Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

بھارت گرامین مہوتسو میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

بھارت گرامین مہوتسو میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن


اسٹیج پر تشریف فرما وزیر  خزانہ محترمہ نرملا سیتا رمن جی، وزیر مملکت برائے خزانہ  جناب پنکج چودھری جی، یہاں موجود، نابارڈ کے سینئر مینجمنٹ کے ممبران، سیلف ہیلپ گروپس کے ممبران، کوآپریٹو بینکوں کے ممبران، فارمرز پروڈکٹ تنظیم – ایف پی اوز کے ممبران ، سبھی دیگر معززین، خواتین و حضرات،

آپ سب کو سال 2025 کے لیے  بہت بہت  نیک خواہشات۔ سال 2025 کے آغاز میں دیہی ہندوستان مہوتسو کا یہ عظیم الشان پروگرام ہندوستان کی ترقی کے سفر کو متعارف کرا رہا ہے اور ایک شناخت بنا رہا ہے۔ میں اس تقریب کے انعقاد کے لیے نابارڈ اور دیگر شراکت داروں کو  بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیوں،

ہم میں سے وہ لوگ جو دیہات سے جڑے ہوئے ہیں، جو گاؤں میں پلے بڑھے ہیں، وہ ہندوستان کے دیہات کی طاقت کو جانتے ہیں۔ جو گاؤں میں بسا ہے، گاؤں بھی اس کے بس جاتا ہے۔ جو گاؤں میں جیا ہے وہ گاؤں کو جینا بھی جانتا ہے۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میرا بچپن ایک چھوٹے سے قصبے کے سادہ ماحول میں گزرا۔ اور، بعد میں، جب میں گھر سے نکلا، تو میں نے اپنا زیادہ تر وقت ملک کے  گاؤں اور دیہاتوں میں گزارا۔ اور اسی وجہ سے، میں نے گاؤں کے مسائل کو جیا ہے، اور گاؤں کے امکانات کو بھی جانا ہے۔ بچپن سے میں نے دیکھا ہے کہ دیہات میں لوگ کتنی محنت کرتے  رہے ہیں لیکن سرمائے کی کمی کی وجہ سے انہیں خاطر خواہ مواقع نہیں مل پاتے تھے۔ میں نے دیکھا ہے کہ دیہاتوں میں لوگوں کی کتنی متنوع صلاحیتیں ہیں! لیکن، وہ صلاحیت صرف زندگی کی بنیادی لڑائیوں میں استعمال ہوتی ہے۔ کبھی قدرتی آفات کی وجہ سے فصل نہیں ہوتی تھی، کبھی منڈی تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے فصل کو پھینکنا پڑتا تھا، ان پریشانیوں کو اتنی قریب سے دیکھ کر میرے ذہن میں گاؤں کے غریبوں کی خدمت کرنے کا عزم اور ان کے مسائل حل کرنے کا جذبہ بیدار ہوا۔

آج ملک کے دیہی علاقوں میں جو کام ہو رہےہیں اس میں دیہات کے سکھائے گئے تجربات بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ 2014 سے، میں مسلسل ہر لمحہ دیہی ہندوستان کی خدمت کر رہا ہوں۔ گاؤں کے لوگوں کو باوقار زندگی فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ ہمارا وژن یہ ہے کہ ہندوستان کے گاؤں کے لوگ بااختیار بنیں، انھیں گاؤں میں ترقی کے زیادہ سے زیادہ مواقع ملیں، انھیں نقل مکانی نہ کرنی  پڑے، گاؤں کے لوگوں کی زندگی آسان ہو، اسی لیے ہم نے  ہر گاؤں میں بنیادی سہولیات کی ضمانت کی مہم چلائی ہے ۔سوچھ بھارت ابھیان کے ذریعے ہم نے ہر گھر میں بیت الخلا بنائے۔ پی ایم آواس یوجنا کے تحت ہم نے دیہی علاقوں میں کروڑوں خاندانوں کو پکے مکانات دیئے۔ آج جل جیون مشن کے ذریعے لاکھوں گاؤں میں ہر گھر میں پینے کا صاف پانی پہنچ رہا ہے۔

 

ساتھیو،

آج، لوگوں کو ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ آیوشمان آروگیہ مندروں میں صحت کی خدمات کے لیے اختیار مل رہا ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم نے ملک کے بہترین ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کو بھی گائوں سے جوڑا ہے۔ ٹیلی میڈیسن سے فائدہ اٹھایا ہے۔ دیہی علاقوں میں کروڑوں لوگوں نے ای سنجیوانی کے ذریعے ٹیلی میڈیسن کا فائدہ اٹھایا ہے۔ کووڈ کے وقت، دنیا سوچ رہی تھی کہ ہندوستان کے دیہات اس وبا سے کیسے نمٹیں گے! لیکن، ہم نے ہر گاؤں میں آخری شخص تک ویکسین پہنچا ئی۔

ساتھیو،

دیہی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ اقتصادی پالیسیاں گاؤں کے ہر طبقے کو ذہن میں رکھ کر بنائی جائیں۔ مجھے خوشی ہے کہ پچھلے 10 سالوں میں ہماری حکومت نے گاؤں کے ہر طبقے کے لیے خصوصی پالیسیاں بنائی ہیں اور فیصلے کیے ہیں۔ صرف دو تین دن پہلے، کابینہ نے پی ایم کراپ انشورنس اسکیم کو مزید ایک سال تک جاری رکھنے کی منظوری دی ۔ ڈی اے پی کی دنیا میں اس کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے جو آسمان کو چھو رہی ہے۔ اگر ہمارے ملک کے کسان کو دنیا میں رائج قیمتوں کے مطابق خریدنا ہوتا تو اس پر اتنا بوجھ پڑتا، اتنا بوجھ ہوتا، کسان کبھی کھڑا ہونے کے قابل نہ ہوتا۔ لیکن ہم نے فیصلہ کیا کہ دنیا میں جیسے بھی حالات ہوں، بوجھ کتنا ہی بڑھ جائے، ہم کسانوں پر بوجھ نہیں پڑنے دیں گے۔ اور اگر ڈی اے پی میں سبسڈی بڑھانی پڑی تو اسے بڑھانے کے بعد بھی اس کا کام مستحکم رکھا ہے۔ ہماری حکومت کے ارادے، پالیسیاں اور فیصلے دیہی ہندوستان کو نئی توانائی سے بھر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ گاؤں کے لوگوں کو گاؤں میں ہی زیادہ سے زیادہ مالی مدد ملنی چاہیے۔ وہ دیہات میں کھیتی باڑی کرنے کے قابل بھی ہوں اور دیہات میں روزگار اور خود روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہونے چاہئیں۔ اسی سوچ کے ساتھ، پی ایم کسان سمان ندھی کے ذریعے کسانوں کو تقریباً 3 لاکھ کروڑ روپے کی مالی امداد دی گئی ہے۔ گزشتہ 10 سالوں میں زرعی قرضے کی رقم میں ساڑھے تین  گنا اضافہ ہوا ہے۔ اب کسان کریڈٹ کارڈ مویشی پالنے والوں اور ماہی پروروں کو بھی دیے جا رہے ہیں۔ ملک میں موجود 9 ہزار سے زائد ایف پی اوز اور فارمر پروڈکٹ تنظیم کو بھی مالی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ ہم نے پچھلے 10 سالوں میں کئی فصلوں پر ایم ایس پی میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔

ساتھیو،

ہم نے سوامیتو یوجنا جیسی مہم بھی شروع کی ہے، جن کے ذریعے گاؤں کے لوگوں کو جائیداد کے کاغذات مل رہے ہیں۔ پچھلے 10 سالوں میں، ایم ایس ایم ای کو بھی فروغ دینے کے لیے کئی پالیسیاں لاگو کی گئی ہیں۔ انہیں کریڈٹ لنک گارنٹی اسکیم کا فائدہ دیا گیا ہے۔ ایک کروڑ سے زیادہ دیہی ایم ایس ایم ای کو بھی اس سے فائدہ ہوا ہے۔ آج گاؤں کے نوجوانوں کو مدرا یوجنا، اسٹارٹ اپ انڈیا، اسٹینڈ اپ انڈیا جیسی اسکیموں سے زیادہ سے زیادہ مدد مل رہی ہے۔

ساتھیوں،

کوآپریٹیو نے دیہات کی تصویر بدلنے میں بہت بڑا تعاون کیا ہے۔ آج ہندوستان تعاون کے ذریعے خوشحالی کی راہیں طے کرنے میں مصروف ہے۔ اس مقصد کے لیے 2021 میں الگ سے  امداد باہمی کی ایک نئی وزارت تشکیل دی گئی۔ ملک کے تقریباً 70 ہزار پی اے سی ایس (پیکس) کو بھی کمپیوٹرائز کیا جا رہا ہے۔ مقصد یہی ہے کہ کسانوں اور دیہات  کے لوگوں  کو ان کی مصنوعات کی بہتر قیمتیں ملیں اور دیہی معیشت مضبوط ہو۔

ساتھیوں،

ہمارے گاؤں میں زراعت کے علاوہ بہت سے لوگ مختلف قسم کے روایتی فنون اور ہنر سے جڑے ہوئے ہیں اور  کام کرتے ہیں۔ اب لوہار، بڑھئی، کمہار کی طرح یہ سب کام کرنے والے زیادہ تر لوگ دیہات میں رہتے آئے ہیں۔ انہوں نے دیہی معیشت اور مقامی معیشت میں بہت بڑا تعاون پیش کیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ان کو بھی مسلسل نظر انداز کیا گیا۔ اب ہم انہیں نئی ​​مہارتوں کی تربیت دینے، نئی مصنوعات تیار کرنے، ان کی صلاحیتوں کو بڑھانے اور انہیں سستی شرحوں پر مدد فراہم کرنے کے لیے وشوکرما یوجنا چلا رہے ہیں۔ یہ اسکیم ملک کے لاکھوں وشوکرما ساتھیوں کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔

ساتھیوں،

جب ارادے نیک ہوتے ہیں تو نتائج بھی اطمینان بخش ہوتے ہیں۔ ملک کو گزشتہ 10 سال کی محنت کے ثمرات ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ ابھی چند روز قبل ہی ملک میں ایک بہت بڑا سروے کیا گیا اور اس سروے میں کئی اہم حقائق سامنے آئے ہیں۔ سال 2011 کے مقابلے، دیہی ہندوستان میں کھپت، یعنی گاؤں کے لوگوں کی قوت خرید،پہلے سے تقریباً تین گنا بڑھ گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگ، گاؤں والے اپنی پسند کی چیزیں خریدنے کے لیے پہلے سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ پہلے حالات ایسے تھے کہ گاؤں والوں کو اپنی آمدنی کا 50 فیصد سے زیادہ یعنی نصف سے زیادہ  حصہ کھانے پر خرچ کرنا پڑتا تھا۔ لیکن آزادی کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دیہی علاقوں میں بھی کھانے پینے کے اخراجات میں 50 فیصد کمی آئی ہے اور زندگی کی دوسری چیزوں کی خریداری پر خرچ بڑھ گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگ اپنے شوق، خواہشات اور ضروریات کی چیزیں خرید رہے ہیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے پر پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔

ساتھیوں،

اس سروے میں ایک اور بہت اہم بات سامنے آئی ہے۔ سروے کے مطابق شہروں اور دیہات کے درمیان کھپت کا فرق کم ہوا ہے۔ پہلے شہر کا ایک فی خاندان جتنا خرچ کرکے خرید کرتا تھا اور گاؤں کا شخص جتنا خرچ کرتا تھا اس میں بڑ ا فاصلہ تھا، اب آہستہ آہستہ گاؤں والے بھی شہر والوں کی برابری کرنے میں لگ گئے ہیں۔  ہماری مسلسل کوششوں سے دیہات اور شہروں کے درمیان یہ فاصلہ بھی کم ہو رہا ہے۔ دیہی ہندوستان میں ایسی بہت سی کامیابی کی کہانیاں ہیں جو ہمیں حوصلہ دیتی ہیں۔

ساتھیو،

آج جب میں ان کامیابیوں کو دیکھتا ہوں تو میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ یہ سارے کام پہلے کی حکومتوں کے دوران بھی ہو سکتے تھے، ہمیں مودی کا انتظار کرنا پڑا؟ لیکن، آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک ملک کے لاکھوں دیہات بنیادی ضروریات سے محروم رہے ہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ ملک میں سب سے زیادہ ایس سی گاؤں میں کہاں رہتے ہیں، گاؤں میں ایس ٹی کہاں رہتے ہیں، او بی سی گاؤں میں کہاں رہتے ہیں۔ ایس سی، ایس ٹی، او بی سی ہو، سماج کے اس طبقے کے لوگ زیادہ تر گاؤں میں ہی اپنا گزارا کرتے ہیں۔ سابقہ ​​حکومتوں نے ان تمام ضروریات پر توجہ نہیں دی۔ دیہاتوں سے ہجرت ہوتی رہی، غربت بڑھتی رہی، گاؤں اور شہر کا فاصلہ بھی بڑھتا رہا۔ میں آپ کو ایک اور مثال دیتا ہوں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پہلے ہمارے سرحدی گاؤں کے بارے میں کیا سوچ ہوتی تھی؟ اسے ملک کا آخری گاؤں کہا جاتا تھا۔ ہم نے انہیں آخری گاؤں کہنا بند کروا دیا، ہم نے کہا کہ جب سورج کی پہلی کرن نکلتی ہے تو وہ پہلے گاؤں میں آتی ہے، وہ آخری گاؤں نہیں ہوتا اور جب سورج غروب ہوتا ہے تو ڈوبتے سورج کی آخری کرن بھی  اس گاؤں کو آتی ہے، جو اس سمت میں ہمارا پہلا گاؤں  ہوتا ہے۔ اور اس لیے ہمارے لیے گاؤں آخری نہیں، ہمارے لیے گاؤں پہلا ہے۔ ہم نے اسے پہلے گاؤں کا درجہ دیا۔ سرحدی گاوؤں کی ترقی کے لیے وائبرنٹ ولیج اسکیم شروع کی گئی۔ آج سرحدی گاوؤں کی وہاں کے لوگوں کی آمدنی میں اضافہ کر رہی ہے۔ یعنی  جنہیں کسی نے نہیں پوچھا ، انہیں مودی  نےپوجا ہے ۔ ہم نے قبائلی آبادی والے علاقوں کی ترقی کے لیے پی ایم جن من یوجنا بھی شروع کی ہے۔ جو علاقے کئی دہائیوں سے ترقی سے محروم تھے اب انہیں مساوات کا حق مل رہا ہے۔ گزشتہ 10 سالوں میں ہماری حکومت نے پچھلی حکومتوں کی بہت سی غلطیوں کی اصلاح کی ہے۔ آج ہم گاؤں کی ترقی کے ذریعے قوم کی ترقی کے منتر کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کوششوں کا نتیجہ ہے کہ 10 سالوں میں ملک کے تقریباً 25 کروڑ لوگ غربت سے باہر نکل آئے ہیں۔ اور ان میں سب سے بڑی تعداد ہمارے گاؤں کے لوگوں کی ہے۔

ابھی کل ہی اسٹیٹ بینک آف انڈیا کا ایک اہم مطالعہ بھی سامنے آیا ہے۔ان کی  ایک تحقیقی رپورٹ سامنے آئی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی رپورٹ کیا کہہ رہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ 2012 میں ہندوستان میں دیہی غربت تقریباً 26 فیصد تھی۔ 2024 میں، ہندوستان میں دیہی غربت، یعنی دیہاتوں میں غربت، جو پہلے 26 فیصد تھی، گھٹ کر 5 فیصد سے بھی کم ہوگئی ہے۔ ہمارے کچھ لوگ دہائیوں سے غریبی ہٹاؤ کے نعرے لگا تے رہے، آپ کے گاؤں کے 70-80 سال کے لوگ ہوں گے  ان سے پوچھنا جب وہ 15-20 سال کے تھے،  تب سے سنتے آئے ہیں ، غریبی ہٹاؤ ، غریبی ہٹاؤ ۔ وہ 80   کے سال ہو گئے ہیں۔ آج حالات بدل چکے ہیں۔ اب ملک میں  حقیقی شکل میں غربت میں کمی آنے لگی ہے۔

ساتھیو،

ہندستان کی دیہی معیشت میں خواتین کا  ہمیشہ سے  بہت بڑا مقام رہا ہے۔ ہماری حکومت اس کردار کو مزید وسعت دے رہی ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دیہات کی خواتین بینک سکھی اور بیما سکھی کی شکل میں دیہی زندگی کی نئی تعریف کر رہی ہیں۔ میری ایک بار ایک بینک سکھی سے ملاقات ہوئی،  میں سب  بینک سکھیوں سے بات کر رہا تھا۔ تو ایک بینک سکھی نے بتایا کہ وہ گاؤں کے اندر روزانہ 50 لاکھ، 60 لاکھ، 70 لاکھ روپے کا کاروبار کرتی ہے۔ تو میں نے کہا کیسے؟ اس نے کہا، میں 50 لاکھ روپے لے کر صبح نکلتی ہوں ۔میرے دیس کے گاؤں میں بیٹی 50 لاکھ روپے تھیلے میں لے کر گھوم رہی ہے، یہ بھی میرے ملک کا نیا چہرہ ہے۔ خواتین سیلف ہیلپ گروپس کے ذریعے گاؤں  گاؤں میں ایک نیا انقلاب برپا کر رہی ہیں۔ ہم نے دیہات کی 1 کروڑ 15 لاکھ خواتین کو لکھ پتی دیدی بنایا ہے۔ اور لکھ پتی دیدی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک بار ایک لاکھ روپیہ، ہر سال ایک لاکھ روپے سے زیادہ کمائی کرنے والی میری لکھ پتی دیدی۔ ہمارا عزم ہے کہ ہم 3 کروڑ خواتین کو لکھ پتی دیدی بنائیں گے۔ ہم دلت، محروم اور قبائلی برادریوں کی خواتین کے لیے خصوصی اسکیمیں بھی چلا رہے ہیں۔

ساتھیوں،

آج ملک میں دیہی انفراسٹرکچر پر جتنی توجہ دی جا رہی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ آج ملک کے زیادہ تر دیہات ہائی ویز، ایکسپریس ویز اور ریلوے کے نیٹ ورک سے جڑے ہوئے ہیں۔ پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت 10 سالوں میں دیہی علاقوں میں تقریباً چار لاکھ کلومیٹر لمبی سڑکیں بنائی گئی ہیں۔ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کے معاملے میں بھی ہمارے گاؤں 21ویں صدی کے جدید گاؤں بن رہے ہیں۔ ہمارے گاؤں کے لوگوں نے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو سمجھتے تھے کہ گاؤں والے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو اپنانے کے قابل نہیں ہوں گے۔ میں یہاں دیکھ رہا ہوں، سبھی موبائل فون سے ویڈیوز بنا رہے ہیں، سبھی گاؤں کے لوگ ہیں۔ آج ملک کے 94 فیصد سے زیادہ دیہی خاندانوں کے پاس ٹیلی فون یا موبائل کی سہولت موجود ہے۔ بینکنگ خدمات اور یو پی آئی جیسی عالمی معیار کی ٹیکنالوجی گاؤں میں بھی دستیاب ہے۔ 2014 سے پہلے ہمارے ملک میں ایک لاکھ سے بھی کم کامن سروس سینٹرز تھے۔ آج ان کی تعداد 5 لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔ ان کامن سروس سینٹرز پر درجنوں سرکاری سہولیات آن لائن دستیاب ہیں۔ یہ بنیادی ڈھانچہ دیہاتوں کو رفتار دے رہا ہے، وہاں روزگار کے مواقع پیدا کر رہا ہے اور ہمارے گاؤں کو ملک کی ترقی کا حصہ بنا رہا ہے۔

ساتھیوں،

نابارڈ کی سینئر مینجمنٹ یہاں ہے۔ آپ نے سیلف ہیلپ گروپس سے لے کر کسان کریڈٹ کارڈ تک کئی مہموں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مستقبل میں بھی آپ ملکی عزائم  کی تکمیل میں اہم کردار ادا کریں گے۔ آپ سب ایف پی او- کسان پیداوار تنظیم کی طاقت سے واقف ہیں۔ ایف پی او کے نظام کی تشکیل سے ہمارے کسانوں کو ان کی فصلوں کی اچھی قیمت مل رہی ہے۔ ہمیں ایسے مزید ایف پی اوز بنانے کے بارے میں سوچنا چاہیے اور اس سمت میں آگے بڑھنا چاہیے۔ آج دودھ کی پیداوار کسانوں کو سب سے زیادہ منافع دے رہی ہے۔ ہمیں امول جیسے 5-6 مزید کوآپریٹیو بنانے کے لیے کام کرنا پڑے گا، جن کی رسائی پورے ہندوستان میں ہو۔ اس وقت ملک مشن موڈ میں قدرتی کاشتکاری کو فروغ دے رہا ہے۔ ہمیں قدرتی زراعت کی اس مہم میں زیادہ سے زیادہ کسانوں کو شامل کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے سیلف ہیلپ گروپس کو چھوٹی اور مائیکرو انڈسٹریز اور ایم ایس ایم ای سے جوڑنا ہے۔ ان کے سامانوں کی ملک بھر میں ضرورت ہے لیکن ہمیں ان کی برانڈنگ اور مناسب مارکیٹنگ کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی جیI مصنوعات کے معیار، ان کی پیکیجنگ اور برانڈنگ پر بھی توجہ دینا ہوگی۔

ساتھیوں،

ہمیں دیہی آمدنی میں تنوع لانے کے طریقوں پر کام کرنا ہے۔ دیہاتوں میں آبپاشی کو سستی کیسے بنایا جائے، مائیکرو اریگیشن کا زیادہ سے زیادہ پھیلاؤ ہو، ون ڈراپ مور کراپ کے اس منتر کو کیسے پورا کریں، ہمارے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ سادہ دیہی ادارے بنائے جائیں، قدرتی کھیتی کے مواقع کا زیادہ سے زیادہ فائدہ  دیہی معیشت کو ملے۔ آپ کو اس سمت میں مقررہ وقت کے طریقے کے حساب سے  کام کرنا چاہیے۔

ساتھیوں،

آپ کے گاؤں میں جو امرت سروور بنایا گیا ہے اس کی دیکھ بھال پورے گاؤں کو مل کر کرنا چاہیے۔ ان دنوں ملک میں ’ایک پیڑ ماں کے نام‘ مہم بھی چل رہی ہے۔ یہ احساس پیدا کرنا ضروری ہے کہ گاؤں کا ہر فرد اس مہم کا حصہ بنے اور ہمارے گاؤں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ ایک اور سب سے اہم بات، ہمارے گاؤں کی شناخت گاؤں کی ہم آہنگی اور محبت سے جڑی ہوئی ہے۔ آج کل بہت سے لوگ ذات پات کے نام پر سماج میں زہر گھولنا چاہتے ہیں۔ ہمارے سماجی تانے بانے کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ان سازشوں کو ناکام بنا کر ہمیں گاؤں کے مشترکہ ورثے، گاؤں کی مشترکہ ثقافت کو زندہ رکھنا ہے اور اسے مضبوط کرنا ہے۔

بھائی بہنو،

ہم سب کو مل کر مسلسل کام کرنا ہے تاکہ ہماری یہ عزائم  ہر گاؤں تک پہنچیں، دیہی ہندوستان کا یہ تہوار ہر گاؤں تک پہنچے، ہمارے گاؤں مسلسل بااختیار بنیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایک ترقی یافتہ ہندوستان کا عزم یقینی طور پر دیہات کی ترقی کے ذریعے پورا ہوگا۔ میں یہاں صرف جیI ٹیگ والے لوگوں کو دیکھنے گیا تھا جو اپنی مصنوعات لے کر آئے ہیں۔ آج اس فنکشن کے ذریعے میں دہلی کے لوگوں سے گزارش کروں گا کہ آپ کو گاؤں دیکھنے یا گاؤں جانے کا موقع نہ ملے، کم از کم ایک بار یہاں آکر میرے گاؤں میں موجود صلاحیت  کو ضرور دیکھیں۔ بہت زیادہ تنوع ہے، اور مجھے یقین ہے کہ یہ ان لوگوں کے لیے بہت حیران کن ہوگا جنہوں نے کبھی گاؤں نہیں دیکھا۔ آپ لوگوں نے یہ کام کیا ہے، آپ لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ میں آپ سب کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں، آپ کا بہت بہت شکریہ۔

***

ش ح۔  ا ک۔ ج

Uno-4848