Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

بھارت ٹیکس 2025 میں وزیر اعظم کی تقریر کا متن

بھارت ٹیکس 2025 میں وزیر اعظم کی تقریر کا متن


 کابینہ میں میرے ساتھی، جناب گری راج سنگھ جی، پبیترا مارگریٹا جی، مختلف ممالک کے سفراء، سینئر سفارت کار، مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے افسر، فیشن اور ٹیکسٹائل کی دنیا کے تمام بڑے لوگ، صنعت کار، طلبہ، میرے بنکر اور دستکار ساتھیو، خواتین و حضرات۔

آج بھارت منڈپم بھارت ٹیکس کے دوسرے ایونٹ کا گواہ بن رہا ہے۔ اس میں ہماری روایات کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ بھارت کے امکانات بھی نظر آتے ہیں۔ یہ ملک کے لیے اطمینان کی بات ہے کہ ہم نے جو بیج لگایا ہے وہ تیز رفتاری سے برگد کا درخت بننے کی راہ پر بڑھ رہا ہے۔ بھارت ٹیکس اب ایک میگا گلوبل ٹیکسٹائل ایونٹ بن رہا ہے۔ اس بار ویلیو چین کا پورا اسپیکٹرم، اس سے وابستہ 12 گروپ یہاں حصہ لے رہے ہیں۔ لوازمات، ملبوسات، مشینری، کیمیکلز اور رنگوں کی بھی نمائش کی گئی ہے۔ بھارت ٹیکس دنیا بھر کے پالیسی سازوں ، سی ای اوز اور صنعت کے رہنماؤں کے لیے مصروفیت ، تعاون اور شراکت داری کے لیے ایک بہت مضبوط پلیٹ فارم بنتا جارہا ہے۔ اس ایونٹ کے لیے تمام اسٹیک ہولڈروں کی کاوشیں انتہائی قابل ستائش ہیں، میں اس کے کام میں شامل تمام لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

آج بھارت ٹیکس میں 120 سے زیادہ ممالک حصہ لے رہے ہیں، جیسا کہ گری راج جی نے کہا، 126 ممالک، یعنی یہاں آنے والے ہر انٹرپرینیور کو 120 ممالک سے نمائش مل رہی ہے۔ انھیں اپنے کاروبار کو مقامی سے عالمی بنانے کا موقع مل رہا ہے۔ کاروباری افراد جو نئی منڈیوں کی تلاش میں ہیں وہ یہاں مختلف ممالک کی ثقافتی ضروریات کے بارے میں معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ تھوڑی دیر پہلے میں نمائش کے سٹالز کو دیکھ رہا تھا، زیادہ تو نہیں دیکھ پایا ، اگر میں اسے مکمل طور پر دیکھتا تو مجھے دو دن لگ جاتے اور اتنا وقت آپ مجھے اجازت بھی نہیں دیتے۔ لیکن جتنا میں دے سکا، اس دوران میں نے ان سٹالز کے بہت سے نمائندوں سے بھی بات کی، میں نے چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔ بہت سے ساتھی بتا رہے تھے کہ پچھلے سال بھارت ٹیکس میں شامل ہونے کے بعد انھیں بڑے پیمانے پر نئے خریدار ملے، ان کے کاروبار میں توسیع ہوئی۔ اور میں دیکھ رہا تھا کہ میرے سامنے ایک بڑی شکایت آئی، انھوں نے کہا کہ مانگ اتنی زیادہ ہے کہ ہم نہیں پہنچا پا رہے ہیں۔ اور کچھ دوستوں نے مجھے بتایا کہ اگر ہم فیکٹری لگانا چاہتے ہیں تو اوسطا 70-75 کروڑ روپے خرچ کرتے ہیں اور 2000 لوگوں کو روزگار دیتے ہیں۔ سب سے پہلے میں بینکنگ سیکٹر کے لوگوں کو بتانا چاہوں گا کہ اس سب کی کیا مانگ ہے، اسے ترجیح سمجھیں اور دیں۔

ساتھیو،

اس ایونٹ سے کپڑا شعبہ میں سرمایہ کاری، برآمدات اور مجموعی ترقی کو زبردست فروغ مل رہا ہے۔

ساتھیو،

یہ تقریب ہمارے ملبوسات کے ذریعہ بھارت کے ثقافتی تنوع کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک، روایتی لباس کی بہت سی اقسام ہیں اور ہر لباس کی کتنی اقسام ہیں. اب وقت آگیا ہے کہ لکھنوی چکن، راجستھان اور گجرات کی بندھانی، میری کاشی کی پٹولا اور بنارسی ریشم، جنوب کی کانجیورم ریشم، جموں و کشمیر کی پشمینہ بھی ہمارے تنوع اور خصوصیت کو وسعت دینے کا ذریعہ بنیں۔

ساتھیو،

پچھلے سال، میں نے  کپڑا صنعت میں پانچ ’ایف‘عوامل کے بارے میں بات کی تھی، یعنی فارم، فائبر، فیبرک، فیشن اور فورن۔ فارم، فائبر، فیبرک، فیشن اور فورن کا یہ وژن اب بھارت کے لیے ایک مشن بنتا جا رہا ہے۔ یہ مشن ہر ایک کے لیے ترقی کی نئی راہیں کھول رہا ہے، چاہے وہ کسان ہوں، بنکر ہوں، ڈیزائنر ہوں یا تاجر ہوں۔ گذشتہ سال بھارت کی ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی برآمدات میں 7 فیصد اضافہ ہوا۔ اب اگر آپ 7 فیصد پر تالیاں بجائیں گے تو میرا ہوگا کیا، اگلی بار یہ 17 فیصد ہو تو تالیاں ہوجائیں۔ آج ہم دنیا میں ٹیکسٹائل اور ملبوسات برآمد کرنے والے چھٹے سب سے بڑے ہیں۔ ہماری ٹیکسٹائل برآمدات تین لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہیں۔ اب ہمارا ہدف ہے کہ 2030 تک ہم اسے 9 لاکھ کروڑ روپے تک لے جائیں گے۔ میں شاید 2030 کی بات کر رہا ہوں، لیکن آج میں نے جو موڈ دیکھا ہے، مجھے لگتا ہے کہ شاید آپ میرے اعداد و شمار کو غلط ثابت کر دیں گے، اور آپ 2030 سے پہلے کام مکمل کر لیں گے۔

ساتھیو،

اس کامیابی کے پیچھے ایک پوری دہائی کی سخت محنت، ایک دہائی کی مستقل پالیسی ہے۔ لہٰذا گذشتہ ایک دہائی میں ہمارے  کپڑے کے شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری دگنی ہو گئی ہے۔ اور آج کچھ دوست مجھ سے کہہ رہے تھے کہ بہت سی غیر ملکی کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے بھارت آنا چاہتی ہیں، اس لیے میں نے ان سے کہا کہ آپ ہمارے سب سے بڑے سفیر ہیں، جب آپ کہیں گے تو آپ کچھ بھی مان لیں گے، اگر حکومت کہتی ہے تو آپ جانچ کے لیے جائیں گے، یہ صحیح ہے، غلط ہے، ٹھیک ہے، نہیں ہے، لیکن اگر اسی شعبے کا کوئی تاجر کہے، ’’ہاں یار، موقع ہے، چلو چلتے ہیں۔‘‘

ساتھیو،

جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں، کپڑا صنعت ملک میں سب سے زیادہ روزگار پیدا کرنے والی صنعتوں میں سے ایک ہے۔ یہ شعبہ بھارت کی مینوفیکچرنگ میں 11 فیصد حصہ ڈال رہا ہے۔ اور اس بار آپ نے بجٹ میں دیکھا ہوگا کہ ہم نے مشن مینوفیکچرنگ پر زور دیا ہے، آپ سبھی بھی اس میں حصہ لیتے ہیں۔ لہٰذا جب اس شعبے میں سرمایہ کاری آ رہی ہے اور ترقی ہو رہی ہے تو کروڑوں کپڑا مزدوروں کو اس کا فائدہ مل رہا ہے۔

ساتھیو،

بھارت کے کپڑا شعبے کے مسائل کو حل کرنا اور امکانات پیدا کرنا ہمارا عزم ہے۔ اس کے لیے ہم دور اندیش اور طویل مدتی آئیڈیاز پر کام کر رہے ہیں۔ ہماری یہ کوششیں اس بجٹ میں بھی نظر آتی ہیں۔ صنعت کی ان تمام ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہم نے اپنے ملک میں کپاس کی فراہمی کو قابل اعتماد بنانے اور بھارتی کپاس کو عالمی سطح پر مسابقتی بنانے کے لیے کپاس کی پیداوارکے مشن کا اعلان کیا ہے۔ ہماری توجہ ٹیکنیکل ٹیکسٹائل جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں پر بھی ہے۔ اور مجھے یاد ہے، جب میں گجرات میں تھا تو مجھے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا موقع ملا تھا، میں آپ کے ٹیکسٹائل والوں سے ملتا تھا، اور اس وقت جب میں ان سے ٹیکنیکل ٹیکسٹائل کے بارے میں بات کرتا تھا، تو وہ مجھ سے پوچھتے تھے، آپ کیا چاہتے ہیں، آج مجھے خوشی ہے کہ بھارت اس میں اپنی پہچان بنا رہا ہے۔ ہم دیسی کاربن فائبر اور اس سے بنی مصنوعات کو فروغ دے رہے ہیں۔ بھارت ہائی گریڈ کاربن فائبر بنانے کی سمت میں بھی آگے بڑھ رہا ہے۔ ان کوششوں کے ساتھ ساتھ ہم کپڑا شعبے کے لیے درکار پالیسی فیصلے بھی کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، اس سال کے بجٹ میں ایم ایس ایم ایز کی درجہ بندی کے معیار کو تبدیل کرکے اس میں توسیع کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، کریڈٹ کی دستیابی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ہمارا کپڑا شعبہ، جس میں 80 فیصد حصہ ہمارے ایم ایس ایم ایز کی طرف سے آتاہے، اس سے بہت فائدہ اٹھانے والا ہے۔

ساتھیو،

کوئی بھی شعبہ اس وقت بہتر ہوتا ہے جب اس کے لیے ہنرمند افرادی قوت دستیاب ہوتی ہے۔  کپڑا صنعت میں سب سے بڑا کردار ہنر مندی کا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم  کپڑا صنعت کے لیے ہنرمند ٹیلنٹ پول تیار کرنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔ ہنرمندی کے لیے ہمارے مہارت کے قومی مرکز اس سمت میں ایک بڑا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سمرتھ اسکیم ویلیو چین کے لیے ضروری مہارتوں میں ہماری مدد کر رہی ہے۔ اور آج میں سمرتھ سے تربیت حاصل کرنے والی بہت سی بہنوں سے بات کر رہا تھا اور انھوں نے گذشتہ 5 سال، 7 سال اور 10 سال میں جو ترقی کی ہے، یعنی میرا دل فخر سے معمور ہوگیا تھا۔ ہماری یہ بھی کوشش ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہینڈ لوم کے کھرے پن اور ہاتھ کے ہنر کو بھی یکساں اہمیت دی جائے۔ ہینڈ لوم کاریگروں کے ہنر دنیا کے بازاروں تک پہنچنے چاہئیں، ان کی استعداد کار میں اضافہ ہونا چاہیے، انھیں نئے مواقع ملنے چاہئیں۔ ہم بھی اس سمت میں کام کر رہے ہیں۔ گذشتہ 10 سالوں میں ہینڈ لوم کو فروغ دینے کے لیے 2400 سے زیادہ بڑے مارکیٹنگ ایونٹس کا انعقاد کیا گیا ہے۔ ہینڈ لوم مصنوعات کی آن لائن مارکیٹنگ کو فروغ دینے کے لیے انڈیا ہینڈ میڈ کے نام سے ایک ای کامرس پلیٹ فارم بھی بنایا گیا ہے۔ ہزاروں ہینڈ لوم برانڈز نے بھی اس پر اندراج کرایا ہے۔ ہینڈ لوم مصنوعات کی جی آئی ٹیگنگ بھی ان برانڈز کو بہت فائدہ پہنچا رہی ہے۔

ساتھیو،

پچھلے سال بھارت ٹیکس ایونٹ کے دوران ٹیکسٹائل اسٹارٹ اپ گرینڈ چیلنج کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس میں  کپڑے کے شعبے کے لیے نوجوانوں سے جدید پائیدار حل طلب کیے گئے۔ ملک بھر کے نوجوانوں نے اس چیلنج میں جوش و خروش سے حصہ لیا۔ اس چیلنج کے فاتحین کو بھی یہاں مدعو کیا گیا ہے۔ وہ بھی یہاں ہمارے درمیان بیٹھے ہیں۔ آج یہاں اسٹارٹ اپس کو بھی مدعو کیا گیا ہے جو ان نوجوانوں کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے پچ فیسٹیول کو آئی آئی ٹی مدراس، اٹل انوویشن مشن اور کئی بڑی نجی ٹیکسٹائل تنظیموں کی حمایت مل رہی ہے۔ اس سے ملک میں اسٹارٹ اپ کلچر کو فروغ ملے گا۔

میں چاہتا ہوں کہ ہمارے نوجوان نئے ٹیکنو ٹیکسٹائل اسٹارٹ اپ کے ساتھ آئیں اور نئے آئیڈیاز پر کام کریں۔ ہمارے پاس ہماری صنعت کے لیے بھی ایک تجویز ہے۔ ہماری  کپڑا صنعت نئے اوزار تیار کرنے کے لیے آئی آئی ٹی جیسے اداروں کے ساتھ بھی تعاون کر سکتی ہے۔ آج کل ہم سوشل میڈیا اور ٹرینڈز میں دیکھ رہے ہیں کہ نئی نسل اب جدیدیت کے ساتھ ساتھ روایتی لباس کو بھی ترجیح دے رہی ہے۔ لہٰذا آج روایت اور جدت طرازی کے امتزاج کی اہمیت بھی کافی بڑھ گئی ہے۔ ہمیں ایسے روایتی کپڑوں سے تحریک لے کر مصنوعات لانچ کرنی چاہئیں جو نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا میں نئی نسل کو اپنی طرف راغب کریں۔ ایک اور اہم موضوع ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا کردار ہے۔ اب نئے رجحانات کی دریافت، نئے اسٹائل تخلیق کرنے میں مصنوعی ذہانت جیسی ٹیکنالوجی کا کردار بڑھ رہا ہے۔ ابھی جب میں این آئی ایف ٹی کے اسٹال پر گیا تو وہ مجھے بتا رہے تھے کہ اے آئی کے ذریعے 2026 کا ٹرینڈ کیا ہوگا، ہم اب اس کی تشہیر کر رہے ہیں۔ ورنہ پہلے دنیا کے دوسرے ممالک ہمیں پہننے کے لیے کہا کرتے تھے، ہم اسے پہنتے تھے، اب ہم دنیا کو بتائیں گے کہ کیا پہننا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف روایتی کھادی کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے، ساتھ ہی اے آئی کے ذریعے فیشن ٹرینڈز کا بھی تجزیہ کیا جا رہا ہے۔

مجھے یاد ہے، جب میں نیا نیا وزیر اعلی ٰ بنا تھا، تو شاید 2003 میں گاندھی جینتی پر، میں نے گاندھی جی کی جائے پیدائش پوربندر میں ایک فیشن شو اور کھادی فیشن شو کا اہتمام کیا تھا۔ اور این آئی ایف ٹی کے طلبہ اور ہمارے این آئی ڈی کے طلبہ نے مل کر اس کام کو آگے بڑھایا۔ اور ’ویشنو بھجن تو تیرے رے کہیے‘پس منظر کی موسیقی کے ساتھ وہ فیشن شو ہوا تھا۔ اور اس وقت میں نے ونوباجی کے کچھ اوردوستوں کو مدعو کیا تھا، وہ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کیونکہ فیشن شو کے الفاظ ایسے ہیں کہ پرانی نسل کے لوگوں کے ذرا کان کھڑے ہوجاتےہیں کہ کیا طوفان چل رہا ہے۔ لیکن میں نے ان سے اصرار کے ساتھ درخواست کی، میں نے انھیں فون کیا، وہ آئے اور بعد میں انھوں نے مجھ سے کہا کہ اگر ہمیں کھادی کو مقبول بنانا ہے تو یہی طریقہ ہے۔ اور میں آپ سے کہتا ہوں کہ جس طرح کھادی آج ترقی کر رہی ہے اور یہ دنیا کے لوگوں کے لیے کشش کا سبب بن رہی ہے، ہمیں اسے مزید فروغ دینا چاہیے۔ اور پہلے جب آزادی کی تحریک شروع ہوئی تھی تو کھادی فار نیشن تھی، اب یہ کھادی فار فیشن ہونی چاہیے۔

ساتھیو،

چند دن پہلے، جیسا کہ اناونسر بتا رہےتھے، میں ابھی ایک غیر ملکی دورے سے آیا ہوں، میں پیرس میں تھا، اور پیرس کو دنیا کا فیشن دارالحکومت کہا جاتا ہے۔ اس دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان مختلف امور پر اہم شراکت داری ہوئی۔ ہماری گفتگو کے اہم نکات میں ماحولیات اور آب و ہوا کی تبدیلی کا موضوع شامل تھا۔ آج پوری دنیا پائیدار طرز زندگی کی اہمیت کو سمجھ رہی ہے۔ فیشن کی دنیا بھی اس کے اثر سے اچھوتی نہیں ہے۔ آج دنیا ماحولیات کے لیے فیشن اور بااختیار بنانے کے لیے فیشن کے لیے اس وژن کو اپنا رہی ہے۔ بھارت اس سلسلے میں دنیا کو راہ دکھا رہا ہے۔ پائیداری ہمیشہ سے بھارتی کپڑے کی روایت کا ایک لازمی حصہ رہا ہے۔ ہماری کھادی، آدیواسی کپڑا، قدرتی رنگوں کا استعمال یہ سب پائیدار طرز زندگی کی مثالیں ہیں۔ اب بھارت کی روایتی پائیدار تکنیکوں کو جدید ترین ٹکنالوجیوں کی حمایت مل رہی ہے۔ اس سے کاریگروں، بنکروں اور صنعت سے وابستہ کروڑوں خواتین کو براہ راست فائدہ ہو رہا ہے۔

ساتھیو،

میرا ماننا ہے کہ وسائل کا مکمل استعمال اور کم سے کم فضلہ پیدا کرنا  کپڑا صنعت کی پہچان بننا چاہیے۔ آج دنیا میں ہر ماہ لاکھوں کپڑے استعمال سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا حصہ ’فاسٹ فیشن ویسٹ‘ ہے۔ یعنی وہ کپڑے جو لوگ فیشن یا ٹرینڈ کی وجہ سے پہننا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ کپڑے دنیا کے بہت سے حصوں میں پھینکے جاتے ہیں۔ یہ ماحولیات اور ماحولیات کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن رہا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 2030 تک فیشن کا فضلہ 148 ملین ٹن تک پہنچ جائے گا۔ آج ٹیکسٹائل کے کچرے کا ایک چوتھائی حصہ بھی ری سائیکل نہیں کیا جا رہا ہے۔ ہماری  کپڑا صنعت اس تشویش کو ایک موقع میں تبدیل کر سکتی ہے۔ آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ بھارت میں ٹیکسٹائل ری سائیکلنگ، خاص طور پر اپ سائیکلنگ کی بہت متنوع روایتی مہارتیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، ہمارے پاس پرانے یا بچ جانے والے کپڑوں سے قالین بنائے جاتے ہیں۔ بنکر، اور یہاں تک کہ گھر کی عورتیں بھی، اس طرح کے کپڑوں سے کئی قسم کی چٹائیاں، قالین اور کورنگ بناتی ہیں۔ مہاراشٹر میں، اچھی گوڈیاں پرانے، پھٹے ہوئے اور یہاں تک کہ کپڑے سے بھی بنائی جاتی ہیں۔ ہم ان روایتی فنون میں نئی اختراعات لا سکتے ہیں اور انھیں عالمی مارکیٹ میں لے جا سکتے ہیں۔ ٹیکسٹائل کی وزارت نے اپ سائیکلنگ کو فروغ دینے کے لیے پبلک انٹرپرائزز اور ای مارکیٹ پلیس کی اسٹینڈنگ کانفرنس کے ساتھ مفاہمت نامے پر بھی دستخط کیے ہیں۔ ملک کے بہت سے اپ سائیکلرز نے بھی اس میں اندراج کرایا ہے۔ نوی ممبئی اور بنگلور جیسے شہروں میں گھر گھر جا کر ٹیکسٹائل فضلہ جمع کرنے کے پائلٹ پروجیکٹ بھی چلائے جا رہے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے اسٹارٹ اپس ان کوششوں میں شامل ہوں، ان مواقع کو تلاش کریں، اور اتنی بڑی عالمی مارکیٹ میں قیادت کرنے کے لیے ابتدائی اقدامات کریں۔ بھارت کی ٹیکسٹائل ری سائیکلنگ مارکیٹ اگلے چند سالوں میں  400 ملین ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ جبکہ، عالمی ری سائیکل ٹیکسٹائل مارکیٹ کا تخمینہ تقریبا ساڑھے سات بلین ڈالر تک پہنچنے کا ہے۔ اگر ہم صحیح سمت میں آگے بڑھتے ہیں تو بھارت کو اس میں بڑا حصہ مل سکتا ہے۔

ساتھیو،

سیکڑوں سال پہلے جب بھارت خوشحالی کے عروج پر تھا تو  کپڑا صنعت نے ہماری خوشحالی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ آج جب ہم ترقی یافتہ بھارت کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں تو ایک بار پھر  کپڑے کا شعبہ اس میں بہت بڑا حصہ ڈالنے جا رہا ہے۔ بھارت ٹیکس جیسے ایونٹس اس شعبے میں بھارت کی پوزیشن کو مضبوط کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ایونٹ ہر سال کامیابی کے نئے ریکارڈ بنائے گا اور نئی بلندیوں کو چھوئے گا۔ میں ایک بار پھر آپ سبھی کو اس تقریب کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ۔ نمسکار۔

***

(ش ح – ع ا)

U. No. 7215