Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

جاپان میں بھارتی برادری سے وزیر اعظم کے خطاب کا متن

جاپان میں بھارتی برادری سے وزیر اعظم کے خطاب کا متن


بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، جب بھی میں جاپان آتا ہوں تو میں ہر بار دیکھتا ہوں کہ آپ کی محبتوں کی بارش میں ہر بار اضافہ ہوجاتا ہے۔ آپ میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کئی برسوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ جاپان کی زبان، ملبوسات، یہاں کی ثقافت، کھانا ایک طرح سے آپ کی زندگی کا بھی حصہ بن گئے ہیں اور اس کا حصہ بننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارتی سماج کی رسومات شمولیت پر مبنی رہی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جاپان میں اپنی روایت، اپنی اقدار، اپنی سرزمین کے تئیں جو عہدبستگی ہے وہ بہت گہری ہے۔ اور دونوں کا ملن ہوا ہے۔ لہذا فطری طور پر اپنائیت کا احساس ہونا قدرتی بات ہے۔

ساتھیو،

آپ یہاں رہ رہے ہیں، آپ میں سے بہت سے لوگ یہاں آباد ہو گئے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگوں نے یہاں شادیاں بھی کرلی ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہاں کتنے سال شامل ہونے کے بعد بھی بھارت کے لیے آپ کا احترام، جب بھارت کے بارے میں آپ اچھی خبر سنتے ہیں تو آپ کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی ۔ ایسا ہوتا ہے، ہے نا؟ اور اگر کوئی بری خبر آتی ہے تو سب سے زیادہ غمگین بھی آپ ہی ہوتے ہیں۔ یہ ہم لوگوں کی خصوصیت ہے کہ ہم کرم بھومی سے تن من سے جڑ جاتے ہیں، کھپ جاتے ہیں، لیکن ہم مادر وطن کی جڑوں سے کبھی دور نہیں ہوتے اور یہ ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔

ساتھیو،

جب سوامی وویکانند جی اپنے تاریخی خطاب کے لیے شکاگو جارہے تھے تو اس سے پہلے وہ جاپان آئے تھے اور جاپان نے ان کے من مندر میں، ان کے ذہن و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔ جاپان کے عوام کی حب الوطنی، جاپان کے عوام کا اعتماد، یہاں کا نظم و ضبط، صفائی ستھرائی کے لیے جاپان کے عوام کی بیداری، وویکانند جی نے کھل کر ان سب کی ستائش کی تھی۔ گرودیو رابندر ناتھ جی ٹیگور بھی کہا کرتے تھے کہ جاپان ایک ایسا ملک ہے جو بیک وقت قدیم اور جدید ہے۔ اور ٹیگور نے کہا: “جاپان قدیم مشرق سے اس طرح نکلا ہے جیسے ایک کمل آسانی سے کیچڑ میں کھل جاتا ہے، جب کہ وہ اپنی جڑوں کو اس گہرائی میں قائم رکھتا ہے جس ست وہ ابھرتا ہے۔” یعنی وہ کہنا چاہتے تھے کہ جاپان اپنی جڑوں سے اتنا ہی مضبوطی سے جڑا ہوا ہے جتنا کمل کا پھول۔ یکساں عظمت کے ساتھ وہ ہر طرف خوب صورتی کو بھی بڑھاتا ہے۔ ہمارے ان عظیم لوگوں کے اس طرح کے مقدس احساسات جاپان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی گہرائیوں کو واضح کرتے ہیں۔

ساتھیو،

اس بار میں جاپان آیا۔ چناں چہ ہمارے سفارتی تعلقات کو ستر سال، سات دہائیاں ہونے والی ہیں۔ آپ بھی یہاں رہتے ہوئے اس کا تجربہ کرتے ہوں گے۔ بھارت میں بھی ہر کوئی یہ محسوس کرتا ہے کہ بھارت اور جاپان فطری شراکت دار ہیں۔ جاپان نے بھارت کے ترقیاتی سفر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جاپان کے ساتھ ہمارے تعلقات قربت و روحانیت کے ہیں، جاپان کے ساتھ ہمارے تعلقات تعاون و تعلق کے ہیں۔ چناں چہ ایک طرح سے یہ رشتہ ہماری طاقت کا ہے، یہ رشتہ احترام کا ہے۔ اور یہ رشتہ بھی دنیا سے مشترکہ تعلق کا ہے۔ جاپان کے ساتھ ہمارا تعلق بدھ، بودھ، علم کا ہے۔ اگر ہمارا مہاکل جاپان میں دائیکوکوٹن ہے۔ ہمارے پاس برہما ہے، تو جاپان میں بونٹین ہیں، ہماری ماں سرستوی ہے، تو جاپان میں بینزائیٹن ہیں۔ ہماری مہادیوی لکشمی ہیں، تو جاپان میں کیچیجوٹن ہیں۔ ہمارے پاس گنیش ہے تو جاپان میں کانگیٹن ہیں۔ اگر جاپان میں زین کی روایت ہے تو ہم دھیان کو روح سے مکالمے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

اکیسویں صدی میں بھی ہم بھارت اور جاپان کے درمیان ان ثقافتی تعلقات کو پورے عزم کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں اور میں کاشی سے رکن پارلیمنٹ ہوں اور بڑے فخر کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ جب جاپان کے سابق وزیر اعظم شیاپی کاشی آئے تھے۔ تب انھوں نے کاشی کو ایک بہت اچھا تحفہ دیا تھا۔ کاشی میں جاپان کے تعاون سے تعمیر کردہ رودراکش اور جو کبھی میری کرم بھومی رہی وہ احمد آباد میں زین گارڈن ہے اور کائزن اکیڈمی ایسی چیزیں ہیں جو ہمیں قریب لاتی ہیں۔ یہاں آپ سب جاپان میں رہتے ہوئے اس تاریخی بندھن کو مضبوط اور مستحکم بنا رہے ہیں۔

ساتھیو،

آج کی دنیا کو شاید پہلے سے کہیں زیادہ بھگوان بدھ کے راستے پر، ان کی تعلیمات پر چلنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو آج دنیا کا ہر چیلنج، چاہے وہ تشدد ہو، انارکی ہو، دہشت گردی ہو، ماحولیاتی تبدیلی ہو، ان تمام سے انسانیت کو بچانے کا راستہ ہے۔ بھارت خوش قسمت ہے کہ اسے بھگوان بدھ کا براہ راست آشیرباد ملا ہے۔ ان کے خیالات کو اپناتے ہوئے بھارت انسانیت کی خدمت جاری رکھے ہوئے ہے۔ چیلنجز کچھ بھی ہوں، چاہے وہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، بھارت ان کا حل تلاش کر رہا ہے۔ کورونا سے دنیا کا سو برسوں کا سب سے بڑا بحران پیدا ہوا۔ وہ ہمارے سامنے ہے اور یہ جب شروع ہوا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ آگے کیا ہوگا۔ پہلے تو ایسا لگتا تھا جیسے یہ وہاں آیا ہے، یہاں کیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسے کیسے سنبھالنا ہے۔ اور نہ ہی کوئی ویکسین تھی اور نہ ہی اس بات کا کوئی اندازہ تھا کہ ویکسین کب تک آئے گی۔ یہاں تک کہ اس بارے میں بھی شک تھا کہ ویکسین آئے گی یا نہیں۔ چاروں طرف غیر یقینی والی صورت حال تھی۔ ان حالات میں بھی بھارت نے دنیا کے ممالک کو دوائیں بھیجی تھیں۔ جب یہ ویکسین دستیاب ہوئی تو بھارت نے میڈ ان انڈیا ویکسین اپنے لاکھوں شہریوں اور دنیا کے 100 سے زائد ممالک کو بھیجی۔

ساتھیو،

بھارت اپنی صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کو مزید بہتر بنانے کے لیے بے مثال سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ملک میں لاکھوں نئے ویل نیس مراکز قائم کیے جارہے ہیں تاکہ دور دراز علاقوں میں بھی صحت کی سہولیات تک رسائی کو یقینی بنایا جاسکے۔ یہ جان کر آپ کو بھی خوشی ہوگی، شاید آج آپ نے سنا ہوگا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھارت کے آشا کارکنوں، آشا بہنوں کو ڈائریکٹر جنرل کے گلوبل ہیلتھ لیڈر ایوارڈ سے نوازا ہے۔ بھارت کی لاکھوں آشا بہنیں ملک میں زچگی کی دیکھ بھال سے لے کر ویکسینیشن تک، غذائیت سے لے کر گاؤں کے اندر صفائی ستھرائی تک ملک کی صحت مہم کو تیز کر رہی ہیں۔ آج میں جاپان کی سرزمین سے تعلق رکھنے والی اپنی تمام آشا کارکن بہنوں کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں انھیں سلام کرتا ہوں۔

ساتھیو،

بھارت آج عالمی چیلنجوں سے نمٹنے میں کس طرح مدد کر رہا ہے۔ اس کی ایک اور مثال ماحولیات ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں آج دنیا کو درپیش ایک اہم بحران بن چکی ہیں۔ ہم نے بھارت میں بھی اس چیلنج کو دیکھا ہے اور ہم اس چیلنج کے حل تلاش کرنے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے پیش رفت کر رہے ہیں۔ بھارت نے 2040 تک نیٹ زیرو کا عہد کیا ہے۔ ہم نے بین الاقوامی شمسی اتحاد جیسے عالمی اقدامات کی قیادت بھی کی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا پر قدرتی آفت کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ ان آفات کے خطرات کو جاپان کے لوگوں سے زیادہ اور کون سمجھ سکتا ہے جو ان کی آلودگی کے برے اثرات کو سمجھ سکتے ہیں؟ جاپان نے قدرتی آفات سے لڑنے کی صلاحیت بھی پیدا کی ہے۔ جاپان کے عوام نے جس طرح ان چیلنجوں کا سامنا کیا ہے۔ ہر مسئلے سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہے۔ اس کے حل دریافت کر لیے گئے ہیں اور انتظامات بھی تیار کیے گئے ہیں۔ افراد کے ساتھ بھی اس طرح کا سلوک کیا گیا ہے۔ یہ اپنے آپ میں خوب صورت ہے۔ اس سمت میں بھارت نے سی ڈی آر آئی (کوالیشن فار ڈیزاسٹر لچک دار بنیادی ڈھانچے) میں بھی سبقت لے لی ہے۔

ساتھیو،

آج بھارت گرین فیوچر، گرین جاب کیریئر روڈ میپ کے لیے بھی بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ بھارت میں برقی حرکت پذیری کو وسیع فروغ دیا جارہا ہے۔ سبز ہائیڈروجن کو ہائیڈرو کاربن کا متبادل بنانے کے لیے ایک خصوصی مشن شروع کیا گیا ہے۔ بائیو فیول اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے متعلق تحقیق بہت بڑے پیمانے پر کی جارہی ہے۔ بھارت نے اس دہائی کے آخر تک غیر فوسل آئندھن سے اپنی کل نصب بجلی کی صلاحیت کا 50 فیصد پورا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

ساتھیو،

مسائل کے حل میں بھارتیوں کا یہی اعتماد ہے۔ یہ اعتماد آج ہر شعبے میں، ہر سمت میں، ہر قدم پر نظر آتا ہے۔ پچھلے دو برسوں میں جس طرح عالمی چین سپلائی کو نقصان پہنچا ہے۔ پوری سپلائی چین سوالیہ نشان ہے۔ آج یہ پوری دنیا کے لیے اپنے آپ میں ایک بہت بڑا بحران ہے۔ مستقبل میں ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے ہم خود انحصاری کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ خود انحصاری کا یہ عزم صرف بھارت کے لیے ہے۔ یہ ایک مستحکم، معتبر عالمی سپلائی چین کے لیے بھی ایک بہت بڑی سرمایہ کاری ہے۔ آج پوری دنیا حسوس کر رہی ہے کہ بھارت جس رفتار اور پیمانے پر کام کر سکتا ہے وہ بے مثال ہے۔  دنیا آج یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ بھارت جس پیمانے پر اپنی بنیادی ڈھانچے کی ادارہ جاتی صلاحیت کی تعمیر پر زور دے رہا ہے وہ بھی بے مثال ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ جاپان ہماری اس صلاحیت کی تعمیر میں ایک اہم شراکت دار ہے۔  ممبئی احمد آباد ہائی اسپیڈ ریل ہو، دہلی ممبئی انڈسٹریل کوریڈور ہو، فریٹ کوریڈور ہو، یہ بھارت جاپان تعاون کی بہترین مثالیں ہیں۔

ساتھیو،

بھارت میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں ان کے بارے میں ایک اور خاص بات ہے۔ ہم نے بھارت میں ایک مضبوط اور لچک دار اور ذمہ دار جمہوریت تشکیل دی ہے۔ گذشتہ آٹھ برسوں میں ہم نے اسے لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی کا ذریعہ بنایا ہے۔ آج وہ بھارت کے جمہوری عمل میں بھی شامل ہو رہے ہیں۔ جو لوگ کبھی فخر کے ساتھ تجربہ نہیں کر رہے تھے کہ وہ بھی اس کا حصہ ہیں۔ ہر بار، ہر انتخابات میں ریکارڈ ٹرن آؤٹ اور اس میں بھی ہماری مائیں اور بہنیں جو یہاں ہیں ان کو خوشی ہوگی۔ اگر آپ بھارت کے انتخابات کو تفصیل سے دیکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین ووٹ دے رہی ہیں۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ بھارت میں جمہوریت عام شہریوں کے حقوق سے کتنی باخبر ہے، اس کی خاطر کتنی وقف ہے اور یہ ہر شہری کو کتنا طاقتور بناتی ہے۔

ساتھیو،

بنیادی سہولتوں کے ساتھ ساتھ ہم بھارت کی امنگ کو بھی ایک نئی جہت دے رہے ہیں۔ بھارت میں جامعیت، لیکیج پروف گورننس یعنی ترسیل کے نظام، ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ایک میکنزم کو وسعت دی جارہی ہے تاکہ جسے جس چیز کا حق ہے وہ بغیر کسی پریشانی کے، بغیر کسی سفارش کے، کسی بھی بدعنوانی کے بغیر وہ حق حاصل کر سکتا ہے اور اس کے لیے ہم پوری طاقت سے مصروف ہیں۔ اور ٹیکنالوجی کے اس استعمال سے کورونا کے اس دور میں، گذشتہ دو برسوں میں بھارت اور خاص طور پر بھارت کے دور دراز دیہات میں رہنے والے جنگلات میں رہنے والے ہمارے شہریوں کے حقوق میں براہ راست فائدہ کی منتقلی کی اس روایت میں مدد ملی ہے۔

ساتھیو،

بھارت کا بینکاری نظام ان مشکل حالات میں بھی مسلسل چل رہا ہے اور اس کی ایک وجہ بھارت میں آنے والا ڈیجیٹل انقلاب بھی ہے۔ ڈیجیٹل نیٹ ورک کی طاقت سے یہ نتیجہ مل رہا ہے۔ اور آپ کو ساتھیو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ پوری دنیا میں جو لین دین ہوتے ہیں کیش لیس، یہاں جاپان میں آپ ٹیکنالوجی سے اچھی طرح واقف ہیں، آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی، یہ حیرت اور فخر کی بات ہوگی کہ دنیا بھر میں ہونے والے تمام ڈیجیٹل لین دین میں سے 40 فیصد صرف بھارت میں ہوتی ہیں۔ کورونا کے ابتدائی دنوں میں جب سب کچھ بند تھا، بحران کے دور میں بھی بھارت سرکار ایک ہی وقت میں ایک کلک بٹن دبا کر اور آسانی سے ان تک مدد پہنچانے میں کام یاب ہوئی۔ اور جس کے لیے مدد طے تھی، اسے بروقت ملی اور وہ اس سے بحران سے نمٹنے کے قابل بھی ہوا۔ آج بھارت میں عوام کی قائم کردہ حکم رانی صحیح معنوں میں کام کر رہی ہے۔ حکم رانی کا یہ ماڈل ترسیل کو موثر بنا رہا ہے۔ جمہوریت پر ہمیشہ مضبوط ہونے والے اعتماد کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے۔

ساتھیو،

آج جب بھارت آزادی کے 75 سال منا رہا ہے۔ آزادی کا امرت مہوتسو منایا جارہا ہے۔ تو پھر ہمیں اگلے 25 سال یعنی آزادی کے 100 ویں سال تک بھارت کو کہاں لے جانا ہے؟ کیا اونچائی حاصل کرنے کے لیے، دنیا میں اپنے پرچم کو کہاں کہاں اور کیسے گاڑنا ہے، آج بھارت اس روڈ میپ کی تیاری کر رہا ہے۔ آزادی کا یہ امرت کال بھارت کی خوش حالی کی ایک بلند تاریخ لکھنے جا رہا ہے، ساتھیو۔ میں جانتا ہوں کہ یہ وہ قراردادیں ہیں جو ہم نے لی ہیں۔ یہ قراردادیں اپنے آپ میں بہت بڑی ہیں۔ لیکن ساتھیو، میری پرورش، مجھے ملنے والے سنسکار، جن جن لوگوں نے مجھے گھڑا ہے، اس کی وجہ سے میری بھی ایک عادت بن گئی ہے۔ مجھے مکھن پر لکیر کرنے سے لطف نہیں آتا بلکہ میں پتھر پر لکیر بناتا ہوں۔ ساتھیو، سوال مودی کا نہیں ہے۔ آج میں بھارت کے 130 کروڑ عوام اور میں جاپان میں بیٹھے لوگوں کی آنکھوں میں بھی وہی دیکھ رہے ہیں خود اعتمادی، 130 کروڑ محب وطن عوام کا اعتماد، 130 کروڑ قراردادیں، 130 کروڑ خواب اور ان 130 کروڑ خوابوں کو پورا کرنے کی یہ عظیم قوت یقینی ہے کہ یہ پورا ہوگا، میرے ساتھیو۔ ہم اپنے خوابوں کا بھارت دیکھ کے رہیں گے۔ آج بھارت اپنی تہذیب، اپنی ثقافت، اپنے اداروں، اپنے کھوئے ہوئے اعتماد کو دوبارہ حاصل کر رہا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی بھارتی آج سینہ تان کر بڑے فخر کے ساتھ بھارت کی بات کر رہا ہے۔ یہ تبدیلی آ چکی ہے۔ آج یہاں آنے سے پہلے مجھے بھارت کی عظمت سے متاثر کچھ لوگوں کو دیکھنے کا موقع ملا ہے جو اپنی زندگیاں کھپا رہے ہیں۔ اور بڑے فخر کے ساتھ وہ بڑَ فخر سے یوگ کی باتیں کہہ رہے تھے۔ وہ یوگ کے لیے وقف ہیں۔ جاپان میں بھی شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے یوگ کا خیال نہ ہو۔ ہمارا آیوروید، ہمارا روایتی نظام طب، آج کل ہمارے مصالحے اس کی مانگ دو ر نزدیک ہر جگہ بڑھ رہی ہے۔ لوگ ہماری ہلدی کا آرڈر دے رہے ہیں۔ یہی نہیں ساتھیو، ہماری کھادی تو آزادی کے بعد رفتہ رفتہ ان رہ نماؤں کا لباس بن کر رہ گئی تھی۔ آج وہ زندہ ہو گئی ہے۔ کھادی گلوبل ہوتی جارہی ہے۔ یہ بھارت کی بدلتی ہوئی تصویر ہے، دوستو۔ آج کے بھارت کو اپنے ماضی پر جتنا فخر ہے، وہ ٹیک کی قیادت، سائنس کی قیادت، اختراع کی قیادت، ٹیلنٹ کی قیادت میں مستقبل کے بارے میں بھی پرامید ہے۔ جاپان سے متاثر سوامی وویکانند جی نے ایک بار کہا تھا کہ ہم بھارتی نوجوانوں کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار جاپان کا دورہ کرنا چاہیے۔ میں یہ تو نہیں مانتا کہ آپ لوگ ان جملوں کو پڑھ کر آئے ہوں گے، لیکن وویکانند جی نے بھارت کے عوام سے کہا تھا کہ بھائی ایک بار دیکھ کر تو آؤ جاپان ہے کیسا۔

ساتھیو،

آج کے دور کے مطابق وویکانند جی نے اُس زمانے میں جو کچھ کہا تھا اس کی اسی خیر سگالی کو آگے بڑھاتے ہوئے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جاپان کے ہر نوجوان کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار بھارت کا دورہ کرنا چاہیے۔ آپ نے اپنی مہارتوں، اپنی صلاحیتوں، اپنی صنعت کاری سے جاپان کی اس عظیم سرزمین کو مسحور کر دیا ہے۔ آپ کو جاپان کو مسلسل بھارتیت کے رنگوں سے، بھارت کے امکانات سے بھی متعارف کرانا ہوگا۔ عقیدہ ہو یا مہم جوئی، بھارت جاپان کے لیے ایک قدرتی سیاحتی مقام ہے۔ اور اس لیے آئیے بھارت چلیں، بھارت کو دیکھیں، بھارت میں شامل ہوں، اس قرارداد کے ساتھ میں جاپان کے ہر بھارتی سے اس میں شامل ہونے کی درخواست کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی بامعنی کوششوں سے بھارت اور جاپان کی دوستی کو ایک نئی جہت ملے گی۔ اس شاندار استقبال کے لیے، اور میں دیکھ رہا تھا، اندر آ رہا تھا، چاروں طرف جوش و خروش، نعرے، اور جتنا بھارت کو آپ اپنے اندر جینے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، یہ واقعی دل خوش کن ہے۔ آپ کی یہ محبت یہ شفقت ہمیشہ قائم رہے۔ اتنی بڑی تعداد میں یہاں آکر، اور مجھے بتایا گیا ہے کہ صرف ٹوکیو سے نہیں بلکہ باہر سے بھی کچھ ساتھی آج یہاں آئے ہیں۔ پہلے میں آیا کرتا تھا۔ اس بار آپ بھی آئے۔ لیکن مجھے خوشی ہوئی کہ آپ سب سے ملنے کا موقع ملا، میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، بہت بہت شکریہ۔

***

U. No. 5681

(ش ح – ع ا- ع ر)