نریندر مودی،عزت مآب وزیر اعظم ہند
آج بھارت کے ذریعہ جی 20 کی صدارت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کا 365واں دن ہے۔ یہ لمحہ غور و فکر ، ازسر نو اپنے آپ کو وقف کرنے اور وسودھیو کٹمبکم، ایک زمین ، ‘ایک کنبہ ، ایک مستقبل’ کے جذبے کو نئی توانائی کے ساتھ اختیار کرنے کا ہے۔
جب ہم نے گذشتہ برس یہ ذمہ داری سنبھالی تھی، عالمی پیش منظر کثیر پہلو چنوتیوں سے بھرا ہوا تھا: کووِڈ 19 وبائی مرض کےبعد بحالی، منڈراتے ہوئے موسمیاتی خطرات، مالی عدم استحکام اور ترقی پذیر ممالک میں قرض کے دباؤ ، یہ تمام مسائل انحطاط پذیر کثیر پہلو نظام کے درمیان درپیش تھے۔ مناقشوں اور مسابقتوں کے درمیان ترقیاتی امدادِ باہمی مشکلات کا شکار تھی اور ترقی کے راستے کی رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔
جی20 کی صدارت سنبھالنے کےبعد بھارت نے پوری دنیا کو ایک متبادل مساوی حیثیت فراہم کرنے کی کوشش کی۔ ایک جی ڈی پی مرتکز نظریے سے انسان مرتکز ترقی کی جانب پیش رفت کی۔ بھارت کا مقصد دنیا کو یہ یاد دلانا تھا کہ کیا چیز ہمیں متحد کرتی ہے نا کہ کن بنیادوں پر ہم منقسم ہیں۔ آخر کار عالمی گفت و شنید کا راستہ اپنانا پڑا۔ چند ممالک کے مفادات کی جگہ متعدد توقعات اور امنگوں کو اولیت دی گئی۔ اس کے لیے کثیر پہلو نظام کی بنیادی اصلاح درکار تھی، جیسا کہ ہم سب اس سے واقف ہیں۔
مبنی بر شمولیت، اولوالعزم، عملی پہلوؤں سے مملو، اور فیصلہ کن – یہ چار الفاظ بطور جی 20 صدر ہمارے نظریے کی وضاحت کرتے ہیں اور نئی دہلی کے قائدین کے اعلانیے (این ڈی ایل ڈی) کو اتفاق رائے سے تمام جی 20 اراکین نے اختیار کیا جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہم ان اصولوں پر نتائج بہم پہنچانے کے لیے پابند عہد ہیں۔
شمولیت ہماری صدارت میں مرکزی حیثیت کی حامل رہی ہے۔ افریقی یونین (اے یو) کو جی 20 مربوط 55 افریقی ممالک میں ایک مستقل رکن کے طور پر فورم میں شامل کرنا، اسے 80 فیصد کے بقدر عالمی آبادی پر احاطہ کرنے کے لیے وسعت دینا ،اس کے تحت آتا ہے۔ اس سرگرم قدم نے عالمی چنوتیوں اور مواقع کے سلسلے میں مزید جامع مکالمے کے امکانات کو پروان چڑھایا ہے۔
اپنی نوعیت کی اولین گلوبل ساؤتھ سربراہ ملاقات کی آواز کا اہتمام بھارت کے ذریعہ دو ایڈیشنوں کی شکل میں کیا گیا، اس نے کثیر پہلوئی نظام کی ایک نئی صبح طلوع کی۔ بھارت نے گلوبل ساؤتھ کی تشویشات کو بین الاقوامی گفت و شنید میں مرکزی حیثیت دلائی اور ایک ایسا عہد متعارف کرایا جہاں ترقی پذیر ممالک عالمی بیانیہ کی تشکیل میں اپنا جائز مقام حاصل کر سکیں۔
شمولیت نے جی 20 کے تئیں بھارت کے گھریلو نظریے کے لیے بھی گنجائش نکالی اور اسے عوام کی صدارت کی شکل دے دی، جو دنیا کی وسیع تر جمہوریت کے شایانِ شان ہے۔ جن بھاگیداری (عوامی شراکت داری) کی تقریبات کے اہتمام کے ذریعہ جی 20 ، 1.4 بلین شہریوں تک رسائی حاصل کر سکی۔ اس میں تمام تر ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقے شریک کار کے طور پر شامل ہوئے اور اہم عناصر کے طور پر بھارت نے اس امر کو یقینی بنایا کہ بین الاقوامی توجہ وسیع تر ترقیاتی اہداف پر مرکوز ہو جو جی 20 کے فرمان سے مربوط ہو۔
2030 کے ایجنڈے کے اہم وسطی حصے میں بھارت نے جی 20، 2023 لائحہ عمل منصوبہ بہم پہنچایا، جس کا مقصد یہ تھا کہ ہمہ گیر ترقیاتی اہداف کی پیش رفت کو مہمیز کیا جائے اور مختلف مسائل جن میں صحت، تعلیم، صنفی مساوات اور ماحولیاتی ہمہ گیری جیسے پہلو شامل ہوں، کے سلسلے میں نتائج پر مبنی طریقہ کار متعارف کرایا جائے۔
اس پیش رفت کو سمت عطا کرنے والا ایک اہم شعبہ مضبوط ڈجیٹل عوامی بنیادی ڈھانچہ (ڈی پی آئی) ہے۔ یہاں بھارت سفارشات کے معاملے میں فیصلہ کن ثابت ہوا، اس نے ڈجیٹل اختراعات مثلاً آدھار، یو پی آئی اور ڈجیٹل لاکر کی اولین شکل کے انقلابی اثرات ملاحظہ کیے۔ جی 20 کے توسط سے، ہم نے کامیابی کے ساتھ ڈجیٹل عوامی بنیادی ڈھانچہ خزینہ یا ریپازٹری فراہم کرنے کا کام مکمل کیا۔ یہ عالمی تکنالوجی اشتراک کے سلسلے میں ایک اہم قدم تھا۔ یہ خزینہ جس کے اندر 16 ممالک کے 50 سے زائد ڈی پی آئیز شامل تھے، گلوبل ساؤتھ کو ڈی پی آئی کی مبنی برشمولیت نمو کی قوت کو بروئے کار لانے، اس کی تعمیر اور اختیار کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔
ہمارے ایک کرۂ ارض کے لیے، ہم نے اولوالعزم اور مبنی بر شمولیت اہداف متعارف کرائے جن کا مقصد فوری پائیدار اور مساوی ترجیحی بہم پہنچانا ہے۔ اعلانیہ کا سبز ترقیات معاہدہ بھوک اور کرۂ ارض کے تحفظ کے درمیان انتخابات کے سلسلے میں چنوتیوں کو نمٹانے کی گنجائش فراہم کرتا ہے۔ اس کے لیے ایک جامع لائحہ عمل فراہم کرایا گیا ہے، جہاں روزگار اور ایکو نظام معاون حیثیت کے حامل ہیں۔ کھپت، موسمیات کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور پیداوار کرۂ ارض کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے عمل میں آنی ہے۔ اسی اصول سے ہم آہنگ رہتے ہوئے جی 20 اعلانیے نے عالمی قابل احیاء توانائی صلاحیت کو 2030 تک اولوالعزم طور سے تین گنا کرنے کی تلقین کی ہے۔ عالمی حیاتیاتی ایندھنوں کے اتحاد کے قیام کے ساتھ مربوط ہوکر اور سبز ہائیڈروجن پر مستحکم طریقے سے توجہ مرکوز کرتے ہوئے جی 20 کا عزم یہ ہے کہ ایک صاف ستھری ، سبز تر دنیا کی تعمیر ہر حال میں ناگزیر ہے۔ یہ بھارت کی روایات کا بھی حصہ رہا ہے اور ہمہ گیر ترقیات کے لیے اندازِ حیات اپنا کر اس پر عمل کیا جاتا رہا ہے۔ پوری دنیا ہماری قدیم ہمہ گیر روایات سے استفادہ کر سکتی ہے۔
مزید برآں، اس اعلانیے نے موسمیاتی انصاف اور مساوات کے تئیں ہماری عہد بندگی کو بھی اجاگر کیا۔ گلوبل نارتھ سے اہم مالی اور تکنالوجی امداد بہم پہنچانے کی بھی گذارش کی۔ پہلی مرتبہ ترقیاتی سرمایہ فراہمی کے معاملےمیں درکار بڑی پیش رفت کی اہمیت تسلیم کی گئی۔ بلینس کے بجائے ٹریلین ڈالروں کی بات ہوئی۔ جی20 نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ترقی پذیر ممالک کو ان کے قومی تعین کردہ تعاون (این ڈی سی) کے سلسلے میں 2030 تک 5.9 ٹریلین امریکی ڈالر کا سرمایہ درکار ہے۔
جس بڑی تعداد میں وسائل درکار ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے جی20 نے اس بات پر زور دیا کہ بہتر، وسیع تر اور مزید مؤثر کثیر پہلوئی ترقیاتی بینکوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اس کے شانہ بہ شانہ بھارت اقوام متحدہ اصلاحات میں بھی ایک سرکردہ کردار ادا کر رہا ہے، خصوصاً اہم عناصر مثلاً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تشکیل نو کی بات کر رہا ہے جو ایک مزید مساویانہ عالمی نظام کو یقینی بنائے گی۔
صنفی مساوات اس اعلانیے میں مرکزی حیثیت کا حامل پہلو ہے۔ اسکے نتیجے میں آئندہ برس خواتین کو تفویض اختیارات کے سلسلے میں کلی طور پر اپنے مقصد کے لیے وقف ایک ورکنگ گروپ کی تشکیل عمل میں آئے گی۔ بھارت کا خواتین کو ریزرویشن فراہم کرنے سے متعلق بل 2023، جس کے توسط سے ایک تہائی پارلیمنٹ اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کی نشستیں خواتین کے لیے مخصوص ہوں گی، یہ قدم خواتین کی قیادت والی ترقی کے تئیں ہماری عہد بندگی کی زندہ جاوید مثال ہے۔
نئی دہلی اعلانیہ ان تمام کلیدی ترجیحات کے سلسلے میں ازسر نو تازہ جذبے کے اشتراک کی عملی شکل پیش کرتا ہے جس کی توجہ پالیسی، اتحاد، معتبر تجارت اور اولوالعزم موسمیاتی کاروائی پر مرکوز ہے۔ یہ بات قابل فخر ہے کہ ہماری صدارت کے دوران جی20 نے 87 نتائج حاصل کیے اور 118 دستاویزات اختیار کیے گئے جو ماضی کے مقابلے میں قابل ذکر اضافہ کہا جا سکتا ہے۔
جی20 کی صدارت کے دوران بھارت نے ارضیاتی سیاسی مسائل پر گفت و شنید کی قیادت کی اور اقتصادی نمو اور ترقی پر مرتب ہونے والے اس کے اثرات کو بھی اس میں شامل کیا۔ دہشت گردی اور شہریوں کا اندھا دھند قتل ناقابل قبول ہے اور ہمیں اس مسئلے کو صفر برداشت کی پالیسی اپناکر حل کرنا چاہئے۔ ہمیں دشمنی کے مقابلےمیں انسانیت کا ماحول پیدا کرنا چاہئے کیونکہ یہ جنگ کا عہد نہیں ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ ہماری صدارت کےد وران بھارت نے غیر معمولی نتائج حاصل کیے: اس نے کثیر پہلوئی نظام کو ازسر نو تقویت بخشی، گلوبل ساؤتھ کی آواز کو قوت عطا کی، ترقی کی علمبرداری کی اور ہر جگہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کوششیں انجام دیں۔
اب جب ہم جی 20 صدارت برازیل کو سونپ رہے ہیں تو ہم یقین رکھتے ہیں کہ عوام الناس،کرۂ ارض، امن اور خوشحالی کے تئیں ہمارے اجتماعی اقدامات کی بازگشت آئندہ برسوں میں سنائی دیتی رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ش ح۔س ب ۔ع ن
(U: 1580)