Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

اے آئی آئی اے میں متعدد منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

اے آئی آئی اے میں متعدد منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن


اس پروگرام میں مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی  جناب  جگت پرکاش نڈا جی، من سکھ منڈاویہ جی، پرتاپ راؤ جادھو جی، محترمہ انوپریہ پٹیل جی، محترمہ شوبھا کرندلانجے جی، اسی حلقہ سے پارلیمنٹ میں میرے ساتھی رام ویر سنگھ ودھوڑی جی، مختلف ریاستوں سے عزت مآب گورنرز، وزرائے اعلیٰ، ممبران پارلیمنٹ، دیگر تمام معزز عوامی نمائندوں، ملک کے مختلف ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ سے جڑے  ڈاکٹرز، ویدیہ، آیوش کے ہیلتھ پروفیشنل  اور صحت کے  شعبوں سے وابستہ لاکھوں بھائی اور بہنوں، آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف آیوروید کے تمام ڈاکٹرز اور ملازمین، خواتین و حضرات!

آج پورا ملک دھن تیرس کا تہوار اور بھگوان دھن ونتری کی یوم پیدائش منا رہا ہے۔ میں آپ سب کو دھن تیرس اور دھن ونتری جینتی کی مبارکباد دیتا ہوں۔ آج ملک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے گھروں کے لیے کچھ نیا خریدتی ہے۔ میں خاص طور پر ملک کے کاروباری ساتھیوں کے لیے نیک  خواہشات  کا اظہار کرتا ہوں۔ آپ سبھی کو دیوالی کی  پیشگی مبارک  پیش کرتا ہوں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے بہت سی دیوالیاں دیکھی ہیں، لیکن اگر آپ نے دیوالی دیکھی بھی ہے تو یہ دیوالی تاریخی ہے، آپ کو لگے گا کہ اتنی دیوالیوں کو دیکھ کر آپ کے بال سفید ہو گئے ہیں اور مودی جی یہ تاریخی دیوالی کہاں سے لائے؟ 500 سال بعد ایسا موقع آیا ہے جب ایودھیا میں ان کی جائے پیدائش پر بنے رام للا کے مندر میں ہزاروں چراغ جلیں گے، شاندار جشن منایا جائے گا۔ یہ ایسی دیوالی ہوگی، جب ہمارے رام ایک بار پھر اپنے گھر آئے ہیں۔ اور اس بار یہ انتظار 14 سال بعد نہیں بلکہ 500 سال بعد ختم ہو رہا ہے۔

دوستو !

دھن تیرس کے دن خوش قسمتی اور صحت کا یہ جشن … محض اتفاق نہیں ہے۔ یہ ہندوستانی ثقافت کی زندگی کے فلسفے کی علامت ہے۔ ہمارے  رشیوں نے کہا ہے – آروگیم پرمم بھاگیم! یعنی صحت ہی سب سے بڑی  دولت اور دھرم   ہے ۔ یہ قدیم سوچ آج آیوروید ڈے کی شکل میں پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ یہ ہم سب کے لیے خوشی کی بات ہے کہ آج 150 سے زائد ممالک میں آیوروید کا دن منایا جا رہا ہے۔ یہ آیوروید کی طرف بڑھتی ہوئی عالمی کشش کا ثبوت ہے! اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان اپنے قدیم تجربات سے دنیا کو کتنا نیا دے سکتا ہے۔

دوستو !

 گزشتہ  10  برسوں میں ملک نے آیوروید کے علم کو جدید طب کے ساتھ ملا کر صحت کے شعبے میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ ’آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف آیوروید‘ اس کے لیے ایک بڑا مرکز بن گیا ہے۔ 7 سال قبل اسی دن مجھے اس انسٹی ٹیوٹ کا پہلا مرحلہ کو وقف کرنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ آج بھگوان دھن ونتری کے یوم پیدائش پر مجھے اس کے دوسرے مرحلے کا افتتاح کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اب یہاں ہم پنچ کرما جیسے قدیم طریقوں کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ملاتے ہوئے دیکھیں گے۔ آیوروید اور طبی علوم کے شعبوں میں بھی جدید تحقیق ہوگی، اور میں اس کے لیے تمام ہم وطنوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔

دوستو!

کسی ملک کے شہری جتنے صحت مند ہوں گے اس ملک کی ترقی کی رفتار اتنی ہی تیز ہوگی۔ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے  اوراپنے شہریوں کی صحت کو ترجیح دیتے ہوئے مرکزی حکومت نے صحت پالیسی کے پانچ ستونوں پر فیصلہ کیا ہے۔ پہلا – احتیاطی صحت کی دیکھ بھال، یعنی بیماری کے ہونے سے پہلے روک تھام… دوسرا – بیماری کی بروقت تشخیص… تیسرا – مفت اور سستا علاج، سستی ادویات… چوتھا – چھوٹے شہروں میں اچھا علاج، ڈاکٹروں کی کمی کو دور کرنا، اور پانچواں- صحت کی دیکھ بھال میں ٹیکنالوجی کی توسیع۔ ہندوستان اب صحت کے شعبے کو مجموعی صحت کی دیکھ بھال کے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ آج ان پانچ ستونوں کا ایک مضبوط عکس اس پروگرام میں نظر آتا ہے۔ فی الحال یہاں تقریباً 13 ہزار کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ آیور-ہیلتھ اسکیم کے تحت 4  سینٹر آف ایکسی لینس، ڈروں کے ذریعہ ہیلتھ خدمات کی توسیع  …ایمس رشی کیش میں ہیلی کاپٹر کے ذریعہ  سروس…ایمس دہلی اور ایمس بلاسپور میں نیا انفراسٹرکچر …ملک کے 5 دیگر ایمس میں سروسز میں توسیع… میڈیکل کالجوں کا افتتاح… نرسنگ کالجوں کا بھومی پوجن… ملک میں صحت کی خدمات کی بحالی سے متعلق اس طرح کے کئی کام آج کئے گئے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ان میں سے بہت سے اسپتال ہمارے مزدور بھائیوں اور بہنوں کے علاج کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یہ اسپتال ہمارے محنت کش طبقے کی خدمت کے مراکز بن جائیں گے۔ جن فارما یونٹس کا آج افتتاح کیا گیا ہے وہ ملک میں جدید ادویات کے ساتھ اعلیٰ معیار کے اسٹینٹ اور امپلانٹس بھی تیار کریں گے۔ یہ یونٹ فارما سیکٹر میں ہندوستان کی ترقی کو آگے بڑھائیں گے۔

دوستو !

 

ہم میں سے اکثر ایسے پس منظر سے آتے ہیں جہاں بیماری کا مطلب پورے خاندان پر  گویابجلی گرگئی  ہو۔ اگر کسی غریب گھر میں کوئی شدید بیمار ہو جائے تو اس کا اثر گھر کے ہر فرد پر پڑتا ہے۔ ایک وقت تھا جب لوگوں کو علاج کے لیے اپنا گھر، زمینیں اور زیورات فروخت کرنے پڑتے تھے… کسی سنگین بیماری کے علاج کا خرچہ سن کر غریب کی روح کانپ جاتی تھی۔ بوڑھے باپ سوچتے تھے… میں اپنا علاج کروا لوں یا گھر کا خرچہ سنبھالوں… اسی لیے غریب گھرانوں کے بزرگوں کو ایک ہی راستہ نظر آتا تھا… خاموشی سے  تکلیف برداشت کرو۔… خاموشی سے موت کا انتظار کرنا… پیسے نہ ہونے کی وجہ سے علاج نہ کروانے کی وہ بے بسی… غریب کو توڑ  کر رکھ دیتی تھی۔

میں اپنے غریب بہن بھائیوں کو اس بے بسی میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اسی لیے اس ہمدردی  سے، اس درد سے، اس تکلیف میں سے، میرے ہم وطنوں کے تئیں مکمل  سپردگی سے آیوشمان بھارت اسکیم نے جنم لیا ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ غریبوں کے اسپتال میں داخل ہونے کا خرچہ حکومت برداشت کرے گی… 5 لاکھ روپے تک کے علاج کے اخراجات سرکار اٹھائے گی۔ آج میں مطمئن ہوں کہ ملک کے تقریباً 4 کروڑ غریب لوگوں نے آیوشمان اسکیم کا فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ 4 کروڑ غریب لوگ اسپتال میں داخل ہوئے، ان میں سے بعض کو مختلف بیماریوں کی وجہ سے متعدد بار داخل کیا گیا… انہوں نے اپنی بیماریوں کا علاج کروایا… اور انہیں ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑا۔ اگر آیوشمان اسکیم نہ ہوتی تو ان غریبوں کو اپنی جیب سے تقریباً 1.25 لاکھ کروڑ روپے ادا کرنے پڑتے۔ میں اکثر ملک کی مختلف ریاستوں میں آیوشمان یوجنا کے استفادہ کرنے والوں سے ملتا ہوں، ان کی خوشی اور غم کے بارے میں سنتا ہوں، ان کے تجربات سنتا ہوں اور ان سے بات کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے جو خوشی کے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں، ان کا تعلق آیوشمان یوجنا سے ہے۔ ہر شخص… ہر ڈاکٹر کے لیے… ہر پیرا میڈیکل اسٹاف کے لیے یہ کسی  آشیرواد سے کم نہیں، اس سے بڑا کوئی  آشیر واد نہیں ہو سکتا۔

یقین کریں…لوگوں کو اس طرح کے بحران سے بچانے کی اسکیم پہلے کبھی نہیں بنائی گئی تھی…اور آج میں بہت مطمئن ہوں کہ آیوشمان اسکیم کو بڑھایا جا رہا ہے۔ اس پروگرام پر ملک کے ہر بزرگ کی نظر ہے۔ انتخابات کے وقت میں نے گارنٹی دی تھی کہ تیسری میعاد میں 70 سال سے زیادہ عمر کے تمام بزرگوں کو آیوشمان یوجنا کے دائرے میں لایا جائے گا… آج دھن ونتری جینتی کے موقع پر یہ گارنٹی پوری ہو رہی ہے۔ اب ملک میں 70 سال سے زیادہ عمر کے ہر بزرگ کو اسپتال میں مفت علاج کی سہولت ملے گی۔ ایسے بزرگوں کو آیوشمان وے وندنا کارڈ دیا جائے گا۔ حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ملک کے ہر بزرگ کو جن کی عمر 70 سال سے زیادہ ہے جلد از جلد آیوشمان وے وندنا کارڈ  مل جائے۔ یہ ایک ایسی اسکیم ہے جس میں آمدنی پر کوئی پابندی نہیں ہے، غریب ہو، متوسط ​​طبقے کا خاندان ہو، اعلیٰ طبقے کا خاندان، ہر کوئی اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس ملک کا کوئی شہری جو اس اسکیم سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اگر اس کی عمر 70 سال سے زیادہ ہے تو وہ اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

ہر بزرگ کو پریشانیوں سے آزاد ہونا چاہیے، صحت مند زندگی گزارنی چاہیے… عزت نفس کے ساتھ جینا چاہیے… یہ اسکیم اس کے لیے سنگ میل ثابت ہوگی۔ اگر گھر کے بزرگوں کے پاس آیوشمان وے وندنا کارڈ ہے تو خاندان کے اخراجات کم ہوں گے اور ان کی پریشانیاں بھی کم ہوں گی۔ میں اس اسکیم کے لیے تمام ہم وطنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور میں 70 سال سے زیادہ عمر کے تمام بزرگوں کو بھی خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ لیکن ساتھ ہی میں دہلی کے 70 سال سے زیادہ عمر کے تمام بزرگوں اور مغربی بنگال کے 70 سال سے زیادہ عمر کے تمام بزرگوں سے معافی مانگتا ہوں کہ میں آپ کی خدمت نہیں کر سکوں گا۔ میں ان سے معافی مانگتا ہوں کہ اگر مجھے معلوم ہوا کہ آپ کو تکلیف ہو رہی ہے تو مجھے اطلاع مل جائے گی لیکن میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکوں گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دہلی میں حکومت اور مغربی بنگال کی حکومت اس آیوشمان میں شامل نہیں ہو رہی ہے۔ اپنے سیاسی فائدے کے لیے اپنی ہی ریاست کے بیمار لوگوں پر مظالم کرنے کا یہ رجحان انسانیت کے نقطہ نظر سے کسی بھی سطح پر کھڑا نہیں اترتا ہے۔ اور اس لیے میں مغربی بنگال کے بزرگوں سے معافی مانگتا ہوں، میں دہلی کے بزرگوں سے معافی مانگتا ہوں۔ میں اہل وطن کی خدمت کرنے کے قابل ہوں لیکن سیاسی خود غرضی کی دیواریں مجھے دہلی اور مغربی بنگال کے بزرگوں کی خدمت کرنے سے روک رہی ہیں۔ یہ  میں سیاسی زاویے سے نہیں بول رہا ہوں، اندر ایک درد ہے کہ  جس سے دہلی سے میں بول رہاہوں ،  دہلی کے بزرگ بھی میری بات ضرور سن رہے ہوں گے۔ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا کہ میرا دل کتنا درد محسوس کر رہا ہو گا۔

دوستو !

غریب ہو یا متوسط ​​طبقہ علاج کا خرچ سب کے لیے کم سے کم ہونا چاہیے یہ ہماری حکومت کی ترجیح رہی ہے۔ آج، ملک بھر میں 14 ہزار سے زیادہ پی ایم جن اوشدھی  کیندر ہیں… یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری حکومت کتنی حساسیت سے کام کر رہی ہے۔ جن اوشدھی کیندروں پر 80 فیصد ڈسکاؤنٹ پر ادویات دستیاب ہیں… اگر یہ جن اوشدھی کیندر نہ ہوتے تو اب تک جو دوائیں بیچی جاتی ہیں وہ غریب اور متوسط ​​طبقے کو بیچی جاتیں۔ اس کے مطابق میں کہہ سکتا ہوں کہ 30 ہزار کروڑ روپے اور دوائیوں پر خرچ ہوئے ہوں گے، 30 ہزار کروڑ روپے اس لیے  بچ گئے کہ انہیں جن اوشدھی کیندر سے دوائیں ملیں، انہیں 80 فیصد رعایت پر ملیں۔

آپ جانتے ہیں…ہم نے اسٹینٹ اور گھٹنے کے امپلانٹس جیسے آلات کو سستا کر دیا ہے۔ اگر یہ فیصلہ نہ بھی کیا جاتا تو عام آدمی کو 80 ہزار کروڑ روپے مزید خرچ کرنے پڑتے یہ ہماری کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کے 80 ہزار کروڑ روپے بچ گئے ہیں۔ مفت ڈائیلاسز کی اسکیم سے لاکھوں مریضوں کے ہزاروں کروڑ روپے کے اخراجات کی بھی بچت ہوئی ہے۔ ہماری حکومت مہلک بیماریوں سے بچاؤ کے لیے مشن اندر دھنش مہم چلا رہی ہے۔ اس سے نہ صرف حاملہ خواتین کی جان بچائی جا رہی ہے…  اس سے نا صرف نوزائیدہ بچوں کی جانیں بلکہ انہیں سنگین بیماریوں کا شکار ہونے سے بھی بچایا جا رہا ہے۔ میں اپنے ملک کے غریب اور متوسط ​​طبقے کو مہنگے علاج کے بوجھ سے آزاد کرنا چاہتا ہوں اور آج ملک اس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔

دوستو !

آپ جانتے ہیں… بیماری سے پیدا ہونے والے مسائل اور خطرات کو کم کرنے کے لیے سب سے اہم چیز بروقت تشخیص ہے… اگر کوئی بیمار ہو جائے تو اسے جلد تشخیص کی سہولت ملنی چاہیے، علاج جلد شروع ہونا چاہیے… اس کے لیے ہر طرف کوششیں جاری ہیں۔ ملک میں دو لاکھ سے زیادہ آیوشمان آروگیہ مندر کھولے گئے ہیں۔ آج کروڑوں لوگ ان  سواستھیہ مندروں پر آسانی سے کینسر، بلڈ پریشر، ذیابیطس وغیرہ جیسی بیماریوں کا  تشخیص کروا رہے ہیں۔ آسان ٹیسٹنگ کی وجہ سے لوگوں کا علاج بھی وقت پر شروع ہو رہا ہے۔ اور بروقت علاج شروع ہونے سے لوگوں کے پیسے بھی بچ رہے ہیں۔

ہماری حکومت صحت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کر کے اہل وطن کا پیسہ بھی بچا رہی ہے۔ ای سنجیونی اسکیم کے تحت اب تک 30 کروڑ لوگ، یہ تعداد کم نہیں ہے، 30 کروڑ لوگوں نے معزز اور نامور ڈاکٹروں سے آن لائن مشورہ لیا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹروں سے مفت اور درست مشورے حاصل کرکے کافی رقم بھی بچائی ہے۔ آج ہم نے یو – وین پلیٹ فارم بھی لانچ کیا ہے۔ اس پلیٹ فارم کے ساتھ ہندوستان کا اپنا تکنیکی طور پر جدید انٹرفیس ہوگا۔ پوری دنیا نے کورونا کے دور میں ہمارے کوون پلیٹ فارم کی کامیابی دیکھی ہے۔ ادائیگی کے نظام میں یو پی آئی کی کامیابی بھی آج ایک عالمی کہانی بن چکی ہے۔ ہندوستان اب صحت کے شعبہ میں اسی کامیابی کو ڈجیٹل پبلک انفراسٹرکچر یعنی ڈی پی آئی کے ذریعے دہرا رہا ہے۔

دوستو !

صحت کے شعبے میں جو کام آزادی کی 6-7 دہائیوں میں نہیں ہوا تھا، وہ  گزشتہ 10  برسوں میں ہوا ہے۔  گزشتہ  10 برسوں میں ملک میں ریکارڈ تعداد میں نئے ایمس اور میڈیکل کالج کھولے گئے ہیں۔ آج اس پروگرام میں ہی کرناٹک،  اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں کئی اسپتالوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ کرناٹک کے نرسا پور اور بوما سندرا، مدھیہ پردیش میں پتھم پور، آندھرا پردیش کے اچیتا پورم اور ہریانہ کے فرید آباد میں نئے میڈیکل کالجوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔  اترپردیش کے میرٹھ میں بھی نئے ای ایس ۤئی سی اسپتال کا کام شروع ہو گیا ہے۔ اندور میں ایک اسپتال کا بھی افتتاح کیا گیا ہے۔ اسپتالوں کی یہ بڑھتی ہوئی تعداد بتاتی ہے کہ میڈیکل سیٹیں بھی اتنی ہی تیزی سے بڑھ رہی ہیں… میں چاہتا ہوں کہ کسی بھی غریب بچے کا ڈاکٹر بننے کا خواب نہ ٹوٹے۔ اور میرا ماننا ہے کہ حکومت کی کامیابی بھی اسی میں مضمر ہے کہ میرے ملک کے کسی نوجوان کے خواب چکنا چور نہ ہوں۔ خوابوں کی بھی اپنی طاقت ہوتی ہے، خواب بھی کبھی کبھی الہام کی وجہ بن جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کسی بھی متوسط ​​طبقے کے بچے کو میڈیکل کی تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے پر مجبور نہ کیا جائے، اسی لیے  ہندوستان  میں گزشتہ 10  برسوں سے میڈیکل کی سیٹیں بڑھانے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ گزشتہ  10  برسوں میں ایم بی بی ایس اور ایم ڈی کی تقریباً ایک لاکھ نئی سیٹیں شامل کی گئی ہیں۔ اور میں نے اس سال لال قلعہ سے اعلان کیا ہے کہ آنے والے 5  برسوں میں ہم میڈیکل لائن میں مزید 75 ہزار سیٹیں شامل کریں گے… آپ اندازہ لگا سکتے ہیں… ہر گاؤں میں ڈاکٹروں کی پہنچ کتنی بڑھنے والی ہے۔

دوستو !

آج ہمارے پاس ملک میں 7.5 لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ آیوش پریکٹیشنرز ہیں۔ ہمیں اس تعداد میں مزید اضافہ کرنا ہے۔ اس کے لیے ملک میں کام بھی جاری ہے۔ آج دنیا ہندوستان کو طبی اور صحت مندانہ سیاحت کے ایک بڑے مرکز کے طور پر بھی دیکھتی ہے۔ دنیا بھر سے لوگ یوگا، پنچ کرما اور  میڈئیشن کے لیے ہندوستان آتے ہیں۔ آنے والے وقتوں میں یہ تعداد تیزی سے بڑھے گی۔ ہمارے نوجوانوں، ہمارے آیوش پریکٹیشنرز کو اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ پریوینٹیو کارڈیالوجی….آیورویدک آرتھوپیڈکس ….آیوروید اسپورٹس میڈیسن اور آیوروید ری ہیب سینٹرز….ایسے بہت سے شعبوں میں، نہ صرف ہندوستان بلکہ مختلف ممالک میں آیوش پریکٹیشنرز کے لیے بے پناہ مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں۔ ان مواقع کے ذریعے ہمارے نوجوان نہ صرف خود ترقی کریں گے بلکہ انسانیت کی عظیم خدمت بھی کریں گے۔

دوستو !

اکیسویں صدی میں سائنس نے طب کے میدان میں بے مثال ترقی کی ہے۔ جو بیماریاں پہلے لاعلاج سمجھی جاتی تھیں اب ان کا علاج موجود ہے۔ دنیا علاج کے ساتھ صحت کو بھی اہمیت دے رہی ہے  اور جب صحت کی بات آتی ہے، جب  ویل نیس کی بات آتی ہے، ہندوستان کو اس میں ہزاروں سال کا تجربہ ہے۔ آج وقت آگیا ہے کہ ہمیں اس قدیم علم کو جدید سائنس کے نقطہ نظر سے بھی درست کرنا چاہیے۔ اسی لیے، میں ثبوت پر مبنی آیوروید کے بارے میں مسلسل بات کر رہا ہوں۔ آیوروید کے پاس ذاتی نوعیت کے علاج کے پروٹوکول کا اتنا سنجیدہ علم ہے… لیکن، جدید سائنس کے نقطہ نظر سے، اس سمت میں پہلے کوئی ٹھوس حتمی کام نہیں ہوا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج ملک اس سمت میں ایک اہم مہم شروع کر رہا ہے۔ یہ مہم ہے – نیچر ٹیسٹنگ مہم!  یہ نیچر ٹیسٹنگ مہم کیونکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آیوروید کی وجہ سے کچھ مریض ٹھیک ہو جاتے ہیں، نتیجہ نظر آتا ہے، ثبوت نہیں ملتا، ہم نتیجہ بھی چاہتے ہیں، ثبوت بھی چاہتے ہیں تاکہ ہمیں دنیا کو دکھانا ہو کہ ہمارے پاس دنیا کی صحت کے لیے جڑی بوٹی ہے۔ اس مہم کے تحت ہم آیوروید کے اصولوں پر مبنی ہر فرد کے لیے ایک مثالی طرز زندگی وضع کر سکتے ہیں۔ ہم بیماریوں کے حملہ سے پہلے ہی ان لوگوں کے لیے خطرے کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس سمت میں مثبت پیش رفت ہمارے صحت کے شعبے کی مکمل وضاحت کر سکتی ہے۔ ہم پوری دنیا کو صحت کی دیکھ بھال کا ایک نیا نقطہ نظر دے سکتے ہیں۔

دوستو !

جدید میڈیکل سائنس کی کامیابی کی ایک اور بڑی وجہ ہر پرنسپل کی لیب کی توثیق ہے… ہمارے روایتی ہیلتھ کیئر سسٹم کو بھی اس معیار پر پورا اترنا ہوگا۔ آپ نے دیکھا، اشوگندھا، ہلدی، کالی مرچ…  ہم نسل در نسل مختلف علاج کے لیے ایسی بہت سی جڑی بوٹیاں استعمال کر رہے ہیں۔ اب ان کی افادیت اعلیٰ اثرات کے مطالعے میں ثابت ہو رہی ہے۔ اس لیے آج دنیا میں اشوگندھا جیسی ادویات کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس دہائی کے آخر تک اشوگندھا کے عرق کی مارکیٹ تقریباً ڈھائی ارب ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں… ہم لیب کی توثیق کے ذریعے ان جڑی بوٹیوں کی قدر میں کتنا اضافہ کر سکتے ہیں! ہم کتنی بڑی مارکیٹ بنا سکتے ہیں!

اس لیے دوستو !

آیوش کی کامیابی کا اثر صرف صحت کے شعبے تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس سے ایک طرف ہندوستان میں نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں تو دوسری طرف عالمی فلاح و بہبود کی کوششوں کو بھی تقویت مل رہی ہے۔ ہماری کوششوں کی وجہ سے 10  برسوں کے اندرآیوش ملک کے سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے شعبوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ 2014 میں آیوش سے متعلق مینوفیکچرنگ سیکٹر تین بلین ڈالر تھا… آج یہ بڑھ کر تقریباً 24 بلین ڈالر ہو گیا ہے۔ یعنی 10  برسوں میں 8 گنا اضافہ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک کے نوجوان نئے آیوش اسٹارٹ اپ شروع کر رہے ہیں۔ روایتی پراڈکٹس…ٹیکنالوجی سے چلنے والی نئی مصنوعات…نئی خدمات…ان سب سے متعلق 900 سے زیادہ آیوش اسٹارٹ اپس آج ملک میں کام کر رہے ہیں۔ آج ہندوستان 150 ممالک کو کئی بلین ڈالر کی آیوش مصنوعات برآمد کر رہا ہے۔ اس کا براہ راست فائدہ ہمارے کسانوں کو ہو رہا ہے۔ جڑی بوٹیاں اور سپر فوڈز جو پہلے مقامی مارکیٹ تک محدود تھیں، اب عالمی مارکیٹ میں پہنچ رہی ہیں۔

دوستو !

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ کسانوں کو اس بدلتے ہوئے منظر نامے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے، حکومت جڑی بوٹیوں کی پیداوار کو بھی فروغ دے رہی ہے۔ نمامی گنگا پروجیکٹ کے تحت گنگا کے کنارے قدرتی کھیتی اور جڑی بوٹیوں کی پیداوار کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

 

دوستو !

ہمارے قومی کردار کی روح اور ہمارے سماجی تانے بانے ہیں – “سروے بھونتو سکھینہ، سرو سنتو نرمایا”۔ سب خوش رہیں، سب بے خوف ہوں۔  گزشتہ 10  برسوں میں ہم نے ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس’ کے منتر پر عمل کرتے ہوئے اس احساس کو ملک کی پالیسیوں سے جوڑا ہے۔ آنے والے 25 برسوں میں صحت کے شعبے میں ہماری کوششیں ترقی یافتہ ہندوستان کی مضبوط بنیاد بن جائیں گی۔ مجھے یقین ہے کہ بھگوان دھن ونتری کے آشیرواد سے ہم ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ پرامن ہندوستان کا خواب ضرور پورا کریں گے۔

اور دوستو !

جب میں نتائج اور شواہد پر بات کر رہا تھا، تو ہم ایک کام کی طرف بہت زیادہ توانائی لگانے جا رہے ہیں اور وہ ہے ہستپرتھا(مینسکرپٹ)، ہمارے ملک میں ایسے مسودات بڑی مقدار میں بکھرے ہوئے ہیں۔ آیوروید سے متعلق اس طرح کے نسخے کئی جگہ بکھرے پڑے ہیں۔ اب ملک اس وراثت کو برقرار رکھنے کے لیے مشن موڈ پر کام کرنے جا رہا ہے۔ علم کی یہ ساری دولت کہیں نوشتہ جات میں، کہیں تانبہ کی تختیوں میں، کہیں ہاتھ سے لکھے ہوئے خطوط میں ملے گی۔ یہ سب کچھ جمع کرنے کا کام اور اب یہ مصنوعی ذہانت کا دور ہے، ہم اسے اسی طرح ٹیکنالوجی سے جوڑنا چاہتے ہیں، اس علم سے ہم کیا نئی چیزیں نکال سکتے ہیں، پھر اس سمت میں بہت بڑا کام کرنے جا رہے ہیں۔

دوستو !

آج کے موقع پر میں ایک بار پھر ملک کے 70 سال سے زیادہ عمر کے تمام عظیم بزرگوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور ان سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

شکریہ!

٭٭٭٭٭

ش ح۔ ظ ا

UR No.1882