Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

آفات کو برداشت کرنے والے بنیادی ڈھانچے پر بین الاقوامی کانفرنس (آئی سی ڈی آر آئی) 2023 میں وزیراعظم کے پرنسپل سکریٹری ڈاکٹر پی کے مشرا کے خطاب کامتن


معزز حضرات

محترم وزیر جناب  ہاربرز؛

اقوام متحدہ  سیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ محترمہ مامی میزوتوری؛

محترم نائب وزیر ڈاکٹر جاتی،

اتحادی اراکین کے نمائندے اور دنیا بھر سے معزز مندوبین؛

خواتین و حضرات؛

خوش آمدید!

مجھے آپ کے ساتھ آفات کو جھیلنے والے بنیادی ڈھانچہ پر بین الاقوامی کانفرنس کے 5ویں ایڈیشن میں شامل ہوکر بہت خوشی ہوئی ہے۔ پچھلے پانچ سال میں، آئی سی ڈی آر آئی اور اسی طرح کے دیگر فورمز نے تباہی سے بچنے والے بنیادی ڈھانچے پر بات چیت کو برقرار رکھا اور بڑھایا ہے۔

یہ اب کوئی نیا موضوع نہیں رہا ہے۔ اب یہ عالمی اور قومی ترقی پر تبادلۂ خیال کا مرکز بن  گیا ہے۔

پچھلے کچھ سالوں میں، ہم نے اس مسئلے کو بہتر  طور پر سمجھا ہے ۔ جدید  بنیادی ڈھانچے کا نظام ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ ہمیں ان لاکھوں افراد کو تیزی سے بنیادی ڈھانچے کی خدمات فراہم کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے کبھی بھی ان خدمات تک رسائی حاصل نہیں کی جبکہ ان نظاموں  میں لچک کو بھی یقینی بنانا ہے اور اسے  تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی، معاشی اور قدرتی نظاموں کے درمیان حاصل کرنا ہے۔

اس تبادلے خیال میں فطری پیشرفت،  مسئلہ کو بیان کرنے سے آگے بڑھ کر حل تلاش کرنا ہوگی۔

میں سی ڈی آرکو ان کی سالانہ کانفرنس کے اس ایڈیشن  کو حل کی  تلاش پر توجہ مرکوز کرنے پر مبارکباد دینا چاہوں گا۔

میں پانچ موضوعات پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں، جو میرے خیال میں،  حل کی تلاش کے لیے بنیاد ہو سکتے ہیں:

سب سے پہلے، ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ جدید ادارے جو منظم  سوچ کو اپناتے ہیں کامیابی کے لیے سب سے اہم شرط ہیں۔ ہم 21ویں صدی کے مسائل کے حل کے لیے 20ویں صدی کے ادارہ جاتی نقطہ نظر کو استعمال نہیں کر سکتے۔ میں ایک مثال سے اس کی وضاحت کرنا چاہتا  ہوں۔ بھارت کا کثیر ماڈل والی کنیکٹیویٹی کے لیے قومی ماسٹر پلان (پردھان منتری گتی شکتی) ایک منفرد تصوراتی اور آپریشنل فریم ورک ہے جو تمام متعلقہ وزارتوں اور حکومت ہند کے محکموں اور یہاں تک کہ ریاستی حکومتوں کو پروجیکٹوں کی زیادہ جامع اور مربوط منصوبہ بندی کے لیے یکجا کرتا ہے۔

روڈ ویز، ریلویز، ایئر ویز، اور آبی گزرگاہوں کی وزارتوں کو آپس میں مربوط کرنا آسان نہیں ہے – ان میں،  ہر ایک، ایک صدی یا اس سے زیادہ قائم ادارے ہیں جن کے کام کرنے کے طریقے الگ الگ ہیں۔ لیکن مستقبل کے لیے تیار اداروں کی تعمیرکے لیے سخت محنت کے بغیر ہم طویل مدت میں نہ تو  اچھی کارکردگی حاصل کر سکیں گے اور نہ ہی بنیادی ڈھانچے میں آفات کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکیں گے۔ خلاصہ یہ کہ ہمیں تکنیکی اختراع پر جنتی توجہ مرکوز کرنی چاہیے تو اگر اُس سے زیادہ نہیں تو اتنی توجہ ادارہ جاتی اختراع پر بھی دی جانی چاہیے۔

دوسرا، ہمیں اپنے بنیادی ڈھانچے کے نظام میں متبادل کے بارے میں زیادہ احتیاط سے  غور کرنا ہوگا۔ متعدد تبدیلیوں کے درمیان، ہمیں ایک تکراری نقطہ نظر کو اپنانے اور ابھرتے ہوئے منظرناموں کا جواب دینے کے قابل ہونا چاہیے۔ اگر مستقبل غیر یقینی ہے، تو ہم اپنے آپ کو کام کرنے کے صرف ایک طریقے میں بند نہیں کر سکتے۔

تیسرا، اپنے اداروں کو جدید بنانے اور تیز ی سے آگے بڑھنے کے لیے ہمیں ایسی  صلاحیتوں کی ضرورت ہوگی جس کی دنیا میں – جنوب اور شمال دونوں میں – اس وقت کافی کمی ہے۔ ہمیں ایسے پیشہ ور افراد کی ضرورت ہے جو اپنے شعبوں میں  مہارت رکھتے ہوں لیکن جو متعدد اور متنوع شعبوں کے ساتھ  کام کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہوں۔

ہمیں ایسے انجینئرز کی ضرورت ہے جو سماجی اور معاشی خدشات کو سمجھتے ہوں اور ہمیں ایسے سماجی سائنسدانوں کی ضرورت ہے جو ٹیکنالوجی کے وعدوں کو سمجھتے ہوں۔ اس سلسلے میں، آفات کو برداشت کرنے والے بنیادی ڈھانچے کے لیے کثیر الضابطہ تعلیمی نیٹ ورک کے آغاز کے لیے سی ڈی آرکا اقدام ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

چوتھا، جب کہ ہم شمال-جنوب، جنوب-جنوب، شمال-شمال تبادلے کی سہولت فراہم کرنا چاہتے ہیں، بنیادی ڈھانچے کی خدمات کا ایک بڑا حصہ جنوب میں فراہم کرنا ہوگا۔ لہٰذا، حل کی تلاش میں ہمیں ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے استطاعت، توسیع پذیری اور پائیداری پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

اور آخر میں، جیسا کہ تیزی سے تسلیم کیا جا رہا ہے،  صرف ٹھوص اثاثوں کی تخلیق کے برعکس لوگوں کے لیے قابل اعتماد بنیادی ڈھانچے کی خدمات کے لحاظ سے نتائج کی پیمائش کرنا ضروری ہے۔

خلاصہ یہ  ہےکہ اگر ہم اپنے اداروں کو جدید بنانے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، متبادل کو برقرار رکھتے ہیں، کثیر الضابطہ صلاحیتیں پیدا کرتے ہیں، اس بات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے کیا کام  کیا جائے، اور اسے عوام پر مرکوز بناتے ہیں، تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے آفات کو برداشت کرنے والے بنیادی ڈھانچے کے لیے  راہ ہموار کرنے کے  قابل ہو جائیں گے۔

ہم پیچیدہ چیلنجوں اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار غیرمعمولی دور سے گزر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس منفرد امکانات بھی موجود ہیں۔  برداشت (لچک) کے معاملات پر یہ عالمی پیش رفت ہے۔

ابھی پچھلے ہفتے جی 20 ممالک نے آفات میں خطرات کی کمی کے معاملات پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے پہلی مرتبہ میٹنگ کی تھی۔  اقوام متحدہ دو ماہ سے بھی کم عرصے میں سینڈائی فریم ورک پر پیشرفت پر تبادلہ خیال کے لیے اعلیٰ سطحی سیاسی فورم  طلب کرے گا۔

یہ بہترین مواقع کا ایک عظیم لمحہ ہے۔ آئیے اس سے فائدہ اٹھائیں۔

شکریہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ و ا۔ ت ح۔

U –3707