Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

’من کی بات‘ کی 112ویں قسط میں وزیراعظم کے خطاب کا  متن (28جولائی، 2024 ء )


میرے پیارے ہموطنوں،من کی بات میں آپ کا خیر مقدم ہے، استقبال ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں پیرس اولمپکس چھایا ہوا ہے۔ اولمپکس ہمارے کھلاڑیوں کو عالمی سطح پر ترنگا لہرانے کا موقع فراہم کرتا ہے، ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کا موقع دیتا ہے۔ آپ بھی اپنے کھلاڑیوں کا جوش اور حوصلہ بڑھائیے، چیئر فار بھارت  ! !  

ساتھیو، اسپورٹس کی دنیا کے اِس اولمپکس سے الگ کچھ دن پہلے میتھس  کی دنیا میں بھی ایک اولمپک ہوا ہے۔  انٹرنیشنل میتھ میٹیکس اولمپیاڈ  ۔ اس اولمپیاڈ  میں بھارت کے طلباء نے بہت شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اِس میں ہماری ٹیم نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار سونے کے تمغے اور ایک چاندی کا تمغہ  جیتا ہے۔ ۔  انٹرنیشنل میتھ میٹیکس اولمپیاڈ ،  اس میں 100 سے زیادہ ملکوں کے نوجوان حصہ لیتے ہیں اور اوور آل ٹیلی  میں ہماری ٹیم  ٹاپ فائیو  میں آنے میں کامیاب رہی ہے۔ ملک کا نام روشن کرنے والے اِن  طلباء  کے نام ہیں :

پونے کے رہنے والے آدتیہ وینکٹ گنیش، پونے کے ہی سدھارتھ چوپڑا، دلّی کے ارجن گپتا، گریٹر نوئیڈا کے کَنَو تلوار  ممبئی کے رُشیل ماتھر اور گواہاٹی کے آنندو  بھادُری۔

ساتھیو، آج من  کی بات میں، میں نے کامیابی حاصل کرنے والے اِن نوجوانوں کو خاص طور پر مدعو کیا ہے۔ یہ سبھی اِس وقت فون پر ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم :- نمستے ساتھیو، من کی بات میں آپ سبھی ساتھیو کا بہت بہت خیرمقدم ہے۔ آپ سبھی کیسے ہیں؟

طلباء :- ہم ٹھیک ہیں سر۔

وزیر اعظم :- اچھا ساتھیوں، من کی بات کے ذریعے ملک کے لوگ آپ سبھی کے  تجربات  جاننے کے بہت خواہشمند ہیں۔ میں شروعات کرتا ہوں، آدتیہ اور سدھارتھ سے۔ آپ لوگ پونے میں ہیں۔ سب سے پہلے میں آپ سے ہی شروع کرتا ہوں۔ اولمپیاڈ  کے دوران آپ نے جو تجربہ حاصل کیا، اُسے ہم سبھی کے ساتھ شیئر کیجئے۔

آدتیہ:- مجھے میتھس میں چھوٹے سے  دلچسپی تھی ۔ مجھے چھٹی کلاس  میتھس  ایم پرکاش سر، میرے ٹیچر نے سکھایا تھا اور انہوں نے میری میتھس  میں دلچسپی کو  بڑھایا تھا۔ مجھے سیکھنے  کو ملا اور مجھے موقع ملا تھا۔

وزیر اعظم :- آپ کے ساتھی کا کیا کہنا ہے؟

سدھارتھ:- سر میں سدھارتھ ہوں، میں پونے سے ہوں۔ میں ابھی کلاس  بارہویں  پاس کیا ہوں۔ یہ میرا سیکنڈ ٹائم  تھا ۔ آئی ایم او  میں، مجھے بھی چھوٹے سے بہت  انٹریسٹ   تھامیتھس  میں اور آدتیہ کے ساتھ جب میں  چھٹی کلاس میں تھا ایم پرکاش سر نے ہم دونوں کو  ٹرین  کیا تھا اور بہت ہیلپ  ہوا تھا ہم کو اور ابھی میں کالج کیلئے  سی ایم آئی جا رہا ہوں اور  میتھس اینڈ سی ایس پرسیو  کررہا ہوں۔

وزیر اعظم :-  اچھا مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ ارجن اِس وقت گاندھی نگر میں ہیں اور  کَنَو   تو گریٹر نوئیڈا کے ہی ہیں۔ ارجن اور  کَنِو  ہم نے  اولمپیاڈ   کو لے کر جو بات کی لیکن آپ دونوں ہمیں اپنی تیاری سے وابستہ کوئی موضوع اور کوئی خاص تجربے اگر بتائیں گے تو ہمارے سامعین کو اچھا لگے  گا۔

ارجن:- نمستے سر، جے ہند، میں ارجن بول رہا ہوں۔

وزیر اعظم:- جے ہند ارجن

ارجن:- میں دلّی میں رہتا ہوں اور میری  ماں شریمتی آشا گپتا فزکس کی پروفیسر ہیں، دلّی یونیورسٹی میں، اور میرے  والد شری امت گپتا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ میں بھی بہت فخر محسوس کررہا ہوں کہ میں اپنے ملک کے وزیر اعظم سے بات کررہا ہوں اور سب سے پہلے، میں اپنی کامیابی کا سہرا اپنے والدین کو دینا چاہوں گا۔ مجھے لگتا ہے کہ جب ایک فیملی میں کوئی ممبر ایک ایسے کمپٹیشن کی تیاری کررہا ہوتا ہے تو صرف وہ اُس ممبر کی جدوجہد نہیں ہوتی بلکہ پورے پریوار کی جدوجہد ہوتی ہے۔   ہمارے پاس جو ہمارا پیپر ہوتے ہیں اُس میں ہمارے پاس تین    پرابلمس  کیلئےساڑھے چار گھنٹے ہوتے ہیں، تو ایک  پرابلم  کیلئے ڈیڑھ گھنٹہ۔ تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کیسے ہمارے پاس ایک  پرابلم  کو حل   کرنے کیلئے کتنا وقت ہوتا ہے۔ تو ہمیں گھر پہ کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔ ہمیں  پرابلمس  کے ساتھ گھنٹوں لگانے پڑتے ہیں۔ کبھی کبھار تو ایک ایک پرابلم  کے ساتھ، ایک دن یا یہاں تک کہ تین دن بھی لگ جاتے ہیں۔ تو اِس کیلئے ہمیں آن لائن پرابلمس  ڈھونڈنی ہوتی ہیں۔ ہم پچھلے سال کی پرابلم  ٹرائی کرتے ہیں اور ایسے ہی جیسے ہم آہستہ آہستہ محنت کرتے جاتے ہیں،   اُس سے ہمارا ایکسپیرئنس بڑھتا ہے۔ ہماری سب سے ضروری چیز ہماری  پرابلم سولوِنگ ایبیلٹی  بڑھتی ہے، جو نہ کہ ہمیں میتھ میٹکس میں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں مدد کرتی ہے۔

وزیر اعظم :- اچھا مجھے  کَنَو   بتا سکتے ہیں کہ کوئی خاص تجربہ ہو ، یہ ساری تیاری میں کوئی خاص جو ہمارے نوجوان ساتھیوں کو بڑا اچھا لگے جان کرکے۔  

کَنَو تلوار :- میرا نام کَنَو تلوار  ہے، میں گریٹر نوئیڈا اترپردیش میں رہتا ہوں اور گیارہویں کلاس کا طالب علم ہوں۔ میتھس  میرا پسندیدہ  مضمون  ہے ۔ اور مجھے بچپن سے  میتھس  بہت پسند ہے۔ بچپن میں میرے والد مجھے  پزلس  کراتے تھے، جس سے میرا  انٹریسٹ  بڑھتا گیا۔ میں نے اولمپیاڈ  کی تیاری ساتویں کلاس سے شروع کی تھی۔ اس میں میری بہن  کا بہت بڑا رول رہا۔ اور میرے  والدین  نے بھی  ہمیشہ مجھے سپورٹ کیا۔ یہ اولمپیاڈ  ،  ایچ بی سی ایس ای  منعقد  کراتا ہے۔ اور یہ ایک  5 مرحلوں کا عمل  ہوتا ہے۔ پچھلے سال میرا ٹیم میں نہیں ہوا تھا اور میں کافی قریب تھا۔ اور نہ ہونے پر بہت دکھی تھا۔ تب میرے والدین نے مجھے سکھایا کہ یا ہم جیتتے ہیں یا ہم سیکھتے ہیں۔ اور سفر معنی رکھتا ہے کامیابی نہیں۔ تو میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ –  ’لَو وہاٹ یُو ڈُو اینڈ ڈُو وہاٹ یُو  لَو ‘ ۔ سفر معنی رکھتا ہے کامیابی نہیں اور ہمیں  سکسیس  ملتے رہے گا۔ اگر ہم اپنے  سبجیکٹ  سے پیار کریں اور سفر  کا مزہ لیں۔

وزیر اعظم:- تو کَنَو  آپ تو  میتھ میٹیکس  میں بھی  دلچسپی رکھتے ہیں اور بولتے ہیں ایسے ، جیسے آپ کو ادب میں بھی دلچسپی ہو۔

کَنَو تلوار :-   جی سر، میں بچپن میں بحث و مباحثے اور تقریروں کے مقابلوں میں  بھی  حصہ لیتا  تھا۔

وزیر اعظم:- اچھا اب آئیے ہم آنندو سے بات کرتے ہیں۔ آنندو ، آپ ابھی گواہاٹی میں ہیں اور آپ کا ساتھی روشیل آپ ممبئی میں ہیں۔ میرا آپ دونوں سے ایک سوال  ہے۔ دیکھیے، میں پریکشا پہ چرچا تو کرتا ہی رہتا ہوں، اور پریکشا پہ چرچا کے علاوہ دیگر پروگراموں میں بھی میں طلباء سے گفتگو کرتا رہتا ہوں۔ بہت سے طلباء کو  میتھس سے اتنا ڈر لگتا ہے، نام سنتے ہی گھبرا جاتے ہیں۔ آپ بتائیے کہ  میتھس  سے دوستی کیسے کی جائے؟

روشیل ماتھر:- سر میں روشیل ماتھر ہوں۔ جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں اور ہم پہلی بار ایڈیشن سیکھتے ہیں، ہمیں  کیری فارورڈ  سمجھایا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں کبھی یہ نہیں سمجھایا جاتا کہ  کیری فارورڈ  ہوتا کیوں ہے۔ جب ہم  کمپاؤنڈ انٹریسٹ  پڑھتے ہیں تو یہ سوال کبھی نہیں پوچھے کہ کمپاؤنڈ انٹریسٹ  کا فارمولا آتا کہاں سے ہے؟ میرا ماننا یہ ہے کہ میتھس دراصل ایک سوچنے اور پرابلم حل کرنے کا ایک فن ہے۔ اور اس لیے مجھے یہ لگتا ہے کہ اگر ہم سب میتھ میٹکس  میں ایک نیا سوال جوڑ دیں تو یہ سوال ہے کہ ہم یہ کیوں کررہے ہیں؟ یہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تو میرے خیال میں اِس سے میتھس  میں بہت انٹریسٹ بڑھ سکتا ہے، لوگوں کا۔ کیونکہ جب کسی چیز کو ہم سمجھ نہیں پاتے، اُس سے ہمیں ڈر لگنے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ میتھس  سب سوچتے ہیں کہ ایک بہت لاجیکل سا مضمون  ہے۔   لیکن اس کے علاوہ  میتھس   میں بہت کرئیٹیویٹی   بھی ضروری ہوتی ہے۔ کیونکہ کرئیٹیویٹی  سے ہی ہم آؤٹ آف دی باکس سولوشنس   سوچ پاتے ہیں جو  اولمپیاڈ  میں بہت کام آتے ہیں۔ اور اس لیے   میتھس اولمپیاڈ کا بھی بہت اہم تعلق ہے ۔ میتھس کے انٹریسٹ بڑھانے کیلئے۔

وزیر اعظم :- آنندو کچھ کہنا چاہیں گے؟

آنندو بھادُری:- نمستے پی ایم جی۔ میں آنندو بھادُری گواہاٹی سے۔ میں ابھی ابھی 12ویں کلاس پاس کیا ہوں۔ یہاں کے مقامی اولمپیاڈ میں چھٹے اور ساتویں میں کرتا تھا۔ وہاں سے دلچسپی ہوئی یہ میری دوسری آئی ایم او تھی۔ دونوں آئی ایم او بہت اچھے لگے۔ میں روشیل جو تھا ، اُس سے میں اتفاق کرتا ہوں۔ اور میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جنہیں میتھس سے ڈر ہے ، انہیں صبر کی بہت ضرورت ہے کیونکہ ہمیں میتھس جیسے پڑھایا جاتا ہے۔ کیا ہوتا ہے ایک فارمولا دیا جاتا ہے، جو رَٹا جاتا ہے پھر اُس فارمولے سے ہی 100 سوال ایسے پڑھنے پڑتے ہیں۔ لیکن فارمولا سمجھے کہ نہیں وہ نہیں دیکھا جاتا، صرف سوال کرتے جاؤ کرتے جاؤ۔ فارمولا بھی رٹا جائے گا اور پھر امتحان میں اگر فارمولا بھول گیا تو کیا کرے گا؟ اس لئے میں کہوں گا کہ فارمولے کو سمجھو ، جو روشیل کہا تھا۔ پھر اطمینان سے دیکھو۔ اگر فارمولا ٹھیک سے سمجھے تو 100 سوال نہیں کرنے پڑیں گے۔ ایک دو سوال سے ہی ہوجائیں گے۔ اور میتھس کو ڈرنا بھی نہیں ہے۔

وزیر اعظم:- آدتیہ اور سدھارتھ، آپ جب شروع میں بات کررہے تھے تب ٹھیک سے بات ہو نہیں پائی، اب اِن سارے ساتھیوں کو سننے کے بعد آپ کو بھی ضرور لگتا ہے کہ آپ بھی کچھ کہنا چاہتے ہوں گے۔ کیا آپ اپنے تجربے اچھے ڈھنگ سے شیئر کرسکتے ہیں؟

سدھارتھ:- بہت سارے دوسرے ملکوں سے انٹریکٹ کیا تھا، بہت سارے کلچر تھے اور بہت اچھا تھا دوسرے طلباء سے بات چیت اور بہت سارے مشہور میتھس کے ماہرین تھے۔

وزیر اعظم:- ہاں آدتیہ

آدتیہ:- بہت اچھا تجربہ تھا اور ہمیں انہوں نے باتھ سِٹی کو گھماکر دکھایا تھا اور بہت اچھے اچھے منظر دیکھے تھے۔ پارکس لے کے گئے تھے اور ہمیں آکسفورڈ یونیورسٹی کو بھی لے کر گئے تھے تو وہ ایک بہت اچھا تجربہ رہا۔

وزیر اعظم:- چلیے ساتھیوں، مجھے بہت اچھا لگا آپ لوگوں سے بات کرکے اور میں آپ کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں اس طرح کے کھیل کیلئے کافی فوکس ایکٹیویٹی کرنی پڑتی ہے، دماغ لگانا پڑتا ہے اور فیملی کے لوگ بھی کبھی کبھی تنگ آجاتے ہیں ، کہ یہ ہر وقت جمع ، گھٹا ، تقسیم کرتا رہتا ہے۔لیکن میری طرف سے آپ کیلئے بہت بہت نیک خواہشات۔ آپ نے ملک کی شان بڑھائی ہے۔ ملک کا نام روشن کیا ہے۔ شکریہ دوستوں۔

طلباء  :- تھینک یو ، شکریہ

وزیر اعظم :- تھینک یو

طلباء  :- تھینک یو سر ، جے ہند

وزیر اعظم:- جے ہند ، جے ہند

آپ سبھی  طلباء   سے بات کرکے بہت اچھا لگا۔ من کی بات میں شامل ہونے کیلئے آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ۔ مجھے یقین ہے کہ میتھس  کی اِن نوجوان ہستیوں کو سننے کے بعد دوسرے نوجوانوں کو  میتھس   کو  انجوائے   کرنے کی تحریک ملے گی۔   

میرے پیارے ہموطنو، من کی بات میں، اب میں اُس موضوع پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں، جسے سُن کر ہر بھارتی شہری کا سر فخر سے اونچا ہوجائے گا۔ لیکن اِس کے بارے میں بتانے سے پہلے میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہوں گا۔ کیا آپ نے چرائی دیو میدام کا نام سُنا ہے؟ اگر نہیں سنا، تو اب آپ یہ نام بار بار سنیں گے، اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ دوسروں کو بتائیں گے۔ آسام کے چرائی دیو میدام کو یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ میں شامل کیا جارہا ہے۔ اس لسٹ میں یہ بھارت کی 43 ویں لیکن نارتھ ایسٹ کی پہلی سائٹ ہوگی۔

ساتھیو، آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور آرہا ہوگا کہ چرائی دیو میدام آخر ہے کیا، اور یہ اِتنا خاص کیوں ہے۔ چرائی دیو  کا مطلب ہے شائننگ سِٹی آن دی ہِلس ، یعنی پہاڑی پر ایک چمکتا شہر۔ یہ راج ونش اَہوم  کی پہلی راجدھانی تھی۔ راج ونش اَہوم  کے لوگ اپنے آبا و اجداد کے جسدِ خاکی اور اُن کی قیمتی چیزوں کو روایتی انداز سے میدام میں رکھتے تھے۔ میدام، ٹیلے کی شکل کا ایک ڈھانچہ ہوتا ہے، جو اوپر مٹی سے ڈھکا ہوتا ہے، اور نیچے ایک یا اُس سے زیادہ کمرے ہوتے ہیں۔ یہ میدام  اَہوم سلطنت کے اُن راجاؤں اور ممتاز لوگوں کے تئیں عقیدت کی علامت ہے، جن کا انتقال ہوچکا ہے۔ اپنے آبا و اجداد کے تئیں احترام کے اظہار کا یہ طریقہ بہت منفرد  ہے۔ اِس جگہ پر اجتماعی پوجا بھی ہوتی تھی۔

ساتھیو، اَہوم سلطنت کے بارے میں دوسری معلومات آپ کو اور حیران کریں گی۔ 13ویں صدی سے شروع ہوکر یہ سلطنت 19ویں صدی کی شروعات تک چلی۔ اتنے طویل عرصے تک ایک سلطنت کا برقرار رہنا بہت بڑی بات ہے۔ شاید اَہوم سلطنت کے اصول اور اعتماد اتنا مضبوط تھا کہ اُس نے اِس سلطنت کو اتنے وقت تک قائم رکھا۔ مجھے یاد ہے کہ اِسی سال 9 مارچ کو مجھے غیر معمولی شجاعت اور بہادری کے علمبردار عظیم اَہوم مجاہد لَسِت بور پھوکن کے سب سے بلند مجسمے کی نقاب کشائی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اس پروگرام کے دوران اَہوم برادری روحانی روایت پر عمل کرتے ہوئے مجھے ایک الگ ہی انداز کا  تجربہ ہوا تھا۔ لَسِت میدام میں اَہوم برادری کے آبا و اجداد کی عزت افزائی کا شرف حاصل ہونا میرے لیے بہت بڑی بات ہے۔ اب چرائی دیو میدام کے ورلڈ ہیریٹیج سائٹ بننے کا مطلب ہوگا کہ یہاں پر اور زیادہ سیاح آئیں گے۔ آپ بھی مستقبل کے اپنے ٹریول پلانس   میں اِس سائٹ کو ضرور شامل کرئیے گا۔

ساتھیو، اپنی ثقافت پر فخر کرتے ہوئے ہی کوئی ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔ بھارت میں بھی اِس طرح کی بہت سی کوششیں ہورہی ہیں۔ ایسی ہی ایک کوشش ہے  پروجیکٹ پری ۔ اب آپ پری سن کر   کنفیوز  مت ہوئیے گا ..   یہ پری آسمانی تصور سے وابستہ نہیں بلکہ زمین کو سُورگ بنا رہی ہے۔ پری یعنی پبلک آرٹ آف انڈیا۔  پری پروجیکٹ ، پبلک آرٹ کو مقبولِ عام بنانے کیلئے ابھرتے ہوئے فنکاروں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا بڑا وسیلہ بن رہا ہے۔ آپ دیکھتے ہوں گے .. سڑکوں کے کنارے، دیواروں پر، انڈر پاس  میں بہت ہی خوبصورت  پینٹگس  بنی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ پینٹگس   اور یہ فن پارے یہی آرٹسٹ بناتے ہیں، جو  پری سے وابستہ ہیں۔ اس سے جہاں ہمارے عوامی مقامات کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے، وہیں ہمارے کلچر کو اور زیادہ  مشہور بنانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ مثال کے طور پر، دلّی کے بھارت منڈپم کو ہی لیجیے۔ یہاں ملک بھر کے عمدہ آرٹ ورکس آپ کو دیکھنے کو مل جائیں گے۔ دلّی میں کچھ  انڈر پاس  اور فلائی اوور پر بھی آپ ایسے خوبصورت پبلک آرٹ دیکھ سکتے ہیں۔ میں آرٹ اور کلچر کے مداحوں سے  یہ اپیل کروں گا کہ وہ بھی پبلک آرٹ پر اور کام کریں۔ یہ ہمیں اپنی اساس پر فخر کرنے کا خوشگوار احساس دلائے گا۔

میرے پیارے ہموطنو، من کی بات میں اب بات، رنگوں کی، ایسے رنگوں کی جنہوں نے ہریانہ کے روہتک ضلع کی ڈھائی سو سے زیادہ خواتین کی زندگی میں خوشحالی کے رنگ بھر دیئے ہیں۔ ہتھ کرگھا صنعت سے وابستہ یہ خواتین پہلے چھوٹی چھوٹی دکانیں اور چھوٹے موٹے کام کرکے گزارا کرتی تھیں۔ لیکن ہر کسی میں آگے بڑھنے کی خواہش تو ہوتی ہی ہوتی ہے۔ اس لیے انہوں نے’ اُنّتی سیلف ہیلپ گروپ ‘سے منسلک ہونے کا فیصلہ کیا اور اس گروپ سے وابستہ ہوکر انہوں نے بلاک پرنٹنگ اور رنگائی میں تربیت حاصل کی۔ کپڑوں پر رنگوں کا جادو بکھیرنے والی یہ خواتین آج لاکھوں روپے کما رہی ہیں۔ اِن کے بنائے  بیڈ کَور ، ساڑھیوں اور دوپٹوں کی بازار میں بھاری مانگ ہے۔

ساتھیو، روہتک کی اِن خواتین کی طرح ملک کے الگ الگ حصوں میں کاریگر، ہینڈلوم کو مقبولِ عام بنانے میں لگی ہوئی ہیں۔ خواہ اڈیشہ کی سمبل پوری ساڑھی ہو، خواہ ایم پی کی ماہیشوری ساڑھی ہو، مہاراشٹر کی پیٹھانی یا وِدربھ کے ’ہینڈ بلاک پرنٹس ‘ ہوں، خواہ ہماچل کی ’بھُٹّیکو‘  کی شال اور اونی کپڑے ہوں، یا پھر جموں وکشمیر کی کَنی شال ہوں۔ ملک کے گوشے گوشے میں ہینڈلوم کاریگروں کا کام چھایا ہوا ہے۔ اور آپ یہ تو جانتے ہی ہوں گے، کچھ ہی دن بعد 7 اگست کو ہم ’’نیشنل ہینڈلوم ڈے‘‘ منائیں گے۔ آج کل جس طرح ہینڈلوم اشیاء نے لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی ہے، وہ واقعی بہت زبردست، بڑی کامیابی ہے۔ اب تو کئی پرائیویٹ کمپنیاں بھی اے آئی کے ذریعے ہینڈلوم کے سامان اور پائیدار فیشن  کو بڑھاوا دے رہی ہیں-:کوشا اے آئی ، ہینڈ لوم انڈیا ، ڈی- جَنک ، نووا ٹکس ، برہمپترا فیبلس  ۔

ایسے کتنے ہی اسٹارٹ اَپ  بھی ہینڈلوم اشیاء کو مقبولِ عام بنانے میں مصروف ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بھی اچھا لگا کہ بہت سے لوگ اپنے یہاں کے ایسے  لوکل پروڈکٹس   کو مشہور  بنانے میں لگے ہیں۔ آپ بھی اپنے  لوکل پروڈکٹس   کو ’’ ہیش ٹیگ مائی پروڈکٹ مائی پرائیڈ ‘‘ کے نام سے سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کریں۔ آپ کی یہ چھوٹی سی کوشش بے شمار لوگوں کی زندگی بدل دے گی۔

ساتھیو، ہینڈلوم کے ساتھ ساتھ میں کھادی کی بات بھی کرنا چاہوں گا۔ آپ میں سے ایسے کئی لوگ ہوں  گے، جو پہلے کبھی کھادی سے بنی اشیاء اور سامان کا استعمال نہیں کرتے تھے، لیکن آج بڑے فخر سے کھادی پہنتے ہیں۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے بھی خوشی ہورہی ہے کہ کھادی گرام اُدیوگ کا کاروبار پہلی مرتبہ ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ سوچئے ، ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپے!  اور جانتے ہیں کھادی کی فروخت میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟400 فی صد  ۔ کھادی کی، ہینڈلوم کی یہ بڑھتی ہوئی فروخت بڑی تعداد میں روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کررہی ہے۔ اِس انڈسٹری سے سب سے زیادہ خواتین وابستہ ہیں ، تو سب سے زیادہ فائدہ بھی اُن ہی کو ہی رہا ہے۔ میری تو آپ سے پھر ایک اپیل ہے، آپ کے پاس طرح طرح کے ملبوسات ہوں گے اور آپ نے اب تک کھادی کے کپڑے نہیں خریدے تو اِس سال سے شروع کردیں۔ اگست کا مہینہ آہی گیا ہے، یہ آزادی ملنے کا مہینہ ہے، انقلاب کا مہینہ ہے۔ اِس سے اچھا موقع اور کیا  ہوگا – کھادی خریدنے کیلئے۔

میرے پیارے ہموطنو، من کی بات میں، میں نے اکثر آپ سے ڈرگْس کے چیلنج کی بات کی ہے۔ ہر فیملی کی یہ تشویش ہوتی ہے کہ کہیں اُن کا بچہ ڈرگْس کی لپیٹ میں نہ آجائے۔ اب ایسے لوگوں کی مدد کیلئے سرکار نے ایک خصوصی سینٹر کھولا ہے، جس کا نام ہے، مانس ۔ ڈرگْس کے خلاف لڑائی میں یہ بہت بڑا قدم ہے۔ کچھ دن پہلے ہی مانس کی ہیلپ لائن اور پورٹل کو لانچ کیا گیا ہے۔ سرکار نے ایک ٹول فری نمبر ’1933‘ جاری کیا ہے۔ اِس پر کال کرکے کوئی بھی ضروری صلاح لے سکتا ہے یا پھر ری ہیبلیٹیشن  سے وابستہ جانکاری حاصل کرسکتا ہے۔ اگر کسی کے پاس ڈرگْس سے متعلق کوئی دوسری معلومات بھی ہیں، تو وہ اِسی نمبر پر کال کرکے ’نارکوٹکس کنٹرول بیورو ‘ کو یہ جانکاری فراہم کرسکتے ہیں۔ مانس کو دستیاب کرائی گئی ہر جانکاری راز میں رکھی جاتی ہے۔ بھارت کو ڈرگْس فری بنانےسے وابستہ سبھی لوگوں سے، سبھی کنبوں سے، سبھی تنظیموں سے میری اپیل ہے کہ مانس ہیلپ لائن کا بھرپور استعمال کریں۔

میرے پیارے ہموطنو، کَل دنیا بھر میں ٹائیگر ڈے منایا جائے گا۔ بھارت میں تو ٹائیگرس، شیر ہماری ثقافت کا لازمی حصہ رہا ہے۔ ہم سب شیروں سے وابستہ قصے کہانیاں سنتے ہوئے ہی بڑے ہوئے ہیں۔ جنگل کے آس پاس کے گاؤں میں تو ہر کسی کو پتہ ہوتا ہے کہ شیر کے ساتھ تال میل قائم کرکے کیسے رہنا ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے کئی گاؤں ہیں، جہاں انسان اور شیر کے درمیان کبھی ٹکراؤ کی نوبت  نہیں آتی۔ لیکن جہاں ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے، وہاں بھی شیروں کو محفوظ رکھنے کیلئے غیر معمولی کوششیں ہورہی ہیں۔ جَن بھاگیداری کی ایسی ہی ایک کوشش ہے، ’’ کلہاڑی بند پنچایت‘‘ ۔ راجستھان کے رَن تھمبھور سے شروع کی گئی کلہاڑی بند پنچایت مہم بہت دلچسپ ہے۔ مقامی برادریوں نے خود اِس بات کا حلف لیا ہے کہ جنگل میں کلہاڑی کے ساتھ نہیں جائیں گے اور درخت نہیں کاٹیں گے۔ اِس ایک فیصلے سے یہاں کے جنگل ایک بار پھر سے ہرے بھرے ہورہے ہیں اور شیروں کیلئے بہتر ماحول تیار ہورہا ہے۔

ساتھیو، مہاراشٹر کا ٹدوبا – اندھاری ٹائیگر ریزرو  شیروں کے اہم بسیروں میں سے ایک ہے۔ یہاں کی مقامی برادریوں، خاص طور پر گونڈ اور مانا قبیلوں کے ہمارے بھائی بہنوں نے ایکو ٹورزم کی طرف تیزی سے قدم بڑھائے ہیں۔ انہوں نے جنگل پر اپنا انحصار کم کیا ہے تاکہ یہاں شیروں کی سرگرمیاں بڑھ سکیں۔ آپ کو آندھرا پردیش میں نلاّ ملائی کی پہاڑیوں پر رہنے والے ’چینچو‘ قبیلے کی کوششیں بھی حیران کردیں گی۔ انہوں نے ٹائیگر ٹریکرس کے طور پر جنگل میں رہنے والے جنگلی جانوروں کی موومنٹ  کی ہر جانکاری اکٹھا کی۔ اس کے ساتھ ہی وہ علاقے میں غیر قانونی سرگرمیوں کی نگرانی بھی کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح اترپردیش کے پیلی بھیت میں جاری ’’باگھ مِتر کاریہ کرم‘‘ کا بھی بہت چرچا ہے۔ اِس کے تحت مقامی لوگوں کو ’ باگھ متر‘ کے طور پر کام کرنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ یہ باگھ متر اِس بات کا پورا خیال رکھتے ہیں کہ شیروں اور انسانوں کے درمیان ٹکراؤ کی نوبت نہ آئے۔ ملک کے الگ الگ حصوں میں اِس طرح کی کئی کوششیں ہورہی ہیں۔ میں نے یہاں کچھ ہی کوششوں کا تذکرہ کیا ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ جَن بھاگیداری، شیروں کے تحفظ میں بہت کام آرہی ہے۔ ایسی کوششوں کی وجہ سے ہی بھارت میں شیروں کی آبادی ہر سال بڑھ رہی ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی اور فخر کا احساس ہوگا کہ دنیا بھر میں جتنے شیر ہیں، اُن میں سے 70 فیصد شیر ہمارے ملک میں ہیں۔ سوچئے! 70 فیصد شیر! تبھی تو ہمارے ملک کے الگ الگ حصوں میں کئی ٹائیگر سینچری ہیں۔

ساتھیو، شیروں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں جنگلاتی علاقے میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس میں بھی اجتماعی کوششوں سے بڑی کامیابی مل رہی ہے۔ پچھلے من کی بات پروگرام میں آپ سے ’’ایک پیڑ ماں کے نام‘‘ پروگرام کی بات کی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک کے الگ الگ حصوں میں بڑی تعداد میں لوگ اِس مہم میں شامل ہورہے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے صفائی ستھرائی کیلئے مشہور اندور میں ایک شاندار پروگرام ہوا۔ یہاں ’’ایک پیڑ ماں کے نام‘‘ پروگرام کے دوران ایک ہی دن میں دو لاکھ سے زیادہ پودے لگائے گئے۔ اپنی ماں کے نام پر درخت لگانے کی اِس مہم میں آپ بھی ضرور شامل ہوں اور سیلفی لے کر سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کریں۔ اِس مہم میں شامل ہوکر اپنی ماں اور دھرتی ماں دونوں کیلئے کچھ اسپیشل کرنے کا احساس ہوگا۔

میرے پیارے ہموطنو، 15 اگست کا دن اب دور نہیں ہے۔ اور اب تو 15 اگست کے ساتھ ایک اور مہم وابستہ ہوگئی ہے، ’’ ہر گھر ترنگا ابھیان‘‘۔ گذشتہ کچھ برسوں سے تو پورے ملک میں ہر گھر ترنگا ابھیان کیلئے سب کا جوش ہائی رہتا ہے۔ غریب ہو، امیر ہو، چھوٹا گھر ہو، بڑا گھر ہو، ہر کوئی ترنگا لہراکر فخر کا احساس کرتا ہے۔ ترنگے کے ساتھ سیلفی لے کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کا کریز بھی نظر آتا ہے۔ آپ نے غور کیا ہوگا ، جب کالونی یا سوسائٹی کے ایک ایک گھر پر ترنگا لہراتا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے گھروں پر بھی ترنگا نظر آنے لگتا ہے۔ یعنی ہر گھر ترنگا ابھیان – ترنگے کی شان میں ایک یونِک فیسٹیول بن چکا ہے۔ اِس سلسلے میں اب تو طرح طرح کی اختراعات  بھی ہونے لگی ہیں۔ 15 اگست آتے آتے گھر میں، دفتر میں ، کار میں ، ترنگا لگانے کیلئے طرح طرح کے پروڈکٹ نظر آنے لگتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ترنگا اپنے دوستوں ، پڑوسیوں کو بانٹتے بھی ہیں۔ ترنگے کو لے کر یہ جوش و خروش ، یہ ولولہ ہمیں ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں۔

ساتھیو، پہلے کی طرح اِس سال بھی آپ‘harghartiranga.com’ پر ترنگے کے ساتھ اپنی سیلفی ضرور اَپ لوڈ کریں گے اور میں، آپ کو ایک اور بات یاد دلانا چاہتا ہوں۔ ہر سال 15 اگست سے پہلے آپ مجھے اپنی بہت سی تجویزیں بھیجتے ہیں۔ آپ اِس سال بھی مجھے اپنی تجاویز ضرور بھیجیے ۔ آپ  ’ مائی گوو  ‘ یا  ’نمو ایپ ‘ پر بھی اپنی تجویزیں بھیج سکتے ہیں۔ میں زیادہ سے زیادہ تجویزوں کو 15 اگست کے خطاب میں شامل   کرنے کی کوشش کروں گا۔

میرے پیارے ہموطنو، من کی بات کے اِس  ایپیسوڈ میں آپ سے بات کرکے بہت اچھا لگا۔ اگلی بار پھر ملیں گے، ملک کی نئی کامیابیوں کے ساتھ، جَن بھاگیداری کی نئی کوششوں کے ساتھ، آپ من کی بات کیلئے اپنی تجویزیں ضرور بھیجتے رہیں۔ آنے والے وقت میں کئی  تہوار بھی آرہے ہیں۔ آپ کو سبھی تہواروں کی بہت بہت مبارکباد۔ آپ اپنے خاندان کے ساتھ مل کر تہواروں کا لطف اٹھائیں۔ ملک کیلئے کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی توانائی لگاتار بنائے رکھیں۔ بہت بہت شکریہ ، نمسکار ۔  

 

ش ح  ۔ و ا  ۔ ع ا

U.No. 8386