Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

جینوم انڈیا پروجیکٹ کے آغاز پر وزیر اعظم کے تبصرے کا متن

جینوم انڈیا پروجیکٹ کے آغاز پر وزیر اعظم کے تبصرے کا متن


مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی ڈاکٹر جتیندر سنگھ جی، ملک بھر سے یہاں موجود تمام سائنسدان، دیگر معززین، خواتین و حضرات!

آج ہندوستان نے تحقیق کی دنیا میں ایک بہت ہی تاریخی قدم اٹھایا ہے۔ جینوم انڈیا پروجیکٹ کو پانچ سال پہلے منظوری دی گئی تھی۔ اسی درمیان کووِڈ کے چیلنجوں کے باوجود ہمارے سائنسدانوں نے بڑی محنت سے اس پروجیکٹ کو مکمل کیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک کے 20 سے زیادہ معروف تحقیقی اداروں جیسے آئی آئی ایس سی، آئی آئی ٹی، سی ایس آئی آر، اور بی آر آئی سی نے اس تحقیق میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس پروجیکٹ کا ڈیٹا، 10,000 ہندوستانیوں کا جینوم سیکوئنس، اب انڈین بائیولوجیکل ڈیٹا سینٹر میں دستیاب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ منصوبہ بایو ٹیکنالوجی ریسرچ کے میدان میں سنگ میل ثابت ہوگا۔ میں اس پروجیکٹ سے وابستہ تمام ساتھیوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

ساتھیوں،

جینوم انڈیا پروجیکٹ ہندوستان کے بایو ٹیکنالوجی انقلاب میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس پروجیکٹ کی مدد سے ہم ملک میں متنوع جینیاتی وسائل پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ملک میں مختلف آبادیوں سے تعلق رکھنے والے 10 ہزار افراد کی جینوم سیکوینسنگ کی گئی ہے۔ اب یہ ڈیٹا ہمارے سائنسدانوں اور محققین کے لیے دستیاب ہونے والا ہے۔ اس سے ہمارے اسکالروں اور ہمارے سائنس دانوں کو ہندوستان کے جینیاتی منظر نامے کو سمجھنے میں بہت مدد ملے گی۔ ان معلومات سے ملک کی پالیسی سازی اور منصوبہ بندی کا کام بھی آسان ہو جائے گا۔

ساتھیوں،

آپ سبھی یہاں اپنے شعبوں کے ماہر ہیں، عظیم سائنسدان ہیں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہندوستان کی وسعت اور تنوع صرف خوراک، زبان اور جغرافیہ تک محدود نہیں ہے۔ ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کے جین میں بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے۔ ایسے میں بیماریوں کی نوعیت بھی قدرتی طور پر تنوع سے بھرپور ہوتی ہے۔ اس لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ کونسی دوا کس شخص کو فائدہ دے گی۔ اس کے لیے شہریوں کی جینیاتی شناخت جاننا ضروری ہے۔ اب سیکل سیل انیمیا کی بیماری ہمارے قبائلی معاشرے میں ایک بڑا بحران ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے ہم نے ایک قومی مشن شروع کیا ہے۔ لیکن اس میں چیلنج بھی کم نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ سیکل سیل کا مسئلہ جو ہمارے قبائلی معاشرے میں ایک علاقے میں موجود ہے، دوسرے علاقے کے قبائلی معاشرے میں موجود نہ ہو، وہاں یہ مختلف نوعیت کا ہو۔ یہ سب باتیں ہم یقینی طور پر تب ہی جان پائیں گے جب ہم مکمل جینیاتی مطالعہ کریں گے۔ اس سے ہندوستانی آبادی کے منفرد جینومک نمونوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اور اس کے بعد ہی ہم کسی خاص گروہ کے مخصوص مسائل کے لیے خصوصی حل یا موثر ادویات تیار کر سکتے ہیں۔ میں نے سکیل سیل کی مثال دی ہے۔ لیکن بات یہیں تک محدود نہیں ہے، میں نے یہ بات صرف مثال کے طور پر بتائی ہے۔ ہندوستان میں، ہم ابھی تک جینیاتی بیماریوں کے ایک بڑے حصے سے لاعلم ہیں، یعنی ایسی بیماریاں جو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہیں۔ جینوم انڈیا پروجیکٹ ہندوستان میں ایسی تمام بیماریوں کا مؤثر علاج تیار کرنے میں مدد کرے گا۔

ساتھیوں،

اکیسویں صدی میں، بایو ٹیکنالوجی اور بایو ماس کا امتزاج ایک بایو اکانومی کے طور پر ہندوستان کی ترقی کی بنیاد کا ایک اہم حصہ ہے۔ بایو اکانومی کا مقصد قدرتی وسائل کا صحیح استعمال، بایو بیسڈ مصنوعات اور خدمات کا فروغ اور اس شعبے میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا پائیدار ترقی کو تیز کرتا ہے اور جدت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ پچھلے 10 سالوں میں ملک کی بایو اکانومی نے تیزی سے ترقی کی ہے۔ بایو اکانومی جس کی مالیت 2014 میں 10 بلین ڈالر تھی، آج 150 بلین ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ہندوستان بھی اپنی جیو اکانومی کو نئی بلندیوں پر لے جانے میں مصروف ہے۔ حال ہی میں بھارت نے بایو ای3 پالیسی شروع کی ہے۔ اس پالیسی کا وژن یہ ہے کہ ہندوستان آئی ٹی انقلاب کی طرح گلوبل بایوٹیک لینڈ اسکیپ میں ایک رہنما کے طور پر ابھرے۔ آپ تمام سائنسدانوں کا اس میں بڑا کردار ہے اور اس کے لیے میں آپ سب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

ساتھیوں،

ہندوستان نے دنیا کے ایک بڑے فارما ہب کے طور پر جو شناخت بنائی ہے، آج ملک اسے ایک نئی جہت دے رہا ہے۔ پچھلی دہائی میں، ہندوستان نے صحت عامہ کی دیکھ بھال کے حوالے سے بہت سے انقلابی قدم اٹھائے ہیں۔ کروڑوں ہندوستانیوں کے لیے مفت علاج کی سہولیات، جن اوشدھی کیندروں پر 80 فیصد رعایت پر دواؤں کی دستیابی، جدید طبی انفراسٹرکچر کی تعمیر، یہ پچھلے 10 سالوں کی بڑی کامیابیاں ہیں۔ کورونا کے دور میں ہندوستان نے ثابت کر دیا ہے کہ ہمارا فارما ایکو سسٹم کتنا قابل ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہندوستان میں ادویات کی تیاری کے لیے ایک مضبوط سپلائی اور ویلیو چین بنایا جائے۔ جینوم انڈیا پروجیکٹ اب اس سمت میں ہندوستان کی کوششوں کو نئی تحریک دے گا اور اسے نئی توانائی سے بھر دے گا۔

ساتھیوں،

آج دنیا عالمی مسائل کے حل کے لیے ہندوستان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ذمے داری بھی ہے اور موقع بھی۔ اس لیے آج ہندوستان میں ایک بہت بڑا ریسرچ ایکو سسٹم بنایا جا رہا ہے۔ پچھلے 10 سالوں میں تعلیم کی ہر سطح پر تحقیق اور اختراع پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ آج ہمارے طلبا 10 ہزار سے زیادہ اٹل ٹنکرنگ لیب میں روزانہ نئے تجربات کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کے اختراعی خیالات کو فروغ دینے کے لیے ملک بھر میں سینکڑوں اٹل انکیوبیشن سینٹر قائم کیے گئے ہیں۔ پی ایچ ڈی کے دوران تحقیق کے لیے پی ایم ریسرچ فیلو شپ سکیم بھی چلائی جا رہی ہے۔ کثیر ضابطہ اور بین الاقوامی تحقیق کو فروغ دینے کے لیے قومی تحقیقی فنڈ بنایا گیا ہے۔ انوسندھان نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن ملک میں سائنس، انجینئرنگ، ماحولیات اور صحت جیسے ہر شعبے میں نئی ​​پیش رفت لانے جا رہا ہے۔ سن رائز ٹیکنالوجی میں تحقیق اور سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے حکومت نے ایک لاکھ کروڑ روپے کا کارپس بنانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اس سے بایو ٹیکنالوجی کا شعبہ بھی ترقی کرے گا اور نوجوان سائنسدانوں کو بہت مدد ملے گی۔

ساتھیوں،

حال ہی میں حکومت نے ون نیشن ون سبسکرپشن کے حوالے سے ایک اور اہم فیصلہ لیا ہے۔ ہماری حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ہندوستانی طلبا اور محققین کو دنیا کے ممتاز جرائد تک آسانی سے رسائی حاصل ہو اور انھیں پیسہ خرچ نہ کرنا پڑے۔ ان تمام کوششوں سے ہندوستان کو 21ویں صدی کی دنیا کا علمی مرکز اور اختراعی مرکز بنانے میں بہت مدد ملے گی۔

ساتھیوں،

جس طرح سے ہماری ’پرو پیپل گورننس‘، ہمارے ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر نے دنیا کو ایک نیا ماڈل دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جینوم انڈیا پروجیکٹ اسی طرح جینیاتی تحقیق کے میدان میں ہندوستان کی شبیہہ کو مزید مضبوط کرے گا۔ ایک بار پھر، جینوم انڈیا کی کامیابی کے لیے آپ سب کو میری نیک خواہشات۔

 

شکریہ، نمسکار۔

 ********

ش ح۔ ف ش ع

U: 5042