Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

لوک سبھا میں صدر جمہوریہ کے خطاب پر شکریہ کی تحریک کا وزیر اعظم کی طرف سے دیئے گئے جواب کا متن


عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

میں یہاں معزز صدر کے خطاب پر اظہار تشکر کے لئے حاضرہوا  ہوں۔ کل، آج اور رات گئے تک تمام معزز اراکین اسمبلی نے اپنے خیالات سے اس تحریک تشکر کو تقویت بخشی۔ بہت سے معزز اور تجربہ کاراراکین پارلیمنٹ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور فطری طور پر جمہوریت کی روایت ہے کہ جہاں ضرورت تھی وہاں تعریف ہوئی، جہاں پریشانی تھی وہاں کچھ منفی باتیں بھی ہوئیں، لیکن یہ بہت فطری ہے! جناب اسپیکر، یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ ملک کے عوام نے مجھے 14ویں مرتبہ اس مقام پر بیٹھنے کا موقع دیا ہے اور صدر جمہوریہ سے ان کے خطاب پر اظہار تشکر کیا ہے، اس لیے میں آج ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ، جنہوں نے ایوان میں بحث میں حصہ لیا اور بحث کو تقویت بخشی ہے۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

ہم 2025 میں ہیں، ایک طرح سے 21ویں صدی کا 25 فیصدحصہ گزر چکا ہے۔ 20ویں صدی کی آزادی کے بعد اور 21ویں صدی کے پہلے 25 برسوں  میں کیا ہوا اور یہ کیسے ہوا یہ وقت ہی طے کرے گا، لیکن اگر ہم صدر کے خطاب کا باریک بینی سے مطالعہ کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ انہوں نے ملک کو اگلے 25 برسوں  کے بارے میں بتایا ہے اور ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے لئے ایک نیا اعتماد پیدا کرنے والا خطاب ایک طرح سے ایک مشترکہ عزم اور ترقی کی طرف گامزن ہے۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

تمام مطالعات سے بار بار یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ پچھلے 10 سالوں میں ملک کے عوام نے ہمیں خدمت کا موقع دیا۔ 25 کروڑ ملک کے لوگ غربت کو شکست دے کر غربت سے باہر آئے ہیں۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

پانچ دہائیوں سے غربت کے خاتمے کے نعرے سنتے آئے ہیں اور اب 25 کروڑ غریب لوگ غربت کو شکست دے کر باہر آئے ہیں، یہ ایسے ہی  نہیں ہوتا ،جب کوئی منصوبہ بند طریقے سے اپنی زندگی کو پوری سنجیدگی اور لگن سے وقف کردیتا ہے، تب یہ ہوتا ہے۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

زمین سے جڑے لوگ جب زمین کی حقیقت جانتے ہوئے اپنی زندگی زمین پر گزار دیتے ہیں تو زمین پر تبدیلی یقینی ہے۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

ہم نے غریبوں کو جھوٹا نعرہ نہیں دیا، سچی ترقی دی ہے۔ غریبوں کے دکھ اور عام آدمی کی تکالیف اسی طرح متوسط ​​طبقے کے خوابوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ محترم چیئرمین، اس کے لیے جذبہ درکار ہے اور مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس یہ نہیں ہے۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

بارش کے موسم میں پلاسٹک کی چادروں والی چھتوں کے نیچے رہنا کتنا مشکل ہے۔ ایسے لمحات آتے ہیں جب خوابوں کو پامال کیا جاتا ہے۔ ہر کوئی یہ نہیں سمجھ سکتا۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

اب تک 4 کروڑ گھر غریبوں کو دیے جا چکے ہیں۔ جس نے وہ زندگی گزاری ہے وہ سمجھتا ہے کہ کنکریٹ کی چھت والا مکان حاصل کرنے کا کیا مطلب ہے۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

ایک  عورت جب کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ وہ سورج نکلنے سے پہلے یا غروب آفتاب کے بعد نکل سکتی ہے، بہت سی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد، ایسے لوگ نہیں سمجھ سکتے، عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

ہم نے 12 کروڑ سے زیادہ بیت الخلاء بنا کر اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی مشکلات کو کم کیا ہے۔ محترم چیئرمین صاحب ان دنوں میڈیا میں بہت زیادہ بحث چل رہی ہے۔ سوشل میڈیا میں اور زیادہ ہو رہی ہے۔ کچھ رہنما گھروں میں جکوزی اور اسٹائلش شاورز پر توجہ مرکوز کرتے ہیں لیکن ہماری توجہ ہر گھر تک پانی فراہم کرنے پر ہے۔ آزادی کے 75 سال بعد، 70 سے 75 فیصد یعنی ملک کے تقریباً 16 کروڑ سے زیادہ گھرانوں کے پاس نلکے کے پانی کا کنکشن نہیں تھا۔ ہماری حکومت نے 5 سالوں میں 12 کروڑ خاندانوں کو نل کا پانی فراہم کرنے کا کام کیا ہے اور یہ کام تیزی سے جاری ہے۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

ہم نے غریبوں کے لئے بہت  کام  کیا ہے اور عزت مآب  صدر جمہوریہ نے اپنے خطاب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ غریبوں کی جھونپڑیوں میں فوٹو سیشن کروا کر تفریح ​​کرنے والوں کو پارلیمنٹ میں غریبوں کی بات کرنا بورنگ لگے گا۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

میں ان کا غصہ سمجھ سکتا ہوں۔ محترم چیئرمین، مسئلہ کی نشاندہی کرنا ایک چیز ہے لیکن اگر ذمہ داری ہو تو مسئلہ کی نشاندہی کے بعد چھوٹ نہیں ہوسکتی، اس کے حل کے لیے سچی لگن کے ساتھ کوششیں کرنی پڑتی ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے، اور آپ نے پچھلے 10 سالوں کے ہمارے کام کو بھی دیکھا ہوگا اور صدر جمہوریہ کے خطاب میں بھی دیکھا ہوگا کہ ہماری کوشش مسئلہ کو حل کرنے کی طرف ہے اور ہم پوری لگن سے کوششیں کرتے ہیں۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

ہمارے ملک میں ایک وزیر اعظم ہوا کرتے تھے، انہیں مسٹر کلین کہنا فیشن بن گیا تھا۔ وزیراعظم کو مسٹر کلین کہنا فیشن بن گیا تھا۔ انہوں نے ایک مسئلہ کی نشاندہی کی تھی اور کہا تھا کہ جب 1 روپیہ دہلی سے نکلتا ہے،  تو گاؤں میں صرف 15 پیسے پہنچتے ہیں۔ اس وقت پنچایت سے پارلیمنٹ تک ایک پارٹی کا راج تھا، پنچایت سے پارلیمنٹ تک ایک پارٹی کا راج تھا اور اس وقت انہوں نے کھلے عام کہا تھا کہ 1 روپیہ نکلتا ہے اور 15 پیسے پہنچتے ہیں۔ بہت حیرت انگیز  طور پر ہاتھ کی صفائی تھی۔  ملک کا ایک عام آدمی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ 15 پیسے کس کے پاس گئے۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

ملک نے ہمیں موقع دیا، ہم نے حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ہمارا ماڈل عوام کے پیسے کی بچت اور ترقی کا ہے۔ ہم نے جن دھن، آدھار اور موبائل کی جی ای ایم تثلیث بنائی اور ڈی بی ٹی کے ذریعے ڈائریکٹ بینیفٹ، ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر شروع کیا۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

اپنے دور اقتدار میں ہم نے 40 لاکھ کروڑ روپے براہ راست لوگوں کے کھاتوں میں جمع کرائے تھے۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

اس ملک کی بدقسمتی دیکھیں کہ حکومتیں کیسے چلائی گئیں اور کس کے لیے چلائی گئیں۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

جب زیادہ  بخار چڑھ جاتا  ہےنا تو لوگ کچھ بھی کہتے ہیں، لیکن جب اس کے ساتھ ساتھ مایوسی اور نامرادی  پھیل جاتی ہے، تب بھی بہت کچھ کہہ دیتے ہیں۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

10 کروڑ ایسے فرضی لوگ جو پیدا ہی نہیں ہوئے، سرکاری خزانے سے مختلف اسکیموں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

حقدار کو ناانصافی کا سامنا نہ کرنا پڑے، سیاسی فائدے یا نقصان کی پرواہ کیے بغیر ہم نے ان 10 کروڑ فرضی ناموں کو ہٹا دیا اور اصل مستحقین کو تلاش کرنے اور ان کو مدد فراہم کرنے کی مہم چلائی۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

جب ان 10 کروڑ فرضی لوگوں کو ہٹایا گیا اور مختلف اسکیموں کے کھاتوں کا حساب لگایا گیا، تو تقریباً 3 لاکھ کروڑ روپے غلط ہاتھوں میں جانے سے بچ گئے ۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ کس کے ہاتھ تھے، یہ غلط ہاتھوں سے تھے۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

ہم نے سرکاری خریداری میں بھی ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا، شفافیت لائی اور آج جی ای ایم پورٹل کا استعمال ریاستی حکومتیں بھی کر رہی ہیں۔ جی ای ایم پورٹل کے ذریعے کی جانے والی خریداری عام طور پر کی جانے والی قیمت سے کم قیمت پر کی گئی تھی اور حکومت نے 1,15,000 کروڑ روپے کی بچت کی۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

ہماری سووچھتا مہم کا بہت مذاق اڑایا گیا، جیسے ہم سے کوئی گناہ یا کوئی غلطی ہو گئی ہو۔ مجھے نہیں معلوم کہ سب کچھ کیا کہا گیا، لیکن آج میں اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ ان صفائیوں کی وجہ سے حکومت کو حالیہ برسوں میں سرکاری دفاتر سے فروخت ہونے والے کباڑ سے 2300 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔ مہاتما گاندھی ٹرسٹی شپ کے اصول کی بات کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم امانت دار ہیں، یہ جائیداد عوام کی ہے اس لیے ہم ٹرسٹی شپ کے اصول کی بنیاد پر ایک ایک پیسہ بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے صحیح جگہ پر استعمال کرتے ہیں اور پھر سوچھتا ابھیان سے ردی بیچ کر 2300 کروڑ روپے ملک کی حکومت کے خزانے میں آرہا ہے۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

ہم نے ایتھنول کی آمیزش  پر ایک اہم فیصلہ لیا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم اینرجی انڈیپینڈینس نہیں ہیں، ہمیں اسے باہر سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔ جب ایتھنول کی آمیزش ہوئی اور پیٹرول اور ڈیزل سے ہماری آمدنی کم ہوئی تو اس ایک فیصلے سے 100000 کروڑ روپے کا فرق پڑا اور یہ رقم تقریباً 100000 کروڑ روپے کسانوں کی جیب میں گیا ہے۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

میں بچت کی بات کر رہا ہوں، لیکن پہلے اخبارات کی سرخیاں ہوا کرتی تھیں، اتنے لاکھ کے گھوٹالے، اتنے لاکھ کے گھوٹالے، اتنے لاکھ کے گھوٹالے، 10 سال ہو گئے گھوٹالوں نہیں ہوئے، گھوٹالے نہ ہونے سے ملک کے لاکھوں، کروڑوں روپے بچائے گئے، جو عوام کی خدمت میں استعمال ہو رہے ہیں۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

ہم نے جو مختلف اقدامات کیے ان کے نتیجے میں لاکھوں اور کروڑوں روپے کی بچت ہوئی، لیکن ہم نے اس رقم کو شیش محل بنانے میں استعمال نہیں کیا۔ ہم نے اسے ملک کی تعمیر کے لیے استعمال کیا ہے۔ ہمارے آنے سے پہلے 10 سال پہلے انفراسٹرکچر کا بجٹ 180000 کروڑ روپے تھا۔ محترم چیئرمین، آج بنیادی ڈھانچے کا بجٹ 11 لاکھ کروڑ روپے ہے اور اس لیے صدر جمہوریہ نے اس میں بتایا ہے کہ کس طرح ہندوستان کی بنیاد مضبوط ہو رہی ہے۔ سڑک ہو، ہائی وے ہو، ریلوے ہو یا گاؤں کی سڑک، ان تمام کاموں کے لیے ترقی کی مضبوط بنیاد رکھی گئی ہے۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

سرکاری خزانے میں بچت ایک چیز ہے اور وہ کرنا چاہیے جیسا کہ میں نے ٹرسٹی شپ کے بارے میں کہا تھا، لیکن ہم نے یہ بھی ذہن میں رکھا ہے کہ ان بچتوں کا فائدہ عام لوگوں کو بھی ملنا چاہیے، اسکیمیں ایسی ہونی چاہئیں کہ عوام کی بھی بچت ہو اور آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت بیماری کی وجہ سے عام آدمی پر ہونے والے اخراجات آپ نے دیکھے ہوں گے، جس کا فائدہ اٹھانے کے لیے میں نے کہا ہو گا کہ اس کا فائدہ اب تک عوام کو ملے گا۔ جو پیسے ملک کے باشندوں کو اپنی جیب سے کرناپڑتا، اس طرح عوام کے لیے 120000 کروڑ روپے بچائے گئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب جن اوشدھی مرکز کی طرح آج متوسط ​​گھرانوں میں تمام حضرات کی عمریں 60 سے 70 سال ہیں، اس لیے یہ فطری بات ہے کہ کوئی نہ کوئی بیماری میں زد میں آ ہی جاتا ہے، دوائیاں بھی مہنگی ہیں، جب سے ہم نے جن اوشدھی کیندر کھولے ہیں، وہاں 80فیصد رعایت ہے اور اس کی وجہ سے جن خاندانوں نے ان جن اوشدھی مراکز سے دوائیاں لی ہیں، ان کے تقریباً 30000 کروڑ روپے دوائیوں کا خرچ بچا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

یونیسیف کا یہ بھی اندازہ ہے کہ انہوں نے ان خاندانوں کا ایک بڑا سروے کیا جن کے گھروں میں صفائی اور بیت الخلاء موجود ہیں اور اس خاندان نے ایک سال میں تقریباً 70,000 روپے کی بچت کی ہے۔ صفائی مہم ہو، بیت الخلاء کی تعمیر کا کام ہو، صاف پانی فراہم کرنے کا کام ہو، ہمارے عام خاندان کو اتنا بڑا فائدہ مل رہا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

نل سے پانی،  میں نے شروع میں اس کا ذکر کیا ۔ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ایک رپورٹ سامنے آئی ہے، ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ نل سے خالص پانی کی دستیابی سے خاندانوں کے دیگر بیماریوں پر ہونے والے اخراجات میں اوسطاً 40000 روپے کی بچت ہوئی ہے۔ میں بہت سے نہیں گن رہا ہوں، لیکن ایسی بہت سی اسکیمیں ہیں جن سے عام آدمی کے اخراجات میں بچت ہوئی ہے۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

کروڑوں ہم وطنوں کو مفت اناج فراہم کرنے سے اس خاندان کے بھی ہزاروں روپے بچ جاتے ہیں۔ پی ایم سوریہ گھر مفت بجلی کی اسکیم،  جہاں کہیں بھی یہ اسکیم نافذ ہوئی ہے، وہ خاندان سالانہ اوسطاً 25 سے 30 ہزار روپے بجلی کی بچت کر رہے ہیں، اخراجات میں بھی بچت ہو رہی ہے اور اگر زیادہ بجلی ہے تو اسے بیچ کر پیسے کما رہے ہیں۔ یعنی عام آدمی کی جان بچانے کے لیے ہم نے ایل ای ڈی بلب کی مہم بھی چلائی تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے آنے سے پہلے ایل ای ڈی بلب 400 روپے میں فروخت ہوتے تھے۔ ہم نے ایسی مہم چلائی کہ اس کی لاگت 40 روپے تک آگئی اور ایل ای ڈی بلب کی وجہ سے بجلی کی بچت ہوئی اور زیادہ روشنی ہوئی اور اس میں ہم وطنوں کے تقریباً 20,000 کروڑ روپے بچ گئے۔

عزت مآب  چیئرمین صاحب ،

جن کسانوں نے سوائل ہیلتھ کارڈ کو سائنسی طریقے سے استعمال کیا ہے انہیں کافی فائدہ ہوا ہے اور ایسے کسانوں کو فی ایکڑ 30 ہزار روپے کی بچت ہوئی ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

گزشتہ 10 سالوں میں انکم ٹیکس میں کمی کرکے ہم نے متوسط ​​طبقے کی بچتوں کو بڑھانے کے لیے بھی کام کیا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

2014 سے پہلے ایسے بم گولے پھینکے گئے، ایسی گولیاں چلائی گئیں کہ اہل وطن کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ ہم آہستہ آہستہ ان گاؤں کو بھرتے بھرتے آگے بڑھے۔ 200000 روپے، 2013-14 میں، 200000 روپے، صرف 200000 روپے، اس پر انکم ٹیکس کی چھوٹ تھی اور آج 12 لاکھ روپے انکم ٹیکس سے مکمل طور پر مستثنیٰ ہیں اور ہم نے 2014 کے درمیانی عرصے میں بھی یہ کیا، 2017 میں بھی، اور 2019 میں بھی اور 2023 میں بھی ہم مسلسل  یہ کرتے آئے اور گھاؤ بھرتے  گئے،  جو پٹی رہ گئی تھی، ہم نے وہ بھی کر دی ہے۔ اگر ہم اس میں 75000 روپے کی معیاری کٹوتی کو شامل کریں تو یکم اپریل کے بعد ملک کے تنخواہ دار طبقے کو 12.75 لاکھ روپے تک کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

جب آپ یووا مورچہ میں کام کر رہے تھے تو آپ نے ایک بات ضرور سنی اور پڑھی ہوگی کہ ایک وزیر اعظم تقریباً ہر روز 21ویں صدی، 21ویں صدی کہتے تھے، یہ ایک یادگار جملہ بن گیا تھا۔ وہ کہتے تھے اکیسویں صدی، اکیسویں صدی۔ جب یہ بات کثرت سے ہو رہی تھی، اس وقت آر کے لکشمن نے ٹائمز آف انڈیا میں ایک شاندار کارٹون بنایا تھا، وہ کارٹون بہت دلچسپ تھا، اس کارٹون میں ایک ہوائی جہاز ہے، ایک پائلٹ ہے، پتا نہیں اس نے پائلٹ کا انتخاب کیوں کیا، کچھ مسافر بیٹھے ہوئے تھے اور ہوائی جہاز کو ایک کارٹ پر رکھا گیا تھا اور مزدور دھکیل رہا تھا اور کارٹ پر 21ویں صدی لکھا ہوا تھا۔ اس وقت یہ کارٹون ایک لطیفہ لگتا تھا لیکن بعد میں سچ ثابت ہو گیا۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

یہ ایک طنز تھا؛ یہ ایک کارٹون تھا جس میں دکھایا گیا تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم زمینی حقائق سے کس قدر بے خبر تھے کہ وہ بے بنیاد باتوں میں مصروف تھے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

جو اس وقت 21ویں صدی کی بات کرتے تھے وہ 20ویں صدی کی ضروریات بھی پوری کرنے کے قابل نہیں تھے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

آج جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں اور پچھلے 10 سالوں کے تمام واقعات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہم 40 سے 50 سال پیچھے ہیں، یہ کام 40 سے 50  سال پہلے مکمل ہو جانا چاہیے تھا، اور اسی لیے  جب 2014 سے ملک کے عوام نے ہمیں خدمت کا موقع دیا، ہم نے نوجوانوں پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔ ہم نے نوجوانوں کی امنگوں پر زور دیا، ہم نے نوجوانوں کے لیے مزید مواقع پیدا کیے، ہم نے بہت سے شعبے کھولے جس کے نتیجے میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے نوجوان اپنی صلاحیتوں کا جھنڈا لہرا رہے ہیں۔ ہم نے ملک میں خلائی شعبے کو کھولا ہے، دفاعی شعبے کو کھولا ہے، سیمی کنڈکٹر مشن کو متعارف کرایا ہے، ہم نے اختراع کو فروغ دینے کے لیے کئی نئی اسکیموں کو شکل دی ہے، اسٹارٹ اپ انڈیا ایکو سسٹم کو مکمل طور پر تیار کیا ہے اور اس بجٹ میں بھی معزز چیئرمین، ایک بہت اہم فیصلہ لیا گیا ہے۔ 12 لاکھ روپے کی آمدنی پر انکم ٹیکس کی معافی اتنی بڑی خبر بن گئی کہ کئی اہم باتوں پر ابھی تک کچھ لوگوں کا دھیان نہیں گیا۔ یہ اہم فیصلہ لیا گیا ہے؛ ہم نے جوہری توانائی کے شعبے کو کھول دیا ہے اور ملک اس کے دور رس مثبت اثرات اور نتائج دیکھنے جا رہا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

مصنوعی ذہانت، تھری ڈی پرنٹنگ، روبوٹکس، ورچوئل رئیلٹی کی بحث، ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو گیمنگ کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں نے ملک کے نوجوانوں سے کہا ہے کہ ہندوستان گیمنگ کے لیے دنیا کا تخلیقی مرکز کیوں نہ بن جائے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے لوگ بہت تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ اب جب کچھ لوگ اے آئی کے بارے میں بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ یہ لفظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ فیشن میں ہے، لیکن میرے لیے سنگل اے آئی نہیں ہے، ڈبل اے آئی ہے، یہ ہندوستان کی دوہری طاقت ہے، ایک اے آئی مصنوعی ذہانت ہے اور دوسرا اے آئی ایسپائریشنل انڈیا ہے۔ ہم نےا سکولوں میں 10 ہزار ٹنکرنگ لیبز شروع کیں اور آج ان ٹنکرنگ لیبز سے نکلنے والے بچے روبوٹکس بنا کر لوگوں کو حیران کر رہے ہیں اور اس بجٹ میں 50 ہزار نئی ٹنکرنگ لیبز کا انتظام کیا گیا ہے۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس کے ہندوستان اے آئی مشن کے بارے میں پوری دنیا بہت پر امید ہے اور دنیا کے اے آئی پلیٹ فارم میں ہندوستان کی موجودگی نے ایک اہم مقام حاصل کیا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

اس سال کے بجٹ میں، ہم نے ڈیپ ٹیک کے شعبے میں سرمایہ کاری کی بات کی ہے اور میرا ماننا ہے کہ ڈیپ ٹیک میں تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کے لیے اور 21ویں صدی مکمل طور پر ٹیکنالوجی سے چلنے والی صدی ہے، ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہندوستان ڈیپ ٹیک کے میدان میں بہت تیزی سے آگے بڑھے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ہم نوجوانوں کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلسل کام کر رہے ہیں لیکن کچھ جماعتیں ایسی ہیں جو نوجوانوں کو مسلسل دھوکہ دے رہی ہیں اور صرف دھوکہ دے رہی ہیں۔ یہ جماعتیں الیکشن کے دوران یہ الاؤنس دیں گی، وعدے تو کرتی ہیں لیکن پورے نہیں کرتیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

یہ جماعتیں نوجوانوں کے مستقبل کے لیے تباہی بن چکی ہیں۔ محترم چیئرمین صاحب

ملک نے ابھی ہریانہ میں دیکھا ہے کہ ہم کس طرح کام کرتے ہیں۔ بغیر کسی خرچ کے اور بغیر کسی پرچی کے نوکریاں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، جو ہم کہتے ہیں اس کا نتیجہ ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ہریانہ میں تیسری بار عظیم الشان فتح اور ہریانہ کی تاریخ میں تیسری بار جیت، یہ اپنے آپ میں ایک تاریخی واقعہ ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

مہاراشٹر میں بھی تاریخی نتیجہ، عوام کا احسان، مہاراشٹر کی تاریخ میں پہلی بار حکمراں جماعت کو اتنی سیٹیں ملی ہیں، ہم نے عوام کے آشیرواد سے یہ کامیابی حاصل کی ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

اپنے خطاب میں معزز صدر نے ہمارے آئین کے 75 سال مکمل ہونے پر بھی تفصیل سے بات کی۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

آئین کی شقوں کے ساتھ ساتھ آئین کی روح بھی ہے اور آئین کو مضبوط کرنے کے لیے آئین کی روح کو جینا پڑتا ہے اور آج میں اس بات کو مثالوں سے سمجھانا چاہتا ہوں۔ ہم آئین کی پاسداری کرنے والے لوگ ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

یہاں یہ روایت ہے کہ جب صدر خطاب کرتے ہیں تو وہ اس سال کے لیے اس حکومت کی مدت کی تفصیلات بتاتے ہیں۔ اسی طرح ریاست میں گورنر کے ایوان سے خطاب میں وہ اس ریاست کی سرگرمیوں کی تفصیلات بتاتے ہیں۔ آئین اور جمہوریت کی روح کیا ہے؟ جب گجرات 50 سال مکمل کر رہا تھا، اپنا گولڈن جوبلی سال منا رہا تھا اور مجھے اس وقت وزیراعلیٰ کے طور پر خدمات انجام دینا خوش قسمتی سے ملا، ہم نے ایک اہم فیصلہ کیا۔ اس گولڈن جوبلی سال میں گزشتہ 50 سالوں میں ایوان میں گورنروں نے جو بھی تقریریں کی ہیں، وہ صرف اس وقت کی حکومتوں کی تعریف کرتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ان 50 سالوں میں گورنروں کی تمام تقرریاں  ایک کتاب کی صورت میں تیار کی جائیں، ایک مقالہ بنایا جائے اور آج وہ مقالہ تمام لائبریریوں میں موجود ہے۔ میں بی جے پی سے تھا، گجرات میں زیادہ تر کانگریس کی حکومتیں تھیں۔ ان حکومتوں کے گورنروں کی تقریریں ہوتی تھیں، لیکن انہیں مشہور کرنے کا کام بی جے پی سے آنے والا یہ وزیر اعلیٰ کر رہا تھا، کیوں؟ ہم آئین کے مطابق رہنا جانتے ہیں۔ ہم آئین کے لیے وقف ہیں۔ ہم آئین کی روح کو سمجھتے ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

آپ جانتے ہیں کہ جب ہم 2014 میں آئے تھے تو کوئی اپوزیشن نہیں تھا۔ کوئی تسلیم شدہ اپوزیشن جماعت نہیں تھی۔ اتنے نمبروں کے ساتھ کوئی نہیں آیا تھا۔ ہندوستان میں ایسے بہت سے قوانین تھے کہ ہمیں ان قوانین کے مطابق کام کرنے کی مکمل آزادی تھی، کئی کمیٹیاں تھیں جن میں لکھا تھا کہ ان میں اپوزیشن لیڈر کو شامل کیا جائے گا۔ لیکن کوئی اپوزیشن نہیں تھی، کوئی تسلیم شدہ اپوزیشن نہیں تھی۔ یہ ہماری آئین کے مطابق زندگی گزارنے کی عادت تھی، یہ ہمارے آئین کی روح تھی، جمہوریت کے اصولوں پر عمل کرنا ہمارا نصب العین تھا، ہم نے فیصلہ کیا کہ خواہ معزز اپوزیشن نہ ہو، تسلیم شدہ اپوزیشن نہیں ہو گی، لیکن سب سے بڑی جماعت کے سربراہ کو اجلاس میں بلایا جائے گا۔ ایسا تب ہوتا ہے جب جمہوریت کی روح ہو۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

پہلے وزیراعظم اسے فائل کرکے جاری کرتے تھے، ہم نے ہی اس میں قائد حزب اختلاف کو بھی شامل کیا ہے اور اس کے لیے ہم نے قانون بھی بنایا ہے اور آج جب الیکشن کمیشن باضابطہ طور پر بنے گا تو اپوزیشن لیڈر بھی اس کے فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ ہوں گے، ہم یہ کام کرتے ہیں اور میں نے پہلے ہی یہ کیا ہے، ہم ایسا کرتے ہیں کیونکہ ہم آئین کے تابع ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

آپ کو دہلی میں بہت سی جگہیں ملیں گی جہاں کچھ خاندانوں نے اپنے میوزیم بنائے ہیں۔ یہ کام عوام کے پیسے سے کیا جا رہا ہے، جمہوریت کی روح کیا ہے، آئین کو جینا کسے کہتے ہیں، ہم نے پی ایم میوزیم بنایا اور پہلے سے لے کر میرے پیش رو تک ملک کے تمام وزرائے اعظم کی زندگی اور کام اس پی ایم میوزیم میں نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں اور میں چاہوں گا کہ اس پی ایم میوزیم میں جو عظیم آدمی ہیں ان کے خاندان والوں کو چاہیے کہ وہ اس میں کچھ اضافہ کریں اور وقت کی ضرورت محسوس ہو تو وہ اس میوزیم کا دورہ کریں۔ عجائب گھر کو مزید تقویت ملے اور ملک کے نئے بچوں کی حوصلہ افزائی ہو، یہ آئین کی روح ہے! ہر کوئی اپنے لیے سب کچھ کرتا ہے جو لوگ آئین کے لیے جیتے ہیں وہ بہت چھوٹے نہیں ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

جب طاقت خدمت بن جائے تو قوم کی تعمیر ہوتی ہے۔ جب اقتدار وراثت بن جائے تو جمہوریت ختم ہو جاتی ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ہم آئین کی روح کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ ہم نفرت کی سیاست نہیں کرتے۔ ہم قوم کے اتحاد کو سب سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور اسی لیے ہم سردار ولبھ بھائی پٹیل کا دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ بناتے ہیں اور ہم اس عظیم انسان کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے اسٹیچو آف یونٹی کے ذریعے قوم کو متحد کرنے کا کام کیا، وہ بی جے پی سے نہیں تھے، وہ جن سنگھ سے نہیں تھے۔ ہم آئین کے مطابق جیتے ہیں، اس لیے اس سوچ کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ ان دنوں کچھ لوگ کھلے عام اربن نکسل کی زبان بول رہے ہیں اور اربن نکسل کی وہ باتیں جو ہندوستانی ریاست کو لے کر کہتے ہیں، اربن نکسل کی زبان بولنے والے اور ہندوستانی ریاست کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے یہ لوگ نہ تو آئین کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی ملک کے اتحاد کوسمجھتے ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

سات دہائیوں سے جموں و کشمیر اور لداخ کو آئین کے حقوق سے محروم رکھا گیا۔ یہ آئین کے ساتھ ناانصافی تھی اور جموں و کشمیر اور لداخ کے لوگوں کے ساتھ بھی نا انصافی تھی۔ ہم نے آرٹیکل 370 کی دیوار کو گرا دیا، اب جموں کشمیر اور لداخ کے شہریوں کو وہ حقوق مل رہے ہیں جو انہیں حاصل ہیں اور ہم آئین کی اہمیت کو جانتے ہیں، ہم آئین کی روح سے جیتے ہیں، اسی لیے ہم ایسے مضبوط فیصلے لیتے ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ہمارا آئین ہمیں امتیازی سلوک کا حق نہیں دیتا۔ جو لوگ آئین کو اپنی جیب میں رکھ کر زندگی بسر کرتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ آپ نے مسلم خواتین کو کن مشکلات میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔ طلاق ثلاثہ کو ختم کرکے ہم نے مسلم بیٹیوں کو آئین کی روح کے مطابق حقوق دیے ہیں اور انہیں برابری کا حق دیا ہے۔ ملک میں جب بھی این ڈی اے کی حکومت آئی ہے، ہم نے طویل وژن کے ساتھ کام کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ملک کو تقسیم کرنے کے لیے کس قسم کی زبان استعمال کی جا رہی ہے، مجھے نہیں معلوم کہ مایوسی اور نامرادی  انہیں کس حد تک لے جائے گی، لیکن ہماری سوچ کیا ہے، این ڈی اے کے شراکت دار کس سمت میں سوچتے ہیں، ہمارے لیے، پیچھے کیا ہے، آخر کیا ہے اور مہاتما گاندھی نے کیا کہا تھا، ہماری توجہ اس پر زیادہ ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر ہم وزارتیں بنائیں گے، تو ہم شمال مشرقی ریاستوں کے لیے الگ سے وزارت  بنانے کے لیے کیا کریں گے۔ ہمارے ملک میں اتنے سال ہو گئے، اٹل جی کے آنے تک کسی کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی، وہ تقریریں کرتے رہتے ہیں، این ڈی اے نے قبائلیوں کے لیے الگ وزارت بنائی۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ہمارے جنوب کی ریاستیں سمندری ساحل سے جڑی ہوئی ہیں۔ ہمارے مشرق کی بہت سی ریاستیں سمندری ساحل سے جڑی ہوئی ہیں۔ ماہی گیری کا کام ہے اور وہاں کے معاشرے میں ماہی گیروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کا بھی خیال رکھا جائے اور زیر زمین پانی کے چھوٹے چھوٹے علاقوں میں ماہی گیروں کی شکل میں معاشرے کے آخری طبقے کے لوگ موجود ہیں، یہ ہماری حکومت ہے جس نے ماہی پروری کے لیے الگ وزارت بنائی ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

معاشرے کے پسماندہ اور محروم افراد کے اندر ایک صلاحیت موجود ہے، اگر اسکل ڈیولپمنٹ پر زور دیا جائے تو ان کے لیے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ ان کی امیدیں اور تمنائیں ایک نئی زندگی پیدا کر سکتی ہیں اور اسی لیے ہم نے ایک الگ اسکل منسٹری بنائی ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ملک میں جمہوریت کا پہلا فرض یہ ہے کہ ہم عام آدمی کو اقتدار تک پہنچنے کا موقع فراہم کریں اور اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہندوستان کے کوآپریٹو سیکٹر کو مزید خوشحال اور صحت مند بنانے کے لیے ملک کے کروڑوں لوگوں کو جوڑنے کا موقع ہے۔ کوآپریٹو موومنٹ کو بہت سے شعبوں میں پھیلایا جا سکتا ہے اور اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے ایک علیحدہ کوآپریٹو منسٹری بنائی ہے جو کہ وژن ہے وہ یہاں واضح ہو جاتا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ذات پات کی بات کرنا کچھ لوگوں کا فیشن بن گیا ہے۔ گزشتہ 30 برسوں سے او بی سی برادری سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی جو گزشتہ 30 برسوں سے ایوان میں آ رہے ہیں، پارٹی اختلافات سے اوپر اٹھ کر گزشتہ 30 سے 35  سالوں سے ایک ساتھ متحد ہو کر او بی سی کمیشن کو آئینی درجہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔جن لوگوں کو  آج ذات پرستی میں  ملائی دکھتی ہے، ان کو  اس وقت او بی سی سماج یاد نہیں آیا، ہم نے ہی او بی سی سماج کو آئینی درجہ دیا۔ پسماندہ طبقات کمیشن آج آئینی نظام میں شامل ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کو ہر شعبے میں زیادہ سے زیادہ مواقع ملنے کو یقینی بنانے کی سمت میں ہم نے بہت مضبوطی سے کام کیا ہے۔ آج اس ایوان کے توسط سے میں ایک اہم سوال اہلِ وطن کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور جناب اسپیکر، یقیناً اہلِ وطن میرے اس سوال پر غور کریں گے اور  اس پر بحث بھی کریں گے۔ کوئی براہ کرم مجھے بتائے، کیا کبھی پارلیمنٹ میں ایک ہی خاندان کے تین ایس سی  ایم پی ایک ہی وقت میں آئے ہیں؟ کیا کبھی ایک ہی خاندان کے تین ایم پی ایس سی زمرے سے آئے ہیں؟ میں ایک اور سوال پوچھتا ہوں کیا کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ کیا ایک ہی دور میں اور ایک ہی وقت میں ایس ٹی زمرے سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے تین ممبران پارلیمنٹ رہے ہیں؟

عزت مآب اسپیکر صاحب،

مجھے اپنے ایک سوال کا جواب معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں کے قول و فعل میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ زمین و آسمان کا فرق ہے، رات اور دن کا فرق ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ہم کس طرح ایس سی ایس ٹی سماج کو بااختیار بنا رہے ہیں۔ محترم اسپیکر، میں آپ کو ایک مثال پیش کروں گا کہ معاشرے میں کشیدگی پیدا کیے بغیر اتحاد کے جذبے کو برقرار رکھتے ہوئے معاشرے کے محروم طبقات کی بھلائی کیسے کی جا سکتی ہے۔ 2014 سے پہلے ہمارے ملک میں میڈیکل کالجوں کی تعداد 387 تھی۔ آج کل 780 میڈیکل کالج ہیں۔ اب جیسے جیسے میڈیکل کالجز کی تعداد بڑھی ہے سیٹیں بھی بڑھی ہیں۔ یہ بہت اہم زاویہ ہے، محترم چیئرمین، اس لیے کالجز اور سیٹوں کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔ 2014 سے پہلے ہمارے ملک میں ایس سی طلباء کے لیے ایم بی بی ایس کی نشستوں کی تعداد 7700 تھی۔ ہمارے آنے سے پہلے، دلت برادری کے ہمارے 7700 نوجوانوں میں ڈاکٹر بننے کی صلاحیت تھی۔ ہم نے 10 سال تک کام کیا، آج یہ تعداد بڑھ کر 17000 ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی ایس سی کمیونٹی سے ہو گئی ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

2014 سے پہلے ایس ٹی طلباء کے لیے ایم بی بی ایس کی سیٹیں 3800 تھیں۔ آج یہ تعداد بڑھ کر تقریباً 9000 ہو گئی ہے۔ 2014 سے پہلے او بی سی طلباء کے لیے ایم بی بی ایس کی 14000 سے بھی کم سیٹیں تھیں۔ آج ان کی تعداد بڑھ کر تقریباً 32000 ہو گئی ہے۔ او بی سی کمیونٹی سے 32000 ایم بی بی ایس ڈاکٹر بنیں گے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

پچھلے 10 سالوں میں ہر ہفتے ایک نئی یونیورسٹی بنی ہے، ہر روز ایک نئی آئی ٹی آئی بنی ہے، ہر 2 دن بعد ایک نیا کالج کھلا ہے، ذرا سوچئے کہ ہمارے ایس سی، ایس ٹی، او بی سی نوجوانوں اور خواتین کی کتنی ترقی ہوئی ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ہم ہر اسکیم کے پیچھے لگے ہیں- 100فیصد نفاذ اور اس پر صد فیصدعمل آوری کو یقینی بنایا جائے تاکہ کوئی فائدہ اٹھانے والا چھوٹ نہ جائے، ہم اس سمت میں کام کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو اس کا حقدار ہے اسے ملنا چاہیے، جو اس کا حقدار ہے اگر یہ اسکیم ہے تو اس تک پہنچ جائے، 1 روپے 15 پیسے کا کھیل نہیں چل سکتا۔ لیکن کچھ لوگوں نے یہ کیا کہ انہوں نے ماڈل کو ایسا بنایا کہ وہ صرف چند لوگوں کو دیتے ہیں، دوسروں کو ٹارچر کرتے ہیں اور خوشامد کی سیاست کرتے ہیں۔ اپنے ملک کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے ہمیں خوشامد سے نجات حاصل کرنا ہو گی، ہم نے ذات پات  کا نہیں بلکہ مطمئن کرنے کا راستہ چنا ہے اور ہم اس راستے پر چل پڑے ہیں۔ ہر معاشرے، ہر طبقے کے لوگوں کو بغیر کسی امتیاز کے جو ان کا حق ہے وہ ملنا چاہیے اور میرے مطابق جب میں 100فیصد سیچوریشن کی بات کرتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ دراصل سماجی انصاف ہے۔ یہ دراصل سیکولرازم ہے اور یہ دراصل آئین کا احترام ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

آئین کی روح یہ ہے کہ ہر ایک کو بہتر صحت ملنی چاہیے اور آج کینسر ڈے بھی ہے، آج ملک اور دنیا بھر میں صحت کے معاملے پر بہت چرچے ہو رہے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو غریبوں اور بزرگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں اور وہ بھی اپنے سیاسی مفادات کی وجہ سے۔ آج ملک میں 30,000 اسپتال آیوشمان سے وابستہ ہیں اور دیگر اچھے خاصے نجی اسپتال بھی اس سے وابستہ ہیں۔ جہاں آیوشمان کارڈ والے لوگوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ لیکن کچھ سیاسی جماعتوں نے اپنی تنگ نظری کے باعث ان اسپتالوں کے دروازے غریبوں کے لیے بند کر رکھے ہیں جس کا خمیازہ کینسر کے مریضوں کو اٹھانا پڑا ہے۔ حال ہی میں پبلک ہیلتھ جرنل لنسیٹ میں ایک تحقیق شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آیوشمان یوجنا کے تحت کینسر کا علاج وقت پر شروع ہو رہا ہے۔ حکومت کینسر کی تشخیص کے لیے بہت سنجیدہ ہے۔ کیونکہ جتنی جلدی ٹیسٹ کیا جائے گا، اتنی ہی جلدی علاج شروع ہوگا، ہم کینسر کے مریض کو بچا سکتے ہیں اور لینسٹ نے آیوشمان یوجنا کو کریڈٹ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان میں اس سمت میں کافی کام کیا گیا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

اس بجٹ میں بھی ہم نے کینسر کی ادویات کو سستا کرنے کی طرف ایک بہت اہم قدم اٹھایا ہے۔ یہی نہیں آنے والے دنوں میں ایک اہم فیصلہ کیا گیا ہے اور آج کینسر ڈے ہے، میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ تمام معزز اراکین اسمبلی اپنے علاقے کے ایسے مریضوں کے لیے اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اور وہ مریض ہیں، آپ جانتے ہیں کہ کافی اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے باہر سے آنے والے مریضوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس بجٹ میں 200 ڈے کیئر سینٹرز بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ ڈے کیئر سنٹر مریض کے ساتھ ساتھ اس کے اہل خانہ کو بھی بڑی راحت فراہم کرے گا۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

صدر کی تقریر کے دوران خارجہ پالیسی پر بھی بات ہوئی اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک وہ خارجہ پالیسی پر بات نہیں کرتے وہ میچور نظر نہیں آتے، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ خارجہ پالیسی پر بات کی جائے چاہے اس سے ملک کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ میں ایسے لوگوں کو بتانا چاہوں گا، اگر وہ واقعی خارجہ پالیسی کے موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں اور خارجہ پالیسی کو سمجھنا چاہتے ہیں اور مستقبل میں کچھ کرنا چاہتے ہیں، میں یہ ششی جی کے لیے نہیں کہہ رہا، تو میں ایسے لوگوں سے کہوں گا کہ کوئی کتاب ضرور پڑھیں، شاید وہ سمجھ جائیں کہ کیا کہنا ہے اور کہاں، اس کتاب کا نام JFK’s forgotten crisis JF کینیڈی کی بات ہے۔ یہ کتاب خارجہ پالیسی کے معروف اسکالر نے لکھی ہے اور اس میں اہم واقعات کا ذکر ہے۔ اس کتاب میں ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم اور انہوں نے خارجہ پالیسی کی قیادت کیسے کی۔ اس کتاب میں پنڈت نہرو اور اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کین کے درمیان ہونے والی بات چیت اور فیصلوں کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جب ملک کو بہت سے چیلنجز کا سامنا تھا۔ تب خارجہ پالیسی کے نام پر کیا کھیل چل رہا تھا، اب اس کتاب کے ذریعے سامنے آرہا ہے اور اب میں کہوں گا کہ اس کتاب کو پڑھئے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

صدر کے خطاب کے بعد آپ کی خواہش ہے کہ اگر کوئی خاتون صدر جو کہ ایک غریب گھرانے کی بیٹی ہے، ان کی عزت نہیں کر سکتی، لیکن ہر طرح کی باتیں کہہ کر ان کی توہین کی جا رہی ہے۔ میں سیاست، مایوسی، نامرادی کو سمجھ سکتا ہوں، لیکن کیا وجہ ہے، ایک صدر کے خلاف کیا وجہ ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

آج ہندوستان اس قسم کی مسخ شدہ ذہنیت اور سوچ کو چھوڑ کر خواتین کی قیادت میں ترقی کا منتر لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر آدھی آبادی کو پورا موقع مل جائے تو ہندوستان دوگنی رفتار سے ترقی کر سکتا ہے اور یہ میرا یقین ہے کہ 25 سال تک اس شعبے میں کام کرنے کے بعد میرا یقین مضبوط ہو گیا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

پچھلے 10 سالوں میں 10 کروڑ نئی خواتین سیلف ہیلپ گروپس (ایس ایچ جیز) میں شامل ہوئی ہیں اور یہ خواتین محروم خاندانوں اور دیہی پس منظر سے تعلق رکھتی ہیں۔ معاشرے کے سب سے نچلے درجے پر بیٹھی ان خواتین کی بااختیاریت میں اضافہ ہوا، ان کا سماجی رتبہ بھی بلند ہوا اور حکومت نے ان کی امداد کو بڑھا کر 20 لاکھ روپے کر دیا ہے، تاکہ وہ اس کام کو آگے بڑھا سکیں۔ ہم ان کی کارکردگی اور پیمانے کو بڑھانے کے لیے اس سمت میں کوششیں کر رہے ہیں اور آج اس کا دیہی معیشت پر بہت مثبت اثر پڑ رہا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

صدر نے اپنے خطاب میں لکھپتی دیدی کی مہم پر بات کی ہے۔ تیسری بار ہماری نئی حکومت بننے کے بعد اب تک درج کردہ معلومات کے مطابق ہمیں 50 لاکھ سے زیادہ لکھ پتی دیدیوں کے بارے میں معلومات ملی ہیں اور جب سے میں نے اس اسکیم کو آگے بڑھایا ہے، اب تک تقریباً 1.25 کروڑ خواتین لکھپتی دیدیاں بن چکی ہیں اور ہمارا ہدف تین کروڑ خواتین کو لکھپتی دیدیاں بنانا ہے اور اس کے لیے اقتصادی پروگراموں پر زور دیا جائے گا۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

آج ملک کے کئی دیہاتوں میں ڈرون دیدی کا چرچا ہے، گاؤں میں ایک نفسیاتی تبدیلی آئی ہے، ایک خاتون کو ہاتھ میں ڈرون اڑاتے دیکھ کر گاؤں کے لوگوں کا نظریہ بدل رہا ہے اور آج نمو ڈرون دیدی نے کھیتوں میں کام کر کے لاکھوں روپے کمانے شروع کر دیے ہیں۔ مدرا یوجنا بھی خواتین کو بااختیار بنانے میں بہت بڑا کردار ادا کر رہی ہے۔ کروڑوں خواتین مدرا یوجنا کی مدد سے پہلی بار صنعت میں داخل ہوئی ہیں اور صنعتکار بن کر ابھری ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

4 کروڑ خاندانوں کو دیئے گئے گھروں میں سے تقریباً 75 فیصد گھر خواتین کی ملکیت میں ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

یہ تبدیلی 21ویں صدی کے مضبوط ہندوستان کی بنیاد رکھ رہی ہے۔ معزز اسپیکر، ترقی یافتہ ہندوستان کا ہدف دیہی معیشت کو مضبوط کرنا ہے اور اس کے بغیر ہم ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر نہیں کرسکتے ہیں اور اسی لیے ہم نے دیہی معیشت کے ہر شعبے کو چھونے کی کوشش کی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ دیہی معیشت میں کاشتکاری بہت اہم ہے۔ ہمارے کسان ترقی یافتہ ہندوستان کے 4 ستونوں میں ایک مضبوط ستون ہیں۔ گزشتہ دہائی میں زراعت کے بجٹ میں 10 گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ 2014 کے بعد کیا ہوا اور یہ ایک بہت بڑی چھلانگ ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

جو آج یہاں کسانوں کی بات کرتے ہیں، 2014 سے پہلے یوریا مانگنے پر لوگوں پر لاٹھی چارج کیا جاتا تھا۔ رات بھر قطاروں میں کھڑا رہنا پڑتا تھا اور وہ وقت تھا جب کسانوں کے نام پر کھاد نکلتی تھی لیکن کبھی کھیتوں میں نہیں پہنچتی تھی، لیکن کالا بازاری میں کہیں اور 1 روپے اور 15 پیسے کا ہاتھ بٹانے کا کھیل جاری تھا۔ آج کسانوں کو مناسب کھاد مل رہی ہے۔ کووڈ کا بحران آیا، پوری سپلائی چین میں خلل پڑا، پوری دنیا میں قیمتیں بے حد بڑھ گئیں اور نتیجہ یہ نکلا کہ چونکہ ہم یوریا پر منحصر ہیں، اس لیے ہمیں اسے باہر سے درآمد کرنا پڑتا ہے، آج یوریا کے ایک تھیلے کی قیمت حکومت کے لیے 3000 روپے ہے، حکومت نے بوجھ اٹھا کر کسان کو 300 روپے سے بھی کم قیمت پر دیا۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں کہ کسانوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ملے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

گزشتہ 10 سالوں میں کسانوں کو سستی کھاد فراہم کرنے کے لیے 12 لاکھ کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ پی ایم کسان سمان ندھی، جس کے ذریعے کسانوں کے کھاتوں میں تقریباً 3.5 لاکھ کروڑ روپے براہ راست پہنچ چکے ہیں۔ ہم نے ریکارڈ رقم سے ایم ایس پی میں بھی اضافہ کیا ہے اور پچھلی دہائی میں پہلے سے تین گنا زیادہ خریداری کی ہے۔ کسانوں کو قرضے ملیں، آسان قرضے، سستے قرضے، اس میں بھی تین گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل قدرتی آفات کی صورت میں کسان کو اس کے اپنے آلات پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ ہمارے دور میں کسانوں کو پی ایم کراپ انشورنس کے تحت 2 لاکھ کروڑ روپے ملے ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

پچھلی دہائی میں آبپاشی کے لیے بے مثال اقدامات کیے گئے ہیں اور یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ آئین کی بات کرنے والوں کو زیادہ علم نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں پانی کی اسکیموں کے لیے ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر کا وژن اتنا واضح، اتنا جامع اور اتنا وسیع  تھا کہ اس نے ہمیں ایک بڑی مہم شروع کرنے کی ترغیب دی۔ کئی دہائیوں سے زیر التوا ہے تاکہ کسانوں کے کھیتوں تک پانی پہنچ سکے۔ بابا صاحب کا وژن دریاؤں کو جوڑنے کا تھا؛ بابا صاحب امبیڈکر نے اس کی وکالت کی تھی۔ لیکن برسوں، دہائیاں اور دہائیاں گزر گئیں، کچھ نہیں ہوا۔ آج ہم نے کین-بیتوا لنک پروجیکٹ اور پاروتی-کالی سندھ-چمبل لنک پروجیکٹ پر کام شروع کیا ہے اور میں نے اس طریقے سے گجرات میں کئی دریاؤں کو جوڑ کر معدوم ہونے والے دریاؤں کو زندہ کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

یہ ملک کے ہر شہری کا خواب ہونا چاہیے۔ یہ ہم سب کا خواب ہونا چاہیے کہ دنیا کے ہر کھانے کی میز پر میڈ ان انڈیا کھانے کے پیکٹ ہوں۔ آج مجھے خوشی ہے کہ ہندوستانی چائے کے ساتھ ساتھ اب ہماری کافی بھی دنیا میں اپنی خوشبو بکھیر رہی ہے۔ ہماری ہلدی کی بھی کووڈ کے بعد سب سے زیادہ مانگ دیکھنے میں آئی ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

آپ یقیناً دیکھیں گے کہ آنے والے وقت میں ہمارا پراسیسڈ سی فوڈ اور بہار کا مکھانہ، جس کے بارے میں کچھ لوگ پریشان ہو گئے اور نہ جانے کب اور کیسے، دنیا تک پہنچنے والا ہے۔ ہمارا موٹا اناج، یعنی سری اَنّ، عالمی منڈیوں میں ہندوستان کا وقار بھی بڑھائے گا۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

مستقبل کے لیے تیار شہر بھی ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے بہت اہم ہیں۔ ہمارا ملک بہت تیزی سے اربنائزیشن کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کو چیلنج اور بحران نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ اسے ایک موقع سمجھنا چاہیے اور ہمیں اس سمت میں مزید کام کرنا چاہیے۔ انفراسٹرکچر کی توسیع مواقع کی توسیع کا باعث بنتی ہے۔ جہاں رابطہ بڑھتا ہے وہاں امکانات بھی بڑھتے ہیں۔ دہلی-یوپی کو جوڑنے والی پہلی نمو ریل کا افتتاح ہوا اور مجھے اس میں سفر کرنے کا موقع بھی ملا۔ ایسا رابطہ، ایسا انفراسٹرکچر ہندوستان کے تمام بڑے شہروں تک پہنچنا چاہیے، یہ آنے والے دنوں میں ہماری ضرورت ہے ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

دہلی کا نیٹ ورک دوگنا ہو گیا ہے اور آج میٹرو نیٹ ورک ٹیئر-2 اور ٹیئر-3 شہروں تک پہنچ رہا ہے۔ آج ہم سب فخر کر سکتے ہیں، آج ہندوستان کا میٹرو نیٹ ورک 1000 کلومیٹر کو عبور کر چکا ہے اور یہی نہیں، فی الحال مزید 1000 کلومیٹر پر کام جاری ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم کتنی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ہندوستانی حکومت نے بھی آلودگی کو کم کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ ہم نے ملک میں 12 ہزار الیکٹرک بسیں چلانی شروع کی ہیں اور دہلی کی بھی بڑی خدمت کی ہے، ہم نے دہلی کو بھی دی ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ہمارے ملک میں ایک نئی معیشت وقتاً فوقتاً پھیلتی رہتی ہے۔ آج گِگ اکانومی بڑے شہروں میں ایک اہم شعبے کے طور پر ترقی کر رہی ہے۔ لاکھوں نوجوان اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ ہم نے اس بجٹ میں کہا ہے کہ ایسے گِگ ورکرز کو ای شرم پورٹل پر اپنا اندراج کرانا چاہیے اور تصدیق کے بعد ہم اس نئے دور کی سروس اکانومی میں ان کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں اور انہیں ای شرم پورٹل پر آنے کے بعد شناختی کارڈ ملنا چاہیے اور ہم نے کہا ہے کہ ان گِگ ورکرز کو آیوشمان یوجنا کا فائدہ بھی دیا جائے گا تاکہ گِگ ورکرز کو یہ سہولت ملے کہ وہ صحیح سمت میں گامزن ہو جائیں اور یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ آج ملک میں ایک کروڑ گِگ ورکرز کام کر رہے ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ایم ایس ایم ای سیکٹر روزگار کے بہت زیادہ مواقع لاتا ہے اور یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں روزگار کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ یہ چھوٹی صنعتیں خود انحصار ہندوستان کی علامت ہیں۔ ہمارا ایم ایس ایم ای سیکٹر ملک کی معیشت میں بہت بڑا حصہ ڈال رہا ہے۔ ہماری پالیسی واضح ہے ، ایم ایس ایم ای کے لیے سادگی، سہولت اور تعاون ایک ایسا شعبہ ہے جس میں روزگار کے مواقع موجود ہیں اور اس بار ہم نے مشن مینوفیکچرنگ پر زور دیا ہے اور ایک مشن موڈ میں، ہم مینوفیکچرنگ سیکٹر یعنی ایم ایس ایم ای کو تقویت دینے جا رہے ہیں اور ایسے نوجوانوں کو روزگار فراہم کر رہے ہیں جس کے ذریعے ایم ایس ایم ای کی ترقی کے ذریعے پوری طرح سے نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جا رہا ہے۔ ہم نے ایم ایس ایم ای کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے پہلوؤں پر کام شروع کر دیا ہے۔ ایم ایس ایم ای کے لیے معیار 2006 میں بنایا گیا تھا، اسے اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا ہے۔ پچھلے 10 سالوں میں، ہم نے دو بار اس معیار کو اپ گریڈ کرنے کی کوشش کی ہے اور اس بار ہم نے بہت بڑی چھلانگ لگائی ہے۔ 2020 میں پہلی بار، دوسری بار اس بجٹ میں، ہم نے ایم ایس ایم ای کو آگے لے جانے کی کوشش کی ہے۔ انہیں ہر جگہ مالی امداد دی جا رہی ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ایم ایس ایم ای کو درپیش چیلنج رسمی مالی وسائل کی کمی ہے۔ کووڈ بحران کے دوران، ایم ایس ایم ای پر خصوصی زور دیا گیا۔ ہم نے کھلونوں کی صنعت پر خصوصی توجہ دی ہے۔ ہم نے ٹیکسٹائل انڈسٹری پر خصوصی زور دیا، انہیں کیش فلو کی کمی کا سامنا نہیں ہونے دیا اور بغیر کسی گارنٹی کے قرضے دیئے۔ روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوئے اور ہزاروں صنعتوں میں ملازمتیں بھی محفوظ ہوئیں۔ چھوٹی صنعتوں کے لیے ہم نے کسٹمائزڈ کریڈٹ کارڈ، کریڈٹ گارنٹی کوریج کی سمت میں قدم اٹھایا، تاکہ ان کے کاروبار میں آسانی پیدا ہو اور غیر ضروری اصولوں، ان کے انتظامی بوجھ کو کم کر کے، انہیں اپنے کام کے لیے ایک یا دو لوگوں کو ادائیگی کرنی پڑتی تھی، وہ بھی بند کر دی گئی۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ہم نے 2014 سے پہلے ایک وقت تھا جب ہم کھلونے جیسی چیزیں درآمد کرتے تھے آج میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے ملک کی چھوٹی کھلونے بنانے والی صنعتیں پوری دنیا میں کھلونے برآمد کر رہی ہیں اور درآمدات میں بہت زیادہ کمی آئی ہے۔ برآمدات میں تقریباً 239 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایم ایس ایم ای کے ذریعے چلائے جانے والے بہت سے شعبے ہیں، جو پوری دنیا میں اپنی شناخت بنا رہے ہیں۔ ہندوستان میں بنے کپڑے، الیکٹرانکس، الیکٹریکل اسکاؤٹس کی اشیاء آج دوسرے ممالک کی زندگی کا حصہ بن رہی ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ملک ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کو پورا کرنے کے لئے آگے بڑھ رہا ہے اور بڑے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ترقی یافتہ ہندوستان کا خواب حکومت کا خواب نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کے 140 کروڑ شہریوں کا خواب ہے اور اب ہر ایک کو اس خواب کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ توانائی دینا ہوگی اور دنیا میں اس کی مثالیں20 سے 25  سال کے عرصے میں دنیا کے کئی ممالک نے خود کو ترقی یافتہ ملک کے طور پر ظاہر کیا ہے اور ہندوستان میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ ہمارے پاس ڈیموگرافی ہے، جمہوریت ہے، ڈیمانڈ ہے، ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ ہمیں اس یقین کے ساتھ آگے بڑھنا ہے اور ہم اس خواب کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ 2047 تک، جب ملک آزاد ہوگا، اس کو آزادی کے 100 سال ہو جائیں گے اور تب تک ہم ایک ترقی یافتہ ہندوستان بن جائیں گے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

میں اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہمیں بڑے اہداف حاصل کرنے ہیں اور ہم یہ کریں گے ، یہ ہماری تیسری مدت ہے۔ ملک کی ضرورت کے مطابق، ہم ایک جدید ہندوستان، ایک قابل ہندوستان کی تعمیر اور ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے عزم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آنے والے کئی برسوں  تک پابند عہد رہنے والے ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

میں تمام سیاسی جماعتوں، تمام لیڈروں اور ملک کے شہریوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ہر ایک کا اپنا سیاسی نظریہ اور اپنا سیاسی پروگرام ہوگا لیکن قوم سے بڑا کوئی نہیں ہو سکتا۔ ہم سب کے لیے قوم سب سے اعلیٰ ہے اور ہم مل کر ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کو پورا کر رہے ہیں، 140 کروڑ شہریوں کا خواب بھی ہمارا خواب ہے،  جہاں ہر موجودہ رکن پارلیمنٹ ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

صدر کے خطاب کے لیے شکریہ ادا کرتے ہوئے، میں آپ اور ایوان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ شکریہ!

***

ش ح۔ ک ا۔ ع ن

U.NO.6106