Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

لال قلعہ میں ‘آزادہند فوج ’ کی 75ویں سالگرہ کی یاد گارکے موقع پروزیراعظم کی تقریرکامتن

لال قلعہ میں ‘آزادہند فوج ’ کی 75ویں سالگرہ کی یاد گارکے موقع پروزیراعظم کی تقریرکامتن

لال قلعہ میں ‘آزادہند فوج ’ کی 75ویں سالگرہ کی یاد گارکے موقع پروزیراعظم کی تقریرکامتن

لال قلعہ میں ‘آزادہند فوج ’ کی 75ویں سالگرہ کی یاد گارکے موقع پروزیراعظم کی تقریرکامتن


نئی دہلی ،22اکتوبر : لال قلعہ میں ‘آزادہند فوج ’کی 75ویں سالگرہ کے موقع پروزیراعظم کی تقریرکا متن درج ذیل ہے:

          کابینہ کے میرے معاون ، جناب مہیش شرماجی، آزادہند فوج کے رکن اور ملک کے بہادرسپوت اورہم سب کے درمیان جناب لال ٹی رام جی ، سبھاش بابوکے بھتیجے ، بھائی چندرکماربوس جی، بریگیڈیئر آرایس چکاراجی اور یہاں موجود حاضرین ، فوج کے سلامتی دستوں کے سابق افسران ، دیگر اہم شخصیات، بھائیواوربہنو۔

          آج 21اکتوبر کا تاریخی دن ، لال قلعہ پرپرچم کشائی کایہ موقع ، آپ تصورکرسکتے ہیں کہ میں اپنے آپ کو کتناخوش قسمت مانتاہوں ؟یہ وہی لال قلعہ ہے ، جہاں پرvictory paradeکاخواب نیتاجی سبھاش چند بوس نے 75سال قبل دیکھاتھا ۔ آزاد ہندسرکارکے پہلے وزیراعظم کی شکل میں حلف لیتے ہوئے نیتا جی نے اعلان کیاتھا کہ اسی لال قلعہ پرایک دن پوری شان سے ترنگاپھہرایاجائیگا۔ آزاد ہند سرکاراکھنڈبھارت کی سرکارتھی ، غیرمنقسم بھارت کی سرکارتھی ۔ میں وطن   والوں کو آزادہند سرکارکے 75سال مکمل ہونے پربہت بہت مبارکباد پیش کرتاہوں ۔

          ساتھیو، اپنے نصب العین  کے تئیں جس شخص کا اتنا صاف وژن تھا ۔مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جو اپنا سب کچھ داو پرلگانے کے لئے نکل گیا ہو ، جو صرف اورصرف ملک کے لئے  وقف ہو، ایسے شخص کو یادکرنے سے ہی نسل درنسل ترغیب  پاتی ہے ۔ آج میں سلام کرتاہوں ان والدین کو ،  جنھوں نے نیتاجی جیسا بیٹا اس ملک کو دیا۔ جنھوں نے قوم کے لئے قربانی دینے والے بہادرمردوں وبہادرخواتین کو جنم دیا۔ میں سر جھکاتا ہوں ان فوجیوں اوران کے افراد کنبہ کے سامنے جنھوں نے آزادی کی لڑائی میں سب کچھ نچھاورکردیا۔ میں پوری دنیا میں پھیلے ان بھارتی باشندوں کو بھی یاد کرتاہوں جنھوں نے نیتا جی کے مشن کو تن من دھن سے تعاون کیاتھا اور آزاد، خوشحال ، مستحکم بھارت بنانے میں اپنا قیمتی تعاون دیاتھا۔

          ساتھیو، آزاد ہند سرکار، یہ آزاد ہند سرکار، یہ صرف نام نہیں تھا بلکہ نیتا جی کی قیادت  میں اس حکومت کے ذریعہ ہرعلاقے سے جڑے منصوبے وضع کئے گئے تھے ۔ اس سرکارکااپنا بینک تھا ، اپنی کرنسی تھی ، اپنا ڈاک ٹکٹ تھا، اپنا خفیہ نظام تھا۔ ملک کے باہر رہ کر ، محدود ذرائع کے ساتھ ، مستحکم حکومت کے خلاف اتنا منظم نظام قائم کرنا ، زبردست انقلاب ،بے مثال ، میں سمجھتاہوں کہ یہ غیرمعمولی کام تھا۔

          نیتاجی نے ایک ایسی سرکارکے خلاف لوگوں کو متحد کیا ، جس کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتاتھا، دنیا کے ایک بڑے حصے میں جس کی حکومت قائم تھی ۔ اگرنیتا جی کی خودکی تحریرپڑھیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ بہادری کے عروج پرپہنچنے کی بنیاد کیسے ان کے بچپن میں پڑگئی تھی ۔

          سال 1912کے آس پاس  ، آج سے 106سال پہلے ، انھوں نے اپنی ماں کو خط لکھاتھا ، وہ ایک خط اس بات کا گواہ ہے کہ سبھاش بابوکے دل میں غلام بھارت کی حیثیت کولے کر کتنی  تکلیف تھی ، کتنی بیچینی تھی ، کتنا درد تھا ۔ دھیان رکھئے گا ،وہ اس وقت صرف 16-15کی عمرکے تھے۔

          سیکڑوں برسوں کی غلامی نے ملک کا جو حال کردیاتھا ، اس کا درد انھوں نے اپنی والدہ کو تحریرکئے گئے خط میں ظاہرکیاتھا۔ انھوں نے اپنی والدہ سے خط میں سوال پوچھاتھا کہ ماں کیاہمارا ملک دنوں دن اورزیادہ زوال کی جانب بڑھتاجائیگا؟کیایہ غمزدہ بھارت ماتا کا کوئی ایک بھی پترایسا نہیں ہے جو پوری طرح اپنے مفادکو درکنارکرکے ، تاحیات اپنی زندگی بھارت ماں کی خدمت میں وقف کردے ؟بولوماں ، ہم کب تک سوتے رہیں گے ؟16-15کی عمرمیں سبھاش بابونے اپنی والدہ سے  یہ سوال پوچھاتھا ۔

          بھائیواوربہنو، اس خط میں انھوں نے والدہ سے پوچھے گئے سوالوں کا جواب بھی دے دیاتھا۔ انھوں نے اپنی والدہ  کو واضح کردیاتھا کہ اب ، اب اورانتظار نہیں کیاجاسکتا، اب اور سونے کا وقت نہیں ہے ، ہم کو اپنی نیند سے جاگناہی ہوگا، کاہلی کو چھوڑنا ہی ہوگااور عمل میں جٹ جاناہوگا۔ یہ سبھاش بابو ، 16-15سال کے !اپنے اند رکی اس زبردست آرزونے کم عمر سبھاش بابوکو نیتاجی سبھاش چند بنادیا۔

          نیتاجی کا ایک  ہی مقصد تھا ، ایک ہی مشن تھا ۔۔بھارت کی آزادی ۔ماں بھارت کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانا۔ یہی ان کے نظریات تھے اور یہ ان کامیدان عمل بھی تھا۔

          ساتھیو، سبھاش بابوکو اپنی زندگی کا مقصد طے کرنے ، اپنے وجود کو وقف کرنے کا اصول سوامی وویکانند اوران تعلیمات سے ملا۔

آتم نوموکشادرم جگت ہتائے چہ۔یعنی دنیا کی خدمت سے ہی نجات کا راستہ کھلتاہے ۔ ان کی فکرکی خاص بنیاد تھی ۔  خدمت  خلق۔ اپنے بھارت کی خدمت کے اسی جذبے کی وجہ سے وہ ہرتکلیف سہتے گئے ، ہرچنوتی کو عبورکرتے گئے ، ہرسازش کو ناکام کرتے گئے ۔

بھائیواوربہنو، سبھاش بابوان فوجیوں میں رہے ، جنھوں نے وقت کے ساتھ خود کو بدلا اور اپنے مقصد کو دھیان میں رکھتے ہوئے اپنے قدم اٹھائے ۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے انھوں نے مہاتماگاندھی کے ساتھ کانگریس میں رہ کر ملک میں ہی  کوشش  کی اور پھرحالا ت کے مطابق انھوں نے  مسلح انقلاب کا راستہ منتخب کیا۔ اس راستے نے آزادی کی تحریک کو اورتیز کرنے میں  اہم کرداراداکیا۔

ساتھیو، سبھاش بابو نے جو عالمی سطح پرغوروخوض کیا ، اس کا امرت صرف بھارت نے ہی نہیں چکھا بلکہ اس کافائدہ اوربھی دوسرے ممالک کو ہوا۔   جو ممالک اس وقت  اپنی آزادی کی جنگ میں لگے ہوئے تھے ، انھیں سبھاش چندبوس کو دیکھ کر ترغیب ملتی تھی ۔ انھیں لگتاتھا کہ کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ۔ ہم بھی متحد ہوسکتے ہیں ، انگریزوں کو للکارسکتے ہیں ، آزاد ہوسکتے ہیں ۔ عظیم مجاہدآزادی نین سن منڈیلا ، بھارت رتن نین سن منڈیلا جی نے بھی کہاتھا کہ جنوبی افریقہ کے طلبأ تحریک کے دوران وہ بھی سبھاش بابو کو اپنا رہنمامانتے تھے ، اپنا ہیرومانتے تھے ۔

بھائیواوربہنو، آج ہم آزاد ہند سرکارکی 75ویں سالگرہ  کاجشن منارہے ہیں توچارسال بعد 2022میں آزاد بھارت کے 75برس پورے ہونے والے ہیں ۔ آج سے 75سال قبل نیتاجی نے  حلف لیتے ہوئے وعدہ کیاتھا ایک ایسا بھارت بنانے کا ، جہاں سبھی کے پاس مساوی حقوق ہوں سبھی کے پاس یکساں مواقع ہوں ۔ انھوں نے وعدہ کیاتھا کہ اپنی قدیم روایات سے ترغیب لے کران کو اورفخرکرنے والے آسودہ  اورخوشحال بھارت کی تعمیرکرنے کا ۔ انھوں نے وعدہ کیاتھا ملک کی متوازن ترقی کا ، ہرعلاقے کی ترقی کا ۔ انھوں نے وعدہ کیاتھا ، ‘بانٹواور راج کرو’ کی اس پالیسی کو ، اسے جڑسے اکھاڑپھینکنے کا ، جس کی وجہ سے بھارت کو اس ‘بانٹوں اور راج کرو’ کی سیاست  نے  صدیوں تک غلام رکھاتھا۔

          آج آزادی کے اتنے برس  بعد بھی نیتا جی کا خواب شرمندۂ تعبیرنہیں ہواہے ۔ بھارت متعدد قدم آگے بڑھاہے ، لیکن ابھی نئی اونچائیوں پرپہنچناباقی ہے ۔ اسی مقصد کوحاصل کرنے کے لئے آج بھارت کی سواسوکروڑعوام نئے بھارت کے عہد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ ایک ایسا نیا بھارت جس کاتصور نیتاجی سبھاش چند بوس نے بھی کیاتھا۔

          آج ایک ایسے وقت میں جب کہ تباہ کن طاقتیں ملک کے باہر اور اندر سے ہماری آزادی ، اتحاد اور آئین پرحملہ کررہی ہیں ، بھارت کے ہرشہری کا یہ فرض ہے کہ نیتاجی سے ترغیب پاکر ان طاقتوں سے لڑنے ، انھیں شکست دینے اور ملک کی ترقی میں اپنا مکمل تعاون دینے کا عہد  بھی کرے ۔

لیکن ساتھیو ، ان  عہدوپیمان کے ساتھ ہی ایک بات اوراہم ہے ۔یہ بات ہے قومیت کا جذبہ ، ہندوستانیت کا جذبہ۔یہیں لال قلعہ پرمقدمے کی سنوائی کے دوران ، آزاد ہند فوج کے فوجی شاہنواز خاں نے کہاتھا کہ سبھاش چند بوس وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے بھارت کے ہونے کا احساس ان کےدل میں بیدارکیا۔

          وہ پہلے شخص تھے ، جنھوں نے بھارت کو بھارتیہ کی نظرسے دیکھناسکھایا۔ آخروہ کون سے حالات تھے ، جس کی وجہ سے شاہنواز خاں جی نے ایسی بات کہی تھی ۔ بھارت کو بھارتیہ کی نظرسے دیکھنا اورسمجھنا کیوں ضروری تھا ، یہ آج جب ہم ملک کی حالت دیکھتے ہیں تو اورواضح شکل سے سمجھ پاتے ہیں ۔

بھائیواوربہنو، کیمبرج کے اپنے دنوں کو یاد کرتے ہوئے سبھاش بابو نے لکھاتھا کہ ہم بھارتیوں کو یہ سکھایاجاتاہے کہ یورپ ، Great Britainکی  ہی بڑی حیثیت ہے ، اس لئے ہماری عادت یورپ کو انگلینڈ کے چشمے سے دیکھنے کی ہوگئی ہے ۔ یہ ہماری بدقسمتی رہی کہ آزادی کے بعد بھارت اور یہاں کے  انتظاموں کے تعمیرکرنے والوں نے بھارت کو بھی انگلینڈ کے چشمے سے ہی دیکھا۔

          ہماری تہذیب ، ہماری عظیم زبانوں ، ہماراتعلیمی نظام ، ہمارے نصاب ، ہمارے نظام کواس چھوت میں مبتلاہونے کا بہت نقصان اٹھاناپڑا ۔آج میں اطمینان کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ آزاد بھارت کے بعددہائیوں میں اگرملک کو سبھاش بابو، سردارپٹیل جیسی  عظیم شخصیات کی  رہنمائی ملی ہوتی تو بھارت کودیکھنے کے لئے بیرونی چشمے نہیں ہوتااور حالات بہت مختلف ہوتے ۔

          ساتھیو، یہ بھی افسوسناک ہے کہ ایک  کنبے کو بڑا بنانے کے لئے ملک کے مختلف سپوتوں ۔ وہ چاہے سردارپٹیل ہوں ، باباصاحب امبیڈکرہوں، انھیں کی طرح ہی نیتاجی  کے تعاون کو بھی بھلانے کی پوری کوشش کی گئی ۔ اب ہماری سرکار حالات کو بدل رہی ہے ۔ آپ سبھی کو اب پتاچلاہوگا، یہاں آنے سے پہلے میں قومی  پولیس یادگار وقف سے متعلق  پروگرام میں شریک  تھا ۔ میں نے نیتاجی سبھاش بوس کے نام پر قومی اعزاز   شروع کرنے کا وہاں ایک اعلان کیاہے ۔

          ہمارے ملک میں جب نیشنل Calamityہوتی ہے ،  آفات کے انتظام اورراحت اوربچاوکے کام میں جو لگتے ہیں ، دوسروں کی جان بچانے کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے والے ایسے جانثاروں کو ، پولیس کے جوانوں کو اب ہرسال نیتاجی کے نام سے ایک  اعزاز دیاجائیگا۔ ملک کی شان بڑھانے والے ہمارے پولیس کے جوان ، پاراملیٹری فورس کے جوان اس کے حقدارہوں گے ۔

          ساتھیو، ملک کی متوازن ترقی سماج کی ہرایک سطح پر ، ہرایک شخص کو قومی تعمیرکا موقع ، قوم کی ترقی میں اس کا کرداربیتاجی کے وسیع  ایک ویژن کا ایک اہم حصہ ہے ۔ نیتا کی قیادت میں بنی آزاد ہند سرکارنے بھی مشرقی بھارت کو بھارت کی آزادی کا گیٹ وے بنایاتھا۔اپریل 1944میں کرنل شوکم ملک کی قیادت میں منی پورکے موئے رانگ میں آزاد ہند فوج نے ترنگاپھہرایاتھا۔

          یہ بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسے شجاع کو آزادی کی تحریک میں جنوب مشرق اورمشرقی بھارت کے معاون کو وہ مقام نہیں  مل پایا ۔ ترقی کی دوڑمیں بھی ملک کا یہ اہم حصہ پیچھے رہ گیاہے آج مجھے اطمینان ہوتاہے کہ جس مشرقی بھارت کی اہمیت کو سبھاش بابونے سمجھا، اسے موجودہ سرکاربھی اتنی ہی اہمیت دے رہی ہے ، اسی سمت میں لے جارہی ہے ، اس علاقے کو ملک کی ترقی کا Growth Engineبنانے کے لئے کام کررہی ہے ۔

          بھائیواوربہنو، میں خود کو خوش قسمت مانتاہوں کہ ملک کے لئے نیتاجی جو کچھ بھی دیا ، اس کو ملک کے سامنے رکھنے کا ، ان کے دکھائے راستوں پر چلنے کا مجھے باربارموقع ملاہے ۔ اوراس لئے جب مجھے آج کی اس تقریب میں آنے کے لئے مدعوکیاگیا تومجھے گجرات کے دنوں میں نیتاجی سبھاش چند بوس کے کاموں کی یاد بھی تازہ ہوگئی ۔

          ساتھیو، جب میں گجرات میں وزیراعلیٰ تھا ، تب 2009میں تاریخی ہری پورہ کانگریس ، کانگریس کاجلسہ تھا ۔ ہری پورہ کانگریس کے جلسے کی یاد کو ہم نے ایک طرح سے پھرزندہ کیاتھا۔ اس جلسے میں جس طرح سردارولبھ بھائی پٹیل نے ، گجرات کے لوگوں نے نیتاجی کوکانگریس کاصدربننے کے بعد بیل گاڑیوں میں بیٹھ کرکے بہت بڑا جلوس نکالاتھا ، ویسا ہی ، یعنی جو ایک زبردست تقریب کا انعقاد کیاتھا، ٹھیک ویسا ہی منظرہم نے دوبارہ 2009میں ، وہیں پرکھڑا کرکے تاریخ کا احیأ کیاتھا ۔ بھلے ہی وہ کانگریس کا جلسہ تھا ، لیکن وہ تاریخ کا صفحہ تھا ، ہم نے اس کو جی کرکے دکھایاتھا۔

ساتھیو،آزادی کے لئے جو وقف ہوئے ، وہ ان کی خوش قسمتی تھی ۔ ہم جیسے لو گ جنھیں یہ موقع نصیب نہیں ہوا ہے ، ہمارے پاس ملک کے لئے جینے کا ، ترقی کے لئے وقف ہونے کا ، ہم سب کے لئے راستہ کھلاپڑاہے ۔ لاکھوں قربانیاں دے کر ہم  سوراج تک پہنچے ہیں ۔ اب ہم سبھی پر، سوا سوکروڑبھارتیوں پراس آزادی کو اچھی طرح بنائے رکھنے کا چیلنج ہے ۔ نیتاجی نے کہاتھا۔ ‘ہتھیاروں کی  طاقت اور خون کی قیمت سے تمہیں آزادی حاصل کرنی ہے ۔ پھرجب بھارت آزاد ہوگا توملک کے لئے تمہیں مستقل فوج بنانی ہوگی ، جس کا کام ہوگاہماری آزادی کو ہمیشہ قائم رکھنا’۔

          آج میں کہہ سکتاہوں کہ بھارت ایک ایسی فوج کی تعمیرکی طرف بڑھ رہاہے جس کاخواب نیتاجی سبھاش چند بوس نے دیکھاتھا۔ جوش ، جنون اورجذبہ ، یہ توہماری فوجی روایت کا حصہ رہاہی ہے ، اب تکنیکی اورجدیدہتھیاروں کی  طاقت بھی اس کے ساتھ شامل کی جارہی ہے ۔ ہماری فوجی قوت ہمیشہ سے ہی اپنے تحفظ کے لئے ہی رہی ہے اورآگے بھی رہے گی ۔ ہمیں کبھی کسی دوسرے کی زمین کا لالچ نہیں رہا۔ ہماری صدیوں پرانی تاریخ ہے ، لیکن بھارت کی سلامتی کے لئے جو بھی چنوتی بنے گا اس کو دوگنی طاقت سے جواب ملے گا۔

          ساتھیو، فوج کو مستحکم بنانے کے لئے گذشتہ چاربرسوں میں متعدد اقدام کئے گئے ہیں ۔ دنیا کی اعلا تکنالوجی کو بھارتیہ فوج کا حصہ بنایاجارہاہے ۔ فوج کی قوت ہو یاپھربہادرجوانوں کی زندگی کو سہل اورآسان بنانے کاکام ہو، بڑے اورکڑے  فیصلے لینے کا حوصلہ اس سرکارمیں ہے اور یہ آگے بھی برقراررہے گا ۔ سرجیکل اسٹرائک سے لے کر نیتاجی سے جڑی فائلوں کو عام کرنے تک کا فیصلہ ہماری ہی سرکارنے لیاہے ۔ یہاں موجود متعدد سابق فوجی اس بات کے بھی گواہ ہیں کہ دہائیوں سے چلی آرہی ‘ون رینک ون پنشن ’ کی مانگ کوسرکارنے اپنے وعدے کے مطابق پوراکردیاہے ۔

          اتناہی نہیں ، قریب 11000کروڑروپے کا ایئریربھی سابق فوجیوں تک پہنچایاجاچکاہے ، جس سے لاکھوں سابق فوجیوں کافائدہ ملاہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ساتویں تنخواہ کمیشن کی سفارش پرجو پنشن طے کی گئی ہے ،وہ بھی ون رینک ون پنشن لاگوہونے کے بعد طے پنشن کی بنیاد پربڑھی ہے ۔ یعنی میرے فوجی بھائیوں کو پنشن پر ڈبل بونینزہ ملاہے ۔

          ایسی متعدد کوششیں سابق فوجیوں کی زندگی کو پرسکون اورآسان  بنانے کے لئے کی گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ فوجیوں  کی شجاعت اوربہادری  سے آنے والی نسلیں واقف ہوسکیں ، اس کے لئے نیشنل وار میوزیم بھی اپنے حتمی مرحلےمیں  پہنچ چکاہے ۔

          ساتھیو،کل یعنی  22 اکتوبر کو رانی جھانسی ریجمنٹ کے بھی 75سال پورے ہورہے ہیں ۔ مسلح فوج میں خواتین کی بھی مساوی حصہ داری ہو ، اس کی بنیاد بھی نیتاجی سبھاش چند بوس نے ہی رکھی تھی ۔ ملک کی پہلی مسلح مہیلاریجمنٹ بھارت کی خوشحال روایات کے تئیں سبھاش بابو کے عمیق اعتماد کانتیجہ تھا۔ تمام مخالفتوں کودرکنارکرتے ہوئے انھوں خواتین فوجیوں کی سلامی لی تھی ۔

          میں فخرسے کہہ سکتاہوں کہ نیتاجی نے جو کام 75برس پہلے کیاتھا ، اس کو سہی معنوں میں آگے بڑھانے کا کام اس حکومت نے کیاہے ۔ اسی 15اگست ، کو میں نے یہیں لال قلعہ سے ایک بڑااعلان کیاتھا ، میں نے کہاتھا کہ مسلح فوج میں شارٹ سروس کمیشن کے توسط سے تقررخواتین افسروں کو مردوں کے برابرافسروں کی طرح ہی ایک شفاف  انتخابی  عمل کے ذریعہ مستقل کمیشن دیاجائیگا۔

          ساتھیو، یہ سرکارکی ان کوششوں کی تفصیل ہے جو گذشتہ چاربرسوں میں اٹھائے ہیں ۔ مارچ ، 2016میں نیوی میں خواتین کو پائلٹ کرنے کا فیصلہ لیاگیاتھا ۔ کچھ دن پہلے ہی بحریہ کی 6جانباز خواتین افسروں نے سمندرکو جیت کردنیا کو بھارت کی خاتون طاقت سے  واقف کروایاہے ۔ اس کے علاوہ ملک کو پہلی خاتون فائٹرپائلٹ دینے کاکام بھی اسی سرکارکے دوران ہواہے ۔

          مجھے اس بات کابھی  اطمینان ہے کہ آزاد بھارت میں پہلی بار بھارت کی مسلح افواج کو مضبوط بنانے ، دیکھ ریکھ کرنے کا ذمہ بھی ملک کی پہلی وزیردفاع ، سیتارمن جی کے ہاتھ میں ہے ۔

          ساتھیو، آج آپ سبھی کے تعاون سے ، مسلح دستوں کی ہنرمندی اور وابستگی سے ملک پوری طرح سے محفوظ ہے ، اہل ہے اور ترقی کے راستے پرسہی سمت میں تیز رفتارسے اپنے مقصد کو حاصل کرنے  کے لئے  دوڑرہاہے ۔

          ایک بارپھر، آپ سبھی کو ، اہل وطن کو، اس اہم موقع پر دلی مبارکباد پیش کرتاہوں ۔ اتحاد ،سالمیت اور خوداعتمادی کا ہمارا یہ سفرنیتا جی سبھاش چند بوس جی کے آشیروا د سے  لگاتارآگے بڑھے ۔

اسی کے ساتھ میرے ساتھ سب بولیں گے :

بھارت ماتاکی ۔ جئے

بھارت ماتاکی ۔ جئے

بھارت ماتاکی ۔ جئے

وندے ۔ماترم

وندے ۔ ماترم

وندے ۔ماترم

          بہت بہت شکریہ ۔

         

         

**************

U-5411