے

پریتی – جی

مودی جی – کامیابی کے ساتھ لڑنے کے لیے

پریتی – جی

مودی جی – ستائش کروں گا

پریتی –   Thank you so much sir

مودی جی – میری تمنا ہے آپ کی صحت اور تیزی سے بہتر ہو ۔

پریتی – جی شکریہ سر

مودی جی – پریتی جی

پریتی –ہاں جی سر

مودی جی –پوری لہر میں صرف آپ ہی کا نمبر لگا ہے کہ خاندان دیگر لوگ بھی اس میں پھنس گئے ہیں ۔

پریتی – نہیں نہیں سر میں اکیلی ہی ہوئی تھی ۔

مودی جی – چلیے بھگوان کی کرپا رہی ۔ اچھا میں چاہونگا

پریتی – ہاں جی سر ۔

مودی جی –آپ اپنی  اس تکلیف کی صورتحال کے کچھ تجربات اگر شیئر کریں تو شاید جو سامعین ہیں انکو بھی ایسے  وقت میں کیسے اپنے آپ کو سنبھالنا چاہیئے اس کی رہنمائی ملے گی ۔

پریتی – جی سر، ضرور ۔ سر initially stage میں میرے کو بہت زیادہ lethargy, مطلب بہت سستی سستی آئی اور اسکے بعد نا میرے گلے میں تھوڑی سی خراش ہونے لگی ۔ تو اسکے بعد تھوڑا سا مجھے لگا کہ یہ علامت ہے تو میں نے جانچ کے لیے ٹیسٹ کرایا ۔ دوسرے دن report آتے ہی جیسے ہی مجھے positive ہوا، میں نے اپنے آپ کو quarantine کر لیا ۔ ایک Room میں isolate کرکےdoctors سے رابطہ کیا میں نے سے ۔ انکی medication start کر دی ۔

مودی جی – تو آپ کا پریوار بچ گیا آپکےفوری اقدام کی وجہ سے ۔

پریتی – جی سر ۔ وہ باقی سب کا بھی بعد میں کرایا تھا ۔ باقی سب negative تھے ۔ میں ہی positive تھی ۔ اس سے پہلے میں نے اپنے آپ کو isolate کر لیا تھا ایک room کے اندر ۔ اپنی  ضرورت کا سارا سامان رکھ کر اسکو میں اپنے آپ اندر کمرے میں بند ہو گئی تھی ۔ اور اسکے ساتھ ساتھ میں نے پھر ڈاکٹر کے ساتھ medication start کر دی ۔ سر میں نے medication کے ساتھ ساتھ ، یوگا، آیورویدک، اور، میں یہ سب start کیا اور ساتھ میں ، میں نے، کاڑھا بھی لینا شروع کر دیا تھا ۔ قوت مدافعت بہتر کرنے کے لیے اور سر میں دن میں مطلب جب بھی کھانا کھاتی تھی ، اس میں میں نے healthy food جو کہ protein rich diet تھی، وہ لیا میں نے ۔ میں نے بہت سارا fluid لیا میں نے steam لیا gargle کیا اور hot water لیا ۔ میں نے دن بھر میں ان سب چیزوں کو ہی اپنی زندگی میں لیتی آئی روزانہ ۔ اور سر ان دنوں میں نا، سب سے بڑی بات میں بولنا چاہونگی گھبرانا تو بالکل نہیں ہے ۔ ذہنی طور پر بہت مضبوط رہنا ہے جسکے لیے مجھے یوگا نے بہت زیادہ، breathing exercise کرتی تھی اچھا لگتا تھا اسکو کرنے سے مجھے ۔

مودی جی – ہاں ۔ اچھا پریتی جی جب آپ کا process پورا ہو گیا ۔ آپ بحران سے باہر نکل آئیں ۔

پریتی – ہاں جی

مودی جی – اب آپ کا test بھی negative آ گیا ہے ۔

پریتی – ہاں جی سر

مودی جی – تو پھر آپ اپنی صحت کے لیے اسکی دیکھ بھال کے لیے ابھی کیا کر رہی ہیں ؟

پریتی – سر میں نے ایک تو یوگابند نہیں کیا ہے ۔

مودی جی – ہاں

پریتی – ٹھیک ہے میں نے کاڑھا ابھی بھی لے رہی ہوں، اور اپنی قوت مدافعت برقرار رکھنے کے لیے میں اچھا healthy food کھا رہی ہوں، ابھی ۔

مودی جی – ہاں

پریتی – جو کہ میں بہت اپنے آپ کونظر انداز کرتی تھی اس پر بہت دھیان دے رہی ہوں، میں ۔

مودی جی –  شکریہ پریتی جی ۔

پریتی – Thank you so much sir.

مودی جی – آپ نے جو جانکاری دی مجھے لگتا ہے یہ بہت سارے لوگوں کے کام آئے گی ۔ آپ صحت مند رہیں، آپ کنبے کے لوگ صحت مند رہیں، میری جانب سے  آپ کو بہت بہت  نیک خواہشات ۔

میرے پیارے ہم وطنو، جیسے آج ہمارے طبی شعبہ کے لوگ، صف اول کے کارکنان دن رات خدمت گزاری  میں مصروف ہیں۔  ویسے ہی سماج کے دیگر لوگ بھی، اس وقت  پیچھے نہیں ہیں ۔ ملک ایک بار پھرمتحد ہوکر کو رونا کے خلاف لڑائی لڑ رہا ہے ۔ ان دنوں میں دیکھ رہا ہوں، کوئی قرنطینہ میں رہ رہے  کنبوں کے لیے دوا پہنچا رہا ہے، کوئی، سبزیاں ، دودھ، پھل  وغیرہ پہنچا رہا ہے۔ کوئی ایمبولینس کی مفت خدمات مریضوں کو دے رہا ہے ۔ ملک کے الگ الگ گوشے میں اس چیلنج سے بھرپور گھڑی میں بھی اپنی مدد آپ تنظیمیں آگے آکر دوسروں کی مدد کے لیے جو بھی کر سکتے ہیں وہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس بار، گاؤوں میں بھی نئی بیداری دیکھی جا رہی ہے ۔ کووڈ ضابطوں پر سختی سے عمل کرتے ہوئے لوگ اپنے گاؤں کی کو رونا سے حفاظت کر رہے ہیں، جو لوگ، باہر سے آ رہے ہیں انکے لیے صحیح انتظامات بھی کی جا رہی ہیں ۔ شہروں میں بھی کئی نوجوان سامنے آئے ہیں، جو اپنے علاقوں میں، کو رونا کے معاملے نہ بڑھیں ، اسکے لیے، مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کوشش کر رہے ہیں، یعنی ایک طرف ملک ، دن رات اسپتالوں، Ventilators اور دوائیوں کے لیے کام کر رہا ہے، تو دوسری جانب ، ہم وطن بھی، جی جان سے کو رونا کے چیلنجوں کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ یہ جذبہ ہمیں کتنی طاقت دیتا ہے، کتنا اعتماد پیدا کرتا ہے ۔ یہ جو بھی کوشش ہو رہی ہے ، سماج کی بہت بڑی خدمت ہے ۔ یہ سماج کی طاقت شکتی بڑھاتی ہیں ۔

میرے پیارے ہم وطنو، آج ‘من کی بات’ کی پوری بات چیت کو ہم نے کو رونا  وبا کے لیے ہی مخصوص رکھا، کیونکہ، آج، ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے، اس بیماری کو ہرانا ۔ آج بھگوان مہاویر جینتی بھی ہے ۔ اس موقع پر میں سبھی ہم وطنوں کونیک خواہشات پیش کرتا ہوں، ۔ بھگوان مہاویر کے پیغام ، ہمیں، حوصلہ اور خود اعتمادی کی ترغیب دیتے ہیں ۔ ابھی رمضان کا مقدس مہینہ بھی چل رہا ہے ۔ آگے بدھ پورنما بھی ہے ۔ گرو تیغ بہادر جی کا 400واں پرکاش پرو بھی ہے ۔ ایک اہم دن پوچشے بوئی شاک – ٹیگور جینتی کا ہے ۔ یہ سبھی ہمیں ترغیب دیتے ہیں اپنے فرائض کی انجام دہی کی ۔ ایک شہری کے طور پر ہم اپنی زندگی میں جتنی مہارت سے اپنے فرائض انجام دیں گے ، بحران سے نکل کر مستقبل کے راستے پر اتنی ہی تیزی سے آگے بڑھیں گے ۔ اسی تمنا کے ساتھ میں آپ سبھی سے ایک بار پھر اپیل کرتا ہوں، کہ ویکسین ہم سب کو لگوانا ہے اور پوری احتیاط بھی برتنی ہے ۔ ‘دوائی بھی – کڑائی بھی’ ۔ اس منتر کو کبھی بھی نہیں بھولنا ہے ۔ ہم جلد ہی ساتھ مل کر اس آفت سے باہر آئیں گے ۔ اسی امید کے ساتھ آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ ۔ نمسکار ۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

(ش ح ۔ رض (

U-3949