Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

انٹرپرینیورنکھل کامتھ کے ساتھ وزیر اعظم کی بات چیت کا متن

انٹرپرینیورنکھل کامتھ کے ساتھ وزیر اعظم کی بات چیت کا متن


 وزیر اعظم – آپ نے اب تک کتنی پوڈ کاسٹ پوسٹس کی ہیں؟

نکھل کامتھ – 25 سر۔

وزیر اعظم – 25 !

نکھل کامتھ – ہاں، لیکن ہم اسے مہینے میں صرف ایک بار کرتے ہیں!

پی ایم-  اچھا  !

نکھل کامتھ – میں ہر مہینے ایک دن پوڈ کاسٹ کرتا ہوں اور باقی مہینے میں کچھ نہیں کرتا۔

وزیر اعظم – دیکھئے، جس نے کسی کے ساتھ کرنا ہے، ہم اسے ایک ماہ کا وقت دیتے ہیں اور اسے آرام دیتے ہیں۔

نکھل کامتھ -ٹھیک ہے سر، ہم نے جو پوڈ کاسٹ کیے ہیں وہ گہرائی میں جاکر کرتے ہیں.. ہمارے پورے سامعین 15-40 کے زمرے میں ہیں، جو پہلی بار انٹرپرینیور شپ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت، میٹا کے بارے میں ایک ایپی سوڈ، ہم اس طرح دواسازی چیزوں کے بارے میں بھی بہت مخصوص عنوانات کرتے ہیں اور ایک اور چیز جو ہم نے ابھی شروع کی ہے وہ ہے لوگ، جہاں ہم نے بل گیٹس جیسے لوگوں سے بات کی ہے، لیکن پھر سے وہ اس صنعت کے لیے بہت مخصوص ہیں۔

وزیر اعظم – سب سے پہلے، یہ پہلی بار ہے کہ یہ پوڈ کاسٹ میرے لیے ہو رہا ہے اور اس لیےیہ دنیا میرے لیے بھی بالکل نئی ہے۔

نکھل کامتھ – تو سر معاف کیجئے،میری ہندی اچھی نہیں ہے ، میں ایک جنوبی ہندوستانی ہوں، میں زیادہ تر بنگلور میں پلا بڑھا ہوں اور وہاں کے لوگ، میری ماں کا شہر میسور ہے اس لیے وہاں کے زیادہ تر لوگ کنڑ بولتے ہیں اور میرے والد منگلور کے قیب رہنے والے تھے، میں نے اسکول میں ہندی سیکھی تھی، لیکن بہت روانی سے نہیں،لوگ کہتے ہیں کہ زیادہ تر بات چیت  نن وربل ہوتی ہے، جسے لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر سمجھتے ہیں! تو مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ٹھیک ہونا چاہئے۔

وزیر اعظم – دیکھو، میں بھی ہندی بولنے والا نہیں ہوں، ہم دونوں کے لیے ایسا ہی ہوگا۔

نکھل کامتھ – اور ہمارا یہ پوڈ کاسٹ ہے کوئی روایتی انٹرویو نہیں ہے، میں صحافی نہیں ہوں، ہم زیادہ تر ان لوگوں سے بات کرتے ہیں جو پہلی بار انٹرپرینیور شپ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس لیے ہم انہیں بتاتے ہیں کہ ایک کاروباری بننے کے لیے کیا ضروری ہے۔ انڈسٹری، فنڈنگ ​​پہلی چیز ہے کہ وہ بارز کہاں سے حاصل کریں گے، انہیں سیکھنے کے لیے آن لائن مواد کہاں سے ملے گا، اس لیے ہم اس زون سے آرہے ہیں اور آج راستے میں ہم سیاست اور انٹرپرینیورشپ کے درمیان ہم آہنگی کو چھوڑنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ ان دونوں میں بہت سی مماثلتیں ہیں جن کے بارے میں آج تک کسی نے بات نہیں کی۔ تو ہم اس سمت کو لے کر آگے بڑھیں گے۔ لہذا اگر آپ اس پوڈ کاسٹ میں اپنے آپ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے ہیں، تو میرے پاس کوئی اچھا جواب نہیں ہے۔ لیکن  آپ پوچھ سکتے ہیں۔ اس پوڈ کاسٹ میں، میں جس چیز کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں وہ آپ کی زندگی کا پہلا حصہ ہے۔ پری پی ایم، پری سی ایم، آپ کہاں پیدا ہوئے، آپ نے پہلے 10  برسوں میں کیا کیا؟ اگر آپ اپنی زندگی کے پہلے دور پر کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں۔

وزیر اعظم – دیکھیں، سب جانتے ہیں کہ میں گجرات میں پیدا ہوا تھا، شمالی گجرات کے  ضلع مہسانہ میں، وڈ نگر وہاں کا ایک چھوٹا سا شہر ہے! جب ہم چھوٹے تھے، آبادی شاید صرف 15000 تھی، مجھے یہ تقریباً موٹے طور پر یاد ہے، میں اسی جگہ سے ہوں۔ لیکن پھر، جس طرح ہر ایک کا اپنا گاؤں ہوتا ہے، میرا  بھی اپنا گاؤں تھا، میرا گاؤں ایک طرح سے گائیکواڈ ریاست تھا۔ تو یہ گایئکواڈ ریاست کی خاصیت تھی ہر گاؤں میں تعلیم کیلئے بڑا جوش و خروش جوش تھا۔ ایک تالاب ہوتاتھا، ایک ڈاکخانہ ہوا کرتا تھا، ایک لائبریری تھی، ایسی چار پانچ چیزیں، یعنی اگر گائیکواڈ ریاست ہوتا، تو ان کے یہاں یہی نظام ہوتا  تھا، تو میں اسی گائیکواڈ اسٹیٹ کی جو پرائمری اسکول  بنی ہوئی تھی  اسی میں پڑھا تھا ، میرا بچپن  وہیں گذرا۔ وہاں ایک تالاب تھا اس لیے میں نے وہاں تیراکی سیکھی، میں اپنے گھر والوں کے کپڑے دھوتا تھا اور اسی وجہ سے مجھے تالاب پر جانے کی اجازت مل  جاتی تھی ۔ بعد میں وہاں ایک بھگوت آچاریہ نارائن آچاریہ ہائی اسکول تھا، بی این اے اسکول۔ وہ بھی ایک طرح سے خیراتی اسکول تھا، آج کی تعلیم کی حالت جیسی  نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے اپنی تعلیم وہیں  مکمل کی۔ اس وقت یہ 10+2 نہیں تھا، گیارہواں کلاس  ہو اکرتا تھا۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ چینی فلسفی ژوانژینگ-اول میرے گاؤں میں ٹھہرے تھے ،اس پر ایک  فلم بنانے  والے تھے  تو میں نے اس وقت سفارت خانے یا کسی کو خط لکھا تھا کہ بھائی میں نے کہیں پڑھا ہے کہ آپ ژوانژینگ-اول پر فلم بنا رہے ہیں، وہ میرے گاؤں میں  ٹھہرے تھے۔ اس کا بھی کہیں ذکر کرنا ، ایسا کرکے میں نے  کچھ کوشش کی تھی ۔ یہ بہت سال پہلے کی بات تھی۔

اس سے پہلے میرے گاؤں میں ایک رسک بھائی دوے کرکے تھے، وہ آبائی طور سے سوراشٹر کے رہنے والے تھے، وہ بھی کچھ سوشلسٹ خیالات رکھتے تھے اور میرے گاؤں میں آکر آباد ہوئے تھے۔ وہ ہم ا سکول کے بچوں کو کہا کرتے تھے بھائی دیکھو جہاں بھی جاؤ اور کوئی پتھر ملے جس پر کچھ لکھا ہو یا کچھ کندہ ہو تو وہ پتھر اٹھا کرا سکول کے اس کونے میں رکھ دینا۔ رفتہ رفتہ یہ ایک بڑا ڈھیر بن گیا، پھر میں نے سمجھا کہ ان کا ارادہ یہ ہے کہ یہ بہت قدیم گاؤں ہے، یہاں کے ہر پتھر کی کوئی نہ کوئی کہانی ہے۔ ان سب کو  اکٹھے کر لو، جب بھی کوئی آئے گا یہ دیکھے گا۔ شایدیہ میرامحض ایک تخیل تھا۔ تو میرا دھیان بھی اس طرف چلا گیا۔ جب میں 2014 میں وزیر اعظم بنا تو قدرتی طور پر عالمی رہنما فون کرتے ہیں، تو چینی صدر شی نے مجھے فون کیا اور میں نے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا وغیرہ وغیرہ۔پھر انہوں نے خود کہا کہ وہ ہندوستان آنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا آپ کا استقبال ہے، آپ ضرور آئیں۔ پھر انہوں نے کہا لیکن میں تو گجرات جانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا یہ اور بھی اچھی بات  ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کے  گاؤں وڈ نگر جانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا، کیا بات ہے، آپ نے وہاں تک کا پروگرام بنادیا ہے۔ انہوں  نے پوچھا  آپ جانتے ہو کیوں،میں نے کہا نہیں مجھے نہیں معلوم تو انہوں نے کہا  آپ کا اور میرا خاص رشتہ ہے۔ میں نے پوچھا کیا، چینی فلسفی ژوانژینگ-اول، وہ سب سے زیادہ آپ کے گاؤں میں رہے تھے، لیکن جب وہ واپس چین لوٹے تو وہ میرے گاؤں میں ہی رہے تھے ۔ تو انہوں  نے کہا کہ ہم دونوں کا یہ تعلق ہے۔

نکھل کامتھ – اور اگر آپ کو اپنے بچپن کے بارے میں مزید باتیں یاد ہیں، جب آپ جوان تھے، کیا آپ اچھے طالب علم تھے، اس وقت آپ کی دلچسپیاں کیا تھیں ؟

پی ایم – میں ایک بہت عام طالب علم تھا،  کوئی کسی طرح میرا نوٹس کرے ایسا نہیں تھا، لیکن میرے ایک استاد تھے جن کا نام ویلجی بھائی چودھری تھا، وہ مجھے بہت  شفیق رکھتے تھے، ایک دن وہ میرے والد سے ملنے گئے۔ میرے والد مجھے بتا رہے تھے کہ ان میں بہت زیادہ ٹیلنٹ ہے لیکن وہ کسی چیز پر توجہ نہیں دیتا ہے، وہ صرف مختلف  طرح کے کام کرتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہر چیز کو اتنی جلدی پکڑ لیتا  ہے لیکن پھر اپنی ہی دنیا میں کھو جاتا ہے، تو ویلجی بھائی کو مجھ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں۔اس لیے میرے اساتذہ مجھ سے بہت  شفیق رکھا کرتے تھے، لیکن مجھے مزید پڑھنا تھا، اگر اس میں مقابلے کا عنصر ہوتا تو شاید میں اس سے بھاگ جاتا۔ مجھے اس میں کوئی  خاص دلچسپی نہیں تھی، یہ تو بس بھائی امتحان پاس کرنا، امتحان سے باہر نکلنا وغیرہ تھا، لیکن میں دوسری بہت سی سرگرمیوں میں شامل رہاکرتا تھا۔ کسی بھی نئی چیز کو فوراً سمجھ لینا میری فطرت تھی۔

نکھل کامتھ – سر، کیا آپ کے بچپن کا کوئی دوست  ہے جن سے آپ اب بھی رابطے میں ہیں؟

وزیر اعظم صاحب – ایسا ہے کہ میرا معاملہ تھوڑا عجیب ہے، میں نے بہت چھوٹی عمر میں گھر بار چھوڑ دیا، گھر چھوڑنے کا مطلب ہے کہ میں نے سب کچھ چھوڑ دیا، میرا کسی سے کوئی رابطہ نہیں تھا، بہت بڑا خلا پیدا ہوگیاتھا، اس لیے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ میرا کسی سے کوئی لینایا  دینا بھی نہ تھا تو میری جان بھی کسی انجان آدمی کی تھی جو اس طرح گھومتا پھرتا ہے جو مجھ سے میرے بارے کچھ  پوچھے۔ یوں میری زندگی بھی ایک انجان شخصیت جیسی تھی،  لیکن جب میں وزیراعلیٰ بنا تو میرے ذہن میں کچھ خواہشات نے جنم لیا۔ میرے اندر ایک خواہش پیدا ہوئی کہ  کیوں نا میں اپنے کلاس کے تمام پرانے دوستوں کو سی ایم ہاؤس بلاؤں۔ اس کے پیچھے میری نفسیات یہ تھی کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے لوگوں میں سے کوئی یہ محسوس کرے کہ میں بڑا  تیس مار خان بن گیا ہوں۔ میں وہی شخص ہوں جو برسوں پہلے گاؤں چھوڑ گیا تھا، مجھ  میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، اس لمحے کو میں جینا چاہتا تھا اور اور جینے کا طریقہ یہ ہے کہ  میں  ان دوستوں کے ساتھ بیٹھوں۔ لیکن میں انہیں ان کے چہرے سے بھی نہیں پہچان سکتا تھا کیونکہ ہمارے درمیان کافی  عرصہ بیت گیا تھا، ان کے بال سفید ہو چکے تھے، بچے بڑے ہو چکے تھے، لیکن میں نے سب کو بلایا، شاید ہم میں سے 30-35 لوگ جمع ہو چکے تھے اور رات کو وہاں ایک بڑا  دعوت  کا اہتمام کیا گیا،  اورساتھ میں کھانا کھایا، گپ شپ کی، بچپن کی پرانی یادیں تازہ کیں، لیکن مجھے اس  میں زیادہ مزہ نہیں آیا، کیونکہ میں ایک دوست کی تلاش میں تھا، لیکن انہوں نے مجھے وزیر اعلیٰ کے طور پر دیکھا۔ اس لیے وہ خلا پُر نہ ہوا اور شاید میری زندگی میں کوئی ایسا نہ بچا جو مجھے ‘تم’ کہہ سکے، ایسی صورت حال پیدا ہو گئی، وہ سب اب بھی رابطے میں ہیں لیکن وہ مجھے بڑے احترام سے دیکھتے رہتے ہیں۔  صرف  ایک میرے استاد راس بہاری منیہار تھے، ان کا انتقال کچھ عرصہ قبل ہوا تھا ،ان کی عمر تقریباً 93-94  برس تھی۔ وہ ہمیشہ مجھے خطوط لکھتے تھے، جس میں وہ مجھے‘تم’ لکھتے تھے، باقی ان کی ایک خواہش تھی کہ جب میں وزیر اعلیٰ بنا تو میں اپنے اسکول کے دوستوں کو بلاؤں، جومیں نے پورا کیا۔

میری دوسری خواہش، جو ہندوستان میں لوگوں کو عجیب لگتی ہے، یہ تھی کہ میں اپنے تمام اساتذہ کی سرعام عزت کرنا چاہتا تھا، اس لیے میں نے ان تمام لوگوں کی تلاش کی جنہوں نے مجھے بچپن سے پڑھایا تھا اور ان تمام لوگوں کو جو اسکول جانے تک میرے استاد رہے تھے۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد میں نے ان کی عوامی سطح پر عزت افزائی کی اور ہمارے گورنر شرما جی بھی اس پروگرام میں آئے۔ اس پروگرام میں گجرات کے تمام نامور لوگ موجود تھے اور میرے ذہن میں یہ پیغام تھا کہ میں جو بھی ہوں اس میں سب نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ مجھے بنانے میں کسی نہ کسی طرح، ان میں سے کوئی نہ کوئی بال مندر میں میرے استاد رہے ہوں گے، سب سے پرانے استاد کی عمر 93 سال تھی، تقریباً 30-32 اساتذہ کو بلایا گیا اور میں نے ان سب کو سرعام عزت دی، میری زندگی میں وہ  سب بہت اچھے لمحات میں سے ایک تھے، مجھے ایسا نہیں لگتا، پھر ایک دن میں نے اپنی زندگی میں یہ کیاکہ  اپنا بڑا خاندان جو کہ میرا بھائی، اس کے بچے، بہن، اس کے بچے، اس کے تمام خاندان کے افراد تھے، جو بھی خاندان کے فرد تھے ، میں انہیں پہچانتا بھی نہیں تھا، کیونکہ میں سب کو چھوڑ چکا تھا۔ لیکن ایک دن میں نے ان  سبھی کو اپنے سی ایم ہاؤس بلایا۔ مجھے تمام گھر والوں سے متعارف کرایاگا کہ یہ کس کا بیٹا ہے،  کس  کی شادی کہاں ہوئی ہے، کیونکہ ان سے میرا کوئی رشتہ نہیں رہا تھا۔ یہ تیسرا کام تھا جو میں نے کیا۔ چوتھا، جب میں سنگھ کی زندگی میں تھا۔ اس لیے شروع شروع میں میں ایسے خاندانوں میں جاتا تھا جہاں سے مجھے کھانا ملتا تھا اور بہت سے خاندان ایسے تھے جنہوں نے مجھے کھانا کھلایا تھا کیونکہ میرے پاس کھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا اور میں ساری زندگی اسی طرح کھانا کھاتا تھا۔ اس لیے میں نے ان سب کو بلایا تھا، اس لیے جس کو کہا جائے کہ میں نے کچھ کام اپنی مرضی سے کیے ہیں، مجھے 25 سال ہو گئے ہیں، اس لیے میں نے یہ چار کام کیے ہیں۔ میں نے اسکول سے دوستوں کو بلایا، جن لوگوں کے گھر میں کھانا کھاتا تھا، میں نے اپنے گھر والوں کو بلایا، اور میں نے اپنے اساتذہ کو بلایا۔

نکھل کامتھ – آپ کو شاید یاد نہ ہو کہ کچھ سال پہلے آپ بنگلور آئے تھے اور اسٹارٹ اپ کے لوگوں سے مل رہے تھے اور رات کی اپنی آخری میٹنگ میں آپ ہم سے ملے تھے اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ آپ کے پاس اس کے ساتھ 15 منٹ ہیں لیکن آپ بیٹھ گئے۔ گھنٹوں بیٹھے تھے، اور اگر آپ کو یاد ہے، میں تب بھی آپ سے سوالات پوچھ رہا تھا! میرے خیال میں سوال پوچھنا جواب دینے سے زیادہ آسان ہے۔ اور میں بھی آپ کو کچھ کہہ رہا تھا کہ جو ہو رہا ہے شاید اچھا نہیں ہے، اور آپ سن رہے تھے۔ اگر آپ کو یہ سوچنا ہے کہ معاشرے میں کچھ لوگ اور کچھ عمر کے لوگ ہیں جن کے ساتھ آپ کا تعلق بہت مضبوط ہے، اگر آپ عمر کے گروپ کی وضاحت کر سکتے ہیں تو یہ کیا ہوگا؟

وزیر اعظم – تو  میرے لئے کہا جاتا تھا کہ اگر آپ کوئی نریندر بھائی کو ڈھونڈنا چاہتے ہیں تو آپ انہیں کہاں ڈھونڈیں گے، تو کہاں ڈھونڈوگے یار،  وہ 15-20 نوجوانوں کے درمیان ہنس رہا ہوگا۔ تو یہ بھی میرا امیج تھا اور یہی وجہ ہے کہ آج مجھے کسی بھی شعبے یا کسی بھی عمر کے گروپ سے کوئی دوری محسوس نہیں ہوتی جہاں تک لفظ کنیکٹ کا تعلق ہے، میرے پاس اس کا صحیح جواب نہیں ہے، لیکن مجھے کوئی دوری محسوس نہیں ہوتی۔

نکھل کامتھ – جیسا کہ آپ کہہ رہے تھے کہ آپ کو مقابلہ پسند نہیں ہے، جِدو کرشنامورتی جیسے لوگ بہت سے ترقی یافتہ سوچ رکھنے والے، وہ کہتے ہیں کہ مقابلہ اچھا نہیں ہے۔ کوئی اس مکتبہ فکر سے سیاست میں آئے جہاں مقابلہ بہت ہو، وہ اسی نظریے کو سیاست میں کیسے لا سکتا ہے۔

وزیر اعظم – دیکھئے، بچپن میں مقابلہ نہ ہو تو کاہلی جنم لے گی۔ کوئی بڑا فلسفہ یا کچھ نہیں ہوگا۔ میرا بھی وہی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہوگا جو بچوں کے ساتھ ہوتا ہے، میں نہیں مانتا کہ کوئی فلسفہ میری رہنمائی کرتا ہے، میں نہیں مانتا۔ میرے خیال میں یہ ٹھیک ہے، وہ زیادہ نمبر لائے گا، لائے گا۔ میں اپنے بارے میں زیادہ فکر کیوں کروں۔ دوسری بات یہ کہ میں بندروں کے تاجر کی طرح تھا، اس وقت جو ہاتھ آتا تھا اسے چھو لیتا تھا، اس لیے یقین کیجیے کہ اگر کوئی ایسا مقابلہ ہوا تو میں اس میں حصہ لوں گا، ڈرامہ کا مقابلہ ہو گا تو ضرور حصہ لوں گا۔ میرا مطلب  یہ ہے کہ میں یہ کام آسانی سے کر لیتا تھا اور میرے پاس مسٹر پرمار نام کے ایک استاد تھے، جو سینئر تھے، یعنی وہ پی ٹی ٹیچر کہلاتے ہیں، غالباً فزیکل ٹریننگ ٹیچر۔ چنانچہ میرے یہاں ایک حویلی میں ایک چھوٹا سا اکھاڑا تھا جس سے میں اتنا متاثر ہوا کہ اس وقت میں وہاں باقاعدگی سے جایا کرتا تھا اور ‘ملکھمب’ سیکھتا تھا۔ میں کشتی سیکھتا تھا۔ کشتی اور ملکھمب جو لکڑی کا ایک بہت بڑا ستون ہوتا  ہے، خاص طور پر مہاراشٹر میں- ملکھمب مضبوط جسم کی تعمیر کے لیے ایک بہترین ورزش ہے۔ یہ ایک قسم کا یوگا ہے جو ستون پر کیا جاتا ہے، اس لیے میں صبح 5 بجے  اٹھ کر وہاں  چلاجایا کرتاتھا اور وہ میری تھوڑی بہت مدد کرتے تھے۔ لیکن میں کھلاڑی نہیں بنا، ٹھیک ہے، میں نے اسے کچھ وقت کے لیے چھوڑ دیا، ایسا ہی تھا۔

نکھل کامتھ – کیا ایسی کوئی چیزیں ہیں جنہیں سیاست میں سیاستدان کے لیے ٹیلنٹ سمجھا جا سکتا ہے؟ مثال کے طور پر، انٹرپرینیورشپ میں، جب کوئی کمپنی شروع کر رہا ہوتا ہے، اس کے لیے فطری طور پر تین یا چار ہنر کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کوئی جو مارکیٹنگ میں اچھا ہو، کوئی جو سیلز میں اچھا ہو، کوئی ایسا شخص جو ٹیکنالوجی میں اچھا ہو اور پروڈکٹ تیار کرے۔ آج اگر کوئی نوجوان سیاست دان بننا چاہتا ہے تو اس کے پاس کوئی نہ کوئی ٹیلنٹ ہونا چاہیے جسے آپ آزما سکتے ہیں اور یہی ہونا چاہیے۔

وزیر اعظم – یہ دو مختلف چیزیں ہیں- ایک سیاستدان بننا اور دوسری چیز  سیاست میں کامیاب ہونا ہے۔ تو ایک سیاست میں آنا ہے، دوسرا کامیاب ہونا ہے، میرا ماننا ہے کہ اس کے لیے آپ کو لگن، عزم کی ضرورت ہے۔ آپ کو لوگوں کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہونا چاہیے، آپ کو حقیقت میں ایک اچھا ٹیم پلیئر ہونا چاہیے۔ اگر آپ  یہ کہیں کہ میں بڑا جنگجو ہوں اور سب کو دوڑاؤں گا، ہر کوئی میرے حکم پر عمل کرے گا، تو ممکن ہے اس کی سیاست پھلے پھولے، وہ الیکشن جیت جائے لیکن اس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ کامیاب ہو جائے۔اور دیکھئے ، ملک میں ،کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ملک میں ایسا بھی ہوسکتا ہے، میں جو سوچتا ہوں وہ تنازع بھی پیدا کرسکتاہے ، جب آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو اس میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہوئے،  لیکن سب سیاست میں نہیں آئے ، کچھ لوگوں نے  بعد میں  اپنی  زندگی تعلیم، کچھ نے کھادی، کچھ  نےتعلیم بالغاں، کچھ  نے قبائلیوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف  کردی اور وہ ایسے تخلیقی کاموں میں لگ گئے۔ لیکن تحریک آزادی حب الوطنی سے متاثر ایک تحریک تھی کہ ہر ایک کو یہ جذبہ تھا کہ وہ ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں کریں گے۔ آزادی کے بعد ان میں سے بہت سے لوگ سیاست میں داخل ہوئے اور شروع میں، سیاست کے بعد، ہمارے ملک کے تمام باوقار رہنما ،وہ رہنما تھے جو جدوجہد آزادی سے ابھرے تھے۔

اس لیے ان کی سوچ، ان کی پختگی، اس کی شکل بالکل مختلف ہے جو ہم اس کے رویے کے بارے میں سنتے ہیں، اس لیے میری رائے ہے کہ اچھے لوگوں کو سیاست میں آتے رہنا چاہیے۔ کسی  خواہش کے ساتھ نہیں، اگر آپ مشن لے کر نکلے ہیں تو آپ کو کہیں نہ کہیں جگہ ملے گی، مشن کو خواہشات سے بالاتر ہونا چاہیے، پھر آپ میں صلاحیت ہوگی۔ اب اگر آپ آج کے دور کے  سیاست کی تعریف کریں اور د یکھیں تو اس میں مہاتما گاندھی کہاں فٹ بیٹھتے ہیں؟ شخصیت کے لحاظ سے وہ دبلے پتلے تھے  اور ان میں تقریر کی کوئی مہارت نہیں تھی، اس لیے اگر ہم ا نہیں اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو وہ لیڈر نہیں بن سکتے تھے، تو کیا وجہ تھی کہ اس طاقت نے پورے ملک کو ان  پیچھے کھڑا کر دیا۔

اور یہی وجہ ہے کہ آج کل سیاست دان کی جو شکل بڑی پروفیشنل کیٹیگری میں دیکھی جا رہی ہے، انہیں  پھولوں سے بھری تقریریں کرنی چاہئیں، یہ کچھ دنوں تک چلتا رہتا ہے، لوگوں کی تالیاں ملتی ہیں، لیکن آخر کار زندگی کام کرتی ہے۔ دوسری رائے میری اپنی ہے کہ تقریر اور تقریر کا فن ابلاغ سے بھی زیادہ اہم ہے، آپ بات چیت کیسے کرتے ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ مہاتما گاندھی اپنے ہاتھ میں ایک چھڑی پکڑا کرتے تھے جو خود سے اونچی تھی لیکن وہ عدم تشدد کی وکالت کرتے تھے۔ یہ ایک بہت بڑا تضاد تھا لیکن وہ بات چیت کرتے تھے۔ مہاتما جی نے کبھی ٹوپی نہیں پہنی لیکن دنیا گاندھی ٹوپی پہنتی ہے، ان کے پاس رابطے کی طاقت تھی، مہاتما گاندھی کے پاس سیاسی میدان تھا، ان کے پاس سیاست تھی لیکن حکمرانی نہیں، انہوں نے الیکشن نہیں لڑا، وہ اقتدار میں نہیں بیٹھے لیکن بعد میں،ان کی موت پر ان سب  نے گاندھی ٹوپی پہنی جو بعد میں بنائی گئی اس کا نام راج گھاٹ رکھا گیا۔

نکھل کامتھ – اور جو آپ نے ابھی کہا ہے، آج کی اس پوری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ ہم نوجوانوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ سیاست کے بارے میں بطور کاروباری سوچ رکھیں اور میں اس کے آخر میں امید کر رہا ہوں، 10000 ہوشیار ہندوستانی نوجوان آپ کی زندگی سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں، کوشش کرنے اور ہندوستان میں سیاست دان بننے کی تحریک حاصل کرتے ہیں۔

وزیر اعظم – میں نے لال قلعہ سے کہا تھا کہ ملک کو ایسے ایک لاکھ نوجوانوں کی ضرورت ہے جو سیاست میں آئیں اور میرا ماننا ہے کہ اگر مقصد لینا، حاصل کرنا، بننا ہے تو ان  کی عمر زیادہ لمبی نہیں ہے۔ ایک کاروباری شخص کو جو پہلی تربیت ملتی ہے وہ بڑھنے کی ہوتی ہے، یہاں پہلی تربیت اپنے آپ کو وقف کرنے کی ہوتی ہے، جو کچھ کسی کے پاس ہے اسے دینا، میں، میری کمپنی یا میرا پیشہ نمبر ون کیسے بن سکتا ہے۔ یہاں یہ نیشن فرسٹ ہے، یہ بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ اور معاشرہ بھی انہی لوگوں کو قبول کرتا ہے جو پہلے قوم کا سوچتے ہیں اور یہ سیاسی زندگی آسان نہیں ہوتی، لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، یہ کچھ لوگوں کی قسمت میں ہے کہ انہیں کچھ نہیں کرنا ہوتا، اسے مل جاتا تھا، لیکن اس کی کوئی وجہ ہو سکتی ہے، میں اس میں نہیں جانا چاہتا، لیکن میں جانتا ہوں کہ ہمارے پاس اشوک بھٹ نام کا ایک ورکر تھا، وہ اپنی زندگی کے آخر تک ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا، وہ کئی بار وزیر رہے ہمارے پاس اپنی گاڑی یا کچھ نہیں تھا اور پہلے موبائل فون نہیں تھے، لینڈ لائنز تھیں۔ آپ اسے رات کے 3 بجے کال کریں، وہ آدھی گھنٹی کے بعد فون اٹھاتا اور آپ اسے کہتے کہ دیکھو بھائی، اس وقت میں سیاست میں نہیں تھا لیکن احمد آباد راج کوٹ ہائی وے پر بہت سارے حادثات ہوئے، قریب ہی۔ بگودرہ (واضح نہیں) جگہ ہے اس لیے ہفتے میں دو دن مجھے فون آتے تھے کہ یہاں کوئی بڑا حادثہ ہو گیا ہے تو میں اشوک بھٹ کو فون کرتا تھا اور وہ کہتے تھے کہ ٹھیک ہے اور وہ کچھ دیر بعد چلے جائیں گے، وہ خود نہیں آئے۔ کوئی گاڑی ہو یا کچھ بھی ہو، وہ کسی کو بھی پکڑیں ​​گے، ٹرک پکڑیں ​​گے، ہم نے ساری زندگی اسی طرح گزاری۔

نکھل کامتھ – کیا آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کوئی بھی نوجوان یہ نہ سوچے کہ وہ سیاست دان بننا چاہتا ہے، لیکن اسے یہ سوچ کر آنا چاہیے کہ وہ سیاست دان بننے کے بعد کیا کرے گا۔

وزیر اعظم – یہ اسی طرح ہے کہ اکثر لوگ سیاست دان نہیں بننا چاہتے، وہ کہتے ہیں کہ میں ایم ایل اے بننا چاہتا ہوں، میں کارپوریٹر بننا چاہتا ہوں، میں ایم پی بننا چاہتا ہوں، یہ ایک الگ زمرہ ہے۔ سیاست میں آنے کے لیے الیکشن لڑنا ضروری نہیں، یہ جمہوریت کا عمل ہے، موقع ملے تو لڑ سکتے ہیں، کام کے ذریعہ عام لوگوں کے دلوں کو  جیتنا ہے، الیکشن بعد میں جیتے ہیں اور دل  جیتنے کے لیے پیدا ہوتا ہے۔ عام لوگوں کے دلوں میں زندگی بسر کرنی ہے، زندگی کو ان سے جوڑنا ہے اور ایسے لوگ آج بھی ملک میں موجود ہیں۔

نکھل کامتھ – اگر آپ آج کے سیاست دانوں کے بارے میں بات کریں جو نوجوان ہیں، تو کیا آپ دیکھتے ہیں کہ کسی میں بھی بہت زیادہ صلاحیت ہے۔

وزیر اعظم – بہت سارے لوگ ہیں، بہت سارے لوگ ہیں اور وہ اپنی پوری کوشش کرتے ہیں، وہ دن رات محنت کرتے ہیں، وہ مشن موڈ میں کام کرتے ہیں۔

نکھل کامتھ – آپ کے ذہن میں کوئی ایک آدمی۔

وزیراعظم – اگر میں نام کہوں گا تو بہت سے لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی، اس لیے یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں کسی کے ساتھ ناانصافی نہ کروں، دیکھیں ، میرے سامنے بہت سے نام ہیں، کئی چہرے، میں بہت سے لوگوں کی تفصیلات جانتا ہوں۔ مجھے معلوم  ہے۔

نکھل کامتھ – جب آپ پہلے لوگوں کے ساتھ رہنے، ان کے لیے احساس، ہمدردی، ہمدردی کے بارے میں کہہ رہے تھے، کیا آپ کے بچپن میں کوئی ایسی چیز تھی جس نے آپ کو ایسا بنایا؟

وزیر اعظم – مطلب !

نکھل کامتھ – میرا مطلب ہے جیسا کہ آپ کہہ رہے تھے کہ جب آپ سیاست دان بننا چاہتے ہیں تو یہ آپ کے بارے میں نہیں ہے، آپ ثانوی ہیں، جن لوگوں کے لیے آپ سیاست دان ہیں وہ سب سے پہلے ہیں۔ آپ کے بچپن میں کچھ ایسا تھا جس کی وجہ سے ایسا ہوا ۔

نکھل کامتھ – مطلب جیسا کہ آپ کہہ رہے تھے کہ جب آپ سیاست دان بننا چاہتے ہیں تو یہ آپ کے بارے میں نہیں ہے، آپ ثانوی ہیں، جن لوگوں کے لیے آپ سیاست دان ہیں وہ سب سے پہلے ہیں۔ آپ کے بچپن میں کچھ ایسا تھا جس کی وجہ سے ایسا ہوا۔

وزیر اعظم – ایسا ہے کہ میں نے اپنی زندگی نہیں بنائی، حالات نے اس کو بنایا ہے، میں اس زندگی کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتا جو میں نے بچپن سے گزاری ہے، کیونکہ میرا بچپن مختلف تھا۔ لیکن وہ زندگی مجھے بہت کچھ سکھاتی ہے، اور شاید یہ ایک طرح سے میری سب سے بڑی یونیورسٹی تھی، مصیبت میرے لیے ایک یونیورسٹی ہے جو مجھے سکھاتی ہے، اور شاید میں نے مصیبت سے پیار کرنا سیکھا ہے، جس نے مجھے بہت کچھ سکھایا ہے۔ میں ایک ایسی ریاست سے آیا ہوں جہاں میں نے ماؤں اور بہنوں کو سروں پر برتن اٹھائے پانی لینے کے لیے دو تین کلومیٹر پیدل چلتے ہوئے دیکھا ہے۔ پھر مجھے لگتا ہے کہ آزادی کے 75 سال بعد کیا میں پانی مہیا کر سکتا ہوں، تو میری یہ سرگرمی اسی احساس سے پیدا ہوئی ہے۔ منصوبے ضرور ہوں گے، ماضی میں بھی منصوبے ہوں گے، میں دعویٰ نہیں کرتا کہ ماضی میں بھی لوگوں نے خواب دیکھے ہوں گے۔ خواب جس کا بھی ہو، اگر وہ خواب درست ہے تو یہ میرا کام ہے کہ میں اپنے آپ کو وقف کروں تاکہ ملک کے لیے کچھ نکل آئے۔ جب میں وزیر اعلیٰ بنا تو میں نے تقریر کی تھی اور میں نے بے ساختہ کہا تھا کہ میں محنت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا، دوسری بات یہ کہ میں اپنے لیے کچھ نہیں کروں گا، اور تیسرا یہ کہ میں انسان ہوں اور غلطیاں کر سکتا ہوں لیکن میں برے ارادوں سے کچھ غلط نہیں کروں گا اور یہ کہ میں نے اسے اپنی زندگی کا منتر بنا لیا ہے۔ غلطیاں ہو سکتی ہیں مجھ سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں، میں بھی انسان ہوں، میں کوئی  بھگوان نہیں ہوں۔ اگر آپ انسان ہیں تو آپ غلطیاں کرتے ہیں میں ہمیشہ یقین رکھوں گا کہ میں برے ارادوں سے غلط نہیں کروں گا۔

نکھل کامتھ – کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا اعتقاد کا نظام جو آپ کے اندر ہے، جو آپ کے لیے سب سے اہم ہے، وہ عقائد جن کے بارے میں آپ نے 20 سال پہلے سوچا تھا، اگر وہ آج بدلتے ہیں تو کیا یہ اچھی چیز ہے یا بری چیز؟

وزیر اعظم – جیسے !

نکھل کامتھ – تصور کریں کہ میں آج 38 سال کا ہوں جب میں شاید 20 سال کا تھا، میں سمجھتا تھا کہ سرمایہ داری دنیا کا صحیح طریقہ ہے اور اب جب میں 38 سال کا ہوں، شاید میں اپنا خیال بدلنا چاہتا ہوں۔ میرا ذہن اس کے بارے میں یہ ہے کہ لوگ آپ کو جو کچھ آپ نے 20 سال پہلے کہا تھا اس کے بارے میں کیا خیال ہے لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف ارتقاء ہے اور یہ لوگوں کے ذہنوں میں زیادہ ڈیٹا کے ساتھ منتقل کیا ہے، جو وہ پہلے سوچتے تھے تبدیلیاں آتی ہیں، میں اب بھی سرمایہ داری میں ہوں، میں اتفاق کرتا ہوں، میں یہ مثال تو ویسے ہی دے رہا ہوں، لیکن کیا آپ کے پاس کوئی ایسا عقیدہ تھا جو آپ 10-20 سال پہلے مانتے تھے اور آج نہیں مانتے؟

وزیر اعظم- دو چیزیں ہیں پہلی، کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں گنگا، گنگا داس اور جمنا، جمنا داس۔ بہتی گاڑی میں ضرورت پڑنے پر رنگ بدلتا رہتا ہے، میں وہ شخص نہیں ہوں۔ میں ایک سوچ کے ساتھ پلا بڑھا ہوں اور اگر میرے اس نظریے کو بہت کم الفاظ میں بیان کرنا ہے تو وہ ہے نیشن فرسٹ۔ اگر میری ٹیگ لائن نیشن فرسٹ ہے تو جو کچھ اس میں فٹ بیٹھتا ہے، وہ مجھے نظریے کے زنجیروں میں نہیں جکڑتا، یہ مجھے روایات کے زنجیروں میں نہیں جکڑتا، اگر مجھے آگے لے جانا ضروری ہے تو میں کرتا ہوں۔ اگر مجھے پرانی چیزیں چھوڑنی پڑیں تو میں انہیں چھوڑنے کو تیار ہوں، میں نئی ​​چیزیں ماننے کو تیار ہوں، لیکن معیار نیشن فرسٹ ہے۔ میرا پیمانہ ایک ہے، میں پیمانہ نہیں بدلتا۔

نکھل کامتھ – اگر میں اسے تھوڑا آگے لے جاؤں تو کیا یہ سیاست دان کا نظریہ ہے جس کی وجہ سے اسے پیروکار ملتے ہیں، کیا یہ سماج کا نظریہ ہے جس کی سیاست دان نقل کرتا ہے اور جس کی وجہ سے اسے پیروکار ملتے ہیں۔

وزیر اعظم – آئیڈیلزم نظریہ سے زیادہ اہم ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ نظریے کے بغیر سیاست ہوگی لیکن آئیڈیل ازم کی بہت ضرورت ہے۔ جیسا کہ آزادی سے پہلے نظریہ تھا، آزادی کی تحریک تھی۔ آزادی صرف نظریہ تھا، گاندھی جی کا راستہ الگ تھا – آزادی پر ساورکرکا نظریہ اور ان  کا راستہ اپنا تھا، ان کا نظریہ الگ تھا، انہیں کیا آزادی تھی؟

نکھل کامتھ- لوگ کہتے ہیں کہ سیاست دان بننے کے لیے موٹی  کھال  کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی اس کی ترقی کیسے کرتا ہے؟ لوگ آپ کو ٹرول کریں گے، عوام میں آپ کو برا بھلا  کہا جائے گا، آپ کے بارے میں کہانیاں بنائیں گے، یہ ایک عام آدمی کے لیے نیا تجربہ ہے، اس سے کوئی کیسے سیکھ سکتا ہے۔

وزیراعظم- سیاست میں حساس لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی کے ساتھ کچھ اچھا ہو جائے تو خوشی محسوس کریں۔ دوسرا موضوع الزامات اور جوابی الزامات کا ہے، اس لیے جمہوریت میں آپ کو یہ مان لینا چاہیے کہ آپ پر الزامات ہوں گے، کئی طرح کے الزامات ہوں گے لیکن اگر آپ درست ہیں، آپ نے کچھ غلط نہیں کیا تو آپ کو کبھی کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

نکھل کامتھ- اور سر، سوشل میڈیا سے پہلے کی سیاست میں آپ وزیراعلیٰ رہے ہیں اور سوشل میڈیا کے بعد کی سیاست میں آپ وزیراعظم ہیں۔ آپ نے دیکھا ہے کہ اس دور میں سیاست کیسے بدلی ہے، پہلے کے دور اور آج کے دور میں جب سوشل میڈیا اتنا اہم نہیں تھا اور آج جب یہ بہت اہم ہو گیا ہے۔ اگر آپ اس بارے میں کسی ایسے نوجوان کو مشورہ دے سکتے ہیں جو سیاست دان بننا چاہتا ہے تو اسے کیسے استعمال کیا جائے۔

وزیر اعظم- تو کبھی کبھی لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں، جب میں چھوٹے بچوں سے ملتا ہوں، وہ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں، مجھے بھی ان سے گپ شپ کرنا اچھا لگتا ہے، جب وہ مجھ سے ملنے آتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں کہ سر! جب آپ خود کو ٹی وی پر دیکھتے ہیں تو آپ کو کیسا لگتا ہے، کچھ بچے آتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ کو دن رات اتنی زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آپ کو کیسا لگتا ہے، تو میں انہیں ایک لطیفہ ک سناتا  ہوں کہ میں احمدآبادی ہوں اور ہمارے احمدی  آبادی لوگوں کی ایک الگ پہچان ہے، ان کے بہت سے مقبول لطیفے ہیں۔ میں نے  انہیں یک لطیفہ سنایا- ایک احمدآبادی اسکوٹر لے کر جا رہا تھا کہ وہ کسی سے ٹکرا گیا اور سامنے والا شخص غصے میں آ گیا اور جھگڑا شروع ہو گیا، اس نے گالیاں دینا شروع کر دیں، یہ احمد آبادی  اسی طرح اپنے اسکوٹر کے ساتھ کھڑا تھا، گالیاں دیتا رہا، پھر کوئی آیا اور کہنے لگا دوست ،بھائی تم کیسے آدمی ہو، وہ گالی دے رہا ہے اور تم ایسے ہی کھڑے ہو، پھر وہ کہتا ہے بھائی یہ مجھے دے رہا ہے، وہ کچھ نہیں لے رہا، وہ احمد آباد کا ہے کہ عام طور پر دے رہا ہے، وہ کچھ نہیں لے رہا، تو میں نے بھی ذہن بنا لیا کہ ٹھیک ہے بھائی، وہ گالی دے رہا ہے، اس کے پاس جو ہے وہ دے گا، جو میرے پاس ہے، میں وہ دوں گا۔ لیکن آپ کو سچائی کی زمین پر ہونا چاہیے، آپ کے دل میں کوئی پاپ  نہیں ہونا چاہیے۔

اگر آپ یا کوئی اور بتائے تو جناب آپ سیاست میں نہیں ہیں، آپ ایک دفتر میں کام کرتے ہیں، کیا اس دفتر میں ایسا نہیں ہوتا، آپ کا ایک بڑا خاندان ہے اور اس میں بھی اگر دو بھائیوں کے درمیان کچھ تناؤ ہو جائے تو ایسا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا، پھر یہ زندگی کے ہر شعبے میں کم و بیش مقدار میں ہوتا ہے، اس لیے ہمیں اس بنیاد پر موٹی  کھال  کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے۔ انسان کو انتہائی حساس ہونا چاہیے، عوامی زندگی میں حساسیت کے بغیر آپ لوگوں کا کوئی بھلا نہیں کر سکتے۔ اور میرا ماننا ہے کہ سوشل میڈیا جمہوریت کی بہت بڑی طاقت ہے۔ پہلے صرف چند لوگ آپ کو خبریں سناتے تھے، اور آپ اسے سچ مانتے تھے، تب بھی آپ کے پاس اس بات کی تصدیق کرنے کا وقت نہیں تھا کہ اگر کوئی کہے کہ ایک لاکھ لوگ مر گئے ہیں، تو آپ یقین کرتے تھے کہ 100,000 لوگ مر گئے ہوں گے۔ آج آپ کے پاس متبادل ہے، آپ تصدیق کر سکتے ہیں کہ اگر یہ معاملہ آیا ہے تو کہاں سے آئے گا، یہاں کہاں آئے گا۔ آپ کے موبائل میں سب کچھ دستیاب ہے۔ اگر آپ تھوڑی سی توجہ دیں تو آپ سچ تک بہت آسانی سے پہنچ سکتے ہیں اس لیے جمہوریت کو مضبوط کرنے کا کام سوشل میڈیا کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ وہ لوگ جو آج سماج کے عام حالات میں بھی کچھ غلط کر رہے ہیں، مجھے یاد ہے کہ جب میں تنظیمی کام کرتا تھا، ہم جن سنگھ والوں کے ساتھ کچھ بھی ہو، میں اس وقت سیاست میں نہیں تھا۔ زیادتی کی جائے جیسے میں نے کچھ نہیں کیا، مجھے کسی بھی چیز کے لیے گالی دی جائے گی۔ قحط پڑنے پر بھی لوگ سیاستدانوں کو گالیاں دیتے تھے۔ یوں تو ان دنوں بھی ایسا ہی ہوا کرتا تھا لیکن جب پرنٹ میڈیا ہوا تو اس میں اتنی طاقت تھی۔ آج سوشل میڈیا کسی حد تک پہلے بھی موجود تھا اور آج بھی موجود ہے لیکن آج آپ کے پاس سچائی تلاش کرنے کا ایک بہت بڑا کینوس موجود ہے، بہت سے متبادل راستے کھلے ہیں اور آج کا نوجوان زیادہ تر ان چیزوں کی تصدیق کرتا ہے۔

دیکھیں، آج جب میں بچوں سے ملتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ خلا کے موضوع میں اتنی دلچسپی ہے، چندریان کی کامیابی نے میرے ملک کے نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ میں بہت سے بچوں سے ملتا ہوں، وہ گگن یان کے ٹائم ٹیبل کے بارے میں جانتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی طاقت دیکھ کر وہ اس کی پیروی کرتے ہیں  گگن یان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، خلابازوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، کس کی ٹریننگ کہاں چل رہی ہے۔ آٹھویں اور نویں جماعت کے بچے یہ جانتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سوشل میڈیا ایک طرح سے نئی نسل کے لیے بہت بڑی طاقت بن رہا ہے اور میں اسے مفید سمجھتا ہوں۔ جب میں سیاسی میدان میں اترا تھا تو میں بہت چھوٹا تھا اس لیے میرے ساتھ زیادتی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن جب میں ایسی عجیب و غریب باتیں سنتا تھا تو سوچتا تھا کہ لوگ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں، کیوں کرتے ہیں؟ چیزیں پھر آہستہ آہستہ سمجھ آئیں کہ یہ ایک ایسا میدان ہے،  آپ کو اسی میں رہنا ہے۔

نکھل کامتھ- آج کل بہت سارے بچے کہہ رہے ہیں کہ انہیں پریشانی ہے، مجھے بھی ہے، پریشانی میری زندگی میں اس طرح پیش آتی ہے جیسے میں آپ کے ساتھ بیٹھ کر بات کر رہا ہوں، میں گھبراتا ہوں، میں بے چینی محسوس کرتا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ میں نہیں کرتا ، محسوس کریں کہ آپ کو میری باتوں کے بارے میں کیسا لگے گا اور کیا آپ اسے محسوس کریں گے یا نہیں یہ میرے لیے ایک مشکل گفتگو ہے۔ بہت سارے بچے پریشانی کے بارے میں بات کر رہے ہیں کیا یہ آپ کی زندگی میں بھی آتی ہے اور جب آپ کو  ایسا بچپن میں ہوا تو آپ نے اس کے ساتھ کیا کیا؟

وزیراعظم- وہ آئیں گے، ایسا نہیں ہے کہ  بھگوان نے میرے لیے کچھ دروازے بند رکھے ہیں۔ جو کچھ وہ سب کو دیتا ہے اس نے مجھے بھی دیا ہوگا۔ دیکھیں، ہر ایک کے پاس مختلف صلاحیتیں ہیں اور ان چیزوں کو سنبھالنے کے مختلف انداز ہیں۔

نکھل کامتھ- اگر میں آپ سے یہ سیکھنا چاہتا ہوں تو میں اسے کیسے کرنا چاہوں گا۔

وزیر اعظم – اسے تھیسس کی شکل میں قطعی طور پر کہنا بہت مشکل ہے۔ لیکن میں ایسی پوزیشن میں ہوں کہ مجھے اپنے جذبات اور اپنے فطری انسانی رجحانات سے دور رہنا ہے اور ہر چیز سے بالاتر رہنا ہے۔ اب جیسے 2002 کی طرح گجرات کا الیکشن میری زندگی کا سب سے بڑا امتحان تھا، مجھے الیکشن جیتنے کے کئی مواقع ملے، جب میں نے لڑا اور جب میں نے دوسروں کو بھی لڑایا۔ تو زندگی میں ، میں نے ٹی وی نہیں دیکھا، کوئی نتیجہ نہیں آرہا، کچھ نہیں۔ رات تقریباً 11-12 بجے میرے گھر کے نیچے وزیراعلیٰ کے بنگلے کے باہر سے ڈھول کی آواز آنے لگی  تب میں نے لوگوں سے کہا کہ رات 12 بجے تک مجھے کوئی اطلاع نہ دیں۔ پھر ہمارے آپریٹر نے خط بھیجا کہ جناب آپ دو تہائی اکثریت کے ساتھ آگے ہیں۔ اس لیے میں نہیں مانتا کہ میرے اندر کچھ نہیں ہوا ہو گا، لیکن میرے اندر کچھ سوچ تھی جو اس پر حاوی ہو گئی، تو میرے لیے وہ بے چینی، اسے بے چینی کہیے، وہ الگ ہو گئی۔ اسی طرح میرے علاقے میں ایک بار پانچ مقامات پر بم دھماکے ہوئے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کیا صورتحال رہی ہو گی۔ تو میں نے اس سے کہا کہ میں پولیس کنٹرول روم جانا چاہتا ہوں، لیکن میرے سیکورٹی اہلکاروں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جناب ہمیں نہیں معلوم کہ کیا ہوا ہو گا اور آپ کہاں جا رہے ہیں۔ میں نے کہا کچھ بھی ہو جائے میں جاؤں گا، وہ بہت پریشان تھا، آخر کار جب میں آ کر بیٹھ گیا تو وہ چلا گیا، میں نے کہا کیا پہلےاسپتال نہیں جاؤں گا، اس نے کہا سر،اسپتال میں بھی بم پھٹ رہے ہیں۔ میں نے کہا جو بھی ہو جائے میں جاؤں گا۔ اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ میرے اندر بے چینی اور اضطراب  رہاہو گا، لیکن میرا طریق کاریہ تھا کہ میں اپنے مشن میں مشغول ہو جاتا تھا، اس لیے میں اس کی تعریف ایک اور شکل میں کرتا ہوں، شاید اس میں ذمہ داری کا احساس ہو۔

میں اپنی زندگی میں پہلی بار 24 فروری 2002 کو ایم ایل اے بنا۔ 27 فروری کو میں زندگی میں پہلی بار اسمبلی میں گیا۔ میں تین دن ایم ایل اے تھا اور اچانک گودھرا میں اتنے بڑے واقعے کی خبریں آنے لگیں، ایک ٹرین میں آگ لگ گئی، آہستہ آہستہ خبر آئی، تو میں نے جو بھی کہا، بہت بےچینی سے کہا، میں نے جو بھی کہا، اس لیے کہا کہ میں پریشان تھا، میں نے کہا کہ میں گھر میں تھا، باہر نکلتے ہی میں نے کہا کہ بھائی میں گودھرا جانا چاہتا ہوں، تو میں نے کہا کہ ہم یہاں سے بڑودہ جائیں گے، پھر بڑودہ سے ہیلی کاپٹر لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ہیلی کاپٹر نہیں ہے، تو میں نے کہا کسی اور کو تلاش کرو، یہ شاید او این جی سی کا تھا، یہ سنگل انجن تھا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ وی آئی پی نہیں لے سکتے، میں نے کہا کہ میں وی آئی پی نہیں ہوں۔ میں ایک عام آدمی ہوں، جب میں وہاں گیا تو ہماری بڑی لڑائی ہوئی، میں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہوگا وہ میری ذمہ داری ہے، میں ایک انجن والے ہیلی کاپٹر سے جاؤں گا اور میں گودھرا پہنچ گیا۔ اب یہ بہت تکلیف دہ  منظر تھا۔ اتنی لاشیں تھیں، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، ہاں، میں بھی ایک انسان ہوں، جو کچھ ہونا تھا وہ میرے ساتھ بھی ہوا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ میں ایسی پوزیشن پر بیٹھا ہوں کہ مجھے اپنا رکھنا پڑے گا۔ جذبات، میرے فطری انسانی رجحانات، سب سے بڑھ کر مجھے یہیں رہنا ہے اور میں نے جو کچھ ہو سکتا ہے اس سے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن جب میں طلباء سے ان کے امتحانات کے بارے میں بات کرتا ہوں تو میں انہیں دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان کا سبق ہے کہ بھائی آپ اس سوچ سے جان چھڑائیں کہ آپ کچھ کرنے جا رہے ہیں، یہ آپ کی معمول کی سرگرمی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ آپ کو اس دن خاص نئے کپڑے پہننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

نکھل کامتھ- کیا آپ اس طرح سوچتے ہیں کہ سب سے برا معاملہ کیا ہوگا، بدترین کیس کا مطلب یہ ہے کہ بدترین چیز کیا ہوسکتی ہے، کیا آپ ایسا سوچتے ہیں؟

وزیر اعظم – نہیں، میں نے کبھی زندگی یا موت کے بارے میں نہیں سوچا۔ دیکھیں،یہ ان لوگوں کے لیے ہو سکتا ہے جو حساب کر کے اپنی زندگی گزارتے ہیں، اس لیے میں شاید اس کا جواب نہ دے سکوںکیونکہ حقیقت میں، میں آج یہاں تک نہیں پہنچا اور نہ ہی وہاں پہنچنے کے لیے نکلا ہوں۔ اس لیے مجھے کچھ معلوم نہیں جب میں وزیراعلیٰ بنا تو میں حیران تھا کہ میں وزیراعلیٰ کیسے بن گیا۔ یہ میری زندگی کا راستہ نہیں تھا اور میں اسے پورا کر رہا ہوں لیکن ایسا نہیں ہے کہ کسی نے اس کام کو انجام دیا ہو۔ اس لیے وہ حساب میرے لیے کام نہیں کرتا۔ میں شاید اس سے مستثنیٰ ہوں کہ عام زندگی میں کیا ہوتا ہے کیونکہ میرا پس منظر ایسا ہے کہ میں کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ مجھ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ میرا پس منظر ایسا ہے کہ اگر میں پرائمری سکول ٹیچر بن جاتا تو میری والدہ محلے میں گڑ بیچ کر سب کو گڑ کھلاتی کیونکہ میرا بیٹا ٹیچر بن گیا۔ تو میرا وہ پس منظر تھا اور اسی لیے میں نے کبھی ایسے خواب نہیں دیکھے تھے، تو ایسا نہ ہوا تو کیا ہوگا، ایسا نہ ہوا تو کیسے ہوگا، یہ سب باتیں میرے ذہن میں زیادہ نہیں آتیں۔

نکھل کامتھ – جیسا کہ آپ نے آج پہلے کہا کہ ہم کامیابی سے زیادہ ناکامی سے سیکھتے ہیں، کیا آپ کچھ ایسی ناکامیوں کے بارے میں بات کرنا چاہیں گے؟

وزیر اعظم – جس دن چندریان-2 لانچ ہونے والا تھا۔ مجھے بہت سے لوگوں نے کہا تھا کہ جناب مجھے نہیں جانا چاہیے۔ میں نے پوچھا کیوں، انہوں نے کہا جناب یہ غیر یقینی بات ہے، دنیا کا ہر ملک ناکام ہوتا ہے، چار چھ بار کوشش کرنے کے بعد ایسا ہوتا ہے، آپ جائیں گے اور کچھ ہوا تو، میں نے کہا کہ میرا بدنام کرنے کا کیا ارادہ ہے؟ ذمہ داری؟ میں چلا گیا اور ہوا یہ کہ چندریان لانچ کے آخری سیکنڈ میں بکھر گیا۔ باہر بیٹھے تمام لوگ پریشان تھے، کسی میں ہمت نہیں تھی کہ وہ وزیراعظم کو بتا سکے، لیکن جتنا میں ٹیکنالوجی کو سمجھتا تھا، میں دیکھ سکتا تھا کہ ہاں، کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے، کچھ کام نہیں کر رہا، آخر کار سب سے سینئر شخص نے مجھ سے کہا ، میں نے کہا فکر نہ کریں، میں نے سب کو نمستے کہا۔ رات کے 2 بجے میں ایک پروگرام تھا میں سو نہیں سکا، میں نے آدھے گھنٹے کے بعد دوبارہ فون کیا، میں نے کہا کہ اگر یہ لوگ تھک نہیں رہے ہیں، تو میں انہیں فون کروں گا صبح 7:00 بجے میں جانے سے پہلے ان سے ملنا چاہتا ہوں، کیونکہ ملک کو بہت بڑا جھٹکا لگا تھا، لیکن میں ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو اپنی زندگی روتے ہوئے گزارتے ہیں اور اس دھچکے کی شکایت کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں صبح وہاں گیا اور تمام سائنس دانوں سے کہا کہ اگر کوئی ناکامی ہوتی ہے تو ذمہ داری میری ہے، میں نے پوری کوشش کی، مایوس نہ ہوں اور میں نے ان میں اتنا اعتماد پیدا کیا جتنا میں کر سکتا تھا اور چندریان 3۔ کامیاب ہوا۔

نکھل کامتھ- اس واقعے سے کوئی بھی سبق جو آپ آج استعمال کر سکتے ہیں، اس واقعے سے کوئی بھی سبق جسے آپ آج سیاست میں استعمال کر سکتے ہیں۔

وزیراعظم: دیکھیں سیاست میں رسک لینے کے لیے بہت تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر لمحہ خطرہ مول لے رہا ہوں جب میں ایک لاکھ نوجوانوں کو آنے کا کہتا ہوں اور میں بھی اپنا وقت دینا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ملک کو ایسے نوجوان مل گئے تو وہ 2047 کا خواب پورا کریں گے جو میرے ذہن میں ہے۔ میں انہیں اپنے لیے کام کرنے کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں، میں انھیں ملک کے لیے کام کرنے کے لیے کہہ رہا ہوں۔

نکھل کامتھ-اپنی  سیاست میں بلالیا۔

وزیر اعظم – لیکن ان کو نامعلوم کا خوف نہیں ہونا چاہیے، اسی لیے میں ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہوں، آپ فکر نہ کریں، دوست آئیں، کچھ حاصل کرنے کی نیت سے نہ آئیں۔ جمہوریت میں سیاست بہت ضروری ہے، اسے عزت دو، سیاست کو جتنی عزت ملے گی، اتنی ہی سیاسی تطہیر ہوگی۔ ہم اسے بیکار، گندا سمجھتے ہیں، اگر یہ گندا ہے تو گندا ہی رہے گا، اس کے قیام کے دن اچھے لوگ آئیں، اس لیے میری یہ کوشش ہے۔

نکھل کامتھ- یہ ایک بات ہے جو میں آج یہاں بیٹھ کر کہہ رہا ہوں اور نوجوانوں کو سیاست میں آنا چاہیے۔ جب میں اپنے بارے میں بات کرتا ہوں تو دو چیزیں ہوتی ہیں، پہلی بات یہ کہ مجھے اپنا کام پسند ہے، مجھے کمپنیوں، اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنا پسند ہے، میں یہ کام 20 سال سے طویل عرصے سے کر رہا ہوں اور میں واقعی میں اپنی ملازمت سے محبت  کرتا اور اس سے لطف اندوز ہوتا ہوں اور دوسری بات یہ ہے کہ جنوبی ہند کے متوسط ​​طبقے کے گھرانے میں پروان چڑھنے والے کو بچپن سے یہ معلوم نہیں تھا کہ میرے سامنے ڈاکٹر یا انجینئر یا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کے آپشنز ہیں، اب شاید اسٹارٹ اپ کو بھی شامل کیا جائے۔ لیکن ہم سب لوگوں کے لیے سیاست ایک گندی جگہ ہے، یہ ہماری نفسیات میں اس قدر پیوست ہو چکی ہے کہ اسے بدلنا بہت مشکل ہے اور اگر میں اس کے بارے میں تھوڑا سا ایماندار بنوں تو ایک بات یہ ہے کہ سیاست دان بننے کے بعد بدلنا چاہتا ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ اگر آپ نہیں جانتے کہ وہ چیز کیا ہے تو آپ ہم جیسے لوگوں کے بارے میں کیا کہیں گے۔

وزیراعظم- میں اسے مختلف انداز سے دیکھتا ہوں، آپ نے جو تجزیہ کیا ہے وہ نامکمل ہے۔ یہ نامکمل ہے کیونکہ اگر آپ  وہی کرتے جو  آپ کہہ رہے ہیں تو آج یہاں نہ ہوتے۔ آپ کا ہر منٹ پیسے کا کھیل ہے، اس سب کو ایک طرف چھوڑ کر آپ دہلی کی سردی میں اپنے دماغ کو میرے ساتھ استعمال کر رہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ آپ جمہوری سیاست سے جڑے ہوئے ہیں۔ سیاست کا مطلب الیکشن نہیں، سیاست کا مطلب جیت یا ہار نہیں، سیاست کا مطلب اقتدار نہیں ہے۔ یہ اس کا ایک پہلو ہے کہ ملک میں کتنے منتخب نمائندے ہوں گے۔ فرض کریں کہ 10,000 ایم ایل اے ہیں، ایک 2000  تو ہر کوئی نہیں ہے لیکن سیاست میں سب کی ضرورت ہے۔ دوسری بات، اگر آپ پالیسی سازی میں ہیں تو آپ اپنی چھوٹی کمپنی میں اچھی چیزیں کر کے تبدیلی لا سکتے ہیں، لیکن اگر آپ کی شخصیت پالیسی ساز کے عہدے پر ہے، تو آپ یہ تبدیلی پورے ملک میں نہیں لائی جا سکتی۔ تو گورننس میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ پالیسیاں بنا سکتے ہیں، پالیسیوں پر عمل کر کے حالات بدل سکتے ہیں اور اگر آپ صحیح سمت میں ہیں اور ایمانداری کے ساتھ کام کرتے ہیں تو آپ کو نتائج نظر آتے ہیں۔ اب اگر میں کہوں تو ہمارے ملک کی ہر حکومت قبائلیوں کے لیے کام کرتی رہی ہے، لیکن ہماری صدر دروپدی مرمو جی، وہ سماج کے اس طبقے سے آتی ہیں، اس لیے جب بھی میں ان سے ملتا، وہ بہت جذباتی ہو جاتیں۔ قبائلی معاشرے میں بھی پسماندہ ترین لوگوں تک کوئی نہیں پہنچا اور وہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں ہیں۔ انہوں نے مجھے کئی بار کہا کہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے، میں نے ان سے میری رہنمائی کرنے کو کہا، تو ان کی رہنمائی میں میں نے ایک اسکیم بنائی، پی ایم جن من یوجنا۔ اس وقت زیادہ سے زیادہ 25 لاکھ لوگ ہیں اور وہ بھی 250 مقامات پر موجود ہیں۔ سیاست دان کے لیے اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اسے نہ ووٹ ملے گا نہ جیتیں گے نہ ہاریں گے۔ لیکن زندگی کے لیے بہت بڑا ہوگا۔ دروپدی جی اس برادری کو جانتی تھیں، انہوں نے مجھ سے درخواست کی اور میں پی ایم بن گیا، اور آج جب میں یہ سنتا ہوں کہ سر، پہلے یہ نہیں تھا، اب یہ ہو گیا، وہ نہیں تھا اور اب ہو گیا ہے، تو میرے د ل کو بڑا اطمینان ہوتا ہے،  جس کے بارے میں کسی نے سوال نہیں کیا اس کی عبادت کا موقع ملا۔ لہٰذا، یہ ایک مثال ہے کہ اگر آپ صحیح وقت پر کچھ اچھے فیصلے لیتے ہیں تو آپ سیاست میں کتنی بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔

نکھل کامتھ – اور سر میں صحافی نہیں ہوں اور نہ ہی میں کوئی سیاسی ماہر ہوں، اگر میں پالیسیوں کی بات کروں گا تو میں اس کے لیے بیوقوف لگوں گا، شاید اور بھی بہت سے تجربہ کار لوگ ہوں لیکن اگر میں ناکامی کی طرف واپس چلا گیا تو کیا آپ دے سکتے ہیں اور آپ نے ناکامیوں سے کیا سیکھا ہے، یہ بچپن میں بھی ہوسکتا ہے، گزشتہ  10 سالوں میں وزیراعلیٰ کے دور میں بھی ہوا ہوگا۔

وزیر اعظم – ٹھیک ہے، مجھے بہت سے دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جب میں چھوٹا تھا، میں غالباً پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا، مجھے اب ٹھیک سے یاد نہیں، اور شاید ہماری ریاست میں کوئی فوجی اسکول شروع ہوا تھا۔ تب مجھے اخبار پڑھنے کی عادت تھی، اس لیے اخبار پڑھنے کا مطلب تھا کہ میں اشتہارات بھی پڑھتا ہوں، صرف پڑھنا مطلب پڑھنا، تو میرے گاؤں میں ایک لائبریری تھی، میں لائبریری جاتا تھا، اس لیے میں نے یہ بات سینک اسکول کے بارے میں پڑھی، پھر شاید اس وقت ایک روپے کا منی آرڈر تھا تو میں نے سب کے سب انگلش میں تھے اور مجھے کچھ نہیں آتا تھا، اس لیے میرے گھر میں ایک ہائی اسکول کا پرنسپل رہتا تھا۔ میرے گھر سے 400 میٹر کے فاصلے پر، میں ان کے گھر جایا کرتا تھا وہ بہت بڑا تھا اور بچپن میں وہ ہمیں بڑا لگتا تھا، اس لیے ایک دن میں ان کے گھر پہنچا، میں نے کہا کہ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ کوئی مجھے سمجھائے ،وہ بہت مہربان تھا۔ انہوں نے کہا کہ پریشان نہ ہو بیٹا میں تمہارا خیال رکھوں گا۔  انہوں نے سارا معاملہ دیکھا اور مجھ سے کہا کہ دیکھو، یہ ایک اسکول ہے، یہ ایک سینک اسکول ہے، یہاں انٹرویو ہے، کوئی امتحان ہے، اسے پاس کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بعد میں، میں نے اپنے والد کو بتایا تو میرے والد نے کہا کہ نہیں، ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں، ہم کہیں نہیں جانا چاہتے، اپنے گاؤں میں رہو، اب میرے ذہن میں آیا کہ ایک سینک اسکول بہت بڑی چیز ہے۔ ملک میرے لیے، میں یہ نہیں کر سکا، اس لیے مجھے لگتا ہے کہ شاید یہ پہلا جھٹکا تھا جو میرے ذہن میں  لگا کہ میں یہ بھی نہیں کر سکتا، یعنی زندگی میں ہر اس طرح کا ہر کام دیکھنا۔ مجھے یاد ہے کہ مجھے ایک سنت کی زندگی گزارنے کی شدید خواہش تھی لیکن میں ایسا نہیں کر سکا اور میری پہلی کوشش رام کرشن مشن میں شامل ہونے کی تھی۔ سوامی اتمستانند جی جو 100 سال تک زندہ رہے اور ابھی انتقال کر گئے ہیں، انہوں نے میرے بارے میں بہت کچھ کہا ہے، کیونکہ میں ان کے ساتھ رہا لیکن رام کرشن مشن کے کچھ اصول تھے، میں اس قابلیت پر پورا نہیں اترا، اس لیے میں وہاں فٹ نہیں ہوا۔ ایسا نہ ہوا تو میں نے انکار کیا مگر مایوس نہیں ہوا مجھے زندگی میں ایک جھٹکا لگا اور پھر میں کچھ ڈھونڈتا رہا۔ سنتوں اور راہبوں کے درمیان، وہاں میں کہہ سکتا ہوں کہ مجھے کوئی کامیابی نہیں ملی۔ تو پھر میں واپس آگیا، شاید تقدیر نے کچھ ایسا سوچا ہو گا اور مجھے اس راستے پر لے گیا ہو، زندگی میں ایسے دھچکے ضرور آتے ہیں۔

نکھل کامتھ – اور ان ناکامیوں نے آج آپ کی شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آپ نے ان سے کیا سیکھا ہے۔

وزیر اعظم- میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جب میں آر ایس ایس میں کام کرتا تھا، اس وقت آر ایس ایس والوں نے بالکل نئی اور پرانی جیپ خریدی تھی، یعنی میں نے ابھی ڈرائیونگ سیکھی تھی۔ قبائلی  علاقوں کی طرف میں سفر کر رہا تھا کہ ہم یوکائی ڈیم سے واپس آ رہے تھے تو میں نے سوچا کہ میں پیٹرول بچا لوں گا اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ گاڑی کیسے نیچے آ ئے گی۔ اس سے مجھے پریشانی ہو گی، گاڑی کنٹرول سے باہر ہو گئی، بریک لگانا بھی ایک مسئلہ تھا کیونکہ اس نے اچانک تیز رفتاری پکڑ لی، مشین بند ہو گئی تھی اس لیے کوئی کنٹرول نہیں تھا، میں تو بچ گیا لیکن میرے ساتھ بیٹھے ہوئے بھی نہ جانے میں نے ایسا گناہ کیا تھا، لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ بھائی یہ گیم کھیلنا بند کرو، ہر غلطی سے سیکھو، اس لیے میں صاف مانتا ہوں کہ زندگی صرف تجربات سے ہی بہتر ہوتی ہے اور یہ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ میں نے کبھی خرچ نہیں کیا۔ میری زندگی کمفرٹ زون میں ہے؛ میں ہمیشہ کمفرٹ زون سے باہر رہا ہوں اور جب میں کمفرٹ زون سے باہر ہوتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے۔ مجھے یہ جاننا تھا کہ یہ کیسے کرنا ہے، کیسے رہنا ہے۔

نکھل کامتھ- کیا کوئی خاص وجہ ہے کہ آج بھی آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو کمفرٹ زون میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے؟

وزیر اعظم: میرا اندازہ ہے کہ میں آرام کے لیے نااہل ہونے کے بارے میں یہی محسوس کرتا ہوں۔

نکھل کامتھ- لیکن کیا آپ نے کبھی اس کے بارے میں سوچا ہے کہ کیوں؟ آپ کو کیوں لگتا ہے کہ آپ آرام کے لیے نااہل ہیں؟

وزیر اعظم- جو زندگی میں نے گزاری ہے، اس لیے میرے لیے ایک چھوٹی سی چیز بھی مجھے اطمینان بخشتی ہے کیونکہ میری زندگی کا بچپن ہی انسان کے ذہن کو اس کے لیے تیار کرتا ہے کہ وہ مطمئن ہے۔ بڑے پیمانے پر وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ مطمئن ہے۔

نکھل کامتھ- کیا آپ یہ بھی محسوس کر سکتے ہیں کہ آپ کے آخری مقصد کو حاصل کرنے میں سکون آتا ہے۔

وزیر اعظم- زیادہ تر، میرا ماننا ہے کہ بہت سے لوگ زندگی میں اس لیے ناکام ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے کمفرٹ زون کے عادی ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ اگر کوئی بڑا صنعتکار خطرہ مول نہیں لیتا اور اپنے کمفرٹ زون سے باہر نہیں آتا، تو اس کے کمفرٹ زون کی سطح مختلف ہوتی ہے۔ پھر اس وقت ختم ہو جائے گا، اسے باہر آنا پڑے گا اور جو زندگی کے کسی بھی شعبے میں ترقی کرنا چاہتا ہے، اسے کمفرٹ زون کا عادی نہیں ہونا چاہیے، اس کا رسک لینے کا ذہنی رویہ ہمیشہ اس کا ہوتا ہے- ڈرائیونگ فورس۔

نکھل کامتھ- اور انٹرپرینیورشپ میں بھی یہی چیز ہے، جو زیادہ خطرہ مول لے سکتا ہے وہ بہتر کرتا ہے… سر، کیا آپ کی زندگی میں وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی رسک لینے کی صلاحیت بڑھتی جارہی ہے؟

وزیر اعظم – مجھے لگتا ہے کہ میری رسک لینے کی صلاحیت ابھی پوری طرح سے استعمال نہیں ہوئی ہے، یہ بہت کم رہی ہے۔ میری رسک لینے کی صلاحیت شاید کئی گنا زیادہ ہے کیونکہ مجھے پرواہ نہیں ہے۔ میں نے کبھی اپنے بارے میں نہیں سوچا اور جو اپنے بارے میں نہیں سوچتا وہ بہت زیادہ رسک لینے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ میرا معاملہ ہے۔

نکھل کامتھ- اگر آپ آج کے دن میں؟

وزیراعظم – آج میں یہ نہیں ہوں، کل یہ نہیں رہوں گا، پھر میرا کیا ہوگا، مجھے اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

نکھل کامتھ – اگر آج آپ کے دن میں، کسی چیز کے بارے میں نہ سوچیں، صفر سے ڈریں، کسی چیز سے نہ ڈریں اور ایسا فیصلہ لیں جو آپ نہیں لے رہے ہیں ورنہ ڈھانچے کی وجہ سے حکومت بنائیں کہ وہ ایک چیز کیا ہے۔

وزیر اعظم- شاید اب میری دوسری  صلاحتیں ختم ہو گئی ہیں اور یہ زندگی ایک وژن کی طرح ہو گیا ہے۔ تو شاید مجھے کرنا چاہئے، لیکن ایک چیز ہے جو میں پہلے کرتا تھا جو کبھی کبھی مجھے اب بھی کرنے کا احساس ہوتا ہے۔ میرا ایک پروگرام ہوا کرتا تھا اور میں نے اس کا نام رکھا تھا میں خود سے ملنے جاتا ہوں، میں خود سے ملنے جاتا ہوں، یعنی کبھی کبھی ہم خود سے نہیں ملتے، ہم دنیا سے ملتے ہیں اور ہمارے پاس خود سے ملنے کا وقت نہیں ہوتا۔ اس لیے میں کیا کرتا تھا کہ سال میں کچھ وقت نکال کر تین چار دن کے لیے جس چیز کی ضرورت ہو لے کر جایا کروں اور ایسی جگہ رہوں جہاں لوگ نہ ہوں، جہاں پانی کی سہولت میسر ہو، میں ایسی جگہ تلاش کرتا تھا۔ کہیں جنگلوں میں، اس وقت موبائل فون وغیرہ نہیں تھے، اخبار وغیرہ کا سوال ہی نہیں تھا، وہ زندگی میرے لیے ایک الگ ہی خوشی تھی، مجھے کبھی کبھی یاد آ جاتی ہے۔

نکھل کامتھ- اور اس دوران آپ نے اپنے بارے میں کچھ سیکھا جب آپ اپنے ساتھ اکیلے تھے۔ فلسفے میں، جیسا کہ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ زندگی کا سب سے اہم دلچسپ سوال یہ ہے کہ میں کیوں ہوں، کیسا ہوں، کیا آپ نے اس وقت اپنے بارے میں کچھ سیکھا کہ آپ ایسے کیوں ہیں؟

وزیر اعظم – اپنے آپ میں کھو جانا واحد چیز ہے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کہ کیا ہوا۔ 80 کی بات ہو گی میں نے فیصلہ کیا کہ میں صحرا میں بھٹکتا رہا لیکن میں اس تک نہ پہنچ سکا میں نے اسے ڈھونڈ لیا، اس نے پوچھا بھائی تم یہاں کیا کر رہے ہو، میں نے کہا بھائی میں صحرا کے اندر جانا چاہتا ہوں، اس نے کہا اب تم میرے ساتھ چلو، آگے جو روشنی نظر آتی ہے وہ آخری گاؤں ہے، میں تمہیں وہاں چھوڑ دوں گا۔ ہاں رات وہیں رہو اور صبح وہاں سے کوئی ملے تو مجھے لے گیا۔ ایک مسلمان شریف آدمی تھے جنہوں نے گل بیک کیا اور مجھے اپنی جگہ پر لے گئے۔ اب وہ چھوٹا سا گاؤں ڈھورڈو جو پاکستان کی سرحد پر ہندوستان کا آخری گاؤں ہے، اور وہاں 20-25 گھر اور تمام مسلمان گھرانے ہیں، ہمارے ملک میں مہمان نوازی ایک چیز ہے، ان کے بھائی اور بچے نے کہا تم آؤ بھائی، میں نے کہا نہیں  مجھے تو جانا ہے اگر وہاں ہے تو ہم صحرا میں وہاں نہیں جا سکتے، ابھی آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اس وقت ریگستان  کا  درجہ حرارت صفر سے نیچے ہو گا۔ تم وہاں کیسے رہو گے، بس آج رات یہیں سو جانا، صبح تمہیں دکھاؤں گا۔ ویسے بھی میں رات ان کے گھر رہا، انہوں نے مجھے کھانا کھلایا، میں نے کہا بھائی میں اکیلا رہنا چاہتا ہوں، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں، انہوں نے کہا تم اکیلے نہیں رہ سکتے، ہمارے یہاں ایک چھوٹی سی جھونپڑی ہے، تم وہاں رہ سکتے ہو ، اس دن رات کو رن  سےواپس آکر میں وہاں گیا، وہ سفید رن  تصور سے باہر تھا، کہ باہر کا ایک منظر میرے دل کو بہت چھو گیا، وہ چیزیں جو میں نے اپنی ہمالیائی زندگی میں، زندگی گزاری تھی۔ برفانی چٹانیں، میں یہاں بھی ایسا ہی محسوس کر رہا تھا اور مجھے ایک روحانی احساس ہوتا تھا لیکن وہ منظر جو میرے ذہن میں تھا، جب میں وزیر اعلیٰ بنا تو میں نے وہاں رن اتسو کی ایک بڑی تقریب کی اور آج یہ ایک بہت بڑا سیاحتی مقام بن گیا ہے اور اب یہ عالمی سطح پر بہترین سیاحتی مقام ہے اسے دنیا میں گاؤں کا نمبر ایک ایوارڈ ملا ہے۔

نکھل کامتھ- تصور کریں کہ کل آپ کی زندگی میں ایسا واقعہ رونما ہو گا جس سے آپ کو سب سے زیادہ خوشی ملے، تو آپ کی پہلی کال کس کے پاس جائے گی؟

وزیر اعظم – ایسا ہے  کہ جب میں سری نگر کے لال چوک میں ترنگا جھنڈا لہرانے گیا تو پنجاب میں پھگواڑہ کے قریب ہمارے جلوس پر حملہ ہوا، گولیاں چلیں، کئی لوگ، پانچ چھ لوگ مارے گئے، بہت سے لوگ زخمی ہوئے، تو وہاں بھی تھا۔ پورے ملک میں کشیدگی، سری نگر لال چوک پر جائیں تو کیا ہوگا، ترنگا جھنڈا لہرانا بہت مشکل تھا، لال چوک میں ترنگا جھنڈا جلایا جاتا تھا۔ ترنگا جھنڈا لہرانے کے بعد جب ہم جموں آئے تو جموں سے میری پہلی کال میری والدہ کو ہوئی، یہ میرے لیے خوشی کا لمحہ تھا اور میں نے یہ بھی سوچا کہ میری ماں کو فکر ہوگی کہ گولیاں چلی ہیں اور وہ کہاں چلی گئی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنی ماں کو کیا تھا آج میں نے اس کال کی اہمیت کو محسوس کیا ہے۔

نکھل کامتھ-ے والدین کو کھونے جیسے ، حال ہی میں میں نے اپنے والد کو کھو دیا، آپ نے مجھے ایک خط بھی لکھا، آپ کا بہت شکریہ۔ آپ کے ذہن میں سب سے پہلے کون سی بات آتی ہے، جیسا کہ اگر میں اپنی مثال دوں تو جب میں نے اپنے والد کو کھو دیا تو میرے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ میں نے ایسا کیوں نہیں کیا، میں نے جا کر زیادہ وقت کیوں نہیں دیا ان کے ساتھ، میں نے شاید کام کیوں اٹھایا، شایدیہ، وہ اور اس پر دوسرا… جب آپ کی زندگی میں یہ واقعہ پیش آیا تو آپ نے کیا سوچا؟

وزیر اعظم- ایسا ہے، میری زندگی میں ایسا نہیں ہے، کیونکہ بچپن میں گھر چھوڑ دیا تھا، تو گھر والوں نے بھی مان لیا کہ یہ ہمارا نہیں ہے۔ میں نے بھی مان لیا تھا کہ میں گھر کے لیے نہیں ہوں، اس لیے میری زندگی ایسی ہی رہی۔ اس لیے کسی کے لیے اس قسم کا لگاؤ ​​محسوس کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، لیکن جب ہماری والدہ 100 سال کی ہوئیں تو میں ان کے پاؤں چھونے گیا، 100 سال کی عمر ، میری والدہ پڑھی لکھی نہیں تھیں، وہ کچھ نہیں جانتی تھیں۔ میں نے پڑھائی نہیں تھی، مجھے حروف کا علم نہیں تھا، اس لیے جاتے وقت میں نے کہا، ماں، مجھے چھوڑنا ہے، یہ میرے لیے میرا کام ہے، میں حیران رہ گیا، میری ماں نے دو جملے کہے، یعنی ایک وہ جو کبھی نہیں اسکول کا دروازہ دیکھا کہ ماں کہتی ہے عقل سے کام لو اور پاکیزگی سے زندگی گزارو۔ اب ان کے منہ سے نکلا یہ جملہ میرے لیے بہت بڑی بات تھی، ایک طرح سے یہ بہت بڑا خزانہ تھا، ذہانت سے کام کرو، وہ گجراتی میں یہ کہہ رہی تھی، لیکن اس کا مطلب تھا ذہانت سے کام لو، پاکیزگی سے زندگی گزارو۔ تو میں سوچتا تھا کہ اس ماں کو بھگوان نے کیا کچھ دیا ہے، اس میں کیا خوبیاں ہیں، پھر کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ اگر میں ان کے ساتھ رہتا تو شاید مجھے ایسی بہت سی باتیں معلوم ہوتی، میں انہیں جان سکتا تھا، پھر مجھے لگتا ہے ایسی کمی کہ میری بات چیت بہت کم ہو گئی، کیونکہ میں سال میں ایک دو بار جاتا تھا، ماں کبھی بیمار نہیں ہوتی تھی، اور پھر بھی میں ان کے پاس جاتا تو وہ مجھ سے پوچھتی تھیں، بھائی، آپ کے پاس کوئی نہ کوئی کام ہوگا، جلدی جاؤ، یہ ان کی فطرت تھی۔

نکھل کامتھ- تو جناب، میں سیاست میں واپس آ رہا ہوں۔ پہلے آپ نے بتایا کہ سیاست گندی نہیں ہوتی، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سیاست دان شاید سیاست کو گندا کرتے ہیں اور یہ اب بھی نظریاتی لوگوں کے لیے جگہ ہے اگر وہ بدلنا چاہتے ہیں، ایکو سسٹم کو بدلنا چاہتے ہیں… دوسرا سوال سیاست میں پیسے کے بارے میں ہے کہ کیا ہم اسے سیاست میں لاتے ہیں؟ ملک کے نوجوانوں کو ہم کہتے ہیں کہ سیاست میں شامل ہوں، دوسرا مسئلہ جو ان کے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے لیے بہت سارے پیسوں کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس نہیں ہے، کیا آپ اس بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے میری زندگی میں، اسٹارٹ اپ انڈسٹری میں جہاں میں کام، جب ہمیں خیال آتا ہے کہ ہم دوستوں اور گھر والوں سے پیسے لیتے ہیں، اسے سیڈ راؤنڈ کہتے ہیں، سیاست میں ایسا کیسے ہوگا؟

وزیر اعظم-  میرے  اپنے گاؤں میں ایک ڈاکٹر وسنت بھائی پاریکھ  تھے، وہ ایک اچھے دماغ والے تھے اور ہندی بھی بولتے تھے۔ گجراتی اچھی  طرح بولتے تھے۔ انہوں نے ایک بار آزادانہ طور پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور ہم سب وانر سینا سے،  مجھے تقریباً یاد ہے ،جسے بال سینا بھی کہا جاتا تھا، جھنڈے اٹھائے گھومتے تھے ۔ انہوں نے الیکشن لڑنے کے لیے لوگوں سے ایک روپیہ لیا تھا اور پھر انہوں نے جلسے میں حساب دیا تھا کہ اسے کتنے پیسے ملے تھے اور شاید ڈھائی سو روپے خرچ ہوئے تھے وہ بہت کم مارجن سے الیکشن جیتے تھے۔ ووٹ  کم ملے،لیکن وہ جیت گئے۔ تو ایسا نہیں ہے کہ معاشرے کو حقیقت کا علم نہیں، آپ کو صبر کی ضرورت ہے، آپ کی لگن کی ضرورت ہے، دوسری بات یہ کہ کسی معاہدے کا احساس نہیں ہونا چاہیے کہ میں اتنا کروں تو مجھے ووٹ مل جائیں۔ پھر آپ زندگی میں کامیاب نہیں ہوں گے، اسی لیے میں نے کہا کہ سیاست کو الیکشن، ایم ایل اے اور ایم پی کی قید سے باہر لانا چاہیے۔

سماجی زندگی سے جڑے کسی بھی کام میں ہم شامل ہوتے ہیں، اس کا سیاسی اثر ضرور ہوتا ہے۔ چاہے کوئی چھوٹا سا آشرم چلاتا ہو، لڑکیوں کی تعلیم کا کام کرتا ہو، خود الیکشن نہیں لڑتا، لیکن اس کی کوششوں کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی نتائج سامنے آتے ہیں اور اس لیے سیاست کو بہت بڑے کینوس پر دیکھنے کی ضرورت ہے اور کبھی کبھی میں کہتا ہوں کہ جمہوریت میں ووٹر خود بھی ایک طرح سے سیاست دان ہوتا ہے۔ جب وہ اپنا ووٹ ڈالتا ہے تو اپنا دماغ لگاتا ہے، کیا میں اسے اس شخص کو دوں یا اس شخص کو نہیں، وہ اس شخص کے لیے کچھ جذبات رکھتا ہے، وہ اس شخص کے لیے جذبات رکھتا ہے جسے اسے دینا چاہیے، اس لیے میرے معاملے میں جمہوریت میں  مجھے یہ تجربہ ہوا ہے کہ سیاست میں ہوتے ہوئے بھی میں وہ نہیں جو مجھے نام نہاد سیاستدان کہتے ہیں۔ مجھے یہ سیاسی تقریریں کرنا پڑتی ہیں یہ مجھے پسند نہیں ہے لیکن یہ ایسی مجبوری ہے کہ میرا سارا وقت صرف الیکشن کے دوران ہی ہوتا ہے۔ اقتدار میں، میرا سارا وقت گورننس پر صرف ہوتا تھا، میری توجہ تنظیم پر تھی، انسانی وسائل کی ترقی پر، میں اپنے کارکنوں کی زندگیوں کو سنوارنے میں لگا رہتا تھا۔ اس پر تقریری مقابلہ کیسے کروایا جائے، پریس نوٹ کیسے لکھا جائے، ماس موبلائزیشن کیسے کی جائے، میں ہر کام میں مصروف تھا۔ میں فلاں بھائی کے فلاں فلاں کے معاملے میں کبھی نہیں پڑتا تھا اور آپ نے اسے یہاں بھی دیکھا ہوگا جب میں گجرات میں تھا۔ جیسا کہ جب میں نیا وزیر اعلیٰ بنا تو میرے سامنے زلزلہ کے حوالے سے ایک ٹاسک تھا، اس لیے میں زلزلہ سے متاثرہ علاقے میں گیا۔ واپس آکر میں نے افسران سے میٹنگ کی اور ان سے پوچھا، میں نے کہا بھائی تب تک زلزلہ کو نو ماہ ہو چکے تھے، میں اکتوبر کے مہینے میں وہاں گیا تھا، تو کہنے لگے سر یہ مارچ کے مہینے تک ہو جائے گا۔ میں نے کہا بھائی مارچ کا مہینہ آپ کے ذہن میں نہیں ہے، یہ حکومت بجٹ سال کی وجہ سے مالی سال سے باہر نکلیں اور بتائیں کہ 26 جنوری سے پہلے کیا کریں گے کیونکہ ملک 26 جنوری کو آئے گا اور دیکھیں گے کہ اس میں کیا ہوا؟ ایک سال تو ہمارا ٹارگٹ، تو میں نے کہا کہ مجھے دسمبر کے آخر کا ٹارگٹ دو، پھر افسروں نے کہا، ٹھیک ہے، 43 تعلقہ ہیں، میں نے کہا کہ ہر افسر ایک تعلقہ کا انچارج ہے اور آپ اس بلاک کے چیف منسٹر ہیں، جا کر دکھائیں۔ میں وہاں آپ کا کام مجھے جمعہ کو جانا ہے، پیر کو پوچھوں گا  آپ  نے کیا کیا؟ سب گئے اور واپس آئے اور پہلی ملاقات ہوئی۔ میٹنگ میں کہتے ہیں جناب ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں نے کہا کیوں؟ انہوں نے کہا جناب یہ قاعدہ ایسا ہے کہ… میں نے پوچھا کہ قاعدہ کس نے بنایا؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے بنایا ہے۔ میں نے کہا اب آپ اس سرزمین پر گئے ہیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ عام آدمی کے مسائل کیا ہیں۔ میں نے کہا اب رولز بدلو اور ان لوگوں نے سارے اصول بدل دیے اور کام تیزی سے ہوا اور جب جنوری کے مہینے میں پورے ملک اور دنیا کا میڈیا وہاں گیا تو انہیں لگا کہ اب میں وہاں سیاست نہیں کر رہا۔ میں ٹیم اسپرٹ کے ساتھ سب کو حوصلہ دے رہا تھا اور انہیں نتیجہ کی طرف لے جا رہا تھا۔ میں تجربہ کار نہیں تھا، میں نیا تھا۔ مجھے حکومت چلانے کا علم نہیں تھا۔

جب میں یہاں دہلی آیا تو ایک دن میں نے دہلی میں اپنے ایک سکریٹری کو بلایا۔ میں نے کہا میری ایک خواہش ہے، کیا آپ ایک کام کریں گے؟ اس نے کہا، نہیں جناب، آپ مجھے جو بھی بتائیں… میں نے کہا کہ آپ سب اپنے گھر والوں کے ساتھ دو تین دن کی چھٹی لے لیں۔ تو انہوں نے سوچا کہ یہ وزیر اعظم کیا چھٹی دے رہے ہیں۔ میں نے کہا لیکن چھٹیوں میں ایک کام کرنا ہے، اس گاؤں میں جاؤ جہاں تم نے آئی اے ایس آفیسر بننے کے بعد پہلی نوکری کی تھی۔ دو راتیں وہاں رہو، بچوں کو ساتھ لے جاؤ تو بیوی بچوں سے کہو کہ میں اس دفتر میں بیٹھا کرتا تھا، یہاں ایک پنکھا بھی نہیں تھا، صرف ایک ایمبیسڈر گاڑی تھی اور چار لوگ جاتے تھے، انہیں  سب کچھ دکھاؤ۔ اور پھر ہم بات کریں گے۔ سب گئے اور واپس آگئے… میں نے پوچھا، آپ آگئے ہیں؟ اس نے کہا جی  سرآگئے! کیا آپ بوڑھے لوگوں سے ملے؟ اس نے کہا مجھ سے ملو! میں نے کہا آپ سے ایک بہت سنجیدہ سوال ہے جس جگہ سے آپ 25 سال پہلے گئے تھے، آپ وہاں سے 25 سال پہلے تک پہنچے تھے؟ ان سب کو چوٹ لگی، انہوں نے سوچا، جی جناب، وہ پہلے جیسا ہے! میں نے کہا بتاؤ ذمہ دار کون ہے؟ اس لیے میں نے ا نہیں کچھ برا نہیں کہا، میں نے ان  کی حوصلہ افزائی کی اور ا نہیں حقیقت سے متعارف کرایا۔ میں انہیں 25 سال پہلے اس دنیا میں واپس لے گیا، اس لیےایسا ہے  میرا کام کرنے کا طریقہ… مجھے کبھی کسی کے خلاف بدزبانی نہیں کرنی پڑی۔ کسی کو ڈانٹنے کی ضرورت نہیں ہوئی۔ یہ سب  کام کرنے کے طریقے ہیں۔

نکھل کامتھ: اور اگر آپ تنظیموں کی بات کرتے ہیں، انٹرپرینیورشپ اسٹارٹ اپ کاروبار میں جب سائیکل ٹھیک چل رہا ہوتا ہے، لوگ بہت سارے لوگوں کو ملازمت دیتے ہیں۔ پھر مارکیٹ سست ہو جاتی ہے یا سائیکل بدل جاتی ہے اور انہیں بہت سے لوگوں کو برطرف کرنا پڑتا ہے۔ آپ نے ہمیشہ کہا ہے کہ کم از کم حکومت زیادہ سے زیادہ گورننس ہماری اس حکومت سے، کیا ہم اسے کسی خاص لہجے میں حاصل کر پائے ہیں؟ کیسا چل رہا ہے؟

 وزیر اعظم : آپ  یہی  اندازہ لگائیں گے! یہاں کچھ لوگوں نے نادانستہ طور پر کم از کم حکومت اور زیادہ سے زیادہ حکمرانی کے اپنے معنی نکال لیے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وزراء کی کم تعداد کا مطلب کم از کم حکومت ہو گی، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ملازمین کی کم تعداد کا مطلب کم از کم حکومت ہو گی، میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔ اس کے اوپر، یہاں آنے کے بعد، میں نے ایک الگ اسکل منسٹری، ایک الگ کوآپریٹو منسٹری، الگ فشریز منسٹری بنائی۔ لہذا ملک کے تمام فوکس ایریاز کے لیے… جب میں کہتا ہوں کہ کم از کم حکومت زیادہ سے زیادہ گورننس، ہمارے یہاں جو عمل ہے وہ طویل ہے، اگر ہمیں کلیئرنس حاصل کرنا ہے تو اس میں چھ ماہ لگتے ہیں۔ یہ عدالتی معاملہ ہے اور سینکڑوں سال پرانے مقدمات ابھی تک زیر التوا ہیں۔ تو ہم نے کیا کیا ہم نے 40,000 کے لگ بھگ کمپلائنس کو ہٹا دیا، ورنہ یہ محکمہ آپ سے یہ چیز مانگے گا، آپ کے ساتھ والا بھائی آپ سے وہی چیز مانگے گا، تیسرا بھی یہی مانگے گا۔ بھائی، کسی نے مانگا ہے، آپ اسے استعمال کر سکتے ہیں! 40000 تعمیل آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہندوستان میں ایک عام آدمی کو کتنے بوجھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے تقریباً 1500 قوانین کو ختم کیا۔ میں نے ان قوانین کو تبدیل کیا ہے جو مجرمانہ چیزوں سے متعلق ہیں۔ تو یہ کم از کم حکومت اور زیادہ سے زیادہ حکمرانی کا میرا ویژن ہے اور آج میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔

نکھل کامتھ:سر، انڈیا اسٹیک، جیسا کہ ہم اس کے براہ راست مستفید ہیں، یو پی آئی، ای کے وائی سی آدھار، کیا آپ نے محسوس کیا جب یہ تصور کیا گیا کہ یہ اس طرح سے چلے گا جس طرح اس نے کیا؟

وزیر اعظم: آج میں 10 کروڑ کسانوں کے کھاتوں میں 30 سیکنڈ میں، جی ہاں 30 سیکنڈ میں براہ راست رقم بھیج سکتا ہوں۔ آج میں صرف ایک کلک سے 30 سیکنڈ میں ملک کے 13 کروڑ گیس سلنڈر صارفین کو سبسڈی کی رقم بھیج سکتا ہوں کیوں؟ جن دھن اکاؤنٹ کے بارے میں تو کسی کو پتہ چل جائے گا، لیکن ملک کے کروڑوں روپے کا لیکیج، جو بدعنوانی ہو رہی تھی، وہ ختم ہو گئی ہے اور ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے۔ اب آپ یو پی آئی کو دیکھیں، یہ پوری دنیا کے لیے ایک عجوبہ ہے، جب دنیا بھر سے مہمان آتے ہیں تو پوچھتے ہیں، بھائی یو پی آئی کیسے کام کرتا ہے؟ میں اس سے کہتا ہوں کہ کسی دکاندار کے پاس جاؤ! ہندوستان نے دنیا کے سامنے ‘فن ٹیک’ کی دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کی ہے اور ٹیکنالوجی کو کس طرح جمہوری بنایا جاتا ہے۔ آج اگر ملک کے نوجوانوں کی جیب میں موبائل ہے تو انہیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے اور میرے ملک کے نوجوانوں کو کسی دن یاد ہوگا کہ ایسی حکومت آئی تھی، جب پوری دنیا میری جیب میں تھی، میری موبائل یہ ایک ٹیکنالوجی پر مبنی صدی ہے؛ ملک نے الگ اختراع کے لیے ایک کمیشن بنایا ہے۔ میں نے جدت طرازی کے لیے علیحدہ فنڈ مختص کیا ہے۔ ایک نوجوان کو خطرہ مول لینا چاہیے، اسے یہ محسوس ہونا چاہیے کہ اگر وہ ناکام ہو جائے تو بھی وہ بھوکا نہیں مرے گا؛ کوئی اس کا خیال رکھے گا۔

میں ایک بار تائیوان گیا تھا! تو میری فطرت طالب علم کی ہے، میرے اندر کوئی چیز ہے، ایک خوبی ہے، اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ طالب علم میرے اندر زندہ ہے۔ چنانچہ میں نے وہاں کے تمام لیڈروں سے ملاقات کی اور مجھے بہت خوشی ہوئی کہ ان کے تمام لیڈروں میں وزیر ٹرانسپورٹ بھی تھے۔ چنانچہ اس نے دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے ٹرانسپورٹ میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اعلیٰ ترین یونیورسٹی سے اس مضمون میں پی ایچ ڈی ہولڈر تھے جس کے لیے وہ وزیر تھے۔ اس بات نے میرے ذہن پر بڑا اثر کیا۔ مجھے اپنے ملک میں بھی ایسے نوجوان چاہیے جو ملک کو اس نہج پر لے جا سکیں۔ جب میں تائیوان گیا تو میرے پاس ایک مترجم تھا۔ وہ ایک قابل انجینئر اور پڑھے لکھے انسان تھے۔ چنانچہ وہاں کی حکومت نے میرے لئے  مترجم مقرر کیا اور میں نے تائیوان کا 10 روزہ دورہ کیا تھا، میں اس حکومت کا مہمان تھا۔ یہ میرے وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے بھی ہوا، تو آخری دنوں میں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ جناب، میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں، اگر آپ برا نہ مانیں؟ نہیں نہیں، میں نے کہا ،بھائی آپ اتنے دنوں سے اکٹھے رہ رہے ہیں، اس میں کیا برا لگے گا، آپ پوچھ لیں۔ نہیں نہیں، میں کہوں گا نہیں، آپ کو برا لگے گا، نہیں نہیں نہیں! وہ ٹال مٹول کرتا رہا، میں نے کہا ایسا نہ کرو بھائی، کیا آپ کے ذہن میں کوئی بات ہے، آپ پوچھیں؟ تو اس نے مجھ سے پوچھا، جناب، کیا ہندوستان میں کالا جادو اب بھی موجود ہے؟ کیا اب بھی ہندوستان میں سانپوں کے جادوگر ہیں؟ اس غریب کے ذہن میں ہندوستان کی یہ تصویر تھی۔ میں اتنے دن اس کے ساتھ رہا، ٹیکنالوجی پر بحث کرتا تھا، پھر بھی اس کے ذہن میں یہی بات تھی۔ میں نے اسے مذاق کے طور پر لیا، میں نے کہا بھائی دیکھو، ہمارے آباؤ اجداد سانپوں سے کھیلا کرتے تھے، لیکن ہم ان سے کھیلنے کے قابل نہیں، اب ہم ‘ ماؤس’ سے کھیلتے ہیں اور میں نے کہا کہ میرے ملک کا ہر بچہ ماؤس سے کھیلتا ہے۔ میں نے کہا میرے ملک کی طاقت اسی‘ماؤس ’ میں ہے۔ سانپوں کا وہ ہندوستان الگ تھا۔

نکھل کامتھ: ایک چیز جس پر ہر کوئی متفق ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں انٹرپرینیورشپ میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ مارکیٹنگ کمپنی بنانے کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ آپ نے ہندوستان سے باہر ہندوستان کا تصور بہت بدل دیا ہے۔ کیا آپ اس بارے میں کچھ ٹپس دے سکتے ہیں جس سے  ایک کاروباری شخص کچھ  سیکھ سکتا ہے؟

وزیراعظم: سب سے پہلے تو یہ دعویٰ درست نہیں کہ میں بدل گیا ہوں۔ میرا خیال یہ رہا ہے کہ جو بھی شخص دنیا میں جاتا ہے، جسے حکومت بھیجتی ہے، وہ سفیر ہے۔ وہ جاتا ہے، وہ ایک سفیر ہے۔ اگر ہم انہیں بورڈ پر لے جائیں تو ہماری طاقت کئی گنا بڑھ جائے گی۔ تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ نیتی آیوگ کے ابتدائی مقاصد میں سے ایک جو ہم نے بنایا ہے وہ ہے پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہندوستانی برادری کی صلاحیتوں کو مربوط کرنا۔ لہٰذا میری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ دنیا میں جو بھی صلاحیتیں موجود ہیں ان کو یکجا ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ میں وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے بھی بہت بیرون ملک سفر کر چکا تھا اور اس وقت میں تنظیم کے لوگوں کے درمیان رہتا تھا، میں ان کے درمیان ہی جاتا تھا، اس لیے مجھے ان کی طاقت کا اندازہ تھا اور میرے رابطے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک دفعہ میں اٹل جی کی ہدایت پر ایک کام کے لیے گیا تھا اور یہ طاقت پہلے استعمال نہیں ہوئی تھی، تو دنیا کے سیاستدانوں کو بھی اس کا احساس ہونے لگا بڑی طاقت، بہت بڑی طاقت۔ دوسری بات میں نے دیکھا کہ اگر کہیں بھی کم سے کم جرم ہے تو وہ ہندوستانیوں میں ہے۔ اگر آپ اچھی طرح سے تعلیم یافتہ ہیں تو آپ ہندوستانی ہیں۔ اگر قانون کو ماننے والے لوگ ہیں تو وہ ہندوستانی لوگ ہیں۔ چنانچہ ایک مالک کی قیمت بڑھنے لگی۔ ان سب کے مجموعی اثر کی وجہ سے آج ملک کا پروفائل بڑھ رہا ہے۔

نکھل کامتھ: اور میں ایسا نہیں کہہ رہا ہوں سر! جب میں بچپن میں تھا، جب میں بنگلور میں پڑھتا تھا 14، 15، 16، 20 سال پہلے، 25 سال پہلے، ایسا لگتا تھا کہ ایک لڑکا جو کالج گیا، امریکہ گیا، پی ایچ ڈی کیا اور وہاں کام کر رہا تھا۔ مائیکروسافٹ کیا ایسی کوئی کمپنی ہے، یہ خاص بات تھی، ہمارے لیے اس سے بہتر کوئی چیز نہیں تھی۔ لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج جب میں 18 سال کے لڑکوں سے ملتا ہوں، وہ ابھی تک وہاں نہیں ہیں۔ یہ لوگ اسے ہندوستان میں بنانے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ لوگ باہر جا کر کالج کے بارے میں بہت کم بات کرتے ہیں، اس وقت کے مقابلے میں، تو یہ بہت بڑی تبدیلی ہے اور میں نے یہ دیکھی ہے اور جناب اگر آپ پھر سے سیاست بمقابلہ انٹرپرینیورشپ کی مثال لیں تو میری دنیا میں مقابلہ ایک اچھی چیز ہے۔ کیا مقابلہ آپ کی دنیا میں بھی اچھی چیز ہے؟

وزیر اعظم: میں آپ کو اس بارے میں دو یا تین مختلف باتیں بتانا چاہتا ہوں۔ میں کھلے عام کہتا تھا کہ ہندوستان واپس نہ آئے تو پچھتاؤ گے، جلد سے جلد اس میں قدم رکھو، دور بدلنے والا ہے، میں یہ کہتا تھا اور مجھے یاد ہے جب آپ  نے درمیان میں مجھ سے پوچھا تھا۔ اس دھچکے کے بارے میں سوال،  سیٹ بیک،  منتخب حکومت کا وزیر اعلیٰ تھا اور امریکی حکومت نے مجھے ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ میری ذاتی زندگی میں امریکہ جانا یا نہ جانا کوئی بڑی بات نہیں تھی کہ میں پہلے بھی بہت کچھ کہہ چکا تھا لیکن ایک منتخب حکومت اور ریاست کی توہین ملک میں یہ محسوس کرتا تھا اور میں نے محسوس کیا کہ یہ ایک شرم کی بات ہے، میرے دل میں ایک درد تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ صرف اس لیے کہ کچھ لوگ جھوٹ پھیلاتے ہیں، یہ فیصلے دنیا میں ہوتے ہیں، دنیا اس طرح چلتی ہے، میرے ذہن میں ایک احساس تھا۔ لیکن اس دن میں نے پریس کانفرنس کی اور میں نے کہا کہ آج امریکی حکومت نے میرا ویزا منسوخ کر دیا ہے۔ میں نے جو کہنا تھا کہا لیکن میں نے ایک بات کہی، مجھ سے چند سوال پوچھے گئے، میں نے کہا کہ دیکھو، اب مجھے ایسا ہندوستان نظر آرہا ہے کہ پوری دنیا ویزا کے لیے لائن میں کھڑی ہوگی۔ یہ میرا 2005 کا  میں دیا گیا بیان ہے اور آج جب ہم سال 2025 تک پہنچ رہے ہیں تو میں اس کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ تو میں یہ بھی دیکھ سکتا ہوں کہ اب ہندوستان کا وقت ہے۔ میرا نوجوان میرے ملک کا عام آدمی ہے۔ میں حال ہی میں کویت گیا تو وہاں کی لیبر کالونی چلا گیا۔ لہذا میں مزدور خاندانوں سے سب سے مل رہا تھا۔ یہ مزدور وہ ہیں جو 10-10، 15-15 سال پہلے وہاں گئے تھے۔ لہٰذا اب وہ شادیوں پر گھر آئیں گے لیکن اس سے آگے اس کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ ایک مزدور نے مجھے بتایا کہ یہ ایک بہت ہی اندرونی علاقے میں ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ہمارا انٹرنیشنل ایئرپورٹ کب بنے گا؟ ایک شخص جو 15 سال پہلے کویت میں مزدوری کرنے کے لیے ہندوستان چھوڑ کر اپنے ضلع میں ایک بین الاقوامی ہوائی اڈے کا خواب دیکھتا ہے، یہ خواہش میرے ملک کی  2047 میں  پایہ تکمیل تک پہنچے  گی۔ آج ہندوستان کا ہر نوجوان یہ خواہش رکھتا ہے۔

نکھل کامتھ: جیسا کہ ہم دوسرے ممالک کی بات کر رہے ہیں۔ اگر میں تھوڑا ہٹ کر پوچھوں کہ میرا پسندیدہ کھانا کون سا ہے، اگر آپ پوچھیں تو وہ پیزا ہے اور پیزا اٹلی کا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ آپ انٹرنیٹ پر اٹلی کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ کیا آپ اس بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے؟ آپ کے یہ میمز نظر نہیں آرہے؟

وزیر اعظم: نہیں، ایسا ہوتا رہتا ہے، میں اس پر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔ ایسا لگتا ہے کہ میں وہ نہیں ہوں جسے لوگ کھانے کے شوقین کہتے ہیں۔

نکھل کامتھ: بالکل نہیں؟

وزیراعظم: بالکل نہیں! اس لیے جو کچھ بھی پیش کیا جاتا ہے، میں جس ملک بھی جاتا ہوں، میں اسے بڑے مزے سے کھاتا ہوں۔ لیکن میری بد قسمتی ایسی ہے کہ اگر آپ مجھے آج کسی بھی ریسٹورنٹ میں لے جائیں اور مینو دیں اور مجھے سلیکٹ کرنے کو کہیں تو میں ایسا نہیں کر پاؤں گا۔

نکھل کامتھ: سر، کیا آپ ریستوراں جا سکیں گے؟

وزیر اعظم: میں ابھی نہیں جا سکتا۔ میں ابھی تک نہیں گیا ہوں۔

نکھل کامتھ: کتنے سال ہو گئے؟

 وزیر اعظم : بہت سال ہو گئے!

نکھل کامتھ: جب آپ باہر ہوتے ہیں…

وزیر اعظم: پہلے، جب میں تنظیم میں کام کرتا تھا، ہمارے ارون جیٹلی جی کھانے کے بہت شوقین تھے۔ وہ ایک مکمل انسائیکلوپیڈیا تھے کہ ہندوستان کے کس شہر میں کون سا ریستوراں سب سے اچھا ہے۔ چنانچہ جب ہم باہر جاتے تو شام کو ان کے ساتھ کسی نہ کسی ریستوراں میں کھانا کھاتے۔ لیکن آج اگر کوئی مجھے مینو دے کر سلیکٹ کرنے کو کہے تو میں ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ بعض اوقات میں جو نام پڑھتا ہوں اور جو پکوان ہوتا ہے وہ ایک ہی ہوتا ہے، مجھے علم نہیں، میں جاہل ہوں۔ کیونکہ میں نے یہ رجحان پیدا نہیں کیا۔ تو، میں اسے زیادہ نہیں سمجھتا ہوں۔ اس لیے میں ہمیشہ ارون جی سے کہتا ہوں، ارون جی، آپ آرڈر دیں۔ میں صرف سبزی  کھانا چاہتا تھا۔

نکھل کامتھ: میں نے آپ کے چند دوستوں سے بات کی ہے… دوستوں یا ایسے لوگوں سے جو آپ کو 10-20 سالوں سے جانتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ مجھے ایسی چیزیں بتائیں جو پبلک ڈومین میں نہیں ہیں۔ میں ان کا نام نہیں لوں گا۔ انہوں نے مجھے ایک تصویر بھیجی جہاں وزیر اعلیٰ کی حلف برداری کی تقریب ہو رہی ہے۔ کرسی پر کچھ سینئر سیاستدان بیٹھے ہیں، آپ نیچے بیٹھے ہیں۔ جب میں نے وہ تصویر 38 سال کی عمر میں بھی دیکھی تو مجھے صرف وہ وقت یاد ہے جب آپ وزیر اعظم یا گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اس وقت سے پہلے کی کوئی تصویر میرے ذہن میں نہیں آتی، اس لیے جب میں نے تصویر کو دیکھا تو بار بار اسے دیکھ رہا تھا۔ اگر آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ تبدیلی وہاں سے یہاں تک  ہیں ، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو کوئی نہیں بتا سکتا، ہو سکتا ہے آپ کے استادوں میں سے کوئی جس کے بارے میں آپ نے بات کی ہو۔ یہ کیسے ہوتا ہے؟ جیسا کہ میں ہوں…

وزیراعظم: میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ دو باتیں نہیں کہہ سکتے۔

نکھل کامتھ: کوئی کچھ نہیں کہتا۔

وزیراعظم: یہ اندازہ لگانا درست نہیں کہ میں آپ کو سن نہیں سکتا یا وہ بول نہیں سکتا۔

نکھل کامتھ: درست! درست ہے!

 وزیر اعظم: لیکن مجھے یہ کبھی سننے کو نہیں ملا کیونکہ زندگی ایسی ہو گئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ پوزیشن بدلی ہوگی، حالات بدلے ہوں گے، نظام بدلا ہوگا، مودی وہی شخص ہے جو نیچے بیٹھا کرتا تھااور اس سے مجھے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ اور میں یہ بات لفظوں میں نہیں کہہ رہا ہوں۔ یہ حقیقت ہے، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

نکھل کامتھ: اور جناب، اگر آپ کو یاد ہے،  گزشتہ سال میں نے آپ کے سامنے وائبرنٹ گجرات میں ایک تقریر کی تھی جب آپ بھی وہاں تھے۔ میں نے اتنا برا کیا کہ اس کے بعد میں نے اسپیچ کوچ کی خدمات حاصل کیں اور ایک سال سے میں سیکھ رہا ہوں، کلاسوں میں جا رہا ہوں، میرے پاس ایک استاد ہے۔ آپ یہ اتنی اچھی طرح سے کیسے کرتے ہیں؟ کیا آپ کچھ ٹپس دے سکتے ہیں؟ جیسےیہ وہ چیز ہے جو ہر کوئی سیکھنا چاہتا ہے۔

وزیر اعظم: دو تین مختلف چیزیں ہیں۔ سب سے پہلے، مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ آپ گجراتی ہیں۔ آپ ہندی کیسے بولتے ہیں؟ پہلے جب میں سنگھ کے لیے کام کرتا تھا تو بہت سے لوگ مانتے تھے کہ میں شمالی ہندوستان سے ہوں لیکن میں گجرات میں آکر رہتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچا کرتے تھے۔ تو میرا گاؤں ہے مہسانہ مہ یعنی بھینس! مہسانہ کا مطلب ہے بھینس! چنانچہ جب میرے گاؤں کی بھینسیں دودھ دینے لگیں تو وہ اسے ممبئی لے جاتی تھیں اور ممبئی میں دودھ کا کاروبار کرتی تھیں۔ وہ دودھ دینا چھوڑ دیتی اور پھر گاؤں واپس آتی۔ تو یہ کاروبار کرنے والے لوگ اتر پردیش کے تھے۔ اس لیے وہ جب بھی آتا، مال  گاڑی  کا انتظار کرتا جب بھی اسے مل جاتا۔ پھر مال گاڑی ملنے کے بعد اسے گھاس سے بھر دیتے اور اس کے اندر چار بھینسوں کے کھڑے ہونے کا انتظام کیا جاتا۔ تو یہ 30-40 لوگ ہر وقت ریلوے پلیٹ فارم پر موجود رہتے تھے۔ چنانچہ میں چائے بیچتا تھا، اور میں انہیں چائے دینے جایا کرتا تھا، اس لیے مجھے بچپن میں ان سے باتیں کرنا پڑتی تھیں، اور ان سے بات کرتے ہوئے میں نے ہندی سیکھ لی تھی۔ جو لوگ بھینسوں کی تجارت کے لیے آتے تھے وہ بھی مزدور تھے لیکن شام کو بھجن اور کیرتن گاتے تھے۔ وہ چائے کا آرڈر دیتے تھے، ہم چائے  دیتے اورپیتے تھے،تو  بھائی میں نے بھی ہندی بولنا سیکھ لی ہے۔

نکھل کامتھ: کیا یہ بہت مختلف ہے جناب! جیسے  آپ گجرات میں پلے بڑھے ۔ آج آپ دہلی میں رہتے ہیں۔ کیا ان دونوں شہروں میں رہنا ذاتی طور پر آپ کے لیے بہت مختلف ہے؟

وزیراعظم: بھائی ہم کہاں شہر میں رہتے ہیں؟ میں اس گھر کے کونے میں پڑا رہتا ہوں۔ ہم گھر سے دفتر، دفتر سے گھر جاتے ہیں اور باہر کی دنیا سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ جب حکومت کا نظام ایسا ہو تو ایک چیز اور دوسری چیز میں فرق کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

نکھل کامتھ: اور یہ میرا آخری سوال ہے سر، میں نے آپ سے کچھ سوالات پوچھے ہیں…

وزیر اعظم:لیکن آپ کا دوسرا سوال تقریر کے بارے میں تھا…

نکھل کامتھ: درست ،میں جو سیکھنا چاہتا ہوں!

وزیر اعظم: میرا خیال ہے کہ آپ دیکھ رہے ہیں، فرض کریں کہ کہیں لڑائی ہوئی ہے یا کچھ ہوا ہے، کچھ ہوا ہے اور وہاں چار مکمل ناخواندہ ہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی عورت ہو، کوئی بزرگ ہو اور آپ مائیک لے کر کھڑے ہوں، وہ جلدی جلدی بتانے لگیں، یہ ہوا، وہ ہوا، آگ ایسی لگی،یوں ہوا… آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ اتنے اچھے الفاظ ہیں، اچھے تاثرات، اچھا بیان ہے، کیوں؟ خود تجربہ کیا ہے۔ جب چیزیں آپ کے اندر سے نکلتی ہیں۔ ڈلیوری کا انداز کیا ہے، آپ ڈائیلاگ کیسے ڈیلیور کرتے ہیں، یہ اہم نہیں ہے۔ کیا آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس میں تجربے کی کوئی طاقت ہے یا نہیں؟ جب آپ خود بتائیں تو کیا سہولت ہے یا نہیں؟

نکھل کامتھ: کیا آپ کے اندر یہ احساس ہوتا ہے جب آپ کسی دکھ کی بات کرتے ہیں، کیا آپ کو اس بات پر دکھ ہوتا ہے؟

وزیراعظم: جی ہاں! آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ مجھ سے ناراض ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر جب میں غریبوں کی بات کرتا ہوں تو مجھے خود کو روکنا پڑتا ہے، میں جذباتی ہو جاتا ہوں۔ اخبارات میں مجھ پر بہت تنقید ہوتی ہے لیکن میں خود کو روک نہیں سکتا۔ جب میں معاشرتی زندگی میں ایسے حالات دیکھتا ہوں اور انہیں یاد کرتا ہوں تو قدرتی طور پر میرے ذہن میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے۔

نکھل کامتھ: اور سر، اگر آپ نے اپنی زندگی میں جو کچھ بھی سیکھا ہے، آپ کے پاس اتنا تجربہ ہے، اگر اس علم سے آپ اپنے 20 سال پرانے ورژن سے ایک بات کہہ سکتے ہیں، تو آپ کیا کہیں گے؟

وزیر اعظم: میں اپنے آپ کو نوجوانوں کو تبلیغ کرنے کا اہل نہیں سمجھتا اور نہ ہی مجھے حکم دینے کا کوئی حق ہے، لیکن میں یہ کہوں گا کہ مجھے اپنے ملک کے نوجوانوں پر بڑا اعتماد ہے۔ گاؤں کا بچہ، میں نوکری نہیں کروں گا، اسٹارٹ اپ کروں گا! تین سٹارٹ اپ ناکام ہوں گے، مجھے یاد ہے پہلی اسٹارٹ اپ کانفرنس میں شرکت کی، اس وقت بھی ہمارے ملک میں اسٹارٹ اپ کا لفظ نیا تھا۔ لیکن میں اس کی طاقت کو جانتا تھا، اس لیے میں نے کچھ بیٹیوں سے پوچھا ، اپنے تجربات بتانے کے لیے ایک بیٹی کھڑی ہوئی اور کہا‘‘میں اپنا تجربہ بتاؤں گی۔’’ اس نے کہا، وہ بنگالی تھی، کلکتہ سے، اس نے کہا کہ میں نے ایک اسٹارٹ اپ شروع کیا، پھر میں اپنی ماں سے ملنے گئی اور میں نے انہیں بتایا کہ میں نے نوکری چھوڑ دی ہے۔ تو اس نے کہا تم کیا کرو گی؟ تو اس نے کہا، میں نے ایک اسٹارٹ اپ شروع کیا ہے، اسٹارٹ اپ؟  برباد! انہوں نے اسے بہت ڈرامائی انداز میں پیش کیا۔ ایک وقت تھا جب ہر اسٹارٹ اپ کا مطلب  بربادی ہوتی تھی! آج، اسٹارٹ اپس نے ایک شہرت، ایک ساکھ حاصل کر لی ہے اور اس لیے مجھے یقین ہے کہ اگر ایک چھوٹے سے گاؤں میں بھی کوئی ناکامی ہو تو لوگ اسے ایک آئیڈیل مانیں گے، وہ ایک باصلاحیت بچہ ہے اور کچھ کر رہا ہے۔

نکھل کامتھ: اور سر، اگر میں آپ سے ایک سوال پوچھوں کہ بطور وزیر اعظم، آپ کی دوسری میعاد پہلی میعاد سے کیسے مختلف تھی اور آپ کی تیسری میعاد دوسری میعاد سے کیسے مختلف ہے؟

وزیر اعظم: پہلی مدت میں لوگوں نے مجھے سمجھنے کی کوشش کی اور میں بھی دہلی کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پہلی اور دوسری اصطلاح میں، میں ماضی کے لحاظ سے سوچتا تھا کہ پہلے ہم یہاں تھے، اب یہاں جائیں گے۔ پہلے اتنا ہوا کرتا تھا، اب اتنا کریں گے۔ تیسری مدت میں میری سوچ کا دائرہ بدل گیا ہے۔ میرا حوصلہ بلند ہو گیا ہے۔ میرے خواب پھیل گئے ہیں۔ میری خواہشیں بڑھتی رہتی ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں 2047 تک ایک ترقی یافتہ ہندوستان چاہتا ہوں، اس کا مطلب تقریر نہیں ہے، اس کا مطلب ہر چیز کے لیے مسائل سے آزادی ہے۔ بیت الخلا 100 فیصد، بجلی 100 فیصد، نل کا پانی 100 فیصد ہونا چاہیے۔ کیا عام آدمی کو چیزیں حاصل کرنے کے لیے حکومت سے بھیک مانگنی پڑے گی؟ کیا یہ برطانوی بادشاہت ہے؟ یہ اس کا حق ہے! 100 فیصد ڈیلیوری ہونی چاہیے، یہ 100 فیصد مستحقین تک پہنچنی چاہیے، 100 فیصد فائدے ان تک پہنچنے چاہئیں۔ کوئی تفریق نہیں ہوگی اور یہی سچا سماجی انصاف ہے، یہی حقیقی تحفظ پسندی ہے۔ اس لیے میں ان چیزوں پر زور دیتا رہتا ہوں اور اس کی محرک قوت خواہشمند ہندوستان ہے، میرے لیے اے آئی کا مطلب ہے خواہش مند ہندوستان اور اس لیے اب میں سوچتا ہوں کہ میں یہاں2047 میں ہوں، اگر میں یہاں 2025 میں آتا ہوں، تو اب کتنا بچا ہے؟ پہلے میں سوچتا تھا کہ ہم پہلے سے کتنی ترقی کر چکے ہیں! اب میں سوچ رہا ہوں، میں یہاں ہوں، کل تک کہاں پہنچ جاؤں گا؟ تو اب میرے ذہن میں صرف 2047 کے تناظر میں خیالات چل رہے ہیں۔ میری تیسری مدت پہلی دو شرائط سے کئی گنا مختلف ہے، یہ ایک مکمل تبدیلی ہے اور بڑے خوابوں سے بھری ہوئی ہے۔

نکھل کامتھ: اور جناب کیا آپ کا کوئی اور منصوبہ ہے؟ کیا ایسا نوجوان ہے جس پر آپ کو یقین ہو  جس کی  آپ تربیت کر رہے ہیں، آج کے لیے نہیں بلکہ 20 سال کے بعد، 30 سال کے بعد…

وزیر اعظم: میں دیکھ سکتا ہوں کہ یہ بہت زیادہ صلاحیت کے حامل لوگ ہیں۔ جب میں گجرات میں تھا تو میں کہتا تھا کہ حکومت چلانے کے باوجود میں اگلے 20 سالوں کے لیے لوگوں کو تیار کرنا چاہتا ہوں اور میں ایسا کر رہا ہوں اور میری کامیابی اس میں ہے کہ میں اپنی ٹیم کو کس طرح تیار کرتا ہوں جو چیزوں کا خیال رکھتی ہے۔ یہ  میرے لیے میرا معیار ہے۔

نکھل کامتھ: اور سر، میرا آخری سوال، سیاست دان بننے کے لیے کم از کم تقاضے اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ ان کی عمر 25 سال سے زیادہ ہونی چاہیے، دو سال سے زیادہ کی سزا نہیں، ووٹر آئی ڈی، یہ بہت چھوٹی ضروریات ہیں۔ تو جناب میری خواہش یہ ہے کہ اس طویل گفتگو کے بعد ہمارے پاس یہ تھا کہ 10 ہزار ایسے نوجوان کہیں سے آئیں، جو سیاست میں شامل ہوں، میں جانتا ہوں کہ آپ کس کی مدد کریں گے، آپ اس بارے میں ہمیں بتا سکتے ہیں…

وزیراعظم: دیکھیں، آپ جو کہہ رہے ہیں وہ امیدوار بننے کی اہلیت کے بارے میں ہے۔

نکھل کامتھ: ہاں، درست!

وزیراعظم: آپ مجھے سیاست دان بننے کے لیے نہیں کہہ رہے ہیں۔

نکھل کامتھ: ٹھیک ہے جناب!

وزیراعظم: سیاست دان بننے کے لیے بہت سی قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر لمحہ ہزاروں آنکھیں آپ کو دیکھتی ہیں۔ اگر آپ کا ایک لفظ غلط ہو جائے تو آپ کی 10 سال کی تپسیا (ریاضت )رائیگاں جاتی ہے۔ آپ کو ساتوں دن چوبیس گھنٹےہوش میں رہنا ہوگا۔ آپ کو اس کے ساتھ رہنا ہے، غیر متوقع خوبیاں درکار ہیں اور یہی قابلیت ہے اور یہ کسی یونیورسٹی کے سرٹیفکیٹ سے نہیں آتی۔

نکھل کامتھ: آپ اس شو کو دیکھنے والے تمام نوجوانوں کے لیے پارٹی پیغام کے طور پر کیا کہنا چاہیں گے، اگر آپ کے پاس ان کے لیے کوئی پیغام ہے…

وزیر اعظم: سب سے پہلے، میں ماؤں، بہنوں اور جوان بیٹیوں کو بتانا چاہوں گا کہ آج ہمارے ملک کی تقریباً ہر ریاست میں یہ کم و بیش ہو سکتی ہے، لیکن وہاں تقریباً 50 فیصد خواتین کو ریزرویشن ہے۔ پنچایت، گرام پردھان، نگر پالیکا، مہانگر پالیکا میں، انہیں سچی قیادت کے لیے کوشش کرنی چاہیے، انہیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ٹھیک ہے بھائی خواتین کی ضرورت ہے، اس لیے مجھے لیڈر بنایا گیا ہے اور مجھے بھی… نہیں، میں قیادت نہیں دے رہا ہوں۔ معاشرے کو کرنا ہے۔ مردوں کو بھی قیادت کرنے کی ضرورت ہے، لہذا آپ کو کرنا پڑے گا۔ میری یہ مائیں، ان جوان بیٹیوں کو قائدانہ خوبیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مستقبل قریب میں ایم ایل اے اور ایم پی کے لیے بھی 30 فیصد ریزرویشن ہونے والا ہے۔ اس وقت ہمیں ایسے گروپس کی بہت ضرورت ہوگی، اس لیے ابھی دو چار سال کا وقت ہے۔ میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ میدان میں اتریں اور اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ قابل بنانے کے لیے کام شروع کریں۔ یہ وقت ہے، یہ وقت  آپ کاہے، یہ سمجھ لو۔

دوسری بات میں ملک کے نوجوانوں سے کہنا چاہوں گا کہ آپ سیاست کو برا نہ سمجھیں اور الیکشن ہی سیاست ہے، اس لیے حد میں رہ کر ووٹ دینا حق ہے۔ سیاسی میدان میں آئیں، عوامی زندگی میں ایک بار آئیں، کسی بھی شکل میں، آج ملک کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو تخلیقی صلاحیتوں کے بطن سے جنم لیتی ہے۔ ایک تحریک کے بطن سے پیدا ہونے والا سیاست دان ایک مختلف قسم کا ماڈل بن جاتا ہے۔ تحریک آزادی میں بھی تخلیقی صلاحیتیں تھیں، اس لیے ایک الگ قسم کا لاٹ ملا ہے۔ اب ملک کو ایک ایسے بڑے طبقے کی ضرورت ہے جو تخلیقی انداز میں سوچیں، جو کچھ نیا کریں، جو خود کو تیار کریں، جو خوشی اور غم کو سمجھیں، جو حل تلاش کریں، جو دوسروں کو کم نہ کریں بلکہ ملک کے لیے حل تلاش کریں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ یہ آج نہیں ہے۔ نئے لوگوں کی ضرورت ہے اور جو شخص آج 20-25 سال کا ہے اگر وہ آگے آئے تو 2047 تک ان  کی عمر 40-50 سال ہو جائے گی، یعنی وہ ایک مناسب جگہ پر ہو گا جہاں وہ بھاگنے کے قابل ہو جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ جب میں ملک کے نوجوانوں سے کہوں گا کہ آگے آئیں تو کچھ لوگ یہ سوچیں گے کہ میں بی جے پی کا جھنڈا لہرانا چاہتا ہوں۔ میں ملک کی سیاست کی بات کر رہا ہوں، میں کسی کو یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہو جائیں یا کسی خاص پارٹی میں نہ جائیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تمام پارٹیوں میں ایک نیا بہاؤ ہو۔ بی جے پی میں ضرور آنا چاہیے لیکن تمام پارٹیوں میں آنا چاہیے، ملک کے نوجوان آگے آئیں تاکہ کچھ نیا شروع ہو سکے۔

نکھل کامتھ: مودی جی یہاں آنے کے لیے آپ کا شکریہ…

وزیر اعظم : ٹھیک ہے، یہ بہت اچھا تھا کہ یہ میرا پہلا پوڈ کاسٹ تھا۔

نکھل کامتھ: آپ نے ہمیں اتنا وقت دیا، بہت شکریہ!

وزیر اعظم: مجھے نہیں معلوم کہ یہ آپ لوگوں کے لیے کیسے جائے گا، آپ کے سامعین کو!

نکھل کامتھ: آپ نے ہمیشہ کی طرح بہت اچھی بات کی اور بہت مہربان ہیں کہ آپ نے ہمارے لئے اتنا وقت نکالا۔

وزیراعظم: چلیں! آپ کی ٹیم بھی تھک چکی ہوگی! یہ موسم، یہاں کا دھیان رکھئے گا،یہاں سردی ہے۔

نکھل کامتھ: ہاں!