Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

ایسوچیم کے فاؤنڈیشن ویک (تاسیسی ہفتہ) 2020 کے انعقاد کے موقع پر وزیراعظم کے اہم خطاب کا متن

ایسوچیم کے فاؤنڈیشن ویک (تاسیسی ہفتہ) 2020 کے انعقاد کے موقع پر وزیراعظم کے اہم خطاب کا متن


نمسکار جی!

ایسوچیم کے سربراہ  جناب نرنجن ہیرانندانی جی، اس ملک کے سینئر  صنعتی دنیا کی  ترغیب دینے والے شخص جناب رتن  ٹاٹا جی، ملک کی صنعتی دنیا کو  لیڈر شپ دینے والے تمام ساتھیوں، خواتین وحضرات!

ہمارے یہاں کہا جاتا ہے کہ کرونیہ کرمانی جیجی –  وشیتے شت سما :! یعنی  کرم  کرتے ہوئے 100 سال تک  جینے کی  خواہش رکھو۔ یہ بات  ایسوچیم  کے لئے بالکل صحیح ثابت ہوتی ہے۔ گزشتہ 100 برسوں میں  آپ تمام  وطن کی معیشت ، کروڑوں ہندوستانیوں کی  زندگی کو  بہتر بنانے میں جٹے ہیں۔  یہی بات  جناب رتن ٹاٹا جی کے لئے  پورے  ٹاٹا گروپس کے لئے بھی  اتنی ہی صحیح ہے۔ ہندوستان کی ترقی میں  ٹا ٹا کنبے کا ،  ٹاٹا  گروپ  کا  اُن کے تعاون کے لئے، انہیں یہاں اعزاز دیا گیا ہے۔  ٹا ٹا گروپ کا  ملک  کی ترقی میں بڑا کردار رہا ہے۔

ساتھیو،

گزشتہ 100 سالوں میں آپ آزادی کی لڑائی سے لے کر  ملک کی ترقی کے سفر  کے ہر اتار چڑھاؤ میں حصہ دار رہے ہیں۔ ایسوچیم کے قیام کے پہلے 27 سال  غلامی کے  دور  میں گزرے۔  اس وقت  ملک کی آزادی، سب سے بڑا مقصد تھا۔ اس وقت آپ کے خوابوں کی اڑان  بیڑیوں میں جکڑی ہوئی تھیں۔  اب  ایسوچیم  کی  زندگی  میں جو اگلے 27 سال  آرہے ہیں، وہ بہت  ہی اہم ہیں۔ 27 برس کے بعد 2047 میں  ملک اپنی آزادی کے  100 سال پورے کرے گا۔ آپ کے پاس  بیڑیاں نہیں، آسمان  چھونے کی پوری آزادی  ہے اور آپ کو  اس کا پورا فائدہ اٹھانا ہے۔ اب آنے والے برسوں میں  آتم نربھر بھارت کے لئے آپ کو پوری طاقت لگادینی چاہئے۔ اس وقت  دنیا  چوتھے  صنعتی انقلاب کی طرف تیزی سے  آگے بڑھ رہی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کی شکل میں چیلنجز بھی آئیں گے اور  بہت سے  نئے  آسان  حل بھی  آئیں گے اور اس لئے  آج وہ وقت ہے، جب ہمیں  پلان بھی کرنا ہے اور ایکٹ بھی کرنا ہے۔ ہمیں ہر سال کے، ہر مقصد کو  ملک کی تعمیر کے  ایک  بڑے مقصد کے ساتھ  جوڑنا ہے۔

ساتھیو،

آنے والے 27 سال  ہندوستان کے  گلوبل رول کو  ہی طے کرنے والے نہیں ہیں، بلکہ  یہ ہم  ہندوستانیوں کے خوابوں اور ڈیڈیکیشن، دونوں کو  ٹسٹ کرنے والے ہیں۔ یہ وقت  ہندوستانی انڈسٹری کی شکل میں  آپ کی صلاحیت  ،عہد بستگی اور ہمت کو  دنیا بھر کو  ہمیں ایک بار یقین کے ساتھ دکھا دینا ہے اور ہمارا چیلنج صرف خود انحصار ہی نہیں بننا ہے بلکہ ہم اس مقصد کو  کتنی جلدی حاصل کرتے ہیں، یہ بھی  اتنا ہی اہم ہے۔

ساتھیو،

ہندوستان کی کامیابی کو لے کر  آج دنیا میں  جتنی پازیٹیوٹی  ہے،  شاید  اتنی پہلے کبھی نہیں رہی۔ یہ پازیٹیوٹی آئی  ہے 130 کروڑ سے زیادہ  ہندوستانیوں کی  بے مثال خود اعتمادی  سے۔ اب آگے بڑھنے کے لئے ہندوستان  نئے راستے بنا رہا ہے، نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔

ساتھیو،

ہر شعبے کے لئے حکومت کی پالیسی کیا ہے، حکمت عملی کیا ہے، پہلے  اور  ابھی میں کیا تبدیلی آئی ہے، اس کو لے کر  گزشتہ اجلاس میں حکومت کے وزراء اور  دوسرے ساتھیوں نے آپ سب کے ساتھ  تفصیلی  بات چیت کی ہے۔ ایک زمانے میں ہمارے یہاں، جو حالات تھے،  اس کے بعد کہا جانے لگا تھا  – ’وائی انڈیا‘۔ اب جو سدھار (ریفارمز) ملک میں ہوئے ہیں، ان کا ، جو اثر دکھا ہے، اس کے بعد کہا جا رہا ہے –’وائی ناٹ انڈیا‘ اب جیسے پہلے کہا جاتا تھا کہ جب  ٹیکس شرح اتنی اونچی ہے، تو  ’وائی انڈیا‘؟ آج  وہی لوگ  کہتے ہیں کہ جہاں سب سے زیادہ  مسابقتی  ٹیکس شرحیں ہیں، تو ’وائی ناٹ انڈیا‘؟ پہلے ریگولیشن اور رولز  کا  جال تھا، تو فطری طور سے تشویش کے ساتھ سرمایہ کار  پوچھتے تھے، ’وائی انڈیا‘ ؟ آج وہی کہہ رہے ہیں کہ  لیبر لاء میں ’ایز آف کمپلائنس‘ ہے، تو  ’وائی ناٹ انڈیا‘ ؟ پہلے سوال ہوتا تھا کہ  اتنا ریڈ ٹیپ ہے تو ،  وائی انڈیا۔ اب  وہی لوگ جب ریڈ کارپیٹ بچھا ہوا دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں  وائی ناٹ انڈیا ؟ پہلے شکایت ہوتی تھی کہ انوویشن کا کلچر  اتنا نہیں ہے، تو  وائی انڈیا؟  آج  ہندوستان کے اسٹارٹ اپس ایکو سسٹم کی طاقت دیکھ کر دنیا یقین سے کہہ رہی ہے،  وائی ناٹ انڈیا ؟۔  پہلے پوچھا جاتا تھا کہ ہر کام میں اتنا سرکاری دخل ہے،  تو وائی انڈیا ؟  آج جب پرائیویٹ حصے داری پر بھروسہ کیا جا رہا ہے، بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، تو وہی لوگ پوچھ رہے ہیں،  وائی ناٹ انڈیا ؟ ۔ پہلے شکایت تھی کہ  ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر  کی کمی  میں کام ممکن نہیں،  تو وائی انڈیا ؟  آج  جب اتنا  جدید  ڈیجیٹل ایکو سسٹم  ہمارے یہاں ہے تو  سنٹی منٹ ہے، وائی ناٹ انڈیا ؟۔

ساتھیو،

نئے ہندوستان، اپنی صلاحیت پر بھروسہ کرتے ہوئے، اپنے وسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے، آتم نربھر بھارت کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لئے مینو فیکچرنگ پر  ہماری  خصوصی توجہ ہے۔ مینو فیکچرنگ کو بڑھا وا دینے کے لئے لگا تار سدھار ہور ہے ہیں۔ ریفارمز کے ساتھ ساتھ  ریوارڈس کو آج ملک کی  پالیسی کا  اہم  ذریعہ  بنایا گیا ہے۔ پہلی مرتبہ 10 سے زیادہ  سیکٹرز کو  افیشینسی  اور پروڈکٹیویٹی پر مبنی  مراعات کے دائرہ میں لایا گیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ  بہت کم وقت میں ہی  اس کے پازیٹو نتائج بھی  دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اس طرح بہتر کنکٹی ویٹی ،  بہتر سہولیات ، اور لاجسٹکس کو  مسابقتی بنانے کے لئے  جاری تمام کوششیں  بھی  انڈسٹری کے لئے  ریوارڈ ہی ہیں۔ ہمارے لاکھوں ایم ایس ایم ای کے لئے ، چاہے اس کی تاریخ کو بدلنا ہو،  معیار میں تبدیلی لانی ہو، سرکاری کنٹریکٹس میں ترجیح ہو  یا پھر لکویڈیٹی سے  وابستہ  مسائل کا حل کرنا ہو، یہ بھی  بڑی ترغیب ہی ہے۔

ساتھیو،

ملک آج  کروڑوں نوجوانوں کو  موقع دینے والے انٹرپرائزز اور  ویلتھ کریئیٹرس کے ساتھ ہے۔ آج  ہندوستان کے  نوجوان  اس طرح کے،  اسٹارٹ اپ دنیا میں  اپنا نام بنا رہے ہیں۔ حکومت کی ایک  افیشینٹ اور  فرینڈلی ایکو سسٹم بنانے کے لئے لگا تار  کوشش جاری ہے۔ اب ایسو چیم جیسی ایسو سی ایشن کو ، آپ کے ہر ممبر کو بھی  یہ یقینی  بنا نا ہے کہ  اس کا فائدہ آخری آدمی تک پہنچے۔ اس کے لئے  صنعت کے اندر بھی  آپ کو  ریفارمز  کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ جو بدلاؤ ہم اپنے لئے  دیکھنا چاہتے ہیں،  وہی  بدلاؤ ہمیں  اپنے اداروں میں بھی  کرنے ہوں گے۔ جتنی لبرٹی ،  جتنا انکلوژن،  جتنی ہینڈ  ہولڈنگ، جتنی ٹرانسپرنسی، آپ حکومت سے ، سو سائٹی سے چاہتے ہیں، اتنا ہی انڈسٹری کے اندر خواتین کے لئے ، نوجوان ہنر کے لئے، چھوٹی صنعتوں کے لئے ہم سب کو  یقینی بنانا ہی ہے۔ ہمیں  کارپوریٹ گورننس سے لے کر  پرافٹ شیئرنگ تک ،  دنیا کی  بہترین مشقوں کو  جلد سے جلد لانا ہوگا۔ پرافٹ سینٹرک اپروچ کے ساتھ  ہی ہم   اُسے  پرپز اورینٹڈ بھی بنائیں گے تو ، سو سائٹی کے ساتھ انٹگریشن ممکن ہو پائے گا۔

ساتھیو،

آپ سے بہتر فیصلہ سازی میں ایماندارانہ رائے کے کردار کو اور کون سمجھ سکتا ہے؟ اکثر لوگوں کو ہم اچھے اسٹاک اور شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی تجویز دیتے ہیں، لیکن ہم پہلے جانچ پڑتال کرتے ہیں کہ آیا مشیر خود اس میں سرمایہ کاری کررہا ہے یا نہیں؟ یہی چیز معیشتوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ آج ، دنیا ہندوستانی معیشت پر اعتبار کرتی ہے، کیونکہ اس کے ثبوت موجود ہیں۔ وبائی امراض کے دوران ، جب پوری دنیا سرمایہ کاری کے معاملے کو لے کر پریشان ہے، اس وقت ہندوستان کو ریکارڈ ایف ڈی آئی اور پی ایف آئی کی آمد موصول ہوئی ہے۔ اس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ دنیا کا یہ اعتماد ایک نئی سطح پر پہنچ جائے، ہمیں اپنی سرمایہ کاری کو کئی گنا گھریلو سطح پر بڑھانا ہوگا۔  آج آپ ہر شعبے میں سرمایہ کاری کے نئے مواقع موجود پاتے ہیں۔

دوستو،

سرمایہ کاری کا ایک اور پہلو بھی ہے، جس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔  یہ تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری ہے۔  ہندوستان میں تحقیق اور ترقی  (آر اینڈ ڈی) کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں تحقیق اور ترقی  کے شعبے میں 70 فیصد سرمایہ کاری نجی شعبے سے ہوتی ہے، جبکہ اتنی  ہی فیصد سرمایہ کاری ہندوستان میں پرائیویٹ سیکٹر سے ہوتی ہے۔  نیز اس کا ایک بڑا حصہ آئی ٹی، فارما اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں لگایا جاتا ہے۔   وقت کی ضرورت  یہ  ہے کہ تحقیق   اور ترقی  میں نجی شعبے کی شراکت میں اضافہ کیا جائے۔ ہر چھوٹی اور بڑی کمپنی کو ہر شعبے میں  مثلاً زراعت، دفاع، خلا، توانائی، تعمیراتی شعبوں میں تحقیق و ترقی کے لئے ایک خاص رقم مقرر کرنا چاہئے۔

دوستو،

آج  جب ہم مقامی مصنوعات کو عالمی شکل میں تبدیل کرنے کے لئے ‘مشن موڈ’ پر آگے بڑھ رہے ہیں، ہمیں ہر جغرافیائی- سیاسی  پیش رفتوں اور تبدیلیوں کے ساتھ  تیزی سے اپنا رد عمل ظاہر کرنا پڑے گا۔  اس کے لئے یہ مؤثر طریقہ کار ہونا ضروری ہے کہ ہندوستان عالمی سطح  پر سپلائی چین میں کسی اچانک مانگ کو کس طرح پورا کرسکتا  ہے۔  اس سلسلے میں آپ وزارت خارجہ سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔  اس کووڈ بحران کے دوران، ہم نے دیکھا ہے کہ ہم وزارت  خارجہ کے پورے نیٹ ورک کے بہتر استعمال کے ساتھ اپنے مقاصد کو تیزی سے کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔  اس موقع پر ضرورت اس بات کی ہے کہ  وزارت خارجہ اور تجارت و  صنعت اور ایسوچیم جیسی  صنعتی تنظیموں کے درمیان بہتر ہم آہنگی پیدا کی جائے۔  میں آپ سے گزارش کروں گا کہ عالمی تغیرات پر تیزی سے عمل آوری اور تیز رفتار ردعمل کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کے طریقوں سے متعلق اپنی تجاویز ہمیں دیں۔ آپ کے نظریات میرے لئے انتہائی قابل قدر ہیں۔

دوستو،

ہندوستان اپنی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے دنیا کی مدد کرنے کا اہل بھی ہے۔ فارمر سے لے کر فارما تک، ہندوستان نے ایسا کیا ہے اور ثابت بھی کیا ہے۔ کورونا کے دور میں تمام تر مشکلات کے باوجود، ہندوستان نے دنیا کی فارمیسی کی ذمہ داری لی ہے اور دنیا بھر میں ضروری دوائیں فراہم کی ہیں۔  اب ویکسین کے تعلق  سے  ہندوستان نہ صرف اپنی ضروریات کو پورا کرے گا، بلکہ دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک کی توقعات پر بھی پورا اترے گا۔

دوستو،

صنعت کاری ان کوششوں کو کئی گنا بڑھاسکتی ہے، جو حکومت گزشتہ 6 سالوں سے دیہی اور شہری تفریق کو کم کرنے کے لئے کر رہی ہے۔  ہماری دیہی  مصنوعات کو عالمی پلیٹ فارم مہیا کرانے میں ایسوچیم کےممبران بہت معاون ثابت  ہوسکتے  ہیں۔ آج کل آپ نے سنا ہوگا کہ کچھ  تجزیہ  کے مطابق پروٹین سے مالا مال مصنوعات موجود ہیں اور اس طرح لوگ ان مصنوعات کا استعمال کرنے لگتے ہیں۔ ہم نے ان کی درآمد شروع کردی  ہے۔ ہم نے یہ سوچنے کی ضرورت نہیں محسوس کی کہ یہ غیر ملکی مصنوعات ہماری پلیٹوں، ٹیبلز اور ہمارے گھروں میں کیسے ختم ہوگئے۔  ہمارے پاس ملک میں اسی طرح کی مصنوعات کا ایک بڑا  ذخیرہ ہے اور یہ ذخائر ملک کے دیہاتوں میں، ملک کے کسانوں کے پاس ہیں۔  ہماری نامیاتی کاشتکاری، جڑی بوٹیوں کی مصنوعات، بہت ساری چیزیں ایسی ہیں، جن کو ایسوچیم کے ذریعہ فروغ دیا جانا چاہئے، جیسے نامیاتی کاشتکاری کی مصنوعات، جڑی بوٹیوں کی مصنوعات وغیرہ۔  عالمی منڈی میں ہندوستانی مصنوعات کو فروغ دیا جانا  چاہیے۔  آپ مسابقتی ماحول پیدا کرکے، ان کی تشہیر اور اسٹارٹ اپس کو فروغ دے کر یہ کام کرسکتے ہیں۔  ہندوستان کی حکومت، ریاستی حکومتوں، زراعتی تنظیموں اور ہر ایک کو، اس سمت میں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔  اگر ہمارے زراعت کے شعبے کو بہتر ترویج، بہتر بنیادی ڈھانچہ ، بہتر بازار مل جائے تو ہماری پوری دیہی معیشت عروج کی اعلی سطح  تک پہنچ سکتی ہے۔

دوستو،

اکیسویں صدی کے آغاز میں، اٹل جی نے ہندوستان کو شاہراہوں سے جوڑنے کی منصوبہ سازی کی تھی۔ آج ملک میں جسمانی اور ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچہ پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ ہم ملک کے ہر گاؤں کو براڈ بینڈ رابطہ فراہم کرنے میں مصروف ہیں، تاکہ گاؤں کے کسانوں کی رسائی ڈیجیٹل گلوبل مارکیٹ تک ممکن ہوسکے۔  اسی طرح ہمارے آئی ٹی سیکٹر کو مزید تقویت دینے کے لیے، ان شعبوں سے متعلق تمام رکاوٹیں بھی دور کردی گئی ہیں۔  ڈیجیٹل اسپیس کے تحفظ  کے لئے ایک ایک کرکے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

دوستو،

فنڈنگ ​​سے وابستہ ہر ایوینیو کا استعمال بہتر انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے کیا جاسکتا ہے۔ سرکاری شعبے کے بینکوں کو مضبوط بنانا، بانڈ بازاروں کی صلاحیت میں اضافہ، اس سمت میں کچھ کوششیں ہیں۔ اسی طرح سویرین ویلتھ فنڈز اور پنشن فنڈز کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔  آر ای آئی ٹی اورآئی این وی آئی ٹی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ بنیادی ڈھانچہ  سے متعلق اثاثوں پر بھی رقم خرچ کی جارہی ہے۔

دوستو،

حکومت ضروری سہولیات مہیا کرے گی اور بہتر  ماحول بھی تیار کرے گی۔ حکومت مراعات دے سکتی ہے، حکومت پالیسیاں تبدیل کرسکتی ہے، لیکن یہ آپ جیسے صنعت  سے متعلق دوست ہیں، جو اس مدد کو کامیابی میں بدل سکتے ہیں۔  قواعد و ضوابط میں ضروری تبدیلیوں کے لئے ملک نے اپنا ذہن تیار کرلیا ہے۔ ملک ایک خود انحصار بھارت کے خواب کو پورا کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ پچھلے 6 سالوں میں، ہم نے 1500 سے زیادہ آثار قدیمہ کے قوانین کو ختم کردیا ہے۔  ملک کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بیک وقت نئے قوانین تشکیل دینے کا کام بھی جاری ہے۔  زرعی اصلاحات کے فوائد، جو 6 ماہ قبل متعارف کروائے گئے ہیں، وہ بھی کسانوں تک پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ ہم سب کو خود انحصار بھارت کی تعمیر کے عزم پر قائم ہو کر آگے بڑھنا ہے۔ آپ ایسوچیم کے  سب دوستوں کو نیک خواہشات۔ جناب رتن ٹاٹا جی کو بھی میری نیک خواہشات، میں آپ سب کو نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ایسوچیمٍ نئی بلندیوں کو عبور کرے گا اور  مجھے یقین ہے کہ آپ کی صد سالہ تقریبات اگلے 27 سال تک مقاصد کے حصول کے لیے 2047 کو اپنا نشانہ قراردیں گے، جب قوم اپنی آزادی کے 100 سال پورے کر رہی ہوگی۔ ایک بار پھر بہت بہت شکریہ!

شکریہ!