Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

راج ماتا وجے راجے سندھیا کی صد سالہ یادگاری سالگرہ تقریبات کے موقع پر سکّے  کے اجراءمیں وزیراعظم کے خطاب کا متن

راج ماتا وجے راجے سندھیا کی صد سالہ یادگاری سالگرہ تقریبات کے موقع پر سکّے  کے اجراءمیں وزیراعظم کے خطاب کا متن


مرکزی کابینہ کے میرے سبھی ساتھیو، الگ الگ ریاستوں کے گورنر،وزرااعلیٰ ، ملک وبیرون ملک سے وابستہ راج ماتا وجے راجے سندھیا جی کے پرستاراور کنبے کے ارکان ، ان کے عزیزاورمیرے پیارے بھائیو اوربہنو۔

آج یہاں اس تقریب میں آنے وے پہلے میں وجے راجے جی کی یہ جیونی کو ذراکھنگال رہاتھا ۔ کچھ صفحوں پرمیری نظرگئی ۔ اس میں ایک حوالہ ہے ایکتا سفرکا جس میں انھوں نے میرا تعارف گجرات کے نوجوان رہنمانریندرمودی کے طورپرکروایاہے ۔

آج اتنے برسوں بعد ، ان کا وہی نریندر، ملک کا پردھان سیوک بن کر، ان کی مختلف یادوں کے ساتھ میں آج آپ کے سامنے ہے ۔ آپ کو پتہ ہوگا جب ڈاکٹرمرلی منوہرجوشی کی قیادت میں ،کنیا کماری سے کشمیر تک  ، ایک سفرکی شروعات ہوئی تھی ، اور میں اس کا انتظام دیکھ رہاتھا۔

راج ماتا جی اس پروگرام کے لئے کنیاکماری آئی تھی اوربعدمیں جب ہم سری نگرجارہے تھے وہ جموں میں الوداع کہنے بھی آئی تھی ۔اورانھوں نے لگاتارہماراحوصلہ بلند کیاتھا۔ تب ہماراخواب تھا ، لال چوک میں جھنڈ اپھیرانا ، ہمارا مقصد تھا دفعہ 370سے آزادی مل جائے ۔ راج ماتا جی نے اس سفرکو الوداع کہاتھا۔ جو خواب تھا وہ پوراہوگیا۔ آج اب میں کتاب میں اوربھی چیزیں دیکھ رہاہوں ۔

کتاب میں ایک جگہ انھوں نے لکھاہے ‘‘ ایک دن یہ جسم یہیں رہ جائے گا ، روح جہاں سے آئی تھی وہیں چلی جائے گی  ۔صفرسے صفرمیں ۔یادیں رہ جائیں گی ۔ اپنی ان یادوں کو میں ان کے لئے چھوڑجاوں گی جن سے میراسروکاررہاہے ، جن میں سروکاررہی ہوں۔ ’’

آج راج ماتاجہاں بھی ہیں ،ہمیں دیکھ رہی ہیں ، ہمیں آشیرواد دے رہی ہیں ۔ ہم سبھی لوگ جن کا ان سے سروکاررہاہے ، جن کی وہ سرکاررہی ہیں ، وہ یہاں اس خاص  پروگرام میں کچھ لوگ پہنچ بھی پائے ہیں اورموجود بھی ہیں ، اور ملک مختلف حصوں میں ، کونے کونے میں آج یہ موقع ورچوولی منایاجارہاہے ۔

ہم میں سے کئی لوگوں کو ان سے بہت قریب سے جڑنے کا ، ان کی خدمت ،ان کے برتاوکا احساس کرنے کی خوش نصیبی حاصل ہے ۔ آج ان کے خاندان کے، ان کے قریبی رشتہ اس پروگرام میں ہیں لیکن ان کے لئے ہم سب ، ہردیش واسی ان کا پریوارہی تھا۔ راج ماتاجی کہتی بھی تھیں ‘‘ میں ایک بیٹے کی نہیں میں تو بہت سارے بیٹوں کی ماں ہوں ، ان کی محبت میں مجسم ڈوبی رہتی ہوں۔’’ ہم سب ان کے بیٹے بیٹیاں ہی ہیں ، ان کا خاندان ہی ہیں ۔

اس لئے میری یہ بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ مجھے راج ماتاوجے راجے سندھیا جی کی یاد میں 100روپے مخصوص علامتی سکے کوجاری کرنے کا موقع ملاہے ۔حالانکہ میں خود کو آج بندھا ہوامحسوس کررہاہوں ، بہت بندھاہوامحسوس کررہاہے ،کیونکہ میں جانتاہوں کہ اگرکوروناوبانہیں ہوتی توآج اس پروگرام کا روپ کتنا بڑا ہوتا، کتنادلفریب ہوتا۔لیکن یہ بات میں ضرورت مانتاہوں جتنا میراراج ماتا کے ساتھ تعلق رہاہے ، پروگرام بہت بڑا تونہیں کرپارہے لیکن یہ پروگرام جذباتی ضرورہے ، اس میں جذبات ہیں ۔

ساتھیو ، پچھلی صدی میں بھارت کوراہ دکھانے والے کچھ شخصیتوں میں راج ماتا وجے راجے سندھیا بھی شامل تھیں ۔ راج ماتاجی صرف انسانیت کی مورتی ہی نہیں ، وہ ایک سرکردہ نیتا تھیں اوربہترین منتظم بھی تھیں ۔ جدوجہد آزادی سے لے کر آزادی کے اتنے دہائیوں تک ، ہندوستانی سیاست کے ہراہم پڑاو کی وہ گواہ رہی۔ آزادی سے قبل غیرملکی ملبوسات کی ہولی جلانے سے لے کر ایمرجنسی اوررام مندرتحریرتک راج ماتا کے تجربات کا وسیع مظہررہاہے ۔

ہم سبھی جو ان سے منسلک رہے ہیں ، جو ان کے قریبی رہے ہیں ، وہ انھیں بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں ،ان سے جڑی باتوں کو اچھی طرح جانتے ہیں ، لیکن یہ بھی بہت ضروری ہے کہ راج ماتاکے زندگی کے سفرکو ، ان کے زندگی کے پیغام کو ملک کی آج پیڑھی بھی جانے ، ان سے جلاحاصل کرے ، ان سے سیکھے ۔اس لئے ان کے بارے میں ، ان کے تجربات کے بارے میں بارباربات کرنا ضروری ہے ۔ کچھ دن پہلے ‘من کی بات ’پروگرام میں میں نے بہت تفصیل سے ان کی شخصیت پربات چیت کی تھی ۔

شادی سے قبل راج ماتا جی کسی راج گھرانے سے نہیں تھیں ، ایک عام خاندان سے تھیں ، لیکن شادی کے بعد انھوں نے سب کو اپنا بھی بنایا اور یہ سبق بھی پڑھایا کہ عوام الناس کی خدمت کے لئے ، سیاسی ذمہ داریوں کو پوراکرنے کے لئے کسی خاص خاندان میں جنم لینا ہی ضروری نہیں ہوتا۔

کوئی بھی عام سے عام فرد ، جس میں قابلیت ہو سمجھ بوجھ ہو ، ملک کی خدمت کرنے کا جذبہ ہو، اس جمہوریت میں حکومت کو بھی خدمت کا وسیلہ بناسکتاہے ۔ آپ تصورکیجئے ، حکومت ہی جائیداد تھی ، طاقت تھی ، لیکن ان سب سے بڑھ کرجو راج ماتاکی امانت تھی ، وہ تھی روایات ، خدمت اور خلوص کی فطرت ۔

یہ سوچ ،یہ بڑا پن ان کی زندگی کے ہرقدم پرہم دیکھ سکتے ہیں ۔ اتنے بڑے راج گھرانے کی مکھیاکی شکل میں ان کے پاس ہزاروں کام کرنے والے تھے ، شاندارمحل تھے ، ساری سہولیات تھیں ۔ لیکن انھوں نے عام انسانیت کے ساتھ، گاؤں ۔ غریب کے ساتھ جڑکر زندگی جی ، ان کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردیا۔

راج ماتانے یہ ثابت کیاکہ عوامی نمائندگان کے لئے سیاسی اقتدارکی نہیں ، عوام الناس کی خدمت سب سے زیادہ اہم ہے ۔ وہ ایک راج خاندان کی مہارانی تھیں ۔ راج شاہی سلسلے سے تھیں لیکن انھوں نے جدوجہد جمہوریت کی حفاظت کے لئے کی ۔ زندگی کا کچھ حصہ کال کھنڈجیل میں بتایا۔

ایمرجنسی کے دوران انھوں نے جوجوبرادشت کیا، اس کے گواہ ہم میں سے بہت سے لوگ رہے ہیں ۔ایمرجنسی کے ہی دوران تہاڑجیل سے انھوں نے اپنی بیٹیوں کو خط لکھاتھا۔ امید ہے کہ اوشاراجے جی ، وسندھرراجے یا یشودھراراجے جی کو وہ چٹھی یادہوگی ۔

راج ماتا نے جو لکھاتھا اس میں بہت بڑا سبق تھا ، انھوں نے لکھاتھا ‘‘ اپنے آنے والی پیڑھیوں کوسینہ تان کر جینے کی تلقین ملے ،اس مقصد سے ہمیں آج بھی مشکلات کو بہادری کے ساتھ جھیلناچاہیئے ۔ ’’

قوم کے مستقبل کے لئے راج ماتانے اپنی شخصیت کووقف کردیاتھا۔ ملک کی آنے والی پیڑھی کے لئے انھوں نے اپناہرسکھ تیاگ دیاتھا۔ راج ماتا نے عہدے اور اقتدارکے لئے نہ جیون جیا نہ کبھی انھوں نے سیاست کا راستہ چنا ۔

ایسے کئی مواقع آئے جب عہدے ان کے پاس سامنے سے چل کرآئے ۔ لیکن انھوں نے اسے خوبصورتی کے ساتھ ٹھکرادیا۔ ایک بار خود اٹل بہاری واجپئی اور لاک کرشن اڈوانی جی نے ان سے بہت درخواست کی تھی کہ وہ جن سنگھ کی صدرنشین بن جائیں لیکن انھوں نے ایک کارکن روپ میں ہی جن سنگھ کی خدمت کرناپسند کیا۔

اگرراج ماتاجی چاہتی توان کے لئے بڑے سے بڑے عہدے تک پہنچنا مشکل نہیں تھا۔ لیکن انھوں نے لوگوں کے درمیان رہ کر، گاوں اور غریب سے جڑے رہ کے ان کی خدمت کرنا پسند کیا۔

ساتھیو ، ہم راج ماتا کی زندگی کے ہرایک پہلوسے ہرلمحہ  بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ ان کی کئی ایسی کہانیاں ہیں ، زندگی کی گھٹنائیں ہیں ، جو ان سے منسلک  رہے لوگ بتاتے رہے ہیں ۔

ایکتایاتراکاہی ایک اورقصہ ہے جب وہ جموں میں تھیں تووہ دونئے کارکنان بھی ان کے ساتھ  تھے ۔ راج ماتا دوسرے کارکن کا کبھی کبھی نام بھول جاتی تھی تو باربارپہلے کارکن سے پوچھتی تھی کہ تم گولوہونہ ، اور دوسرے ساتھی کا کیانام ہے ؟وہ اپنے چھوٹے سے چھوٹے ساتھیوں کو ان کے نام سے جاننا، پہچاننا پسند کرتی تھیں ۔ ساتھ کے لوگ کہتے بھی تھے کہ آپ کیوں  نام کی اتنی فکرکرتی ہیں ۔ آپ بس آواز لگادیجئے لیکن راج ماتاانھیں جواب دیتی تھیں کہ میرے ورکرمیری مددکررہے ہیں اورمیں انھیں پہچانوں تک نہیں ، یہ توٹھیک بات نہیں ہوگی ۔مجھے لگتاہے کہ سماجی زندگی میں اگرآپ ہیں ، پھرآپ چاہے کسی بھی دھڑے سے ، کسی بھی پارٹی سے ہوں ، عام سے عام ورکرکے تئیں یہ سوچ ، یہ نظریہ سبھی کے دل میں ہوناچاہیئے ۔ ابھیمان نہیں سمان ، یہ سیاست کا بڑا منتر، انھوں نے جی کرکے دکھایاہے ۔

ساتھیو ، راج ماتا ، ان کے جیون میں روحانیت کا خزانہ تھا۔ روحانیت کے ساتھ ان کا لگاوتھا ۔کشف ، عبادت اوراعتقاد ان کی روح میں رچی بسی تھی ۔ لیکن جب وہ بھگوان کی پوجاکرتی تھی توان کے پوجا مندرمیں ایک تصویر بھارت ماتاکی بھی ہوتی تھی ۔ بھارت ماتا کی عبادت ان کے لئے ویسے ہی اعتقاد کاموضوع تھا ۔

مجھے ایک بار ان سے منسلک ایک بات ساتھیوں نے بتائی تھی اورجب میں اس بات کو یادکرتاہوں تومجھے  لگتاہے کہ میں بھی آپ کو بتاوں ۔ایک باروہ پارٹی کے پروگرام میں متھراگئی تھیں ، وہا ںراج ماتا بانکے بہاری سے درشن کرنے بھی گئیں ۔ مندرمیں انھوں نے بانکے بہاری سے جوخواہش کی اس کا اصل مقصد سمجھنا بہت ضروری ہے ۔

راج ماتا نے سب بھگوان کرشن  کی پرارتھنا کرتے ہوئے کیاکہا ، ہم سب کے لئے راج ماتا کے جیون کو سمجھنے کے لئے یہ بات بہت بڑی کام آنے والی ہے –وہ بھگوان کرشن کے سامنے کھڑی ہیں ، بہت عقیدت سے کے ساتھ کھڑی ہیں ،روحانی چیتنا جاگ چکی ہے اوروہ بھگوان کرشن کے سامنے کیادعاکرتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں ‘‘ہے کرشنا ایسی بانسری بجاو کہ پورے ہندوستان کے سب مردوعورت پھرسے بیدارہوجائیں ۔ ’’

آپ سوچیئے ، اپنے لئے کوئی دعانہیں ۔جو چاہاملک کے لئے چاہا ، عوام الناس کے لئے چاہا وہ بھی چیتنا جگانے کی بات ، جوکچھ بھی کیادیش کے لئے کیا، ایک بیداردیش ،ایک بیداردیش کے شہری کیاکچھ کرسکتے ہیں ، وہ یہ جانتی تھیں ، سمجھتی تھیں ۔

آج جب ہم راج ماتاجی کا جنم شتابدی منارہے ہیں توہمیں اطمینان ہے کہ بھارت کے شہریوں کی بیداری کو لے کر ان کی جوخواہش تھی ، بانکے بہاری سے ان کی جو دعاتھی ، وہ آج لگ رہاہے کہ فکرکی شکل میں سامنے آرہی ہے ۔

بیتے برسوں میں جومختلف تبدیلیاں آئی ہیں ، جومختلف مہمیں اور اسکیمیں کامیاب ہوئی ہیں ، ان کا مقصد یہ عوام کی فکرہے ، عوام کی بیداری ہے ، عوام کے آندولن ہیں ۔راج ماتا جی آشیرواد سے ملک آج ترقی کی راہ پرآگے بڑھ رہاہے ۔گاوں ، غریب ، مشکل سے دوچار، اورخواتین ملک کی اولین ترجیح میں شامل ہیں ۔

خواتین کی طاقت کے بارے میں تو وہ خاص طورپرکہتی تھیں کہ ‘‘ جو ہاتھ پالنے کو جھلاسکتاہے وہ دنیا پر راج بھی کرسکتے ہیں ۔’’ آج بھارت کی یہی خواتین کی طاقت ہرشعبے میں آگے بڑھ رہی ہے ، دیش کو آگے بڑھا رہی ہے ۔ آج بھارت کی بیٹیاں فائٹرجیٹس اڑارہی ہیں ، بحریہ میں جنگ کی ذمہ داریوں میں اپنی خدمات پیش کررہی ہیں ۔ آج تین طلاق کے خلاف قانون بناکر دیش نے راج ماتاکی اس سوچ کو ، خواتین کو اختیارات دینے کی ان کی کوششوں کو اورآگے بڑھایاہے ۔

ملک کی یکجہتی اوراتحاد کے لئے ہندوستان کی ایکتا کے لئے انھوں نے جوجدوجہد کی ،جو  کوشش کی ، اس کا نتیجہ آج ہم دیکھ رہے ہیں ۔ دفعہ 370ختم کرکے دیش نے ان کا بہت  بڑاخواب پوراکیاہے اوریہ بھی کتنا عجیب اتفاق ہے کہ رام جنم بھومی مندر تعمیرکے لئے انھوں نے جو جدوجہد کی تھی ان کی صدسالہ سالگرہ تقریبات کے سال میں ہی ان کا یہ خواب بھی پوراہواہے ۔

اب جب رام جنم بھومی کی بات نکلی ہے تومیں ضرورکہناچاہوں گاکہ جب اڈوانی جی سومناتھ سے ایودھیا کے سفرکے لئے چلے تھے اور راج ماتاصاحب اس پروگرام میں موجود رہی تھیں ،یہ ہم سب کی خواہش تھی اورراج ماتا بھی چاہتی تھیں کہ ایسے اہم ترین موقع پران کو ہوناچاہیئے ۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اس وقت نوراتری کے دن تھے ، اورراج ماتاصاحب نوراتری میں انوشٹھان کیاکرتی تھیں ۔اوروہ جس جگہ پرانوشٹھان کرتی تھیں ، وہ اس جگہ کو پورے انوشٹھان کے وقت چھوڑتی نہیں تھیں ۔

توراج ماتاصاحب سے جب میں بات کررہاتھا توانھوں نے کہاکہ دیکھوبھائی ، میں تونہیں آپاونگی لیکن مجھے آناضرورہے ۔میں نے کہاراستہ بتائیے انھوں نے کہامیں پوری نوراتری کے لئے گوالیار سے نکل کر کے سومنا تھ جاکرکے رہنا چاہتی ہوں اوروہیں پورے نوراتری کروں گی اوروہیں سے   جب نوراتری کے درمیان ہی یہ رتھ یاتراکی شروعات ہورہی تووہیں میں پروگرام میں شریک ہوجاوں گی ۔

راج ماتا جی اپواس بھی  بڑامشکل رہتاتھا میں اس وقت نیانیا سیاست میں آیاتھا۔ ایک ورکرکے روپ انتظام دیکھتاتھا ۔ میں نے راج ماتاصاحب کی سومنا تھ کاانتظام سنبھالااوروہ وقت تھا جب مجھے راج ماتاصاحب کے انتہائی قریب آنے کا موقع ملا ۔ اورمیں نے دیکھا کہ اس وقت ان کی یہ پوری پوجا پورا نوراترکا انوشٹھان ایک طرح سے یہ ایودھیارتھ یاتراکو رام مندرکو ہی سونپ دیاتھا۔ ساری چیزیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں ۔

ساتھیو، راج ماتا وجے راجے سندھیاجی کے خوابوں کوپوراکرنے کے لئے ہم سبھی کو مل کر اسی رفتارسے آگے بڑھناہے ۔ مستحکم ،محفوظ ، خوشحال ہندوستان ان کا خواب تھا ، ان کے ان خوابوں کو ہم خود کفیل ہندوستان کی کامیابی سے پوراکریں گے ۔ راج ماتا کی دعاہمارے ساتھ ہے ، ان کاآشیرواد ہمارے ساتھ ہے ۔

ان ہی نیک خواہشات کے ساتھ میں آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ اداکرتاہوں اورراج ماتا صاحب نے جس طرح کی زندگی جی ہے ، تصور کیجئے آج ایک تحصیل صدربن جاتاہے نا، اس کابھی مزاج کیساہوجاتاہے ۔ راج ماتا اتنے بڑے گھرانے ، اتنی بڑی حکمرانی ، جائیداد سب کے بعد جنھوں نے انھیں قریب سے دیکھا ہے کیا نرمی تھی ، کیا مزاج تھا، کیاروایات تھیں ۔۔۔۔ زندگی کو جلا بخشنے والے ۔

آیئے ، ہماری نئی پیڑھی کے ساتھ ان باتوں کاذکرکریں اورمدعاصرف کسی سیاسی دھڑے کا نہیں ہے ، یہ ہماری آنے والی پیڑھیوں کا ہے ۔ آج بھارت سرکارکی یہ خوش قسمتی ہے کہ ہمیں  راج ماتاجی کے احترام میں یہ سکہ دیش کے سامنے رکھنے کاموقع ملاہے ۔

میں پھرایک بار راج ماتاجی کو انتہائی احترام کے ساتھ سلام کرتے ہوئے اپنی تقریرکو ختم کرتاہوں ۔ بہت بہت شکریہ ۔

 

***************

                                                                                                                                         

)م ن۔   ا ع ۔ ع آ: )

U-6298