میرے کابینی ساتھی ڈاکٹر جتیندر سنگھ جی، شکتی کانت داس جی، ڈاکٹر سومناتھن جی، دیگر سینئر افسران، ملک بھر سے جڑے سول سروسز کے تمام ساتھیوں، خواتین و حضرات!
ساتھیو،
آپ سب کو سول سروسز ڈے کی دلی مبارکباد! اس بار کا سول سروسز ڈے کئی لحاظ سے خاص ہے۔ اس سال ہم اپنے آئین کا 75 واں سال منا رہے ہیں اور یہ سال سردار ولبھ بھائی پٹیل جی کی 150 ویں جینتی کا بھی سال ہے۔ 21 اپریل 1947 کو سردار ولبھ بھائی پٹیل نے آپ سب کو ” اسٹیل فریم آف انڈیا” کہا تھا۔
انہوں نے آزاد بھارت کی بیوروکریسی کے لیے نئی قدریں اور نئی حدود متعین کی تھیں۔ ایک ایسا سول سرونٹ جو قوم کی خدمت کو اپنا اعلیٰ ترین فرض سمجھے۔ جو جمہوری اصولوں کے مطابق انتظامیہ چلائے، جو ایمانداری، نظم و ضبط، اور مکمل لگن سے سرشار ہو، جو ملک کے مقاصد کے حصول کے لیے دن رات محنت کرے۔
آج جب ہم ایک وکست بھارت (ترقی یافتہ بھارت) کی تعمیر کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، تو سردار ولبھ بھائی پٹیل کی یہ باتیں اور زیادہ اہم ہو گئی ہیں۔ میں آج سردار صاحب کے وژن کو سلام پیش کرتا ہوں اور انہیں دل کی گہرائیوں سے خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
کچھ وقت پہلے میں نے لال قلعے سے کہا تھا کہ آج کے بھارت کو آنے والے ہزار سال کی بنیاد کو مضبوط کرنا ہے۔ اگر ایک انداز سے دیکھیں، تو ایک ہزار سال کی اس “سہسترابدی (ملینیم )’’کے پہلے 25 سال گزر چکے ہیں۔ یہ نئی صدی کا بھی 25 واں سال ہے اور نئے ملینیم یعنی نئی سہسترابدی کا بھی 25 واں سال ہے۔
ہم آج جو پالیسیاں بنا رہے ہیں، جو فیصلے لے رہے ہیں، وہ آنے والے ہزار سال کے مستقبل کو طے کرنے والے ہیں۔
ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے:
“یَتھا ہِ ایکین چکرین ن رتھسّی گتِربھویت،
ایوَم پُرشکارین وِنا دیوَم ن سدھیتِ“
یعنی جیسے ایک ہی پہیے سے رتھ نہیں چل سکتا، اسی طرح صرف قسمت کے بھروسے بغیر محنت کے کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔
وکست بھارت (ترقی یافتہ بھارت )کے ہمارے ہدف کے لیے، ترقی کے رتھ کے ہر پہیے کو مل کر چلانا ہوگا۔ ہر دن، ہر لمحہ اسی ہدف کے لیے محنت کرنی ہے، اسے حاصل کرنے کے لیے جینا ہے، اور اپنی زندگی وقف کرنی ہے۔
ساتھیو،
آج ہم دنیا کو حیرت انگیز رفتار سے بدلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ آپ اپنے گھروں میں بھی مشاہدہ کرتے ہوں گے کہ اگر گھر میں کوئی 10 سے 15 سال کا بچہ ہے، تو جب آپ اُس سے گفتگو کرتے ہیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید آپ وقت سے پیچھے رہ گئے ہیں، آپ “آؤٹ ڈیٹڈ” ہو گئے ہیں۔
ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ زمانہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہر دو سے تین سال میں نئے گیجٹس (آلات) آ جاتے ہیں۔ ہم کسی ایک چیز کو سیکھ ہی پاتے ہیں کہ اس سے پہلے کوئی نیا آلہ یا ٹیکنالوجی سامنے آ جاتی ہے۔
ہمارے ننھے منے بچے اسی تیزرفتار تبدیلیوں کے ماحول میں پرورش پا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہماری بیوروکریسی، ہمارا نظامِ کار، اور ہماری پالیسی سازی بھی پرانے طریقۂ کار پر نہیں چل سکتی۔
اسی لیے 2014 کے بعد سے ملک میں نظامِ حکومت میں ایک بڑی تبدیلی، ایک عظیم تحریک کا آغاز ہوا ہے۔ ہم خود کو اس تیزی سے بدلتی دنیا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آج بھارت کی پُرامنگ سوسائٹی، ہمارے نوجوان، ہمارے کسان، ہماری خواتین — ان کے خواب جس بلند مقام پر ہیں، وہ واقعی غیر معمولی ہیں۔ اور ان غیر معمولی خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے غیر معمولی رفتار بھی درکار ہے۔
آنے والے برسوں میں بھارت بہت سے اہم سنگِ میل عبور کرے گا — توانائی کے تحفظ کے اہداف، صاف و شفاف توانائی (کلین انرجی) کے مقاصد، کھیلوں سے لے کر خلائی سائنس تک — ہر شعبے میں بھارت کو نئی بلندیوں تک پہنچنا ہے اور دنیا کے سامنے اپنی قابلیت کا لوہا منوانا ہے۔
اور جب میں یہ باتیں کرتا ہوں، یا ملک ان خوابوں کے بارے میں سوچتا ہے، تو ہر ایک کی نظریں آپ پر ٹکی ہوتی ہیں، سب کا اعتماد آپ پر ہوتا ہے، اور ایک بڑی ذمہ داری آپ سب سرکاری افسران و شراکت داروں پر عائد ہوتی ہے۔
آپ کو ہندوستان کو جلد از جلد دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بنانا ہے۔ اور اس عظیم مقصد میں کسی قسم کی تاخیر نہ ہو — یہ یقینی بنانا آپ سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ساتھیو،
مجھے خوشی ہے کہ اس بار سول سروسز ڈے کی تھیم “ہولیسٹک ڈیولپمنٹ آف انڈیا“ رکھی گئی ہے۔ یہ صرف ایک تھیم نہیں ہے، بلکہ ہمارا عزم ہے، ملک کے عوام سے کیا گیا ہمارا وعدہ ہے۔
“ہولیسٹک ڈیولپمنٹ آف انڈیا“ یعنی
کوئی گاؤں پیچھے نہ رہ جائے،
کوئی خاندان پیچھے نہ رہ جائے،
اور کوئی شہری پیچھے نہ رہ جائے۔
اصل ترقی کا مطلب صرف چھوٹے موٹے بدلاؤ نہیں ہوتے، بلکہ ایک ہمہ گیر اور بھرپور اثر (فل اسکیل امپیکٹ )ہوتا ہے۔
ہر گھر میں صاف پانی پہنچے،
ہر بچے کو معیاری تعلیم ملے،
ہر کاروباری (انٹرپرینر ) کو مالی سہولت حاصل ہو،
اور ہر گاؤں کو ڈیجیٹل معیشت کا فائدہ ملے —
یہی وہ باتیں ہیں جو “ہولیسٹک ڈیولپمنٹ” کا حقیقی مطلب ہیں۔
میری رائے میں، گورننس میں کوالٹی صرف اسکیمیں لانچ کرنے سے نہیں آتی، بلکہ گورننس میں کوالٹی کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ اسکیم عوام تک کتنی گہرائی سے پہنچی، اور اس کا حقیقی اثر (ریئل امپیکٹ) کیا ہوا۔
آج راجکوٹ ہو، گومتی ہو، تینسوکیا ہو، کوراپٹ ہو — ملک کے کتنے ہی اضلاع میں ہم یہی حقیقی اثر دیکھ رہے ہیں۔ اسکولوں میں حاضری بڑھانے سے لے کر سولر پاور کے استعمال تک، کئی اضلاع نے شاندار کام کیا ہے۔ جو ہدف طے کیے گئے، اُنہیں پورا کر کے دکھایا ہے، اور اُن میں سے کئی اضلاع کو آج انعامات سے نوازا گیا ہے۔
میں ان تمام اضلاع اور اسکیموں سے جڑے ہوئے تمام افسران اور ساتھیوں کو دل کی گہرائیوں سے خصوصی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
گزشتہ 10 برسوں میں بھارت نے صرف چھوٹے موٹے تبدیلیوں (انکریمینٹل چینج) سے آگے بڑھ کر ایک ہمہ گیر اور مؤثر تبدیلی (امپیکٹفل ٹرانسفارمیشن) کا سفر طے کیا ہے۔ آج بھارت کا گورننس ماڈل اگلی نسل کی اصلاحات پر مرکوز ہے۔
ہم ٹیکنالوجی، اختراعات اور جدید طریقۂ کار کے ذریعے حکومت اور عوام کے درمیان فاصلے کو ختم کر رہے ہیں۔ اس کا اثر نہ صرف دیہی اور شہری علاقوں میں دکھائی دے رہا ہے، بلکہ ملک کے دور دراز خطوں میں بھی یہ تبدیلی واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے۔
آپ سے اکثر ایسپریشنل ڈسٹرکٹ پر بات چیت ہوئی ہے، لیکن آج ایسپریشنل بلاکس کی کامیابی بھی کچھ کم نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ پروگرام جنوری 2023 میں شروع کیا گیا تھا، یعنی صرف دو سال پہلے۔
محض دو سالوں میں ان بلاکس نے جو تبدیلیاں دکھائی ہیں، وہ واقعی قابلِ فخر اور بے مثال ہیں۔ ان علاقوں میں صحت، غذائیت، سماجی ترقی اور بنیادی ڈھانچے جیسے کئی شعبوں میں شاندار پیش رفت ہوئی ہے — بلکہ کچھ جگہوں پر تو ریاست کی اوسط سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔
مثال کے طور پر:
یہ صرف اعداد و شمار نہیں ہیں، بلکہ یہ ہماری لاسٹ مائل ڈیلیوری کے عزم کی کامیابی کے ثبوت ہیں۔
یہ اس بات کے ثبوت ہیں کہ اگر نیت صحیح ہو، منصوبہ بندی مؤثر ہو اور عمل درآمد سنجیدگی سے ہو، تو ملک کے سب سے دور افتادہ علاقوں میں بھی خواہش کردہ تبدیلی ممکن ہے۔
ساتھیو،
گزشتہ 10 برسوں میں بھارت نے کئی انقلابی اور تبدیلی لانے والے اقدامات کیے ہیں، اور کامیابیوں کی نئی بلندیاں چھوئی ہیں۔ آج بھارت صرف اقتصادی ترقی کی وجہ سے نہیں جانا جا رہا، بلکہ گورننس، شفافیتاور جدت کے نئے معیارات قائم کرنے کی وجہ سے بھی عالمی سطح پر پہچانا جا رہا ہے۔
جی 20 کی صدارت بھی اس کا ایک بہترین ثبوت ہے۔ بھارت نے 60 سے زائد شہروں میں 200 سے زیادہ میٹنگز منعقد کیں، اتنا بڑا اور شامل (انکلوسیو) دائرہ کار — یہ جی 20 کی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ اور یہی ہے ہولسٹک ایپروچ، یعنی ہمہ گیر نقطۂ نظر۔
عوامی شراکت داری (جن بھاگی داری) کے اصول پر کام کر کے بھارت نے کئی ملکوں سے 10-11 سال آگے کی سوچ اختیار کی ہے۔
گزشتہ 11 سالوں میں، ہم نے دیری کے نظام (ڈلے سسٹم ) کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے نئے طریقۂ کار بنائے، ہم ٹیکنالوجی کے ذریعے کاموں کی رفتار یعنی (ٹرن اراؤنڈ ٹائم)کو کم کر رہے ہیں۔
کاروبار میں آسانی کو فروغ دینے کے لیے ہم نے 40 ہزار سے زیادہ غیرضروری ضوابط (کمپلائنس) کو ختم کیا ہے، اور 3,400 سے زائد قانونی دفعاتکو غیر فوجداریبنا دیا ہے۔
مجھے یاد ہے، جب ہم یہ سب کام کر رہے تھے — یعنی کمپلائنسز کا بوجھ کم کر رہے تھے، کاروبار کے دوران ہونے والی چھوٹی غلطیوں کو جرم کے زمرے سے نکال رہے تھے — تب کچھ حلقوں سے مخالفت کی آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں۔
کئی لوگ کہتے تھے:
“آج تک ایسا نہیں ہوا، آپ کیوں کر رہے ہیں؟
چلتا ہے، چلنے دو۔
آپ کو کیا فرق پڑتا ہے؟
لوگ کمپلائنسز کرتے رہیں، آپ کیوں اپنی ذمہ داری بڑھا رہے ہیں؟“
چاروں طرف سے باتیں ہوتی تھیں، بحثیں چلتی تھیں، اعتراضات بھی ہوتے تھے۔ لیکن جس مقصد کو حاصل کرنا تھا، اس کا وزن ان اعتراضات سے کہیں زیادہ تھا۔
اور اسی لیے ہم نے مخالفت کے دباؤ میں آئے بغیر، اپنے مشن کی طرف قدم بڑھایا۔ کیونکہ اگر ہم پرانی ڈگر پر ہی چلتے رہیں گے، تو نئے نتائج نہیں ملیں گے۔
جب ہم کچھ مختلف کریں گے، تبھی تو مختلف نتائج بھی حاصل ہوں گے۔ اور آج، اسی سوچ کی بدولت، بھارت کی ایز آف ڈوینگ بزنس رینکنگ میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
آج دنیا بھارت میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے بےحد پرجوش ہے، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
ہمیں ریاستی سطح پر، ضلعی اور بلاک سطح پر ریڈ ٹیپ یعنی غیر ضروری سرکاری رکاوٹوں کو مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا۔
تبھی آپ ریاستوں میں، اضلاع میں، اور بلاکس کی سطح پر اپنے اہداف حاصل کر سکیں گے۔
ساتھیو،
گزشتہ 10–11 برسوں میں جو کامیابیاں ملک نے حاصل کی ہیں، اُنہوں نے ترقی یافتہ بھارت کی بنیاد کو نہایت مضبوط بنا دیا ہے۔ اب ملک اس مضبوط بنیاد پر ایک عظیم اور شاندار ترقی یافتہ بھارت کی عمارت تعمیر کرنے جا رہا ہے۔
لیکن اس تعمیراتی سفر میں ہمارے سامنے چیلنجز بھی کم نہیں ہیں۔ بھارت اب دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن چکا ہے۔ ایسے میں بنیادی سہولیات کی مکمل فراہمی ہماری سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیے۔
آپ کو ہمیشہ آخری سرے تک خدمات پہنچانے یعنی لاسٹ مائل ڈیلیوری پر بہت زیادہ توجہ دینی ہوگی۔ وقت کے ساتھ ملک کے عوام کی ضروریات اور اُن کی امنگیں تیزی سے بدل رہی ہیں۔
اب سول سروس کو وقت کے موجودہ چیلنجز کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا، تبھی وہ اپنی افادیت برقرار رکھ سکے گی۔ ہمیں اپنے لیے نئی نئی معیاریں (کسوٹیاں) طے کرتے رہنا ہوگا اور اُن پر خود کو کھرے اُتارتے رہنا ہوگا۔
کامیابی کی سب سے بڑی کنجی یہی ہے کہ انسان خود کو لگاتار چیلنج دیتا رہے۔ کل جو کیا تھا وہ محض اطمینان کے لیے نہیں ہونا چاہیے، بلکہ کل کی کامیابی آج کی نئی آزمائش بننی چاہیے، تاکہ آج ہم کل سے بہتر کر سکیں۔
اب ہم صرف ماضی کی حکومتوں سے موازنہ کر کے اپنی کارکردگی طے نہیں کر سکتے۔ “میرے پہلے ضلع میں فلاں افسر تھے، انہوں نے اتنا کام کیا، میں نے اتنا زیادہ کر لیا” — نہیں! اب ہمیں اپنی معیار خود طے کرنی ہے۔
ہمیں دیکھنا ہے کہ 2047 کے ترقی یافتہ بھارت کے ہدف سے ہم کتنے دور ہیں؟ ہم کہاں تک پہنچے ہیں، اس کا حساب کتاب اب پیچھے رہ گیا ہے۔
اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ جہاں ہم آج ہیں، وہاں سے ہمیں جس مقام تک جانا ہے، اُس کی کتنی مسافت باقی ہے؟ اس فاصلے کو طے کرنے کے لیے میرا منصوبہ (روڈ میپ) کیا ہے؟ میری رفتار کیا ہے؟ اور میں دوسروں سے پہلے 2047 تک کیسے پہنچ کر اپنے تمام اہداف حاصل کر لوں؟ یہی ہمارا خواب، ہمارا مقصد، اور ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔
ہمیں ہر شعبے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ جو اہداف ہم نے طے کیے ہیں، کیا اُن کو حاصل کرنے کے لیے ہماری موجودہ رفتار کافی ہے؟ اگر نہیں ہے، تو ہمیں اپنی رفتار بڑھانی ہوگی۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ آج جو ٹیکنالوجی ہمارے پاس موجود ہے، وہ پہلے کبھی نہیں تھی۔ ہمیں ٹیکنالوجی کی طاقت کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہے۔
گزشتہ دس برسوں میں ہم نے چار کروڑ سے زیادہ غریبوں کو پکے گھر دیے، لیکن اب تین کروڑ نئے گھروں کا ہدف ہمارے سامنے ہے۔
ہم نے پانچ سے چھ سال کے اندر بارہ کروڑ سے زیادہ دیہی گھروں کو نل سے پانی کی سہولت دی، اب ہمیں جلد از جلد گاؤں کے ہر گھر کو نل سے جوڑنا ہے۔
دس سال میں ہم نے گیارہ کروڑ سے زیادہ بیت الخلا بنائے، اب ہمیں کچرے کے انتظام (ویسٹ مینجمنٹ) سے جڑے نئے اہداف کو جلد حاصل کرنا ہے۔
کبھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کروڑوں غریبوں کو پانچ لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولت ملے گی۔ اب ہمیں قوم کے عوام میں غذائیت (نیوٹریشن) کے حوالے سے نئے عزائم کو پورا کرنا ہے۔
ہمارا صرف ایک ہی مقصد ہونا چاہیے — سو فیصد رسائی، سو فیصد اثر (امپیکٹ)۔
اسی سوچ (طریقہ کار) نے دس سال میں پچیس کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے،
اور یہی سوچ (طریقہ کار) بھارت کو غربت سے مکمل طور پر آزاد کرے گی۔
ساتھیو،
ایک وقت تھا جب بیوروکریسی (سرکاری مشینری) کا کردار محض ایک نگران یا ضابطہ کار کا ہوتا تھا، جو صنعتی ترقی اور کاروباری جذبے کی رفتار کو قابو میں رکھتا تھا۔ لیکن اب وہ وقت پیچھے رہ چکا ہے۔ آج ہم ایسا ماحول تیار کر رہے ہیں جو شہریوں میں کاروباری سوچ کو فروغ دے، اور ہر رکاوٹ کو پار کرنے میں ان کی مدد کرے۔ اس لیے سول سروس کو اب صرف ضابطہ کی کتاب رکھنے والے کے طور پر نہیں، بلکہ ترقی کے ایک فعال شراکت دار اور معاون کے طور پر اپنی شناخت قائم کرنی ہوگی۔
میں آپ کو ایم ایس ایم ای سیکٹر کی مثال دینا چاہوں گا۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ملک نے مینوفیکچرنگ کا مشن شروع کیا ہے، اور اس کی کامیابی کا ایک بڑا ستون ہمارا مائیکرو، سمال اور میڈیم انٹرپرائز سیکٹر ہے۔ آج دنیا میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں، ان کے درمیان ہمارے ایم ایس ایم ایز، اسٹارٹ اپس، اور نوجوان کاروباری حضرات کے پاس ایک غیر معمولی اور تاریخی موقع موجود ہے۔
ایسے میں یہ بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم عالمی سپلائی چین میں مزید مقابلہ کرنے کے قابل بنیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارے ایم ایس ایم ایز کا مقابلہ صرف مقامی یا چھوٹے کاروباریوں سے نہیں ہے، بلکہ دنیا بھر سے ہے۔ اگر کسی چھوٹے ملک کی کسی صنعت کے پاس ہم سے بہتر ‘‘ایز آف کمپلائنس ’ یعنی قانون پر عمل درآمد کی آسانی ہے، تو وہ ہمارے اسٹارٹ اپس سے کہیں زیادہ بہتر طریقے سے مقابلہ کرے گا۔
اسی لیے ہمیں مسلسل یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم عالمی بہترین معیار کے مقابلے میں کہاں کھڑے ہیں۔ اگر بھارت کی صنعت کا ہدف دنیا کے بہترین پروڈکٹس بنانا ہے، تو بھارت کی بیوروکریسی کا ہدف دنیا میں سب سے بہتر “آسانی سے قانون پر عمل درآمد والا ماحول” بنانا ہونا چاہیے۔
ساتھیو،
آج کی ٹیکنالوجی سے چلنے والی دنیا میں، سول سرونٹس کے لیے ایسی صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے جو نہ صرف انہیں ٹیکنالوجی کو سمجھنے میں مدد دے، بلکہ اس کا استعمال اسمارٹ اور شمولیتی طرزِ حکمرانی کے لیے بھی کیا جا سکے۔
“ٹیکنالوجی کے دور میں حکمرانی کا مطلب نظام چلانا نہیں، بلکہ امکانات کو بڑھانا ہے۔”
ہمیں ٹیکنالوجی سے واقف ہونا ہوگا تاکہ ہر پالیسی اور اسکیم کو زیادہ مؤثر اور قابل رسائی بنایا جا سکے۔ ہمیں “ڈیٹا پر مبنی فیصلے” کے ماہر بننا ہوگا تاکہ پالیسیوں کا ڈیزائن اور ان پر عمل درآمد زیادہ درست ہو۔
آپ سب دیکھ رہے ہیں کہ آج کے دور میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور کوانٹم فزکس کتنی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ جلد ہی ٹیکنالوجی کے استعمال میں ایک نیا انقلاب آئے گا۔ یہ اُس ڈیجیٹل اور انفارمیشن ایج سے بھی آگے کا زمانہ ہوگا، جس سے ہم آج واقف ہیں۔
لہٰذا ہمیں نہ صرف خود کو بلکہ پورے نظام کو مستقبل کی ٹیکنالوجی کے انقلاب کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ تاکہ ہم نہ صرف شہریوں کو بہترین خدمات فراہم کر سکیں بلکہ ان کی امیدوں پر بھی پورا اتر سکیں۔
ہمیں سول سرونٹس کی صلاحیتوں کو بڑھانا ہوگا تاکہ ہم ایک “فیوچر ریڈی” یعنی مستقبل کے لیے تیار سول سروس تیار کر سکیں۔ اور اسی مقصد سے “مشن کرم یوگی” اور “سول سروس کی صلاحیت سازی کا پروگرام” شروع کیا گیا ہے، جنہیں میں ذاتی طور پر بہت اہم سمجھتا ہوں۔
ساتھیو،
تیزی سے بدلتے ہوئے وقت میں ہمیں عالمی چیلنجز پر بھی گہری نظر رکھنی ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ خوراک، پانی، اور توانائی کی سلامتی اب بھی ایک بڑی عالمی تشویش بنی ہوئی ہے۔ خاص طور پر گلوبل ساؤتھ (جنوبی ممالک) کے لیے یہ ایک بہت بڑا بحران ہے۔
دنیا میں کئی دہائیوں سے جاری تنازعات نے کئی ممالک کے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس کا اثر عوام، ان کی روزمرہ زندگی اور خوشحالی پر پڑتا ہے۔ ہمیں اندرونی اور بیرونی پہلوؤں کے درمیان بڑھتی ہوئی باہمی وابستگی کو سمجھتے ہوئے اپنی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا۔
چاہے وہ موسمیاتی تبدیلی ہو، قدرتی آفات ہوں، وبائی امراض ہوں یا سائبر جرائم کے خطرات — ان سب میں بھارت کو ہمیشہ 10 قدم آگے ہونا پڑے گا۔ ہمیں مقامی سطح پر حکمت عملیاں تیار کرنی ہوں گی، اور ایسا نظام بنانا ہوگا جو ہر بحران کا مقابلہ کر سکے۔
ساتھیو،
میں نے لال قلعے سے پنچ پران (پانچ عہد) کی بات کی ہے۔ ایک ترقی یافتہ بھارت کا عزم، غلامی کی ذہنیت سے نجات، اپنی وراثت پر فخر، اتحاد کی طاقت، اور اپنے فرائض کو ایمانداری سے نبھانا۔ آپ سبھی ان پانچ پرانوں کے اہم علمبردار ہیں۔
“جب بھی آپ دیانت داری کو سہولت پر ترجیح دیتے ہیں، جدّت کو جمود پر فوقیت دیتے ہیں، یا خدمت کو عہدے پر مقدم رکھتے ہیں، تو آپ درحقیقت ملک کو آگے بڑھاتے ہیں۔“
مجھے آپ سب پر پورا بھروسہ ہے۔ خاص طور پر وہ نوجوان افسران جو اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی شروعات کر رہے ہیں، اُن سب سے میں آج ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں — معاشرے میں کوئی بھی ایسا نہیں ہوتا جس کی کامیابی میں سماج کا، سوسائٹی کا کوئی نہ کوئی حصہ نہ ہو۔ سماج کے تعاون کے بغیر، کسی کے لیے ایک قدم بھی آگے بڑھانا ممکن نہیں ہوتا۔ اور اسی لیے ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق سماج کو کچھ لوٹائے۔
آپ سب بہت خوش نصیب ہیں کہ آپ کے پاس سماج کو لوٹانے کا ایک عظیم موقع موجود ہے۔ آپ کو ملک نے، سماج نے ایک بہت بڑا کردار سونپا ہے — کہ آپ زیادہ سے زیادہ ملک و ملت کی خدمت کریں اور اسے لوٹائیں۔
ساتھیو،
یہ وقت ہے کہ ہم سول سرونٹس کے اصلاحاتی نظام کو نئے سرے سے تصور کریں۔ ہمیں اصلاحات کی رفتار کو بھی بڑھانا ہے اور ان کے دائرہ کار کو بھی وسیع کرنا ہے۔
چاہے وہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ہو، تجدیدی توانائی کے اہداف ہوں، اندرونی سلامتی کا معاملہ ہو، بدعنوانی کا خاتمہ ہو، سماجی فلاحی اسکیمیں ہوں، اولمپک یا کھیلوں سے جڑے اہداف ہوں — ہر شعبے میں ہمیں نئے اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔
ہم نے اب تک جو کچھ حاصل کیا ہے، اب ہمیں اس سے کئی گنا زیادہ حاصل کرنا ہے۔ لیکن ان سب کے درمیان ہمیں ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی ہے —
چاہے دنیا کتنی ہی ٹیکنالوجی سے چلنے والی کیوں نہ ہو جائے، انسانی فہم و شعور کی اہمیت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
حساس بنیں، غریب کی آواز سنیں، اس کی تکلیف کو سمجھیں، اور اس کے مسائل کا حل نکالنا اپنی پہلی ترجیح بنائیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں ‘اتیتھی دیو و بھوا’ (مہمان بھگوان ہوتا ہے)، ویسے ہی ہمیں یہ منتر اپنانا ہوگا کہ ’ناغرک دیو بھو‘ — یعنی شہری ہی سب سے محترم ہیں۔
آپ کو صرف بھارت کے سرکاری افسران کے طور پر نہیں، بلکہ ایک ترقی یافتہ بھارت کے معمار کے طور پر اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔
ایک وقت تھا جب آپ سول سرونٹس بنتے تھے، پھر اسی شناخت کے ساتھ زندگی گزارتے تھے۔ لیکن اب وقت بدل چکا ہے، ساتھیو!
جس بھارت کو میں بنتے دیکھ رہا ہوں، جس بھارت کے خواب میں نے 140 کروڑ ہندوستانیوں کی آنکھوں میں دیکھے ہیں — اُن خوابوں کو سچ کرنے کے لیے میں آج یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ صرف سرکاری افسر نہیں ہیں، آپ نئے بھارت کے کاریگر، اس کے معمار ہیں۔
اب ہمیں اس معمار کی حیثیت سے اپنے فرائض کو نبھانا ہے، اپنی صلاحیتوں کو نکھارنا ہے، وقت کو مقصد کے لیے وقف کرنا ہے، اور ہر عام شہری کے خواب کو اپنا خواب بنا کر جینا ہے۔
یقین مانیں، اگر ہم نے یہ سب کچھ دل سے کیا، تو ایک ترقی یافتہ بھارت آپ کی آنکھوں کے سامنے حقیقت بنتا ہوا نظر آئے گا۔
آج جب میں آپ سے مخاطب ہوں، میری نظر ایک چھوٹی سی بچی پر پڑی، جو شاید آج یہاں بیٹھی ہے۔ کون جانے، 2047 میں وہ یہاں اس مقام پر ہو۔ یہ ہی خواب ہونے چاہئیں، یہی ‘وکست بھارت ’ترقی یافتہ بھارت ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔
آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات۔
آپ سب کا بہت شکریہ!
****
(ش ح۔ اس ک۔ع د)
UR-79
Addressing a programme on Civil Services Day… https://t.co/aq2mNspFL2
— Narendra Modi (@narendramodi) April 21, 2025
The policies we are working on today, the decisions we are making, are going to shape the future of the next thousand years: PM pic.twitter.com/TitQW8U8cE
— PMO India (@PMOIndia) April 21, 2025
India's aspirational society – youth, farmers, women – their dreams are soaring to unprecedented heights.
— PMO India (@PMOIndia) April 21, 2025
To fulfil these extraordinary aspirations, extraordinary speed is essential. pic.twitter.com/r85pFJEZLT
Ensuring holistic development of India. pic.twitter.com/mmlHRlxLI5
— PMO India (@PMOIndia) April 21, 2025
Quality in governance is determined by how deeply schemes reach the people and their real impact on the ground. pic.twitter.com/K746QolEam
— PMO India (@PMOIndia) April 21, 2025
In the past 10 years, India has moved beyond incremental change to witness impactful transformation. pic.twitter.com/kRDEXzCB4I
— PMO India (@PMOIndia) April 21, 2025
India is setting new benchmarks in governance, transparency and innovation. pic.twitter.com/uxAM3yzljB
— PMO India (@PMOIndia) April 21, 2025
The approach of 'Janbhagidari' turned the G20 into a people's movement and the world acknowledged… India is not just participating, it is leading: PM @narendramodi pic.twitter.com/uyN4GlcefI
— PMO India (@PMOIndia) April 21, 2025
In the age of technology, governance is not about managing systems, it is about multiplying possibilities: PM @narendramodi pic.twitter.com/hIXnEsJ0YT
— PMO India (@PMOIndia) April 21, 2025
Making Civil Services future-ready. pic.twitter.com/FqSJetVPta
— PMO India (@PMOIndia) April 21, 2025
लोक सेवा दिवस पर नई दिल्ली में हुए कार्यक्रम के दौरान देशभर में हो रहे विकास के अद्भुत और अभूतपूर्व कार्यों का साक्षी बना। pic.twitter.com/vHAyJ9TKrS
— Narendra Modi (@narendramodi) April 21, 2025
आज हम जिन नीतियों पर काम कर रहे हैं और जो निर्णय ले रहे हैं, वो देश के एक हजार साल का भविष्य लिखने वाले हैं। pic.twitter.com/O1yGHIq82g
— Narendra Modi (@narendramodi) April 21, 2025
देश की जनता से हमारा वादा है- Holistic Development of India. pic.twitter.com/QVFGGk5u8I
— Narendra Modi (@narendramodi) April 21, 2025
सही Intent, Planning और Execution से दूरदराज के हिस्सों में भी परिवर्तन संभव है। Aspirational Blocks की अभूतपूर्व सफलता में भी यही बात नजर आती है। pic.twitter.com/iHAR4az67a
— Narendra Modi (@narendramodi) April 21, 2025
Government Efficiency के क्षेत्र में भारत दुनिया के दूसरे देशों से कहीं आगे है। इसी सोच की वजह से हमारी Ease of Doing Business Rankings में भी सुधार हुआ है। pic.twitter.com/P1tKhDFcM6
— Narendra Modi (@narendramodi) April 21, 2025
2047 तक अपने संकल्पों की सिद्धि करना ही हमारा सपना है, हमारा मकसद है और हमारा लक्ष्य है। pic.twitter.com/blXYk9h0rJ
— Narendra Modi (@narendramodi) April 21, 2025
भारत की ब्यूरोक्रेसी का लक्ष्य, दुनिया में सबसे बेस्ट Ease of Compliances Environment देने का भी होना चाहिए। pic.twitter.com/jv3cz9mKXt
— Narendra Modi (@narendramodi) April 21, 2025
हमें Tech Savvy और Future-ready civil service तैयार करना होगा, ताकि हर Policy और Scheme को Technology के जरिए ज्यादा Efficient और Accessible बनाया जा सके। pic.twitter.com/A19Bl3Sucr
— Narendra Modi (@narendramodi) April 21, 2025
अपनी Professional Journey में कदम रखने वाले देश के युवा अधिकारियों से मेरा एक विशेष आग्रह… pic.twitter.com/qQkSgSyr1z
— Narendra Modi (@narendramodi) April 21, 2025