Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

توقعاتی اضلاع پر ’سنکلپ سپتاہ‘ پروگرام میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

توقعاتی اضلاع پر ’سنکلپ سپتاہ‘ پروگرام میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن


اس پروگرام میں  موجود مرکزی کابینہ کے میرے تمام ساتھی، سرکاری افسران، نیتی آیوگ کے تمام ساتھی اور لاکھوں دوست جو نچلی سطح پر ملک کے مختلف حصوں سے، مختلف بلاکس سے اس پروگرام میں شامل ہوئے ہیں، اور بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ آج آپ بھی اس پروگرام سے وابستہ ہیں اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے بھی آج ہم سے مختلف ذرائع سے جڑے ہیں، میں آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اور میں آپ سب کو، خاص کر نیتی آیوگ کو اس پروگرام کے لیے مبارکباد دیتا ہوں اور آپ سب کے تئیں نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

آپ لوگ بھارت منڈپم میں جمع ہوئے ہیں اور اس سے ملک کی سوچ کا پتہ چل سکتا ہے، حکومت ہند کی سوچ کا پتہ چل سکتا ہے اور وہ یہ کہ ایک مہینے کے اندر وہ لوگ یہاں جمع ہو گئے ہیں، جو ملک کے لیڈر ہیں۔ ایسے لوگ ہیں جو دور دراز کے دیہات کی فکر کرتے ہیں، ایسے لوگ ہیں جو آخری  سرے پر بیٹھے خاندانوں کی فکر کرتے ہیں، ایسے لوگ ہیں جو ان کی فلاح و بہبود کے لیے اسکیموں کو  آگے بڑھاتے ہیں۔ اور اسی مہینے میں وہ لوگ یہاں بیٹھے تھے جو دنیا کو سمت دینے کا کام کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کینوس کی حد دیکھ سکتے ہیں۔ آج اسی بھارت منڈپم میں جہاں دنیا کے نامور رہنما دنیا کی فکر کرنے کے لیے ملاقاتیں  کر رہے تھے، میں ان لاکھوں دوستوں کے ساتھ ہوں جو اپنے ملک کی نچلی سطح پر تبدیلی لا رہے ہیں،  اسے مضبوط کر رہے ہیں اور اعلیٰ جذبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ آپ سے ملنا میرے لیے فخر کی بات ہے۔ میرے لیے یہ سربراہی اجلاس جی -20 سے کم نہیں ہے۔

بہت سے لوگ ہمارے ساتھ آن لائن بھی جڑے ہوئے ہیں۔ یہ پروگرام ’ٹیم بھارت‘ کی کامیابی کی علامت ہے، یہ ’سب کا پریاس‘ کے جذبے کی علامت ہے۔ یہ پروگرام ہندوستان کے مستقبل کے لیے بھی اہم ہے اور یہ عزم کی روایتی کامیابی کا عکاس ہے۔

ساتھیو،

جب بھی آزادی کے بعد بنائی گئی ٹاپ 10 اسکیموں کا مطالعہ کیا جائے گا تو اس میں اسپیریشنل ڈسٹرکٹ پروگرام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ اسپیریشنل ڈسٹرکٹ پروگرام، اسپیریشنل ڈسٹرکٹ مہم نے ملک کے 112 اضلاع میں 25 کروڑ سے زیادہ لوگوں کی زندگیاں بدل دی ہیں، معیار زندگی میں تبدیلی آئی ہے، حکمرانی میں تبدیلی آئی ہے اور کل تک ، بس  چھوڑو یار بس زندگی پوری کرلو ، ، ایسے ہی گزارا کرلو ۔ اس سوچ سے نکل کر وہاں کا معاشرہ اب اس طرح نہیں رہنے اور کچھ کرنے کے موڈ میں ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک بڑی طاقت ہے۔ اس مہم کی کامیابی اب اسپیریشنل بلاک پروگرام کی بنیاد بن گئی ہے۔ ضلعی سطح کا تجربہ اتنا کامیاب رہا ہے کہ دنیا میں ترقیاتی ماڈلز پر بحث کرنے والا ہر شخص اس کے بہت سے اسباق تجویز کر رہا ہے، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لیے۔ ہم نے بھی اسی سے بہت کچھ سیکھا ہے اور اس سے یہ خیال آیا ہے کہ ملک کی ہر ریاست میں جہاں کہیں بھی اور ایک پیرامیٹر کے تحت 500 بلاکس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اور ان 500 بلاکوں میں سے، اگر ہم اسے ریاستی اوسط، قومی اوسط پر لے آئیں، تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا بڑی تبدیلی آئے گی، کیا بڑا نتیجہ سامنے آئے گا اور مجھے یقین ہے کہ جس طرح سے اسپیریشنل ڈسٹرکٹ پروگرام نےپرچم  لہرایا ہے ۔ کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں، اسی طرح اسپیریشنل بلاک پروگرام بھی سو فیصد کامیاب ہونے جا رہا ہے۔ اور اس لیے نہیں کہ منصوبہ شاندار ہے، بلکہ اس لیے کہ جو لوگ کام کر رہے ہیں وہ شاندار ہیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے میں تین دوستوں سے گپ شپ کر رہا تھا آپ نے بات چیت سنی۔ ان کے اعتماد کو دیکھیں اور جب میں آپ کے ساتھیوں کا ،نچلی سطح پر کام کرتے ہوئے اعتماد دیکھتا ہوں تو میرا اعتماد کئی گنا بڑھ جاتا ہے، درحقیقت یہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ میں آپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں، میں آپ کے ساتھ پوری طرح کھڑا ہوں۔ اگر آپ 2 قدم اٹھاتے ہیں تو میں 3 قدم اٹھانے کے لیے تیار ہوں، اگر آپ 12 گھنٹے کام کرتے ہیں تو میں 13 گھنٹے کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اور میں آپ کے پارٹنر کے طور پر کام کرنا چاہتا ہوں، میں آپ کی ٹیم کے ممبر کے طور پر کام کرنا چاہتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ایک ٹیم کے طور پر، ہم اس اسپیریشنل بلاکوں کی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، اگر ہم اسے 2 سال کا وقت دیں۔ اگر  فیصلہ کیا ،تو مجھے یقین ہے کہ ڈیڑھ سال میں کر لیں گے، اگر ڈیڑھ سال میں فیصلہ کیا ہے تو ایک سال میں کر لیں گے، یہ میرا پختہ یقین ہے۔ اور کچھ ایسے بلاکس ابھریں گے جو صرف ایک یا دو ہفتوں میں ہر موضوع کو عام حالت کی اوسط سے اوپر لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ وہ ایسا کر لیں گے۔ کیونکہ آپ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ میں اسے ہر روز، ہر روز قریب سے دیکھنے جا رہا ہوں، اس لیے نہیں کہ میں آپ کا امتحان لینے جا رہا ہوں، بلکہ اس لئے کہ جب میں آپ کی کامیابی دیکھتا ہوں تو اس دن کام کرنے کی طاقت بڑھ جاتی ہے ۔ جوش بڑھ جاتا  ہے۔ مجھے بھی لگتا ہے کہ آپ اتنا کام کررہے ہیں،تو  مجھے تھوڑا اور کرنے دیں۔ میں چارٹ کو دیکھتا رہتا ہوں تاکہ وہ چارٹ میری تحریک، میری طاقت بن جائے۔

اور اس لئے ساتھیو،

توقعاتی اضلاع پروگرام  کو اب 5 سال پورے ہوگئے ہیں ۔ اس پروگرام سے کس نے کیا حاصل کیا، کیا حاصل کیا، کہاں اور کیسے بہتری آئی، جب کوئی تیسری ایجنسی ان تمام مضامین کا جائزہ لیتی ہے تو وہ بھی اطمینان کا اظہار کرتی ہے، اس لیے ہم جو اس سے وابستہ ہیں، ہم بہت مطمئن ہیں۔ توقعاتی اضلاع  پروگرام ایک اور چیز کا فیصلہ کرتا ہے۔ اگر ہم گڈ گورننس کی بنیادی باتوں پر توجہ دیں تو ایسے مقاصد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں جو مشکل لگتے ہیں۔ اسپیریشنل ڈسٹرکٹ پروگرام کے لیے، ہم نے بہت آسان حکمت عملی کے تحت کام کیا ہے۔ آپ نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ وہاں ڈاکٹر پہلے مان لیجئے کہ اسے لگتا ہے کہ بیماری سنگین ہے اور سرجری کی ضرورت ہے لیکن اگر ایمرجنسی بھی ہے تو بھی ڈاکٹر کہے گا کہ نہیں، ابھی 15 دن نہیں پہلے آپ کی قوت مدافعت ٹھیک ہونی چاہیےتاکہ آپریشن ہو تو  آپ کا جسم  ریسپانڈ کرے ۔اس کیلئے جسم کی صلاحیت کو بڑھانا ضروری ہوتا ہے ۔ اور وہ مریض کا اسی طرح سے علاج بھی کرتا ہے، اسی طرح کی مدد بھی کرتا ہے، اسی طرح کی تیاری کرتا ہے، پھر جیسے ہی جسم جواب دینے کے قابل ہو جاتا ہے، پھر وہ شدید بیماری کو سنبھالنے کی طرف بڑھتا ہے، وہ سنگین بیماری کو تب تک نہیں چھیڑتا جب تک وہ یہ یقینی نہیں بنالیتا کہ مریض کا جسم سرجری کے لیے تیار ہے۔ کوئی بھی جسم اس وقت تک مکمل طور پر صحت مند نہیں سمجھا جاتا جب تک ہر عضو صحیح طریقے سے کام نہ کرے۔ وزن ٹھیک ہے، قد ٹھیک ہے، جسمانی وزن ٹھیک ہے، فلاں فلاں ٹھیک ہے لیکن جسم کا ایک حصہ کام نہیں کر رہا، کیا ہم اسے صحت مند سمجھیں گے؟ متفق نہیں ہوں گے۔ اسی طرح ہمارے ملک میں بھی ملک ہر پیمانہ پر ترقی یافتہ ملک لگتا ہے لیکن اگر دو،چار،دساضلاع، دو چار بلاک رہ جائیں تو کیا محسوس ہوگا؟ اور اس لیے جس طرح ایک ڈاکٹر ایک مریض پر اس کے پورے جسم کو پیش نظر رکھ کر کام کرتا ہے، اسی طرح ہم بھی اپنے جسم کی صحت کو ہر عضو کی صحت سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ ایک خاندان میں اگر ایک فرد بیمار ہو جائے تو پورا خاندان متاثر ہو جاتا ہے، خاندان کی ساری توجہ، خاندان کے تمام پروگرام اسی کے گرد مرکوز ہو جاتے ہیں اور باقی تمام پروگراموں سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی بیمار ہے تو باہر جانا چھوڑنا ہوگا، جب خاندان مکمل طور پر صحت مند ہو گا تو خاندان اپنی زندگی کو ترقی دے سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم اپنے ضلع، اپنے گاؤں، اپنی تحصیل کی ہمہ گیر ترقی، جامع ترقی نہیں کریں گے تو اعداد و شمار بڑھ سکتے ہیں، اعداد و شمار اطمینان بھی دے سکتے ہیں، لیکن بنیادی طور پر تبدیلی ممکن نہیں۔ اور اسی لیے ضروری ہے کہ ہم گراس روٹ لیول پر ہر پیمانہ کو عبور کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ اور ہم میں سے جو آج اس سمٹ کے اندر میرے ساتھ بیٹھے ہیں، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے پیچھے کیا ارادہ ہے۔ حکومت ہند کی اعلیٰ ٹیم بھی یہاں بیٹھی ہے، پالیسی سازی پر کام کرنے والے تمام سیکرٹری یہاں بیٹھے ہیں۔ اب میرے سامنے دو مضامین ہیں، کیا میں ان کے پیچھے اپنی توانائی لگا کر اوپر والے کو ٹھیک کروں؟ کہ میں زمین کو مضبوط کرنے کے لیے کام کروں، میں نے زمین کو مضبوط کرنے کا راستہ چنا ہے اور زمین کی مضبوطی سے ہمارا پیرامڈاوپر جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ترقی جتنی نچلی سطح پر ہوگی، نتائج اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ اور اسی لیے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ترقی کو اسی طرح آگے بڑھایا جائے۔ جس طرح ہم نے ڈیولپمنٹ بلاک کے بارے میں سوچا تھا اسی طرح میں حکومت میں بیٹھے سیکرٹریز سے بھی گزارش کرتا ہوں۔ ہم دو سمتوں میں کام کر سکتے ہیں اور اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے ہر محکمے کو اپنے کام کے لیے پورے ملک میں 100 بلاکوں کی نشاندہی کرنی چاہیے۔ اور انہیں پوری دنیا کو دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ ان کے محکمے میں کون سے 100 بلاکس ہیں جو پیچھے رہ گئے ہیں۔ اور اگر صحت کے معاملے میں لگتا ہے کہ پورے ملک میں 100 بلاکس پیچھے ہیں، تو حکومت ہند کا محکمہ صحت ایک حکمت عملی بنائے گا کہ ان 100 کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کیا کام کرنا ہے۔ محکمہ تعلیم کو اپنے محکمے کے لیے 100 بلاکس کا انتخاب کرنا چاہیے، وہ 100 بلاک محکمہ تعلیم کے ہیں، وہ حکومت ہند کے محکمہ تعلیم کے ہیں، ان 100 بلاکوں کو دیکھیں جن کی نشاندہی میں نے پیچھے کی ہے۔  توقعاتی اضلاع ضلع، توقعاتی اضلاع  بلاک، یہ نیتی آیوگ کا پروگرام ہے، میں ایسا نہیں ہونے دینا چاہتا، مجھے اسے حکومت کی فطرت بنانا ہے، مجھے اسے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی فطرت بنانا ہے، مجھے اسے مرکزی اور ریاستی محکموں کی نوعیت بنانا ہے۔ جب تمام محکمے یہ فیصلہ کریں گے کہ میری جگہ پر آخری 100 اب اوسط سے اوپر چلے گئے ہیں، تو آپ دیکھیں گے کہ تمام پیرامیٹرز بدل جائیں گے۔ اس لیے اس اسپیریشنل بلاک پر کام کرنے کا طریقہ ریاست اور ضلعی اکائیوں کے ذریعے ہوگا۔ لیکن کیا ہم اس طرح سوچ کر ملک کو آگے لے جا سکتے ہیں؟ اور میرا ماننا ہے کہ ہمیں اس سمت میں کوششیں کرنی چاہئیں۔ اور اس طرح اگر تمام محکموں میں اسکل ڈیولپمنٹ ہو رہی ہے تو یہ بھی دیکھیں کہ ہندوستان کے 100 بلاکس کون سے ہیں جہاں مجھے اس پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ریاستی حکومتیںزیادہ نہیں،سب سے پیچھے جو ہیں ایسے  100 گاؤں کا انتخاب کریں ،  پوری ریاست سے، 100 ایسے گاؤں کا انتخاب کریں جو پیچھے رہ گئے ہیں، ایک بار، 2 مہینے کے اندر، 3 مہینے کے کام کو لے آئیں، اس سے آپ کو معلوم ہوگا کہ بدلاؤ کیسے ہوتے ہیں، وہاں کے مسائل کیسے حل ہوتے ہیں، اگر وہاں اسٹاف نہیں ہے تو بھرتی کی ضرورت ہے۔ ایک نوجوان افسر کو تعینات کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے نوجوان افسر کو تعینات کرنا ہوگا۔ اگر ایک بار ان کے سامنے کوئی ماڈل ہو کہ وہ ایک مہینے میں اپنے 100 گاؤں ٹھیک کر چکے ہیں، تو وہ ماڈل ان کے 1000 گاؤں کو ٹھیک کرنے میں دیر نہیں کرے گا، یہ ایک ریپلیکا ہو گا، انہیں نتائج ملیں گے۔ اور اس طرح اب جبکہ ملک کی آزادی کے 75 سال مکمل ہو چکے ہیں، ہم 2047 میں ملک کو ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور ترقی یافتہ ملک کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس ماڈل کی پیروی نہیں کرتے جہاں دہلی، ممبئی، چنئی میں شان و شوکت نظر آتی ہے اور ہمارے گاؤں پیچھے رہ گئے ہیں، ہم 140 کروڑ لوگوں کی تقدیر کو لیکر چلنا چاہتے ہیں۔ ہم ان کی زندگیوں میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے پیرامیٹرز طے کیے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ اس کے درمیان مسابقت کا احساس ہو۔ جب میں اسپیریشنل ڈسٹرکٹ کو باقاعدگی سے دیکھتا تھا تو مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی تھی۔ اول تو اس میں ایسی چیزیں بھرنے کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ جب تک زمین پر تصدیق شدہ معلومات نہ ہوں، اس طرح ڈیٹا بھرنے سے کوئی کام نہیں ہوتا۔ یہ کرنا ہے، یہ کام ہے۔ لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ کچھ اضلاع کے افسران اس قدر پرجوش تھے کہ ہر روز، ہر 2 دن، 3 دن بعد اپنی کارکردگی کو اپ لوڈ کر کے اس میں بہتری لاتے تھے اور پھر میں دیکھتا تھا کہ پہلے 6 ماہ میں ایسا لگتا تھا کہ آج یہ ضلع آگے آیا ہے، اگر کوئی گیا تو 24-48 گھنٹے میں پتہ چل جائے گا کہ وہ پیچھے رہ گیا، وہ اس سے بھی آگے نکل جائے گا، تو 72 گھنٹے میں پتہ چل جائے گا کہ وہ اس سے بھی آگے ہے۔ یعنی یہ اتنا مثبت، مسابقتی نوعیت کا ہو گیا تھا، اس سے نتائج لانے میں بہت فرق پڑا ہے اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ پہلے میرے پاس تجربہ ہے، میں گجرات میں کام کرتا تھا، ضلع کچھ میں، اگر کوئی افسر ہوتا تو اس کے تمام ساتھی اس سے پوچھتے تھے کہ کیا تمہارا حکومت سے کوئی جھگڑا ہے؟ کیا وزیراعلیٰ آپ سے ناراض ہیں؟ کیا آپ کو کوئی سیاسی مسئلہ ہے؟ آپ کو سزا کی پوسٹنگ کیوں دی گئی؟ اس کے دوست اسے تنگ کرتے تھے اور وہ بھی ماننے لگا کہ وہ مر گیا ہے۔ لیکن جب کچھ ضلع میں زلزلے کے بعد اچھے افسران کی تقرری کی ضرورت پڑی تو سب کو مراعات دی گئیں اور لایا گیا (1.09.23) آج گجرات کی صورتحال ایسی ہے کہ اگر ضلع کچھ  میں تقرری دی جاتی ہے تو وہ حکومت کا پسندیدہ ترین افسر سمجھا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ممکن ہے کہ جو کل تک سزا کی جگہ سمجھا جاتا تھا، وہ ایک طرح سے قابل احترام جگہ بن جائے۔ وہ توقعاتی اضلاع  جو عموماً کافی پرانے ہوتے ہیں، تھک چکے ہوتے ہیں، ارے چلو یار، یہ بیکار ضلع ہے، کچھ نہیں کرتا، رکھ دو اسے ۔ جب سے ہم نے نوجوان افسروں کو اسپیریشنل ڈسٹرکٹ میں تعینات کرنے کا کہا، نتائج زور و شور سے آنے لگے کیونکہ وہ پرجوش تھے، کچھ کرنا چاہتے تھے اور انہیں یہ بھی لگتا تھا کہ اگر میں یہاں 3 سال کام کروں گا تو حکومت مجھے کوئی بہت اچھا کام دے گی۔ اور ایسا ہوا، توقعاتی اضلاع ضلع میں کام کرنے والے لوگوں کو بعد میں بہت اچھی جگہیں ملی۔

توقعاتی بلاک کے لیے بھی میں ریاستی حکومتوں اور حکومت ہند کے افسران سے درخواست کروں گا کہ وہ نوٹ کریں کہ جو لوگ بلاک کے اندر کامیاب ہوتے ہیں، ان کا مستقبل بھی روشن ہونا چاہیے، خاص کر ان افسران کا تاکہ ان میں کچھ کرنے کی ہمت ہو۔ جی ہاں، یہ وہ لوگ ہیں جو زمین پر نتائج لاتے ہیں، ان ٹیموں کو آگے بڑھانا چاہیے، خاص طور پر ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

دوسری بات یہ کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ حکومت میں یہ روایت بن چکی ہے۔ پہلے ہمارے ملک میں آؤٹ پٹ کو ایک قسم کا کام سمجھا جاتا تھا، اتنا بجٹ آیا، جتنا بجٹ یہاں چلا گیا، اتنا وہاں گیا، اتنا یہاں چلا گیا، یعنی بجٹ خرچ ہو گیا۔ آؤٹ پٹ خود یہاں ایک قسم کا کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ 2014 کے بعد ہم نے حکومت کے نتائج کا بجٹ بھی دینا شروع کر دیا، بجٹ کے ساتھ نتائج کی رپورٹ بھی دینا شروع کر دی اور نتائج کی وجہ سے بہت بڑی کوالٹی تبدیلی آ گئی۔ آئیے اپنے بلاک میں یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جسا سکیم کے لیے میں پیسہ لگا رہا ہوں، جس اسکیم کے لیے میں وقت لگا رہا ہوں، جس اسکیم کے لیے میرے اتنے سارے افسران کام کر رہے ہیں، اس کا کوئی نتیجہ نکل رہا ہے یا نہیں۔ اور اس کا نتیجہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے، دوستو، جتنی اہمیت کچھ لوگ سمجھتے ہیں، پیسہ ہو گا تو کام ہو جائے گا، یقین کرو دوستو، میرا بہت طویل تجربہ ہے۔ حکومت چلانے کا اتنا طویل تجربہ بہت کم لوگوں کو ملتا ہے جو مجھے ملا ہے اور میں تجربے سے کہتا ہوں کہ تبدیلی صرف بجٹ کی وجہ سے آتی ہے، ایسا نہیں ہے اگر ہم وسائل کے زیادہ سے زیادہ استعمال اور دیگر تبدیلیوں پر توجہ دیں تو ہم بہترکر سکتے ہیں۔ وہ کام اس کی ترقی کے لیے کوئی نیا پیسہ آنے کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ اب فرض کریں کہ منریگا کا کام چل رہا ہے، لیکن کیا میں نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ منریگا کا کام وہی ہوگا جسے میری ترقی کے ڈیزائن سے جوڑا جائے گا؟ میں وہاں منریگا کا کام کروں گا تاکہ جس سڑک کے لیے مجھے ڈالنے کی ضرورت ہے اگر مجھے مٹی مل جائے تو میری سڑک کا آدھا کام ہو جائے گا اور تبدیلیاں ہو جائیں گی۔ یعنی جو لوگ تبدیلیاں کرتے ہیں، وہاں پانی ہے، فرض کریں کہ کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پانی کا مسئلہ ہے اور آپ کو سال میں 3-4 مہینے اس پانی کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ لیکن اگر آپ نے منریگا میں فیصلہ کیا ہے کہ آپ کو اس علاقے میں زیادہ سے زیادہ تالاب بنانے ہیں، زیادہ سے زیادہ پانی کو ذخیرہ کرنا ہے، مشن موڈ میں کام کرنا ہے، تو اگلے سال آپ کو 25 گاؤں کو صرف پانی کے لیے 4 مہینے خرچ کرنے سے روکنا ہوگا۔ ، آپ کی طاقت بچ جائے گی۔تبدیلی  میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ اور میرا ماننا ہے کہ گڈ گورننس کی پہلی شرط یہ ہے کہ ہم وسائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔

ایک اور تجربہ ہوا اور میں اپنے تجربے سے کہتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے؟ کلاس میں ایک بہت ہی ملنسار استاد بھی ہیں، اگر انسپکشن آنے والا ہے تو وہ اچھے ہونہار طلباء کو تھوڑی سی ٹپ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب بھی انسپکشن میں کوئی سوال پوچھا جائے تو فوراً ہاتھ اٹھا لیں۔ ۔ بہت فطری بات ہے بھائی اگر وہ کچھ اتھارٹی قائم کرنا چاہتے ہیں تو کوئی اچھا لڑکا ہاتھ اٹھائے گا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فطرتاً ہم ان میں زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہیں جہاں ہمیں فوری نتائج ملتے ہیں۔ اگر مجھے حکومت میں کوئی ہدف پورا کرنا ہے، مان لیجئے حکومت ہند میں ، اور مجھے لگتا ہے کہ اگر میں ان 6 ریاستوں پر توجہ دونگا تو وہ ہو جائے گا، پھر مجھے صرف ان 6 ریاستوں پر توجہ مرکوز کرنی ہے اور باقی 12 ریاستوں پر جنہیں ضرورت ہے لیکن ان کی کارکردگی اچھی نہیں ہے تو میں ان وسائل کو وہاں جانے نہیں دیتا اور ایک میٹھی چائے میں مزید 2 چمچ چینی ملا دیتا ہوں۔ ہوتا یہ ہے کہ جنہوں نے ترقی کی ہے اور کارکردگی دکھا رہے ہیں انہیں اتنا زیادہ مل جاتا ہے کہ وسائل ضائع ہو جاتے ہیں۔ اب دیکھئے ، آپ کے  گھر میں ایک وقت تھا، مجھے یہ نصیب نہیں ، لیکن میرے  ساتھیوں کو ان کے والدین کہا کرتے تھے کہ اگر تم نے دسویں میں اتنے نمبر حاصل کیے تو تمہیں ایک گھڑی خرید دیں گے، اگر تم 12ویں میں اتنے نمبر لاؤگے ، تو تحفہ دیں گے۔ میرے دور میں ایسا ہی تھا۔ آج آپ کسی بھی گھر کے کسی کونے میں ہاتھ ڈالیں تو آپ کو اس طرح کی 3-4 گھڑیاں مل جائیں گی۔ بعض گھڑیوں کو 6 ماہ تک ہاتھ نہ لگایا گیا ہو لیکن اگر کسی غریب کے گھر میں گھڑی ہو تو وہ اسے پہن کر 365 دن تک اپنے پاس رکھے گا۔ اضافی وسائل دے کر جہاں وہ پڑے ہیں وہاں بربادی ہے، جہاں ضرورت ہے وہاں اضافی وسائل دے کر ان کا اضافی استعمال کیا جاسکتا تا ہے۔ اور اسی لیے میرا ماننا ہے کہ اگر ہم اپنے وسائل کی مساوی تقسیم کی عادت ڈالیں اور خاص طور پر جہاں ضرورت ہو وہاں تقسیم کی جائے تو انہیں تقویت ملے گی اور ہمیں اس سمت میں کام کرنا چاہیے۔ اسی طرح آپ نے دیکھا ہو گا کہ اگر کوئی کام کرنا ہے تو ہم اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ سب کچھ حکومت کرے گی، یہ گزشتہ صدی کی سوچ ہے، دوستو، ہمیں اس سوچ سے باہر آنا چاہیے کہ حکومت سب کچھ کرے گی۔ معاشرے کی طاقت بہت بڑی ہے، آپ حکومت کو بتائیں کہ آپ کچن چلاتے ہیں، ہمیں مڈ ڈے میل کھانا پڑتا ہے، ہماری آنکھوں میں پانی آنے لگتا ہے، لیکن ہمارے سردار بھائی بہن لنگر چلاتے ہیں، لاکھوں لوگ کھاتے ہیں، انہوں نے کبھی تھکاوٹ محسوس نہیں کی۔ ، یہ کیا ہو رہا ہے، معاشرے کی ایک طاقت ہے، اس معاشرے کی طاقت کو ہم جوڑتے ہیں کیا ؟ میرے تجربے میں، نتائج ان بلاکس یا اضلاع میں تیزی سے حاصل کیے جاتے ہیں جہاں قیادت معاشرے کو متحد کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔

اس صفائی مہم نے آج کامیابی کی سمت میں  اپنی جگہ بنالی ہے، وجہ کیا ہے؟ کیا یہ مودی کی وجہ سے ہو رہا ہے؟ کیا یہ 5-50 لوگگوں کے جھاڑو دینے کی وجہ سے ہو رہا ہے؟ نہیں، معاشرے میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ اب ہم کوڑا نہیں ڈالیں گے اور جب معاشرہ یہ طے کر لے کہ ہم کوڑا نہیں ڈالیں گے تو پھر صفائی کی کوئی ضرورت نہیں، دوستو۔ عوامی شرکت بہت ضروری ہے اور ہمارے یہاں لیڈر شپ کی بہت ہی مسخ شدہ تشریح ہے کہ جو لمبا کرتا پاجامہ اور کھادی کا لباس پہن کر آتا ہے وہ لیڈر ہوتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں قیادت ہوتی ہے۔ تعلیم کے شعبے میں لیڈروں کی ضرورت ہے، زراعت کے شعبے میں لیڈروں کی ضرورت ہے اور وہاں  سیاسی لیڈروں کی ضرورت نہیں۔ ہمارے افسران بھی  لیڈر ہیں، وہ بھی حوصلہ دیتے ہیں۔ ہم بلاک سطح پر قیادت کیسے پیدا کریں اور اس سنکلپ ہفتہ میں، ایک ایک گروپ بیٹھنے والا ہے، ایک مقصد ٹیم اسپرٹ ہے۔ ٹیما سپرٹ پیدا ہو گی تو لیڈر شپ آئے گی، ٹیما سپرٹ پیدا ہو گی تو عوامی شمولیت کے نئے آئیڈیاز آئیں گے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کبھی کبھی قدرتی آفت آتی ہے تو کیا حکومتی وسائل اس قدرتی آفت کو سنبھال سکتے ہیں؟ کچھ ہی دیر میں لوگوں کی اتنی بڑی تعداد اس میں شامل ہو جاتی ہے کہ وہ کچھ ہی دیر میں مسائل حل کرنے لگتے ہیں۔ لوگ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اس وقت ہمیں بھی لگتا ہے کہ واہ واہ سوسائٹی نے ہماری بہت مدد کی، میرا کام ہو گیا۔ افسر کو بھی لگتا ہے کہ یہ اچھی بات ہے کہ ان لوگوں نے میری مدد کی اور میرا کام ہو گیا۔

جو لوگ نچلی سطح پر کام کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس قسم کے معاشرے کی طاقت کو پہچاننا اور اسے معاشرے کی طاقت سے جوڑنا ہے۔ ہمارےا سکول اور کالج اچھے چلیں  اگر گھر والے شامل ہوں، سرپرست شامل ہوں، والدین آئیں تو دیکھیں اسکول کبھی پیچھے نہیں رہے گا۔ اور اس کے لیے راستے تلاش کیے جائیں۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ بھائی، گاؤں کی سالگرہ مناؤ، ریلوے اسٹیشن ہے تو ریلوے اسٹیشن کی سالگرہ ڈھونڈھو، وہ ریکارڈ میں مل جائے گا، اس کی سالگرہ مناؤ۔ آپ کی جگہ پر موجود اسکول کی عمر 80 سال، 90 سال، 100 سال پرانی ہوسکتی ہے۔ اس اسکول کی تاریخ پیدائش معلوم کریں، اور ان تمام لوگوں کو جمع کریں جو زندہ ہیں جنہوں نے اس اسکول میں تعلیم حاصل کی ہے۔

عوامی شرکت کے طریقے ہیں، عوامی شرکت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ چندہ دیں۔ اب جیسا کہ غذائیت کی کمی ہے، اگر آنگن واڑی میں غذائیت کی کمی کا مسئلہ حل کرنا ہے تو کیا بجٹ کے ذریعے کیا جائے گا، یہ ایک طریقہ ہے لیکن اگر میں یہ کہوں کہ میں اپنے گاؤں میں ایک تاریخ کو کھانے کا پروگرام منعقد کروں گا۔ اس تاریخ کو کھانے کے پروگرام میں اگر کسی کایوم پیدائش ہے، کسی کے والدین کی وفات کی تاریخ ہے، کسی کی شادی کی تاریخ ہے، تو میں انہیں بتاؤں گا، دیکھو، تمہارے گاؤں میں یہ آنگن واڑی ہے، وہاں 100 بچے ہیں، یہ تمہاری سالگرہ ہے، اگر آپ گھر میں کچھ اچھا چاہتے ہیں، آپ کھانا کھانے جا رہے ہیں، آپ یہ کرنے جا رہے ہیں، اپنی سالگرہ پر ان 100 بچوں کے لیے ایک پھل لائیں اور تمام بچوں کو ایک کیلا دیں۔ اگر وہ اپنی سالگرہ یاد کر کے کہے کہ اسے خود آ کر ان بچوں کو دینا ہے تو سماجی انصاف بھی ہو جاتا ہے، معاشرے میں جو فاصلہ ہے وہ بھی دور ہو جاتا ہے۔ اور ایک سال میں آپ کو گاؤںمیں 80-100 خاندان ضرور ملیں گے جو اسکول، آنگن واڑی آئیں گے اور ان بچوں کو اچھا کھانا کھلائیں گے، جو بھی موسمی کھانا ہو، چلو کھجوریں آگئی ہیں، وہ کہیں گے، چلو بھائی، آج میں 2 کھانے لانے جا رہا ہوں- میں 2 ٹکڑے لے کر جا رہا ہوں، یہ 100 بچے ہیں، میں انہیں کھلاؤں گا اور واپس آؤں گا۔ عوام کی شرکت ہے۔

عوامی شراکت کی طاقت سے جب میں گجرات میں تھا تو میں نے تیتھی بھوجنا کی مہم شروع کی تھی اور تمام مذہبی کہانی کار وغیرہ بھی اپنی تقریروں میں لوگوں سے اپیل کرتے تھے۔ میں اس وقت کے بارے میں تقریباً 80 دن کی بات کرتا ہوں، لیکن اب مجھے نہیں معلوم، سال میں 80 دن ایسے ہوتے تھے جب کوئی نہ کوئی گھر والے آتے تھے اورا سکول کے بچوں کے ساتھ اچھا موقع منایا کرتے تھے اور بچوں کو خوب کھانا کھلاتے تھے۔ غذائی قلت کے خلاف جنگ بھی ہوتی تھی  اور ٹیچر کو کھانا کھلانے کا جو ٹینشن ہوتا تھا وہ بھی دور۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مسائل کے حل میں عوامی شرکت کی طاقت بہت بڑی ہے۔ اگر ہمیں،مان لیجئے ٹی بی ہے ہمارے بلاک میں 10 لوگ بھی ٹی بی کے مریض ہیں۔ اور ٹی بی متر والی جو اسکیم  ہے ہم انہیں اسسے جوڑ لیں  اور ہم کہیں کہ بھائی کہ آپ انہیں ہر ہفتے فون کرتے رہیں، آپ ان سے صرف یہ پوچھتے رہیں کہ 6 ماہ میں ٹی بی نہیں ہوگی۔ وہ غائب ہو جائے گا۔ ہم جتنے زیادہ لوگوں کو جانتے ہیں، شروع میں جڑنے میں اتنی ہی زیادہ محنت درکار ہوتی ہے، لیکن بعد میں یہ طاقتور ہو جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہندوستان کا نام آج پوری دنیا میں گونج رہا ہے۔ آپ بھی اس کا تجربہ کر رہے ہوں گے۔ اخبارات میں آتا ہے کہ یہ مودی کی وجہ سے ہو رہا ہے، یہ مودی کی وجہ سے ہو رہا ہے، مودی سرکار کی ڈپلومیسی بہت اچھی ہے، ، مجھے بھی یہی لگتا ہے۔ لیکن حقیقت میں ایک اور وجہ بھی ہے جس پر لوگ توجہ نہیں دیتے، وہ ہے ہمارا ڈائیسپورا۔ ہندوستان سے جا کر اس ملک میں رہنے والے لوگوں کے اندر جو ایکٹوزم آئی ہے، ان کے اندر جو منظم طاقت پیدا ہوئی ہے، عوامی زندگی میں ان کی شرکت میں اضافہ ہوا ہے، ان ممالک کے لوگ بھی محسوس کرتے ہیں کہ یہ بہت مفید  لوگ ہیں اور اس کی وجہ سے ہندوستان کارآمد نظر آنے لگا۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر خارجہ پالیسی میں عوامی شراکت کی طاقت کارآمد ہے تو عوام کی شراکت کی طاقت میرے بلاک میں آسانی سے آ سکتی ہے دوستو۔ اور اسی لیے میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ اس سنکلپ سپتاہ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں، کھلے ذہن کے ساتھ بحث کریں اور ڈیزائن ورک آؤٹ کریں۔ ہمارے وسائل کو اسی طرح استعمال کریں۔ یہاں ہوتا یہ ہے کہ ایک بلاک میں شاید 8-10 گاڑیاں ہوں، زیادہ نہیں اور صرف چند افسران کے پاس گاڑیاں ہیں، اب دور تک سفر کرنے کی ذمہ داری بہت سے لوگوں پر عائد ہوتی ہے جن کے پاس ذرائع نہیں ہیں۔ میں نے گجرات میں ایک تجربہ کیا تھا جو بہت کامیاب رہا، فرض کریں کہ ایک بلاک میں 100 گاؤں ہیں، تو میں نے 10 افسران کو 10 گاؤں دئیے۔ اور میں نے کہا کہ اگر آپ اپنی گاڑی میں جائیں تو ان پانچ محکموں کے جونیئر افسران کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر صرف ایک ماہ کے لیے ان 10 گاؤں کی فکر کریں۔ آپ تمام موضوعات پر بحث کریں ، حالانکہ آپ محکمہ زراعت کے افسر ہیں، لیکن آپ اس گاؤں میں بھی جائیں گے اور تعلیم پر بھی بات کریں ، کھیتی کے بارے میں بھی بات کریں ، پانی کی بھی بات کریں ، جانوروں کی فکر بھی کریں ۔ دوسرا، دوسرے 10 گاؤں میں، تیسرا، تیسرا۔ وہ ایک ماہ تک انہی 10 گاؤں میں رہے گا اور پھر ایک مہینے کے بعد انہیں تبدیل کر دے گا۔ تجربہ یہ ہوتا تھا کہ سائلوز ختم ہو گئے، ساری حکومتی اپروچ آگئی اور یہ 10 افسران ہفتے میں ایک بار بیٹھ کر اپنے تجربات بتاتے تھے کہ بھائی میں اس علاقے میں گیا تھا، میرا محکمہ تعلیم ہے لیکن میں نے زراعت کی ہے۔ یہ چیز دیکھی۔ پانی کے میدان میں… اسی طرح وسائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال تھا۔ اور نتائج بہت اچھے آنے لگے اور 10 افسران ایسے تھے جن کے پاس اس بلاک کے بارے میں مکمل معلومات تھیں۔ وہ زراعت سے جڑا ہوگالیکن وہ تعلیم کے بارے میں بھی جانتا تھا، وہ تعلیم میں تھا لیکن وہ صحت کے بارے میں بھی جانتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنی حکمت عملی کو بدلنا چاہیے، اگر ہم اپنی حکمرانی کی حکمت عملی کو بدلیں اور اپنے وسائل کا بھرپور استعمال کریں، اور آج مواصلات طاقت بھی ہے اور مواصلات کا مسئلہ بھی۔ لگتا ہے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے معلومات لوں گا، موبائل کے ذریعے معلومات لوں گا، ساتھیوں ، جسمانی طور پر جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آج میں آپ سے جو کچھ کہہ رہا ہوں، آپ اپنے گاؤں میں ہوتے اور ممکن ہے کہ میں نے ویڈیو کانفرنس میں کوئی نئی بات نہ کہی ہوتی۔ لیکن یہاں آنے اور آپ سے روبرو کے بعد جو طاقت آتی ہے وہ ویڈیو کانفرنس سے نہیں آتی۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں جسمانی طور پر جو بھی ذمہ داریاں نبھانی ہیں ان پر ہمیں کبھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ جب ہم اس جگہ جاتے ہیں تو ہمیں اس اسپیریشنل بلاک کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔شاید پہلی بار یہ ہفتہ کب جاری رہے گا، آپ نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ تو شاید آپ کو اپنا نام بھی معلوم نہ ہو، ہو سکتا ہے آپ مجھ سے روز اپنے دفتر میں ملے ہوں، آپ نے مجھے ہیلو کہا ہو، آپ کو اپنا نام بھی معلوم نہ ہو۔ لیکن جب آپ ایک ہفتہ اکٹھے بیٹھیں گے تو آپ کو اس کی طاقت، اس کی خصوصیات کا پتہ چل جائے گا اور یہ ہماری ٹیم اسپرٹ کے لیے بہت ضروری ہے۔ اور جب ٹیم بنتی ہے تو مطلوبہ نتائج خود بخود حاصل ہو جاتے ہیں۔ اور اس لیے دوستو، میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ 3 ماہ کے اندر، ہم یہ مان لیں کہ آپ 30 پیرامیٹرز میں پیچھے ہیں، 5 پیرامیٹرز کو درست کریں جس میں ہم ریاستی اوسط سے پوری طرح باہر آجائیں، یہ کریں۔ تو آپ کا اعتماد بڑھے گا دوست، یار5 تو ہوگئے تو اب 10 بھی ہو سکتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تو اساتذہ کیا پڑھاتے تھے؟جب آپ امتحان میں بیٹھتے ہیں تو پہلے آسان جواب لکھیں۔ اس لیے استاد کی سکھائی ہوئی چیزیں اب بھی کارآمد ہیں، آپ بھی پہلے آپ کے پاس جو آسان چیزیں ہیں ان کو حل کریں اور ان سے نکلیں، اس لیے اگر 40 چیزیں ہیں تو پہلے 35 پر آئیں۔ آہستہ آہستہ آپ ہر مشکل پر قابو پا لیں گے اور کچھ ہی دیر میں آپ کا اسپیریشنل بلاک دوسروں کی امنگوں کو بڑھانے والا بن جائے گا۔ یہ اپنے آپ میں ایک تحریک بن جائے گا۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے 112 اضلاع جو کل تک اسپیریشنل  ضلع تھے، آج انسپائریشنل اضلاع بن چکے ہیں، ایک سال کے اندر 500 اسپیریشنل بلاکس ہیںجو 500 میں سے کم از کم 100 انسپائریشنلبلاک بن جائیں گے۔ پوری ریاست کے لیے انسپائریشنلبلاکس بنائے جائیں گے۔ اور اس کام کو مکمل کریں۔ دوستو، مجھے اچھا لگا کہ مجھے اس پروگرام میں آپ سب سے بات کرنے کا موقع ملا، میں ان لوگوں کے لیے بھی نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں جو مجھے آن لائن سن رہے ہیں۔ ہمیں مشن موڈ میں آگے بڑھنا چاہیے اور میں محکموں کے لوگوں سے بھی کہتا ہوں کہ پورے ملک سے 100 بلاکس کا انتخاب کریں اور انہیں مقررہ وقت کے اندر قومی اوسط پر لے آئیں۔ ہر محکمے کو اس طریقے سے کام کرنا چاہیے، میں نہیں مانتا کہ گراس روٹ لیول پر کوئی کام چھوڑ دیا جائے گا۔ تمام کام 1-2 سال میں مکمل ہو جائیں گے۔ دوستو، میں ابھی آپ کو بتا رہا ہوں کہ 2024 میں ہم اکتوبر نومبر میں دوبارہ ملیں گے، ہم جسمانی طور پر ملیں گے اور ہم اس کا جائزہ لیں گے اور اس وقت میں یہاں حاضرین میں بیٹھ کر کامیابی کی کہانیاں سننا چاہوں گا۔ آپ میں سے 10 لوگوں کی کامیابی کی کہانی سننا چاہوں گا ۔ میں آپ سے اگلے سال اکتوبر یا نومبر 2024 میں بات کروں گا۔ تب تک میں آپ کے کام کے لیے آپ کا زیادہ وقت نہیں لیتا کیونکہ آپ کو بلاک کو تیزی سے آگے بڑھانا ہے، اس لیے مجھے آپ کا مزید وقت نہیں لینا چاہیے۔

بہت بہت  نیک خواہشات، بہت بہت شکریہ۔

******

ش  ح۔م م ۔ م ر

U-NO. 10173