عزت مآب!
دوستو، نمسکار!
انسانی تاریخ کے ایک تغیر پذیر لمحے میں رائے سینا مذاکرات کا یہ ایڈیشن منعقد ہورہا ہے۔ایک عالمی وبا پچھلے ایک سال سے پوری دنیا کو تباہ کررہی ہے۔ ایسی آخری عالمی وبا ایک صدی پہلے آئی تھی۔ بھلے ہی ا نسانیت نے تب سے اب تک کئی متعدی بیماریوں کا سامنا کیا ہےلیکن کووڈ-19 وبا سے نمٹنے کیلئے آج پوری دنیا پوری طرح سے تیار نہیں ہے۔
ہمارے سائنسداں، محققین اور صنعت نے کچھ اہم سوالات کے جوابات دیے ہیں۔
وائرس کیا ہے؟
یہ کیسے پھیلتا ہے؟
ہم اس کے پھیلاؤ کو کیسے دھیما کرسکتے ہیں؟
ہم ٹیکہ کیسے بناتے ہیں؟
ہم ایک سطح پر اور چاق وچوبند ہوکر کیسے ٹیکہ لگائیں؟
ایسے کئی سوالوں کے جواب ہمارے سامنے آئے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کئی اور جواب ابھی آنے باقی ہیں۔ لیکن عالمی مفکروں اور رہنماؤں کے طور پر ہمیں یقینی طور سے کچھ اور سوال پوچھنے چاہئیں۔
ابھی ایک سال سے زیادہ عرصے سے ہمارے سماج کے سب سے اچھے دماغ اس وبا سے لڑنے میں مصروف ہیں۔ دنیا کی سبھی حکومتیں سبھی سطحوں پر اس وبا کو روکنے اور کنٹرول کرنے کی کوششیں کررہی ہیں۔ یہ کیوں آیا، کیا شاید ایسا اس لئے ہوا کہ اقتصادی ترقی کی دوڑ میں انسانیت کی فلاح وبہبود کی فکر کہیں پیچھے چھوٹ گئی ہے۔
کیا شاید یہ اس لئے ہوا ہے کیوں کہ مسابقے کے دور میں اشتراک وتعاون کا جذبہ بھی بھلا دیا گیا ہے۔ ایسے سوالات کے جوابات ہماری حالیہ تاریخ میں دریافت کیے جاسکتے ہیں۔ دوستو، پہلی اور دوسری عالمی جنگ کی ہولناکیوں نے ایک نیا عالمی نظام بنانے کی ضرورت پیدا کردی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ، اگلی چند دہائیوں کے دوران بہت سارے نظام اور ادارے بنائے گئے، لیکن دو جنگوں کے سائے میں ان کا مقصد صرف ایک سوال کے جواب تک ہی محدود تھا ، تیسری جنگ عظیم کو کیسے روکا جائے؟
آج میں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ سوال غلط تھا جس کی وجہ سے اس بیماری کی وجہ کو سمجھے بغیر کسی مریض کی علامات کا علاج کرنے کے لئے سارے قدم اٹھائے گئے یا اسے الگ طریقے سے کہیں تو سارے قدم پچھلی جنگ کو دوبارہ ہونے دینے سے روکنے کیلئے اٹھائے گئے ہیں۔در حقیقت اگرچہ انسانیت کو تیسری عالمی جنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے لیکن لوگوں کی زندگیوں میں تشدد کا خطرہ کم نہیں ہوا ہے۔ متعدد پراکسی جنگوں اور لامتناہی دہشت گرد حملوں کے ساتھ ہر وقت تشدد کا خطرہ موجود ہے۔
تو صحیح سوال کیا ہوگا؟
ان میں شامل ہوسکتے ہیں:
ہمارے پاس قحط اور بھوک کیوں ہے؟
ہمارے یہاں غربت کیوں ہے؟
یا زیادہ بنیادی طور پر
ہم کیوں ان مسائل کو دور کرنے میں تعاون نہیں کرسکتے جن سے پوری انسانیت کو خطرہ ہے؟
مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری سوچ ان خطوط کے مطابق ہوتی تو ایک بہت ہی متنوع حل نکل آتا۔
دوستو!
پھر بھی دیر نہیں ہوئی۔ پچھلی سات دہائیوں کی چُوک اور غلطیوں کو مستقبل کے بارے میں ہماری سوچ میں رکاوٹ بننے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ کووڈ -19 کی وبا نے ہمیں عالمی انتظام کو نئی شکل میں ڈھالنے، اپنی سوچ کو دوبارہ منظم کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ہمیں ایسے انتظامات کرنے چاہئیں جو آج کے مسائل اور آئندہ چیلنجوں کو حل کریں اور ہمیں پوری انسانیت کے بارے میں سوچنا چاہئے نہ کہ صرف ان لوگوں کو جو ہماری حدود میں رہتے ہیں۔ انسانیت مجموعی طور سے ہماری سوچ اور سرگرمیوں کے مرکز میں ہونی چاہئے۔
دوستو!
اس وبا کے دوران ، اپنے ہی معمولی اقدامات اپنے محدود وسائل کے اندر ہم نے ہندوستان میں متعدد کوششیں کیں۔ ہم نے اپنے 1.3 بلین شہریوں کو وبا سے بچانے کی کوشش کی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی ہم نے وبا سے نمٹنے میں دوسرے لوگوں کی کوششوں میں بھی تعاون دینے کی کوشش کی ہے۔ اپنے آس پڑوس میں ہم نے بحران سے نمٹنے کے لئے اپنے مربوط علاقائی رد عمل کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے۔ پچھلے سال ہم نے ڈیڑھ سو سے زیادہ ملکوں کے ساتھ دوائیں اور حفاظتی سامان شیئر کیا۔ ہم پوری طرح سمجھتے ہیں کہ بنی نوع انسان اس وبا کو تب شکست نہیں دے پائیگی جب تک کہ ہم اس کے لئے سبھی جگہوں پر اپنے سبھی طرح کے امتیاز کو بھلا کر باہر نہیں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بہت سی رکاوٹوں کے باوجود ہم نے 80 سے زائد ممالک کو ویکسین فراہم کی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ فراہمی بہت کم ہے، ہم جانتے ہیں کہ مانگ بہت زیادہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پوری بنی نوع انسان کی ٹیکہ کاری کرنے میں ایک طویل وقت لگے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ امیدیں معنی رکھتی ہیں۔ یہ سب سے امیر ملکوں کے شہریوں کیلئے بھی جتنا معنی رکھتی ہے اتنا ہی کمزور ملکوں کے شہریوں کیلئے بھی۔ اور اس لئے ہم اس وبا کے خلاف لڑائی میں پوری انسانیت کے ساتھ اپنے تجربات ، اپنی مہارت اور اپنے وسائل کو مشترک کرنا جاری رکھیں گے۔
دوستو!
جیسا کہ اس برس رائے سینا مذاکرات میں ہم ورچوئل طریقے سے جڑے ہیں، میں آپ سے انسانیت پر مرکوزنقطہ نظر کیلئے ایک مضبوط آواز کے طور پر آگے آنے کی اپیل کرتا ہوں، جیسا کہ دوسرے معاملات میں بھی ہمیں پلان ‘اے’ اور پلان ‘بی’ رکھنے کی عادت ہوسکتی ہے لیکن یہاں دوسری کرۂ ارض ‘بی’ نہیں ہےصرف ایک ہی کرۂ ارض ہے اور اس لئے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لئے اس کرۂ ارض کے صرف ٹرسٹی ہیں۔
میں آپ کو اس سوچ کے ساتھ چھوڑ کر جاؤں گا اور اگلے کچھ دنوں میں بہت مفید بات چیت کیلئے آپ کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ اپنی بات پوری کرنے سے پہلے میں ان سبھی معزز شخصیات کا شکریہ ادا کرنا چاتا ہوں جو ان مباحثوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ میں مذاکرات کے اس اجلاس میں موجودگی کیلئے روانڈا کے صدر اور ڈنمارک کے وزیراعظم کا خاص طور سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں اپنے دوست آسٹریلیا کے وزیراعظم اور یوروپی یونین کے صدر کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں جو اس مذاکرات میں بعد میں شامل ہوں گے۔
آخر میں دیگر سبھی لوگوں کی طرح اہم سبھی منتظمین کا شکریہ اور دلی مبارکباد۔ انہوں نے تمام چیلنجوں کے باوجود اس سال کا رائے سینا مذاکرات منعقد کرنے کیلئے شاندار کام کیا ہے۔
شکریہ، آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ۔
———————–
ش ح۔م ع۔ ع ن
U NO: 3702
Addressing the @raisinadialogue. https://t.co/SQY8EDvjUU
— Narendra Modi (@narendramodi) April 13, 2021
This edition of Raisina Dialogue takes place at a watershed moment in human history.
— PMO India (@PMOIndia) April 13, 2021
A global pandemic has been ravaging the world for over a year: PM @narendramodi
Today, I submit to you that this was the wrong question.
— PMO India (@PMOIndia) April 13, 2021
As a result, all the steps taken were like treating a patient’s symptoms without addressing the underlying causes: PM @narendramodi
But, under the shadow of the two Wars, they were aimed at answering only one question.
— PMO India (@PMOIndia) April 13, 2021
How to prevent the Third World War? - PM @narendramodi
The horrors of the First and Second World Wars compelled the emergence of a new world order.
— PMO India (@PMOIndia) April 13, 2021
After the end of the Second World War, over the next few decades, many structures and institutions were created: PM @narendramodi
So, what would have been the right questions?
— PMO India (@PMOIndia) April 13, 2021
They could have included:
Why do we have famines and hunger?
Why do we have poverty?
Or, most fundamentally:
Why can’t we cooperate to address problems that threaten the entire humanity? - PM @narendramodi
During this pandemic, in our own humble way, within our own limited resources, we in India have tried to walk the talk
— PMO India (@PMOIndia) April 13, 2021
We have tried to protect our own 1.3 billion citizens from the pandemic
At the same time, we have also tried to support pandemic response efforts of others: PM
We understand fully, that mankind will not defeat the pandemic unless all of us, everywhere, regardless of the colour of our passports, come out of it.
— PMO India (@PMOIndia) April 13, 2021
That is why, this year, despite many constraints, we have supplied vaccines to over 80 countries: PM @narendramodi
While we may be used to having “Plan A” and “Plan B”, there is no Planet B.
— PMO India (@PMOIndia) April 13, 2021
Only Planet Earth.
And so, we must remember that we hold this planet merely as trustees for our future generations: PM @narendramodi