Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

ساگر، مدھیہ پردیش میں ترقیاتی منصوبوں کے آغاز کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

ساگر، مدھیہ پردیش میں ترقیاتی منصوبوں کے آغاز کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن


بھارت ماتا کی جے۔

بھارت ماتا کی جے۔

پروگرام میں موجود مدھیہ پردیش کے گورنر جناب منگو بھائی پٹیل، وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی جناب ویریندر کھٹک جی، جیوترادتیہ سندھیا جی، پرہلاد پٹیل جی، مدھیہ پردیش حکومت کے وزرا، تمام اراکین پارلیمنٹ، مختلف جگہوں سے آئے ہوئے تمام معزز سنت اور بڑی تعداد میں آئے ہوئے میرے پیارے بھائیو اور بہنوں۔

ساگر کی سرزمین، سنتوں کی صحبت، سنت روی داس جی کا آشیرواد، اور آپ سبھی جو سماج کے ہر طبقے سے، ہر کونے سے، اتنی بڑی تعداد میں آئے ہوئے ہیں۔ آج ساگر میں ہم آہنگی کا ایک سمندر موجود ہے۔ ملک کی اس مشترکہ ثقافت کو مزید تقویت دینے کے لیے آج یہاں سنت روی داس میموریل اور آرٹ میوزیم کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سنتوں کی مہربانی سے مجھے اس مقدس یادگار کا بھومی پوجن کرنے کا موقع ملا تھا اور میں کاشی کا ممبر پارلیمنٹ ہوں اس لیے یہ میرے لیے دوہری خوشی ہے۔ اور محترم سنت روی داس جی کے آشیرواد سے، میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آج میں نے سنگ بنیاد رکھا ہے، ڈیڑھ سال بعد مندر بنے گا، اس کے افتتاح کے لیے بھی میں ضرور آؤں گا۔ اور سنت روی داس جی مجھے اگلی بار یہاں آنے کا موقع دینے والے ہیں۔ مجھے کئی بار بنارس میں سنت روی داس جی کی جائے پیدائش پر جانے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اور آج میں آپ سب کی موجودگی میں حاضر ہوں۔ آج ساگر کی اس سرزمین سے، میں سنت شیرومنی روی داس جی کے قدموں میں جھکتا ہوں۔

بھائیو اور بہنوں،

سنت روی داس میموریل اور میوزیم میں شان و شوکت کے ساتھ ساتھ الوہیت بھی ہوگی۔ یہ الوہیت روی داس جی کی تعلیمات سے آئے گی جو آج اس یادگار کی بنیاد میں شامل کی گئی ہے۔ ہم آہنگی کے جذبے سے لبریز 20,000 سے زیادہ دیہاتوں اور 300 سے زیادہ دریاؤں کی مٹی آج اس یادگار کا حصہ بن چکی ہے۔ مٹھی بھر مٹی کے ساتھ ایم پی کے لاکھوں خاندانوں نے سمرستا بھوج کے لیے مٹھی بھر اناج بھی بھیجا ہے۔ اور میرا ماننا ہے کہ ہم آہنگی کا یہ سفر یہیں ختم نہیں ہوا، بلکہ یہاں سے سماجی ہم آہنگی کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔ میں اس کام کے لیے حکومت مدھیہ پردیش کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، وزیر اعلی بھائی شیو راج جی کو مبارک باد دیتا ہوں اور آپ سب کو مبارک باد دیتا ہوں۔

ساتھیوں،

تحریک اور ترقی، جب آپس میں جڑ جاتے ہیں تو ایک نئے دور کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ آج ہمارا ملک، ہمارا ایم پی اسی طاقت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اسی سلسلے میں آج یہاں کوٹہ بینا سیکشن پر ریلوے ٹریک کو دوہرا کرنے کے کام کا بھی افتتاح کیا گیا ہے۔ نیشنل ہائی وے پر دو اہم راستوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ہے۔ ان ترقیاتی کاموں سے ساگر اور آس پاس کے علاقوں کے لوگوں کو بہتر سہولیات میسر آئیں گی۔ اس کے لیے میں یہاں کے تمام بھائیوں اور بہنوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیوں،

سنت روی داس میموریل اور میوزیم کی یہ بنیاد ایسے وقت رکھی گئی ہے جب ملک اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کر چکا ہے۔ اب امرت کال کے اگلے 25 سال ہمارے سامنے ہیں۔ امرت کال میں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی وراثت کو آگے بڑھائیں اور ماضی سے سبق بھی لیں۔ بحیثیت قوم ہم نے ہزار سال کا سفر طے کیا ہے۔ اتنے طویل عرصے میں معاشرے میں کچھ برائیوں کا آنا بھی فطری ہے۔ یہ ہندوستانی سماج کی طاقت ہے کہ ان برائیوں کو دور کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً اس معاشرے سے کوئی نہ کوئی عظیم آدمی، کوئی ولی، کوئی اولیا نکلتا رہا ہے۔ روی داس جی ایسے ہی سنت تھے۔ وہ اس دور میں پیدا ہوئے جب ملک پر مغلوں کی حکومت تھی۔ معاشرہ عدم استحکام، جبر اور استبداد کی لپیٹ میں تھا۔ اس وقت بھی روی داس جی سماج کو جگا رہے تھے، اس کی برائیوں سے لڑنے کا درس دے رہے تھے۔ سنت روی داس جی نے کہا تھا-

جات پانت کے پھیر مہی، ارجھ رہئی سب لوگ،

مانشتا کوں کھات ہی، ریداس جات کر روگ۔

یعنی ہر کوئی ذات پرستی میں الجھا ہوا ہے اور یہ بیماری انسانیت کو کھا رہی ہے۔ ایک طرف وہ سماجی برائیوں کے خلاف بول رہے تھے تو دوسری طرف ملک کی روح کو جھنجھوڑ رہے تھے۔ جب ہمارے عقائد پر حملے ہو رہے تھے، ہماری شناخت مٹانے کے لیے ہم پر پابندیاں لگائی جا رہی تھیں، تب روی داس جی نے کہا تھا، اس وقت مغلوں کے دور میں، یہ حوصلہ دیکھو، یہ حب الوطنی دیکھو، روی داس جی نے کہا تھا۔

پرادھینتا پاپ ہے، جان لیہو رے میت،

ریداس پرادھین سو، کون کریہے پریت۔

یعنی محکومی سب سے بڑا گناہ ہے۔ جو محکومی کو قبول کر لے، اس کے خلاج جو جنگ نہیں کرتا، اس سے کوئی محبت نہیں کرتا۔ ایک طرح سے انھوں نے معاشرے کو ظلم کے خلاف لڑنے کی ترغیب دی۔ چھترپتی ویر شیواجی مہاراج نے اسی احساس کے ساتھ ہندوی سوراجیہ کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ احساس جدوجہد آزادی کے لاکھوں آزادی پسندوں کے دلوں میں تھا۔ اور اسی احساس کے ساتھ آج ملک غلامی کی ذہنیت سے نجات کے عزم پر آگے بڑھ رہا ہے۔

ساتھیوں،

ریداس جی نے اپنے ایک دوہے میں کہا تھا اور ابھی شیو راج جی نے اسے بیان بھی کیا –

ایسا چاہوں راج میں، جہاں ملے سبن کو انّ،

چھوٹ بڑوں سب سم بسے، ریداس رہے پرسن-۔

یعنی معاشرہ ایسا ہو کہ کوئی چھوٹا یا بڑا بھوکا نہ رہے، اس سے اوپر اٹھ کر سب مل جل کر رہیں۔ آج آزادی کے سنہری دور میں ہم ملک کو غربت اور بھوک سے نجات دلانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کورونا کی اتنی بڑی وبا آئی۔ ساری دنیا کا نظام درہم برہم ہو گیا، ٹھپ ہو گیا۔ ہر کوئی ہندوستان کے غریب طبقے، دلت قبائلیوں کے لیے تشویش کا اظہار کر رہا تھا۔ کہا جا رہا تھا کہ سو سال بعد اتنی بڑی آفت آئی ہے، سماج کا یہ طبقہ کیسے بچ پائے گا۔ لیکن پھر میں نے فیصلہ کیا کہ کچھ بھی ہو جائے میں اپنے غریب بھائی بہن کو خالی پیٹ نہیں سونے دوں گا۔ دوستو میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ بھوکا رہنے کا درد کیا ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ غریب کی عزت نفس کیا ہوتی ہے۔ میں آپ کے خاندان کا فرد ہوں، آپ کی خوشی اور غم کو سمجھنے کے لیے مجھے کتابیں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی لیے ہم نے پردھان منتری غریب کلیان انّ یوجنا شروع کیا۔ 80 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو مفت راشن کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔ اور دیکھیں آج پوری دنیا میں ہماری کوششوں کو سراہا جا رہا ہے۔

ساتھیوں،

آج ملک میں غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے جو بھی بڑی اسکیمیں چل رہی ہیں، اس کا سب سے زیادہ فائدہ دلت، پسماندہ قبائلی سماج کو مل رہا ہے۔ آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ پچھلی حکومتوں کے دور میں جو اسکیمیں آتی تھیں وہ الیکشن کے موسم کے مطابق آتی تھیں۔ لیکن، ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کو زندگی کے ہر موڑ پر دلتوں، محروم، پسماندہ، قبائلی، خواتین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، ہمیں ان کی امیدوں اور امنگوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ اگر آپ اسکیموں پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جب بچے کی پیدائش کا وقت آتا ہے تو حاملہ ماں کو ماتر وندنا یوجنا کے ذریعے 6 ہزار روپے دیے جاتے ہیں تاکہ ماں اور بچہ صحت مند رہیں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ پیدائش کے بعد بچوں کو بیماریوں، متعدی امراض کا خطرہ ہوتا ہے۔ غربت کی وجہ سے وہ دلت قبائلی بستیوں میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ آج نو زائیدہ بچوں کی مکمل حفاظت کے لیے مشن اندر دھنش چلایا جا رہا ہے۔ بچوں کو تمام بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جائیں، یہ فکر حکومت کرتی ہے۔ میں مطمئن ہوں کہ پچھلے سالوں میں 5.5 کروڑ سے زیادہ ماؤں اور بچوں کو ٹیکے لگائے گئے ہیں۔

ساتھیوں،

آج ہم ملک کے 7 کروڑ بہن بھائیوں کو سکیل سیل انیمیا سے نجات دلانے کی مہم چلا رہے ہیں۔ 2025 تک ملک کو ٹی بی سے پاک بنانے کے لیے کام جاری ہے، کالا آزار اور گردن توڑ بخار کی وبا آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے۔ دلت، محروم، غریب خاندان ان بیماریوں کا سب سے زیادہ شکار ہوئے۔ اسی طرح اگر علاج کی ضرورت ہو تو آیوشمان یوجنا کے ذریعے اسپتالوں میں مفت علاج کا انتظام کیا گیا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں مودی کارڈ مل گیا ہے، بیماری کی وجہ سے 5 لاکھ روپے تک کا بل ادا کرنا ہے تو آپ کا بیٹا کرتا ہے۔

ساتھیوں،

زندگی میں تعلیم بہت ضروری ہے۔ آج ملک میں قبائلی بچوں کی تعلیم کے لیے اچھے اسکولوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ قبائلی علاقوں میں 700 ایکلویہ رہائشی اسکول کھولے جا رہے ہیں۔ حکومت انہیں تعلیم کے لیے کتابیں اور وظائف دیتی ہے۔ مڈ ڈے میل کے نظام کو بہتر بنایا جا رہا ہے تاکہ بچوں کو غذائیت سے بھر پور خوراک مل سکے۔ بیٹیوں کے لیے سوکنیا سمردھی یوجنا شروع کی گئی ہے، تاکہ بیٹیاں بھی یکساں طور پر ترقی کریں۔ ایس سی، ایس ٹی، او بی سی لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے اسکول کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے الگ الگ اسکالرشپ کا انتظام کیا گیا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو خود انحصار کرنے اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے مدرا لون جیسی اسکیمیں بھی شروع کی گئی ہیں۔ مدرا یوجنا کے اب تک جتنے بھی مستفیدین ہیں، ان میں بڑی تعداد ایس سی-ایس ٹی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے میرے بھائی بہن ہیں۔ اور ساری رقم بغیر گارنٹی کے دی جاتی ہے۔

ساتھیوں،

ایس سی-ایس ٹی سماج کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہم نے اسٹینڈ اپ انڈیا اسکیم بھی شروع کی تھی۔ اسٹینڈ اپ انڈیا کے تحت، ایس سی-ایس ٹی کمیونٹی کے نوجوانوں کو 8 ہزار کروڑ روپے کی مالی امداد ملی ہے، 8 ہزار کروڑ روپے ہماری ایس سی- ایس ٹی کمیونٹی کے نوجوانوں کو دیے گئے ہیں۔ ہمارے بہت سے قبائلی بھائی اور بہنیں جنگل کی دولت سے اپنی روزی کماتی ہیں۔ ملک ان کے لیے وان دھن یوجنا چلا رہا ہے۔ آج تقریباً 90 جنگلاتی مصنوعات کو بھی ایم ایس پی کا فائدہ مل رہا ہے۔ یہی نہیں، کوئی دلت، محروم، پسماندہ شخص بغیر گھر کے نہ رہے، ہر غریب کے سر پر چھت ہونی چاہیے، اس کے لیے پردھان منتری آواس بھی دیا جا رہا ہے۔ گھر میں تمام ضروری سہولتیں، بجلی کا کنکشن، پانی کا کنکشن بھی مفت دیا گیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ایس سی-ایس ٹی سماج کے لوگ اپنے پیروں پر کھڑے ہیں۔ انہیں برابری کے ساتھ معاشرے میں صحیح مقام مل رہا ہے۔

ساتھیوں،

ساگر ایک ایسا ضلع ہے، جس کے نام میں تو ساگر ہے ہی، اس کی شناخت 400 ایکڑ پر پھیلی لاکھا بنجارہ جھیل سے بھی ہوتی ہے۔ لاکھا بنجارہ جیسے ہیرو کا نام اس سرزمین سے جڑا ہے۔ لاکھا بنجارہ نے پانی کی اہمیت کو بہت سال پہلے سمجھا تھا۔ لیکن، جن لوگوں نے ملک میں کئی دہائیوں تک حکومتیں چلائیں، انہوں نے غریبوں کو پینے کا پانی فراہم کرنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی۔ ہماری حکومت بھی جل جیون مشن کے ذریعے یہ کام پورے زور و شور سے کر رہی ہے۔ آج پائپ سے پانی دلت بستیوں، پسماندہ علاقوں اور قبائلی علاقوں تک پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح لاکھا بنجارہ کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ہر ضلع میں 75 امرت سروور بھی بنائے جا رہے ہیں۔ یہ جھیلیں آزادی کے جذبے کی علامت، سماجی ہم آہنگی کا مرکز بن جائیں گی۔

ساتھیوں،

آج ملک کے دلت ہوں، محروم طبقہ ہو، پسماندہ ہوں، قبائلی ہوں، ہماری حکومت ان کو عزت دے رہی ہے، نئے مواقع دے رہی ہے۔ نہ اس معاشرے کے لوگ کمزور ہیں، نہ ان کی تاریخ کمزور ہے۔ سماج کے ان طبقوں سے ایک ایک کر کے عظیم ہستیاں سامنے آئی ہیں۔ انہوں نے قوم کی تعمیر میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک فخر کے ساتھ ان کی وراثت کو بھی محفوظ کر رہا ہے۔ بنارس میں سنت روی داس جی کی جائے پیدائش پر مندر کو خوبصورت بنایا گیا تھا۔ مجھے خود اس تقریب میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ یہاں بھوپال کے گووند پورہ میں جو گلوبل اسکل پارک بنایا جا رہا ہے اس کا نام بھی سنت روی داس کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ہم نے بابا صاحب کی زندگی سے متعلق اہم مقامات کو پنچ تیرتھ کے طور پر تیار کرنے کا کام بھی اٹھایا ہے۔ اسی طرح آج ملک کی کئی ریاستوں میں عجائب گھر بنائے جا رہے ہیں تاکہ قبائلی سماج کی شاندار تاریخ کو امر کیا جا سکے۔ ملک نے لارڈ برسا منڈا کے یوم پیدائش کو قبائلی فخر کے دن کے طور پر منانے کی روایت شروع کی ہے۔ مدھیہ پردیش کے حبیب گنج ریلوے اسٹیشن کا نام بھی گونڈ برادری کی ملکہ کملا پتی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ پاتالپانی اسٹیشن کا نام تانتیا ماما کے نام پر رکھا گیا ہے۔ آج ملک میں پہلی بار دلت، پسماندہ اور قبائلی روایات کو وہ عزت مل رہی ہے جس کے وہ حقدار تھے۔ ہمیں ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘ کی اس قرارداد کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ملک کے اس سفر میں سنت روی داس جی کی تعلیمات ہم سب اہل وطن کو متحد کرتی رہیں گی۔ ہم سب مل کر ہندوستان کو بغیر رکے ترقی یافتہ ملک بنائیں گے۔ اس جذبے کے ساتھ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔ بہت بہت نیک تمنائیں۔

شکریہ۔

*************

ش ح۔ ف ش ع- م ف

U: 8288