Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

من کی بات کی 102ویں قسط میں وزیر اعظم کے خطاب کا  بنیادی متن (18.06.2023)


میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار، ایک بار پھر آپ سب کا ’من کی بات‘ میں خیرمقدم ہے۔ عام طور پر ’من کی بات‘ ہر مہینے کے آخری اتوار کو ہوتی ہے، لیکن اس بار یہ ایک ہفتہ پہلے ہو رہی ہے۔ آپ جانتے ہیں، میں اگلے ہفتے امریکہ میں رہوں گا اور وہاں بہت زیادہ بھاگ دوڑ ہوگی، اور اس لیے میں نے سوچا کہ جانے سے پہلے میں آپ سے بات کروں، اور اس سے بہتر  کیا ہوگا ؟ لوگوں کا آشیرواد، آپ کی ترغیب  ، میری توانائی  بھی بڑھتی رہے  گی۔

ساتھیو، بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ میں نے بطور وزیراعظم یہ اچھا کام کیا، وہ بڑا کام کیا۔ ’من کی بات‘ کے بہت سے سامعین اپنے خطوط میں  بہت ساری  تعریفیں کرتے ہیں۔ کوئی کہتا   ہے  یہ کیا، کوئی کہتا ہے  وہ کیا، یہ اچھا کیا ، یہ زیادہ اچھا کیا ، یہ بہترین کیا، لیکن، میں جب میں بھارت کے عام آدمی کی کوششوں، محنت اور ان کی قوت ارادی کو دیکھتا ہوں، تو میں خود بھی  مسحور ہو جاتا ہوں۔ بڑے سے  بڑا ہدف ہو، مشکل ترین چیلنج ہو، بھارت  کے عوام کی اجتماعی کوشش، اجتماعی طاقت ، ہر چیلنج کو حل کردیتی ہے۔ ابھی دو تین دن پہلے، ہم نے دیکھا کہ ملک کے مغربی سرے پر کتنا بڑا طوفان آیا۔ تیز چلنے والی ہوائیں، تیز بارش۔ سمندری طوفان بپرجوائے نے کچھ میں بہت تباہی مچائی، لیکن کچھ کے لوگوں نے جس ہمت اور تیاری کے ساتھ  اس خطرناک طوفان کا سامنا کیا وہ اتنا ہی غیرمعمولی  ہے۔ دو دن بعد، کچھ کے لوگ  اپنا نیا سال، یعنی آشاڑھی  بیج منانے جا رہے ہیں۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ آشاڑھی بیج کچھ میں بارش کے آغاز کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ میں اتنے سال سے کچھ آتا اور جا تارہا ہوں،  میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے وہاں کے لوگوں کی خدمت کرنے کا موقع ملاہے اور اس کے لیے میں کچھ کے لوگوں کے حوصلے اور جذبے کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ دو دہائی پہلے کے تباہ کن زلزلے کے بعد  جس کچھ کے بارے میں کہاجاتا تھا کہ وہ کبھی ابھر نہیں سکے گا ، آج وہیں ضلع ملک کے تیزی سے ترقی کرنے والے اضلاع میں سے ایک ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سمندری طوفان بپر جوائے نے جوتباہی مچائی ہے، اس سے بھی کچھ کے لوگ بہت  تیزی سے ابھرجائیں گے۔

ساتھیو، قدرتی آفات پر کسی کا زور نہیں ہوتا، لیکن بھارت نے گزشتہ برسوں میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی جو طاقت پیدا کی ہے، وہ آج ایک مثال بن رہی ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کا ایک بہترین طریقہ ہے- فطرت کا تحفظ ۔ آج کل مون سون کے موسم میں اس سمت میں ہماری ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے ہی آج  ملک ’کیچ دی رین‘ جیسی مہمات کے ذریعے اجتماعی کوششیں کر رہا ہے۔ پچھلے مہینے ’من کی بات‘ میں، ہم نے پانی کے تحفظ سے متعلق اسٹارٹ اپس کے بارے میں بات کی تھی۔ اس بار بھی مجھے خط لکھ کر کئی ایسے لوگوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جو پانی کی ایک ایک بوند کو بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک ساتھی ہیں- یوپی کے باندہ ضلع کے تلسی رام یادو جی۔ تلسی رام یادو جی لکترا گرام پنچایت کے پردھان ہیں۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ باندہ اور بندیل کھنڈ علاقے میں پانی کے حوالے سے کتنی مشکلات رہی ہیں۔ اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے تلسی رام جی نے گاؤں کے لوگوں کو ساتھ لے کر علاقے میں 40 سے زیادہ تالاب بنوائے ہیں۔ تلسی رام جی نے اپنی مہم کی بنیاد بنائی ہے – کھیتوں  کا پانی کھیتوں میں، گاؤں  کا پانی گاؤں میں۔ آج ان کی محنت کا نتیجہ ہے کہ ان کے گاؤں میں زیر زمین پانی کی سطح بہتر ہو رہی ہے۔ اسی طرح یو پی کے ہاپوڑ ضلع میں لوگوں نے مل کر ایک گمشدہ ندی کو زندہ کر دیا ہے۔ بہت پہلے یہاں نیم نام کی ایک  ندی ہوا کرتی تھی ۔ وہ وقت کے ساتھ غائب ہو گئی، لیکن مقامی یادداشتوں اور عوامی داستانوں میں اسے ہمیشہ یاد  کیا جاتا رہا ۔ آخر کار، لوگوں نے اپنے اس قدرتی ورثے کو پھر سے زندہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ عوام کی اجتماعی کوششوں سے اب ’نیم ندی ‘  پھر سے زندہ ہونے لگی ہے۔  ندی کے  اصل مقام کو امرت سروور کے طور پر بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔

ساتھیو، یہ ندی، نہر،  سرور صرف آبی ذخائر ہی نہیں ہوتے ہیں  بلکہ ان سے زندگی کے رنگ اور جذبات بھی جڑے ہوتے ہیں۔  ایسا ہی ایک منظر کچھ دن پہلے مہاراشٹر میں بھی دیکھنے کو ملا۔ یہ علاقہ زیادہ تر خشک سالی کا شکار رہتا ہے۔ پانچ دہائیوں کے انتظار کے بعد یہاں نل ونڈے ڈیم کی نہر کا کام مکمل کیا جا رہا ہے۔ چند روز قبل ٹیسٹنگ کے دوران نہر میں پانی چھوڑا گیا تھا۔ اس دوران جو تصویریں آئیں وہ واقعی جذباتی کردینے والی تھیں۔ گاؤں کے لوگ خوشی سے ایسے ناچ رہے تھے جیسے ہولی-دیوالی کا تہوار ہو۔

ساتھیو، جب انتظام کی بات ہورہی ہے، تو میں آج چھترپتی شیواجی مہاراج کو بھی یاد کروں گا۔ چھترپتی شیواجی مہاراج کی بہادری کے ساتھ  ہی ان کی حکمرانی اور ان کی انتظامی ہنرمندی  سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملتا  ہے۔ خاص طور پر پانی کے بندوبست اور بحریہ کے حوالے سے چھترپتی شیواجی مہاراج نے جو کام کیے، وہ آج بھی بھارت کی تاریخ کے وقار  میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے جل دُرگ ( پانے میں قلعے) اتنی صدیوں بعد بھی سمندر کے بیچوں بیچ شان سے کھڑے ہیں۔ اس مہینے کے آغاز میں ہی چھترپتی شیواجی مہاراج کی تاجپوشی کے 350 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اس موقع کو ایک بڑے تہوار کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ اس دوران مہاراشٹر کے رائے گڑھ قلعہ میں اس سے جڑی عظیم الشان  تقریبات  منعقد کی گئیں ۔ مجھے یاد ہے کہ کئی سال پہلے 2014 میں مجھے رائے گڑھ جانے، اس مقدس سرزمین  کو سلام کرنے کی سعادت ملی تھی  ۔ ہم سب کا فرض ہے کہ اس موقع  پر ہم چھترپتی شیواجی مہاراج کی انتظامی صلاحیتوں کو جانیں اور ان سے سیکھیں۔ یہ ہمارے اندر اپنے ورثے پر فخر کا احساس بھی پیدا کرے گا اور ہمیں مستقبل کے لیے اپنے فرائض ادا کرنے کی ترغیب بھی دے گا۔

میرے پیارے ہم وطنو، آپ نے رامائن کی چھوٹی سی گلہری کے بارے میں ضرور سنا ہوگا، جو رام سیتو بنانے میں  مدد کے لیے آگے آئی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب نیت صاف ہو، کوششوں میں دیانت داری ہو تو  پھرکوئی بھی  ہدف مشکل نہیں رہتا۔ بھارت بھی آج اسی نیک نیتی سے ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ چیلنج ہے-  ٹی بی کا،  جسے تپ دق بھی کہا جاتا ہے۔ بھارت نے عزم کیا ہے 2025 تک ٹی.بی سے آزاد بھارت  بنانے کا۔ ہدف بہت بڑا ضرور ہے۔ ایک وقت تھا جب ٹی بی۔ ٹی بی کا پتہ لگنے کے بعد گھر  کے لوگ ہی دور ہوجاتے تھے لیکن آج کا دور ہے جب ٹی بی کے  مریض کو خاندان کا فرد بنا کر ان کی مدد کی جا رہی ہے۔ اس تپ دق کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے نکشے متروں نے مورچہ سنبھال لیا ہے۔ ملک میں بڑی تعداد میں  مختلف سماجی تنظیمیں نکشے متر بنی ہیں ۔ گاوں-دیہات میں پنچایتوں میں  ہزاروں لوگوں نے خود آگے آکر  ٹی بی مریضوں کو گود لیا ہے۔ کتنے ہی بچے ہیں جو  ٹی بی کے مریضوں کی مدد کے لیے آگے آئے ہیں۔ یہ عوامی شراکت  داری ہی اس مہم کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس شراکت داری کی وجہ سے آج ملک میں ٹی بی کے 10 لاکھ سے زیادہ  ٹی بی مریضوں کو گود لیا جاچکا ہے  اور یہ ثوام کا  کام  کیا ہے تقریباً 85 ہزار نکشے  متروں  نے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک کے کئی سرپنچوں نے،  گاوں کے پردھانوں نے بھی، یہ ذمہ اٹھا لیا ہے کہ وہ   اپنے گاوں میں ٹی بی کو ختم کرکے ہی رہیں گے۔

نینی تال کے ایک گاؤں کے نکشے متر  جناب  دیکر سنگھ میواڑی  جی نے ٹی بی کے چھ مریضوں کو گود لیا ہے۔ ایسے ہی کنور کی ایک  گرام پنچایت کے  پردھان  نکشے متر جناب گیان سنگھ جی بھی اپنے بلاک میں ٹی بی مریضوں کو ہر ضروری مدد فراہم کرانے میں مصروف ہیں۔ بھارت کو ٹی بی سے پاک بنانے کی مہم میں  ہمارے بچے اور نوجوان ساتھی بھی پیچھے نہیں ہیں۔ ہماچل پردیش کے اونا کی 7 سالہ بیٹی نلنی سنگھ کا کمال دیکھئے۔ بیٹی نلنی، اپنی جیب خرچ سے ٹی بی  کے مریضوں کی مدد کررہی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ بچوں کو غلک سے  کتنا پیار  ہوتا ہے، لیکن ایم پی کے کٹنی ضلع  کی  13 سال کی میناکشی اور مغربی بنگال کے ڈائمنڈ ہاربر کے 11 سال کے بشور مکھرجی دونوں ہی کچھ الگ  قسم کے بچے ہیں۔ ان دونوں بچوں نے اپنے غلک کے پیسے بھی ٹی بی سے پاک بھارت کی مہم میں لگا دیئے ہیں۔  یہ تمام مثالیں جذبات سے بھری ہونے کے ساتھ ہی  انتہائی تحریک دینے والی بھی ہیں۔کم عمر میں بڑی سوچ رکھنے والے ان سبھی بچوں کی میں  دل سے تعریف کرتا ہوں ۔

میرے پیارے ہم وطنو، یہ ہم بھارت کے رہنے والوں کی فطرت  ہوتی ہے کہ ہم نئے خیالات کا استقبال کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ہم اپنی چیزوں سے پیار کرتے ہیں اور نئی چیزوں کو اپناتے بھی ہیں۔ اس کی ایک مثال ہے – جاپان کی تکنیک میاواکی ، اگر کسی جگہ کی مٹی زرخیز نہیں رہی ہو، تو میاواکی تکنیک اس علاقے کو دوبارہ سرسبز بنانے کا ایک بہت اچھا طریقہ کار ہوتی ہے۔ میاواکی جنگل  تیزی سے پھیلتے ہیں اور دو سے تین دہائیوں میں حیاتیاتی تنوع کا مرکز بن جاتے ہیں۔ اب یہ بھارت کے مختلف حصوں میں بھی بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔  ہمارے یہاں کیرالہ کے ایک استاد جناب رافی رام ناتھ  جی نے اس تکنیک سے ایک علاقے کی تصویر بدل دی۔ دراصل، رام ناتھ جی اپنے طلباء کو فطرت اور ماحولیات کے بارے میں گہرائی سے سمجھانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک ہربل گارڈن ہی بنا ڈالا۔ ان کا یہ گارڈن اب بائیو ڈائیورسٹی زون بن چکا ہے۔ ان کی اس کامیابی نے انہیں اور تحریک دی ۔ اس کے بعد رافی  جی نے میاواکی کی تکنیک سے ایک منی فاریسٹ یعنی چھوٹا جنگل بنایا اور  اسے نام دیا ’ ودیاونم‘   ۔ اب اتنا خوبصورت نام تو صرف ایک استاد ہی رکھ سکتا ہے۔ –’ودیاونم‘۔ رام ناتھ جی کے اس ’ودیاونم‘ میں ایک چھوٹی سی جگہ میں 115 اقسام کے 450 سے زیادہ درخت لگائے گئے ۔ ان کے طلباء بھی اس کی دیکھ بھال میں مدد کرتے ہیں۔ اس خوبصورت جگہ کو دیکھنے کے لئے  آس پاس کے اسکولی بچے، عام شہری –کافی بھیڑ جمع ہوتی ہے۔ میاواکی جنگلوں کو کسی بھی جگہ یہاں تک کہ شہروں میں بھی آسانی  سے اگایا جاسکتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے، میں نے گجرات  میں کیوڑیا، ایکتا نگر میں  میاواکی جنگل کا افتتاح کیا تھا۔ کچھ میں بھی 2001 کے زلزلے میں مارے گئے لوگوں کی یاد میں میاواکی طرز کا میں ایک یادگاری جنگل بنایا گیا ہے۔ کچھ  جیسی جگہ پر اس  کا کامیاب ہونا  یہ بتاتا ہے کہ مشکل  سے مشکل قدرتی ماحول میں بھی یہ تکنیک کتنی کارآمد ہے۔ اسی طرح امباجی اور پاوا گڑھ میں بھی میاواکی طریقہ کار سے پودے لگائے گئے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ لکھنؤ کے علی گنج میں بھی میاواکی  پارک تیار کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں ممبئی اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ایسے 60 سے زیادہ جنگلوں  پر کام کیا  گیا ہے ۔ اب تو یہ تکنیک پوری دنیا میں پسند کی جا رہی ہے۔  سنگاپور، پیرس، آسٹریلیا، ملیشیا جیسے کئی ممالک میں بڑے پیمانے پر اس تکنیک کا استعمال ہو رہا ہے۔ میں اہل وطن سے، خاص طور پر شہروں میں رہنے والوں سے گزارش کروں گا کہ وہ میاواکی  کے طریقہ کار کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں۔ اس کے ذریعے آپ اپنی زمین اور فطرت کو سرسبز و شاداب اور شفاف بنانے میں بیش قیمتی تعاون دے سکتے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، آج کل ہمارے ملک میں جموں و کشمیر کا بہت ذکر ہوتا ہے۔ کبھی بڑھتی ہوئی سیاحت کے سبب ، تو  کبھی جی-20 کے شاندار انعقاد کی وجہ سے۔ کچھ وقت پہلے میں نے آپ کو ’من کی بات‘ میں بتایا تھا کہ کشمیر کے ’نادرو‘  ملک کے باہر بھی  پسند کئے جارہے ہیں ۔ اب جموں و کشمیر کے بارہمولہ ضلع کے لوگوں نے ایک شاندار کام کیا ہے۔ بارہمولہ میں طویل عرصے سے کھیتی باڑی کی جارہی ہے، لیکن یہاں دودھ کی قلت رہتی تھی۔ بارہمولہ کے لوگوں نے اس چیلنج کو ایک موقع کے طور پر لیا۔ یہاں لوگوں کی بڑی تعداد نے ڈیری کا کام شروع کیا۔ یہاں کی خواتین اس کام میں سب سے آگے آئیں، جیسے کہ ایک بہن ہیں – عشرت نبی۔  عشرت نبی ایک گریجویٹ  ہیں اور انہوں نے ’ میر سسٹرز ڈیری فارم‘ شروع کیا ہے۔ ان کے ڈیری فارم سے روزانہ تقریباً 150 لیٹر دودھ فروخت ہو رہا ہے۔ ایسے ہی سوپور کے ایک ساتھی ہیں۔  وسیم عنایت ۔ وسیم کے پاس دو درجن سے زیادہ مویشی ہیں  اور وہ روزانہ دو سو لیٹر سے زیادہ دودھ فروخت کرتے ہیں۔ ایک اور نوجوان عابد حسین بھی ڈیری کا کام کر رہے ہیں۔ ان کا کام بھی  بہت آگے بڑھ رہا ہے۔ ایسے لوگوں کی محنت کی وجہ سے بارہمولہ میں آج ہر  روزہ 5.5 لاکھ لیٹر دودھ  پیدا ہورہا ہے۔  پورا بارہمولہ ایک نئے سفید انقلاب کی پہچان بن رہا ہے۔ پچھلے ڈھائی  تین برسوں میں یہاں 500 سے زیادہ ڈیری اکائیاں لگی ہیں ۔ بارہمولہ کی ڈیری  صنعت  اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارے ملک کا ہر حصہ  اتنے امکانات سے بھرا ہوا ہے۔ کسی خطے کے لوگوں کی اجتماعی قوت ارادی کسی بھی ہدف کو حاصل کرکے دکھا سکتی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، اس مہینے کھیلوں کی دنیا سے بھارت کے لیے  کئی بڑی خوش خبریاں آئی ہیں ۔بھارت کی ٹیم نے پہلی بار ویمنز جونیئر ایشیا کپ جیت کر ترنگے کی شان بڑھائی ہے۔ اسی مہینے میں ہماری مردوں کی ہاکی ٹیم نے بھی جونیئر ایشیا کپ  جیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم اس ٹورنامنٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ جیت درج کرنے والی ٹیم بھی بن گئے ہیں۔ جونیئر شوٹنگ ورلڈ کپ  اس میں بھی ہماری جونیئر ٹیم نے کمال کردیا۔ بھارت کی ٹیم نے اس ٹورنامنٹ میں پہلا مقام حاصل کیا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں کل جتنے گولڈ میڈلس تھے ، اس میں سے 20 فیصداکیلے بھارت  کے کھاتے میں آئے ہیں۔ اسی جون میں ایشین انڈر ٹوئنٹی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ بھی  ہوئی۔ اس میں بھارت تمغوں کی فہرست میں 45 ممالک میں  ٹاپ تین میں رہا۔

ساتھیو، پہلے ایک وقت ہوتا  تھا جب ہمیں بین الاقوامی  انعقاد کے بارے میں   پتہ تو چلتا تھا ، لیکن  ان میں اکثر  بھارت کا کوئی نام نہیں ہوتا تھا۔ لیکن، آج میں صرف پچھلے چند ہفتوں کی کامیابیوں کا ذکر کر رہا ہوں، تو بھی فہرست اتنی لمبی ہو جاتی ہے۔ یہ ہمارے نوجوانوں کی اصل طاقت ہے۔ ایسے بہت سے کھیل اور مقابلے ہیں جہاں آج  بھارت پہلی بار اپنی موجودگی  درج کروا رہا ہے۔ جیسے کہ لانگ جمپ میں سری شنکر مرلی نے پیرس ڈائمنڈ لیگ جیسے باوقار  انعقاد  میں ملک کے لیے کانسہ کا تمغہ جیتا ہے۔ یہ اس مقابلے میں  بھارت  کا پہلا تمغہ ہے۔ ایسی ہی ایک کامیابی ہماری انڈر سیونٹین ویمن ریسلنگ ٹیم نے کرغزستان میں بھی درج کی ہے۔ میں ملک کے ان تمام  ایتھلیٹوں، ان کے والدین اور کوچز کو، سبھی کو ان کی کوششوں کے لیے  بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو، بین الاقوامی  انعقاد ات میں ملک کی اس کامیابی کے پیچھے قومی سطح پر ہمارے کھلاڑیوں کی  سخت محنت ہوتی ہے۔ آج ملک کی مختلف ریاستوں میں ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ کھیلوں کے انعقاد ات ہوتے ہیں ۔ ان سے کھلاڑیوں کو کھیلنے، جیتنے اور ہار سے سیکھنے کا موقع  ملتا ہے۔  جیسے ابھی اتر پردیش میں کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز کا انعقاد  ہوا ۔ اس میں نوجوانوں میں بہت جوش اور ولولہ دیکھنے کو ملا۔ ان کھیلوں میں ہمارے نوجوانوں نے گیارہ ریکارڈ توڑ ے ہیں۔ ان کھیلوں میں پنجاب یونیورسٹی، امرتسر کی گرو نانک دیو یونیورسٹی اور کرناٹک کی جین یونیورسٹی ، تمغوں کی تعداد میں پہلے تین  مقامات پر رہی ہیں۔

ساتھیو، ایسے ٹورنامنٹ کا ایک بڑا پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ ان میں نوجوان کھلاڑیوں کی کئی متاثر کن کہانیاں  بھی سامنے آتی ہیں۔  کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز میں روئنگ مقابلےمیں، آسام کی کاٹن یونیورسٹی کے انیتم راجکمار ایسے پہلے دویانگ کھلاڑی بنے، جنہوں نے اس میں حصہ لیا۔ برکت اللہ یونیورسٹی کی ندھی پویا گھٹنے کی شدید چوٹ کے باوجود شاٹ پٹ میں گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب رہیں۔ ساوتری بائی پھولے  پونے یونیورسٹی کے شبھم بھنڈارے کو ٹخنے کی چوٹ کی وجہ سے گزشتہ سال  بنگلورو میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا،  لیکن اس بار اسٹیپل چیس کے گولڈ میڈلسٹ بنے ہیں۔ بردوان یونیورسٹی کی سرسوتی کنڈو اپنی کبڈی ٹیم کی کپتان ہیں۔ وہ بہت سی مشکلات کو عبور کرکے یہاں تک پہنچے ہیں۔ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کئی ایتھلیٹس کو ٹاپس اسکیم سے بھی کافی مدد مل رہی ہے۔ ہمارے کھلاڑی جتنے زیادہ کھیلیں گے ، اتنا ہی نکھریں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو، 21 جون بھی اب آہی گیا ہے۔ اس بار بھی دنیا کے کونے کونے میں لوگ یوگا کے عالمی دن کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ اس سال یوگا ڈے کا تھیم ہے – یوگا فار وسودھیو کٹمبکم یعنی ’ ایک کرہ ارض-ایک خاندان‘ کی شکل میں سب کی  بہبود کے لیے یوگا۔ یہ یوگا کے اس جذبہ کی عکاسی کرتا ہے جو سب کو جوڑنے والا  اور سبھی کو ساتھ لے کر چلنے والا ہے۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی ملک کے کونے کونے میں یوگا سے متعلق پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔

ساتھیو، اس بار مجھے نیویارک کے  اقوام متحدہ  ہیڈ کوارٹر، یو این  میں منعقد ہونے والے یوگا ڈے کے پروگرام میں حصہ لینے کا موقع ملے گا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ سوشل میڈیا پر بھی یوگا ڈے کے حوالے سے زبردست جوش و خروش ہے۔

ساتھیو، میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ  یوگا کو اپنی زندگی میں ضرور اپنائیں، اسے، اپنے روزمرہ کے معمول کا حصہ بنائیں۔ اگر آپ اب بھی یوگا سے جڑے نہیں ہیں، تو آنے والا 21 جون ، اس عہد کے لئے ایک بہترین موقع ہے۔ یوگا میں تو ویسے بھی  زیادہ تام جھام  کی ضرورت نہیں ہے۔ دیکھئے جب آپ یوگاسے جڑیں گے تو آپ کی زندگی میں کتنی بڑی تبدیلی آئے گی۔

     میرے پیارے ہم وطنو، پرسوں یعنی 20 جون  کو تاریخی رتھ یاترا کا دن ہے۔ رتھ یاترا کی پوری دنیا میں ایک الگ پہچان ہے۔  ملک کی الگ الگ ریاستوں سے بہت دھوم دھام سے بھگوان جگناتھ کی رتھ یاترا نکالی جاتی ہے۔ اڈیشہ کے پُری میں ہونے والی  رتھ یاترا اپنے آپ میں حیرت انگیز ہے۔ جب میں گجرات میں تھا تو مجھے احمد آباد  میں ہونے والی عظیم رتھ یاترا میں شامل ہونے کا  موقع ملتا تھا۔ ان رتھ یاتراؤں میں جس طرح سے ملک بھر کے لوگ، ہر سماج اور ہر طبقے کے لوگ  جمع ہوتے ہیں، وہ اپنے آپ میں  ایک مثال ہے۔ یہ عقیدے کے ساتھ  ہی  ‘ایک بھارت- شریسٹھ بھارت’ کا بھی عکاس ہوتی  ہے۔ اس پرمسرت  اور مقدس موقع پر آپ سبھی کو میری طرف سے  بہت بہت نیک خواہشات۔ میں دعا کرتا ہوں کہ بھگوان جگن ناتھ تمام ہم وطنوں کو اچھی صحت اور خوشحالی کا آشرواد  عطا فرمائے۔

     ساتھیو،بھارت کی روایت اور ثقافت سے جڑے تہواروں پر  گفتگو کرتے ہوئے، میں ملک کے راج بھونوں میں ہوئی دلچسپ تقریبات کا بھی ضرور ذکر کروں گا۔ اب ملک میں راج بھونوں کی پہچان، سماجی اور ترقیاتی کام کاج سے ہونے لگی ہے۔  آج ہمارے راج بھون،ٹی بی سے پاک بھارت کی مہم کے،  قدرتی کھیتی سے متعلق مہم کے، پرچم بردار بن رہے ہیں۔ ماضی میں  گجرات ہو، گوا ہو، تلنگانہ ہو، مہاراشٹر ہو یا سکم ہو،  ان کےیوم تاسیس کو الگ الگ راج بھونوں نے جس جوش  کے ساتھ منایا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔  یہ ایک بہترین پہل ے جو ’ایک بھارت – شریٹھ بھارت‘ کے جذبے کو طاقتور بناتی ہے۔

ساتھیو،بھارت جمہوریت کی ماں ہے، مدر آف ڈیموکریسی ہے، ہم اپنے جمہوری قدروں کوبالاتر مانتے ہیں ۔ اپنے آئین کو سب سے اوپر مانتے ہیں۔ اس لئے ہم 25 جون کو بھی کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ یہ وہی دن ہے جب ہمارے ملک  پر  ایمرجنسی تھوپی گئی تھی۔ یہ بھارت کی تاریخ کا سیاہ دور تھا۔ لاکھوں لوگوں نے ایمرجنسی کی پوری طاقت سے مخالفت کی تھی۔  جمہوریت کے حامیوں پر اس دوران  اتنا ظلم کیا گیا، اتنی اذیتیں دی گئیں ، کہ آج بھی دل کانپ اٹھتا ہے۔ ان مظالم پر پولیس اور انتظامیہ کے ذریعہ  دی گئی سزاؤں پر  بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مجھے بھی ’سنگھرش میں گجرات ‘ نامی ایک کتاب لکھنے کا اس وقت موقع ملا تھا۔ کچھ دنوں پہلے ہی ایمرجنسی پر لکھی گئی ایک اور کتاب میرے سامنے آئی جس کاعنوان  ہے  – ٹارچر آف  پولیٹیکل پرزنرس  اِن انڈیا ۔ ایمرجنسی کے دوران  شائع ہونے والی اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے کہ کیسے اس وقت کی سرکار  جمہوریت کے رکھوالوں سے بے رحمانہ سلوک کررہی تھی۔ اس کتاب میں ڈھیر ساری کیس اسٹڈیز ہیں، بہت ساری تصویریں ہیں۔ میں چاہوں گا کہ آج جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں تو  ملک کی آزادی کو  خطرے میں ڈالنے والے ایسے جرائم  کا بھی ضرور تجزیہ کریں ۔ اس سے آج کی نوجوان نسل کو جمہوریت کے معنی اور اس کی اہمیت سمجھنے میں اور زیادہ آسانی ہوگی۔

میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ رنگ برنگے موتیوں سے مزین ایک خوبصورت ہار ہےجس کا ہر موتی اپنے آپ میں انوکھااور بیش قیمت ہے۔ اس پروگرام کی ہر قسط بہت ہی زندہ ہوتی ہے۔ہمیں  اجتماعیت کے جذبہ  کے ساتھ ساتھ، سماج کے تئیں فرض کے جذبے اور خدمت کے جذبے سے بھرتا ہے۔ یہاں ان موضوعات پر کھل کر بات  چیت ہوتی ہے، جن کے بارے میں ہمیں عام طور پر  کم  ہی پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ’من کی بات‘  میں کسی موضوع کا ذکر  ہونےکے بعد  کس طرح متعدد ہم وطنوں کو نئی تحریک ملی۔ حال ہی میں مجھے ملک کی  مشہور ہندوستانی شاستریہ رقاصہ آنندہ شنکر جینت  کا ایک خط ملا ، اپنے خط میں انہوں نے ’ من کی بات ‘ کے اس قسط کے بارے میں لکھا ہے جس میں ہم نے اسٹوری  ٹیلننگ کے بارے میں گفتگو کی تھی۔  اس پروگرام میں ہم نے اس شعبے سے جڑے لوگوں کی صلاحیت کو تسلیم کیا تھا۔ ’ من کی بات ‘ کے اس پروگرام سے تحریک لے کر آنندہ شنکر جینت نے ’ کُٹی کہانی‘ تیار کی ہے۔ یہ بچوں کے لیے  الگ الگ زبانوں کی کہانیوں کا ایک بہترین  انتخاب  ہے۔ یہ کوشش اس لیے بھی بہت اچھی ہے کیونکہ اس سے  ہمارے  بچوں کا اپنی ثقافت سے لگاؤ مزیدگہرا ہوتا ہے۔ انہوں نے ان کہانیوں کے کچھ  دلچسپ ویڈیو  اپنے یوٹیوب چینل پر بھی اپ لوڈ کیے ہیں۔ میں نے آنندہ شنکر جینت کی اس کوشش کا خاص طورسے اس لئے ذکر کیا کیونکہ  یہ دیکھ کر مجھے  بہت اچھا لگا کہ کس طرح ہم وطنوں کے اچھے کام دوسروں کو بھی متحرک کر رہے ہیں۔ اس سے سیکھ کر وہ بھی اپنے ہنر سے ملک اور سماج کے لیے کچھ بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی تو ہم بھارت  کے لوگوں کی اجتماعی طاقت ہے، جو ملک کی پیش رفت  میں نئی توانائی بھررہی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، اس بار ’من کی بات‘ میں میرے ساتھ  اتنا ہی۔ اگلی بار نئے موضوعات کے ساتھ ، آپ سے ، پھر ملاقات ہوگی۔ بارش کا وقت ہے، اس لئے اپنی صحت کا خوب خیال رکھیئے۔ متوازن  غذا کھائیے اور صحت مند رہیئے۔ ہاں ! یوگا ضرور کیجئے۔ اب کئی اسکولوں میں گرمی کی چھٹیاں بھی ختم ہونے والی ہیں۔ میں بچوں سے  بھی کہوں گا کہ ہوم ورک  آخری دن  کے لئے  پینڈنگ نہ رکھیں۔  کام  ختم کیجئے اور بے فکر رہیئے۔  بہت بہت شکریہ۔

************

ش ح ۔  ج ق  ۔  م  ص

 (U:6253)