Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

’من کی بات‘ کی 108ویں قسط میں وزیراعظم کے خطاب کا بنیادی متن (31.12.2023)


میرے پیارے ہم وطنو! نمسکار۔ ’من کی بات‘ کا مطلب ہے آپ سے ملنے کا ایک اچھا موقع، اور جب آپ اپنے خاندان کے افراد سے ملتے ہیں، تو یہ بہت خوش کن… بہت اطمینان بخش ہوتا ہے۔ ’من کی بات‘ کے ذریعے آپ سے ملنے کے بعد میں بالکل ایسا ہی محسوس کر رہا ہوں۔ اور یقیناً آج یہ ہمارے مشترکہ سفر کی 108ویں قسط ہے۔ ہمارے یہاں 108 عدد کی اہمیت، اس کی پاکیزگی ایک گہرے مطالعہ کا موضوع ہے۔ ہار میں 108 دانے،  108 بار وِرد، 108 روحانی احساس، مندروں میں 108 سیڑھیاں، 108 گھنٹیاں، 108 کا یہ عدد بے پناہ عقیدت سے جڑی ہوئی ہے، اسی لیے ’من کی بات‘ کی 108 واں قسط میرے لیے بہت خاص ہوگئی ہے۔ ان 108 قسطوں میں ہم نے عوامی شراکت داری کی اتنی ہی مثالیں دیکھی ہیں، ان سے تحریک بھی حاصل کی ہے۔ اب اس سنگ میل تک پہنچنے کے بعد، ہمیں نئی توانائی کے ساتھ اور تیز رفتاری کے ساتھ نئے سرے سے آگے بڑھنے کا عزم کرنا ہوگا۔ اور یہ کتنا خوشگوار اتفاق ہے کہ کل کا طلوع آفتاب 2024 کا پہلا طلوع آفتاب ہوگا – ہم سال 2024 میں داخل ہوچکے ہوں گے۔ آپ سب کو 2024 کے لیے نیک خواہشات۔

دوستو، ’من کی بات‘ سننے والے بہت سے لوگوں نے مجھے خطوط لکھے ہیں اور اپنے یادگار لمحات شیئر کیے ہیں۔ یہ 140 کروڑ ہندوستانیوں کی طاقت کی وجہ سے ہے کہ اس سال ہمارے ملک نے بہت سی خاص کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اسی سال ’ناری شکتی وندن ایکٹ‘ پاس ہوا، جس کا برسوں سے انتظار تھا۔ بہت سے لوگوں نے خطوط لکھے جس میں ہندوستان کے پانچویں سب سے بڑی معیشت بننے پر خوشی کا اظہار کیا گیا۔ بہت سے لوگوں نے مجھے جی 20 سربراہی اجلاس کی کامیابی کی یاد دلائی۔

دوستو، آج ہندوستان کا ہر گوشہ ترقی یافتہ ہندوستان کے جذبے سے لبریز، خود اعتمادی اور خود انحصاری کے جذبے سے بھرا ہوا ہے۔ ہمیں 2024 میں بھی اسی جذبے اور رفتار کو برقرار رکھنا ہے۔ دیوالی پر ریکارڈ کاروبار نے ثابت کر دیا کہ ہر ہندوستانی ’ووکل فار لوکل‘ کے منتر کو اہمیت دے رہا ہے۔

دوستو، آج بھی بہت سے لوگ مجھے چندریان -3 کی کامیابی سے متعلق پیغامات بھیج رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میری طرح آپ کو بھی ہمارے سائنسدانوں اور خاص کر خواتین سائنسدانوں پر فخر ہوگا۔

دوستو، جب ناٹو- ناٹو نے آسکر جیتا تو پورا ملک خوشی سے جھوم اٹھا۔’دی ایلیفینٹ وِسپررز‘ کے اعزاز کی بات سنی تو کون خوش نہیں ہوا؟ ان کے ذریعے دنیا نے ہندوستان کی تخلیقی صلاحیتوں کو دیکھا اور ماحولیات کے ساتھ ہمارے تعلق کو سمجھا۔ اس سال ہمارے کھلاڑیوں نے کھیلوں میں بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہمارے کھلاڑیوں نے ایشین گیمز میں 107 اور ایشین پیرا گیمز میں 111 میڈلز جیتے ہیں۔ ہندوستانی کھلاڑیوں نے کرکٹ ورلڈ کپ میں اپنی کارکردگی سے سب کا دل جیت لیا۔ انڈر 19، ٹی- 20 ورلڈ کپ میں ہماری خواتین کرکٹ ٹیم کی جیت بہت متاثر کن رہی ہے۔ دیگر کئی کھیلوں میں کھلاڑیوں کی کامیابیوں نے ملک کی شان میں اضافہ کیا۔ اب پیرس اولمپکس 2024 میں ہوں گے جس کے لیے پورا ملک اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔

دوستو، جب بھی ہم نے مل کر کوششیں کیں، اس کا ہمارے ملک کی ترقی کے سفر پر بہت مثبت اثر پڑا ہے۔ ہم نے ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ اور ’میری ماٹی میرا دیش‘ جیسی کامیاب مہموں کا تجربہ کیا۔ اس میں کروڑوں لوگوں کی شراکت کے ہم سب گواہ ہیں۔ 70 ہزار امرت سرووروں کی تعمیر بھی ہماری اجتماعی کامیابی ہے۔

دوستو، میرا ہمیشہ سے یہ ماننا ہے کہ جو ملک اختراع کو اہمیت نہیں دیتا، اس کی ترقی رک جاتی ہے۔ ہندوستان کا، اینوویشن ہب بننا اس حقیقت کی علامت ہے کہ ہم رکنے والے نہیں ہیں۔ 2015 میں ہم گلوبل اینوویشن انڈیکس میں 81 ویں نمبر پر تھے – آج ہمارا رینک 40 واں ہے۔ اس سال، ہندوستان میں داخل ہونے والے پیٹنٹ کی تعداد زیادہ رہی ہے، جن میں سے تقریباً 60 فیصد گھریلو فنڈز کے تھے۔ اس بار کیو ایس ایشیا یونیورسٹی رینکنگ میں سب سے زیادہ ہندوستانی یونیورسٹیوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اگر ہم ان کامیابیوں کی فہرست بنانا شروع کر دیں تو یہ کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ یہ صرف ایک جھلک ہے کہ ہندوستان کی صلاحیت کتنی مؤثر ہے – ہمیں ملک کی ان کامیابیوں سے،  ملک کے لوگوں کی ان حصول یابیوں سے تحریک لینی ہے، فخر کرنا ہے، نئے عہد لینے ہیں۔ ایک بار پھر، میں آپ سب کو 2024 کی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

میرے پریوار جنو، ہم نے صرف ہندوستان کے بارے میں اس امید اور جوش کے بارے میں بات کی ہے جو ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے – یہ امید اور توقع بہت اچھی ہے۔ جب ہندوستان ترقی یافتہ ہوگا تو نوجوانوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ لیکن نوجوانوں کو زیادہ فائدہ تب ہوگا، جب وہ فٹ ہوں گے۔

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ طرز زندگی سے متعلق بیماریوں کے بارے میں کتنی باتیں ہوتی ہیں، یہ ہم سب کے لیے خاص طور پر نوجوانوں کے لیے انتہائی تشویشناک بات ہے۔ اس ’من کی بات‘ کے لیے، میں نے آپ سب سے درخواست کی تھی کہ وہ فٹ انڈیا سے متعلق معلومات بھیجیں۔ آپ لوگوں نے جو جواب دیا ہے اس نے مجھے جوش سے بھر دیا ہے۔ اسٹارٹ اپس کی ایک بڑی تعداد نے بھی مجھے نمو ایپ پر اپنی تجاویز بھیجی ہیں۔ انہوں نے اپنی بہت سی منفرد کوششوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

دوستو، ہندوستان کی کوششوں سے، 2023 کو موٹے اناج (ملیٹس) کا بین الاقوامی سال کے طور پر منایا گیا۔ اس سے اس شعبے میں کام کرنے والے اسٹارٹ اپس کو بہت سارے مواقع ملے ہیں۔ ان میں لکھنؤ سے شروع ہونے والے ’کیروس فوڈس‘، پریاگ راج کی ’گرینڈ-ما ملیٹس‘ اور ’نیوٹراسیوٹیکل رچ آرگینک انڈیا‘ جیسے کئی اسٹارٹ اپس شامل ہیں۔ الپینو ہیلتھ فوڈس، آربوریئل اور کیروس فوڈس سے جڑے نوجوان صحت مند غذا کے متبادل کے حوالے سے بھی نئے نئے اختراعات کر رہے ہیں۔ بنگلورو کے اَن باکس ہیلتھ سے جڑے نوجوانوں نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ کس طرح لوگوں کو اپنی پسند کی خوراک کا انتخاب کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ جس طرح جسمانی صحت میں دلچسپی بڑھ رہی ہے، اس شعبے سے متعلق کوچز اور ٹرینرز کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے۔ جوگو ٹیکنالوجیز جیسے اسٹارٹ اپ اس مانگ کو پورا کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔

دوستو، آج جسمانی صحت اور تندرستی کے بارے میں بہت باتیں ہو رہی ہیں، لیکن اس سے جڑا ایک اور اہم پہلو ذہنی صحت کا ہے۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ممبئی میں قائم اسٹارٹ اپس جیسے انفی- ہیل اور یور- دوست دماغی صحت اور تندرستی کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہی نہیں، آج اس کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جنس جیسی ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ دوستو، میں یہاں صرف چند اسٹارٹ اپس کے نام بتا سکتا ہوں، کیونکہ فہرست بہت لمبی ہے۔ میں آپ سب سے گزارش کروں گا کہ فٹ انڈیا کے خواب کو پورا کرنے کے لیے صحت کی دیکھ بھال کے اختراعی آغاز کے بارے میں مجھے لکھتے رہیں۔ میں آپ کے ساتھ ایسے معروف لوگوں کے تجربات بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں جو جسمانی اور ذہنی صحت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

یہ پہلا پیغام سد گرو جگی واسودیو جی کا ہے۔

وہ فٹنس، خاص طور پر دماغ کی فٹنس، یعنی دماغی صحت کے حوالے سے اپنے خیالات ساجھا کریں گے۔

****آڈیو****

’’ اس ’من کی بات‘ میں ذہنی صحت کے بارے میں بات کرنا ہماری خوش نصیبی ہے۔ دماغی بیماریاں اور ہم اپنے اعصابی نظام کو کس طرح برقرار رکھتے ہیں اس کا براہ راست تعلق ہے۔ ہم اعصابی نظام کو کس حد تک چوکس اور خلل سے پاک رکھتے ہیں یہ فیصلہ کرے گا کہ ہم اپنے اندر کتنا خوشگوار محسوس کرتے ہیں؟ جسے ہم امن، محبت، خوشی، مسرت، اذیت، افسردگی، جوش و خروش کے نام سے پکارتے ہیں، ان سب کی ایک کیمیائی اور اعصابی بنیاد ہے۔ فارماکولوجی بنیادی طور پر باہر سے کیمیکل ملاکر جسم کے اندر کیمیائی عدم توازن کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ دماغی بیماریوں کا علاج اس طرح کیا جا رہا ہے، لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جب کوئی انتہائی حالت میں ہو تو ادویات کی شکل میں باہر سے کیمیکل لینا ضروری ہے۔ اندرونی دماغی صحت کی صورتحال کے لیے کام کرنا یا اپنے اندر ایک مساوی کیمسٹری کے لیے کام کرنا، سکون، مسرت، مسرت کی کیمسٹری ایسی چیز ہے جسے ہر فرد کی زندگی میں لانا ہے۔ معاشرے اور دنیا بھر کی اقوام اور پوری انسانیت کی ثقافتی زندگی میں، یہ بہت اہم ہے کہ ہم اپنی دماغی صحت کو سمجھیں، ہماری عقل ایک نازک استحقاق ہے، ہمیں اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ہمیں اس کی پرورش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے، یوگا نظام میں مشق کی بہت سی سطحیں ہیں – مکمل طور پر اندرونی عمل جو لوگ سادہ طریقوں کے طور پر کرسکتے ہیں، جس کے ساتھ وہ کیمسٹری میں ایک خاص مساوات اور اپنے اعصابی نظام میں کچھ سکون لا سکتے ہیں۔ باطنی بہبود کی ٹیکنالوجیز وہ ہیں جنہیں ہم یوگا سائنس کہتے ہیں۔ آئیے اسے ہونے دیں۔‘‘

عام طور پر، سدگرو جی اپنے خیالات کو اس طرح کے قابل ذکر انداز میں پیش کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔

آئیے، اب ہم مشہور کرکٹ کھلاڑی ہرمن پریت کور جی کو سنتے ہیں۔

****آڈیو****

’’نمسکار! میں ’من کی بات‘ کے ذریعے اپنے ہم وطنوں سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ عزت مآب وزیر اعظم جناب نریندر مودی جی کے فٹ انڈیا پہل نے مجھے اپنے فٹنس منتر کو آپ سب کے ساتھ ساجھا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ آپ سب کے لیے میری پہلی تجویز یہ ہے کہ ’کوئی بھی شخص خراب غذا کی مشق نہیں کر سکتا‘۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اس بارے میں بہت محتاط رہنا ہوگا کہ آپ کب کھاتے ہیں اور کیا کھاتے ہیں۔ حال ہی میں، عزت مآب وزیر اعظم مودی جی نے سب کو موٹا اناج کھانے کی ترغیب دی ہے، جو امراض کی روک تھام کے لئے قوت مدافعت بڑھاتا ہے اور پائیدار زراعت میں مدد کرتا ہے اور ہضم کرنا بھی آسان ہے۔ باقاعدگی سے ورزش اور 7 گھنٹے کی پوری نیند جسم کے لیے بہت ضروری ہے اور فٹ رہنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کے لیے بہت زیادہ نظم و ضبط اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوگی۔ جب آپ نتائج حاصل کرنا شروع کر دیں گے تو آپ روزانہ ورزش کرنا شروع کر دیں گے۔ مجھے آپ سب سے بات کرنے اور اپنے فٹنس منتر کو ساجھا کرنے کا موقع دینے کے لیے عزت مآب وزیر اعظم کا بہت شکریہ۔‘‘

ہرمن پریت جی جیسی باصلاحیت کھلاڑی کے الفاظ یقیناً آپ سب کو تحریک دیں گے۔

آئیے، گرینڈ ماسٹر وشواناتھن آنند جی کو سنیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ’شطرنج‘کھیل کے لیے ذہنی فٹنس کتنی اہم ہے۔

****آڈیو****

’’نمستے، میں وشواناتھن آنند ہوں، آپ نے مجھے شطرنج کھیلتے دیکھا ہے اور اکثر مجھ سے پوچھا جاتا ہے، آپ کی فٹنس روٹین کیا ہے؟ اب شطرنج میں بہت زیادہ توجہ اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے میں مندرجہ ذیل کام کرتا ہوں جو مجھے فٹ اور چست رکھتا ہے۔ میں ہفتے میں دو بار یوگا کرتا ہوں، میں ہفتے میں دو بار کارڈیو کرتا ہوں، میں لچک، اسٹریچنگ، وزن کی تربیت پر توجہ دیتا ہوں اور میں ہفتے میں ایک دن کی چھٹی لیتا ہوں۔ یہ سب شطرنج کے لیے بہت اہم ہیں۔ آپ کو 6 یا 7 گھنٹے کی شدید ذہنی مشقت کے لیے اسٹیمنا کی ضرورت ہے، لیکن آپ کو آرام سے بیٹھنے کے لیے لچکدار ہونے کی بھی ضرورت ہے اور جب آپ کسی مسئلے پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو پرسکون ہونے کے لیے اپنی سانسوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت مددگار ثابت ہوتی ہے، جو عام طور پر شطرنج کا کھیل ہے۔ تمام ’من کی بات‘ سننے والوں کے لیے میری فٹنس ٹپ یہ ہوگی کہ وہ پرسکون رہیں اور آگے کے کام پر توجہ دیں۔

میرے لیے بہترین فٹنس ٹِپ، بالکل سب سے اہم فٹنس ٹِپ رات کو اچھی نیند لینا ہے۔ رات کو چار سے پانچ گھنٹے تک سونا شروع نہ کریں، میرے خیال میں سات یا آٹھ گھنٹے کی نیند کم کم لینی چاہئے، اس لیے ہمیں رات کو اچھی نیند لینے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ اسی صورت آپ اگلے دن پورا دن پرسکون انداز سے گزارنے میں اہل ہوسکتے ہیں۔ آپ جذباتی فیصلہ نہیں لیتے؛ آپ اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہیں۔ میرے لیے نیند سب سے اہم فٹنس ٹِپ ہے۔‘‘

آئیے، اب اکشے کمار جی کو سنتے ہیں۔

****آڈیو****

’’ہیلو، میں اکشے کمار ہوں۔ سب سے پہلے، میں اپنے قابل احترام وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے مجھے اپنے ’من کی بات‘ میں آپ کے ساتھ اپنے خیالات ساجھا کرنے کا ایک چھوٹا سا موقع فراہم کیا۔ آپ لوگ جانتے ہیں کہ جتنا میں فٹنس کے بارے میں پرجوش ہوں، میں قدرتی طریقے سے فٹ رہنے کے لیے اس سے بھی زیادہ پرجوش رہتا ہوں۔ مجھے ایک فینسی جم سے زیادہ جو چیز پسند ہے، وہ ہے باہر تیراکی کرنا، بیڈمنٹن کھیلنا، سیڑھیاں چڑھنا، مڈگر کلب کی گھنٹی کے ساتھ ورزش کرنا، اچھی صحت مند غذا استعمال کرنا … جیسا کہ میرا ماننا ہے کہ خالص گھی اگر مناسب مقدار میں کھایا جائے تو ہمارے لیے فائدہ مند ہے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گھی نہیں کھاتے، کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ وہ موٹے ہو جائیں گے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ ہماری فٹنس کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے۔ آپ کو اپنے طرز زندگی کو ڈاکٹروں کے مشورے سے بدلنا چاہیے نہ کہ کسی فلم اسٹار کا جسم دیکھ کر۔ اداکار اکثر وہ نہیں ہوتے جیسے وہ اسکرین پر نظر آتے ہیں۔ کئی طرح کے فلٹرز اور اسپیشل ایفیکٹس استعمال کیے جاتے ہیں اور ان کو دیکھنے کے بعد ہم اپنے جسم کو بدلنے کے لیے غلط شارٹ کٹ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ آج کل، بہت سے لوگ اسٹیرائڈز لیتے ہیں اور 6پیک یا 8پیک کا سہارا  لیتے ہیں۔ یار ایسے شارٹ کٹس سے جسم باہر سے پھول جاتا ہے، لیکن اندر سے کھوکھلا رہتا ہے۔ آپ لوگ یاد رکھیں کہ شارٹ کٹ آپ کی زندگی کو چھوٹا کرسکتا ہے۔ آپ کو شارٹ کٹ کی ضرورت نہیں ہے، آپ کو دیرپا فٹنس کی ضرورت ہے۔ دوستو، فٹنس ایک قسم کی تپسیا ہے۔ یہ فوری کافی یا دو منٹ کے نوڈلز نہیں ہیں۔ اس نئے سال میں، اپنے آپ سے وعدہ کریں… کوئی کیمیکل نہیں، کوئی شارٹ کٹ ورزش نہیں، یوگا، اچھی غذا ، وقت پر سونا، کچھ مراقبہ اور سب سے اہم بات، آپ جس طرح نظر آتے ہیں اسے خوشی سے قبول کریں۔ آج کے بعد فلٹر لائف نہ جئیں، فتر لائف جئیں۔ اپنا خیال رکھیں۔ جئے مہاکال۔‘‘

اس شعبے میں اور بھی بہت سے اسٹارٹ اپس ہیں، اس لیے میں نے سوچا کہ ایک نوجوان اسٹارٹ اپ کے بانی سے بات کروں جو اس شعبے میں بہترین کام کر رہا ہے۔

****آڈیو****

’’ہیلو، میرا نام رشبھ ملہوترا ہے اور میں بنگلور سے ہوں۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ’من کی بات‘ میں فٹنس پر بات ہو رہی ہے۔ میں خود فٹنس کی دنیا سے تعلق رکھتا ہوں اور ہمارا بنگلورو میں ایک اسٹارٹ اپ ہے، جس کا نام ’ٹیگڈا رہو‘ ہے۔ ہمارا اسٹارٹ اپ ہندوستان کی روایتی ورزشوں کو آگے لانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ہندوستان کی روایتی ورزشوں میں ایک بہت ہی حیرت انگیز ورزش ہے جو کہ ’گدا ورزش‘ ہے اور ہماری پوری توجہ صرف گدا اور مگدر کی ورزش پر ہے۔ لوگ یہ جان کر حیران رہ جاتے ہیں کہ آپ گدا سے ساری ٹریننگ کیسے کرتے ہیں؟ میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ گدا کی ورزش ہزاروں سال پرانی ہے اور یہ ہندوستان میں ہزاروں سالوں سے رائج ہے۔ آپ نے اسے بڑے اور چھوٹے اکھاڑوں میں ضرور دیکھا ہوگا اور ہم نے اپنے اسٹارٹ اپ کے ذریعے اسے ایک جدید شکل میں واپس لانے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں پورے ملک سے بہت پیار ملا ہے اور بہت اچھا رسپانس ملا ہے۔ ’من کی بات‘ کے ذریعے میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ اس کے علاوہ ہندوستان میں کئی قدیم ورزشیں اور صحت و تندرستی سے متعلق طریقے ہیں، جنہیں ہمیں دنیا کو آگے بھی اپنانا اور سکھانا چاہیے۔ میں فٹنس کی دنیا سے ہوں، اس لیے میں آپ کو ایک ذاتی ٹپ دینا چاہوں گا۔ گدا ورزش سے آپ اپنی طاقت، قوت، حالت اور یہاں تک کہ سانس لینے میں بھی بہتری لا سکتے ہیں، اس لیے گدا کی اس ورزش کو اپنائیں اور اسے آگے بڑھائیں۔ جئے ہند۔‘‘

دوستو، سب نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، لیکن سب کا ایک ہی منتر ہے – ’صحت مند رہو، فٹ رہو‘۔ 2024 شروع کرنے کے لیے آپ کی اپنی فٹنس سے بڑا عزم کیا ہو سکتا ہے؟

پریوار جنو، کچھ دن پہلے کاشی میں ایک تجربہ ہوا، جسے میں ’من کی بات‘ کے سننے والوں کے ساتھ ساجھا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ کاشی تمل سنگمم میں شرکت کے لیے تمل ناڈو سے ہزاروں لوگ کاشی پہنچے تھے۔ وہاں میں نے پہلی بار ان کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے اے آئی ٹول بھاشنی کا عوامی طور پر استعمال کیا۔ میں اسٹیج سے ہندی میں خطاب کر رہا تھا، لیکن اے آئی ٹول بھاشنی کے ذریعے وہاں موجود تمل ناڈو کے لوگ بیک وقت تمل زبان میں میرا خطاب سن رہے تھے۔ کاشی تمل سنگمم میں آنے والے لوگ اس تجربے کو لے کر کافی پرجوش نظر آئے۔ وہ دن دور نہیں جب ایک ہی زبان میں خطاب ہوگا اور عوام وہی تقریر بیک وقت اپنی زبان میں سنا کریں گے۔ فلموں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا جب عوام سنیما ہال میں اے آئی کی مدد سے ریئل ٹائم ٹرانسلیشن سنا کریں گے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ جب یہ ٹیکنالوجی ہمارے اسکولوں، اسپتالوں، ہماری عدالتوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے لگے گی تو کتنی بڑی تبدیلی آجائے گی۔ میں آج کی نوجوان نسل سے اپیل کروں گا کہ وہ ریئل ٹائم ٹرانسلیشن سے جڑے اے آئی  ٹولز کو مزید دریافت کریں اور انہیں 100 فیصد  فول پروف بنائیں۔

دوستو، بدلتے وقت میں ہمیں اپنی زبانوں کو بچانا ہے اور ان کو فروغ دینا بھی ہے۔ اب میں آپ کو جھارکھنڈ کے ایک قبائلی گاؤں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ اس گاؤں نے اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم فراہم کرنے کے لیے ایک انوکھا اقدام کیا ہے۔ گڑھوا ضلع کے منگلو گاؤں میں بچوں کو کڈکھ زبان میں تعلیم دی جارہی ہے۔ اس اسکول کا نام ’کارتک اوراون آدیواسی کڈکھ اسکول‘ ہے۔ اس اسکول میں 300 قبائلی بچے پڑھتے ہیں۔ کڈکھ زبان اراؤں قبائلی برادری کی مادری زبان ہے۔ کڈکھ زبان کا اپنا رسم الخط بھی ہے جسے تولانگ سیکی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ زبان رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جا رہی تھی۔ اسے بچانے کے لیے، اس کمیونٹی نے بچوں کو ان کی اپنی زبان میں تعلیم دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اسکول کو شروع کرنے والے اروند اراؤں کا کہنا ہے کہ قبائلی بچوں کو انگریزی زبان میں دشواری ہوتی تھی، اس لیے انھوں نے گاؤں کے بچوں کو ان کی مادری زبان میں پڑھانا شروع کیا۔ جب ان کی کوششوں کے بہتر نتائج آنے لگے تو گاؤں والے بھی ان کا ساتھ دینے لگے۔ اپنی زبان میں تعلیم کی وجہ سے بچوں کے سیکھنے کی رفتار بھی بڑھ گئی۔ ہمارے ملک میں بہت سے بچے زبان کی مشکل کی وجہ سے درمیان میں پڑھائی چھوڑ دیتے تھے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی بھی ایسی مشکلات کو ختم کرنے میں مدد دے رہی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ زبان کسی بھی بچے کی تعلیم اور ترقی میں رکاوٹ نہ بنے۔

دوستو، ہماری سرزمین ہند کو ہر عہد میں ملک کی بے مثال بیٹیوں نے فخر سے بھر دیا ہے۔ ساوتری بائی پھولے جی اور رانی ویلو ناچیار جی ملک کی دو ایسی ہی روشن شخصیتیں ہیں۔ ان کی شخصیت مینارۂ نور کی مانند ہے، جو ہر دور میں خواتین کی طاقت کو مزید آگے بڑھانے کا راستہ دکھاتی رہے گی۔ اب سے چند دن بعد یعنی 3 جنوری کو ہم سب دونوں کی یوم پیدائش منائیں گے۔ ساوتری بائی پھولے جی کا نام آتے ہی سب سے پہلی چیز جو ہمیں متاثر کرتی ہے وہ تعلیم اور سماجی اصلاح کے میدان میں ان کی شراکت داری ہے۔ انہوں نے ہمیشہ خواتین اور پسماندہ طبقے کی تعلیم کے لیے بھرپور آواز بلند کی۔ وہ اپنے وقت سے بہت آگے تھیں اور غلط ریت و رواج کی مخالفت میں ہمیشہ آواز بلند کرتی رہیں۔

وہ تعلیم کے ذریعے معاشرے کو بااختیار بنانے میں گہرا یقین رکھتی تھیں۔ مہاتما پھولے جی کے ساتھ مل کر انہوں نے بیٹیوں کے لیے کئی اسکول شروع کیے تھے۔ اس کی نظمیں لوگوں میں شعور بیدار کرتی تھیں اور خود اعتمادی پیدا کرنے والی ہوتی تھیں۔ انھوں نے ہمیشہ لوگوں پر زور دیا کہ وہ ایک دوسرے کی ضرورت میں مدد کریں اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہیں۔ ان کی شفقت کی وسعت کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ جب مہاراشٹر میں قحط پڑا تو ساوتری بائی اور مہاتما پھولے نے ضرورت مندوں کی مدد کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے۔ سماجی انصاف کی ایسی مثال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جب وہاں خوفناک طاعون پھیل گیا تو انھوں نے اپنے آپ کو لوگوں کی خدمت میں جھونک دیا۔ اس سب کے دوران وہ خود اس بیماری کا شکار ہوگئیں۔ انسانیت کے لیے وقف ان کی زندگی آج بھی ہم سب کو متاثر کرتی ہے۔

دوستو، رانی ویلو ناچیار کا نام بھی ملک کی ان بہت سی عظیم شخصیات میں شامل ہے جنہوں نے غیر ملکی راج کے خلاف جدوجہد کی۔ تمل ناڈو کے میرے بھائی اور بہنیں اسے آج بھی ویرا منگئی یعنی بہادر خاتون کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ رانی ویلو ناچیار نے جس بہادری سے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی اور جس بہادری کا مظاہرہ کیا وہ بہت متاثر کن ہے۔ ان کے شوہر کو انگریزوں نے شیوگنگائی سلطنت پر حملے کے دوران مار دیا تھا، جو وہاں کے راجاتھے۔ رانی ویلو ناچیار اور ان کی بیٹی کسی طرح دشمنوں سے بچ گئیں۔ وہ کئی سالوں تک ایک تنظیم بنانے اور مرودو برادرز یعنی اپنے کمانڈروں کے ساتھ فوج بنانے میں مسلسل مصروف رہی۔ انھوں نے پوری تیاری کے ساتھ انگریزوں کے خلاف جنگ شروع کی اور بڑی ہمت و عزم کے ساتھ لڑیں۔ رانی ویلو ناچیار کا نام ان لوگوں میں شامل ہے جنہوں نے اپنی فوج میں پہلی بار آل ویمن گروپ بنایا۔ میں ان دو بہادر خواتین کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

میرے پریوار جنو، گجرات میں ڈائیرا کی روایت ہے۔ رات بھر ہزاروں لوگ ڈائیرا میں شامل ہوتے ہیں اور تفریح کے ساتھ ساتھ علم بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس ڈائیرا میں لوک موسیقی، لوک ادب اور مزاح کی تثلیث ہر کسی کے ذہن کو مسرت سے بھر دیتی ہے۔ بھائی جگدیش ترویدی جی اس ڈائیرا کے مشہور فنکار ہیں۔ ایک مزاحیہ فنکار کے طور پر بھائی جگدیش ترویدی جی نے 30 سال سے زیادہ عرصے تک اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا۔ حال ہی میں مجھے بھائی جگدیش ترویدی جی کا ایک خط ملا ہے اور اس کے ساتھ انہوں نے اپنی ایک کتاب بھی بھیجی ہے۔ کتاب کا نام ہے – سوشل آڈٹ آف سوشل سروس۔ یہ کتاب بہت منفرد ہے۔ اس میں اکاؤنٹس کے ساتھ، یہ کتاب ایک قسم کی بیلنس شیٹ ہے۔ پچھلے 6 سالوں میں بھائی جگدیش ترویدی جی کو کس کس پروگرام سے کتنی آمدنی ہوئی اور وہ کہاں کہاں خرچ ہوئی، اس کا مکمل حساب کتاب میں دیا گیا ہے۔ یہ بیلنس شیٹ منفرد ہے، کیونکہ انھوں نے اپنی پوری آمدنی یعنی ایک ایک روپیہ معاشرے کے لیے خرچ کر دیا – اسکول، اسپتال، لائبریری، معذور افراد سے متعلق ادارے، سماجی خدمت – پورے 6 سال کا حساب ہے۔ جیسا کہ کتاب میں ایک جگہ لکھا گیا ہے کہ 2022 میں انہوں نے اپنے پروگراموں سے دو کروڑ پینتیس لاکھ اناسی ہزار چھ سو چوہتر روپے کمائے۔ اور اسکول، اسپتال، لائبریری پر دو کروڑ پینتیس لاکھ اناسی ہزار چھ سو چوہتر روپے خرچ ہوئے۔ ایک روپیہ بھی اپنے پاس نہیں رکھا۔ دراصل اس کے پیچھے بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ ہوا یوں کہ ایک بار بھائی جگدیش ترویدی جی نے کہا کہ جب وہ 2017 میں 50 سال کے ہو جائیں گے تو وہ اپنے پروگراموں سے ہونے والی آمدنی گھر نہیں لائیں گے، بلکہ سماج پر خرچ کریں گے۔ 2017 کے بعد سے، اس نے بے شمار سماجی کاموں پر تقریباً پونے نو کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ ایک مزاحیہ فنکار اپنی باتوں سے سب کو ہنسنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ لیکن وہ اپنے اندر کس قدر حساسیت رکھتا ہے، یہ بھائی جگدیش ترویدی جی کی زندگی پتا چلتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ان کے پاس پی ایچ ڈی کی تین ڈگریاں بھی ہیں۔ انہوں نے 75 کتابیں لکھی ہیں جن میں سے کئی کو پذیرائی ملی ہے۔ انہیں سماجی کاموں پر کئی ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ میں بھائی جگدیش ترویدی جی کو ان کے سماجی کام کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

میرے پریوار جنو، ایودھیا میں رام مندر کے سلسلے میں پورے ملک میں جوش اور ولولہ ہے۔ لوگ مختلف طریقوں سے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ پچھلے کچھ دنوں کے دوران شری رام اور ایودھیا پر کئی نئے گانے اور نئے بھجن بنائے گئے ہیں۔ بہت سے لوگ نئی نظمیں بھی لکھ رہے ہیں۔ اس میں بہت سے تجربہ کار فنکار ہیں اور نئے ابھرتے ہوئے نوجوان فنکاروں نے دل کو گرما دینے والے بھجن بھی ترتیب دیے ہیں۔ میں نے اپنے سوشل میڈیا پر کچھ گانے اور بھجن بھی شیئر کیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ فن کی دنیا اس تاریخی لمحے میں اپنے منفرد انداز میں شریک ہورہی ہے۔ میرے ذہن میں ایک بات آتی ہے… کیا ہم سب ایک مشترکہ ہیش ٹیگ کے ساتھ ایسی تمام تخلیقات کا اشتراک کر سکتے ہیں؟ میری آپ سے اپیل ہے کہ اپنی تخلیقات کو سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ شری رام بھجن (#shriRamBhajan) کے ساتھ شیئر کریں۔ یہ مجموعہ جذبے، بھکتی کی ایسی لہر میں تبدیل ہوجائے گا جس میں ہر کوئی رام مئے ہو جائے گا۔

میرے پیارے ہم وطنو، آج ’من کی بات‘ میں میرے ساتھ بس اتنا ہی۔ 2024 بس چند گھنٹے دور ہے۔ ہندوستان کی کامیابیاں ہر ہندوستانی کی کامیابی ہے۔ ہمیں پنچ پران کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہندوستان کی ترقی کے لیے مسلسل کام کرنا ہے۔ ہم جو بھی کام کریں، جو بھی فیصلہ کریں، ہمارا پہلا معیار ہونا چاہیے… کہ اس سے ملک کو کیا ملے گا؟ اس سے ملک کا کیا فائدہ ہوگا۔ راشٹر پرتھم – نیشن فرسٹ – اس سے بڑا کوئی منتر نہیں ہے۔ اس منتر پر عمل کرتے ہوئے ہم ہندوستانی اپنے ملک کو ترقی یافتہ اور خود انحصار بنائیں گے۔ آپ سب 2024 میں کامیابی کی نئی بلندیوں تک پہنچیں، آپ سب صحت مند رہیں، تندرست رہیں، بے حد خوش رہیں – یہ میری دعا ہے۔ 2024 میں ہم ایک بار پھر ملک کے عوام کی نئی کامیابیوں پر بات کریں گے۔

بہت بہت شکریہ۔

******

ش  ح۔ ج ق ۔ م ر

U-NO. 3123