Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

این ڈی ٹی وی ورلڈ سمٹ میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

این ڈی ٹی وی ورلڈ سمٹ میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن


میں این ڈی ٹی وی ورلڈ سمٹ میں موجود تمام معززین کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ اس سمٹ میں آپ حضرات بہت سے موضوعات پر گفتگو کرنے والے ہیں… مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے عالمی رہنما بھی اپنے خیالات پیش کریں گے۔

ساتھیو،

اگر ہم گزشتہ چار پانچ سال کے عرصے پر نظر ڈالیں تو زیادہ تر مباحث میں ایک چیز مشترک رہی ہے… اور وہ ہے… فکر… مستقبل کی فکر… کورونا کے دوران یہ تشویش رہی کہ عالمی وباء سے کیسے نمٹا جائے… جب کووڈ بڑھ گیا تو دنیا کی معیشت کے بارے میں تشویش تھی… کورونا نے مہنگائی کے بارے میں تشویش میں اضافہ کیا… بے روزگاری پر تشویش بڑھ گئی… آب وہوا کی  تبدیلی پر تشویش تو تھی ہی… پھر شروع ہونے والی جنگوں کی وجہ سے بات چیت میں خدشات مزید بڑھ گئے…عالمی سپلائی چین کے ٹوٹنے  کا خدشہ…معصوم لوگوں کی جانوں کے ضیاع پر تشویش…یہ کشیدگی، یہ ٹینشن،  یہ تنازعات ،یہ سب کچھ عالمی سربراہی اجلاسوں اور سیمیناروں کا موضوع بنتا ہے۔ اور آج جب بحث کا مرکز تشویش ہے تو ہندوستان میں کس قسم کی سوچ چل رہی ہے؟ کتنا بڑا تضاد ہے۔ یہاں بحث ہے‘انڈین سنچری’… ہندوستان کی صدی، دنیا کے ہنگاموں کے درمیان، ہندوستان امید کی کرن بن گیا ہے… جب دنیا پریشانیوں میں ڈوبی ہوئی ہے، ہندوستان امید پھیلا رہا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ عالمی حالات ہمارے لیے اہمیت نہیں رکھتے… یہ ہمارے لیے اہمیت رکھتے ہیں… چیلنجز بھی ہندوستان کے سامنے ہیں… لیکن یہاں ایک سینس  آف پازیٹی ویٹی ہے، جس کو ہم سب محسوس کررہے ہیں اور اس طرح…‘ انڈین سنچری‘کی بات ہو رہی ہے ۔

ساتھیو،

آج ہندوستان جس رفتار سے ہر شعبے اور ہرمیدان میں کام کر رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہندوستان کی رفتار، ہندوستان کا پیمانہ، بے مثال ہے۔ ہماری حکومت کی تیسری مدت میں تقریباً ایک سو پچیس  دن مکمل ہو چکے ہیں۔ میں آپ کے ساتھ اپنا  ایک سو پچیس  دن کا تجربہ شیئر کروں گا۔ ایک سو پچیس دنوں میں غریبوں کے لیے 3 کروڑ نئے پکے مکانات کی منظوری دی گئی ہے۔ ایک سو پچیس دنوں میں ہم نے 9 لاکھ کروڑ روپے کے بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹوں پر کام شروع کر دیا ہے۔ ایک سو پچیس دنوں میں ہم نے 15 نئی وندے بھارت ٹرینیں چلائی ہیں، 8 نئے ہوائی اڈوں پر کام شروع ہو چکا ہے۔ ان ایک سو پچیس دنوں میں ہم نے نوجوانوں کے لیے 2 لاکھ کروڑ روپے کا پیکیج دیا ہے… ہم نے کسانوں کے بینک کھاتوں میں 21 ہزار کروڑ روپے براہ راست منتقل کیے ہیں… ہم نے 70 سال  اوپر کے بزرگوں کے لیے 5 لاکھ روپے تک کے مفت علاج کا انتظام کیا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان میں کام کیا جا رہا ہے… ایک سو پچیس دنوں میں 5 لاکھ گھروں میں چھتوں پر سولر پلانٹ لگائے گئے ہیں۔ ایک پیڑماں کے نام مہم کے تحت 90 کروڑ سے زیادہ درخت لگائے گئے ہیں۔ صرف یہی نہیں… ایک سو پچیس دنوں میں ہم نے 12 نئے صنعتی نوڈس کی منظوری دی ہے۔ ایک سو پچیس دنوں میں ہمارے سینسیکس اور نفٹی میں 6 سے 7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ہمارا فاریکس650 بلین ڈالر سےبڑھ کر 700 بلین ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔ ہندوستان کی کامیابیوں کی یہ فہرست بہت طویل ہے اور میں صرف ایک سوپچیس دن کی بات کر رہا ہوں۔ آپ  کو یہ بھی نوٹ کرنا ہے کہ ان ایک سو پچیس دنوں میں دنیا کن کن موضوعات پر بات کرنے ہندوستان آئی؟ ہندوستان میں ایک سو پچیس دنوں میں کون سے عالمی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ؟ ٹیلی کام اور ڈیجیٹل مستقبل پر تبادلہ خیال کے لیے ہندوستان میں انٹرنیشنل اسمبلی ہوئی۔…ہندوستان  میں گلوبل فنٹیک فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا…ہندوستان میں عالمی سیمی کنڈکٹر ایکو سسٹم پر تبادلہ خیال کیا گیا…ہندوستان میں قابل تجدید توانائی اور شہری ہوا بازی کے مستقبل پر بین الاقوامی کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا۔

دوستو،

یہ صرف ایونٹس کی فہرست نہیں ہے۔ یہ ہندوستان  سے وابستہ امیدوں کی فہرست بھی ہے۔ اس سے ہندوستان کی سمت اور دنیا کی امید دونوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ وہ موضوعات ہیں جو آنے والے وقت میں دنیا کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے… اور آج دنیا ان موضوعات پر بات کرنے کے لیے ہندوستان آرہی ہے۔

ساتھیو،

آج ہندوستان میں بہت کچھ ہو رہا ہے… ہماری تیسری مدت میں ہندوستان نے جو رفتار حاصل کی ہے اسے دیکھ کر… کئی ریٹنگ ایجنسیوں نے ہندوستان کی ترقی کی پیشن گوئی میں اضافہ کیا ہے۔ یہاں، جناب مارک موبیئس جیسے ماہرین، جو ہندوستان سے سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں، یہاں موجود ہیں… وہ جس طرح سے ہندوستان میں سرمایہ کاری کے لیے پرجوش ہیں، یہ بہت اہم ہے۔ جب وہ عالمی فنڈز سے اپنے فنڈز کا کم از کم پچاس فیصد ہندوستان کی شیئر مارکیٹ میں لگانے کے لیے کہتے ہیں… تو اس کا ایک بڑا مطلب ہے، ایک بہت بڑا پیغام ہے۔

ساتھیو،

ہندوستان آج ایک ترقی پذیر ملک بھی ہے اور ابھرتی ہوئی طاقت بھی ہے۔ ہم غربت کے چیلنجوں کو بھی سمجھتے ہیں اور ترقی کی راہ ہموار کرنے کا طریقہ بھی جانتے ہیں۔ ہماری حکومت تیزی سے پالیسیاں بنا رہی ہے، فیصلے لے رہی ہے… اور نئی اصلاحات کر رہی ہے۔ تاہم، عوامی زندگی میں، مجھے کئی بار مختلف قسم کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے… کچھ لوگ کہتے ہیں، مودی جی لگاتار تین بار حکومت توبنالی… اتنے سارے کام تو کرلیئے… پھر اتنی دوڑ دھوپ کیوں کرتے رہتے ہو، کیا ضرورت ہے؟ آپ دنیا کی 5 ویں بڑی معیشت بن چکے ہیں… اتنے  سنگ میل ہیں…  اتنے زیر التوا فیصلے آپ نے لیے ہیں…  اتنی ساری اصلاحات کرلی ہیں … اب اتنی محنت کی کیا ضرورت ہے؟ ایسا کہنے والے مجھے بہت سے لوگ ملتے ہیں۔ لیکن جو خواب ہم نے دیکھے ہیں، جو عزائم لے کر ہم چلے ہیں ، ان میں نہ سکون ہے اور نہ آرام ہے۔

گزشتہ 10 برسوں میں 25 کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے ہیں… کیا اتنا ہی کافی ہے… نہیں ہے کیا؟  گزشتہ 10 برسوں میں تقریباً 12 کروڑ بیت الخلاء بنائے گئے ہیں… 16 کروڑ لوگوں کو گیس کنکشن مل چکے ہیں… کیا اتنا ہی  کافی نہیں ہے؟  گزشتہ 10 برسوں میں، ہندوستان میں 350 سے زیادہ میڈیکل کالج بنائے گئے ہیں… 15 سے زیادہ ایمس بنائے گئے ہیں… کیا اتنا کافی نہیں ہے؟ گزشتہ 10 برسوں میں ہندوستان میں 1.5 لاکھ سے زیادہ نئے اسٹارٹ اپس بنائے گئے ہیں… 8 کروڑ نوجوانوں نے پہلی بار مدرا لون لے کر اپنا کام شروع کیا ہے۔ اور سوال ہے بھوک ہے کیا ؟ کیا اتنا  کافی نہیں ہے، میرا جواب ہے… نہیں، اتنا پورا نہیں ہے۔ آج ہندوستان دنیا کے سب سے نوجوان ممالک میں سے ایک ہے۔ اس نوجوان ملک کی صلاحیت ہمیں آسمان کی بلندیوں پر لے جا سکتی ہے اور اس کے لیے ہمیں ابھی بھی بہت کچھ کرنا ہے… اسے بہت تیزی سے کرنا ہے۔

ساتھیو،

آپ بھی اس تبدیلی کو دیکھ رہے ہوں گے جو آج ہندوستان کی سوچ اور نقطۂ نظر میں آئی ہے۔ عام طور پر یہ روایت رہی ہے اور یہ فطری ہے، میں اسے غلط نہیں سمجھتا۔ ہر حکومت پچھلی حکومتوں کے کام کا موازنہ کرتی ہے اور یہ ایک معیار ہے کہ پہلے کیا تھا، اب کیا ہے، پہلے کتنا تھا، اب کتنا ہو گیا ہے اور اس سے یہ اطمینان بھی ہوتا ہے کہ ہم نے پچھلی حکومت سے بہتر کام کیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ، وہ گزشتہ 10-15 برسوں  سے موازنہ کرتی ہے… اس وقت اور اب میں کیا فرق ہے، اور اسے اپنی کامیابی سمجھتی ہے۔ ہم بھی کبھی کبھی اس راستے پر چلتے تھے، یہ بہت فطری تھا۔ لیکن اب ہمیں وہ راستہ بھی راس  نہیں آرہا ہے۔ اب ہم وہ لوگ نہیں جو کل اور آج کا موازنہ کر کے سکون حاصل کریں۔ اب کامیابی کا معیار صرف یہ نہیں ہے کہ ہم نے کیا حاصل کیا ہے… اب ہمارا مستقبل کا ہدف ہے، جہاں ہمیں پہنچنا ہے۔ ہم اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اب ہمیں کتنی دور تک پہنچنا ہے، کتنا باقی ہے، ہم وہاں کب پہنچیں گے… یعنی میں ایک نیا طریقہ اختیار کر رہا ہوں اور پوری حکومتی مشینری کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔

اب ہندوستان آگے کی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ 2047 تک ترقی یافتہ ہندوستان کا عزم بھی اسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے… اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہم ترقی یافتہ ہندوستان کا جو ہمارا عزم ہے اسے  حاصل کرنے کے لیے ہم کس حد تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمیں اور کتنا کرنا ہے؟ ہمیں کس رفتار اور کس پیمانے پر محنت کرنی ہے؟ اور ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے اور ہدف مقرر کر دیا ہے… آج ہندوستان کے 140 کروڑ لوگ ترقی یافتہ ہندوستان کا عزم شامل ہو گئے ہیں، وہ خود اس کو چلا رہے ہیں۔ یہ نہ صرف عوامی شرکت کی مہم بن گئی ہے بلکہ ہندوستان کے خود اعتمادی کی تحریک بھی بن گئی ہے۔ آپ حیران ہوں گے… جب حکومت نے ترقی یافتہ ہندوستان کے ویژن دستاویز پر کام شروع کیا تو لاکھوں لوگوں نے اپنی تجاویز بھیجیں۔ اسکولوں کالجوں، یونیورسٹیوں میں مباحثے ہوئے، ڈسکیشنس ہوئے…حکومت اور سماجی تنظیموں نے مباحثے منعقد کئے۔ عوام سے موصول ہونے والی تجاویز کی بنیاد پر ہندوستان نے آئندہ 25 سالوں کے لیے اہداف مقرر کیے ہیں۔ آج ترقی یافتہ ہندوستان پر بحث ہمارے شعور، ہماری سوچ کا حصہ بن چکی ہے۔ میرے خیال میں عوامی طاقت کے ذریعے قومی طاقت کی تعمیر کی یہ سب سے بڑی مثال ہے۔

ساتھیو،

آج ہندوستان کے پاس ایک اور ایڈوانٹج ہے، جو اس صدی کو ہندوستان کی صدی  بنانے کے لیے بہت ضروری ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ اے آئی کا دور ہے۔ دنیا کا حال اور مستقبل اے آئی سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن ہندوستان کے پاس ڈبل اے آئی پاور کاایڈوانٹج ہے۔ اب آپ کے ذہن میں سوال یہ ہوگا کہ دنیا کے پاس صرف ایک ہی اے آئی ہے، مودی کو یہ ڈبل اے آئی کہاں سے ملا؟ دنیا کی نظروں میں، صرف ایک ہی اے آئی ہے، وہ ہے مصنوعی ذہانت، لیکن ہمارے پاس تو وہی ہی، دوسرا اے آئی خواہش مند ہندوستان (اسپیریشنل انڈیا)ہے۔ جب خواہش مند ہندوستان اور مصنوعی ذہانت کی طاقت ایک ساتھ آجاتی ہے، تو یہ قدرتی بات ہے کہ ترقی کی رفتار بھی بڑھ جاتی ہے۔

ساتھیو،

ہمارے لیے، اے آئی صرف ایک ٹیکنالوجی نہیں ہے، بلکہ یہ ہندوستان کے نوجوانوں کے لیے مواقع کا ایک نیا دروازہ ہے۔ اس سال ہندوستان نے انڈیا اے آئی مشن شروع کیا ہے۔ صحت کی دیکھ بھال ہو…تعلیم ہو…اسٹارٹ اپ ہو…ہندوستان ہر شعبے میں اے آئی کے استعمال کو بڑھا رہا ہے۔ ہم دنیا کو بہتر اے آئی حل فراہم کرنے میں بھی مصروف ہیں۔ ہندوستان نے کواڈ کی سطح پر بھی بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ ہندوستان دوسرے اے آئی یعنی خواہش مند ہندوستان کے بارے میں بھی اتنا ہی سنجیدہ ہے… ہندوستان کا متوسط ​​طبقہ…ہندوستان کے عام لوگ…ان کی زندگی میں آسانی…ان کا معیار زندگی…ہندوستان کے چھوٹے کاروباری افراد…ایم ایس ایم ایز…ہندوستان کے نوجوان…ہندوستان کی خواتین…ہم سب کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے  پالیسیاں بنارہے ہیں…فیصلے لے رہے ہیں۔

ساتھیو،

اسپیریشنل انڈیا کی ایک مثال… ہندوستان میں کنیکٹیویٹی پر کیا جا رہا شاندار کام ہے۔ ہم نے تیز فزیکل کنیکٹیویٹی اور انکلوسیو کنیکٹیویٹی پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔ یہ اس معاشرے کے لیے بہت اہم ہے جو ترقی کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ ہندوستان کے لیے اور بھی اہم ہے۔ اتنا بڑا ملک، اتنے متنوع جغرافیہ کے ساتھ، ہندوستان کی صلاحیت کو صحیح معنوں میں پہچاننے کے لیے تیزی سے جڑنا ضروری تھا، اسی لیے ہم نے ہوائی سفر پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار کہا تھا کہ میں ہوائی چپل پہننے والے لوگوں کو ہوائی سفر کے قابل بنانا چاہتا ہوں… ایک فطری ردعمل تھا کہ ہندوستان میں یہ کیسے ممکن ہے۔ لیکن ہم نے آگے بڑھ کر اڑان اسکیم شروع کی۔ آج اڑان کو 8 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اڑان کے تحت ہم نے دو ستونوں پر کام کیا۔ ٹائر-2 اور ٹائر-3 شہروں میں ہوائی اڈوں کا نیا نیٹ ورک بنایا۔ اور دوسرا، ہوائی سفر کو سستا اور ہر کسی کی پہنچ میں بنایا۔اڑان اسکیم کے تحت، تقریباً 3 لاکھ پروازیں اڑان بھرچکی ہیں… ان میں 1.5 کروڑ عام شہریوں نے سفر کیا ہے۔ آج کل 600 سے زیادہ روٹ کام کر رہے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر چھوٹے شہروں کو جوڑتے ہیں۔ 2014 میں ملک میں تقریباً 70 ہوائی اڈے تھے۔ آج ملک میں ہوائی اڈوں کی تعداد 150 سے تجاوز کر گئی ہے۔اڑان اسکیم نے دکھایا ہے کہ معاشرے کی خواہش کس طرح ترقی کو آگے بڑھاتی ہے۔

ساتھیو،

میں آپ کو نوجوانوں سے متعلق کچھ مثالیں دیتا ہوں۔ ہم ہندوستان کے نوجوانوں کو ایک ایسی طاقت بنانے میں مصروف ہیں جو پوری دنیا کی ترقی کو آگے بڑھا سکے۔ اور اس وجہ سے، ہمارا تعلیم، مہارت کی ترقی، تحقیق… روزگار پر بہت زیادہ زور ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں ہم نے ان شعبوں میں جو کام کئے ہیں اس کے نتائج برآمد ہونے لگے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی رینکنگ سامنے آئی ہے… ہندوستان دنیا کا وہ ملک ہے جہاں تحقیق کے معیار کے معاملے میں سب سے زیادہ بہتری آئی ہے۔ گزشتہ 9-8 برسوں میں ہندوستانی کی یونیورسٹیوں کی شرکت 30 سے ​​بڑھ کر 100 سے زیادہ ہوگئی ہے۔کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی کی درجہ بندی میں ہندوستان کی موجودگی بھی 10 برسوں میں 300 فیصد سے زیادہ بڑھی ہے۔ آج پیٹنٹس اور ٹریڈ مارکس کی تعداد اب تک سب سے زیادہ بلندی پر پہنچ رہی ہے۔ آج ہندوستان دنیا کے لیے آر اینڈ ڈی کا ایک بڑا مرکز بن رہا ہے۔ دنیا کی تقریباً ڈھائی ہزار کمپنیوں کے تحقیقی مراکز ہندوستان میں ہیں۔ ہندوستان میں اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم بھی غیر معمولی طور پر پھیل رہا ہے۔

ساتھیو،

ہندوستان میں ہونے والی یہ ہمہ گیر تبدیلیاں دنیا کے لیے بھی اعتماد کی بنیاد بن رہی ہیں۔ آج کئی موضوعات میں ہندوستان عالمی مستقبل کو سمت دینے میں پیش پیش ہے۔ دنیا محسوس کرتی ہے کہ ہندوستان بحران کی گھڑی میں ساتھی ہے۔ آپ کووِڈ کا وہ دوریاد کیجئے…ہم ضروری ادویات کی، ضروری ویکسین کی ہماری جو صلاحیت تھی اس  سے ہم بھی کروڑوں ڈالر کما سکتے تھے۔ اس سے ہندوستان کو فائدہ ہوتا لیکن انسانیت کا نقصان ہوتا۔ یہ ہمارے سنسکارنہیں ہیں۔ ہم نے بحران کے وقت دنیا کے سیکڑوں ممالک کو ادویات اور زندگی بچانے والی ویکسین فراہم کیں۔ میں مطمئن ہوں کہ ہندوستان مشکل وقت میں دنیا کے کام آپایا۔

ساتھیو،

ہندوستان ایسے تعلقات نہیں بناتا جو معمولی سمجھے جاتے ہیں… ہمارے تعلقات کی بنیاد اعتماد اور اعتبار پر ہے۔ اور دنیا بھی اس بات کو سمجھ رہی ہے۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس کی ترقی سے دنیا میں خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ ہندوستان کامیاب ہوا، دنیا کو اچھا لگتا ہے۔ اب چندریان کا واقعہ ہی دیکھ لیں، پوری دنیا نے اسے تہوار کے طور پر منایا۔ جب ہندوستان آگے بڑھتا ہے تو حسد اور جلن کے جذبات پیدا نہیں ہوتے۔ دنیا ہماری ترقی سے خوش ہوتی ہے، کیونکہ ہندوستان کی ترقی سے پوری دنیا  کو فائدہ ہوگا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہندوستان ماضی میں عالمی ترقی کے لیے کس طرح ایک مثبت طاقت تھا۔ ہندوستان کے نظریات، ہندوستان کی اختراعات، ہندوستان کی مصنوعات نے صدیوں تک دنیا پر کس طرح اپنا اثر چھوڑا ہے، لیکن وقت بدلا، ہندوستان نے غلامی کا طویل دور دیکھا اور ہم پیچھے رہنے لگے۔ صنعتی انقلاب کے وقت بھی ہندوستان غلام تھا۔ غلامی کی وجہ سے ہم صنعتی انقلابات سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ وہ وقت ہندوستان کے ہاتھ سے نکل گیا لیکن آج ہندوستان کا وقت ہے۔ یہ صنعت4.0 کا دور ہے۔ ہندوستان اب غلام نہیں رہا، ہمیں آزاد ہوئے 75 سال ہوچکے ہیں اور اس طرح اب ہم کمر کس کر تیار ہیں۔

دوستو،

ہندوستان صنعت4.0 کے لیے درکار مہارتوں اور بنیادی ڈھانچے پر بہت تیزی سے کام کر رہا ہے۔گزشتہ دہائی کے دوران مجھے  کتنے ہی عالمی پلیٹ فارمز سے وابستہ ہونے کا موقع ملا ہے۔ میں دنیا بھر میںG-20 اور G-7 کانفرنسوں کا حصہ رہا ہوں۔ صرف 10 دن پہلے میں آسیان سربراہی اجلاس کے لیے لاؤس میں تھا… آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ہندوستان کے ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر پر تقریباً ہر سربراہی اجلاس میں بہت زیادہ بحث کی جاتی ہے۔ آج پوری دنیا کی نظریں ہندوستان کے ڈی پی آئی پر ہیں۔ یہاں ہمارے دوست، ہندوستان کے مداح جناب پال رومر بیٹھے ہیں۔ مجھے اس سے پہلے بھی ان سے بہت سے خیالات پر تفصیلی گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے، میری ان کے ساتھ بہت سی گفتگو ہوئی ہے۔ میں ان سے امریکہ میں بھی ملا۔ ہماری بات چیت کے دوران، جناب پال نے ہندوستان کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور آدھار اور ڈیجی لاکر جیسی اختراعات کی تعریف کی۔ اسی طرح بڑی بڑی سربراہ کانفرنسوں میں لوگ حیران ہوتے ہیں کہ ہندوستان نے اتنا شاندارڈی پی آئی کیسے تیار کیا؟

دوستو،

انٹرنیٹ کے دور میں ہندوستان کے پاس  فرسٹ موور کا ایڈوانٹیج نہیں تھا۔ ان ممالک میں جہاں انہیں یہ فائدہ حاصل تھا، نجی پلیٹ فارمز اور نجی اختراعات نے ڈیجیٹل اسپیس کی قیادت کی۔ اس سے یقیناً دنیا میں ایک نیا انقلاب آیا، لیکن اس کے فوائد کا دائرہ محدود تھا۔ جبکہ ہندوستان نے دنیا کو ایک نیا ماڈل دیا ہے۔ ہندوستان نے ٹیکنالوجی کو جمہوری بنا کر دنیا کو ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر کا ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔ آج ہندوستان میں حکومت ایک پلیٹ فارم بناتی ہے اور اس پر لاکھوں نئی ​​اختراعات ہوتی ہیں۔ ہماری جن دھن آدھار اور موبائل کی جے اے ایم کنیکٹوٹی خدمات کی تیز رفتار اور لیکیج فری  ترسیل کے لیے ایک بہترین نظام بن گیا ہے۔ آپ ہمارایو پی آئی دیکھئے… اس پر ہندوستان میں فنٹیک کی ایک نئی توسیع ہوئی ہے۔ یو پی آئی کی وجہ سے، آج ہر روز500 ملین سے زیادہ ڈیجیٹل لین دین ہو رہے ہیں اور اس کو کارپوریٹس نہیں چلا رہے ہیں، بلکہ ہمارے چھوٹے دوکاندار اور اسٹریٹ وینڈرس چلا رہے ہیں۔ ہمارا پی ایم گتی شکتی پلیٹ فارم ایک اور مثال ہے۔ ہم نے بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹوںکی تعمیر میں موجود سائلوز کو دور کرنے کے لیے پی ایم گتی شکتی کی تشکیل کی۔ آج یہ ہمارے لاجسٹک ایکو سسٹم کو تبدیل کرنے میں مدد کر رہا ہے۔ ہمارااو این ڈی سی پلیٹ فارم ایسا ہی ہے۔ یہ ایک ایسی اختراع ثابت ہو رہی ہے جو آن لائن ریٹیل کو مزید جمہوری اور شفاف بنائے گی۔ ہندوستان نے دکھایا ہے کہ ڈیجیٹل اختراع اور جمہوری اقدار ساتھ ساتھ رہ سکتی ہیں۔ ہندوستان نے دکھایا ہے کہ ٹیکنالوجی شمولیت، شفافیت اور بااختیار بنانے کا ایک ذریعہ ہے، نہ کہ کنٹرول اور تقسیم کا۔

ساتھیو،

اکیسویں صدی کا یہ وقت انسانی تاریخ کا اہم ترین دور ہے۔ ایسے میں آج کے دور کی بڑی ضرورتیں ہیں…استحکام، پائیداری اور حل…یہ انسانیت کے بہتر مستقبل کے لیے اہم ترین شرائط ہیں۔ اور ہندوستان آج یہی کوشش کر رہا ہے۔ اسے ہندوستانی عوام کی غیر منقسم حمایت حاصل ہے۔ 6 دہائیوں میں پہلی بار ملک کے عوام نے مسلسل تیسری بار کسی حکومت کو اپنا مینڈیٹ دیا ہے۔ یہ پیغام استحکام کے بارے میں ہے۔ ہریانہ میں ابھی انتخابات ہوئے ہیں۔ ان انتخابات میں بھی ہندوستانی عوام نے استحکام کے اس احساس کو مزید تقویت بخشی ہے۔

ساتھیو،

آب وہوا کی تبدیلی کا بحران آج پوری انسانیت کا بحران بن چکا ہے۔ہندوستان بھی اس میں برتری حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ عالمی آب و ہوا کی تبدیلی میں ہمارا تعاون نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے باوجود، ہندوستان میں ہم نے گرین ٹرانزیشن کو اپنی ترقی کا ایندھن بنایا ہے۔ آج پائیداری ہماری ترقیاتی منصوبہ بندی کا مرکز ہے۔ آپ کو ہماری پی ایم سوریہ گھر مفت بجلی کی اسکیم کو دیکھنا چاہئے… کھیتوں میں سولر پمپ لگانے کی اسکیم کو دیکھیں… چاہے وہ ہمارا ای وی انقلاب ہو، یا ایتھنول بلینڈنگ پروگرام… چاہے وہ بڑے بڑے ونڈ انرجی فارمز ہوں، یا ایل ای ڈی لائٹس موومنٹ ہو… شمسی توانائی سے چلنے والے ہوائی اڈے  ہوں یا بائیو گیس پلانٹس پر فوکس ہو… آپ ہمارے کسی بھی پروگرام کو دیکھ سکتے ہیں، کوئی بھی اسکیم دیکھ لیجئے… آپ کو ان سب میں گرین فیوچرکو لے کرگرین جابس کو لے کر ایک مضبوط عزم ملے گا۔

ساتھیو،

استحکام اور پائیداری کے ساتھ ساتھ، ہندوستان آج سولیوشنز پر بھی توجہ دے رہا ہے۔ پچھلی دہائی میں ہندوستان نے ایسے بہت سے سولیوشنز پر کام کیا ہے، جو عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہیں۔ بین الاقوامی سولر الائنس ہو…کولیشن فار ڈیزاسٹر ریزیلینٹ انفرااسٹرکچر ہو…ہندمشرق وسطیٰ اکنامک کوریڈور ہو…عالمی بائیو فیول الائنس ہو…یوگا ہو…آیوروید ہو…مشن لائف ہو ، مشن ملیٹس ہو … ہندوستان کی طرف سے اٹھائے گئے تمام اقدامات دنیا کے چیلنجوں کا حل فراہم کرنے  والے ہیں۔

ساتھیو،

مجھے خوشی ہے کہ ہندوستان کی بڑھتی ہوئی صلاحیت دنیا کی بہتری کو یقینی بنا رہی ہے۔ ہندوستان جتنا ترقی کرے گا، دنیا کو اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہندوستان کی صدی کو نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری انسانیت کی فتح کی صدی بنایا جائے۔ ایک ایسی صدی جو ہر کسی کی صلاحیتوں سے ترقی کرتی ہے، ایک ایسی صدی جو ہر کسی کی اختراعات سے مالا مال ہوتی ہے، وہ صدی جہاں غریبی نہ ہو، وہ صدی جہاں ہر ایک کو آگے بڑھنے کے مواقع ملتے ہوں، ایک ایسی صدی، جس میں ہندوستان کی کوششیں دنیا میں استحکام لائیں اور عالمی امن میں اضافہ ہو اسی جذبے کے ساتھ مجھے یہاں مدعو کرنے کے لیے موقع دینے کے لیے میں این ڈی ٹی وی کا پھر سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور یہ سمٹ کامیاب ہواس کے لیے میری طرف سے آپ کو بہت بہت  نیک خواہشات ۔

بہت بہت شکریہ۔

******

(ش ح۔اگ۔ش ت)

U:1529