مہاراشٹر کے گورنر جناب رمیش بیس جی، وزیراعلی جناب ایکناتھ شندے جی، کابینہ کی میری ساتھی نرملا سیتارمن جی، بھاگوت کر اڑ جی، پنکج چودھری جی، مہاراشٹر حکومت کے نائب وزیراعلی دیویندر جی، اجیت جی، ریزرو بینک کے گورنر شکتی کانت داس جی، ریزرو بینک آف انڈیا کے افسر ان ، دیگر معززین اور خواتین و حضرات۔
آج ریزرو بینک آف انڈیا ایک تاریخی مرحلے پہنچا ہے۔ آر بی آئی نے اپنے 90 سال پورے کئے ہیں۔ ایک ادارے کے طور پر آر بی آئی، آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد، دونوں ہی ادوار کا گواہ رہا ہے۔ آج پوری دنیا میں آر بی آئی کی پہچان اس کے پروفیشنلزم اور کمٹ مینٹ کی وجہ سے بنی ہے۔ میں آپ سبھی کو، ریزرو بینک آف انڈیا کے سبھی کرملازمین اور افسروں کو آر بی آئی کے قیام کے 90 برسوں کی مبارکباد دیتا ہوں۔
اور، اس وقت جو لوگ آر بی آئی سے منسلک ہیں انہیں میں بہت خوش قسمت مانتا ہوں۔ آج آپ جو پالیسیاں بنائیں گے، جو کام کریں گے، ان سے آر بی آئی کی اگلی دہائی کی سمت طے ہوگی۔ یہ دہائی اس ادارے کو اس کے صدی سال تک لے جانے والی دہائی ہے۔ اور یہ دہائی وکست بھارت کی سنکلپ یاترا کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اور اس کے لیے جیسا آپ لوگوں کا منتر ہے- آر بی آئی کو تیز رفتار ترقی کو اولین ترجیح دیتے ہوئے اعتماد اور استحکام پر بھی اتنا ہی فوکس کرنا ہے۔ میں آر بی آئی کو اس کے اہداف اور عزائم کے لیے بھی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
آپ سبھی اپنے میدان کے ماہر ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ملک کی معیشت، ہماری جی ڈی پی کافی حد تک مانیٹری اور مالیاتی پالیسیوں کے تال میل پر انحصار کرتی ہے۔ مجھے یاد ہے، میں جب 2014 میں ریزرو بینک کے ’80ویں‘ برس کے پروگرام میں آیا تھا، تب حالات ایک دم الگ تھے۔ ہندوستان کا پورا بینکنگ سیکٹر مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کر رہا تھا۔ این پی اے کو لے کر ہندوستان کے بینکنگ نظام کے استحکام اور اس کے مستقبل کو لے کر سبھی کو خدشات لاحق تھے۔ حالات اتنے خراب تھے کہ پبلک سیکٹر بینک ملک کی اقتصادی ترقی کو ضروری رفتار نہیں دے پا رہے تھے۔ ہم سبھی نے وہاں سے شروعات کی۔ اور آج دیکھیے، آج ہندوستان کے بینکنگ نظام کو دنیا میں ایک مضبوط اور پائیدار نظام تسلیم کیا جا رہا ہے۔ جو بینکنگ نظام کبھی ڈوبنے کی کگار پر تھا، وہ بینکنگ نظام اب منافع میں آ گیا ہے اور کریڈٹ میں ریکارڈ اضافہ ظاہرکر رہا ہے۔
دوستو،
آپ بھی جانتے ہیں کہ صرف 10 سال میں اتنی بڑی تبدیلی آنی آسان نہیں تھی۔ یہ تبدیلی اس لئے آئی، کیونکہ ہماری پالیسی، نیت اور فیصلے واحغ تھے۔ یہ تبدیلی اس لئے آئی کیونکہ ہماری کوششوں میں مضبوطی تھی، ایمانداری تھی۔ آج ملک دیکھ رہا ہے، جب نیت صحیح ہوتی ہے تو پالیسی صحیح ہوتی ہے۔ جب پالیسی صحیح ہوتی ہے، تو فیصلے صحیح ہوتے ہیں۔ اور جب فیصلے صحیح ہوتے ہیں، تو نتیجے صحیح ملتے ہیں۔ مختصراً میں یہی کہنا چاہتا ہوں نیت صحیح، تو نتیجے صحیح۔
کیسےملک کا بینکنگ نظام ٹرانسفارم ہوا، یہ اپنے آپ میں ایک مطالعہ کا موضوع ہے۔ کوئی بھی سرا ایسا نہیں تھا، جسے ہم نے ایسے ہی چھوڑ دیا ہو۔ ہماری حکومت نے ’ریکاگنیشن‘، ’رزیولیوشن‘ اور ’ری کیپٹلائزیشن‘ کی حکمت عملی پر کام کیا۔ سرکاری شعبے کے بینکوں کی حالت میں بہتری لانے کے لیے حکومت نے تقریباً ساڑھے 3 لاکھ کروڑ کا کیپٹل انفیوژن کیا اور ساتھ ہی گورننس سے متعلق کئی اصلاحات بھی کیں۔ محض انسالوینسی اینڈ بینکرپسی کوڈ کے نئے نظام سے ہی تقریباً سوا تین لاکھ کروڑ کے قرض ریزالو ہوئے۔
اور ایک ڈیٹا اہل وطن کی معلومات کے لئے ضروری ہے۔ 27 ہزار سے زیادہ ایسی ایپلی کیشنس، جس میں 9 لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کا انڈر لائن ڈیفالٹ تھا، وہ آئی بی سی میں ایڈمیشن سے پہلے ہی ریزالو ہو گئیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نئے نظام کی صلاحیت کتنی زیادہ ہے۔ بینکوں کا جو مجموعی ان پی اے, 2018 میں سوا گیارہ فیصد کے آس پاس تھا۔ وہ ستمبر 2023 آتےآتے 3 فیصدسے بھی کم ہو گیا۔
آج ٹوین بیلینس شیٹ کا مسئلہ ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ آج بینکوں کی کریڈٹ گروتھ 15 فیصد تک ہو گئی ہے۔ اور ان سبھی کامیابیوں میں آر بی آئی کی معاون حصے داری اور کوششوں کا بڑا رول رہا ہے اور وہ مبارکباد کے مستحکم ہیں۔
ساتھیو،
آر بی آئی جیسے ادارے کے بارے میں تذکرہ اکثر مالیاتی تشریحات اور مشکل اصطلاحات تک ہی محدود رہا جاتا ہے۔ آپ کا کام جتنا پیچیدہ ہے، اس میں یہ فطری بھی ہے۔ لیکن، آپ جو کام کرتے ہیں، اس سے ملک کے عام لوگوں کی زندگی براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں ہم نے سینٹرل بینک، بینکنگ سسٹم اور آخری پائیدان پر کھڑے شخص کے درمیان اس رابطے کو واضح کیا ہے۔ غریبوں کی مالیاتی شمولیت آج اس کی بہت بڑی مثال ہے۔ آج ملک میں 52 کروڑ جن دھن کھاتے ہیں۔ ان میں بھی 55 فیصد سے زیادہ کھاتے خواتین کے نام پر ہیں۔ اسی مالیاتی شمولیت کا اثر آپ زراعت اور ماہی پروری جیسے شعبوں میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
آج 7 کروڑ سے زیادہ کسان، ماہی گیر اور مویشی پالنے والوں کے پاس کسان کریڈٹ کارڈز ہیں۔ اس سے ہماری دیہی معشیت کو ایک بہت بڑا پُش ملا ہے۔ کو آپریٹیو سیکٹر کو بھی پچھلے 10 برسوں میں بڑا بوسٹ ملا ہے۔ امداد باہمی کے شعبے میں کو آپریٹیو بینکون کا ایک بہت بڑا رول ہوتا ہے اور یہ ریزرو بینک کے ریگولیشن اور سپروژن کا ایک اہم شعبہ بھی ہے۔ یوپی آئی آج ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ اس پر ہر مہینے 1200 کروڑ سے زیادہ ٹرانزیکشن ہو رہے ہیں۔
ابھی آپ لوگ سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی پر بھی کام کر رہے ہیں۔ یعنی پچھلے 10 برسوں میں جو کایا پلٹ ہوئی ہے اس کی ایک تصویر یہ بھی ہے۔ ایک دہائی کے اندر ہی ہم پوری طرح سے ایک نئے بینکنگ نظام، ایک نئی معیشت اور نئے کرنسی تجربے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اور جیسا میں نے پہلے کہا ہے، پچھلے 10 برسوں میں جو ہوا، وہ تو صرف ٹریلر ہے۔ ابھی تو بہت کچھ کرنا ہے، ابھی تو ہمیں ملک کو بہت آگے لے کر جانا ہے۔
ساتھیو،
بہت ضروری ہے کہ ہمارے پاس آئندہ 10 سال کے اہداف بالکل واضح ہوں۔ ہمیں مل کر اگلے 10 برسوں میں ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کے امکانات کو وسعت دینی ہوگی۔ ہمیں کیش لیس اکونومی سے آنے والی ان تبدیلیوں پر نظر بھی رکھنی ہوگی۔ ہمیں مالیاتی شمولیت اور بااختیار بنانے کی کوششوں کو بھی مزید بہتر کرنا ہوگا۔
ساتھیو،
اتنی بڑی آبادی کی بینکنگ ضرورتیں بھی الگ الگ ہو سکتی ہیں۔ کئی لوگ فیزیکل برانچ ماڈل کو پسند کرتے ہیں، کئی لوگوں کو ڈیجیٹل ڈلیوری پسند ہوتی ہے۔ ملک کو ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے، جس سے بینکنگ میں آسانی کی صورت حال بہتر ہو اور سبھی کو ان کی ضرورت کے مطابق کریڈٹ ایکسز مل سکے۔ ڈی پی آئی کے شعبے میں ہندوستان کو صف اول میں لانے کے لیے ہمیں مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ کی مسلسل مدد لینی چاہئے۔ ہندوستان کی ترقی تیز رفتار سے ہو، شمولیت والی ہو، پائیدار ہو، اس کے لیے ریزرو بینک کو لگاتار اقدامات کرنے ہو ں گے۔ ایک ریگولیٹر کے طور پر آر بی آئی نے بینکنگ کے شعبے میں اصول پر مبنی ڈسپلن اور مالیاتی پروڈنشیل پریکٹیسز کو یقینی بنایا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی، یہ بھی ضروری ہے کہ آر بی آئی، مختلف شعبوں کی مستقبل کی ضرورتوں کا اندازہ لگاتے ہوئے، ابھی سے تیاری کرے، بینکوں کو حوصلہ افزائی کرے، پرو ایکٹیو ا قدامات کرے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت آپ کے ساتھ ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، 10 سال پہلے ڈبل ڈجٹ کی مہنگائی سے نپٹنے کا رفلیکشن، اس وقت کی مالیاتی پالیسیوں میں نہیں نظر آتا تھا۔ اس سے نمٹنے کے لیے ہماری حکومت نے ریزرو بینک آف انڈیا کو انفلیشن ٹارگیٹنگ کا حق دیا۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے اس مینڈیٹ پر بہت اچھے طریقے سے کام بھی کیا۔ ساتھ ہی ساتھ، حکومت نے ایکٹیو پرائس مانیٹرنگ اور فسکل کنسولیڈیشن جیسے قدم اٹھائے۔ اس لئے کو رونا کا بحران ہو، الگ الگ ملکوں میں جنگ کی صورت حال ہو، کشیدگی ہو، ہندوستان میں افراط زر ماڈریٹ سطح پر ہی رہی۔
ساتھیو،
جس ملک کی ترجیحات واضح ہوں، اسے ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہم نے کو رونا کے دوران مالیاتی پروڈینس کی فکر بھی کی اور عام شہریوں کی زندگیوں کو بھی اولین ترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کا غریب، ہندوستان کا متوسط طبقہ اس آفت سے ابھرکر اب معشیت کو رفتار دے رہا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ملک جہاں ابھی تک اس جھٹکے سے ابھرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہیں ہندوستانی معیشت نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔ ہندوستان کی اس کامیابی کو آر بی آئی عالمی سطح پر لے جا سکتا ہے۔
افراط زر پر قابو پانے اورترقی میں ایک توازن قائم کرنا، کسی بھی ترقی پذیر ملک کی بہت منفرد ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے نمٹنے کے کون سے مالیاتی ٹولز ہو سکتے ہیں، اس کے بارے میں سوچنا بہت ضروری ہے۔ آر بی آئی اس کے لیے ایک ماڈل بن کر عالمی قیادت کا رول ادا کر سکتا ہے۔ اور یہ بات میں دس سال کے تجربے کے بعد کہتا ہوں۔ اور یہ بات دنیا کو قریب سے جاننے سمجھنے کے بعد کہہ رہا ہوں۔ اور اس سے پورے گلوبل ساؤتھ کو بہت بڑی مدد مل سکتی ہے۔
دوستو،
اگلے 10 برسوں کے اہداف کو طے کرتے ہوئے ہمیں ایک بات اور د ذہن میں رکھنی ہے۔ وہ ہے ہندوستان کے نوجوانوں کی خواہشات۔ ہندوستان آج دنیا کے سب سے نوجوان ممالک میں سے ایک ہے۔ اس نوجوان خواہش کو پورا کرنے میں آر بی آئی کا اہم رول ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے نئے نئے شعبے وجود میں آئے ہیں۔ ان شبوں میں ملک کے نوجوانوں کو نئے مواقع حاصل ہو رہے ہیں۔ آپ دیکھیے، آج گرین اینرجی جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں کی توسیع ہورہی ہے۔
حکومت شمشی توانائی اور گرین ہائیڈروجن جیسے شعبوں کو فروغ دے رہی ہے۔ آج ملک میں ایتھنول بلینڈنگ میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں آج ہندوستان ایک پرائم پلیئر بن کر ابھرا ہے۔ ہم نے سودیشی 5جی ٹیکنالوجی پر کام کیا ہے۔ دفاع کے شعبے میں ہم بڑے برآمدار کار کے رول میں آ رہے ہیں۔
ایم ایس ایم ایز پوری ہندوستانی معیشت اور مینوفیکچرنگ کی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں ۔ ایسے تمام شعبوں میں الگ الگ طریقے کے قرض کی ضرورت ہوتی ہے۔ کو رونا کے دور میں ہم نے ایم ایس ایم ای شعبے کے لیے جو کریڈٹ گارنٹی اسکیم بنائی، اس نے اس شعبے کو بہت بڑی طاقت دی تھی۔ ریزرو بینک کو بھی آگے آؤٹ آف دی باکس پالیسیوں کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ اور میں نے دیکھا ہے، ہمارے شکتی کانت جی آؤٹ آف دی باکس سوچنے میں ماہر ہیں۔ اور مجھے خوشی ہے سب سے زیادہ تالیاں اس بات پر پڑیں۔ خاص طور سے نئے شعبوں میں ہمارے نوجوانوں کو کافی کریڈٹ دستیابی حاصل ہو، اس کو یقینی بنایا جانا بہت ضروری ہے۔
ساتھیو،
اکسیویں صدی میں اختراع کی بہت زیادہ اہمیت رہنے والی ہے۔ حکومت، اختراع پر ریکارڈ سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ آپنے دیکھا ہے، ابھی ابھی ہم نے عبوری بجٹ دیا اس میں اختراع کے لیے ایک لاکھ کروڑ روپئے کا ریسرچ فنڈ بھی بنایا ہے۔ ’جدید ترین ٹیکنالوجی‘ پر جو تجاویز آئیں گی، جو لوگ اس شعبے میں کام کرنا چاہتے ہیں، ہم ان کے لیے کیسے تیار ہوں، یہ سوچنا بہت ضروری ہے۔ اور آر بی آئی کو ابھی سے سوچنا چاہئے کہ وہ کیسے ان کی مدد کرے گا۔ ہمیں ایسے لوگوں کی شناخت کرنی ہوگی ، ہمیں ایسی ٹیمس بنانی ہوں گی۔ جو روایتی کاروبار ہیں، جو آنے والے موضوعات ہیں، ہمیں انہیں لے کر مہارت کو فروغ دینا چاہئے۔
اسی طرح خلا کا شعبہ کھل رہا ہے، اس میں نئے نئے اسٹارٹ اپ آ رہے ہیں۔ تو ان کو کریڈٹ کے لیے کس طرح کی مدد چاہئے، یہ ہمیں دیکھنا ہوگا۔ اسی طرح ہندوستان میں ایک سب سے بڑا نیا شعبہ پوری طاقت کے ساتھ آ رہا ہے، وہ ہے سیاحت کا شعبہ۔ ٹ سیاحت کا شعبہ بھی بڑھ رہا ہے اور پوری دنیا ہندوستان آنا چاہتی ہے، ہندوستان کو دیکھنا چاہتی ہے، ہندوستان کو سمجھنا چاہتی ہے۔ ابھی میں نے کہیں پڑھا تھا، جو سیاحت کے ماہرین ہوتے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ آنے والے برسوں میں مذہبی سیاحت میں دنیا کا سب سے بڑا کیپٹل ایودھیا بننے والا ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اس شعبے کو مالیاتی اعتبار سے سپورٹ کرنے کے لیے ہماری کیا تیاری ہے؟ جو ملک میں نئے نئے شعبے بن رہے ہیں، ہمیں ان میں ابھی سے مہارت کو فروغ دینا چاہئے اور ان کی ہم کیسے مدد کریں گے، اس پر بھی پہلے سے غور وخوض ہونا چاہئے۔
ابھی 100 دن میں الیکشن میں مصروف ہوں، تو آپ کے پاس بھرپور وقت ہے۔ آپ سوچ کر رکھیے، کیونکہ حلف لینے کے دوسرے دن ہی جھما جھم کام آنے والا ہے۔
ساتھیو،
ہم لوگوں نے مالیاتی شمولیت پر بہت کام کیا ہے، ڈیجیٹل پیمینٹ پر بہت کام کیا ہے۔ اس سے ہمارے چھوٹے بزنس کی، ریہڑی پٹری والوں کی مالیاتی صلاحیت اب واضح دکھائی دینے لگی ہے اب اس معلومات کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں انہیں مالیاتی اعتبار سے بااختیار بنانا ہے۔
دوستو،
ہمیں مل کر اگلے 10 برسوں میں ایک اور بڑا کام کرنا ہے۔ ہمیں ہندوستان کی اقتصادی خود کفیلی کو بڑھانا ہے۔ ہمیں کوشش کرنی ہے کہ ہماری معیشت دنیا کے بحرانوں سے کم سے کم متاثر ہو۔ آج ہندوستان ، عالمی جی ڈی پی گروتھ میں 15 فیصد حصے داری کے ساتھ گلوبل گروتھ کا انجن بن رہا ہے۔ ایسے حالات میں یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارا روپیہ پوری دنیا میں زیادہ قابل رسائی بھی ہو، قابل قبول بھی ہو۔
ایک اور رجحان جو گزشتہ چند برسوں میں پوری دنیا میں دیکھنے کو ملا ہے، وہ ہے بہت زیادہ اقتصادی توسیح اور بڑھتا ہوا قرض۔ کئی ملکوں کا نجی شعبے کا قرض تو ان کی جی ڈی پی کے دوگنے تک پہنچ گیا ہے۔ کئی ملکوں کے قرض کی سطح، اس ملک کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی معیشت کو متاثر کرتی ہے۔ ریزرو بینک کو اس پر بھی ایک مطالعہ کرنا چاہئے۔
ہندوستان کی ترقی کے جتنے امکانات اور پوٹینشیل ہیں، ان کو ذہن میں رکھتے ہوئے کریڈٹ کی کتنی دستیابی ہونی چاہئے اور اس کو کیسے پائیدار طریقے سے مینیج کیا جانا چاہئے، اسے جدید منظر نامے میں طے کیا جانا بہت ضروری ہے۔
ساتھیو،
ملک کے لیے ضروری پروجیکٹوں کی فنڈنگ کے لیے ہماری بینکنگ صنعت کا آگے بڑھنا بھی اتنا ہی ضروری ہوگا۔ اور اس ضرورت کے درمیان ، آج کئی محاذوں پر چیلنج بھی ہیں۔ اے آئی اور بلاک چین جیسی نئی تکنیکوں نے بینکنگ کے طریقوں کو تبدیل کیا ہے۔ پورا طریقہ بدل گیا ہے۔ بڑھتی ڈیجیٹل بینکنگ کے نظام میں سائبر سکیورٹی کا رول بہت اہم ہو گیا ہے۔ فن ٹیک میں ہونے والی نئی اختراعات بینکنگ کے نئے طریقے بنانے جا رہی ہیں۔ ایسے حالات میں ملک کے بینکنگ شعبے کے ڈھانچے میں کیا تبدیلی ضروری ہیں، اس پر ہمیں سوچنا ہوگا۔ اس میں ہمیں نئے فائننسنگ، آپریٹنگ اور بزنس ماڈلوں کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گلوبل چیمپئن کی کریڈٹ ضرورتوں کو لے کر ریہڑی پٹری والوں تک کی ضرورت کو، جدید شعبوں سے لے کر روایتی شعبوں تک کی ضرورتوں کو، ہم پورا کر سکیں، یہ وکست بھارت کے لیے بہت ضروری ہے۔
وکست بھارت کے بینکنگ وژن کے اس پورے مطالعے کے لیے ریزرو بینک بہت موزوں ادارہ ہے۔ آپ کی یہ کوششیں 2047 کے وکست بھارت کی تعمیر کے لیے بہت اہم ہو ں گے۔
ایک بار پھر آپ سب کو میری بہت بہت نیک خواہشات۔
شکریہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ش ح۔ا گ۔ن ا۔
U-6395