نمسکار!
پروگرام میں میرے ساتھ موجود گچھادھیپتی جین آچاریہ شری وجے نتیانند سریشور جی، آچاریہ شری وجے چدانند سوری جی، آچاریہ شری جیانند سوری جی، تقریب کے مارگ درشک منی شری موکشانند وجے جی، شری اشوک جین جی، شریمان سدھیر مہتا جی، شری راج کمار جی، شری گھیسو لال جی اور آچاریہ شری وجے ولبھ سوری جی کے سبھی ساتھی پیروکاروں۔ آپ سبھی کو جہاں دیدہ، پوری دنیا کے لئے قابل احترام، کلیکال کلپترو، پنجاب کیسری آچاریہ شری وجے ولبھ سوری جی کے 150ویں سال پیدائش کی عظیم تقریب کی بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
یہ نیا سال روحانی روشنی کا سال ہے، ترغیب دینے والا سال ہے۔ یہ میری خوش بختی ہے کہ مجھے اس پروگرام میں شامل ہونے، آپ سبھی سے آشیرواد حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ پیدائش کے سال کی تقریب کے ذریعے سے جہاں ایک طرف بھگوان شری مہاویر سوامی کے اہنسا، انیکانت اور اَپری گرہ جیسے اصولوں کی اشاعت کی جارہی ہےتو ساتھ ہی گرو ولبھ کے پیغام کو بھی عوام تک پہنچایا جارہا ہے۔ ان عظیم الشان پروگراموں کے لئے میں گچھادھیپتی آچاریہ شریمد وجے نتیانند سوریشور جی مہاراج کا بھی خاص طور پر خیرمقدم کرتا ہوں۔ آپ کے درشن، آشیرواد اور قربت کی خوش نصیبی مجھے وڈودرا اور چھوٹا اودے پور کے کنواٹ گاؤں میں بھی حاصل ہوئی تھی۔ آج پھر آپ کے سامنے حاضر ہونے کا موقع ملا ہے جسے میں اپنی ایک نیکی تصور کرتا ہوں۔ سنت آچاریہ شریمد وجے نتیانند سوریشور جی مہاراج کہا کرتے ہیں کہ گجرات کی دھرتی نے ہمیں دو ولبھ دیے اور ابھی ابھی اس بات کا ذکر ہوا۔ سیاسی میدان میں سردار ولبھ بھائی پٹیل اور روحانی میدان میں جین آچاریہ وجے ولبھ سوریشور جی مہاراج۔ ویسے میں دونوں ہی عظیم شخصیتوں میں ایک یکسانیت اور دیکھتا ہوں۔ دونوں نے ہی بھارت کے اتحاد اور بھائی چارے کے لئے اپنی زندگی وقف کردی۔ میری خوش بختی ہے کہ مجھے ملک نے سردار ولبھ بھائی پٹیل کی دنیا کی سب سے بلند ’اسٹیچو آف یونٹی‘ کی نقاب کشائی کا موقع دیا تھا اور آج جین آچاریہ وجے ولبھ جی کی ’اسٹیچو آف پیس‘ کی نقاب کشائی کی خوش بختی مجھے مل رہی ہے۔
سنت حضرات!
بھارت نے ہمیشہ پوری دنیا کو، انسانیت کو، امن، عدم تشدد اور بھائی چارے کی راہ دکھائی ہے۔ یہ وہ پیغام ہے جن کی ترغیب دنیا کو بھارت سے ملتی ہے۔ اسی رہنمائی کے لئے آج دنیا ایک بار پھر بھارت کی جانب دیکھ رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ’اسٹیچو آف پیس‘، دنیا میں امن، عدم تشدد اور خدمت کے لئے باعث تحریک بنے گا۔
ساتھیو!
آچاریہ وجے ولبھ جی کہتے تھے – ’’مذہب کوئی کناروں سے محصور تالاب نہیں ہے، بلکہ ایک بہتی دھارا ہے جو سب کو مساوی طریقے سے دستیاب ہونی چاہئے۔‘‘ ان کا یہ پیغام پوری دنیا کے لئے انتہائی موزوں ہے۔ان کی زندگی کا جو پھیلاؤ رہا ہے اس میں ضروری ہے کہ ان کے بارے میں بار بار بات کی جائے، ان کے فلسفہ زندگی کو دہرایا جائے۔ وہ ایک فلسفی بھی تھے، سماجی مصلح بھی تھے۔ وہ دور اندیش بھی تھے اور عوامی خدمت گار بھی تھے۔ وہ تلسی داس، آنند دھن اور میرا کی طرح پرماتما کے بھکت کوی بھی تھے اور جدید بھارت کا خواب دیکھنے والے بھی تھے۔ ایسے میں یہ بہت ضروری ہے کہ ان کا پیغام، ان کی تعلیمات اور ان کی زندگی ہماری نئی نسل تک پہنچے۔
ساتھیو!
بھارت کی تاریخ آپ دیکھیں تو آپ محسوس کریں گے کہ جب بھی بھارت کو داخلی روشنی کی ضرورت ہوئی ہے، سنتوں کی روایت سے کوئی نہ کوئی سورج طلوع ہوا ہے۔ کوئی نہ کوئی بڑا سنت ہر زمانے میں ہمارے ملک میں رہا ہے، جس نے اس زمانے کے پیش نظر سماج کو سمت دینے کا کام کیا ہے۔ آچاریہ وجے ولبھ جی ایسے ہی سنت تھے۔ غلامی کے اس دور میں انھوں نے ملک کے گاؤں گاؤں، شہر شہر پیدل سفر کئے، ملک کے وقار کو جگانے کی کوشش کی۔ آج جب ہم آزادی کے 75 سال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آزادی کی تحریک کے ایک پہلو کو تو دنیا کے سامنے کسی نہ کسی شکل میں ہم نے ہمارے آنکھ کان کی جانب سے گزرا ہے لیکن اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا کہ بھارت کی آزادی کی تحریک کو تقویت بھکتی تحریک سے ملی تھی۔ جن جن کو بھکتی تحریک کے ذریعے سے ہندوستان کے کونے کونے سے سنتوں نے، مہنتوں نے، رشی منیوں نے، آچاریوں نے، بھگونتوں نے اس شعور کو بیدار کیا تھا۔ ایک پیٹھکا تیار کی تھی اور اس پیٹھکا نے بعد میں تحریک آزادی کو بہت بڑی طاقت دی تھی اور اس پوری پیٹھکا کو تیار کرنے والوں میں جو ملک میں متعدد سنت تھے ان میں ایک ولبھ گرو بھی تھے۔ گرو ولبھ کا بہت بڑا تعاون تھا جس نے تحریک آزادی کی پیٹھکا طے کی تھی، لیکن آج اکیسویں صدی میں، میں آچاریوں سے، سنتوں سے، بھگونتوں سے، کتھا کاروں سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں، جس طرح سے آزادی کی تحریک کی پیٹھکا بھکتی تحریک سے شروع ہوئی، بھکتی تحریک نے اسے طاقت دی ویسے ہی آتم نربھر بھارت کی پیٹھکا تیار کرنے کا کام بھی ہمارے سنتوں، مہنتوں، آچاریوں کا ہے۔ آپ جہاں بھی جائیں، جہاں بھی بولیں، اپنے شاگرد ہوں یا سنت جن ہوں، آپ کے منھ سے مسلسل یہ پیغام ملک کے ہر شخص تک پہنچتے رہنا چاہئے اور وہ پیغام ہے ’ووکل فار لوکل‘۔ جتنا زیادہ ہمارے کتھاکار، ہمارے آچاریہ، ہمارے بھگونت، ہمارے سنت حضرات، ان کی طرف سے بات جتنی زیادہ آئے گی، جیسے اس وقت آزادی کی پیٹھکا آپ سبھی آچاریوں، سنتوں، مہنتوں نے کی تھی ویسی ہی آمادی کی پیٹھکا آتم نربھر بھارت کی پیٹھکا آپ تیار کرسکتے ہیں اور اس لئے میں آج ملک کے سبھی سنتوں، عظیم شخصیتوں سے درخواست کرسکتا ہوں۔ پردھان سیوک کے طور پر میں درخواست کرسکتا ہوں کہ آئیے، ہم اس کے لئے آگے بڑھیں۔ کتنے ہی تحریک آزادی کے مجاہد ان عظیم شخصیتوں سے ترغیب لیتے تھے۔ پنڈت مدن موہن مالویہ، مرارجی بھائی دیسائی جیسے کتنے ہی عوامی لیڈر ان کی رہنمائی حاصل کرنے کے لئے ان کے پاس جاتے تھے۔ انھوں نے ملک کی آزادی کے لئے خواب دیکھا اور آزاد بھارت کیسا ہو، اس کا بھی خاکہ تیار کیا۔ سودیشی اور آتم نربھر بھارت پر ان کا خصوصی زور تھا۔ انھوں نے تاعمر کھادی پہنی، سودیشی کو اپنایا اور سودیشی کا عہد بھی دلایا۔ سنتوں کے خیالات کیسے امر اور دائمی ہوتے ہیں، آچاریہ وجے ولبھ جی کی کوشش اس کی زندہ مثال ہے۔ ملک کے لئے جو خواب انھوں نے آزادی سے قبل دیکھا تھا، وہ خیال آج ’آتم نربھر بھارت‘ مہم کے ذریعے تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ساتھیو!
عظیم شخصیتوں کے، سنتوں کے خیالات اس لئے امر ہوتے ہیں، کیونکہ وہ جو کہتے ہیں، جو بتاتے ہیں وہی اپنی زندگی میں جیتے ہیں۔ آچاریہ وجے ولبھ جی کہتے تھے – ’’سادھو مہاتماؤں کا فرض صرف اپنی روح کا بھلا کرنے میں ہی ختم نہیں ہوتا۔ ان کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ جہالت، لڑائی جھگڑا، بیکاری، عدم برابری، اندھی عقیدت، کاہلی، بری لت اور برے رسوم و رواج، جن سے سماج کے ہزاروں لوگ متاثر ہورہے ہوں ان کے خاتمے کے لئے ہمیشہ کوشش کریں۔‘‘ ان کے اسی سماجی فلسفے سے تحریک پاکر آج ان کی روایت میں کتنے ہی نوجوان سماجی خدمت سے جڑرہے ہیں، خدمت کا عہد کررہے ہیں۔ سنت حضرات، آپ سبھی یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خدمت، تعلیم اور آتم نربھرتا جیسے موضوعات آچاریہ شری کے دل کے سب سے قریب تھے۔ غلامی کے دور کے سبھی چیلنجوں کے باوجود انھوں نے جگہ جگہ تعلیم کی اشاعت کی۔ گروکلوں، اسکولوں اور کالجوں کو قائم کیا۔ انھوں نے اپیل کی تھی – ’’گھر گھر دِویا دیپ جلے‘‘۔ یعنی ہر گھر میں علم کی شمع روشن ہو۔ لیکن وہ یہ بات بھی سمجھتے تھے کہ انگریزوں کے ذریعے بنایا گیا نظام تعلیم بھارت کی آزادی اور ترقی میں معاون نہیں ہوسکتا۔ اس لئے انھوں نے جن اسکولوں، کالجوں کو قائم کیا وہاں تعلیم کو بھارتیتا کا رنگ و آہنگ دیا، جیسے مہاتما گاندھی نے گجرات ودیاپیٹھ کا خواب دیکھا تھا ویسا ہی خواب گرو ولبھ نے دیکھا تھا۔ ایک طرح سے آچاریہ وجے ولبھ جی نے تعلیم کے شعبے میں بھارت کو آتم نربھر بنانے کی مہم شروع کی تھی۔ انھوں نے پنجاب، راجستھان، گجرات، مہاراشٹر اور اترپردیش جیسی کئی ریاستوں میں بھارتی تہذیب والے بہت سے تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی۔ آج ان کے آشیرواد سے متعدد تعلیمی ادارے ملک میں کام کررہے ہیں۔
ساتھیو!
آچاریہ جی کے یہ تعلیمی ادارے آج ایک باغیچہ کی طرح ہیں۔ یہ بھارتی اقدار کی پاٹھ شالا بن کر ملک کی خدمت کررہے ہیں۔ سو برسوں سے زیادہ کے اس سفر میں کتنے ہی ہونہار نوجوان ان اداروں سے نکلے ہیں۔ کتنے ہی صنعت کاروں، ججوں، ڈاکٹروں اور انجینئروں نے ان اداروں سے نکل کر ملک کے لئے غیرمعمولی تعاون دیا ہے۔ ان اداروں کی ایک اور خاص بات رہی ہے – خواتین کی تعلیم، عورتوں کی تعلیم۔ خواتین کی تعلیم کے شعبے میں ان اداروں نے جو تعاون دیا ہے، ملک آج اس کا مقروض ہے۔ انھوں نے اس مشکل وقت میں بھی خواتین کی تعلیم کی شمع روشن کی۔ متعدد لڑکیوں کے آشرم قائم کروائے ہیں اور خواتین کو اصل دھارے سے جوڑا ہے۔ جین سادھویوں سے سبھا میں پروچن دلانے کی روایت وجے ولبھ جی نے ہی شروع کروائی تھی۔ ان کی ان کوششوں کا پیغام یہی تھا کہ خواتین کو سماج میں، تعلیم میں برابری کا درجہ ملے۔ بھیدبھاؤ والی سوچ اور رسومات ختم ہوں۔ آج آپ غور کریں گے تو پائیں گے کہ ملک میں اس سمت میں کتنی ساری تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ تین طلاق جیسے برے رسوم کے خلاف ملک نے قانون بنایا ہے۔ خواتین کے لئے ایسے شعبوں کو بھی کھولا جارہا ہے جہاں اب تک ان کے کام کرنے پر روک تھی۔ اب ملک کی بیٹیوں کو افواج میں اپنی بہادری دکھانے کے لئے ان کو بھی زیادہ متبادل مل رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی نئی ’قومی تعلیمی پالیسی‘ اب پورے ملک میں نافذ ہونے والی ہے۔ یہ پالیسی تعلیم کو بھارتی ماحول میں جدید بنانے کے ساتھ ساتھ خواتین کے لئے بھی نئے مواقع فراہم کرے گی۔
ساتھیو،
آچاریہ وجے ولبھ جی کہتے تھے – قوم کی ذمے داریوں کو نظرانداز نہیں بلکہ ان پر عمل کرنا چاہئے۔ وہ اپنی زندگی میں بھی ’ایک بھارت سریشٹھ بھارت‘ کے ہی اصول کو جیتے تھے۔ انسانیت کی اسی سچائی پر چل کر انھوں نے ذات، مذہب، فرقے کی حدوں سے باہر جاکر سب کی ترقی کے لئے کام کیا۔ انھوں نے سماج کے اہل طبقات کو راغب کیا کہ ترقی کے آخری پائیدان پر رہنے والے عام لوگوں کی خدمت کریں۔ جو بات مہاتما گاندھی کہتے تھے وہ بات گرو ولبھ جی کرکے دکھاتے تھے۔ انھوں نے غریب سے غریب سماج کے آخری فرد کو بنیادی سہولتیں دستیاب کرائیں۔ ان کی اس ترغیب کا اثر آپ ہم اور آپ ملک بھر میں دیکھ رہے ہیں۔ ان کی ترغیب سے ملک کے کئی شہروں میں غریبوں کے لئے گھر بنے ہیں، اسپتال بنے، انھیں روزگار کے مواقع مہیا کرائے گئے ہیں۔ آج ملک بھر میں آتم ولبھ کے نام سے کتنے ہی ادارے غریب بچوں کے مستقبل کی ذمے داری اٹھارہے ہیں، ماؤں بہنوں کو زندگی گزارنے کے لئے، غریب بیمار لوگوں کو علاج کے لئے مدد کررہے ہیں۔
ساتھیو!
آچاریہ وجے ولبھ جی کی زندگی ہر مخلوق کے لئے رحم، نرم دلی اور محبت سے شرابور تھی۔ اسی لئے ان کے آشیرواد سے آج جانداروں کے تئیں رحم دلی کے لئے پرندوں کا اسپتال اور متعدد گئوشالائیں بھی ملک میں چل رہی ہیں۔ یہ کوئی عام ادارے نہیں ہیں۔ یہ بھارت کے جذبے کے مراکز ہیں۔ یہ بھارت اور بھارتی قدروں کی پہچان ہیں۔
ساتھیو!
آج ملک آچاریہ وجے ولبھ جی کے انہی انسانی قدروں کو مضبوط کررہا ہے، جن کے لئے انھوں نے خود کو وقف کیا تھا۔ کورونا بیماری کا یہ مشکل وقت ہمارے جذبۂ خدمت، ہمارے اتحاد کے لئے کسوٹی کی طرح تھا، لیکن مجھے اطمینان ہے کہ ملک اس کسوٹی پر کھرا اتررہا ہے۔ ملک نے غریبوں کی بہبود کے جذبے کو نہ صرف زندگی رکھا بلکہ دنیا کے سامنے ایک مثال بھی پیش کی ہے۔
ساتھیو!
آچاریہ وجے ولبھ سوری جی کہتے تھے – ’’سبھی جانداروں کی خدمت کرنا یہی ہر بھارت واسی کا دھرم ہے‘‘۔ آج ان کے اسی قول کو ہمیں اپنا اصول مان کر آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں اپنی ہر کوشش میں یہ سوچنا ہے کہ اس سے ملک کو کیا فائدہ ہوگا، ملک کے غریب کی بھلائی کیسے ہوگی۔ میں نے جیسے شروع میں کہا – ’ووکل فار لوکل‘ اس کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور اس کی قیادت کی ذمے داری سنتوں کو اٹھانی ہی ہوگی۔ سنتوں، مہنتوں، منیوں کو اس اصول کو آگے بڑھانا ہی ہوگا۔ اس بار دیوالی اور سبھی تہواروں پر جس طرح سے ملک نے لوکل معیشت کی جم کر حمایت کی، یہ واقعی نئی توانائی دینے والی ہے۔ اس سوچ کو، اس کوشش کو ہمیں آگے بھی بنائے رکھنا ہے۔ آئیے، آچاریہ وجے ولبھ جی کی 150ویں جینتی پر ہم سب عہد کریں کہ انھوں نے جو کام اپنی زندگی میں شروع کئے تھے، ان سبھی کاموں کو ہم پوری لگن کے ساتھ، پوری خودسپردگی کے جذبے کے ساتھ مل جل کر آگے بڑھائیں گے۔ ہم سبھی مل کر بھارت کو اقتصادی ہی نہیں فکری اعتبار سے بھی خودکفیل بنائیں گے۔ اسی عزم کے ساتھ آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔ آپ سبھی صحت مند رہیں، سکھی رہیں۔ سبھی آچاریہ، بھگونتوں کو میں سلام کرتے ہوئے، سبھی سادھوی مہاراج کا بھی مجھے یہاں سے درجن ہورہا ہے ان سب کو بھی سلام کرتے ہوئے آج اس مبارک موقع پر مجھے آپ سب کے بیچ آنے کا موقع ملا، یہ میری خوش بختی ہے۔ میں پھر ایک بار سبھی سنتوں، مہنتوں، آچاریوں کو سلام کرتے ہوئے اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ!
******
م ن۔ م م۔ م ر
U-NO. 7277
मेरा सौभाग्य है कि मुझे देश ने सरदार वल्लभ भाई पटेल की विश्व की सबसे ऊंची ‘स्टेचू ऑफ यूनिटी’ के लोकार्पण का अवसर दिया था,
— PMO India (@PMOIndia) November 16, 2020
और आज जैनाचार्य विजय वल्लभ जी की भी ‘स्टेचू ऑफ पीस’ के अनावरण का सौभाग्य मुझे मिल रहा है: PM
भारत ने हमेशा पूरे विश्व को, मानवता को, शांति, अहिंसा और बंधुत्व का मार्ग दिखाया है।
— PMO India (@PMOIndia) November 16, 2020
ये वो संदेश हैं जिनकी प्रेरणा विश्व को भारत से मिलती है।
इसी मार्गदर्शन के लिए दुनिया आज एक बार फिर भारत की ओर देख रही है: PM
भारत का इतिहास आप देखें तो आप महसूस करेंगे, जब भी भारत को आंतरिक प्रकाश की जरूरत हुई है, संत परंपरा से कोई न कोई सूर्य उदय हुआ है।
— PMO India (@PMOIndia) November 16, 2020
कोई न कोई बड़ा संत हर कालखंड में हमारे देश में रहा है, जिसने उस कालखंड को देखते हुए समाज को दिशा दी है।
आचार्य विजय वल्लभ जी ऐसे ही संत थे: PM
एक तरह से आचार्य विजयवल्लभ जी ने शिक्षा के क्षेत्र में भारत को आत्मनिर्भर बनाने का अभियान शुरू किया था।
— PMO India (@PMOIndia) November 16, 2020
उन्होंने पंजाब, राजस्थान, गुजरात, महाराष्ट्र उत्तर प्रदेश जैसे कई राज्यों में भारतीय संस्कारों वाले बहुत से शिक्षण संस्थाओं की आधारशिला रखी: PM
आचार्य जी के ये शिक्षण संस्थान आज एक उपवन की तरह हैं।
— PMO India (@PMOIndia) November 16, 2020
सौ सालों से अधिक की इस यात्रा में कितने ही प्रतिभाशाली युवा इन संस्थानों से निकले हैं।
कितने ही उद्योगपतियों, न्यायाधीशों, डॉक्टर्स, और इंजीनियर्स ने इन संस्थानों से निकलकर देश के लिए अभूतपूर्व योगदान किया है: PM
स्त्री शिक्षा के क्षेत्र में इन संस्थानों ने जो योगदान दिया है, देश आज उसका ऋणि है।
— PMO India (@PMOIndia) November 16, 2020
उन्होंने उस कठिन समय में भी स्त्री शिक्षा की अलख जगाई।
अनेक बालिकाश्रम स्थापित करवाए, और महिलाओं को मुख्यधारा से जोड़ा: PM
आचार्य विजयवल्लभ जी का जीवन हर जीव के लिए दया, करुणा और प्रेम से ओत-प्रोत था।
— PMO India (@PMOIndia) November 16, 2020
उनके आशीर्वाद से आज जीवदया के लिए पक्षी हॉस्पिटल और अनेक गौशालाएं देश में चल रहीं हैं।
ये कोई सामान्य संस्थान नहीं हैं। ये भारत की भावना के अनुष्ठान हैं।
ये भारत और भारतीय मूल्यों की पहचान हैं: PM
जिस प्रकार आजादी के आंदोलन की पीठिका भक्ति आंदोलन से शुरू हुई, वैसे ही आत्मनिर्भर भारत की पीठिका हमारे संत-महंत-आचार्य तैयार कर सकते हैं।
— Narendra Modi (@narendramodi) November 16, 2020
हर व्यक्ति तक वोकल फॉर लोकल का संदेश पहुंचते रहना चाहिए। मैं संतों-महापुरुषों से विनम्र निवेदन करता हूं कि आइए, हम इसके लिए आगे बढ़ें। pic.twitter.com/2i0YuLvWgU
भारत ने हमेशा पूरे विश्व और मानवता को शांति, अहिंसा एवं बंधुत्व का मार्ग दिखाया है। इसी मार्गदर्शन के लिए दुनिया आज एक बार फिर भारत की ओर देख रही है।
— Narendra Modi (@narendramodi) November 16, 2020
मुझे विश्वास है कि यह ‘स्टैच्यू ऑफ पीस’ विश्व में शांति, अहिंसा और सेवा का एक प्रेरणास्रोत बनेगी। pic.twitter.com/dEp88LbAyf
सेवा, शिक्षा और आत्मनिर्भरता, ये विषय आचार्य विजयवल्लभ जी के हृदय के सबसे करीब थे।
— Narendra Modi (@narendramodi) November 16, 2020
उनके इसी सामाजिक दर्शन से प्रेरित होकर आज उनकी परंपरा से कितने ही युवा समाजसेवा के लिए जुड़ रहे हैं, सेवा का संकल्प ले रहे हैं। pic.twitter.com/hvVSYMPy47
कोरोना महामारी का कठिन समय हमारे सेवाभाव और हमारी एकजुटता के लिए कसौटी की तरह रहा है, लेकिन मुझे संतोष है कि देश इस कसौटी पर खरा उतर रहा है।
— Narendra Modi (@narendramodi) November 16, 2020
देश ने गरीब कल्याण की भावना को न केवल जीवंत रखा, बल्कि दुनिया के सामने एक उदाहरण भी पेश किया है। pic.twitter.com/D8YaWVn9eu