Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

دوسری قومی یوتھ پارلیمنٹ فیسٹول کی اختتامی تقریب سے وزیراعظم کے خطاب کا متن

دوسری قومی یوتھ پارلیمنٹ فیسٹول کی اختتامی تقریب سے وزیراعظم کے خطاب کا متن


 

نمسکار!

میں، سب سے پہلے تو ان تینوں نوجوانوں کو صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتاہوں، انہوں نے بہت ہی بہتر طریقے سے جس میں خیالات بھی تھے، خطابت کا فن بھی تھا، روانی، سوچ سمجھ کر، بہت ہی بہتر طریقے سے، پیش کی۔ خود اعتمادی سے بھری ان کی شخصیت تھی۔ ان تینوں ساتھیوں کو، ہمارے نوجوان ساتھیوں کو فاتح ہونے کیلئے میں بہت دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ لوک سبھا اسپیکر جناب اوم برلا جی، وزیرتعلیم جناب رمیش پوکھریال نشنک جی، کھیلوں اور نوجوانوں کے اُمور کے وزیر جناب کرن ریجیجوجی اور ملک بھر کے  میرے نوجوان ساتھی، آپ سبھی کو نوجوانوں کے قومی دن کی بہت بہت نیک خواہشات۔

سوامی وویکانند کے یوم پیدائش کا یہ دن، ہم سبھی کو نئی تحریک دیتا ہے۔ آج کا دن  خصوصی اس لئے بھی ہوگیا ہے کہ اس بار یوتھ پارلیمنٹ، ملک کی پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں ہورہی ہے۔ یہ سینٹرل ہال ہمارے آئین کی تخلیق کی گواہ ہے۔ ملک کے بہت سے اعلیٰ شخصیات نے یہاں آزاد ہندوستان کے لئے فیصلے لئے، ہندوستان کے مستقبل کے لئے غور وفکر کیا۔ مستقبل کے ہندوستان کو لیکر ان کا خواب،ان کا عہد،  ان کی ہمت،ان کی طاقت،ان کی کوشش، اس کا احساس آج بھی سینٹرل ہال میں ہوتا ہے۔ اور ساتھیو، آپ جہاں بیٹھے ہیں، اسی سیٹ پر جب آئین سازی کی شروعات ہوئی تھی، اس ملک کے کسی نہ کسی معزز شخصیات وہاں بیٹھے ہوں گے، آج آپ اس سیٹ پر بیٹھے ہیں۔ دل میں تصور کیجئے کہ جس جگہ پر ملک کے وہ عظیم ہستی بیٹھے تھے آج وہاں آپ بیٹھے ہیں۔ ملک کو آپ سے کتنی توقعات ہیں۔ مجھے یقین ہے، یہ تجربہ اس وقت سینٹرل ہال میں بیٹھے سبھی نوجوان ساتھیوں کو بھی ہورہا ہوگا۔

آپ سبھی نے جو یہاں گفتگو کی، تبادلہ خیال کیا، وہ بھی اہم ہے۔ اس دوران مقابلے میں جو کامیاب ہوئے ہیں، ان کو میں مبارکباد دیتا ہوں، اپنی نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں۔ اور یہاں جب میں آپ کو سن رہا تھا تو مجھے خیال آیا اور اس لئے میں نے دل ہی دل میں طے کیا کہ آپ کی جو تقریریں ہیں، اس کو میں آج اپنے ٹوئیٹر ہینڈل پر سے ٹوئیٹ کروں گا۔ اور آپ تینوں کا ہی کروں گا، ایسا نہیں اگر ریکارڈیڈ میٹریل دستیاب ہوگا تو میں جو کل فائنل پینل میں تھے ان کے لئے بھی ان کی تقریر کو ٹوئیٹ کروں گا تاکہ ملک کو پتا چلے کہ پارلیمنٹ کے اس احاطے میں بھارت کا مستقبل کیسی شکل اختیارکررہا ہے۔ میرے لئے یہ بہت فخر کی بات ہوگی کہ میں آج آپ کی تقریر کو ٹوئیٹ کروں گا۔

ساتھیو،

سوامی جی نے جو ملک اور سماج کو دیا ہے، وہ وقت اور جگہ سےالگ، ہر پیرھی کو حوصلہ دینے والا ہے، راستہ دکھانے والا ہے۔ آپ دیکھتے  ہوں گے کہ ہندوستان کا شاید ہی ایسا کوئی گاؤں ہو، کوئی شہر ہو، کوئی شخص ہو، جو سوامی جی سے خود کو جڑا محسوس نہ کرتا ہو، ان سے حوصلہ نہ پاتا ہو۔ سوامی جی کے حوصلے نے آزادی کی لڑائی کو بھی نئی توانائی بخشی تھی۔ غلامی کے لمبے دوڑ نے ہندوستان کو ہزاروں سالوں کی اپنی طاقت اور طاقت کے احساس سے دور کردیا تھا۔ سوامی وویکانند نے ہندوستان کو اس کی وہ طاقت یاد دلائی، احساس کرایا، ان میں قوت، ان کے ذہن ودماغ کو دوبارہ زندہ کیا، قومی شعور کو بیدار کیا۔ آپ یہ جانکر حیران رہ جائیں گے کہ اس وقت انقلاب کے راستے سے بھی اور امن کے راستے سے بھی دونوں ہی طرح جو آزادی کے لئے جنگ چل رہا تھا، آزادی کی لڑائی لڑ رہے تھے، وہ کہیں نہ کہیں سوامی وویکانند جی سے متاثر تھے۔ان کی گرفتاری کے وقت، پھانسی کے وقت، سوامی جی سے جڑا ادب ضرور پولیس کے ہاتھ آتا تھا۔ تب اس کا باقاعدہ ریسرچ کروایا گیا تھا کہ سوامی وویکانند جی کے خیالات میں ایسا کیا ہے جو لوگوں کو حب الوطنی کیلئے، ملک کی تعمیر کے لئے، آزادی کے لئے مر مٹنے کا حوصلہ دیتا ہے، ہر نوجوان کے ذہن ودماغ کو اتنا متاثر کرتاہے۔ وقت گزرتا گیا، ملک آزاد ہوگیا، لیکن ہم آج بھی دیکھتے ہیں سوامی جی ہمارے درمیان ہی ہوتے ہیں، ہر پل ہمیں حوصلہ دیتے ہیں، ان کا اثر ہماری غور وفکر میں کہیں نہ کہیں نظر آتا ہے۔ روحانیت کو لیکر انہوں نے جو کہا، قوم پرستی- قومی تعمیر- قومی مفاد کےبارے میں انہوں نے جو کہا، عوامی خدمت  سے دنیاوی خدمات کو لیکر ان کی سوچ آج ہمارے  من-مندر میں اتنی ہی تیزی سے داخل ہوتے ہیں۔ مجھے یقین ہے، آپ نوجوان ساتھی اس بات کو ضرور محسوس کرتے ہوں گے۔ کہیں پر بھی وویکانند جی کی تصویر دیکھتے ہونگے، تصورتک آپ کو نہیں ہوگا، آپ کےدل میں تعظیم کا جذبہ بیدار ہوگا، سر ان کو سلام کرتا ہوگا، یہ ضرور ہوتا ہوگا۔

ساتھیو،

سوامی وویکانند نے ایک اور انمول تحفہ دیا ہے۔ یہ تحفہ ہے، شخصیات کی تعمیر کا، اداروں کی تعمیر کا۔ اس کی بحث بہت کم ہی ہوپاتی ہے۔ لیکن ہم مطالعہ کریں گے تو پائیں گے کہ سوامی وویکانند نے ایسے اداروں کو بھی آگے بڑھایا جو آج بھی شخصیت کی تعمیر کاکام بخوبی کررہی ہیں۔ ان کی تہذیب، ان کے خدمت کا جذبہ، ان کا خود کو وقف کرنے کا جذبہ لگاتار جگاتی رہتی ہے۔ شخصیت سے ادارہ کی تعمیر اور ادارہ سے بہت ساری شخصیات کی تعمیر، یہ ایک مسلسل- بلاتعطل-بلاروکاوٹ سائیکل ہے، جو چلتا ہی جارہا ہے۔ لوگ سوامی جی کے اثر میں آتے ہیں، اداروں کی تعمیر کرنے کا حوصلہ پاتے ہیں، ادارہ کی تعمیر کرتے ہیں، پھر ان اداروں سے اس کے انتظام سے، حوصلے سے، سوچ سے، عزت سے ایسے لوگ نکلتے ہیں جوسوامی جی کے دکھائے راستے پر چلتے ہوئے نئے لوگوں کو خود سے جوڑتے چلتے ہیں۔ شخصیت سے ادارہ اور ادارہ سے پھر شخصیت سے سلسلہ آج ہندوستان کی بہت بڑی طاقت ہے۔ آپ لوگ انٹرپرینیورشپ کے بارے میں بہت سنتے ہیں۔ وہ بھی تو کچھ یہی ہے۔ ایک ذہین شخص، ایک شاندار کمپنی بناتا ہے۔ بعد میں اس کمپنی میں جو ایکو سسٹم بنتا ہے، اس کی وجہ سے وہاں بہت سے ذہین شخصیات بنتے ہیں۔ یہ شخصیات آگے جاکر اور نئی کمپنیاں بناتے ہیں۔ شخصیات اور ادارے کا یہ سائیکل ملک اور سماج کے ہر شعبے، ہر سطح کے لئے اتنی ہی اہم ہے۔

ساتھیو،

آج جو ملک میں نئی نیشنل ایجوکیشن لاگو کی گئی ہے، اس کا بھی بہت بڑا فوکس بہتر شخصیات کی تعمیر پر ہے۔ شخصیت کی تعمیر سے قومی تعمیر سے پالیسی، نوجوانوں کی خواہش، نوجوانوں کی مہارت، نوجوانوں کی سمجھ، نوجوانوں کے فیصلے کو اعلیٰ ترجیح دیتی ہے۔ اب آپ چاہے جو سبجیکٹ چنئے، چاہے جو کمبی نیشن چنئے، چاہے جو اسٹریم چنئے۔ ایک کورس کو بریک دیکر آپ دوسرا کورس شروع کرنا چاہیں تو آپ وہ بھی کر سکتے ہیں۔ اب یہ نہیں ہوگا کہ پہلے والے کورس کے لئے آپ نے جو محنت کی تھی، وہ بیکار ہوجائے گی۔ آپ کو اتنی پڑھائی کا بھی سرٹیفکیٹ مل جائے گا، جو آگے لے جائیگا۔

ساتھیو،

آج ملک میں ایک ایسا ایکوسسٹم تیار کیا جارہا ہے، جس کی تلاش میں اکثر ہمارے نوجوان ساتھی اس  کا رخ کرتے تھے۔ وہاں کی  جدید تعلیم، بہتر کاروباری مواقع، ٹیلینٹ کو پہچاننے والی، عزت دینے والا انتظام انہیں فطری طورسے متوجہ کرتی تھی۔ اب ملک میں ہی ایسا انتظام ہمارے نوجوان ساتھیوں کو ملے، اس کے لئے ہم پرعزم بھی ہیں، ہم کوشش بھی کررہے ہیں۔ ہمارا نوجوان کھل کر اپنا ٹیلنٹ، اپنے خوابوں کے مطابق خود کو تیار کرسکے، اس کے لئے آج ایک انوائرمنٹ تیار کیا جارہا ہے، ایکو-سسٹم تیار کیا جارہا ہے، تعلیمی انتظام ہو، سماجی انتظام ہو، قانونی باریکیاں ہو، ہر چیز میں ان باتوں کو مرکز میں رکھا جارہا ہے۔ سوامی جی کا بہت زور، اس بات پر بھی تھا، جس کو ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔ سوامی جی ہمیشہ کہتے تھے اور وہ اس بات پر زور دیتے تھے، وہ جسمانی طاقت پر بھی زور دیتے تھے، دماغی طاقت پر بھی زور دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے مسکلس آف آئرن اینڈ نروس آف اسٹیل۔ ان کے حوصلے سے آج ہندوستان کے نوجوانوں کی جسمانی اور دماغی فٹنیس پر خصوصی فوکس کیاجارہا ہے۔ فٹ انڈیا موومنٹ ہو، یوگا  سے متعلق بیداری ہو یا پھر اسپورٹس سے جڑے جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر، یہ نوجوانوں کو دماغی اورجسمانی طور سے مضبوط کررہے ہیں۔

ساتھیو،

آج کل آپ لوگ کچھ ٹرمس بار بار سنتے ہونگے، آپ کے کان پر آتا رہتا ہے۔ پرسنالٹی ڈیولپمنٹ اور ٹیم مینجمنٹ ان کی باریکیوں کو بھی آپ سوامی وویکانند کا مطالعہ کرنے کے بعد اور آسانی سے سمجھ پائیں گے۔ پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کا ان کا منتر تھا۔ ‘بلیوو اِن یوور سیلف’ اپنے آپ پر بھروسہ کرو، اپنے آپ پر یقین کرو۔ لیڈرشپ کا ان کا منتر تھا۔ ‘بلیوو اِن آل’ وہ کہتے تھے ‘‘پرانے مذاہب کے مطابق ملحدوہ ہے جوایشور میں بھروسہ نہیں کرتا۔ لیکن نیا مذہب کہتا ہے ملحد وہ ہے جو خود میں بھروسہ نہیں کرتا۔’’اور جب قیادت کی بات آتی تھی،تو وہ خود سے بھی پہلے اپنی ٹیم پر بھروسہ جتاتے تھے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا، وہ قصہ میں آپ کو بھی سنانا چاہتا ہوں۔ ایک بار سوامی جی اپنے ساتھی سوامی شاردانند جی کے ساتھ لندن میں ایک پبلک لیکچر کے لئے گئے تھے۔ سب تیاری ہوچکی تھی، سننے والے اکٹھا ہوچکے تھے اور فطری ہے، ہر کوئی سوامی وویکانند کو سننے کے لئے متوجہ ہوکر آیا تھا۔ لیکن جیسے ہی بولنے کا نمبر آیا تو سوامی جی نے کہا کہ آج تقریر میں نہیں بلکہ میرے معاون شاردانند جی کریں گے۔ شاردانند جی نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ اچانک ان کے ذمے  کام آجائیگا! اس کے لئے تیار بھی نہیں تھے۔ لیکن جب شاردانند جی نے بولنا شروع کیا تو ہر کوئی حیرت زدہ رہ گئے، ان سے متاثر ہو گیا اور ان سے متاثر ہوا۔ یہ ہوتی ہے لیڈرشپ اور اپنی ٹیم کے لوگوں پر بھروسہ کرنے کی طاقت۔ آج ہم جتنا سوامی وویکانند جی کےبارے میں جانتے ہیں، اس میں بہت بڑا تعاون سوامی شاردانند جی کا ہی ہے۔

ساتھیو،

یہ سوامی جی ہی تھے، جنہوں نے اس دور میں کہا تھا کہ نڈر، بے باک، صاف دل والے، بہادراور خواہشمند نوجوان ہی وہ بنیاد ہے جس پر ملک کے مستقبل کی تعمیر ہوتی ہے۔ وہ نوجوانوں پر، نوجوان طاقت پر اتنا یقین کرتے تھے۔ اب آپ کو، ان کے اس یقین کی کسوٹی پر کھرا اترنا ہے۔ ہندوستان کو اب نئی اونچائیوں پر لے جانے کا کام، ملک کو آتم نربھر بنانے کاکام آپ سب نوجوانوں کو ہی کرنا ہے۔ اب آپ میں سے کچھ نوجوان سوچ سکتے ہیں کہ ابھی تو ہماری اتنی عمر ہی نہیں ہے۔ ابھی تو ہنسنے، کھیلنے، زندگی میں موج کرنے کی عمر ہے۔ ساتھیو، جب ہدف واضح ہو، قوت ارادی ہو، تو عمر کبھی روکاوٹ نہیں بنتی ہے۔ عمر تنی معنی نہیں رکھتی۔ آپ ہمیشہ یاد رکھئے گا کہ غلامی کے وقت میں آزادی کے آندولن کی کمان نوجوان پیڑھی نے ہی سنبھالی تھی۔ جانتے ہیں شہید کھدی رام بوس  جب پھانسی پر چڑھے تو ان کی عمر کیا تھی؟ صرف 19-18 سال۔ بھگت سنگھ کو پھانسی لگی تو ان کی عمر کتنی تھی؟ صرف 24 سال۔ بھگوان برسا منڈا جب شہید ہوئے تو ان کی عمر کتنی تھی؟ بمشکل 25 سال۔ اس پیڑھی نے یہ ٹھان لیا تھا کہ ملک کی آزادی کے لئے ہی جینا ہے، ملک کی آزادی کے لئے مرنا ہے۔ لائرس، ڈاکٹرس، پروفیسرس، بینکرس، الگ- الگ پروفیشن سے نوجوان نسل کے لوگ نکلے اور سب نے ملکر ہمیں آزادی دلائی۔

ساتھیو،

ہم اس دور میں پیدا ہوئے ہیں، میں بھی آزاد ہندوستان میں پیدا ہوا ہوں۔ میں نے غلامی دیکھی نہیں ہے اور میرے سامنے آپ جو بیٹھے ہیں، آپ سب بھی آزادی میں پیدا ہوئے ہیں۔ ہمیں ملک کی آزادی ک ے لئے مرنے کا موقع نہیں ملا لیکن ہمیں آزاد بھارت کو آگے بڑھانے کے لئے موقع ضرور ملا ہے۔ یہ موقع ہمیں گنوانا نہیں ہے۔ ملک کے میرے نوجوان ساتھیو، آزادی کے 75 سال سے لیکر آزادی کے 100 سال ہونے، آنے والے 26-25 سال بہت ہی اہم ہیں۔ 2047  جب آزادی کے 100 سال ہوں گے۔ یہ 26-25 سال کا سفر بہت اہم ہے۔ ساتھیو، آپ بھی سوچئے، آپ آج جس عمر میں ہیں اب سے جو وقت شروع ہورہا ہے اپنا وہ آپ کی زندگی کا سنہرا دور ہے، اچھا دور ہے اور وہی دور ہندوستان کو بھی آزادی کے 100 سال کی طرف لے جارہا ہے۔ مطلب آپ کی ترقی کی اونچائیاں، آزادی کے 100 سال کی کامیابیاں، دونوں قدم سے قدم ملاکر چل رہے ہیں، مطلب آپ کی زندگی کے آنے والے 26-25 سال، ملک کے آنے والے 26-25 سال کے درمیان بہت بڑا تال میل ہے، بہت بڑی اہمیت ہے۔ اپنی زندگی میں ان برسوں میں اعلیٰ ترجیح ملک کو دیجئے، ملک کی خدمت کو دیجئے، وویکانند جی کہتے تھے کہ یہ صدی ہندوستان کی ہے۔ اس صدی کو ہندوستان کی صدی، آپ کو ہی بنانا ہے۔ آپ جو بھی کریئے، جو بھی فیصلہ لیجئے، اس میں یہ ضرور سوچیے کہ اس سے ملک کا کیامفاد ہوگا؟۔

ساتھیو،

سوامی وویکانند جی کہتے تھے کہ ہمارے نوجوانوں کو آگے آکر ملک کی قسمت بننا چاہئے۔ اس لئے یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ ہندوستان کے مستقبل کی قیادت کریں۔ اور آپ کی یہ ذمہ داری ملک کی سیاست کو لیکر بھی ہے۔ کیونکہ سیاست ملک میں بامعنی تبدیلی لانے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ ہر شعبے کی طرح سیاست کو بھی نوجوانوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ نئی سوچ، نئی توانائی، نئے خواب، نئی امنگ، کی سیاست کو اس کی بہت ضرورت ہے۔

ساتھیو،

پہلے ملک میں یہ روایت بن گئی تھی کہ اگر کوئی نوجوان سیاست کی طرف رخ کرتا ہے تو گھر والے کہتے تھے کہ اب بچہ بگڑ رہا ہے۔ کیونکہ سیاست کا مطلب ہی بن گیا تھاجھگڑا، فساد، لوٹ، کھسوٹ، بدعنوانی۔ نہ جانے کیا کیا لیبل لگ  گئے تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ سب کچھ بدل سکتا ہے لیکن سیاست نہیں بدل سکتی۔ لیکن آج آپ دیکھئے، آج ملک کی عوام، ملک کے لوگ اتنے بیدار ہوئے ہیں کہ سیاست میں وہ ایماندار لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایماندار لوگوں کو موقع دیتے ہیں۔ ملک کے عام لوگ ایماندار، وقف، خدمت گزار، سیاست میں آئے ہوئے لوگوں کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی رہتی ہے۔ ایمانداری اور کارکردگی آج کی سیاست کی پہلی ضروری شرط ہوتی جارہی ہے۔ اور ملک میں جو بیداری آئی ہے ا س میں یہ دباؤ پیدا کیا ہے۔ بدعنوانی جن کی میراث تھی، ان کی بدعنوانی ہی آج ان پر بوجھ بن گیا ہے۔ اور یہ ملک کے عام لوگوں کی بیداری کی طاقت ہے وہ لاکھ کوشش کے بعد بھی اس سے نکل نہیں پارہے ہیں۔ ملک اب ایمانداروں کو پیار کررہا ہے، ایمانداروں کو آشیرواد دے رہا ہے، ایمانداروں کے ساتھ اپنی طاقت کھڑی کردیتا ہے، اپنا یقین دے رہا ہے۔ اب عوامی نمائندہ بھی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اگلے انتخابات میں جانا ہے تو سی وی اسٹرانگ ہونا چاہئے، کاموں کا حساب پختہ ہونا چاہئے۔ لیکن ساتھیو، کچھ بدلاؤ ابھی بھی باقی ہے، اور یہ بدلاؤ ملک کے نوجوانوں کو، آپ کو ہی کرنے ہیں۔ جمہوریت کا ایک سب سے بڑا دشمن پنپ رہا ہے اور وہ ہے۔ خاندانی سیاست۔ خاندانی سیاست ملک کے سامنے ایسی ہی چنوتی ہے جسے جڑ سے اکھاڑنا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ اب صرف سر نیم کے سہارے انتخاب جیتنے والوں کے دن لدنے لگے ہیں۔ لیکن سیاست میں کنبہ پروری کی یہ بیماری پوری طرح ختم نہیں ہوا ہے۔ ابھی بھی ایسے لوگ ہیں، جن کی سوچ، جن کا اخلاق، جن کا ہدف، سب کچھ اپنے خاندان کی سیاست اور سیاست میں اپنے کنبے کو بچانے کا ہی ہے۔

ساتھیو،

یہ سیاسی کنبہ پروری جمہویت میں ایک نئی شکل کے تاناشاہی کے سا تھ ہی ملک پر نااہلی کا بوجھ بھی بڑھاوا دیتا ہے۔ سیاسی کنبہ پروری، قوم پہلے، کے بجائے صرف میں اور میرا خاندان، اسی احساس کو مضبوط کرتا ہے۔یہ ہندوستان میں سیاسی اور سماجی  کرپشن کی بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ کنبہ پروری کی وجہ سے آگے بڑھے لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر ان کی پہلے کی پیڑھیوں کے کرپشن کا حساب نہیں ہوا، تو ان کا بھی کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ تو اپنے گھر میں ہی اس قسم کے مثال بھی دیکھتے ہیں۔ اس لئے ایسے لوگوں کو قانون سے متعلق نہ عزت ہوتی ہے نہ قانون کا ان کو ڈر ہوتا ہے۔

ساتھیو،

اس حالت کو بدلنے کا ذمہ ملک کی بیداری پر ہے، ملک کی نوجوان نسل پر ہے اور قوم پرستی، اسی منتر کو لیکر جینا ہے۔ آپ سیاست میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں، بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ لینا -پانا بننے کے ارادے سےنہیں، کچھ کر گزرنے کے ارادے سے آئیے۔ آپ اپنی سوچ، اپنے وِژن کو لیکر آگے بڑھیں۔ ایک ساتھ ملکر کام کریں، جٹ کر کام کریں، ڈٹ کر کام کریں۔ یاد رکھئے گا، جب تک ملک کا عام نوجوان سیاست میں نہیں آئے گا، کنبہ پروری کا یہ زہر اسی طرح ہماری جمہوریت کو کمزور کرتا رہے گا۔ اس ملک کی جمہوریت کو بچاجنے کے لئے آپ کا سیاست میں آنا ضروری ہے۔ اور یہ جو لگاتار ہمارے نوجوان محکمہ کے ذریعے ماک سانسد کے پروگرام چلائے جارہے ہیں۔ ملک کے موضوعات پر نوجوان دوست ملکر بحث کریں۔ ملک کے نوجوانوں کو ہندوستان کے سینٹرل ہال تک لایا جائے۔ اس کے پیچھے مقصد بھی یہی ہے کہ ملک کی نئی نوجوان نسل کو ہم تیار کریں تاکہ وہ ہمارے ساتھ آنے والے دنوں میں ملک کی قیادت کرنے کیلئے آگے آئیں، آگے بڑھیں۔ آپ کے سامنے سوامی وویکانند جیسے عظیم رہنما ہیں۔ ان کی تحریک سے آپ جیسے نوجوان سیاست میں آئیں گے، تو ملک اور بھی مضبوط ہوگا۔

ساتھیو،

سوامی وویکانند جی نوجوانوں کو ایک اور بہت اہم منتر دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے۔ کسی مصیبت یا پریشانی سے بھی زیادہ اہم ہے اس مصیبت سے لی گئی سیکھ آپ نے اس میں سے کیا سیکھا، ہمیں مصیبتوں حوصلے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مصیبت ہمیں یہ سوچنے کا بھی موقع دیتی ہے کہ جو بگڑا ہے، ہم وہی دوبارہ بنا لیں، یا نئے سرے سے ایک نئی تعمیر کی بنیاد رکھیں؟ کئی بار ہم ایک بحران، کسی مصیبت کے بعد کچھ نیا سوچتے ہیں، اور پھر دیکھتے ہیں کہ اس نئی سوچ نے کیسے پورا مستقبل تبدیل کردیا۔ آپ نے بھی اپنی زندگی میں یہ محسوس کیا ہوگا۔ میرا من کرتا ہے کہ آج ایک تجربہ آپ کے سامنے ضرور رکھوں۔ 2001 میں جب گجرات کے کچھ میں زلزلہ آیا تھاتو کچھ ہی پل میں سب کچھ تباہ ہوگیا تھا۔ پورا کچھ ایک طرح سے موت کی چادر اوڑھ کر سو گیا تھا، ساری عمارت زمین دوز ہوچکی تھی۔ جو حالت تھی، اسے دیکھ کر لوگ کہتے تھے کہ اب کچھ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے برباد ہوگیا ہے۔ اس زلزلے کے کچھ مہینے کے بعد ہی مجھے گجرات کے وزیراعلیٰ کے  طور پر فر ض نبھانے کی ذمہ داری آگئی۔ چاروں طرف گونج رہی تھی کہ اب تو گجرات گیا۔اب تو گجرات برباد ہوگیا۔ یہی سن رہا تھا۔ ہمیں نے ایک نئی ایپروچ کے ساتھ کام کیا، ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھے، ہم نے صرف عمارتیں ہی پھر سے نہیں بنوائیں بلکہ یہ عہد بھی کیا کہ کچھ کو ترقی کی نئی اونچائی پر پہنچائیں گے۔ تب وہاں نہ اتنی سڑکیں تھیں، نہ بجلی کا نظام ٹھیک تھا، نہ ہی پانی آسانی سے ملتا تھا۔ ہم نے ہر انتظام کو بہتر کیا۔ ہم سینکڑوں کلو میٹر لمبی نہریں بناکر کچھ تک پانی لیکر گئے، پائپ لائن سے پانی لے گئے۔ کچھ کی حالت ایسی تھی کہ وہاں ٹورازم کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ الٹا، ہر سال ہزاروں لوگ کچھ سے ہجرت کرجاتے تھے۔ اب آج حالات ایسے ہیں کہ برسوں پہلے کچھ چھوڑ کر گئے لوگ آج واپس  لوٹنے لگے ہیں۔ آج کچھ میں لاکھوں  ٹورسٹ، رن اُتسو میں لطف لینے کیلئے پہنچتے ہیں۔ یعنی مصیبت میں ہم نے آگے بڑھنے کا موقع تلاش کرلیا۔

ساتھیو،

اس وقت زلزلے کے دوران ہی ایک اور بڑا کام ہوا تھا، جس کی اتنی بات نہیں ہوتی ہے۔ آج کل کورونا کے اس عہد میں آپ لوگ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کا ذکر خوب سنتے ہوں گے۔ اس دوران تمام سرکاری احکامات، اسی ایکٹ کو بنیاد بناکر جاری کئے گئے۔ لیکن اس ایکٹ کی بھی ایک کہانی ہے، کچھ زلزلے کے ساتھ اس کا ایک رشتہ ہے اور میں یہ بھی آپ کو بتاؤں گا تو آپ کو خوشی ہوگی۔

ساتھیو،

پہلے ہمارے ملک میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ صرف محکمہ زراعت ، محکمہ زراعت کاحصہ رہتا تھا اسی کا کام سمجھا جاتا تھا۔  کیوں کہ ہمارے یہاں ڈیزاسٹر کا مطلب ہوتا تھا سیلاب یا قحط۔ زیادہ پانی گر گیا تو ڈیزاسٹر پانی کم پڑ گیا تو ڈیزاسٹر، سیلاب وغیرہ آتا تھا، تو کھیتی کا معاوضہ وغیرہ دینا یہی اصلی ڈیزاسٹر مینجمنٹ ہوتا تھا۔ لیکن کچھ زلزلے سے سبق لیتے ہوئے گجرات نے 2003 میں گجرات اسٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ بنایا۔ تب ملک میں پہلی بار ایسا ہوا جب ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو محکمہ زراعت سے نکال کر محکمہ داخلہ کے تحت دے دیا گیا۔ بعد میں مرکزی حکومت نے 2005 میں گجرات کے اسی قانون سے سبق لیکر پورے ملک کیلئے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ بنایا۔ اب اسی ایکٹ کی مدد سے، طاقت سے ملک نے وبا کے خلاف اتنی بڑی لڑائی لڑی ہے۔ آج یہی ایکٹ ہمارے لاکھوں لوگوں کی جان بچانےمیں معاون ہوا، ملک کو اتنے بڑے بحران سے نکالنے میں بنیاد بنا۔ اتنا ہی نہیں، جہاں کبھی ڈیزاسٹر مینجمنٹ صرف معاوضے اور راحتی اشیاء تک محدود ہوتا تھا، اسی بھارت کے ڈیزاسٹر  مینجمنٹ سے آج دنیا سیکھ رہی ہے۔

ساتھیو،

جو سماج آفتوں میں بھی ترقی کے راستے بنانا سیکھ لیتا ہے، وہ سماج اپنا مستقبل خود لکھتا ہے۔ اس لئے آج بھارت اور 130 کروڑ بھارت کے باشندے اپنا مستقبل اور وہ بھی بہتر مستقبل آج ملک کے شہری خود گڑھ رہے ہیں۔ آپ کے ذریعے کی گئی ہر ایک کوشش، ہر ایک خدمت کاکام، ہر ایک انّوویشن، اور ہر ایک ایماندار عہد، مستقبل کی بنیاد میں رکھا جارہا ایک مضبوط پتھر ہے۔ آپ اپنی کوششوں میں کامیاب ہوں، انہیں نیک تمناؤں کے ساتھ میں پھر ایک بار ملک بھر میں لاکھوں نوجوانوں نے کورونا کے اس دور میں بھی کہیں پر روبرو، کہیں پر ورچوول، اس یوتھ موومنٹ کو آگے بڑھایا۔ ڈپارٹمنٹ کے لوگ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس میں حصہ لینے والے نوجوان بھی مبارکباد کے مستحق ہیں اور فاتحین کو بہت بہت مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ جن باتوں کو انہوں نے بولا ہے، وہ باتیں سماج کی جڑوں میں جائیں۔ اس کے لئے وہ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھیں، ایسی میری  بہت بہت نیک  تمنائیں ہیں۔ میں پھر ایک بار محترم اسپیکر کا سنسد بھون کے اندر اس پروگرام کے انعقاد کیلئے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ۔

 

 

———————–

ش ح۔م ع۔ ع ن

U NO: 315