نئی دہلی، 30 مئی / بھارت کے وزیراعظم کے 30-29 مئی 2018 کے جمہوریہ انڈونیشیا کے دورےکے دوران، انڈونیشیا کے صدر عالیجناب جوکو وڈوڈو اور جناب نریندرمودی نے بھارت-بحرالکاہل خطے میں بحری تعاون کے مشترکہ خاکے پر تبادلہ خیالات کئے۔
12دسمبر 2016 کو ،صدر جوکو وی کے ہندوستان کے سرکاری دورے کے دوران دونوں ملکوں کے مشترکہ بیان کی یاد تازہ کرتے ہوئے ، اس امر کا ذکر کرتے ہوئے کہ بھارت اور انڈونیشیا دونوں بحری ہمسائے ہیں اور دونوں ملکوں میں بحری نقل و حمل ہوتا ہے ، دونوں کے تعلقات سمندر کے راستے جلا پانے والے روابط اور تہذیبی ربط و ضبط کے مرہون منت رہے ہیں اور دونوں ملک اپنے طور پر اور پوری دنیا کے سامنے بحری ماحولیات کو اس خطے میں بالیدہ ہوتے ہوئے دیکھنے کے خواہش مند رہےہیں، اپنے بحری تعاون کو مستحکم بنانے کے متمنی دونوں ملک جو امن واستحکام کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور بھارت-بحرالکاہل خطے میں مضبوط اقتصادی نمو اور خوشحالی لانے کے خواست گار ہیں ، اس امر کو تسلیم کرتے ہوئے کہ 7500 کلو میٹر کی کوسٹ لائن یعنی ساحلی علاقے کے ساتھ 1380 جزائر اور دو ملین مربع کلو میٹر سے زائد کے خصوصی اقتصادی زون کا حامل بھارت ، بھارت –بحرالکاہل خطے میں مرکزی حیثیت کا حامل ملک ہے ۔ دوسری طرف انڈونیشیا دنیا میں سب سے وسیع تعداد میں جزیروں کا حامل ملک ہے اور اس کے ساحلی علاقے کی طوالت 108000 کلومیٹر کے قریب ہے ، یہاں 17504 جزائر ہیں اور مجموعی بحری علاقہ 6400000 ہزار مربع کلو میٹر کا ہے ،جس میں خصوصی اقتصادی زون بھی شامل ہیں ۔ یہی وہ بنیاد ہے جو بحرہ ہند اور بحر الکاہل کو باہم مربوط کرتی ہے ۔ دونوں سمندر ایک مشترکہ بحری خطے کی نمائندگی کرتے ہیں جو عالمی بحری تجارت اور صنعت کے لئے از حد اہمیت کا حامل ہے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر سمیت بین الاقوامی قانونی تقاضوں اور فرائض پر عمل کرتے ہوئے 1982 کے اقوام متحدہ کے بحری قانون سے متعلق کنونشن (یو این سی ایل او ایس ) اور جنوب مشرقی ایشیا میں دوستی اور تعاون سے متعلق 1976 کے معاہدے (ٹی اے سی ) پر عمل کرتےہوئے ،
آزاد ، کھلی ، شفاف، قوائد و ضوابط پر مبنی ، پر امن ، خوشحال اور شمولیت پر مبنی بھارت- بحرالکاہل خطے کی اہمیت کا اعادہ کرتے ہوئے ، جہاں خود مختاری اور علاقائی اتحاد قائم رہ سکے ، بین الاقوامی قانون خصوصا ً یو این سی ایل او ایس کا احترام ، جہاز رانی کی آزادی اور ایک دوسرے کے ملک پر پرواز کرنے کا حق ، ہماری ترقیات اور کھلی ہوئی ، آزاد ، منصفانہ اور باہمی طور پر مفید تجارت اور سرمایہ کار کے نظام کا احترام کیا جائے ،
اس امر کو تسلیم کرتے ہوئے کہ بحری سلامتی اور تحفظ کو امن استحکام اور ہماگیر اقتصادی نمو کے لئے برقرار رکھنے کی ضرورت ہے اور بھارت – بحرالکاہل خطے میں بحری تقاضوں کو فروغ دینا ضروری ہے جیسا کہ یو این سی ایل او ایس میں متذکرہ ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ بین الاقوامی قوانین کا لحاظ بھی رکھنا ضروری ہے ،
اس امر کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہ دونوں ممالک کے مابین باہمی دوستانہ تعلقات جن میں جامع کلیدی ، شراکت داری شامل ہے اور باہمی سلامتی گفت و شنید، سہ فریقی گفت و شنید، افزوں دفاعی تعاون معاہدہ اور بیرونی خلا کا پر امن مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی غرض سے کھوج کے سلسلے میں تعاون سے متعلق معاہدے اور اس کے فریم ورک کی گنجائش ہو،
انڈونیشا اور بھارت کے ذریعے بحر ہند رِم ایسو سی ایشن (آئی آر او) میں انڈونیشیا اوربھارت کے ذریعے سابق قائدین کے طور پر جو کردار ادا کیا گیا ہے اُس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے جس کا مقصد ایک زیادہ پر امن مستحکم اور خوشحال بحر ہند خطے کی تشکیل افزو ں تعاو ن کے ذریعے کرنا شامل ہے اور جس کا ذکر جکارتہ کنکورڈ اور منصوبہ عمل میں آئی او آر اے کے نتیجے میں قائم ہوئی قیادت اور منعقد ہوئی چوٹی ملاقات جو مارچ 2017 میں منعقد ہوئی تھی اور جس کا تعلق آئی آر او کی 20 ویں سالگرہ سے ہے ،
اس امر کا ذکر کرتے ہوئے کھلے سمندر اور آزادانہ نقل و حمل کی سہولت جو یو این سی ایل او ایس کے ضابطے کے تحت آتی ہو وہ تمام صورتحال اس خطے کے امن استحکام اور خوشحالی کے لئے لازم ہے اور بین الاقوامی برادری کے لئے اہمیت کی حامل بھی ہے،
بھارت- بحرالکاہل خطے میں انسانوں کی کالا بازاری ، ہتھیاروں ، منشیات اور پیسے کی کالا بازاری ، غیر قانونی اور خفیہ طریقے سے ماہی گیری اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت سمیت ابھرتے ہوئے بحری سلامتی سے متعلق چنوتیوں اور دیگر معاملات کی اپنی جگہ اہمیت مسلم ہے ،
اس امر پر زور دیتے ہوئے کہ ہمارے مجموعی مفادات ایک خوشحال بھارت – بحرالکاہل خطے میں صرف اس صورت میں محفوظ رہ سکتے ہیں جب ہم عالمی پیمانے پر تسلیم شدہ بین الاقوامی قوائد و ضوابط پر مبنی علاقائی خوشحالی بڑھانے کے لئے رابطہ کاری کو فروغ دیں ، اچھی حکمرانی ، قانون کی بالا دستی ، کھلے پن ، شفافیت ، مساوات اور ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام اور علاقائی اتحاد اپنی جگہ مسلم حقیقتیں ہیں اور اس سلسلے میں آسیان – بھارت بحری نقل و حمل معاہدے کے تحت تیز رفتاری سے فیصلے لینے کی ضرورت ہے،
بھارت کی ‘ایکٹ ایسٹ پالیسی ’اور اس خطے میں سبھی کے لئے نمو اور سلامتی (ایس اے جی اے آر ) اور اس خطے میں ایسے ہی دیگر عناصر کی تلاش اور انڈونیشیا کی پالیسی اور انڈونیشیا کا عالمی بحری نقطہ ارتکاز پر مبنی تصور ساتھ ہی ساتھ آسیان کی مرکزیت اور اتحاد کی اہمیت کا اعادہ ،
اس امر کو تسلیم کرتے ہوئے کہ نیل گوں انقلاب کی اہمیت ، شمولیت اور ہمہ گیر اقتصادی نمو پر مبنی ایک ذریعہ کے طور پر ہے جس سے اس خطے کی ترقی ممکن ہو سکتی ہے،
مذکورہ بالا تمام امور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی غرض سے رہنماؤں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ بھارت – بحرالکاہل خطے میں بحری تعاون کو اس انداز سے بروئے کار لایا جانا چاہئے کہ تمام تر دستیاب مواقع کا بھر پورفائدہ اٹھایا جا سکے تاکہ درپیش چنوتیوں کاایک ساتھ جامع کلیدی شراکت دار کے طور پر سامنا کیا جا سکے، اس کے مطابق درج ذیل معاملات پر اتفاق ہوا۔
تحقیقی صلاحیت کو جلا بخشنا اور تحقیق و ترقیات سے متعلق ادارو ں کے مابین بحری ٹیکنالوجی کی منتقلی اور ماہرین تعلیم کا تبادلہ بھی اس کے تحت شامل ہے۔
**************
( م ن ۔ م ف (
30– 05 – 2018
U. No 2843
Mengadakan diskusi produktif dengan Presiden @jokowi. Senang bahwa hubungan antara India dan Indonesia mendapatkan momentum. Kami membahas bidang kerjasama strategis, cara-cara menuju hubungan ekonomi yang lebih baik dan hubungan budaya yang lebih erat di antara bangsa kami. pic.twitter.com/46xE2XcZWZ
— Narendra Modi (@narendramodi) May 30, 2018
Held productive discussions with President Joko Widodo. Glad that ties between India and Indonesia are gaining strong momentum.
— Narendra Modi (@narendramodi) May 30, 2018
We discussed areas of strategic cooperation, ways towards ensuring better economic ties and closer cultural relations between our nations. @jokowi pic.twitter.com/JOijBYqUh6